الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

*اے امتِ محمدیﷺ! اپنا اختیار پھر سے حاصل کرو،

اپنی فوجوں کو پکارو، فی الفور خلافتِ راشدہ کو دوبارہ قائم کرو*

 

اے امتِ مسلمہ! چونکہ ہمارے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے خلاف نسل کشی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے،لہٰذا کوئی غلطی نہ کریں۔ یہ محض مسلمانوں اور صیہونیوں یا قابض اور محکوم کے درمیان جنگ نہیں ہے بلکہ یہ کفار کی طرف سے اسلام پر ایک بھرپور حملہ ہے۔

 

صہیونی وجود کو اس کے کافر حواریوں نے ہر طرح کے ہتھیاروں، میڈیا اور معاشی مدد کے ساتھ مسلح کر رکھا ہے، جبکہ مسلمانوں کی آواز کو بھی ان کے ایجنٹ حکمرانوں نے زبردستی دبا رکھا ہے۔ کفار "دفاع" کے نام پر عورتوں، بچوں، معصوم شیر خوار وں اور جنین کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

یقیناً اللہ نے ہمیں ان کے ارادوں سے خبردار کر رکھا ہے۔

 

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘۔ (سورہ البقرہ؛ 2:11)

 

اور جب کفار - امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی اتحادی- صیہونی وجود کی مدد کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں تو آخر ہمارے لیڈر اور ہماری افواج کہاں ہیں؟ کیا ہمارے رب نے انہیں یہ حکم نہیں دیا کہ مسلمانوں کو ظالموں سے بچائیں، کفار کو وہاں سے نکال دیں جہاں سے انہوں نے ہمیں نکالا تھا؟ اس کے بجائے ہمارے حکمران کفار کی زبان میں بول رہے ہیں، اور کانفرنسیں، احتجاج اور ڈیلوں کی باتیں کر رہے ہیں۔

 

اے امت مسلمہ! کیا صلاح الدینؒ نے کانفرنسوں سے القدس کو آزاد کروایا تھا؟

 

کیا معتصمؒ نے بازنطینیوں کی محض زبانی کلامی مذمت کی تھی اور "فوری جنگ بندی" کا مطالبہ کیا تھا؟

 

یا رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ظالم کے خلاف تلواریں اٹھائیں تھیں؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:

 

﴿وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْل﴾

اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے، اور فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہے‘‘۔ (سورہ البقرہ 2:191)

 

یہ سمجھنے میں کوئی غلطی نہ کریں کہ یہ جنگ کفر اور اسلام کے درمیان ہے۔ جس طرح کفار ہمارے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور ہندو ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم کررہے ہیں اور کشمیر میں مسلمانوں کی عزتوں پر حملہ آور ہیں اور چینی کفار ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں قید کئے ہوئے ہیں اور روس شام پر بمباری کررہا ہے اور امریکی اور سعودی یمن کے مسلمانوں کو بھوکا مارنے پر تلے ہوئےہیں۔

 

اے امت مسلمہ!

آخر کہاں ہیں تمہارے حکمران؟ آپ انہیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو بچانے کے لیے افواج کو متحرک کرنے کے لیے پکارتے ہیں، لیکن وہ آپ کی پکار کو نظرانداز کیے ہوئے ہیں۔ وہ یہ کیوں نہ کرتے؟! کیونکہ انہوں نے اپنے ضمیر اور جانوں کو طاقت اور دولت کی خاطر بیچ رکھا ہے اور انہوں نے طویل عرصے سے اپنے مفادات کو کفار کے مفادات کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔

 

لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾

اے اہل ایمان ! ان لوگوں کو اپنا دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے،وہ جو تم سے پہلے کتاب دئے گئے اور وہ جو کافر ہیں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اگر تم مؤمن ہو‘‘۔(المائدہ 5:57)

 

میرے پیارے مسلمان بھائیو اور بہنو، اب وقت آگیا ہے کہ ہم کفار کی زبان اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اداروں اور امن کی ان کی جھوٹی دعوتوں کو خیر باد کہہ دیں۔ جنگ بندی کے لئے مزید کوئی منت سماجت نہیں! نہ ہی مزید کانفرنسیں! اور نہ ہی یہ قومی ریاستیں اور سرحدیں جو ہمیں تقسیم کئے ہوئے ہیں!

 

کیا کسی ایک بھی کانفرنس نے شام کو بچایا؟ کیا اقوام متحدہ نے بے گناہ یمنی مردوں، عورتوں اور بچوں کو فضائی حملوں اور بھوک سے بچایا؟ کیا امن کا مطالبہ کشمیر کو آزاد کروا سکا؟

 

کیا کبھی الفاظ، جلسے جلوس، انسانی حقوق کے علمبردار اور عالمی برادری نے ایغور کی حفاظت کی؟ کیا پُرامن مذاکرات فلسطینیوں کو ان کے پچھتر سال کے جابرانہ قبضے سے آزاد کروا سکے؟ کیا کفر کا نظام سوڈان کے لوگوں کی حفاظت کر رہا ہے؟

 

آپ کہتے ہیں کہ ’’حکمرانوں نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے، ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ جب کہ ہمارے فلسطینی بھائی بہن ایمان کے ساتھ ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴾ پڑھتے ہیں، ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران 3:173)

 

بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے لیے بھی کافی ہے۔ لہٰذا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو حکم دیا ہے اس کی طرف لوٹ آؤ، افواج کو پکارو، کفار کے نظام کو چھوڑ دو اور خلافت قائم کرو اور ایک امت کے طور پر متحد ہو جاؤ۔

 

اگر ہم محمد الرسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کریں، اور اللہ کی کتاب کے مطابق حکمرانی کریں، جیسا کہ آپﷺنے کی، تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فضل سے، ہم کیسے ناکام ہو سکتے ہیں؟

 

پس مسلح افواج میں اپنے بھائیوں، اپنے بیٹوں، اپنے والد کو پکاریں اور انہیں ان کے فرائض یاد دلائیں۔ ان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پکار پر لبیک کہنے کا فرض یاد دلائیں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ؛

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ﴾

اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کی راہ میں تو تم دھنسے جاتے ہو زمین کی طرف (سوچو !) کیا تم نے آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی کو قبول کرلیا ہے ؟ تو (جان لو کہ) دنیا کی زندگی کا سازو سامان آخرت کے مقابلے میں بہت قلیل ہے‘‘۔ (سورہ التوبہ 9:38)

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں بہترین امت کے طور پر منتخب کیا ہے اور ہمارے پیارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ خود قیامت کے دن ہماری شفاعت کریں گے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسولﷺکے ساتھ اپنے عہد کو یاد رکھیں اور وہ وعدہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا، اپنے بھائیوں اور بہنوں کی پکار پر لبیک کہنے کا، اور ظالموں سے لڑنے کے لیے اپنی فوجیں کو متحرک کرنے کا ہے۔

 

مسلمانوں کی افواج کا وجود امتِ مسلمہ کی حفاظت کے لئے ہے نہ کہ غدار حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اور نہ ہی مغربی مفادات کے تحفظ کے لیے۔ ایک مسلمان کا خون ہمارے رب کے نزدیک خانہ کعبہ سے بھی زیادہ مقدس ہے اور اس کے باوجود ہزاروں مسلمانوں کا بے رحمی سے قتل عام کیا جا رہا ہے، جب کہ ہماری افواج اپنی بیرکوں تک ہی محدود ہیں اور ان کے ٹینکوں کو زنگ کھائے جا رہا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾

"اگر تم نہیں نکلو گے (اللہ کی راہ میں تو) وہ تمہیں عذاب دے گا دردناک عذاب اور تمہیں ہٹا کر کسی اور قوم کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ بھی نقصان نہیں کرسکو گے اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔ (سورہ التوبہ 9:39)

 

یقیناً امت مسلمہ کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔ نیچ مغربی ممالک صیہونی وجود کی پشت پناہی کررہے ہیں اور ان کی فوجی طاقت بہت زیادہ ہے۔ لیکن محمد ﷺکے طریقہ کار کے مطابق مسلم علاقوں کو ایک امام (خلیفہ) کے تحت متحد کرنا ہی اس سنگین صورتِ حال کا واحد عقلی حل ہے۔

 

کفار مسلمانوں کی صرف پانچ بڑی افواج کے ایک متحد محاذ کے سامنے کھڑے بھی نہ رہ سکیں گے اور وہ ان سب کو للکارنے کی ہمت نہیں جتا پائیں گے۔

 

اے امتِ محمدی، رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرامؓ کے سامنے بھی بہت بڑا چیلنج تھا۔ کفار نے ان پر بے پناہ مظالم کیے مگر مسلمانوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ نہ صرف اسلامی ریاست قائم کریں بلکہ پہلی بار اسے قائم کریں۔

 

ہمارے سامنے چیلنج اُن کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ ہمیں صرف اپنی افواج کو جگانا ہے، اپنے غدار حکمرانوں کو ہٹانا ہے اور امت کی خواہش کے مطابق متحد ہونا ہے۔ ہمیں صرف اس نظام کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے جو اللہ نے ہمیں اپنے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺکے ذریعے عطا کیا ہے۔

 

وقت کو ضائع ہرگز نہ کریں۔ سڑکوں پر نکلیں، اپنی برادریوں میں پیغام پھیلائیں، اپنی مسلح افواج کا محاسبہ کریں، اور اس واحد عادلانہ حکمرانی کی طرف لوٹیں جو اس دنیا نے ایک عرصہ سے کبھی نہیں دیکھی ہے یعنی اسلام کی حکمرانی۔ جسے ہمارے رب نے ہمارے لیے منتخب کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ذریعے ہم پر نازل کیا ہے۔ غدار حکمرانوں کے  چنگل سے اپنی افواج واپس نکالیں، اپنی ڈھال کے طور پر خلیفہ مقرر کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی پچھتر سالہ مزاحمت رائیگاں نہ جائے۔

 

*یونس مصعب، ولایہ پاکستان*

Last modified onبدھ, 03 جنوری 2024 04:58

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک