الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

*تبصرہ خبر*

*فلسطینی اتھارٹی حل کے منصوبوں میں غدارانہ کردار ادا کرنے کی طرف واپس لوٹ رہی ہے۔*

 

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے منگل کے روز کہا کہ انہوں نے مختلف فلسطینی دھڑوں کو قومی مفاہمت کی بحالی اور گزشتہ جولائی میں مصر کے شہر 'علمین' کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کو مضبوط بنانے کی دعوت دی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں کسی بھی ایسے فریق کو شامل کرنا ممکن نہیں ہے جو PLO کی بین الاقوامی قانونی حیثیت تسلیم کرنے سے انکار کرے، جسے فلسطینی عوام کا واحد جائز نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ عباس نے مصری ON چینل کو ایک انٹرویو میں وضاحت کی کہ 'علمین' میں ہونے والے مذاکرات کے دوران حماس سمیت تقریباً 11 فلسطینی دھڑوں نے شمولیت کی اور انہوں نے اجلاس کے دوران اپنے اہم ترین مطالبات پیش کیے، جن میں 4 مرکزی ہیں: پہلا مطالبہ کہ پی ایل او کے فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ ہونے پر اتفاق ہونا، دوسرا کہ بین الاقوامی قانون کو مکمل طور پر نافذ کرنا، تیسرا کہ پرامن عوامی مزاحمت کو جاری رکھنا، اور چوتھا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لانا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کانفرنس ان مطالبات پر متفق نہیں تھی۔  

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ میں وحشیانہ قبضے اور اس قبضے میں ساتھ دینے والے استعماری اور ظالم ممالک کے خلاف مجاہدین کی طرف سے دکھائی گئی بہادری کی مثالیں اور باوقار موقف کے باعث، فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ باقی عرب اور مسلم حکمران بھی مایوس ہو گئے تھے۔ استعماری ظالم ممالک، یہودی اور امریکہ جو کچھ جنگ برپا کرنے، خون بہانے اور طاقت کا استعمال کرنے کے باوجود حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں، تو اب یہ حکام سازشوں، غداریوں اور قومی کانفرنسوں کے ذریعے اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 

عباس اپنے معبودوں کی طرف لوٹ رہا ہے جن سے فلسطین اور پوری دنیا کے لوگ منہ پھیر چکے ہیں۔ اور وہ تحریک حماس سمیت دیگر تحریکوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کے راستے پر چلیں اور اس کی گمراہی اور خیانت میں اس کا ساتھ دیں۔

 

وہ لبریشن آرگنائزیشن کو بحال کرنا چاہتا ہے جسے استعمار نے مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کے لیے بنایا تھا۔ وہ اسے زائل ہونے کے بعد دوبارہ منظر عام پر لانا چاہتا ہے اور اس میں نیا خون ڈال کر اسے بے بس اور کرپٹ قیادت کی پناہ گاہ بنانا چاہتا ہے۔ اور تحریکوں کے مقبول اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے، اسے دوبارہ زندہ کرنا چاہتا ہے جو عرصہ دراز سے لوگوں اور معززین کے ذہنوں میں مر چکی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ خستہ حال اور کرپٹ اتھارٹی اور تنظیم کو قانونی حیثیت دینے کا طریقہ یہ ہے کہ نئے خون اور ایسے نئے ہاتھ سامنے لائے جائیں جو اتھارٹی اور ادارے کی غلاظت سے رنگے نہ ہوں اور اس طرح وہ دہائیوں پہلے شروع ہونے والے دھوکہ دہی کے سفر کو مکمل کرنے کے لیے اس میں زندگی کی نئی روح پھونک دے۔

 

عباس صرف اسی پر ہی اکتفاء نہیں کئے ہوئے ہے، بلکہ وہ اپنے پرانے معبودوں یعنی بین الاقوامی قانون، اور اپنی فرسودہ بدعتوں مثلاً پرامن مزاحمت (لیموں اور سیب اگانے) کی طرف لوٹ آیا ہے، تاکہ اس معاملے کو ختم کرنے میں اس کے غدارانہ کردار کو دیکھا جا سکے۔ بین الاقوامی قانون وہی ہے جس نے یہودیوں کو مکمل سایہ فراہم کر رکھا ہے تاکہ وہ غزہ کے لوگوں کے خلاف قتل عام اور بربریت کا کھلا مظاہرہ کر سکیں، اور یہی وہ عالمی قانون ہے جو غزہ کے بچوں کو پینے کا پانی تک بھی نہیں پہنچا سکتا، اور یہ وہی ہے جس نے فلسطین کی بابرکت زمین پر قبضے کی قطعاً مذمت نہیں کی، یہاں تک کہ ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اس بین الاقوامی قانون نے فلسطین کے تین چوتھائی سے زیادہ حصے پر یہودی قبضے کو مکمل جواز فراہم کیا۔ اور عباس یہی چاہتا ہے کہ وہ بھی اور باقی دھڑے بھی ایک کمزور ریاست کے عوض، ارض مقدس پر یہودیوں کا حق تسلیم کر لیں۔ ایک ایسی کمزور ریاست جس کے تخت پر عباس اور اس جیسے دوسرے لوگ براجمان بیٹھے ہوں۔

 

عباس حقوق اور زمین کے لیے بھیک مانگنے کا ایک مضحکہ خیز اور بدعتی طریقہ قائم کرنا چاہتا ہے جس کو وہ پرامن مزاحمت کہتا ہے، جیسے کندھے جھکانا، ڈانس فیسٹیول، مخلوط میراتھن، علامتی مظاہرے، اور تصویری پریڈ۔

 

عباس اپنے تمام شرمناک اقدامات سے جس نتیجے تک پہنچنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ فلسطین کے ایک چوتھائی سے بھی کم رقبے پر، بغیر فوج کے، بغیر سرحدوں کے،  بغیر زمین کے او پر اور بغیر زمین کے نیچے کسی کنٹرول کے، مجرم یہودی وجود سے معاہدہ کر کے ، اُس کے  پڑوس میں امن اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بنا لی جائے۔ وہ مجرم یہودی وجود جو پورے فلسطین کو کنٹرول کرتا ہے اور بابرکت سرزمین کی بے حرمتی کرتا ہے۔

 

درحقیقت امت کی بدقسمتی اس کے حکمران ہیں اور امت کو کوئی آفت یا شکست اس وقت تک نہیں پہنچتی جب تک عباس، عبداللہ، سیسی، اردگان اور باقی حکمران اور ان حکمرانوں جیسے لوگ اس آفت یا شکست کے پیچھے کھڑے نہ ہوں۔ دشمن جو کچھ میدان میں حاصل نہیں کر پاتا، وہ  ان حکمرانوں کے ذریعے ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں سونے کی پلیٹوں میں  حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 

لہٰذا ان لوگوں کی چالاکیوں اور ان کی تباہی کے منصوبوں اور ارادوں سے ہوشیار رہیں۔ امت اور اس کے ہیروز اور اس کے جنگجو اللہ کی  رسی کو مظبوطی سے تھامے  رہیں کیونکہ وہی مدد کرنے والا اور سہارا دینے والا ہے اور وہ بہترین کارساز اور بہترین مددگار ہے۔

 

*فلسطین کی بابرکت سرزمین میں حزب التحریر کا میڈیا آفس*

 

 

 

Last modified onجمعرات, 28 دسمبر 2023 21:55

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک