الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 25 مئی 2018  

 

 

۔ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل-ن وہ کام کر ہی نہیں سکتیں جو خلافت کرسکتی ہے

- خلافت مقامی پیداوار میں اضافہ کر کے امت کو قرض کی دلدل سے تحفظ فراہم کرے گی

- معدنی ذخائر کو نجی ملکیت میں دینے سے مسلم معاشرہ اس دولت سے محروم ہوجاتا ہے

تفصیلات: 

 

پی ٹی آئی اور پی ایم ایل-ن وہ کام کر ہی نہیں سکتیں جو خلافت کرسکتی ہے

23مئی2018 کو خیبر ایجنسی  کی تحصیل جمرود میں 132 کے وی  گرڈ اسٹیشن کے افتتاح پر  قبائیلوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے   کہا کہ فاٹا کے لوگوں کے لیے بنیادی سہولیات کی فراہمی صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم  ہونے سے زیادہ اہم ہے۔  انہوں نے کہا کہ اچھی تعلیم اور صحت کی سہولیات، سڑکوں کاجال، گیس اور بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات  جن سے پاکستان کے اہم شہروں کے رہائشی فیضیاب ہوتے ہیں  ، ان سب سہولیات پر فاٹا کے لوگوں کا بھی آئینی اور قانونی حق ہے۔

پاکستان مسلم لیگ-ن کی وفاقی حکومت خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پر طنز کررہی ہے۔ حقیقت  یہ ہے کہ نہ تو پی ٹی آئی اور نہ ہی پی ایم ایل-ن لوگوں کو وہ فراہم کرہی نہیں سکتیں جو ان کا حق ہے کیونکہ یہ دونوں ہی انسانوں کے بنائے قوانین  سے مخلص  اور وفادار ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں مسلمانوں کے امور سے شدیدغفلت کا مظاہرہ ہونا ایک معمول ہے۔ لوگوں کے امور  کی دیکھ بھال کرنا ایک بنیادی فرض ہے جس سے ہر شہری کو مستفید ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، 

مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا

"جو کوئی اپنے گھر میں تحفظ کی صورتحال  میں اٹھتا ہے کہ وہ صحت مند جسم رکھتا ہے، دن کیے کھانا میسر ہے، تو یہ ایسے ہے کہ اسے پوری دنیا دے دی گئی ہے"(ترمذی)۔  

 اور یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ شہریوں کو سفری سہولیات، گیس، بجلی، صحت کی سہولیات اور صاف پانی  کی فراہمی ریاست کی بنیادی  ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

«الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»

"امام (خلیفہ)چرواہا ہے اور وہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے"۔ 

 

انسانوں کے بنائے نظام کا مقصد  صحت و تعلیم  فراہم کرنا نہیں  بلکہ حکمران اشرافیہ کی  ذاتی دولت میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو اس بات کو یقینی  بناتا ہے  کہ معاشرے کی دولت  امیروں کے درمیان گردش کرتی رہے۔  یہ نظام دولت کے ارتکاز کو یقینی بنانے کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کرتا ہے جس میں  سود، توانائی کے وسائل کی نجکاری اور غریب و امیر سب پر ایک جیسا ہی ٹیکس لگاناشامل ہے۔  زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے لیے آنے والے انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں پی ٹی آئی ، پی ایم ایل-ن اور دیگر جماعتیں اپنے جلسوں میں لوگوں کو پورے ملک سے لانے  کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہی ہیں جبکہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غفلت کامظاہرہ کررہی ہیں جس میں صحت و تعلیم کی فراہمی بھی ہے۔

نبوت کے طریقے پر خلافت  دہائیوں پر محیط عوامی امور سے پرتی جانے والی غفلت کا مداوا ہے کیونکہ یہ وہ ریاست ہے جو اسلام کو نافذ کرتی ہے۔ یہ ریاست دولت کی گردش، سود اور غیر منصفانہ ٹیکسوں کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور اس بات کوبھی یقینی بنائے گی کہ توانائی اور معدنیات  کے وسائل سے حاصل ہونے والی دولت سے تمام شہری مستفید ہوں۔  حکمران وہ پہلا شخص ہوگا جو بھوک کا سامنا کرے گا اور وہ آخری شخص ہوگا جو اپنا پیٹ بھرے گا اور ہنگامی صورتحال میں سب سے پہلے حرکت میں آئے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«إِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»

" امام ڈھال ہے، جس کے پیچھے رہ کر مسلمان لڑتے ہیں اور اس کے ذریعے تحفظ حاصل کرتے ہیں"(متفق علیہ)۔      

 

خلافت مقامی پیداوار میں اضافہ کر کے امت کو قرض کی دلدل سے تحفظ فراہم کرے گی 

23 مئی 2018 کو فائنانشل ٹائمز  نے رپورٹ شائع کی  کہ پاکستان نے غیرملکی کرنسی کے بحران سے بچنے کے لیے اپریل کے مہینے میں  ایک بار پھر چین سے رجوع کیا اور"اچھے ریٹس "پر   چینی بینکوں سے ایک ارب ڈالر   قرض  حاصل کیا۔  اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طار ق باجوہ  نے تصدیق  کی  کہ چینی بینکوں سے اچھے ریٹس پر قرضے لیے گئے ہیں۔ فائنانشل ٹائمز کے مطابق  پچھلے مہینے لیے جانے والے ایک  ارب ڈالر کےقرض سے قبل بھی پاکستان نے 1.2ارب ڈالر قرض چینی بینکوں سے اپریل 2017 سے لے رکھے ہیں اور مزید قرض لینے کے امکانات بھی ہیں۔ 

پاکستان کا تجارتی خسارہ 27 ارب ڈالر ہے اور حکومت بہت زیادہ درآمدات پر انحصار  اور ضرورت سے کم مقامی پیداوار  کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جب ادائیگیوں میں خسارے کا سامنا ہو یعنی ادائیگیوں کے لیے محاصل ناکافی ہوں تو ریاست  زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسئلے کو عارضی ا قدامات،  جیسا کہ مختلف درآمدی اشیا پر پابندی، برآمدات  کے لیے سہولیات کی فراہمی، روپے کی قدرمیں کمی یا بیرونی قرضوں، کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔  سابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر مشتا ق خان نے صحیح نشاندہی کی کہ "اس قسم کی فائنانسنگ  میں چین کا اہم کردار ہے لیکن یہ ہمارا مسئلہ حل نہیں کرتا- اس سے مسئلہ التوامیں جاتا ہے اور مزید گھمبیر ہوجاتا ہے"۔  درآمدات پرانحصار کی ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں موبائل فون کی درآمدات میں 11.9فیصد کا اضافہ ہوا جس کی کُل مالیت 1.3 ڈالربنتی ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آ تی ہے کہ وسیع استعداد  کے باوجود پاکستان بھاری مشینری اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل آلات کی تیاری میں اب تک ناکام ہے جس کی وجہ سےتجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔  یقینی طور پرجب تک پاکستان کی صنعت ایک خاص درجے تک استعداد حاصل نہیں کرتی   جیسا کہ انجن سازی، الیکٹرانکس اور بھاری مشینری کی تیاری، یہ تکلیف دہ صورتحال بر قرار رہے گی۔ 

       ادائیگیوں کے خسارے کو قرضوں کے ذریعے پورا کرنا کوئی حل نہیں ہے بلکہ اس نے ایک نئے بحران کی بنیاد رکھ دی ہے جو کہ ایک مزید قرض کی دلدل میں پھنسنا ہے۔ استعماری چاہے وہ امریکی ہویا چینی، کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ معاونت کرتے ہیں کہ وہ بڑے بڑے منصوبوں کے لیے قرض لیں سکیں جیسا کہ سی پیک،جن سے استعماری معیشتوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ بیرونی کمپنیاں ملکی وسائل اور مارکیٹوں پر قابض ہوجاتی ہیں اور مقامی معیشت مفلوج ہو کر تباہ  ہوجاتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کبھی پاکستان کو اس بات کی اجازت  نہیں دے گا کہ وہ قرض کی اس دلدل  یا بیرونی قرضوں پرانحصار کرنے سے بچ کر  نکل سکے چاہے موجودہ حکمران دوبارہ ا قتدار میں آجائیں یا کوئی دوسرا نیا چہرہ ا قتدار میں آجائے۔  قرض کا یہ کشکول نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام اور اسلام کے مکمل نفاذ کے بغیر کسی صورت ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اسلام حکومت پر لازم کرتا ہے کہ وہ آمدن اور اخراجات میں قرآن و سنت کے مطابق  چلے اور یہی حکومت کے مالیاتی نظم وضبط کے لیے حقیقی حل ہے۔ قرض کے اس  کشکول کو توڑنے کے لیے خلافت مقروض ا قوام کی آوازبنے گی اور استعماری مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی سے انکار اس بنیاد پرکرے گی کہ اصل ر قم ادا کی جاچکی ہے لیکن اس کے باوجود ممالک  سودکی آفریت کی وجہ سے قرض میں ڈوبے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا

"وہ کہتے ہیں کہ سود تجارت ہی کی شکل ہے۔ لیکن اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کا حرام کیا"(البقرۃ:275)۔ 

 

خلافت بیرونی اور مقامی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کے وسیع توانائی اور معدنی وسائل  پر بیرونی اور مقامی کمپنیوں کی ملکیت کو ختم کردے گی جن کے ذریعے اربوں ڈالر حاصل کیے جاسکتے ہیں کیونکہ اسلام نے انہیں عوامی ملکیت قرار دیا ہے اور اس طرح بیرونی کمپنیوں کی جانب سے اپنے منافع کی بیرون ملک منتقلی بھی رک جائے گی۔  اور سرمایہ دارانہ شئیر اسٹاک کمپنی کے خاتمے کے ذریعے خلافت ان شعبوںمیں نجی اداروں کی اجارہ داری ختم کردے گی جہاں کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہےجیسا کہ بھاری صنعتیں، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ۔ خلافت کمپنی کے ڈھانچے کے حوالے سے اسلام کے احکامات لاگو کرے گی جو نجی کمپنیوں کے کردار کو ان شعبوں میں محدود کرتا ہے جہاں کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ریاست ان شعبوںمیں جہاں کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ وسیع کردار ادا کرے گی  اوربھاری مشینری اور ہائی ٹیک آلات کی پیداوار کے ذریعے کثیر دولت کمائے گی اور اس طرح لوگوں کے امور کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کرے گی اور بھاری درآمدی بل سے ریاست کو محفوط بنائے گی۔  لہٰذا صرف خلافت  ہی استعماری قرضوں سے تحفظ فراہم کرے گی اور پاکستان کی معیشت میں موجود اس بیماری کا مکمل خاتمہ کرے گی۔           

 

معدنی ذخائر کو نجی ملکیت میں دینے سے مسلم معاشرہ اس دولت سے محروم ہوجاتا ہے

23مئی 2018 کو مائنز سیکریٹری ڈاکٹر ارشد محمود، جو پنجاب منرل کمپنی کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ ملک کی پہلی مقامی لوہے کی کان سے چلنے والی اسٹیل مل کی تعمیر کے لیے منصوبہ بندی، جس میں مالیاتی ماڈل بھی شامل ہے، مکمل کرلی گئی ہے اور حکومت بین الاقوامی اور مقامی سرمایہ کاروں کے لیے ایک نمائش کا اہتمام کرنے کے لیے تیار ہے۔  انہوں نے کہا کہ، "چنیوٹ کے مقام پر  کان کنی، پروسیسنگ اور اسٹیل مل کومپلیکس  کی تیاری کر لی گئی ہے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہمارے ماہرین نے اعلان کیا ہے کہ چنیوٹ کے مقام پر موجود ذخائر اسٹیل مل کو  33 سال کے لیے خام مال دینے کے لیے کافی ہیں"۔

اگرچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پاکستان کو کئی معدنی ذخائر سے نوازا ہے لیکن یا تو انہیں استعمال میں ہی نہیں لایا جاتا یا انہیں مقامی اور غیر ملکی نجی شعبے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ یہ معدنی ذخائر اس قدر وسیع ہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی دولت کو ریاست لوگوں کے امور کی انجام دہی کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ لیکن  سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبے کو تمام دیگر لوگوں پر فوقیت دی جاتی ہے اور ایسی پالیسیاں بنائیں جاتی ہیں جو ہمیشہ معاشرے کےدولتمندوں کے مفاد کے مطابق ہوتی ہیں تا کہ وہ ان معدنی وسائل کے مالک بن کر اپنی دولت میں مزید اضافہ کرسکیں۔ پاکستان کے پاس خام لوہے  کے ذخائر کئی مقامات پرپائے جاتے ہیں جن میں  کالا باغ اور بلوچستان بھی شامل ہیں۔ اگر اسلام کے احکامات کونافذ کیا جاتا تو ریاست کے پاس بڑی تعداد میں محاصل موجود ہوتے۔ لیکن اسلام کے عدم نفاذ کی صورت میں حکمران معدنی وسائل کو نجی ملکیت میں دے دیتے ہیں  اور ریاست کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے درکار محاصل کو حاصل کرنے کے لیے  لوگوں پر کمر توڑ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔  

اسلام نے اسلامی ریاست پریہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ معدنی وسائل کی دیکھ بھال کرے کیونکہ یہ عوامی اثاثے ہیں جنہیں نہ تو نجی ملکیت اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں دیا جاسکتا ہے۔ وہ معدنی ذخائر جو جلد ختم ہونے  والے نہیں ہوتے وہ عوامی اثاثے ہوتے ہیں اور کوئی ایک فرد یا چند افراد کا گروہ ان کا مالک نہیں بن سکتا کیونکہ کہ ترمذی نے ابیض بن حمال سے روایت کیا ہے کہ

((أنه وفد إلى رسول الله ، فاستقطعه الملح فقطع له، فلما أن ولّى، قال رجل من المجلسأتدري ما قطعت له؟ إنما قطعت له الماء العِدّ ، قالفانتزعه منه))

''ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورنمک(کی کان)کا مطالبہ کیا ۔  رسول اللہﷺ نے اس کو کان دے دی۔  جب وہ شخص واپس مڑا تومجلس میں ایک شخص نے کہا:آپ ﷺ کو معلوم ہے کہ آپ ﷺ نے اس شخص کو کیا دیا ہے؟  آپ ﷺ نے الماء العد ( نہ ختم ہونے والاذخیرہ)دیا ہے۔  اس پر آپﷺ نے اس سے واپس لے لیا''۔ 

 

اس میں الماء العد سے مراد غیر منقطع (مسلسل)معدن ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ابیض بن حمال کو نمک کا پہاڑ عطا کیا جو معدنی نمک عطا کرنے کے جواز کی دلیل ہے ۔ لیکن  جب یہ معلوم ہو اکہ یہ ایک مستقل معدن ہے جو غیر منقطع (مسلسل ) ہے تب اپنی اس عطا سے رجوع کیا اور اس کو واپس لے لیا،اس کوانفرادی ملکیت میں دینے سے منع کردیا کیونکہ وہ اجتماعی ملکیت ہے۔ لہٰذا خلافت اس بات کو  یقینی بنائے گی  کہ معدنی وسائل سے حاصل ہونے والی دولت سے پوری امت فائدہ اٹھائے اور صنعتوں کو سستا خام مال بھی مہیا ہو۔  

Last modified onپیر, 28 مئی 2018 05:20

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک