الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 6 اپریل 2018  

 

 

۔ اسلام اور مسلمانوں کے لیے امریکہ سے اتحاد کو ختم کردو

- زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے سی پیک کی نہیں خلافت کی ضرورت ہے

- صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی غیر مسلموں کو مکمل  تحفظ فراہم کرے گی

تفصیلات: 

 

اسلام اور مسلمانوں کے لیے امریکہ سے اتحاد کو ختم کردو 

3 اپریل2018 کو روزنامہ ڈان نے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا بیان شائع کیا کہ پاکستان اپنے سیکیورٹی مفادات پر مصالحت اختیار نہیں کرسکتا چاہے امریکہ تمام امداد ہی کیوں نہ بند کردے۔ فائی نینشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے جناب مفاتح نے کہا کہ اس قسم کا دباؤ اسلام آباد کواپنے سیکیورٹی مفادات سے دستبردار ہونے پرمجبور نہیں کرسکتا۔  اسلام آباد کو اس بات کا خدشہ ہے کہ امریکہ جانتے بوجھتے بھارت کو افغانستان میں وسیع کردار دے رہا ہے  اور اسے اس قابل کررہا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان میں مشکلات پیدا کرنے کے لیے استعمال کرسکے۔ انہوں نے کہا، "ہم دنیا میں چھٹا  یا ساتواں بڑا ملک ہیں  اور ہمارے پاس دنیا کی ساتویں بڑی آرمی ہے"۔

 

سیاسی وفوجی قیادت کا یہ معمول ہے کہ جب وہ امریکہ کے ساتھ رابطے کرتے ہیں تو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔   اگر یہ بات صحیح ہوتی تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت بہت پہلے امریکہ سے اتحاد ختم کرچکی ہوتی۔ امریکہ کے ساتھ اتحاد اس بات کے باوجود برقرار رکھا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو قطعی کوئی اہمیت نہیں دے رہا۔ امریکہ نے افغانستان کے دروازے بھارت پرکھول دیے اور اب بھی اسی پالیسی پر کاربند ہے اور پاکستان پر نگاہ رکھنے کے لیے بھارت سے مدد مانگ رہا ہے۔  لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت افغانستان  میں امریکی قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے   اس کی سیاسی وفوجی کوششوں کی بھر پور حمایت اور مددو معاونت فراہم کررہی ہے۔ جس چیز کو "باجوہ ڈاکٹرائن " قرار دیا جارہا ہے  اس کا مقصد امریکہ کے "ڈو مور" مطالبات پر "نو مور" کا جواب دینا نہیں ہے بلکہ امریکی قبضے کے خلاف ملک ، خصوصاً قبائلی علاقوں میں جو مزاحمت بچ گئی ہے اسے بھی ختم کردینا ہے۔  پاکستان کی سیاسی وفوجی قیادت اپنی غداری کو قومی مفاد کے نام پر چھپانے کی کوشش کرتی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف امریکہ کی خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ درحقیقت سیاسی و فوجی قیادت کو پاکستان کے مفاد سے کوئی غرض نہیں چاہے اس کی بنیاد وطنیت (نیشنل ازم) ہی کیوں نہ ہو۔ 

 

ایک مخلص اسلامی قیادت نام نہاد "قومی مفاد" کا نہیں بلکہ  اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کا خیال کرتی ہے۔ اگر مخلص قیادت ہوتی تو وہ نہ  امریکہ کے ساتھ اتحاد میں داخل ہوتی اور نہ ہی اس کے قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو مارنے کے لیے پیسے لیتی۔  بلکہ مخلص قیادت افغان  مسلمانوں کی  امریکہ کے قبضے کے خلاف جدوجہد میں ان کی حمایت کرتی۔ ایک مخلص قیادت امریکہ کے سامنے پاکستان کو ذلیل و رسوا نہ کرواتی بلکہ امریکہ کو افغانستان  اور خطےسے ذلت کے ساتھ نکلنے پرمجبور کردیتی۔  اور جیسا کہ جناب مفتاح اسماعیل نے خود تسلیم کیا کہ ہم دنیا میں چھٹا یا ساتواں بڑا ملک ہیں اور ہمارے پاس دنیا کے ساتویں بڑی آرمی ہے، تو ہم آسانی سے یہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں اگر ہم نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لے آئیں جو مفادات کا تعین صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ

"مومنو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ"(الممتحنہ:01)     

 

زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے سی پیک کی نہیں خلافت کی ضرورت ہے

3اپریل 2018 کو وفا قی کابینہ کے چند اراکین نے اس حقیقت پر تشویش کا اظہار کیا کہ  اربوں ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)کے منصوبے میں زراعت کومکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ بات روزنامہ ڈان کو ذرائع نے بتائی۔  حکومت نے اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتی اور اب مسئلے کے حل کے لئے چین کی جانب دیکھ رہی ہے۔  اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس مسلمانوں کے امور کی دیکھ بحال کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کی بنیاد پر حکمرانی نہیں کرتے۔

یہ بات مشہور ہے کہ مسلم علاقے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قوانین کے نفاذ کی وجہ سے دنیا میں زراعت کے شعبے میں بہت آگے تھے۔ جس وقت یورپ میں بھوک اور قحط سالی کا راج تھا تو اس وقت صلیبیوں کی جانب سے شام کی مبارک سرزمین پر حملہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی  کہ اس کی زرعی دولت اس قدر زبردست تھی کہ صلیبی یہ سمجھتے تھے کہ وہ "دودھ اور شہد" کی سرزمین جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ  جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھاتو  دنیا کی اہم ترین اجناس کی پیداوار کا مرکز مسلم دنیا تھی اور گرمیوں میں آبپاشی کا تصور مغربی دنیا میں مسلم دنیا نے روشناس کرایا تھا۔ جہاں تک برصغیر پاک و ہند  کی بات ہے تو اسلام کے زیر سایہ  وہ دنیا میں زراعت کا پاور ہاوس اور انجن تھا  اور آٹھارویں  صدی عیسوی میں اس کی کُل ملکی پیداوار دنیا کی کُل پیداوار کا 23 فیصد تھی اور اس میں اس کی زرعی برآمدات کا بھی بہت بڑا حصہ تھا۔ اسی زرعی دولت خصوصاً مسالحہ جات  کی وجہ سے برطانوی استعمار برصغیر کی جانب متوجہ ہواتھا۔ لیکن  جب برطانوی راج کے دور میں برصغیر پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے   قوانین کی جگہ انسانوں کے بنائے قوانین کا نفاذ ہوا تو اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بھوک سے موت کا شکار ہوگئے۔ اب تک زراعت کے شعبے میں انسانوں کے بنائے قوانین کا نفاذ جاری ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں زرعی طا قت بننے کی جو صلاحیت ہے اس سے استفادہ حاصل نہیں کیا جارہا ۔ 

 

خلافت کی واپسی زرعی پیداوار اور دیہی روزگار میں اضافہ کرے گی کیونکہ وہ برصغیر میں لاگو اسلام کے زرعی زمین سے متعلق قوانین کو بحال کرے گی  جس سے پاکستان میں خوراک  کے ذخائر اور خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔ اسلام منفرد طریقے سے زرعی زمین کی ملکیت کو اس کی کاشتکاری سے منسلک کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ مالک کے پاس بہت بڑی زمین ہے یا چھوٹی زمین ہے، اسے خود ذاتی طور پر اپنی زمین پر کاشتکاری کی نگرانی کرنی ہے۔ ریاست کاشتکاروں کی اس حوالے سے امدادی ر قم یا غیر سودی قرضوں کے ذریعے بھر پور معاونت کرے گی۔  حزب التحریر نے آنے والے ریاست کے لیے لکھے گئے مقدمہ دستور کی شق 136 میں لکھا گیا ہے کہ، "ہر زمیندار کو زمین سے فائدہ اٹھانے(کاشت کرنے) پر مجبور کیا جائے گا۔ زمین سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسے کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہو تو بیت المال سے ہر ممکن طریقے سے اس کی مدد کی جائے گی۔ ہر وہ شخص جو زمین سے تین سال تک کوئی فائدہ اٹھائے بغیر اسے بے کار چھوڑ رکھے تو زمین اس سے لے کر کسی اور کو دے دی جائے گی"۔  اگر زمین کا مالک معاونت فراہم کیے جانے کے باوجود اپنی زرعی زمین پر کاشت نہیں کرتا یا نہیں کرپاتا  تو اسے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اس زمین کو کسی اور کو کرائے پر دے دے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا، ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ"کاشتکاری کرو یا اپنے بھائی کو دے دو"۔ حزب التحریر نے مقدمہ دستور کی شق 135 میں لکھا ہے کہ "زمین خواہ خراجی ہو یا عشری، سے اجرت لے کر زراعت کے لیے دینا ممنوع ہے (یعنی کرائے پر دینا)۔ اسی طرح زمین کو مزارعت (یعنی ٹھیکے پر دینا) بھی ممنوع ہے، تاہم مساقات جائز ہے"۔ اور اسلام ایسی زرعی زمین کی کاشتکاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس پر کوئی بھی کاشت نہ کررہا ہو کہ اگر کوئی اس پر کاشتکاری کرے تو وہ اس زرعی زمین کا مالک بن جائے گا۔ رسول اللہﷺنے فرمایا،

 

مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ

"جس کسی نے مردہ زمین کوزندہ کیا ، وہ اس  کی ہے "(ترمذی)۔

لہٰذا حزب التحریر نے مقدمہ دستور کی شق 134میں لکھا ہے کہ"آبادکاری اور حد بندی کے ذریعے مردہ زمین کا مالک بنا جاسکتا ہے"۔  

 

صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی غیر مسلموں کو مکمل  تحفظ فراہم کرے گی 

2 اپریل 2018 کی شام عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو کوئٹہ کی شاہ زماں سڑک پر فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا جب وہ ایک رکشے میں سفر کررہے تھے۔ پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں پر یہ کوئی پہلا حملے کا  وا قع نہیں ہے۔ اس سے پہلے اسی شہرمیں 17 دسمبر 2017 کو ایک چرچ پر حملہ ہوا تھا جس میں نو افراد قتل کردیے گئے تھے۔ اس قسم کے کئی قابل مذمت حملےپاکستان کے اہم شہروں میں ہوچکے ہیں۔

پاکستان کے حکمران اس قسم کے حملوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن کبھی بھی جڑ سے اس کے سدباب کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ جمہوریت ہے جو کئی دہائیوں سے پاکستان کے غیر مسلم شہریوں   کی جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ درحقیقت جمہوریت پوری دنیا میں اقلیتی گروہوں سے تعلق  رکھنے والے افراد کی جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔  کیونکہ جمہوریت میں تمام معاملات میں اکثریت ہی فیصلوں کا تعین کرتی ہے جس کی وجہ سے قدرتی طور پر اکثریت کو زیادہ اہمیت دینے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور ا قلیتوں کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ اکثریت اپنی خواہشات اور ضروریات کومدنظر رکھ کر قانون سازی کرتی ہے اور اقلیتوں کی خواہشات کو کم ہی اہمیت دی جاتی ہے اور اس کا مظاہرہ ہم آج مغرب میں بھی دیکھتے ہیں جو جمہوریت کی چیمپین بنتی ہے۔ تمام جمہوریتوں میں قانون سازی اکثریت کی خواہشات کے رحم وکرم پر ہوتی ہے اور جب اکثریت کی خواہش  ہو وہ ان قوانین میں تبدیلی  بھی کردیتی ہے۔   تو کئی سال تک مسلمانوں کو گوانٹا نامو بے میں بغیر کوئی مقدمہ چلائے قید رکھنا، قومی سلامتی کوبنیاد  بنا کر ملزم کو  یہ بتائے بغیر جیل  بھیج دینا کہ اس کا جرم کیا ہے، اور اسے  دفاع کے لیے اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت نہ دینا  "مہذب" امریکی معاشرے میں ایک عام بات بن گئی ہے۔ اسی طرح یورپ کے کچھ جمہوری ممالک میں اسکولوں میں حجاب پہننا جرم بن گیا ہے کیونکہ اکثریت کی نمائندگی کرنے والے عوامی نمائندگان  کپڑے  کے ایک ٹکڑے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔  اور یہ صورتحال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ، بھارت میں تو سب سے زیادہ خراب ہے جہاں مسلمانوں اور دوسری مذہبی ا قلیتوں کے خلاف وحشیانہ ظلم و جبر کیاجاتا ہے اور ان کے بنیادی حقو ق نہیں دیے جاتے۔  لہٰذا جمہوریت مکمل طور پر ا قلیتوں کے تحفظ میں  ناکام ہو چکی ہے کیونکہ اس میں اکثریت کی حکمرانی کا تصور ہے۔

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اصل میں اقلیت کے تصور کی ہی نفی کی جاتی ہے ۔ اسلام اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ حکمرانی اکثریت کی خواہشات اور ضروریات کی مطابق  کی جائے بلکہ حکمرانی صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق  کی جاتی ہے۔  لوگوں کو شہریت کے حوالے سے مختلف  مذہبی گروہوںمیں تقسیم نہیں کیا جاتا  اور نہ ہی ریاست کی تعریف اس بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس بات کے باوجود کہ اسلام میں اسلامی امت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے   لیکن  اسلامی ریاست کی  شہریت کے حصول  کے لیے اسلامی امت کا  حصہ ہونا ضروری نہیں ہے۔  اسلام اسلامی ریاست کے شہری سےصرف ریاست کی ساتھ وفاداری کا تقاضا کرتا ہے۔ ہر وہ شخص جو شہریت رکھتا ہے چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم  وہ اسلامی ریاست کی رعایا ہے اور جن کے درمیان ریاست  حکمرانی  اور ان کے امور کی دیکھ بھال کے حوالے سےکوئی امتیاز نہیں کرسکتی۔  خلافت کے پچھلے دور میں غیر مسلم شہریوں نے صدیوں تک اسلام کی حکمرانی میں اپنے جان و مال کے بھر پور تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کی۔ ایک بار پھر یہ نبوت کے منہج پر خلافت ہی ہوگی  جو اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کومکمل تحفظ فراہم کرے گی کیونکہ ریاست پر اہل ذمہ (اسلامی ریاست میں رہنے والے غیر مسلم شہری) کا تحفظ کرنا فرض ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا، 

 

ألا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَلا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا

"خبردار! جس نے کسی ذمی کو قتل کیا تو اس نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا، لہٰذا وہ جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت دوری سے آئے گی"(ترمذی) ۔     

Last modified onہفتہ, 07 اپریل 2018 23:19

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک