الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت کا قیام  "اُمّ الفرائض "ہے

نوید بٹ :پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

 (نوید بٹ کو 11 مئی 2012 کو سیکورٹی ایجنسی کے لوگوں نے اغوا کیا۔)

 

            اسلام ایک مسلمان کو انفرادی فرائض مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکٰوة کے ساتھ ساتھ اجتماعی فرائض کی پابندی کا حکم بھی دیتا ہے۔ جس طرح اسلام ہمیں روزے فرض کرنے کے لئے (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْصِّیَامُ) "روزے تم پر فرض کردیے گئے ہیں" کا حکم دیتا ہے بالکل اسی پیرائے میں (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ) "قصاص لینا تم پر فرض کر دیا گیا ہے" کا حکم بھی دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلا حکم انفرادی نوعیت کا ہے جبکہ دوسرا حکم اجتماعی نوعیت کا۔ ایک مسلمان انفرادی طور پر روزے تو رکھ سکتا ہے لیکن انفرادی طور پر اﷲ کی حدود یا جنایات مثلاً قصاص نافذ نہیں کرسکتا۔ الحمد للہ عام طور پر انفرادی فرائض کی پاس داری کے لئے مسلمان ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں تک اجتماعی فرائض کا تعلق ہے تو اس کو پورا کرنے کے لئے کما حقہٗ آواز سننے کو نہیں ملتی۔

 

اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے اجتماعی فرائض کو پورا کرنے کا ایک واضح طریقہ کار بتایا ہے۔ مثال کے طور پر قصاص کے اجتماعی حکم کو نافذ کرنے کے لئے اسلام ایک شرعی قاضی کی موجودگی کا حکم دیتا ہے اور یہ اختیار فقط قاضی کو تفویض کرتا ہے کہ وہ ثبوت کی موجودگی میں سزا کا حکم صادر کرے۔ نیز اسلامی ریاست (یعنی خلافت) اس سزا کو نافذ کرنے کے لئے قاضی کو پولیس اور عملہ مہیا کرتی ہے جو فی الفوراس سزا کو نافذ کرتا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ اسلام بیشتر اجتماعی فرائض سے عہدہ براء ہونے کے لئے اسلامی ریاست (یعنی خلافت)کی موجودگی کو پیشگی شرط  (precondition)بنا تا ہے۔ اگر خلافت موجود نہیں ہے تو کوئی بھی شخص یہ استحقاق نہیں رکھتا کہ وہ کسی قاتل کو قتل کر دے۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ خلافت کی عدم موجودگی میں انفرادی طور پر قصاص نافذ کرنے کا یہ فرض ادا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح مسلمانوں پر یہ بھی اجتماعی طور پر فرض ہے کہ ان کے معاشرے میں ایک بھی شخص رات کو بھوکا نہ سوئے، مظلوم کو انصاف ملے اور ظالم کا ہاتھ روکا جائے، مسلمانوں کے تمام مقبوضہ علاقوں کو کافروں کے تسلط سے آزاد کرایا جائے، کشمیر، عراق، چیچنیا، فلسطین میں مسلمان پر ہونے والے ظلم کو روکا جائے، حکمران اسلام کے تحت حکومت کریں، اسلام کے درست فہم کو پورے معاشرے تک پہنچایا جائے، اسلامی دعوت کو پوری دنیا تک پھیلانے اور اِعلاء کلمةِ ﷲ کے لئے منظم جہاد کیا جائے وغیرہ۔ یہ امر واضح ہے کہ یہ تمام اجتماعی فرائض ہر شخص فرداً فرداً پورے نہیں کرسکتا اسی لئے اسلام نے ہمیں ان فرائض کو پورا کرنے کا طریقہ کار بتایا ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق مسلمان ان اجتماعی فرائض کی ذمہ داری، جو کہ درحقیقت "فرض کفایہ" ہیں، ایک شخص کی گردن پر ڈال دیتے ہیں اور اس سے سمع و طاعت کی بیعت کرتے ہیں؛ اس شرط پر کہ وہ ان پر اسلام نافذ کرتے ہوئے ان تمام اجتماعی فرائض سے عہدہ برآ ہوگا۔ تمام مسلمان ان فرائض کی انجام دہی میں اس کے حکم کی اتباع اور اس کی مدد کریں گے۔ چنانچہ یہ خلیفہ ہی ہوتا ہے کہ جو مسلمانوں سے خراج، عشر، زکوٰة وغیرہ اکھٹی کر کے انہیں مستحقین میں تقسیم کرتا ہے تاکہ کوئی بھوکا نہ رہے۔ یہ خلیفہ ہی ہوتا ہے جو ان مسلمانوں کو منظم کر کے ایک طاقتور فوج تشکیل دیتا ہے جس کے ذریعے جہاد کیا جاتا ہے اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا تک پھیلایا جاتا ہے۔ یہ خلیفہ ہی ہوتا ہے جو قاضی کو متعین کرتا ہے جو اسلام کے احکامات اور حدود نافذ کر کے مظلوم کو انصاف فراہم کرتا اور ظالم کا ہاتھ روکتا ہے۔

           

چنانچہ معلوم ہوا کہ بیشتر اجتماعی فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اسلام شرعی اسلامی ریاست (یعنی خلافت)کی موجودگی کو شرط (precondition) بناتا ہے۔ لہٰذا آج اسلام کے بیشتر اجتماعی فرائض خلافت اور شرعی اتھارٹی کے بغیر پورے ہی نہیں ہو سکتے۔ اسلام کی رو سے ہر وہ عمل جس پر کسی فرض کا دارو مدار ہو اور جس کے نہ کرنے کی بنا پر ایک فرض ادا نہ ہو سکتا ہو تو اس عمل کا کرنا بھی فرض ہو جاتا ہے۔ شرعی اصول ہے "مالا یتم الواجب الا بہ فھو واجب" (جس عمل کے کئے بغیر واجب ادا نہ ہوسکے تو پھر اس کا کرنا بھی واجب ہے)۔  چونکہ خلافت کی عدم موجودگی میں تقریباً تمام اجتماعی احکامات پر عمل در آمد نہیں ہوسکتا اسی لئے فقہاء، اقامت خلافت کو "اُمُّ الفرائض" قرار دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:(ھُوْ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدَیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ)"وہی وہ ذات ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ہدایت اور دین حق کیساتھ تاکہ غالب کر دے اسے تمام ادیان پر خواہ(یہ بات) مشرکوں کو کتنی ہی ناگوارہ ہو" (التوبہ:33)۔

        

    یہ امر بدیہی ہے کہ قرآن کے مندرجہ بالا حکم پر چلنے کے لئے یعنی اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے، ایک طاقتور ریاست کی ضرورت ہے جو یقیناً خلافت کے علاوہ کچھ نہیں۔ امام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب السیاسة الشرعیہ  پر اس کی یوں وضاحت فرمائی :"ریاست (خلافت) کی زبردست طاقت کے بغیر دین خطرے میں ہوتا ہے اور الہامی قوانین(شریعت) کے نفاذ کے بغیر ریاست جابرانہ ادارہ بن جاتی ہے"۔

            خلافت کی فرضیت کو رسول اﷲ نے اپنی احادیث مبارکہ کے ذریعے بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا۔ امام مسلمؒ نے ابن عمرسے روایت کیا کہ آپنے فرمایا:

((مَن خَلَعَ یَدًا مِّنْ طَاعَةٍ لَقِیَ اللّٰہَ یَومَ القِیَامَةِ لَاحُجَّةَ لَہُ، وَمَن مَاتَ وَلَیسَ فِی عُنُقِہ بَیعَة،مَاتَ مِیتَةً جَاھِلِیَّةً)) "جو شخص (امیر کی) اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لے تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت (کا طوق) نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔ اس حدیث میں دور جاہلیت میں مرنے سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ وہ شخص نعوذ باﷲ کافر مرے گا بلکہ یہ اس بات کو نہایت ہی بھرپور انداز میں بیان کرنے کا طریقہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایسی حالت میں زندگی بسر نہ کرے کہ اس کی گردن میں خلیفۂ وقت کی بیعت موجود نہ ہو۔ یعنی یہ حدیث اس امر کو بڑی سختی سے بیان کر رہی ہے کہ کوئی ایسا دور نہ گزرے جب مسلمان خلافت کے بغیر ہوں۔ لہٰذا اس حدیث کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ فرض قراردیا ہے کہ ہر مسلمان کی گردن میں خلیفہ کی بیعت کا طوق ہو، یہ نہیں فرض کیا کہ ہر مسلمان خلیفہ کی بنفس نفیس بیعت کرے۔ خلیفہ کے موجود ہونے سے ہر مسلمان کی گردن میں بیعت کا طوق ہوتاہے چاہے وہ بالفعل بیعت نہ بھی کرے۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خلیفہ کا تقرر اور خلافت کا ہونا فرض ہے۔

 

            ایک اور حدیث میں رسول اﷲ نے خلیفہ کے لئے شرعی اتھارٹی یعنی سلطان کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اس کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے۔ صحیح مسلم میں ابن عباس رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ((مَن کَرِہَ مِنْ اَمِیرِہ شَیئًا فَلیَصْبِرْ عَلَیہِ، فَاِنَّہُ لَیْسَ اَحَد مِّنَ النَّاسِ یَخْرُجُ مِنَ السُّلطَانِ شِبرًا، فَمَاتَ عَلَیہِ اِلَّا مَاتَ مِیتَةً جَاھِلِیَّةً)) "جس نے اپنے امیر کی کسی چیز کو ناپسند کیا تو لازم ہے کہ وہ اس پر صبر کرے۔ کیونکہ لوگوں میں سے جس نے بھی سلطان (یعنی شرعی اتھارٹی) کی اطاعت سے بالشت برابر بھی خروج کیا اوروہ اس حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔ اس حدیث میں نہ صرف سلطان (شرعی اختیار کے حامل شخص)سے علیحدگی اختیار کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ حدیث اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ مسلمانوں پر اپنے لیے ایک ایسے سلطان کو مقرر کرنا واجب ہے جس کی اطاعت کی جائے اور جو ان پر اسلام نافذکرے۔

      

      اس سے ملتی جلتی حدیث میں آپ نے جماعت سے بغاوت کرنے کی حرمت بیان فرمائی ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہاں جماعت سے مراد کوئی سیاسی پارٹی یا گروہ نہیں بلکہ "جماعت المسلمین" ہے یعنی خلیفہ تلے متحد امت مسلمہ۔ درحقیقت مسلمانوں کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنے والا محض خلیفہ ہی ہوتا ہے۔ جب خلیفہ موجود ہوگا تو مسلمانوں کی جماعت بھی ہوگی اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنا فرض او ران کے خلاف بغاوت حرام ہوگی۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا: ((مَنْ رَاٰی مِنْ اَمِیرِہ شَیئًا یَکْرَھُہُ فَلیَصْبِرْ عَلَیہِ، فَاِنَّہُ مَن فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبرًا فَمَاتَ اِلَّا مَاتَ مِیتِةً جَاھِلِیَّةً)) "جو شخص اپنے امیر کے کسی ناپسندیدہ کام کو دیکھے تو اس پر صبر کرے۔ کیونکہ جس نے بھی جماعت سے بالشت بھر علیحدگی اختیار کی او راس حالت میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔

            واضح رہے کہ یہ دونوں احادیث اُس وقت خلیفہ کی اطاعت کو فرض قرار دیتی ہیں جب وہ اسلامی نظام تو نافذ کر رہا ہو لیکن انفرادی طور پر کچھ خامیوں اور برائیوں کا شکار ہو یا کچھ لوگوں پر ظلم کررہا ہو اور کچھ کو نواز رہا ہو۔ لیکن اگر وہ اسلام کے بجائے کسی بھی کفر کے ذریعے حکومت کرے تو اس کی اطاعت لازم نہیں رہتی جس کا حکم رسول اﷲ کی دیگر صحیح احادیث میں ملتا ہے۔

 

            مزید برآں نبینے خلفاء کی اطاعت اور ان کی خلافت میں تنازع کرنے والوں سے قتال کا حکم دیاہے۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ خلافت کو قائم کرنا اور اس کی حفاظت کرنا اور اس میں تنازع کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ مسلمؒ نے نبیﷺسے روایت کی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ((وَمَنْ بَایَعَ اِمَامًا فَاَعْطَاہُ صَفْقَةَ یَدِہ وَثَمَرَةَ قَلْبِہ، فَلْیُطِعْہُ اِن استَطَاعَ،فَاِنْ جَآءَآخَرُ یُنَازِعہُ فَاضرِبُوا عُنُقَ الآخَرِ)) "اورجوشخص کسی امام( خلیفہ)کی بیعت کرے تو اسے اپنے ہاتھ کا معاملہ اور دل کا پھل دے دے (یعنی سب کچھ اس کے حوالہ کردے)پھر اسے چاہیے کہ وہ حسبِ استطاعت اس کی اطاعت بھی کرے۔ اگر کوئی دوسراشخص آئے اور پہلے خلیفہ سے تنازع کرے تو دوسرے کی گردن اُڑا دو"۔

            امام کی اطاعت کا حکم اس کی اقامت کا حکم بھی ہے او را س کے ساتھ جھگڑنے اوراس کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم خلیفہ کے ایک ہونے پر حتمی حکم (طلبِ جازم)کے لیے واضح قرینہ ہے۔  ایک دوسری حدیث میں تو آپﷺ نے اس کو نہایت ہی سادے اور کھلے انداز میں یوں بیان فرمایا: ((اِذَا بُوْیِعَ لِخَلِیْفَتَیْنِ، فَاقْتُلُوا الْا خِرَمِنْھُمَا)) "اگر دوخلفاء کے لیے بیعت کی جائے تو ان میں سے بعد والے کو قتل کردو"(صحیح مسلم) ((مَنْ اَتَاکُمْ، وَاَمْرُکُمْ جَمِیْع، عَلٰی رَجُلٍ وَّا حِدٍ، یُرِیْدُ انْ یَّشُقَّ عَصَاکُمْ، اوْ یُفَرِّقَ جَمَاعَتَکُمْ، فَاقْتُلُوْہُ))"تم کسی ایک شخص پر (امارت کے لئے) متفق ہو ا ورکوئی شخص آئے اور تمہاری صفوں میں رخنہ ڈالنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ ڈالے تو اسے قتل کردو" (صحیح مسلم)۔

 

اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ اسلامی ریاست تمام مسلمانوں کے لئے ایک ہی ہوتی ہے اور مسلمانوں میں ایک سے زائد خلیفہ اور اسلامی ریاست کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ مغرب سے حاصل شدہ "قومی ریاستوں" (Nation States)کے تصور کو اسلام سختی سے رد کرتا ہے۔ اس ضمن میں امام شافعیؒ (202ھ) الرسالة میں لکھتے ہیں:"مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ خلیفہ ایک فردِو احد ہی ہوسکتا ہے''۔ نیزامام الشوکانی اپنی تفسیرالقرآن العظیممیں  لکھتے ہیں: یہ"معلوم فی الاسلام بالضرورة" (وہ علم جس کا جاننا ہر مسلمان پر ضروری ہے مثلاً نماز، روزہ کے احکامات وغیرہ) میں سے ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کے مابین تفریق اور ان کے علاقوں کی تقسیم کو حرام قرار دیا ہے۔"

            چنانچہ مذکورہ بالا بحث میں وارد شدہ احادیث خلافت کو قائم کرنے، اس کی حفاظت کرنے، اس کی وحدت کو برقرار رکھنے اور خلیفہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے کے خلاف قتال کرنے کو فرض قرار دیتی ہیں۔ لہٰذا نہ صرف خلافت کا قیام ایک اوّلین فریضہ ہے بلکہ رسول اﷲ نے اس کو قائم رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کے لئے مسلمانوں کو اپنی جانیں تک نچھاور کرنے کا حکم دیا ہے۔

        

    یہاں میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ رسول اﷲ نے نہ صرف واضح انداز میں ہمارے نظام حکومت کا نام بتایا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ امت میں فقط چار یا پانچ خلیفہ نہیں آئیں گے بلکہ ان کی تعداد کثیر ہوگی۔ ہاں البتہ اسلام کے آغاز میں رشد و ہدایت یافتہ خلیفہ تیس سال تک رہیں گے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے۔ یہ حدیث "خلافت راشدہ" کے دور کے تیس سال تک قائم ہونے کی بشارت دیتی ہیں۔ لیکن یہ احادیث اس کی ہرگز نفی نہیں کرتیں کہ خلفاء راشدین کے بعد آنے والے حکمران خلفاء نہ ہونگے۔ جبکہ مندرجہ ذیل حدیث ان خلفاء کی کثرتِ تعداد پر دلالت کرتی ہے۔ مسلم نے ابو حازم ؒسے روایت کیاہے کہ انہوں نے کہا : "میں پانچ سال تک ابو ہریرہ کی صحبت میں رہا۔ میں نے انہیں نبیﷺسے یہ بیان کرتے ہوئے سناکہ آپﷺ نے فرمایا: ((کَانَتْ بَنُوْ اِسرَائِیلَ تَسُوسُھُمُ الاَنبِیَاءُ،کُلَّمَاھَلکَ نَبِیّخَلَفَہُ نَبِیّ، وَاِنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعدِی، وَسَتَکُونُ خُلَفَاءُ فَتَکثُرُ،قَالُوا: فَمَا تَمُرُنَا؟قَالَ: فُوْا بِبَیْعَةِ الاَوَّلِ فَالاَوّلِ، وَاعْطُوہُم حَقَّھُم، فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُھُم عَمَّا اسْتَرعَا ھُمْ)) "بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتاجبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہےبلکہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہ نے پوچھا:آپ()ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟آپ(ﷺ) نے فرمایا:تم ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پوراکرو اور انہیں ان کا حق اداکرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری  کے بارے میں پوچھے گاجو اُس نے انہیں دی

 

            خلافت تیس سال کے بعد بھی برقرار رہی لیکن ان کو چلانے والے انفرادی طور پر اس مقام پر فائز نہ تھے جو خلفاء راشدین کا تھا نیز اسلامی نظام کے نفاذ میں بھی کمزوریاں دیکھنے کو ملیں۔ اس لئے آپﷺ نے پہلے تیس سالہ دور کو "راشدہ" کے لاحقے کے ذریعے بقیہ خلافت کے ادوار سے ممتاز فرمایا۔ چنانچہ وہ حضرات جو سمجھتے ہیں کہ خلافت محض تیس سالوں اور چار خلفاء تک محدود تھی ان کی رائے درست نہیں ۔ نیز وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ "خلافت" ہی مسلمانوں کا نظام حکومت ہے تو وہ بھی اس حدیث سے جان گئے ہوں گے کہ رسول اﷲ نے ہمیں خبر دی ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی امور کی دیکھ بھال "خلفاء" کیا کریں گے۔ نیز مسلمانوں کے لئے یہ حکم صادر فرمایا کہ وہ مسلسل خلافت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک کے بعد ایک خلیفہ کو بیعت دیتے رہیں۔

           

جہاں تک خلافت کی فرضیت کے بارے میں کتاب اﷲ سے دلیل کا تعلق ہے توقرآن مسلمانوں کو اﷲتعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ کسی بھی نظام، نظریہ یا قانون کے تحت حکومت کرنے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ قرآن میں واردہوا ہے۔

(وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ ﷲُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکَفِرُوْنَ)

"اور جو اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ(احکامات) کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی کافرہیں" (المائدہ : 44) ۔

(وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ ﷲُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْظَّلِمُوْنَ)

"اور جو اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ(احکامات) کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں "(المائدہ : 45)۔

(وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ ﷲُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَسِقُوْنَ)

"اور جو اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ(احکامات) کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی فاسق ہیں"(المائدہ : 47)۔

            یہ آیات اس میں صریح ہیں کہ اﷲ کے قوانین کے ذریعے حکومت کرنا اچھا، بہتر، مندوب یا مستحب نہیں بلکہ فرض ہے۔ قرآن میں وار دشدہ تمام آیات جو ما انزل اللہ(اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ )کے ذریعے حکومت کرنے کا حکم دیتی ہیں بالواسطہ اس شرعی اتھارٹی اور حکومت کو قائم کرنے کا بھی حکم دے رہی ہیں جو ما انزل اللہکے مطابق حکومت کریگی۔ خلافت ہی وہ واحد اسلامی نظام حکومت ہے جسے سنت اور اجماع الصحابہ سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ایک حدیث کے ذریعے واضح کر چکا ہوں کہ رسول اﷲ نے نبوت کے بعد کثیر خلفاء کے ہونے کی خوش خبری سنائی ہے اور مسلمانوں کو ایک کے بعد ایک خلیفہ کی بیعت کر کے اس سلسلے کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ نیز بیعت کی بیشمار احادیث مسلمانوں کو خلیفہ کی اطاعت اور خلافت کے قیام کی تلقین کرتی ہیں۔ جہاں تکما انزل اللہکو جمہوریت، آمریت یا کسی بھی دوسرے نظام کے ذریعے نافذ کرنے کا تعلق ہے تو چونکہ کسی اور طریقۂ حکومت کی قرآن، سنت، اجماع الصحابہ اور قیاس جیسے شرعی ماخذ سے کوئی دلیل نہیں ملتی اس لئے ہم ان کی طرف رجوع نہیں کر سکتے۔ اس کی ممانعت ہمیں رسول اﷲ کی اس حدیث میں ملتی ہے جس کے مطابق ہر وہ عمل یا نظام جس کی شریعت سے دلیل نہ ملے مردود ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ((کُلُّ عَمَلٍ لَیْسَ عَلیْہِ اَمْرُ نَا فَھُوَرَدّ)) "ہرو ہ عمل جس پر ہمارا حکم نہیں، تو وہ مردود ہے"۔  علاوہ ازیں اسلام کا نظامِ حکومت اور ریاستی ڈھانچہ بذاتِ خود ما انزل اللہمیں داخل ہے، کیونکہ اسلام نے جس طرح معاش و معاشرت وغیرہ کے متعلق احکامات دیے ہیں اسی طرح  وہ ریاستی ڈھانچہ بھی بیان کیا ہے کہ جس کے ذریعے یہ قوانین نافذ کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ مندرجہ بالا تمام آیات ہمیں بالواسطہ جس شرعی اتھارٹی کے قیام کا حکم دے رہی ہیں وہ خلافت کے علاوہ اور کوئی نظام حکومت نہیں۔

 

            مندرجہ بالا آیات کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جو مسلمانوں کوما انزل اللہ(اﷲ کے نازل کردہ )ہی کے ذریعے حکومت کرنے کا حکم دیتی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَاحْکُمْ بَینَھُمْ بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھوَاءَھُم عَمَّا جَآئَکَ مِنَ الْحَقِّ) "پس ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہےاس کے مقابلے میں ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں"(المائدہ:48)۔

            مزید برآں یہ آیت اس امر میں بھی واضح ہے کہ ہمیں اسلام نافذ کرنے کا حکم ہے نہ کہ لوگوں کی اکثریت یا اقلیت کی خواہشات کی پیروی کرنے کا۔ آج اسلام محض اس لئے ایوانوں سے باہر ہے کیونکہ نام نہاد عوامی نمائندوں کی اکثریت نے اسلام کے قوانین پر مہر تثبیت ثبت نہیں کی ہوئی۔ ہم پوچھتے ہیں کہ یہ 51 فیصدکی رضامندی کی شرط کس نے لگائی ہے؟جبکہ مندرجہ بالا آیت واضح انداز میں ہمیں حکم دے رہی ہے کہ اﷲ کے احکامات کے نفاذ میں لوگوں کی اہواء اور خواہشات کی پابندی کرنا ہرگز جائز نہیں۔ لہٰذا اس آیت کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ جمہوریت وہ نظام حکومت نہیں جس کے قیام کا یہ آیت تقاضا کرتی ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جس میں انسانی تعلقات کو منظم کرنے کے لئے درکار قوانین میں کسی قسم کی اکثریت ملحوظ نہیں رکھی جاتی بلکہ خلیفہ انہیں محض نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ ان قوانین کو اخذ کرنے میں اسلام ہمیں اکثریت و اقلیت نہیں بلکہ قوی شرعی دلیل پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (وَاِن تُطِعْ َکْثَرَ مَنْ فی الْا َٔرْضِ یُضِلُّوْکَ عنْ سَبِیْلِ ﷲِ...) "اور (اے محمدﷺ!)اگر آپ لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں، جوزمین میں بستے ہیں، تو وہ آپ کو اﷲ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے...'' (الانعام:116)۔ یہ آیت جمہوریت کے بنیادی فلسفے ہی کو رد کر دیتی ہے۔ ہاں البتہ کچھ مباح معاملات اور خلیفہ کے چناؤ میں اسلام ہمیں مسلمانوں کی اکثریت یا ان کے نمائندوں کی اکثریت کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے جو دیگر احادیث سے ثابت ہے۔

            ایک دوسری آیت میں اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف خلافت کی موجودگی اور اﷲ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرنے کو فرض قرار دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سختی کے ساتھ خبردار بھی کیا ہے کہ کہیں وہ مفاہمت (Compromise) اور سمجھوتے کی دلدل میں پھنس کر اسلام کے بعض احکامات کو نظر انداز نہ کر بیٹھیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھوَاءَ ھُم وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفتِنُوکَ عَن بَّعْضِ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ اِلَیکَ) "اور یہ کہ( آپﷺ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات )کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی کبھی نہ کیجئے گا۔ او ر ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات )کے بارے میں آپکو فتنے میں نہ ڈال دیں" (المائدہ:49)۔

        

    لہٰذا مسلم تحریکوں کو خبردار رہنا چاہئے کہ وہ کہیں استعمار یا ان کے ایجنٹوں کی خوشنودی کی خاطر، "قوم کے وسیع تر مفادمیں" یا سیاست چمکانے کی خاطر "اﷲکے نازل کردہ بعض"احکامات پر سمجھوتہ نہ کر بیٹھیں۔ اگر ایسا کیا تو نہ صرف یہ کہ اس دنیا میں کچھ ہاتھ نہ آئیگا بلکہ آخرت میں بھی شرمندگی اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اﷲ تعالیٰ نے سمجھوتہ کر کے کچھ اسلام کے نفاذ میں تاخیر یا کچھ کو پس پشت ڈالنے والوں کو ان الفاظ میں وعید سنائی ہے۔ (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذَلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیا وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلَی اَشَدِّ الْعَذَابِ) "کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان رکھتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو؟اور جو شخص ایسا کریگا تو دنیا میں اس کے لئے رسوائی ہے اور آخرت کے دن ان لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائیگا" (البقرہ:85)۔

            نیز اﷲ تعالیٰ نے بڑی سختی کے ساتھ اپنے پیارے نبی ﷺ کو دین اور وحی میں سمجھوتے اور کمپرومائز کرنے سے روکا اور فرمایا:(وَاِن کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِی اَوْحَیْنآ ِالَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہُ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوکَ خَلِیلاً وَلَوْلَاانْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدتَّ تَرْکَنُ اِلَیِھمْ شَیْئًا قَلِیلاًاِذًا لَّا َٔ ذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیَوٰةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْراً) "اور اے پیغمبرﷺ جو وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے قریب تھا کہ یہ (کافر) لوگ آپ  کو اس سے بچلا دیں تا کہ آپ  اس کے سوا اور باتیں ہماری نسبت بنا لو۔ اور اس وقت وہ آپ کو دوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رہنے دیتے توآپ کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے۔ اس وقت ہم آپ کو زندگی میں دونا اور مرنے پر بھی دونا مزاچکھاتے پھر آپ ہمارے مقابلے میں کسی کو اپنا مددگار نہ پاتے" (الاسراء:73-75)۔

            آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ اس کفریہ نظام میں اسلام کے کچھ احکامات پر کمپرومائز کر کے حکومتیں اور وزارتیں لے لیتے ہیں اور پھر استعمار کے ایجنٹ حکمران ان لوگوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے اور وہ ان کو دوست گرداننے لگتے ہیں۔ اسلام خلافت کے علاوہ کسی بھی کفریہ نظام چاہے وہ جمہوریت ہو یا آمریت،میں حصہ لینے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ کیونکہ ان نظاموں کا حصہ بن کر اسلام کبھی بھی نافذ نہیں کیا جاسکتا؛ ترکی، اردن، مصر اور پاکستان کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔

            اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اولو الامر (صاحبِ اقتدار)کی اطاعت کو بھی مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کے درمیان اولوالامر کاہونا فرض ہے۔ ارشاد ہے:(یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوااللہ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولیِ الْاَمْرِ مِنْکُمْ)"اے ایمان والو! اللہ اوررسول(ﷺ )کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولوالامر (حکمرانوں) کی بھی"(النساء:59)۔

 

            اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس شخص کی اطاعت کا حکم نہیں دیتاجس کا وجود ہی نہ ہو۔ چنانچہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اولوالامر کاہونا واجب ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اولوالامر کی اطاعت کا حکم دیا تو اس کے وجود کا حکم بھی اسی میں شامل ہے۔ کیونکہ اولوالامر کے وجود پر شرعی حکم کا دارو مدار ہے اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں شرعی حکم ضائع ہوجاتاہے۔ لہٰذا اس کا وجود فرض ہے۔

         

   یہ تو تھے خلافت کی فرضیت کے بارےمیں قرآن سے دلائل۔ اب آتے ہیں سیرت نبوی کی طرف۔ جب ہم آپﷺ کی مکی زندگی کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہم آپﷺ کو کافروں کو انفرادی طور پر اسلام کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے بھی پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے مکی دور میں آپﷺ نے ریاست کے قیام کے ذریعے اﷲ کا نظام نافذ کرنے اور اس کی دعوت کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لئے انتھک جدوجہد فرمائی۔ آپﷺجانتے تھے کہ اسلام پوری دنیا پر غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔ اسی طرح کفار مکہ بھی جانتے تھے کہ آپﷺ کا پیغام محض چند عقائد یا اخلاقیات پر مبنی ایک مذہب نہیں۔ نہ ہی یہ فقط مسلمانوں کی ذاتی زندگی کو منظم کرتا ہے بلکہ یہ معاشرے کو بدلنے اور انسان کو زندگی گزارنے کے نئے نظام سے متعارف کروانے کے لئے نازل فرمایا گیا۔ یہ آفاقی پیغام انسانوں سے محض اﷲ کو عقیدةً ایک رب تسلیم کروانے پر مطمئن نہیں ہوتا بلکہ اس واحد القہار کی ربوبیت اور وحدانیت کو انسانی معیشت، معاشرت، حکومت عدالت، تعلیم الغرض انسان کے تمام تعلقات میں عملاً نافذ کرنے کا خواہاں ہے۔ یہی "لا الہ الا اللہ" کا حقیقی تقاضا اور "اُدخلوا فی السلم کآفة" کا درست مفہوم ہے۔ "لا الہ الا اللہ" پڑھنے والا کبھی بھی معیشت میں ایک سے زائد خداؤں کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَ لِلَّہِ (حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ  تو صرف اﷲ ہی کے لئے ہے)پر ایمان رکھنے والا اسمبلیوں میں بیٹھے 500 سے زائد خداؤں کی قانون سازی کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ قریش اسلام سے قبل ایک رب پر محض عقیدةً ایمان رکھنے والوں کو کسی قسم کی ایذا نہیں پہنچایا کرتے تھے کیونکہ دین حنیف پر قائم یہ لوگ کسی نئے نظام کے داعی نہ تھے۔ یہ لوگ قریش کے معاشی استحصال کے خلاف کوئی متبادل نظام پیش نہ کر رہے تھے۔ وہ قریش کے معاشرتی اصولوں مثلاً بیٹیوں کی زندہ دفن کرنے کے خلاف احتجاج نہ کر رہے تھے۔ نہ ہی وہ غلاموں اور یتیموں کے استحصال کے خلاف کوئی آواز بلند کر رہے تھے۔ یہ تو محض رسول اﷲ ہی تھے جو قرآنی آیات کی روشنی میں ایک مکمل اور مربوط متبادل نظام کی جھلک پیش کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قریش اسلام کو اپنی حاکمیت اور چودھراہٹ کے لئے ایک کھلا خطرہ اور چیلنج سمجھتے تھے۔

            قریش نے جب آپﷺ کو اپنے مقاصد میں ثابت قدم پایا تو انہوں نے آپﷺ کو اپنی روش سے ہٹانے کے لئے پیشکش کرنا شروع کر دیں تاکہ آپﷺ کوکمپرومائزاور سمجھوتے کے ذریعے اپنی روش سے ہٹایا جاسکے اور ان کے دو ٹوک نکتہء نظر میں نرمی لائی جاسکے۔ اس ضمن میں آپﷺ کو مال، عورتوں اور یہاں تک کہ بادشاہت تک کی پیشکش کی گئی۔ اگر کمپرومائزکی شریعت میں اجازت ہوتی تو آپﷺ یہ سوچ سکتے تھے کہ آج یہ کفار اسلام کی بات تک سننے کے روادار نہیں۔ صحابہ پر حیات تنگ کر دی گئی ہے، تو کیوں نہ حکومت اور اقتدار حاصل کر لیا جائے کم ازکم ایسے میں مسلمانوں کو ایذا اور تکالیف کا سامنا تو نہ کرنا پڑیگا۔ کافر ہمارے مطیع ہونگے۔ پہلے پہل نظام کو چھوڑ کر محض عقائد اور اخلاقیات کی تعلیم دی جائے اور پھر اسلام تھوڑا تھوڑا کر کے نافذ کر دیا جائے۔

 

اس جیسے یا اس سے بہتر منصوبے تک آپﷺ جیسا ذہین اور معاملہ فہم شخص باآسانی پہنچ سکتا تھا۔ لیکن ایسا اس لئے نہ کیا گیا کیونکہ اسلام شریعت کو اقساط میں یا تدریجاً نافذ کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ امام نوویؒ شرح المسلم (صحیح مسلم کی شرح)میں فرماتے ہیں:"کسی عالم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اسلام بتدریج نافذ ہو سکتا ہے"۔اسی طرح قریش کے "ایک سال تمہارا خدا اور ایک سال ہماراخدا" کی پیشکش کو بھی اﷲ تعالیٰ نے "لکم دینکم ولی دین" کہہ کر مسترد کر دیا۔ اسلام حق اور باطل کو خلط ملط کر کے ایک ملغوبہ بنانے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ پانی کے ایک گلاس میں ایک قطرہ نجاست تمام پانی کو ناپاک بنا دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبٰطِلِ وَتکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعَلَمُونَ) "باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اورنہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو" (البقرہ:42)۔

            رسول اﷲ نے اسی خالص اسلام کے نفاذ کے لئے 'دار الندوہ' میں شمولیت اختیار نہ کی جو کہ اس زمانے میں قریش کی پارلیمنٹ سمجھی جاتی تھی۔ بلکہ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے مکہ کے گلی کوچوں میں اپنی فکری اور سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ آپﷺمعاشرے میں نافذ ظالمانہ نظام کی دھجیاں بھی اُڑاتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ قریش کے سرداروں کی سیاسی ساکھ پر کاری ضرب لگانے کے لئے "تَبَّتْ یَدَآ أَبِی لَھَبٍ وَّ تَبَّ'' کا نعرہ بھی بلند فرماتے تھے۔ اسی جدوجہد میں کہیں تو آپﷺ کو ابو لہب کے گھٹیا اور درشت الفاظ کے تیر سہنے پڑے تو کہیں اوجھ کے وزن تلے سجدے کرنے پڑے۔ کہیں آپ شعب ابی طالب کے قید خانے میں نظر آئے تو کہیں آپﷺ طائف کی گلیوں میں لہو لہان تیز تیز قدم اٹھاتے دیکھے گئے۔ لیکن ان تمام مصائب میں آپﷺ نے ایک لمحے کے لئے کسی شارٹ کٹ کا سوچا اور نہ ہی کفار کے ساتھ کمپرومائز کی طرف مائل ہوئے۔ آپﷺ وہ فریضا ادا کرنے میں مصروف رہے جس کا حکم قرآن (ان الحکم الا للہ) ''حاکمیت تو فقط اﷲ ہی کے لئے ہے'' کی شکل میں دیتا ہے۔ اس کی ایک اور دلیل کہ آپ اپنی مکی زندگی کے دوران ایک ریاست کے قیام کی جدوجہد ہی میں مصروف تھے اس واقعہ سے ملتی ہے جسے ابن ہشام نے امام زہری سے  کچھ یوں روایت کیا ہے۔:

 

'' آپ ﷺ بنی عامر بن صعصعہ کے پاس گئے اور انہیں اللہ عز و جل کی طرف دعوت دی اور ان پر اپنے آپ کو پیش کیا(یعنی نصرة طلب کی) ۔  تو ان میں سے ایک شخص جسے بیحرة بن فراس کہا جاتا تھا، نے کہا: اگر یہ شخص میری مٹھی میں آ جائے تو میں اس کے ذریعے پورے عرب کو کھا جاؤں۔  پھر اس نے آپ سے کہا: '' آپ کیا کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے 'امر' (حکومت) پر آپ کی بیعت کر لیں اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح عطا فرما دے تو کیا آپ کے بعد یہ 'امر' (یعنی حکومت) ہمیں ملے گی؟   آپ ﷺ نے فرمایا:  'امر' (حکمرانی) اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسے چاہے اسے سونپ دے۔  اس پر اس شخص نے کہا: کیا ہم آپ کے لئے عربوں کے تیروں سے اپنے سینے چھلنی کرائیں اور پھر جب آپ کامیاب ہو جائیں تو حکمرانی ہمارے علاوہ کسی اور کو ملے؟!  نہیں ہمیں آپ کے 'امر'  کی کوئی ضرورت نہیں''۔

            اس مکالمے سے واضح ہو جاتا ہے کہ عرب قبائل خوب جانتے تھے کہ آپﷺ ان قبائل سے کس قسم کی مدد و نصرت طلب کر رہے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ آپﷺ درحقیقت ایک ریاست قائم کر نے کے لئے مدد طلب کر رہے ہیں ؛ آپﷺ اس ریاست کے سربراہ ہونگے جس کی حفاظت کے لئے ان قبائل کو تمام عرب سے لڑنا پڑیگا۔ ان کا سوال یہ تھا کہ آپﷺ کے بعد امر (یعنی حکومت) کس کے ہاتھ ہوگا۔ اگر تو آپ زمام کار کی ضمانت دے دیتے تو بنو عامر کا قبیلہ نصرت و مدد دینے کے لئے تیار تھا۔ لیکن چونکہ آپﷺ قبائل سے بغیر کسی دنیوی منفعت و فائدے کے محض اﷲ کی رضا اور جنت کے عوض مدد کے طالب تھے اسی لئے آپﷺنے بنو عامر کی حکومت حاصل کرنے کی شرط مسترد کر دی۔

          

  سیرت کی کتب میں آپﷺ کا چالیس سے زائد قبائل سے نصرت طلب کرنا مذکور ہے۔ امام المقریزیؒ (861ھ)کتاب الخُطَطمیں اور امام نوویریؒ (753ھ) نِھایةُ الاِرَب میں لکھتے ہیں: "رسول اﷲ نے انصار کی نصرت (مدد) سے اسلام نافذ اور قائم فرمایا"۔ابن ہشام جو سیرت نبوی کے مشہور مصنف ہیں، مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے فرماتے ہیں: '' جب رسول اﷲ کو مدینہ میں اطمینان ہوگیا اور انہیں تمکین حاصل ہوگئی اور آپﷺ کے مہاجرین بھائی اپنے انصاری بھائیوں کے ساتھ مدینہ میں اکھٹے ہو گئے تو اسلام مضبوطی سے قائم ہو گیا۔ پس نماز قائم کی گئی، زکٰوة اور صوم فرض قرار پائے، حدودنافذ ہوئیں، حلال و حرام کا تعین ہوا اور اسلام ان کے مابین طاقتور ہوگیا"۔

            چنانچہ معلوم ہوا کہ رسول اﷲ کی مکی زندگی کا محور لوگوں کو انفرادی طور پر مسلمان بنانے کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کے قیام کے فریضے کے لئے جدوجہد کرنا تھا تاکہ اسلام کو بحیثیت نظام عملی طور پر پورے معاشرے پر نافذ کیا جاسکے۔ نیز اس اسلامی ریاست کومرکز (base) بناتے ہوئے اسلام کی دعوت کو پورے عالم تک پھیلانے کی سعی کی جاسکے۔

 

            رسول اﷲ کے وصال کے بعد صحابہ کرامنے بھی اسلامی ریاست یعنی خلافت کی بقاء کو ایک اہم ترین فریضہ گردانا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صحابہ جو آپﷺ پر جان چھڑکتے تھے، آپﷺ کے وضو کے پانی کو تبرکاً حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے تھے۔ آپﷺ کو اپنے نفوس اور اپنے ماں باپ پر فوقیت دیتے تھے، آپﷺ کے وصال کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر خلافت کے اہم ترین فریضے میں جُت جاتے ہیں اور آپﷺ کے جسد پاک کی تجہیز و تدفین کو مؤخر کردیتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کسی بھی مسلمان کی وفات کی صورت میں اس کے عزیز و اقارب کو اس کی تجہیز و تدفین جلد از جلد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن اکابر صحابہ جن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ شامل تھے انصار کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ میں نئے خلیفہ کے انتخاب کے عمل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ نیز کوئی بھی صحابی انہیں رسول اﷲ کی تجہیز و تدفین کو مؤخر کر کے خلافت کے قیام میں مصروف ہو جانے پر ملامت یا تنقید کا نشانہ نہیں بناتا۔ صحابہ سے بڑھ کر اسلام اور شریعت کو کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر شریعت کا کوئی پابند ہو سکتا ہے۔ چنانچہ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب تمام صحابہ ایسی حدیث جانتے ہوں جس کے مطابق خلیفہ کا انتخاب رسول اﷲ کی تجہیز و تدفین سے بھی بڑھ کر اہم اور فوری فریضہ ہو۔ یہ ہے خلافت کی فرضیت پر اجماع الصحابہ سے دلیل۔ امام الہیثمیؒ (807ھ) الصواعق المُحرِقَة  میں فرماتے ہیں: "یہ امر سب کو معلوم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین متفق تھے کہ دور نبوت کے خاتمے پر امام کا انتخاب واجب تھا۔ بلاشبہ انہوں نے اس فرض کو دیگر تمام فرائض پر فوقیت دی اور رسول اﷲ کی تدفین کے بجائے اس (فرض کی تکمیل )میں جُت گئے"۔

      

      خلافت کی اہمیت اور اس کی فرضیت کی اجماع الصحابہ سے ایک اور دلیل ہمیں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عمل سے ملتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زخمی ہو جانے کے بعد آپ نے لوگوں کے اصرار پر عشرہ مبشرہ میں سے چھ صحابہ کو آپس میں سے ایک خلیفہ چننے کے لئے نامزد کیا۔ نیز ان پر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں پچاس انصار کو متعین فرمایا اور ان کو نہایت واضح انداز میں احکامات صادر فرمائے۔ حضرت عمر نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیاکہ اگر یہ چھ اصحاب میری وفات کے تین دن گزر جانے کے بعد بھی آپس میں ایک خلیفہ چننے میں ناکام رہیں اور تنازعہ کریں تو پھر اگر پانچ ایک طرف ہوں اور ایک دوسری طرف تو پھر اس ایک کی گردن اڑا دینا۔ اگر چار ایک پر متفق ہوں اور دو تنازع کریں تو پھر ان دو کی گردن مار دینا۔ اور اگر تین تین کا گرو ہ بن جائے تو پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ثالثی کریں، لیکن اگر پھر بھی تنازع ختم نہ ہو تو پھر دیکھنا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کس گروہ کے ساتھ ہیں اور دوسرے گروہ کو قتل کر دینا۔ یعنی اگر اکثریت کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا جائے تو ایسی صورت میں جھگڑا کرنے والی اقلیت کو قتل کر دیا جائے۔ گو کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام سرے سے سیاسی اختلاف رائے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسلام خلیفہ کے انتخاب میں اکثریتی رائے کے ظاہر ہو جانے کے بعد اقلیت کو اس فیصلے کی پابندی کا حکم دہتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک مسلمان کا قتل کس قدر بڑا جرم ہے کجا کہ عشرہ مبشرہ میں سے کسی صحابی کا قتل کیا جائے۔ لیکن کسی بھی صحابی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان احکامات پر اعتراض نہ فرمایا۔ جبکہ وہ تو لمبی قمیض پر بھی عمر رضی اللہ عنہ کی سرزنش کرنے سے نہ گھبراتے تھے۔ یہ صحابؓہ کا اجماع اس بات کی دلیل ہے کہ تمام صحابی شریعت کا یہ حکم جانتے تھے کہ خلیفہ کی تقرری تین دن کے اندر اندر ہونی چاہئے اور اگر اس دوران اس فریضے کو پورا کرنے میں کوئی رخنہ ڈالے تو پھر اسے قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلافت کس قدر بڑا فرض ہے کہ جس کے لئے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عشرۂ مبشرہ کے قتل تک کا حکم صادر فرمایا۔

 

            چودہ سو سال تک فقہاء اس فریضے کی اہمیت کو سمجھتے رہے۔ آخر میں قرون اولیٰ کے علماء مجتہدین کے اقوال نقل کرنا چاہوں گا تاکہ قارئین کو خلافت کے"اُم الفرائض" ہونے میں کوئی شک و تامل باقی نہ رہے۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ فقہی ابحاث میں "امام" کا لفظ بھی خلیفہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ہم رسول اﷲ کو بھی احادیث مبارکہ میں امام کا لفظ خلیفہ کے لئے استعمال کرتے ہوئے پاتے ہیں۔

·      امام جزیری ؒ(1360ھ) الفقہ علی المذاھب الاربعة میں فرماتے ہیں:"چاروں امام(امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) اس بات پر متفق ہیں کہ امامت (خلافت) ایک فرض ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایک امام (خلیفہ) کا انتخاب کریں جو دین کے احکامات نافذ کرے اور مظلوموں کو ظالموں کے خلاف انصاف فراہم کرے۔ مسلمانوں کے لئے دنیا میں بیک وقت دو اماموں (خلفاء) کا ہونا حرام ہے خواہ ایسا باہمی رضا مندی سے ہو یا تنازعے کے نتیجے میں"۔

·      امام قرطبی سورة البقرۃ کی آیت 30 کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "یہ آیت امام اور خلیفہ کے انتخاب کے لئے مآخذ ہے۔ جس کو سنا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے۔ کیونکہ دنیا اس کے ذریعے وحدت اختیار کرتی ہے اور خلافت کے قوانین اس کے ذریعے سے نافذ ہوتے ہیں۔ اور اس کے فرض ہونے میں امت اور آئمہ کرام کے مابین کوئی اختلاف نہیں ماسوائے معتزلہ کے"۔

·      امام نوویؒ شرح المسلم میں کہتے ہیں:"علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں پر خلیفہ کی تقرری فرض ہے"۔

·      عبد الحمید بن یحییٰ بن سعید العامری(132ھ) اپنی کتابخلیفہ کو نصیحت میں لکھتے ہیں:"خلافت تمام فرائض کے سر کاتاج اور نگینہ ہے"۔

·      امام ابن تیمیہؒ اپنی کتاب السیاستہ الشرعیة کے باب "حکمران کی اطاعت کی فرضیت" میں فرماتے ہیں:"یہ جاننا فرض ہے کہ عوام الناس پر حکومتی اختیارات کا حامل عہدہ یعنی خلافت کا عہدہ دین کے اہم ترین فرائض میں سے ایک ہے۔ درحقیقت دین کا نفاذ اس کے بغیر ناممکن ہے۔ یہی سلف آئمہ کرام مثلاً فضل بن عیاض اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے"۔

·      امام غزالی الاقتصاد فی الاعتقاد میں خلافت کے خاتمے کے ممکنہ نتائج بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں:"قاضی معطل ہو جائیں گے، ولایات (صوبے) ختم ہو جائیں گے، اختیارات کے حامل افراد کے فیصلوں پر عملدرآمد رک جائے گا اور تمام لوگ حرام کے دہانے پر پہنچ جائیں گے"۔

·      امام ابن حزمؒ (452ھ) فصل من الملل و النحل میں کہتے ہیں:"تمام اہل السنہ کااتفاق ہے کہ امامت کا قیام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اور ان پر فرض ہے کہ وہ احکام الہیہ کے نفاذ کے لئے ایک امام تلے رہیں جو ان کی احکام شرعیہ کے مطابق قیادت کرے"۔

·      امام بغدادیؒ(463ھ)کتاب الفَرَق بین الفِرَقمیں رقمطراز ہیں:"امت پر امامت (خلافت) فرض ہے تاکہ شریعت کے نفاذ اور اطاعت کے لئے امام مقرر کیا جاسکے"۔

·      امام ماوردیؒ الاحکام السلطانیہ میں کہتے ہیں:"امام مقرر کرنا فرض ہے"۔

·       ابن خلدون ؒالمقدمہ میں کہتے ہیں:"امام کی تقرری فرض ہے جو صحابہ کرام اور تابعین کے اجماع کی وجہ سے ہر ایک کو معلوم ہے۔ رسول اﷲ کے صحابہ کرام نے رسول اﷲ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکرکو خلیفہ مقرر کرنے میں جلدی کی اس کے بعد ہر عہد میں مسلمانوں کا خلیفہ رہا اور وہ کسی بھی دور میں حالت انتشار اور افرتفری میں نہ رہے (یعنی خلیفہ کے بغیر نہیں رہے)۔ اسے ہمیشہ علماء کا اجماع سمجھا گیا ہے کہ امام (خلیفہ) کی تقرری فرض ہے"۔

·      امام ابو عبد اﷲ بن مسلم دینوری ؒ(276ھ) الامامة والسیاسة میں لکھتے ہیں:"خلافت دین و دنیا کے تمام معاملات میں مسلمانوں کے لئے اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے"۔

·       عبد الحمیدبن یحییٰ بن سعید العامری (132ھ)رسالة فی نصیحة و لی العھدمیں کہتے ہیں : "خلافت بہترین زیور ہے جو انمول ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے"۔

          

  مذکورہ بالا بحث کے بعد، جس میں قرآن، سنت، اجماع الصحابہ اور شرعی اصول سے دلائل اخذ کئے گئے ہیں، کسی بھی مسلمان کے لئے خلافت کی فرضیت کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جانا چاہئے۔ اب یہ ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس "اُمّ الفرائض" کے لئے منہج نبوی کے مطابق سعی اور کوشش کرے تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ

 

Last modified onبدھ, 27 اپریل 2022 17:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک