الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

احساسِ ندامت

 

پچھتاوا! ہم سب کو اندرونی طور پر اکثر کسی نہ کسی غلطی کا احساس رہتاہے۔ باپ ہوتے ہوئے یہ احساس کہ میں اپنی اولاد کو کچھ خاص مہیا نہ کرسکا یا یہ کہ گھر پرزیادہ وقت نہ گزار سکنے کا احساس، ماں ہوتے ہوئے یہ احساس کہ بچوں پرہروقت چیخنا چلانا یا ناراض رہنا، اکثر اوقات اپنے بچوں پر غصہ کرنا، شریکِ حیات ہونے کے ناطے اس غلطی کا احساس کہ ایک دوسرے کے لئے اتنا مناسب وقت نہ نکال سکنا جتنا کہ ہمیں ایک دوسرے کو دینا چاہئے، بیٹا اور بیٹی ہوتے ہوئے اس غلطی کا احساس کہ اپنے ماں باپ کو اکثر فون نہ کرنا یا ان سے ملنے نہ جانا، یا پھردادا دادی اور نانا نانی ہوتے ہوئے اس غلطی کا احساس کہ اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ شفقت نہ کرسکنا، اور اسی طرح کے کئی مزید دیگر احساساتِ ندامت کی ایک فہرست جو کہ بڑھتی ہی رہتی ہے۔

 

غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ احساسِ ندامت اس بات کا ہی ایک جزو ہے کہ ہم انسان ہونے کے ناطے  اصل میں کیا ہیں، یہ ہمیشہ ہمارے ضمیر سے کھیلتا رہتا ہے۔ اگر ہم کچھ بھی غلط کریں تو یہ احساس ہمیں ہر اس غلط بات پر جھنجوڑتا رہتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے، ہمارا ردِ عمل کیسا ہونا چاہئے، ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا۔ احساسِ جُرم، احساسِ ندامت، پچھتاوا ! اگر ہم اس احساس کو  ایسے ہی رہنے دیں تو یہ ہمیں اندر سے مار ڈالتا ہے۔ یہ ہمارے اندر کی آواز بن جاتا ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اچھے انسان نہیں ہیں، یہ  احساس ہمیں یہ  بتاتا ہے کہ ” اگر تم صرف یہ کرلیتے“ ، ”اگرصرف  ایسا  ہو جاتا“، ” اگرتم صرف اتنے سُست نہ ہوتے“، ” اگر صرف یہ“ ، ”اگر صرف وہ“ اور ” اگرصرف ایسا“ وغیرہ وغیرہ ! اور جلد ہی وہ اندر کی آواز جوہمیں یہ یقین دلا رہی تھی کہ ہم ایک بُرے انسان ہیں، اب وہ آواز ہمیں قائل کرلیتی ہے  کہ ہم واقعی بُرے ہیں اور پھر ہم اسی طرح عمل کرنے لگتے ہیں اور یہ سب ہمارے اعمال سے جھلکنے لگتاہے۔ پھر ہم بُرے لوگوں کی طرح عمل کرنے لگتے ہیں ۔ اور پھر ہم جانتے بوجھتے ہوئے گناہوں کا ارتکاب  کرنے لگتے ہیں ،  پھر مزید احساسِ جُرم ہوتا ہے، اور پھر مزید گناہ  ... اور یکایک یہ سب یوں ہمارے مزاج میں گھر کر لیتاہے جو ہم کبھی چاہتے بھی نہ تھے۔

  

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

 

»وإن أصابك شيء فلا تقل‏:‏ لو أني فعلت كان كذا وكذا، ولكن قل‏:‏ قدر الله، وما شاء فعل؛ فإن لو تفتح عمل الشيطان«

...اگر تم پر کوئی مصیبت آن پڑے تو ایسے نہ کہو: " اگرمیں یوں کرتا یا ویسے عمل کرلیتا تو اس کا نتیجہ ایسا اور ایسا نکلتا، بلکہ صرف یہ کہو، اللہ کو یہی منظور تھا اور ایسے ہی ہُوا جیسا اللہ نے چاہا۔ یہ لفظ ' اگر' شیطانی وسوسوں کی راہ کھول دیتا ہے( مسلم)۔

 

ہاں یہ شیطان کے وسوسے ہوسکتے ہیں تاکہ وہ ہمارے جذبے کو ختم کرڈالیں  اور ہم اپنے آپ کو لاچار و بے بَس سمجھنے لگیں اور کوشش کرنا ہی تَرک کردیں ۔ لیکن کیا ہو گا اگر ہم اسی احساسِ جُرم کو ایک مختلف انداز سے دیکھیں، اگر ہم ایک مختلف پہلو سے اس کا جائزہ لیں ، اور اسے اس طرح سے دیکھیں جو کہ اس کی اصل حقیقت ہے ؟ غور کریں ! تو احساسِ جُرم ہمیشہ بُرا نہیں ہوتا، یہ تو اکثر ہمارا زاویۂ نگاہ ہوتا ہے جو صحیح کو بھی غلط اور حلال کو بھی حرام سمجھ لیتا ہے۔ ذراغور کریں ! کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم کچھ کر بھی پاتے ؟ ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ ہم کچھ غلط کررہے ہیں؟ غور کریں تو ہم اپنے ہر عمل کے بارے میں احساسِ غلطی محسوس کرتے ہوئے اور مسلسل اپنے اعمال پر خود سوالات اُٹھاتے ہوئے، اپنے بارے میں  بہت حد تک سخت گیر ہوسکتے ہیں، لیکن ہمیں اس شاندار و زبردست آیتِ مبارکہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے :

 

﴿وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَة

” اور پشیمان ہونے والے نفس کی قسم ہے “ ( القیامۃ: 2)

 

یہ آیتِ مبارکہ کس طرح  سےہمارا نکتۂ نظر بدل سکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نَّفْسِ اللَّوَّامَة کی قسم کھاتے ہیں ، یعنی جو پشیمان ہونے  والا نفس ہے۔ اللہ جل جلالہ خود اس نفس کی قَسم کھاتے ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کسی چیز کی یونہی قسم نہیں کھا تے۔ ذرا غور کریں تو اس وصف کا ہونا ایک اچھی بات ہے! یہ ایک ایسا وصف ہے جو ہمیں اس راہ سے دُور کھینچ کے رکھتا ہے جس سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور اُس راستےپر لے جاتا ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے، یہ صفت ہمیں جگائے رکھتی ہے اور ہمیں ایک الگ راہ پر رکھتی ہے۔ اور جب ہم غلطی کو صحیح نظر سے نہیں دیکھتے تو اب یہ صفت ،نَّفْسِ اللَّوَّامَةنہیں رہتی، اب یہ پشیمان ہونے والا نفس، نفس الامّارۃ میں بدل جاتا ہے جو کہ ہروقت بُرائی سے  جڑنے والا نفس ہے۔ جب ہم غلطی کو غلطی سمجھنا چھوڑ دیں تو یہی نفس ایک بَلا  یعنی ایک آزمائش بن جاتا ہے۔ اور کیونکہ ہم اپنے آپ  کے لئے خود یہ طے کرلیتے ہیں کہ ہم  ” بے بس و مجبور“ یا   ” درستی کے قابل نہیں ہیں“  اور ہمارے لئے کوئی نجات نہیں ہے تو پھر ہم گناہ کئے چلے جاتے ہیں ، استغفراللہ ! لیکن ہمارے پیارے پیغمبر محمد ﷺ نے ہمیں  بالکل  الگ انداز سے یہ سکھایا ہے ۔ آپ ﷺفرماتے ہیں :

 

»وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ«

” اُس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم خطا نہ کرتے تو اللہ تمہارا وجود ہی ختم کردیتا اور تمہاری جگہ اُن لوگوں کو بدل دیتا جو اگر گناہ کرلیتے تو اللہ سے استغفار کرتے اور اللہ اُن کو معاف کردیتا “۔

 

ایک اور زبردست حدیثِ مبارکہ  جو ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے محبوب بندے اور سچے مومن بننے کی اُمید دلاتی ہے  ، ایسے کہ ہمارے گزشتہ تمام اعمال مٹ سکتے ہیں اور  ہم  ایک بالکل کورے اور صاف نئے نامۂ اعمال کے ساتھ آسانی سے نئے سرے سے آغاز کرسکتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا :

 

»‏...فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الإِسْلاَمِ إِذَا فَقِهُوا«‏‏

...وہ جو زمانۂ جاہلیت میں بہترین تھے، اسلام میں بھی بہترین ہوں گے اگر وہ (اسلام کی تعلیمات ) سمجھ جائیں“ (بخاری)

 

یہ حدیث ہمیں یہ ثابت کرتی ہے کہ ہمیں کبھی بھی نااُمید نہیں ہونا چاہئے، غلطی دوبارہ نہ کریں اور بہتری کی جانب آگے بڑھیں۔ اور یہ کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ہم ماضی میں کیا اعمال کر چکے ہیں، اگر ہم سچے دِل سےاپنی غلطیوں پر نادِم اور شرمندہ ہوں اور  اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے توبہ کریں  تو  ہم بھی اچھے انسان ، ایک سچے مومن اور اللہ کے نیک بندے بننے کے لائق ہوسکتے  ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خطا سَرزد  ہوجانا ناممکن ہو جائے گا۔ ہمارا ماحول ہی اب ایک چیلنج بن چُکا ہے ، گناہ  تو اب واقعی ہماری دہلیز تک پہنچ چُکے ہیں ، ان کا مرتکب ہو جانا بہت آسان ہوچُکا ہے ۔ ہمارا معاشرہ ایسا بن چُکا ہے جو ان گناہوں سے آگاہ نہیں ہے۔ پس پھر کیا ہوگا جب  معاشرے کے لوگوں میں  گناہ پر احساسِ جُرم ہی نہ رہے ؟  اور جب گناہ کرنا ان کی روایت و رواج بن  جائے ؟

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 

﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

” اور تم میں (ایک جماعت ) ضرور ایسی ہونی چاہئے جوخیر کی طرف بُلائے،  نیکی کا حُکم دے اور بُرائی سے روکے اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“( آل عمرٰان : 104)

 

پس ایک قوم ضرور ایسی ہونی چاہئے جو اَمربالمعروف ونہی عنِ المنکر کرتی رہے یعنی نیکی کا حکم دے اور بُرائی سے روکتی رہے۔ لہٰذا جب نفوس الامّارہ ، یعنی بُرائی پر مصر نفوس ، حاوی ہونے لگیں ، تو پھر نفوس اللوامۃ، یعنی پشیمان ہونے والے نفوس ، آگے بڑھیں  جوخَیر کو جگائیں  اور نیکیوں سے جوڑدیں۔ لیکن افسوس، آج ایسا نہیں ہے۔ ہم ایک سیکولر ، سرمایہ دارانہ پیسوں کی مشین کے نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں جو ہمیں محض اعداد یا  اشیائے تجارت کے طور پردیکھتا ہے۔ ہم نوعِ انسانی کے اعتبار سے نہیں دیکھے جاتے جس کی جبلتیں اور حاجات ہوتی ہیں ۔ ہمیں  "تفریحِ طبع " اور ہَوس کا ایک ماحول مہیا کیا  جاتا ہے تاکہ خودغرض، لالچی اور سرمایہ دار اشرافیہ اس سے اپنے لئے مزید پیسہ کمانے  کے لئے ہرطرح سے استعمال کرے اور انسانوں سے مزید مال بٹورتی رہے۔ اس کے برعکس اسلام ہمیں اشیاء کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ ایسی روحوں کے طور پر دیکھتا ہے جنہیں روزِ قیامت اپنے رَب ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا سامنا کرنا ہے۔

 

اسلام ہمیں ایک ایسا پاکیزہ ماحول اور معاشرہ فراہم کرتا ہے جو ہماری طبع کے خلاف نہیں بلکہ  وہ ہماری مدد کرتا ہے ۔ وہ ماحول ہماری جبلتوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور ہماری ضرورتوں کو پُوراکرتاہے۔ اسلام کا نظامِ حکمرانی، نظامِ خلافت، ایک ایسا معاشرہ  تشکیل دیتا ہے جو صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرتا ہے  اور اُسی کی رضا و خوشنودی کو پسند کرتا ہے ، یہ معاشرہ احساسِ ندامت کو اپنے لئے ایک ایسے  زاویہ کے طور پر استعمال کرتا  ہے تاکہ ہمارے اعمال درست سمت میں رہیں اور ہم اپنےنفس کے آگے لاچار وبے بس نہ ہوجائیں بلکہ اگر ایسے منفی خیالات  آبھی جائیں تو ہم انہیں اپنے آپ کواللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب رجوع کرنے کے لئے  استعمال کریں اور بخشش طلب کرتے رہیں اور  دوبارہ اپنے آپ کو اپنے رب کے عاجز بندوں میں شُمار کرنے  کی کوشش کریں۔

 

Last modified onجمعرات, 14 دسمبر 2023 00:56

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک