الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز29مارچ 2019

 

۔ پاکستان کے معاشی مسائل اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کے بغیر کسی صورت ختم نہیں ہوسکتے

۔ زرمبادلہ کے بڑھتے ذخائر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سودی قرضوں اور مزید معاشی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے

۔ خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پاکستان نئی سے نئی ٹیکنا لوجی تخلیق کرنے کی اپنی  صلاحیت کو مکمل طور پر استعمال کرے

 

تفصیلات:

 

پاکستان کے معاشی مسائل اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کے بغیر کسی صورت ختم نہیں ہوسکتے

   21مارچ 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان بحیرہ عرب میں تیل اور گیس کے بہت بڑے ذخیرے کی تسخیر کرنے والا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس ذخیرے کے ملنے سے پیسے کی کمی کے شکار ملک کے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ اٹلی کی ای این آئی اور امریکا کی ایگزون موبل آئل کمپنیاں پاکستان کے بحیرہ عرب میں مشترکہ طور پر تیل و گیس کی تلاش کا کام کررہی ہیں۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پاکستان کو پیش قیمت قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔   بد قسمتی سے ملک میں اسلامی معاشی کی عدم موجودگی اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ان وسائل کا حقیقی فائدہ   ملک و قوم کونہیں بلکہ ملٹی نیشلز اور حکمرانوں  کو پہنچ رہا ہے۔ بلوچستان میں سیندک  کے منصوبے کی مثال  ہمارے سامنے ہے۔ جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے 1961 میں یہ ذخیرہ   دریافت کیاتھا۔ چائنا میٹلرجیکل گروپ کارپوریشن (ایم سی سی) کو پاکستان نے 2002 میں دس سال کی لیز پر اس علا قے میں سونے اور تانبے کی کانکنی کی اجازت دی ۔2012میں اس معاہدے کی میعاد کے خاتمے بعد سے دو مرتبہ پانچ سال کے لیے بڑھایا جاچکا ہے۔ لیکن اس منصوبے سے حاصل ہونے والی دولت سے پورے ملک کی کیا اس علا قے کی قسمت نہیں بدلی بلکہ آج بھی وہ علا قہ پاکستان کا غریب ترین علا قہ ہے کیونکہ اس منصونے سے حاصل ہونے والی دولت کا عظیم حصہ تو ملک سے باہر چلاجاتا ہے۔   یہ حال بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ایک اور عظیم ذخیرے ، ریکوڈک کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔  وہاں بھی اس منصوبے پر کام کرنی والی ملٹی نیشلز اس عظیم دولت کا بڑا حصہ ملک سے باہرلے جارہی ہیں۔

 

درحقیقت ملک میں عظیم ذخائر کی کوئی کمی نہیں ہے ، اگر کمی ہے تو اسلامی معاشی نظام کی جو اس دولت کو ملک و قوم کےمفاد میں استعمال کرواسکے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ ان عظیم ذخائر کا مالک بن سکتا ہے جبکہ اسلامی معاشی نظام میں  تیل، گیس، اور معدنیات کے ذخائر عوامی ملکیت ہوتے ہیں  اور ریاست عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان کا انتظام چلاتی ہے اور ان سے حاصل ہونے والی عظیم دولت کو بیت المال میں رکھتی ہے اور عوام کی ضروریات  اور کو سہولیات کی فراہمی کے لیے استعمال کرتی ہے۔ سرمایہ د ارانہ نظام کی موجودگی میں کسی ملک کی عوام کسی صورت ان ذخائر سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھا سکتیں کیونکہ یہ ذخائر نجی کمپنیوں  کے پاس چلے جاتے ہیں۔ نجی کمپنیاں  ان ذخائر سے حاصل ہونے والی دولت کی مالک بن جاتی ہیں اور عوام اور ملک غریب ہوجاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال امریکا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہےاور دنیا میں تیل کی سب سے زیادہ پیداوار دینے والے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے لیکن اس کے  باوجود امریکا ہر سال خسارے کا بجٹ دیتاہے لیکن اس کی تیل و گیس کی کمپنیاں اربوں ڈالر کا سالانہ منافع کماتی ہیں۔  لہٰذا پاکستان میں چاہے کتنے ہی نئے تیل وگیس یا معدنیات کے ذخائر دریافت کر لیے جائیں پاکستان اور اس کے عوام کے معاشی مسائل میں کوئی کمی نہیں آئے گی جب تک اسلام کا معاشی نظام نافذ نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کےمسلمانوں کوحکمرانوں کے جھوٹے دعوی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی بھر پور جدوجہد کرنی چاہیے کہ اس کے قیام کے بعد ہی ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ان زبردست خزانوں سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَ تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

"اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کرو اور دنیا سے اپنا حصہ لینا نہ بھولو اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔ اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا"(القصص 28:77) 

 

زرمبادلہ کے بڑھتے ذخائر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں

کہ سودی قرضوں اور مزید معاشی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے

چین کی حکومت کی جانب سے 2.2ارب امریکی ڈالرملنے کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 17.58ارب امریکی ڈالر ہوگئے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ترجمان ڈاکٹر نجیب  نے 25 مارچ 2019 کی ایک ٹویٹ میں کہا کہ کامیاب حکمت عملی کے نفاذ کی بدولت زرمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

 

ملک کی معاشی صورتحال کے حوالے سے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے پاکستان کے حکمران زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والے اضافے کا بار بار تذکرہ کررہے ہیں۔ لیکن زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والے اس اضافے پر کسی صورت خوشی نہیں منائی جاسکتی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اس لیے اضافہ ہوا ہے کیونکہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات  سےسودی قرضے  لیے گئے ہیں۔پاکستان سودی قرضوں کی دلدل میں گرتا چلا جا رہا ہے اور آنے والے بارہ مہینوں میں اسے 14.6ارب ڈالر  قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرنے ہیں جس میں سے 12.8 ارب ڈالر قرض کی اصل رقم اور 1.8ارب ڈالر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔ قرض کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی جب آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جائے گاجو کہ تقریباً یقینی ہوچکا ہے کیونکہ26 مارچ کو آئی ایم ایف کے پاکستان کے لیےنئے سربراہ ارنسٹو ریمرز پاکستان آرہے ہیں۔

 

جب سے موجودہ حکمران اقتدار میں آئے ہیں وہ آئی ایم ایف کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئےپاکستان کی معیشت  کو دھچکے پر دھچکے دے رہے ہیں تا کہ پاکستان سودی قرضوں کو ڈالرز کی شکل میں واپس کرسکے۔ حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے آئی ایم ایف سبسڈی (زرتلافی)کے خاتمے اور ٹیکسوں میں اضافے کامطالبہ کرتی ہے۔ لیکن ٹیکسوں میں اضافے اور سبسڈی میں کمی کی وجہ سے معیشت  دشواری کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ اشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کی جائے  کیونکہ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح  بیرونی درآمدکنندگان (foreign importers)کے لیے  ملکی  اشیاءسستی ہوجائیں گی اور یوں حکومت کو زیادہ برآمدارت(exports)  اور ڈالر حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے برآمدی اشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہےکیونکہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مقامی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی سے برآمدی اشیاء کے سستہ ہونے جو تھوڑا بہت فائدہ حاصل ہوا ہوتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہے اور مہنگائی  کی لہر پورے معاشرت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ آئی ایم ایف کی یہ ترجیح ہوتی ہے کہ حکومتی اثاثوں کی نجکاری کی جائے تا کہ ان کی فروخت سے حاصل ہونے واپے پیسے کو قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کیا جاسکے۔ لیکن  نجکاری کی وجہ سے ان اداروں سے حکومت جو محاصل حاصل کرسکتی تھی وہ اُن سے محروم ہوجاتی ہے  جس  کے نتیجے میں حکومت کا انحصار  ٹیکسوں اور سودی قرضوں پر مزید بڑھ جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ  نجکاری  کےعمل کی وجہ سے مقامی اثاثوں کی ملکیت بیرونی سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے    جو مقامی کمپنیوں کو مارکیٹ سے باہر نکال دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس زیادہ وسائل ہونے کی وجہ سے مقامی کمپنیاں ان کا مقابلہ ہی نہیں کرپاتیں۔

 

حقیقی تبدیلی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کر کے اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جائے۔  خلافت سودی قرضوں کے نظام کومسترد کردے گی جس  نے پاکستان کے وسائل کو کھا لیا ہے۔ خلافت اسلامی محاصل کے نظام کو نافذ کرے گی اور توانائی اور معدنی وسائل کو عوامی ملکیت قرار دے گی تا کہ  ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے پورا معاشرہ مستفید ہوسکے۔ خلافت  سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دے گی جس سے قیمتوں میں استحکام آئے گا۔اور خلافت معیشت کے ان شعبوں میں خود کردار ادا کرے گی جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے ، جیسا کہ بھاری صنعتیں، ریلوے، ٹیلی کمیونیکیشن، ٹرانسپورٹ وغیرہ، تا کہ ان سے حاصل ہونے والے بھاری محاصل سے وہ اپنی ذمہ داریاں لوگوں پرٹیکس کابوجھ ڈالے بغیر  ادا کرسکے۔

 

خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پاکستان نئی سے نئی ٹیکنا لوجی

تخلیق کرنے کی اپنی صلاحیت کو مکمل طور پر  استعمال کرے

24مارچ 2019 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ پی این ای سی-این یو ایس ٹی کے طلباء کی ایک ٹیم نے کم توانائی سے شہروں میں استعمال ہونے والی گاڑی مقامی شاپنگ سینٹر میں نمائش کے لیے پیش کی۔  یہ گاڑی پاکستان کی سات مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء کی جانب سے تیار کی جانے والی گاڑیوں میں سے ایک ہے جو شیل ایکو میراتھن ایشیا 2019 میں مقابلے کے لیے پیش کی جائے گی۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کے طلباء نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہو۔ 2011 میں پاکستانی طلباء نے نینو ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے آلودہ پانی کو صاف کرنے کا مظاہرہ کیا تھا اور امریکا میں ہونے والے انٹل بین الاقوامی سائنس اور انجینئرنگ میلے میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ پھر 2015 میں اسی مقابلے میں ایک  پاکستانی طالب علم ، حبیب ادریس،نے توانائی کے شعبے میں خصوصی انعام حاصل کیا تھا۔ لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے شاندار اور باصلاحیت افراد، 61 ہزار محقیقین، 10670 پی ایچ ڈیز کے حامل افراد کے ہونے کے باوجود 2015 کے عالمی تخلیقی انڈیکس میں پاکستان 141 ممالک میں 131 نمبر پر تھا۔ مبصرین نے اس صورتحال کی بنیادی وجہ ریاست کی جانب سے تحقیقی اداروں اور تحقیق کرنے والوں کو انتہائی نامناسب   وسائل کی فراہمی قرار دیا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ سے  تحقیق کے شعبے کے لیے بہت کم وسائل رکھے گئے ہیں۔پاکستان میں اس شعبے کے لیے کُل ملکی پیداوار کا محض 0.29فیصد وسائل مختص کیے گئے جبکہ ترقی پزیر ممالک اوسطاً کُل ملکی پیداوار کا 2.4فیصد تحقیق کے شعبے پر خرچ کرتے ہیں۔ لہٰذا  2018 میں عالمی معیار کی 500یونیورسٹیوں کی جو فہرست شائع کی گئی اس میں پاکستان کی 180 سے زائد یونیورسٹیوں میں سے صرف ایک یونیورسٹی ہی اپنی جگہ بنا سکی۔

 

اگرچہ حکمرانوں نے تعلیم و تحقیق کے شعبے میں بہت کم سرمایہ کاری کی ہے لیکن سائنسی ایجادات  صرف مالیاتی وسائل کی فراہمی سے ہی ممکن نہیں ہوتی۔ کوئی بھی قوم سائنس یا کسی بھی شعبے میں ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہ ایک خاص اور مکمل نظریہ حیات ، یعنی کہ آئیڈیالوجی کو اختیار نہ کرے۔ لہٰذا سائنسی ایجادات کا کسی بھی ملک کے نظریہ حیات سے ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔ مغرب نے سائنس کے میدان میں ترقی اس وقت کی جب اس نے سرمایہ دارانہ نظریہ حیات کو اختیار کیا۔ مغرب میں صنعتی انقلاب سیکولرازم کے نظریے کو اختیار کرنے کے بعد آیا جو سرمایہ دارانہ نظریہ حیات کا عقیدہ ہے۔ اسی طرح سے مسلمانوں نے تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں اس وقت ترقی کی جب وہ ریاست خلافت میں اسلام کے نظریہ حیات کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے اور اس کے پیغام کوپوری دنیا تک دعوت و جہاد کے ذریعے پہنچا رہے تھے۔ جب ریاست خلافت کے تحت اسلام نافذ تھا تو پوری مسلم دنیا میں فارس، یونان، بھارت اور کئی دوسری اقوام کے سائنسی کاموں کو عربی زبان میں  لکھنے کے لیے کئی ادارے  قائم کیے گئے۔ مسلم سائنسدانوں جیسا کہ ابن خلدون نے مسلم دنیا کے مختلف مقامات کے طول و عرض کی پیمائش کی۔ البیرونی نے کئی اشیاء کی کثافت اضافی دریافت کی۔ اسلامی حکمرانی کے تحت سائنسدانوں نے نئے نئے نظریات اور ان کے عملی نمونے پیش کیے۔  انہوں نے ستاروں کا مشاہدہ کیا اور جہاز رانی کے لیے ستاروں کے نقشے بنائے۔ ابن یونس نے وقت کی پیمائش کے لیے پنڈولم کو استعمال کیا۔ ابن سینا نے ہواکا درجہ حرارت معلوم کرنے کا آلہ تخلیق کیا۔ کاغذ، کمپس، بارود اور غیر نباتاتی تیزابوں  اور  الکالائن بیسز کی درجہ بندی   مسلم  سائنسدانوں کی چند اہم ترین کاوشیں ہیں جس نے ٹیکنالوجی کے میدان میں عظیم انقلاب برپا کردیا تھا۔ لہٰذا، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اللہ سبحانہ وتعالیٰ،اس کے رسولﷺ ، روزِ آخرت پر ایمان اور ریاست خلافت کے ذریعے اسلام کے مکمل نفاذ کا نتیجہ ہے۔ اسلام کے نفاذ کے بغیر  ایساکوئی ڈھانچہ نہیں جوامت کی تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کرے اور انہیں ان کے مفاد میں استعمال کرے۔               

Last modified onاتوار, 07 اپریل 2019 01:45

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک