الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مستقبل میں معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان لازماً امریکہ سے اپنے تعلقات کو ختم کردے

بسم الله الرحمن الرحيم


تحریر: عابد مصطفی
حالیہ دنوں میں پاکستان کے کئی معروف لوگوں نے پاکستان کی معیشت اور اس کے مستقبل کے حوالے سے قوم کو اچھی امید دلائی ہے۔ 10نومبر 2013 کو پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت بن جائے۔ 2012 میں جاری ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس پاکستان کی معیشت 231بلین ڈالر کی کل قومی پیداوار کے ساتھ دنیا میں ترتالیسویں (43) نمبر پر ہے جبکہ کینیڈا کی معیشت 1800بلین ڈالر کی کل قومی پیداوار کے ساتھ دنیا میں گیارہویں نمبر پر ہے۔
اسحاق ڈار کے اس اعتماد سے بھر پور بیان کی تائید کچھ دنوں کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، تعمیرات و اصلاحات احسن اقبال نے بھی کی۔ 12 نومبر 2013 کو امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "پروگرام پاکستان 2025 پاکستان کو ایک مضبوط معیشت کے حامل ملک میں تبدیل کردے گا اور اس کا شمار اپر مڈل انکم والے ممالک میں ہونے لگے گا"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "خطے کے ممالک کو جوڑنے والے منصوبوں کے ذریعے پاکستان خطے کے ممالک کو جوڑنے والے ممالک کا مرکز بناجائے گا، ہم ایشیا میں تین ارب نئی مارکٹیں پیدا کرسکیں گے جس میں جنوبی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا شامل ہوں گے جو عالمی معیشت کے لیے زبردست مواقع پیدا کریں گی"۔ ایسا لگتا ہے کہ اسحاق ڈار اور احسن اقبال دونوں یہ بلند بانگ معاشی دعوے اس منصوبے کی بنیاد پر کر رہے ہیں جس کا عنوان ہے "پاکستان اکیسویں صدی میں: وژن 2030"۔ اس منصوبے کو پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے تیار کیا ہے۔ اس منصوبے میں معاشی وژن کو اس طرح اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ "سات سے آٹھ فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھتی معیشت کے ساتھ پاکستان اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ مڈل انکم والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا اور اس کی کل قومی پیداوار 2030تک 4000بلین ڈالر ہوجائے گی۔ یہ تیز ترین شرح پیداوار انسانی وسائل اور تعمیراتی اور ٹیکنالوجیکل سہولیات کو بہتر بنا کر حاصل کی جائے گی"۔
ایک الگ مگر اس سے متعلق منصوبے میں حکومت پاکستان نے 2025کے پاکستان کے لیے مختلف توانائی کے وسائل کو استعمال کرنے کے حوالے سے ایک ورکنگ گروپ کے اجلاس کا افتتاح کیا۔ 14نومبر 2013 کو اس گروپ نے سیکریٹری برائے منصوبہ بندی، تعمیرات و اصلاحات حسن نواز تارڑ کی قیادت میں اجلاس منعقد کیا جس میں کئی ممتاز سکالرز، ماہرین اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ اس ورکنگ گروپ کا فوری ہدف پاکستان کے سنگین توانائی کے بحران کو حل کرنا ہے۔ سینئر چیف برائے توانائی فرخند اقبال نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ملک اس وقت سنگین مسائل کا سامنا کررہا ہے، ہمارے کارخانے بند ہورہے ہیں، برآمدات کم ہورہی ہیں اور اوسط فی کس آمدنی کم ہورہی ہے۔ مختصراً انھوں نے کہا کہ معیشت کا توانائی والا حصہ ملک میں توانائی کی کمی کی بنا پر بری طرح سے متا ثر ہو رہا ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گیارہواں پانچ سالہ منصوبہ(18-2013) اور وژن 2025ماضی کے منصوبوں کی طرح نہیں ہونے چاہیے بلکہ انھیں حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے، جو انتہائی ضروری ہوں اور جنھیں مکمل بھی کیا جاسکے تاکہ اگلی دہائی کے لیے جو شرح پیداوار حاصل کرنا چاہتے ہیں اسے حاصل کیا جاسکے اور پاکستان کی معیشت کو ایک ایسی معیشت میں تبدیل کیا جاسکے جس کی بنیاد صنعتی علوم پر ہو۔
پاکستان کی دم توڑتی معیشت اور سنگین توانائی کے بحران کو حل کرنے کے حوالے سے موجودہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ اب تک ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوئی ہے اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ موجودہ نواز شریف کی حکومت کوئی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکے گی۔ اس وژن کی جزئیات کو پڑھے بغیر بھی یہ بات واضح ہے کہ اس میں ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ حکومت کس وژن کو اختیار کررہی ہے ،آیا وہ وژن 2025 ہے جسے فرخند اقبال ، اسحاق ڈار اور احسن اقبال نے تیار کیا ہے یا وژن 2030 جسے منصوبہ بندی کمیشن نے تیار کیا ہے۔ شاید کوئی اس صورتحال کو حکومتی وزارتوں کے درمیان روابط کا فقدان کہے لیکن موجودہ صوتحال کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اگر حکومتی وزارتوں کے درمیان روابط کمزور ہوں گے تو ان منصوبوں پر عمل درآمد کی شروعات بھی کمزور ہونگی اور یہ صورتحال ملک کے مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
وژن کے علاوہ بھی حکومت اب تک ایسی واضح اور بھر پور حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے جو وژن 2030 کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہے۔ مثال کے طور پر اس حوالے سے حکومت کی کیا حکمت عملی ہے جو وژن میں بیان کیے گئے اس ہدف کہ "پاکستان اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ مڈل انکم ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا اور اس کی کل قومی پیداوار 2030 تک 4000 بلین ڈالرہوجائےگی"، کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے جاری کیے جانے والےوژن2030کی دستاویز اور سیاست دانوں کے عوامی بیانات نہ صرف افسوس ناک حد تک کمزور ہیں بلکہ یہ بات انتہائی اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ وژن وہی پرانی شراب ہے جسے مغربی معاشی ماہرین اور اداروں نے تیارکیا ہے جیسا کہ آئی۔ایم۔ایف، اور پھر اسے پاکستان کی عوام کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ، 4اکتوبر 2013 کو ایک اخبار "دی نیشن" نے یہ بات رپورٹ کی کہ حکومت نےموجودہ مالی سال 14-2013 میں اکتیس(31) حکومتی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس میں بینکنگ، پیٹرولیم اور توانائی کے شعبوں کی کمپنیاں شامل ہیں۔ اس فیصلے کے بدلے میں پاکستان نے آئی۔ایم۔ایف سے تقریباً ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرلیا۔
پاکستان کی معاشرتی ترقی کے لیے اس کی اہم ترین اور قیمتی اداروں کو بیچ دینے کی یہ حکمت عملی معیشت کی تباہی اور مغربی اداروں کی غلامی اختیار کرنے کا نسخہ ہے۔ نجکاری کے فوائد صرف غیر ملکی ہی حاصل کرتے ہیں اور اس حقیقت کو جاننے کے لیے مشرف اور زرداری کے ادوار میں کی جانے والی نجکاری کو دیکھنا ہی کافی ہے۔ ان غیر ملکیوں کو اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قیمتوں کا تعین کریں ، انتہائی کم ٹیکس یا کوئی ٹیکس ہی نہ دیں اور منافعوں کو اپنے ملک بھیج کر پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے کی قیمت پر اپنے ممالک کی معیشتوں کو مضبوط کرتے رہیں ۔ یہ نقصان اس مالی بدعنوانی کے علاوہ ہے جو اس نجکاری کے عمل کے دوران لازمی پاکستان کے سیاست دانوں کواپنے گھیرے میں لے لیتی ہے۔ کچھ لوگوں نے صرف مشرف کے دور میں ہونے والی نجکاری کے دوران 1550ارب روپے کی مالی بدعنوانی کا اندازہ لگایا ہے ("پاکستان: مشرف کے دور میں نجکاری کے دوران 24ارب ڈالر کی بدعنوانی"، ایشیا پیسیفک ایکشن آن لائن)۔
لہٰذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گیارہواں پانچ سالہ منصوبہ بھی اسی سمت میں رواں دواں ہےجس جانب پچھلے پچپن سال کے منصوبے گامزن تھے یعنی پاکستان کی معاشی خودمختاری کو کمزور اور ہمارے پچوں کو ایک تابناک مستقبل سے محروم کردیا جائے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی حکمت عملی سے پاکستان 58ارب ڈالر کے بیرونی قرضے بھی ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی 2030 تک اپنی معیشت کو اس قدر ترقی دے سکتا ہے کہ وہ 230سے 260ملین پاکستان کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرسکے۔
پاکستان کے لیے کسی بھی معاشی وژن اور حکمت عملی کے لیے ضروری ہے کہ وہ وژن اور حکمت عملی ملک کی معیشت کو درپیش موجودہ مسائل کی بنیادی وجوہات کا تعین کرے۔ کوئی بھی ایسا حل جو موجودہ مسائل کی بنیادوں کو نظر انداز کردے کبھی بھی ملک کو معاشی خودمختاری کی منزل کی جانب گامزن نہیں کرسکتا۔
پاکستان کی بدحال معیشت کے پس پردہ تین عوامل ہیں: امریکہ، اس کے استعماری ادارے آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بنک اور خوفناک بدعنوانی۔ آئیے ان تین عوامل کا فرداً فرداً جائزہ لیں۔
جب سے امریکہ نے یوریشیا کے خطے میں عملی مداخلت شروع کی ہے خصوصاً افغانستان پر سویت یونین کے حملے کے بعد، پاکستان کی معیشت درجہ بہ درجہ زوال پزیر ہوتی گئی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے لیکن اس کا اقرار سرکاری دستاویزات یا معاشی رپورٹوں میں نہیں کیا جاتا کیونکہ پاکستان کی اشرافیہ خودکشی پر مبنی امریکہ کے ساتھ کام کرنے اور اس کی خدمت گزاری کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان حکام اس حقیقت کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں لیکن یہ حقیقت چُھپ نہیں سکتی اور وہ کبھی کبھی اس حقیقت کو ظاہر کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں، وزیر مملکت برائے شمالی علاقہ جات عبدالقدیر بلوچ نے کہا کہ تیس سالوں میں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بحال پر 200ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اٖفغان مہاجرین کا مسئلہ واضح طور پر پاکستان کو سرد جنگ کے زمانے میں سویت یونین کے خلاف استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔
اسلام کے احکامات کے مطابق پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی بہترین خدمت کی لیکن امریکہ نے اس حوالے سے پچھلے تیس سالوں میں پاکستان کی بہت کم مدد کی۔ حالیہ دنوں میں خود ساختہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے شروع کی گئی مہم کے نتیجے میں بھی بہت ہی کم رقم جمع کی گئی۔ بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والوں نے افغان مہاجرین کے لیے 600ملین ڈالر کا وعدہ کیا لیکن محض 15 ملین ڈالر ہی مہیا ہوسکے۔ لہٰذا ایک بار پھر پاکستان خود ہی اپنے افغان بھائیوں کی ذمہ داری کو اٹھاتا رہے گا جبکہ پاکستان سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات بھی پورا نہیں کرسکتا۔
اکیسویں صدی کی ابتداء میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا۔ اس جنگ کا مرکزی محاذ پاکستان تھا اور اس کے اثرات ملک پر انتہائی خوفناک تھے خصوصاً ملک کی معیشت پر۔ 23 اکتوبر 2013 کو جیو ٹی وی نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو 100ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس نقصان کے بدلے پاکستان کو 12-2002کے درمیان 25 ارب ڈالر ملے جس میں 17ارب ڈالر فوجی امداد اور 8 ارب ڈالر معیشت کو سنوارنے کے نام پر دیے گئے۔ اس امدادی پیکیج کی اہمیت انتہائی کم ہوجاتی ہے جب اس کو 66سال کے عرصے پر پھیلا دیا جائے۔ 1948سے 2012 تک پاکستان نے امداد کے نام پر 68 ارب ڈالر وصول کیے۔ اس امداد میں 42 ارب ڈالر معیشت کے لیے جبکہ باقی 26 ارب ڈالر فوجی امداد کے نام پر دیے گئے۔ لیکن درحقیقت اس امداد کا کوئی فائدہ نہ ہوسکا کیونکہ اس عرصے کے دوران امریکہ پاکستان پر معاشی پابندیاں بھی عائد کرتا رہا۔ سب سے پہلے 1979 میں امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کیں۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی معیشت نے 1979 سے 1998 تک ان پابندیوں کے اثرات کو جمع کیا جو 1 ارب ڈالر کے برابر تھا اور یہ نقصان اس نقصان سے کئی گنا چھوٹا ہے جو پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی مفادات کے تابع کرنے کی بنا پر اٹھانا پڑا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو تباہی و بربادی سے دوچار کرنے کی دوسری بڑی وجہ امریکی نگرانی میں بننے والی آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں ہیں۔ 1971 سے 2010کے درمیانی چالیس سالوں میں سے 29 سالوں میں پاکستان نے آئی۔ایم۔ایف سے بھاری قرضے حاصل کیے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا بیرونی قرضہ تقریباً 58ارب ڈالر ہے یعنی کل قومی پیداوار کا 24فیصد اور برآمدات کا 200 فیصد۔ آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک یہ کہتے ہیں کہ کم آمدنی والے ممالک کے لیے قرضے ادا کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے اگر ان کے قرضے ان کی کل قومی پیداوار کا 30 سے 50 فیصد تک پہنچ جائیں یا 100 سے 200 فیصد برآمدات کے برابر ہوجائیں۔ لیکن اس کے باوجود آئی۔ایم۔ایف اپنے ہی جاری کردہ انتباہ (warnings) کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو اب بھی اربوں ڈالر کے مزید قرضے دینے کے لیے راضی ہے۔
درحقیقت پاکستان کے عوام آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کے حکام کے دوروں کے بعد نازل ہونے والے معاشی بحرانوں کا سامنا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ عام طور سے پاکستان کے لیے جو نسخہ آئی۔ایم۔ایف پیش کرتا ہے وہ یہ کہ نجکاری ، پیٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی، سیلز ٹیکس کے نفاذ کے ذریعے محصولات میں اضافہ، درآمدات پر عائد ٹیکسوں میں کمی کی جائے ۔ اس کے علاوہ بھی جو بھی اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں ان تمام سے پاکستان کی بیرونی امدادا فراہم کرنے والے اداروں اور ممالک پر انحصار اور قرضوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو آئی۔ایم۔ایف کی پالیسیاں کبھی بھی پاکستان کے مالیاتی خسارے کو ختم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ آئی۔ایم۔ایف کی پالیسیاں صرف یہ کام کرتی ہیں کہ وہ قرضہ لینے والے ملک سے اس بات کا اقرار کروالیتی ہیں کہ وہ مزید قرضوں کا بوجھ اور اس پر ادا ہونے والے سود کو برداشت کرے گا۔ پچھلے پانچ سالوں میں اوسطاً پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں پر سوا دو ارب ڈالر خرچ کرتا رہا ہے۔ یہ رقم پاکستان کی برآمدات کے 10فیصد اور محاصل کے 10فیصد کے برابر ہے اور تعلیم اور صحت پر خرچ ہونے والی رقم کا نصف ہے ("قرضے کی زنجیروں سے نجات: پاکستان کے لیے قرضوں میں نرمی"، اسلامک ریلیف اینڈ جوبلی ڈیٹ کیمپین، جولائی 2013)۔
اور آخر ی بات، امریکی سرپرستی میں پاکستان میں کرپشن نے دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی و فوجی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر اس حکومت میں کرپشن نے فروغ حاصل کیا ہے جسے براہ راست امریکی آشیر باد حاصل رہی ہے۔ مثال کے طور پر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان ناقابل یقین 8500ارب روپے کی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ یہ رقم کرپشن، ٹیکس کی چوری اور بری حکمرانی کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے چار سالہ دور اقتدار کے دوران کھو دی گئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ 1979 سے پاکستان کی امریکہ کو بے لوث حمائت فراہم کرنے کے نتیجے میں اس کی معیشت کو 410 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان میں موجود انتہا پسند آزاد خیال اور بنیاد پرست سیکولر حضرات کو بھی اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان کی معاشی خود مختاری میں مسلسل اور تیز رفتار کمی کی واحد وجہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات ہیں۔
اگر پاکستان کی معیشت کو بڑھوتری اور خودانحصاری کی راہ پر ڈالنا ہے تو معاشی پالیسی سازوں کو امریکہ سے تعلقات کو توڑنا ہو گا اور ایسا وژن 2030 بنانا ہوگا جس میں امریکہ اور اس کے استعماری اداروں کاکوئی کردار نہ ہو۔ لیکن یہ صرف پہلا قدم ہوگا۔ ایک مکمل اور مستقل حل کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت اور آمریت سے جان چھڑائی جائے جو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرتی ہیں اور انھیں اللہ کے قوانین پر فوقیت دیتی ہیں۔ ان طرز حکمرانی کے ذریعے امریکہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ میں موجود اپنے حمائتیوں کے ذریعے ایسے قوانین منظور کرواتا ہے جو سرمایہ داریت پر مبنی ہوتے ہیں اور جو صرف امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل وجہ جس کی بنا پر پاکستان کے عوام اس بدحالی کا شکار ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا "اور جوکوئی اس ذکر (قرآن) سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ کردی جائے گی" (طحہ:124)۔
اور صرف خلافت کے ذریعے ہی اقتدار اعلی اور حاکمیت اللہ کی جانب دوبارہ لوٹا دی جائے گی اور امریکہ مفادات کی طابع سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا دور ختم ہوجائے گا۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک