الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز12اپریل 2019

 

۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں عدل کے اسلامی تصورات  کفریہ  قوانین کو بھر پور انداز میں نافذ کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں

۔ پاکستان کی بیمار معیشت کا علاج  صرف  جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کے انکار اور اسلامی خلافت کے دوبارہ قیام میں ہے

۔ مقبوضہ کشمیر عالمی طاقتوں کی دلچسپی سے نہیں بلکہ افواج پاکستان کے جہاد سے آزاد ہوگا

 

تفصیلات:

 

پاکستان کے عدالتی نظام میں عدل کے اسلامی تصورات  کفریہ  قوانین کو

بھر پور انداز میں نافذ کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں

7 اپریل کے اخبارات نے رپورٹ کیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم خان نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں تربیتی کورس مکمل کرنے والے جوڈیشل افسران (یعنی ججوں)سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "عدل کرنا اللہ کی صفت ہے اور اللہ پاک نے یہ صفت ہمیں عنایت فرمائی ہے۔۔۔انصاف پر مبنی ایک فیصلہ سالوں کی عبادت سے بڑھ کر ہوتا ہے اور اگر کوئی جج کسی مقدمہ میں انصاف نہیں کرتا تو دنیا و آخرت میں اس کا جوابدہ ہوگا"۔

بے شک عدل و انصاف اسلام کا نہایت نمایاں تصور ہے ۔ ایک بڑے خاندان کی عورت کی چوری کے مقدمہ میں فیصلہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ  کہ

 

وَاللَّهِ لَوْ كَانَتْ فَاطِمَةُ لَقَطَعْتُ يَدَهَا

"اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا"،

 

ہر خاص و عام کو معلوم ہیں۔  چیف جسٹس ہائیکورٹ نے عدل کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اسلام کے تصورات ہی کا سہارا لیا، مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر گئے کہ جس طرح اسلام  کسی لالچ اور دباؤ ، امیر و غریب ، کمزور و طاقتور کا فرق کیے بغیر فیصلہ کرنے کا حکم دیتا ہے اس سے قبل اس بات کا حکم دیتا ہے کہ وہ قوانین کے جن کی بنا پر فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ اسلام پر مبنی ہوں، تبھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:

 

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ

"اور جو اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں"۔

 

   قرآن کی اس آیت واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر  جج فیصلہ دیانت داری سے اور اپنے منصب کو ایک امانت سمجھتے ہوئے کرے مگر یہ فیصلہ قرآن و سنت سے اخذ کردہ قوانین کی بجائے انگریزوں  کے نافذ کردہ 1935 کے ایکٹ اور پارلیمنٹ میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے بنیاد پر ہوں تو تب بھی یہ  عدل نہیں  بلکہ  اسلام کی رُو سے ظلم ہی کہلائے گا۔

پاکستان کے آئین و قوانین کا قرآن و سنت پر مبنی نہ ہونا اور عداتوں کا اس قانون کو مسترد کرنے کی بجائے اسے نافذ کرنا ہی معاشرے میں پھیلے ہوئے ظلم کی بنیادی وجہ ہے ۔ یہ پاکستان کے آئین و قوانین کا سیکولر بنیادوں پر استوارہونا ہی ہے کہ آج وہ مخلص شخص جو افغانستان پر قابض امریکی افواج یا کشمیر میں ننگی جارحیت  رنے والی بھارتی افواج کے خلاف جہاد کرتا ہے یا اس میں مالی مدد فراہم کرتا ہے تو اسے دہشت گرد قرار دے کرجیل میں ڈال دیا جاتا ہے مگر پاکستان کے حکمران سودی سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرنےاور امت کو معیشت کے متعلق جھوٹی تسلیاں دینے کے باوجود"صادق "اور "امین" ہی رہتے ہیں؛ وہ لوگ جو پاکستان کے حکمرانوں کی غداریوں اور استعماری کفار کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتے ہیں اور اللہ کے نازل کردہ نظامِ خلافت کے قیام کی آواز بلند کرتے ہیں انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے  جبکہ پاکستانی عدالتیں ان حکمرانوں کے اقتدار کو قانونی جواز مہیا کیے ہوئے ہیں جو طاقتور پاکستان کو اس کے دشمنوں کے سامنے سرنگوں کرنے اور ان کے خطرناک مطالبات پورا کرنے والے کے سنگین جرم سرانجام دے رہے ہیں ۔  پاکستان کی عدالتیں  سابقہ حکمرانوں سے ان کی مالی کرپشن کے متعلق پوچھ گچھ کرتی ہیں اور سخت سزا کی دھمکیاں دیتی ہیں مگر اسلامی سرزمین پر قبضے کو برقرار رکھنے میں دشمن امریکہ کے ساتھ فوجی و انٹیلی جنس تعاون  پر کوئی کاروائی نہیں کرتیں ، ملک کا آئین توڑنے کو جرم گردانتی ہیں جبکہ اسلام کے قطعی احکامات سے روگردانی کرنے  اور انہیں نافذ کرنے سے انکار کرنے پر کوئی باز پرس نہیں  کرتیں۔   یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام میں جرم اسے گردانتا ہے جو سرمایہ دارانہ سیکولر تصورات کی رُو سے جرم ہے نہ کہ وہ جسے اسلام جرم قرار دیتا ہے ۔ ؟

پاکستان میں عدل و انصاف کا بول بالا اسی وقت ہو  گا جب پاکستان کے آئین کو جمہوریت،  آزادی، انسانی حقوق اور بین الاقوامی تعلقات کے مغربی تصورات کی بجائے اسلام کے مہیا کردہ افکار و تصورات کی بنیاد پر ، قوانین کو درست طریقہ اجتہاد کے ذریعے قران و سنت سے اخذ کر کے نافذ کیا جائے گا۔

 

پاکستان کی بیمار معیشت کا علاج  صرف جمہوری سرمایہ دارانہ نظام

کے انکار اور اسلامی خلافت کے دوبارہ قیام میں ہے

ورلڈ بینک کی جانب سے شائع کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019 میں  پاکستان کی مجموعی پیداوار میں اضافہ 4 ۔3 فیصد متوقع ہے۔ جبکہ اسی رپورٹ میں یہ بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ  مالی سال 2020 میں مجموعی پیداوار میں اضافہ محض 7۔2 فیصد رہ جائیگا جو پچھلے آٹھ سالوں میں  کم ترین سطح ہوگی۔    یہ پورٹ اسی ہفتے میں  شائع ہوئی جب  اقوامِ متحدہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک پہلے ہی  اپنی رپورٹوں  میں پاکستان کی افسوسنا ک  اقتصادی صورتحال کا تذکرہ کر چکے ہیں ۔تمام تر قابلیت اور  مواقعوں کے باوجود پاکستان کی تشویشناک اقتصادی صورتحال  کی وجہ پاکستان میں نافذ سرمایہ دارانہ نظام اور  ستر سالوں سے اقتدار پر قابض  حکومتی اشرافیہ ہیں ۔

تبدیلی کے نعرے پر اقتدار میں آنے والی  عمران خان حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پچھلی حکومتوں کے طرز پر    IMF  کے اشاروں  پر ایسے اقدامات کئے جس نے معیشت  کا پہیہ بٹھا دیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں  روپے کی قدر میں پندرہ فیصد تک کمی اور بجلی اور گیس  کے نرخوں میں ہوشربا  اضافے نے  افراطِزر میں اضافہ  اور مہنگائی سے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ جس سے عوام الناس کی قوتِ خرید میں کمی واقع  ہوئی ہے اور نتیجتاً  اشیاء صرف کی طلب  گر جانے سے اندرونی معیشت کا پٹھا بیٹھ گیا ہے۔ جہاں تک کاروباری  طبقہ کا تعلق ہے   تو روپے  کی قدر میں عدم استحکام ،  پیداواری لاگت میں اضافے اور بیرونی  کمپنیوں کو ترجیحی مراعات دینے  نے   پاکستان کے اندرونی کاروباری طبقے کا   اعتماد کھو دیا ہے  جس سے    سروس انڈسٹری سے لے کر چھوٹی بڑی تمام صنعتوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام   رپورٹیں اور ماہرین پاکستان کی معیشت کی مزید تباہی کا عندیہ دے رہے ہیں ۔  معیشت کی یہ بدحالی صرف  پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پچھلے ستر سالوں میں آنے والی تمام حکومتوں نے پاکستانی معیشت کو   ایک پستی سے دوسری پستی تک پہنچایا ہے کیونکہ ان سب نے اسی سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو اپنایا  جو عوام  کا خون چوس کر دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرتا ہے  اور عالمی مالیاتی اداروں  جیسے   IMF, World Bank etc  کے ذریعےملکی معیشت کو استعماری شکنجوں میں دھکیل دیتا ہے۔

پاکستان کی بیمار معیشت کا علاج  صرف  جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کے  انکار اور اسلامی خلافت کے دوبارہ قیام میں ہے۔   اسلام نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ریاست کی کرنسی کی بنیاد قیمتی دھات کی دولت کو ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں افراط زر کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سونے کے دینار ،جن کا وزن 4.25گرام اور چاندی کے درہم ،جن کا وزن 2.975گرام ہو، ریاست کی کرنسی کے طور پر استعمال کریں۔  اس وجہ سے ہزار سال تک ریاستِ خلافت میں قیمتوں کو استحکام حاصل رہا۔    لہٰذا سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی  عوام کو  کمر توڑ افراطِ زر سے محفوظ کریگی اور کاروباری طبقے کے اعتماد کو بحال کریگی۔ اسلام نے عوامی اثاثوں کی نجکاری کو حرام قرار دیا ہے  اسلئے وسیع قدرتی وسائل ،تیل و گیس،اوربجلی کے کارخانے عوامی ملکیت ہوتے ہیں۔ اس کے محاصل اوران کا ستعمال تمام عوام کے لیے ہوتا ہے اور ریاست اس بات کو یقینی بناتی ہے جس سے عوام کے لئے  مہنگائی میں مزید کمی واقع ہوگی ہے   اور نجی شعبے میں قائم کارخانوں کودرکار پیداواری مال ،بجلی ،تیل اور گیس سستے داموں میسر ہوں گے جو مجموعی پیداوار میں مزید اضافے کا بائث بنے گا۔ مزید براں، خلافت معیشت کو تباہ کرنے  والے قرضوں کے لیے بھیک مانگنے کے بجائے دنیا بھر میں مغربی استعماری سود پر مبنی قرضوں کے نتیجے میں ہونے والے ظلم کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحرک کرے گی۔  یہی وہ ظلم پر مبنی نظام ہے جو کئی ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے روکتا ہے۔  یہ نظام قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط عائد کردیتا ہے جس کے نتیجے میں معیشت کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ معیشت کی اصل قرض کی رقم سے بھی کئی گنا زائد سود دینے کے باوجود قرضے سے جان نہیں چھوٹتی۔  لہذا خلافت کے سائے تلے پاکستان اور پوری دنیا کے مسلمان پھر وہ  خوشحالی دیکھیں گے جو کبھی اس خطے کا مقدر تھی ، جیسے کہ انگریز سے پہلے یہی برِ صغیر پاک و ہند جس مین آج دنیا کی سب سے زیادہ غربت ہے اسلامی دورِ حکومت میں دنیا کی مجموئی پیداوار کا 24 فیصد پیدا کرتی تھی اور غریب ڈھونڈے نہیں ملتا تھا۔ اللہ سبحان و تعالٰی نے فرمایہ:

 

وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَ تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

((اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔ اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا))

 

مقبوضہ کشمیر عالمی طاقتوں کی دلچسپی سے نہیں

بلکہ افواج پاکستان کے جہاد سے آزاد ہوگا

آزاد جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم  اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما بیرسٹر سلطان محمود نے 6 اپریل 2019 کو فرمایا کہ دنیا کی اہم طاقتیں،جن میں امریکا اور یورپی یونین شامل ہیں، پہلے سے کہیں زیادہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دلچسپی رکھتی ہیں۔

                عالمی طا قتوں کا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دلچسپی لینا کسی صورت بھی پاکستان اور کشمیرکے مسلمانوں کے لیے باعث مسرت نہیں ہوسکتا بلکہ یہ تو باعث تشویش ہے۔ موجودہ عالمی طا قتوں کی تاریخ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جب وہ کسی مسئلے میں دلچسپی لیتے ہیں، خصوصاً اگر وہ معاملہ مسلمانوں سے متعلق  ہو، تو اس کو حل کرتے ہوئے انصاف کے اصولوں کو نہیں بلکہ اپنے مفاد اور مسلمانوں کے نقصان کو سامنے رکھتے ہیں۔ پاکستان اور کشمیر  کے مسلمان ایسٹ تیمور کے مسئلے کو بھولے نہیں جہاں عالمی طا قتوں نے انڈونیشیا کے ایک علا قے کو کاٹ کر اس سے جدا کردیا تھاکیونکہ وہاں رہنے والے غیر مسلم  تھے اور اس طرح ایک مسلم ملک کوکمزور کیا گیا۔ پاکستان اور کشمیر  کے مسلمان جنوبی سوڈان کے مسئلے کو بھولے نہیں جہاں  عالمی طا قتوں نے سوڈان کے ایک بہت بڑے حصے کو کاٹ کر اس سے جدا کردیا تھا  کیونکہ وہاں پر رہنے والے غیر مسلم تھے اور اس طرح ر قبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کو کمزور کردیا گیا۔  پاکستان اور کشمیر کے مسلمان مسئلہ فلسطین پر عالمی طا قتوں  کے کردار کو نہیں بھولے جو ظالم یہودی وجود کے مظالم پرخاموشی اختیار کرتے ہیں بلکہ اس کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ اور پاکستان وکشمیر کے مسلمان عالمی طا قتوں کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کردار کو تو بھول ہی نہیں سکتے   کہ جہاں انہوں نے تقریباً 70 سال قبل کشمیر کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں اپنے متعلق فیصلہ کرنے کا مو قع دیا جائے گا کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن آج کے دن سے یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا بلکہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں ۔ لہٰذا عالمی طا قتوں کا کردار سازشی اور دھوکے بازی پرمبنی ہے اور ان سے انصاف کی تو قع لگانا بے و قوفی ہے اور جو جانتے بوجھتے یہ عمل کرے تو وہ غدار ہے۔

                پاکستان و کشمیر کے مسلمانوں کے لیے خوشی اور مسرت کا مو قع وہ ہوگا جب پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت مقبوضہ کشمیر  کی آزادی کے لیے "تحمل" اور "نارملائزیشن" کی پالیسی کو  نیلم و جہلم میں  دریا بُرد کر دے گی اور افواج پاکستان کو جہاد کو حکم دے گی۔ لیکن ایسا دانشمندانہ اور بہادرانہ فیصلہ موجودہ سیاسی و فوجی قیادت نہیں لے سکتی کیونکہ ان کا قبلہ وکعبہ   ٹرمپ ہے جو کسی صورت کشمیر کے آزادی کے لیے افواج پاکستان کو حرکت میں آنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور ایسا عمل صرف خلیفہ راشد ہی اختیار کرے گا کیونکہ اس کا رب اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہوتا ہے اور وہ اسی کے حکم کی  پابندی کرتا ہے۔ اور پھر خلیفہ راشد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کےبجاآوری کرتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج کو جہاد کشمیر کا حکم دے گا اور وہ دن پاکستان و کشمیر کے مسلمانوں کے لیے حقیقی  خوشی کا باعث ہوگا۔   

وَيَوۡمَٮِٕذٍ يَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَۙ ط بِنَصۡرِ اللّٰهِ‌ؕ يَنۡصُرُ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُۙ

"اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے (یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے "(الروم، 5-4)۔

 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک