الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

عمران خان، پی ٹی آئی، سائفر اور غیرانقلابی انقلاب پسندی (Non radical radicalism) کا مسئلہ

 

انجنئیر معیز اعوان، ولایہ پاکستان

 

امریکی خبررساں ادارے، دی انٹرسیپٹ(The Intercept) کی جانب سے خفیہ دستاویز 'سائفر' کا متن جاری کرنے سے ایک بار پھر پاکستان کے معاملات میں امریکی مداخلت کے بارے میں بحث چھِڑ گئی ہے؛ یاد رہے کہ سائفر وہ خفیہ دستاویز ہے جس کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کردیا تھا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی حکومت کو امریکہ نے برطرف کیا تھا۔

 

اس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ معیشت میں ناقص کارکردگی کی وجہ سے ،مختلف سروے کے نتائج میں عمران خان کی مقبولیت کم ہونے سے یہ تاثر بڑھتا جا رہا تھا کہ عمران خان کا دور اور اندازِ حکمرانی، پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتوں سے چنداں مختلف نہیں ہے، اور یوں ستمبر 2021 میں عمران خان نے دیکھا کہ وہ مشکل صورتِ حال میں پھنس گئے ہیں۔ پھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کو عمران خان کی حکومت گرانے کے لئے سیاسی اقدامات شروع کرنے کا گرین سگنل دے دیا۔

 

اپنی ناقص حکومتی کارگردگی اور گِرتی ہوئی عوامی مقبولیت سے پریشان ہوکر عمران خان نے اپنی کامیاب ترین نئی پروپیگنڈا مہم کا آغاز کیا۔ عمران خان نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات بھڑکانے کا فیصلہ کیا۔ خان نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت کی برطرفی خراب کارکردگی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ اس نے روس اور یوکرین کے تنازعہ پر سپرپاور امریکہ سے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا تھا۔ اور اب عمران خان کے حامی یہ دلیل دے رہے ہیں کہ سائفر دستاویز کا متن پی ٹی آئی سربراہ کے اس مؤقف کو درست ثابت کرتا ہے، جس کا حوالہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف امریکی دشمنی کے ثبوت کے طور پر دیا تھا۔

2011 میں مینارِ پاکستان لاہور پر ہونے والے مشہور سیاسی جلسہ کے بعدسے، پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے عروج نے پاکستان کے سیاسی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ۔  پاکستان کی روایتی  حکمران اشرافیہ اور اربابِ دانش اُن مروجہ سیاسی روایات اور قوانین کو یکسر نظرانداز ہوتا دیکھ کر شدید حیران وپریشان ہو گئے جو اس حکمران اشرافیہ نے آپس میں طے کررکھے تھے، جس کی وجہ عمران خان کی  اشتعال انگیز سیاست  تھی۔ اُس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت سے عمران خان نے  دہائیوں سے موجود  سیاسی جماعتوں اور حکمران اشرافیہ کے متفقہ طرزِ حکمرانی کے خلاف ایک انقلابی بیانیہ مرتب کرلیا۔

 

عمران خان نے عوام کے اندر گہرے غم وغصہ اور مایوسی کو بھانپ لیا تھا جو کہ جمہوری نظام کی ناکامیوں سے تنگ آچکے تھے۔ عوام اس موجودہ نظامِ حکمرانی  اور سیاسی قیادت کا متبادل چاہتے تھے۔ پرانی  سیاسی جماعتوں اور ان کی روایتی قیادت پرانتہائی جارحانہ وار کرکے عمران خان کے انقلابی بیانیے نے روایتی سیاست کے قانونی جواز مجروح کرنے کی کوشش کی۔

 

تاہم، اس بیانیہ نے نادانستہ طورپر خود پاکستانی ریاست کے بہت سے اداروں کےقانونی جواز پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ عمران خان نے عدلیہ پر وار کیا جس پر انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ شریف خاندان کے وفاداروں سے بھری ہوئی ہے۔ خان نے الیکشن کمیشن پر  حملہ کیا اور اس پرسیاسی طرفداری کا الزام لگایا۔ عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بھی ٹکراؤ کی راہ اختیار کی جہاں انہوں نے  اپنی پارٹی کے ساتھ سیاسی عداوت رکھنے والے فوجی جرنیلوں پر نام لے کر تنقید کی ۔ اس کے بعد عمران خان نے بیوروکریسی پر تنقید کی اورکہا کہ وہ ان کی حکومت کی راہ میں روڑے اَٹکا رہی ہے۔ پس اس طرح، عمران خان کی شعلہ بیاں سیاست کی جارحانہ بیان بازی سے کوئی بھی محفوظ نہ رہ سکا۔

 

اگرچہ عمران خان کا سیاسی بیانیہ اتنا انقلابی بہر حال تھا کہ اس نے پاکستانی ریاست اور روایتی سیاسی جماعتوں کے لئے قانونی جواز کا بحران پیدا کردیالیکن خان نے اپنے اشتعال انگیز بیانیہ کو محض طاقت و اقتدار کے حصول کے لیے  استعمال کیا۔ یہ امر عمران خان کی حمایت کی نوعیت سے واضح ہے، جو کہ ان کی سیاسی پارٹی یا نظریاتی پلیٹ فارم کی بنا پر نہیں بلکہ فقط ان کی شخصیت کے گرد گھومتی کرتی ہے۔ اس بیانیہ کے مطابق، عمران خان ہی وہ سیاست، پالیسی ، نظریہ اور حکمران ہے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ عمران خان کی یہ شخصی اور اپنی ذات کے گرد گھومتی ہوئی سیاست اس وقت صاف دکھائی دی  جب پی ٹی آئی نے یہ بیانیہ تشکیل دے دیا کہ "عمران خان ہماری ریڈلائن ہے"، ایسا اس وقت کیا گیا جب یہ واضح ہو گیا تھا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ انہیں گرفتار کرنے، الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے اور دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے  ۔

 

پی ٹی آئی اور عمران خان کا ابھرنااور پھر زوال پزیر ہونا ، غیر انقلابی انقلاب پسندی(Non-radical radicalism) کے مسئلہ کی وجہ سے ہے۔ عمران خان اُس انقلابی ولولہ کی موج پر سوار رہےجو  مسلم دنیا میں شدت کے ساتھ موج زن ہے۔ یہ انقلابی دھارے اپنے غیض و غضب کو مسلمان حکمرانوں اور حکومتی ڈھانچے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، کہ جس نے امت کو مصائب اور ذلت کی دلدل میں دھنسا دیا ہے ۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ عمران خان کے عروج کا وقت مشرقِ وسطیٰ کی 'عرب بہار' کے ساتھ ہم آہنگ تھا جس نے مسلم دنیا کے سیاسی ڈھانچہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔  اس 'عرب بہار' نے بہت سی مصنوعی ریاستوں کو متزلزل کردیا جو  خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد یورپی استعمار نے قائم کیں تھیں۔ عمران خان نے اس انقلابی جوش وولولہ کو جوکہ عوام کے اندر اُبل رہا تھا، اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے  استعمال کیا۔ تاہم، اُس نے اِس جوش و ولولہ کو پاکستان میں نافذ سیاسی ڈھانچے اور حکمرانی کے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے سے اجتناب کیا، جو کہ حقیقت میں پاکستان کے مسلمانوں کی مشکلات کی اصل وجہ ہے۔

 

دنیا بھر کے دیگر پاپولسٹ لیڈروں کی طرح، عمران خان نے بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر پائے جانے والے امریکہ مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کے لئے' عزت و وقار کی بحالی کی سیاست' politics of dignity کو کامیابی سے استعمال کیا۔ اس نے اپنی تصویر کشی  ایک ایسے امریکہ مخالف سیاستدان کے طور پر کی جو امریکی غرور وگھمنڈ سے اتنا ہی متنفر ہے جتنا کہ گلی کوچے کا ایک عام مسلمان۔ تاہم، عزت و وقار کی یہ سیاست امریکہ مخالفت پسندی anti-americanismکی ایک بے ضرر قسم ہے۔ پاپولزم کی اس مخصوص قسم  کا بے ضررامریکہ مخالف بیانیہ دنیا پر امریکی بالادستی کو چیلنج  کرنے کی قطعاً  کوشش نہیں کرتا۔  پاپولزم کی یہ قسم لِبرل ورلڈ آرڈر کو بھی چیلنج نہیں کرتی، اوراس کا مقصد دنیامیں یا حتیٰ کہ مسلم دنیا یا پاکستان میں اہم و بنیادی امریکی مفادات کو زَک پہنچانا نہیں  ہے۔ یہ پاکستان اور امریکہ کے مابین ماتحتی وتابعداری کے تعلق کو توڑنے کی کوشش بھی نہیں کرتی۔ حتیٰ کہ پاپولزم کی یہ قسم خطے کے لئے اُس امریکی ویژن کو بھی چیلنج نہیں کرپاتی جہاں امریکہ بھارت کو چین ہم پلہ حریف کے طور پر تیار کررہاہے جبکہ پاکستان کی طاقت کو افغانستان میں طالبان کو سنبھالنے کے لئے استعمال کررہاہے۔

 

پس عمران خان کا امریکہ مخالف بیانیہ غیر انقلابی non-radical ہے اگرچہ یہ بیانیہ عوام میں ایک انقلابی رائے عامہ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ کی یہ 'غیر انقلابی انقلاب پسندی' مسلم دنیا کو طاقتور انداز میں مکمل طور پر تبدیل کر دینے کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ حقیقی انقلابی تبدیلی ایک نئی ویژن، نئے نظریہ اور نئی سیاست پر مبنی ہے۔ یہ حقیقی انقلابی تبدیلی مسلم دنیا میں موجودہ حکومتی ڈھانچے کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا اور اس کو اسلام کے نظامِ حکمرانی سے تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

 

ذرا سائفر کے معاملے پر ہی غور کریں ! عمران خان نے اگرچہ اسے امریکہ مخالف رائے عامہ کو بھڑکانے کے لئے ایک چابک کی طرح استعمال کیا ہے لیکن اس خط کا متن یہ دکھاتا ہے کہ پاکستانی سفیر امریکی معاون وزیرِخارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیاء، ڈونلڈ لُو کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ موقف پیش کر رہے ہیں کہ پاکستان نے روس یوکرین جنگ کے حوالے سے امریکی مفادات کو چیلنج نہیں کیا۔ سائفر میں پاکستانی سفیر اور ڈونلڈلُو کے مابین اس بات پر واضح اتفاق نظر آتا ہے کہ عمران خان کا یہ عوامی رُوپ کہ وہ  روس یوکرین تنازعہ پر مغرب کی طرفداری سے انکاری ہے ، محض پاکستان کی اندرونِ خانہ سیاست کی خاطر تھا۔

 

امریکہ میں پاکستان کے سفیر، اسدمجید خان نے کہا :" سیاسی جلسہ کے دوران وزیرِ اعظم کا بیان ،اسلام آباد میں یورپی سفیروں کی جانب سے سفارتی آداب اور پروٹوکول کے منافی لکھے گئےکھلے خط  کے ردعمل میں تھا۔ کوئی بھی سیاسی رہنما، خواہ وہ پاکستان میں ہو یا امریکہ میں، اس طرح کی صورتحال میں عوامی سطح پر جواب دینے پرمجبور ہو گا"۔ سفیر نے مزید کہا کہ امریکی سیاسی قیادت غلط فہمی کا شکار ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس کی وجہ امریکی اور پاکستانی سیاسی رہنماؤں کے مابین اعلیٰ سطحی سفارتی اور سیاسی روابط کا فقدان ہے۔ سفیر نے مزید رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ نےاس مسئلہ کو اتنا شدت سے محسوس کیا تھا تو اسے اپنی تشویش کا اظہار پہلے ہی کر دینا چاہئے تھا نہ کہ عمران خان کے دورۂ ماسکو کے بعد۔ سفیر نے کہا کہ پاکستان، افغان پالیسی پر روس کے ساتھ تعاون کی خاطر، ماسکو کے ساتھ رابطے کے راستے کھلے رکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح انہوں نے یہ اشارہ دیا کہ پاکستان کے دورۂ ماسکو کا مقصد بھی افغانستان میں امریکی مفادات کا تحفظ ہی تھا۔ ان تمام باتوں میں سے کسی کو  بھی ،سائفر کی مسئلے اور پاکستان کے سیاسی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کے معاملہ پرعمران  خان کے عوامی بیانیہ میں جگہ نہ مل سکی۔

 

عمران خان ایک خاص قسم کے امریکہ مخالف بیانیہ کو بھڑکانا  چاہتے ہیں کہ جس سے انہیں اپنے سیاسی اہداف کے حصول میں مدد ملے۔ جیسا کہ ان کے سفیر کے تفصیلی دلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کی وہ حکومت، جس کی وہ سربراہی کر رہے تھے، امریکہ مخالف پالیسی  ہرگز نہیں چاہتے تھے۔ اس کے برعکس، عمران خان نے توبارہا  امریکی سیاسی قیادت کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطے استوار کرنا چاہے۔ ان کی حکومت نے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ متعدد امور پر کام کیا۔ ان امور میں بائیڈن کا افغانستان سے انخلاء اور امریکی اصرار پر بھارت کے ساتھ نارملائزیشن کے ایجنڈے کو جاری رکھنا  شامل تھا۔

 

مزیدبرآں، عمران خان کی جانب سے امریکی حمایت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش، کسی حقیقی امریکہ مخالف  عالمی نکتۂ نظر کے تصور کوہی ختم کردیتی ہے، جیسا کہ  بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ خان کی برطرفی کے پیچھے دراصل خان کا امریکہ مخالف نقطہ نظر ہے۔ خان  نے امریکی قانون سازوں کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی   اور اس نے امریکی انتظامیہ اور امریکی کانگریس سے براہِ راست اپیل کی۔ خان کی خواہش تھی کہ امریکہ پاکستان کی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالے کہ وہ ان کی پارٹی کو ختم کرنے اور اس کے خلاف ظلم و جبر کی مہم چلانے سے باز رہے۔  لہٰذا عمران خان جب  اقتدار سےباہر ہوئے تو وہ اپنے اس مشکل دور میں پاکستانی معاملات میں امریکی مداخلت کو دعوت دیتے رہے ۔

 

یہ دلیل قائم کی جا سکتی ہے کہ یہ غیرانقلابی انقلاب پسندی نہیں ہے۔ یہ ایک خالص دورُخی سیاست (Machiavellian politics ) ہے جس میں ایک اقتدار کا بھوکا سیاستدان امریکہ مخالف بیانیہ کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے۔ باالفاظِ دیگر، یہ کسی سیاستدان کی منافقت کی ایک اعلیٰ  مثال ہے۔ اور عمران خان کے معاملے میں یہ بات بالکل صادق آتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اور اشرافیہ حقیقی معنوں میں امریکہ کے گھمنڈ اور تکبر سے نالاں ہیں۔ اور وہ امریکی پالیسی اور امریکی ورلڈ آرڈر کی زد میں آنے کی ذلت کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو مستقل طور پر امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان کا بازو مروڑتے رہے ہیں، اور پاکستان کے عوام اس کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی دیتے رہے ہیں۔ پاکستان کی بازو مڑوڑنے کے حربوں میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور پاکستان پر ایف اے ٹی ایف FATF کا دباؤ شامل ہے تاکہ وہ بھارتی مفادات کے تحفظ کے لئے قانونی اور مالیاتی اصلاحات متعارف کرائے۔ اس میں آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو مجبور کرنا بھی شامل ہے اور پاکستان کے وزیرِخزانہ کے الفاظ کے مطابق، آئی ایم ایف کی جانب سے سخت ترین شرائط پر قرض پروگرام کے ذریعے پاکستان کو ناک سے لکیریں نکالنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان حربوں میں یہ بھی شامل ہے کہ حرماتِ اسلام پر حملے کے معاملہ میں پاکستانی ریاست کو مجبور کیا گیاکہ  وہ معاشی فوائد یا یورپی ریاستوں کے خلاف دشمنی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔

 

تاہم، پاکستان اور مسلم دنیا کی سیاسی اور فوجی قیادت مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے خلاف پائے جانے والے حقیقی غم و غصے کو ایک انقلابی اور جامع مغرب مخالف اورامریکہ مخالف عالمی نقطہ نظر کی شکل  دینے میں ناکام رہی ہے۔ ایک ایسا عالمی نقطہ نظر جو مسلمان علاقوں اور مسلم مفادات کے خلاف مغرب کی زیادتیوں کو چیلنج کرنا چاہتا ہو۔ ایک ایساعالمی نقطہ نظر جو مسلم دنیا کے معاملات کو اسلام کے نظریۂ حیات (آئیڈیالوجی) کے مطابق منظم کرنا چاہتا ہو۔ ایک عالمی نقطہ نظر جو مسلم ممالک سے مغرب کی ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور ملٹری موجودگی کو بے دخل کرے۔ ایک نقطہ نظر جو صدیوں سے دنیا کو منور کرنے والی عظیم اور طاقتور اسلامی تہذیب کو دوبارہ زندہ کرے اور جو فکری طور پر تمام نظریات سے برتر اور اعلیٰ ہونے کی بنیاد پر ،دنیا میں موجوددیگر تمام نظریات کے ساتھ براہِ راست ٹکر لے ۔

 

مسلم دنیا میں حقیقی طور پر امریکہ مخالف اور مغرب مخالف احساسات و جذبات ہونے کے باوجود، مسلم حکمران اور اہلِ دانش اشرافیہ نے مغرب اور باقی دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے ایک تہذیبی اورجامع نقطہ نظر کو اپنانے سے انکار کیا ہے۔ اور اب یہی غیر انقلابی انقلاب پسندی مسلم دنیا میں انقلابی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مسلم حکمران اور دانشور اشرافیہ مسلم عوام اور انٹرنیشنل آرڈرکے درمیان پھنسے ہوئے ہیں، ایک طرف مسلم عوام ہیں  جو شدت سے مغرب اور امریکہ مخالف ہیں اور جو ریاست کی سطح پر اسلامی نظریہ کا نفاذ چاہتے ہیں  اور دوسری طرف انٹرنیشنل آرڈر اور اس کے مطالبات ہیں جو اِن مسلم حکمرانوں اور دانشوراشرافیہ کو مجبور کئے ہوئے ہیں کہ وہ مغرب اور  دوسری بڑی طاقتوں کے مفادات کے سامنے سرتسلیم خم کریں۔

 

1924 میں خلافتِ اسلامیہ کے انہدام کے بعد سے مسلم حکمران  اور مسلم اشرافیہ مسلم دنیا کے لئے ایک نیا رستہ بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔  یعنی ایک ایسا راستہ جو ریاستِ خلافت کی سیاست سے جدا اور مختلف ہے۔ خلافت مغرب اور باقی دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو تہذیب کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ خلافت  ان تمام طاقتوں اور نظریات کے ساتھ براہ راست محاذآرائی  اور ٹکراؤ میں رہی جو اسلامی نظریہ سے متصادم تھے اور انہیں چیلنج کرتی رہی ۔ خلافت کا عالمی نکتۂ نظر یہ ہے کہ دنیا دارالاسلام اور دارالحرب میں تقسیم ہے۔ دارالاسلام وہ علاقے ہیں جہاں اسلام نافذ ہے، اور دارالحرب یا جنگ کی سرزمین  وہ تمام علاقے ہیں جو اسلام کی حکمرانی سے محروم ہیں۔ خلافت کا عالمی نکتۂ نظر یہ تھا کہ یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاد کے ذریعے اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک لے کر جائے۔ اس نظریہ کو مسلم اشرافیہ نے تصور کیا کہ یہ تو بہت ہی انقلابی نکتہ نظرہے۔

 

اب  جبکہ خلافت کے انہدام کو سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے، تاہم اب بھی  مسلم اشرافیہ اس تاریخی اور اسلام کی آئیڈیالوجی سے پھوٹنے والی فکری انقلابی ویژن کو اپنانے سے انکار کررہی ہے ۔ مسلم اشرافیہ باہمی تعاون پرمبنی درمیانی راہ کی تلاش میں ہے جہاں مسلم دنیا دوسری تہذیبوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ اپنی تہذیبی شناخت کو برقرار رکھ سکے۔ بہرحال اس طرح کی خیالی اور ناسمجھی کی کاوشیں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔  اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے مابین سو سال کے نام نہاد مباحثے، تبادلہ خیال اور مل کر کام کرنے کا نتیجہ اسلامی علاقوں پر مغربی تہذیب کے کامل غلبے کی صورت میں نکلا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم اشرافیہ انقلابی راہ پر چلنے سے ہچکچانے کو ترک کردے۔  اسلام دوسرے نظریات اور نکتۂ ہائے نظر کے ساتھ ہم آہنگی اور سمجھوتہ پر یقین نہیں رکھتا۔ اسلام کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمام انسانیت کے لئے ہدایت کے طور پر نازل کیا ہے اور یہ پوری دنیا کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی کے مطابق  ڈھالنے کی جستجو کرتاہے، جسے اللہ نے اپنے آخری نبی محمد ﷺ پر پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا تھا۔

 

﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِوَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤمِنُونَ بِاللّهِ﴾

”(مسلمانو!) تم وہ بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ،برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“(آل عمران؛ 3:110)

Last modified onپیر, 28 اگست 2023 03:55

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک