الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلامی حکومت کیسی ہوتی ہے؟

 

منعم احمد- پاکستان

 

اٹھارویں صدی کے وسط تک اسلام ایک شاندار درخت کی مانند تھا جس کی شاخیں مضبوط تھیں اور اس کی ڈالیاں ہری بھری اور شاداب تھیں اور یہ درخت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ تروتازہ اور پھل دار تھا۔اسلامی عقیدہ ہی وہ بیج تھا جس سے یہ درخت پیدا ہوا  جبکہ زندگی گزانے سے متعلق اسلامی افکار اور ضابطے اس درخت کی جڑیں ہیں اور اسلام کا قانون یا اقتدار وہ بلندو بالا تنا ہے جو انہی جڑوں سے نکلا تھا۔ اس سے پیدا ہونے والی خوشحالی ، ترقی اور مضبوط معاشرہ وہ   ٹھوس اور مضبوط شاخیں اور لہلہاتی تروتازہ ڈالیاں تھیں جن سے اسلامی طرزِ زندگی برقرار تھی اور اسلامی دعوت پوری دنیا میں پھیل رہی تھی۔

 

اٹھارویں صدی کے وسط میں یورپ میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں عالمی منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہو گیا جس کے بعد عالمی رہنما کی حیثیت رکھنے والی اسلامی ریاست اپنا مقام کھو بیٹھی اور اس کا زوال نمایاں ہو گیا۔مغربی ایجادات نے مسلمانوں کو اتنا مرعوب کیا کہ وہ اپنے اسلامی نظریات پر ہی نظرِ ثانی کرنے لگے۔ کچھ لوگ تو اتنےآگے بڑھ گئے کہ انھیں اسلامی افکار اور قوانین میں خامیاں نظر آنے لگیں جس کے نتیجے میں اسلام کے نفاذ میں کمزوری آنا شروع ہو گئی۔ اسلام کے نفاذ میں کمزوری اور اسلام کے فہم کے دھندلے ہو جانے کی وجہ سے اسلامی ریاست کی شان و شوکت پہلی جیسی نہ رہی اور اس نے اپنی اصل طاقت کھو دی۔ اسلامی نظریات کے فہم کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگِ عظیم  اول میں مسلمانوں کی شکست کے پیشِ نظر برطانیہ نے مصطفیٰ  کمال کے مدد سے اسلامی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔حقیقت میں اسلام کے وجود  اور ریاست کے خاتمے کے بعد صرف اسلام کے افکار اور نظریات ہی باقی بچے تھے، جو اب مبہم ہو چکے تھے۔مغربی استعمار نے مسلم علاقوں پر غلبہ اور حکمرانی حاصل کر لینے کے بعد ان بچے کھچے افکار اور نظریات  کو بھی چھانٹنا اور کاٹنا شروع کر دیا تاکہ اسلام کی بنیاد ہی کو کمزور کر دیا جائے اور اسلامی عقیدے سے ان کے تعلق کو ختم کر دیا جائے۔استعمار کی ان کوششوں کے نتیجے میں اسلام کے کئی افکار  مسلم دنیا سے ختم ہو گئے ، کئی افکار پر دھول پڑ گئی اورکئی نئے افکارکی ملاوٹ ہو گئی جو سرے سے اسلامی عقیدے سے تعلق ہی نہیں رکھتے تھے ۔ گزرتے وقت کے ساتھ  ساتھ مسلمانوں کی وہ نسل ختم ہو گئی جن کے اذہان میں اسلامی نظام اور اسلامی ریاستِ خلافت کے نقوش موجود تھے اور یوں اسلامی ریاست محض ایک تخیل بن کر رہ گئی جس کے نام سے تو لوگ واقف تھے، مگر اس کے افکار، ہیئت، قوانین، نظام اور خدو خال لوگوں  کےاذہان میں موجود نہیں رہے۔ یوں اسلامی تہذیب کا یہ تناور درخت محض اپنی جڑوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔

 

مسلمانوں اور اسلام کے افکار کی حفاظت کرنے والی ریاستِ خلافت کے انہدام کو مغرب نے اپنی  کبھی نہ ختم ہونے والی فتح سمجھ کر مسلمانوں کے علاقوں  کے حصے بخرے کیے اور آپس میں بانٹ لیے۔ یوں  بالآخر مغربی تہذیب ان  مسلم علاقوں پر راج کرنے لگی جو  اب یورپ ، روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا اکھاڑا بن چکے تھے۔مغربی تہذیب کی علمبردار ریاستوں نے اسلامی تہذیب کے باقی ماندہ افکار کو  مسلمانوں کے اذہان سے کھرچنے اور اس کی جگہ مغربی تہذیب کے افکار ٹھونسنے کیلئے ان کی تعلیم، میڈیا، ثقافت اور ہر نظام کو اپنے ایجنٹ  حکمرانوں کے ذریعے  مغربی طرز پر استوار کردیا۔ اگر کسی علاقے میں مسلمانوں نے اس مغربی ایجنڈے کا انکار کیا تو انھیں مغرب کی فوجی اور اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر مغربی سیکولر نظام کے آگے جھکنے پر مجبور کیا گیا۔ آج اکیسویں صدی میں مسلم دنیا مغربی نظام کی تباہ کاریوں اور افسوسناک نتائج سے تنگ آ چکی ہے لیکن اس کے پاس اسلام کی تہذیب کی طرف واپسی کیلئے درکار افکار کا فقدان ہے جو مغربی نظام کو اسلام کے نظام سے تبدیل کر دینے کی راہ میں حائل ایک  رکاوٹ ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کے اذہان میں اسلام کے ان سچے تصورات کو دوبارہ اجاگر  کیا جائے جو مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کی شروعات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان   تصورات کے ذریعے ہی مسلمان اس قابل ہو سکیں گے  کہ وہ اس اسلامی ریاست کو پہچان سکیں جس کا قیام  اسلامی طرزِ زندگی کے ازسرِ نو آغاز کیلئے  لازم ہے۔جہاں دنیا بھر کی بیشتر اسلامی تحریکات مسلم ممالک میں اسلا م کے نظام کی واپسی کیلئے کوشاں ہیں وہاں ان تصورات کو سمجھنے اور واضح کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، تاکہ مغرب کہیں تبدیلی کی ان   مخلصانہ کوششوں کے باوجود مسلمانوں کی  فکری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں دھوکہ دے کر ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام سے دور نہ کر دے۔ ذیل میں اسلامی ریاست کی کئی  صفات میں سے  ان چند بنیادی صفات کا ذکرہے جو کسی بھی ریاست کو اسلامی ریاست بنانے کیلئے لازم ہیں۔

 

نمبر-1:  کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے ضروری ہے  کہ اس کی بنیاد صرف اور صرف اسلامی عقیدہ ہی ہو جو اس کی تمام تر تفصیلات کی بنیاد ہو، یعنی ریاست میں  حاکمیتِ اعلیٰ صرف اسلامی شریعت  ہی کو حاصل ہو

کسی بھی ریاست کے قیام کا مقصد اس کے لوگوں کے افکار اور عقائد کی حفاظت اور ان کے مطابق لوگوں کے امور کی دیکھ بھال ہوتا ہے۔لہٰذا ریاست کا انہی افکار اور عقائد پر مبنی ہونا ضروری ہے  جو معاشرے کے افکار اور عقائد ہیں۔ جہاں تک مسلم امت کا تعلق ہے ،تو مسلمانوں کا عقیدہ اسلام کا عقیدہ ہے اور وہ تصورات، پیمانے اور عقائد جنہیں امت درست سمجھتی ہے ،وہ اسی اسلامی عقیدے سے اخذ شدہ ہیں۔زندگی کے بارے میں امت کا نقطہ نظر بھی اسلامی عقیدے سے اخذ شدہ ہے اور اپنے مفادات کے بارے میں نقطہ نظر بھی اسی اسلامی عقیدے کی بنیاد پر ہے۔لہٰذا شرعی، فطری اور عقلی طور پر یہی درست ہے کہ مسلمانوں پر حکومت بھی اسلام ہی کی بنیاد پر کی جائے، یعنی مسلمانوں پر قائم حکمرانی کی بنیاد اسلام کا عقیدہ ہی ہو۔

 

جس ریاست کو رسول اللہ ﷺ نے قائم کیا، جو قیامت تک تمام مسلمانوں کیلئے نمونہ ہے، وہ ریاست  بھی ایک مخصوص بنیاد پر قائم تھی جو کہ اسلامی عقیدہ تھا۔ اس لیے مسلمانوں کیلئے یہ فرض ہے کہ ہر زمانے میں اور ہر جگہ اسلامی ریاست کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہی ہو۔  رسو ل اللہ ﷺ نے جب مدینہ میں ریاست قائم کی اور حکومت سنبھا لی تو پہلے دن سے ہی اسلامی عقیدے کو اس ریا ست اور اقتدار کی بنیاد بنا یا ۔پھر اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ جہا د شر و ع کیا اور جہاد کو مسلمانوں پر فرض قرا ر دیا تا کہ اسلامی عقیدہ کوانسانوں تک پھیلایا جا ئے ۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرما یا :

«أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّ الإِسْلامِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ»

’’مجھے اس وقت تک لو گوں سے قتا ل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ  لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہکی شہا د ت نہ دیں اور نما ز کو قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ، اگر وہ یہ کام کریں تب وہ اپنی جان اور ما ل کو مجھ سے محفوظ کریں گے ،سوا ئے اُس کے جواسلام کی جانب سے ان پر حق ہو اور ان کا حساب اللہ کے پاس ہے‘‘(متفق علیہ)۔

 

اس کے علاوہ، رسول اللہ ﷺ نے  حکمرانی میں اسلام کے عقیدے کی خلاف ورزی پر، یعنی  حکمران کی جانب سے کھلم کھلا کفر کے نفاذ پر امت کو تلو ار کے ذریعے اس حکمران کے خلاف قتا ل کرنے کا حکم دیا ۔ عبا دہ بن الصا مت سے مروی  متفق علیہ حدیث ہے کہ «وَأَنْ لا نُنَازِعَ الأمْرَ أَهْلَهُ إِلا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا»’’اور اس با ت پر ہم نے بیعت کی کہ حکمرانوں سے اس وقت تک نہیں لڑیں گے جب تک کھلم کھلا کفر نہ دیکھیں‘‘۔طبرانی نے«كفراً صُراحاً» ’’واضح کفر ‘‘ کے الفاظ روایت کیے ہیں جبکہ ابنِ حبا ن نے اپنی صحیح میں یو ں روایت کی ہے«إِلاَّ أَنْ تَكُونَ مَعْصِيَةُ اللَّهِ بَوَاحَاً»’’مگر جب اللہ تعالیٰ کی کھلم کھلا نا فرمانی کی جائے‘‘ ۔  اسی طرح اللہ تعا لیٰ کا یہ ارشا د  :

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ حَتّـٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَـهُـمْ﴾

’’ سو قسم ہے تیرے رب کی ! یہ مو من نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلا ف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں‘‘(النساء:65)۔

 

یہ تمام دلائل اس با ت پرثبوت ہیں کہ اسلا می عقیدہ ہی ریا ست کی اسا س اور بنیادہےاورکسی بھی معاملے میں حتمی فیصلہ شریعت  ہی کی بنیاد پر ہو گا۔اسلام کے علاوہ کہیں اور سے اخذ شدہ ہر فکر اور قانون ، چاہے وہ کسی غیر اسلامی تہذیب سے اخذ شدہ ہویا انسانی عقل کی اختراع ہو،وہ کفر ہے جس کی اسلامی ریاست میں کوئی جگہ نہیں۔

 

اس بنیاد پر نہ صرف ریاستی قوانین اور نظام بلکہ کوئی بھی ایسی فکر جو اسلام کے عقیدے سے اخذ شدہ نہ ہو، مثلاً جمہوریت، قومیت یا وطنیت کی بنیاد پرعصبیت، شہنشائیت، بادشاہت یا آمریت، انسانی مساوات، بنیادی آزادیوں اور قومی سرحدوں جیسے  تمام تصورات  جو نہ صرف اسلامی عقیدے سے نہیں نکلتے بلکہ اسلامی احکامات کے سراسر خلاف بھی ہیں، ان تمام  کی اسلامی ریاست میں کوئی جگہ نہیں۔اسی طرح اسلامی عقیدے کا اسلامی حکومت کی بنیاد ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ  تمام قانون سازی اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات تک محدود ہو گی اور اس معاملے میں اسلامی عقیدے کے علاوہ کسی اور فکر کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا۔لہٰذا ایک اسلامی حکومت میں تمام ریاستی معاملات بشمول عدلیہ، اقتصادیات، معاشرت، حکومت، داخلہ و خارجہ پالیسی، تعلیم، صنعت، صحت، فوج، بیت المال وغیرہ صرف اور صرف اسلامی عقیدے ہی کی بنیاد پر منظم ہوتے ہیں۔

 

نمبر-2:  کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے ضروری ہے کہ وہاں صرف  اسلامی احکامات  ہی نافذ ہوں اور اس کی حفاظت مکمل طور پرمسلمانوں کی طاقت کے بل بوتے پر ہو۔

کوئی بھی ملک صرف اس وقت ایک مکمل اسلامی ریاست ہو گاجب  وہاں کی امان (علاقے کی اندرونی و بیرونی خطرات سے  حفاظت)مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو گی اوروہاں اسلام ہی کے احکامات نا فذ ہو ں گے۔ اگر اِن میں سے کوئی ایک شرط بھی موجود نہ ہو یا نہ پائی جا ئے جیسے امان کفا ر کے ہاتھوں میں ہونا یا لو گوں پر طا غوت کے ذریعے حکو مت ہونا تو وہ علاقہ اسلامی ریاست نہیں ہو گا ۔اس کے لیے دو نوں شرطوں کا ختم ہو نا ضروری نہیں بلکہ کوئی ایک شرط بھی ناپید ہو جائے تو وہ ملک اسلامی ریاست نہیں ہے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کیلئے جو بیعت لی، اس میں یہ دونوں شرائط موجود تھیں۔ البیھقی نے قوی اسناد کے سا تھ عبا دہ بن الصامتؓ کی روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ «... إِنَّا بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي النَّشَاطِ وَالْكَسَلِ، وَالنَّفَقَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَعَلَى الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ فِي اللَّهِ لاَ تَأْخُذُنَا فِيهِ لَوْمَةُ لاَئِمٍ. وَعَلَى أَنْ نَنْصُرَ رَسُولَ اللَّهِ إِذَا قَدِمَ عَلَيْنَا يَثْرِبَ مِمَّا نَمْنَعُ أَنْفُسَنَا وَأَزوَاجنَا وَأَبْنَاءَنَا وَلَنَا الجَّنَّةَ. فَهَذِهِ بَيْعَةُ رَسُولِ اللَّهِ الَّتِي بَايَعْنَاهُ عَلَيْهَ» ’’میں نے طاقت اورکمزوری میں سننے اور(آپ ﷺ کی) اطا عت کرنے ، تنگدستی اور کشادگی میں خرچہ کرنے اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کرنے کی شرط پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اور اس بات پر کہ ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملا مت کی پر وا ہ نہیں کریں گے اور رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لا ئیں تو ان کی مدد نصرت کریں گے ہم آپ ﷺکی ایسی حفاظت کریں گے جیسے کہ اپنی جان اور اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہیں اور اس کے بدلے ہمیں جنت ملے گی۔ یہ تھی رسول اللہ ﷺ کی وہ بیعت جو ہم نے آپ ﷺ سے کی تھی ‘‘ ۔یہ اور اس جیسے دیگر کئی روایات سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ میں  مدینہ کے سرداروں سے اطاعت اور حفاظت ، دونوں شرائط پر بیعت لی۔

 

اسی طرح جن قبائل نے رسول اللہ ﷺ کو اسلامی ریاست کے قیام کیلئے انکار کیا، انھوں نے انہی دو میں سے کسی ایک یا دونوں شرائط کا انکار کیا۔ البیھقی نے حسن اسنا د کے سا تھ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ انے بنو شیبان بن ثعلبہ سے فرمایا : 

«مَا أَسَأْتُمْ فِي الرَّدِّ إَذْ أَفْصَحْتُمْ بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ دِينَ اللَّهِ لَنْ يَنْصُرَهُ إِلاَّ مَنْ حَاطَهُ مِنْ جَمِيعِ جَوَانِبِهِ»

’’تم لوگوں نے کوئی برا جواب نہیں دیا جبکہ تم نے سچا ئی سے صاف با ت کھل کر کہی ، مگراللہ کے دین کو صرف وہی نصرت دے سکتے ہیں جو ہر طرف سے اس کی حفا ظت کر سکتے ہیں ‘‘ ۔ 

 

ان لوگوں نے یہ پیشکش کی تھی کہ جہا ں تک عرب کے پا نی ہیں وہاں تک ہم آپ کی مددوحفاظت کریں گے، فارس کے مقابلے میں نہیں۔

لہٰذا کسی بھی  حکومت کے اسلامی ہونے کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ ان دونوں شرائط کو پورا کرے جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کو پہلی اسلامی ریاست بنانے کیلئے رکھی تھیں، یعنی تمام قوانین و احکامات اسلام ہی کے نافذ ہوں اور اس ملک کی اندرونی و بیرونی خطرات اور دشمنوں سے حفاظت اور امان مکمل طور پر اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کے بل بوتے پر ہو۔ان میں سے  کسی بھی شرط کے پورا نہ ہونے سے ایک حکومت اسلامی حکومت نہیں رہتی۔

 

نمبر-3:  کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے ضروری ہے  کہ اس میں قائم شدہ حکمرانی کا نظام مرکزیت اور وحدت پر مبنی ہو،اور وہ ریاست پوری مسلم امت کی ذمہ داری اٹھائے اور اس کی قیادت کرے

اسلامی ریاست میں حکمرانی  اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت میں حکمرانی انسانوں کی  اجتماعی  دانائی کی بنیاد پر نہیں بلکہ  اللہ سبحانہ وتعالی  کی لامحدود دانائی پر مبنی وحی کی بنیاد  پر منظم ہوتی ہے جسے نافذ کرنے کا اختیار صرف ریاست کے سربراہ یعنی خلیفہ کو ہوتا ہے۔ ایک اسلامی حکومت  میں قانونی آراء کو ان کی فکر کی مضبوطی کی بنیاد پر ترجیح  دی جاتی ہے جبکہ اجتماعی حکمرانی پر مبنی حکومت میں قانونی آراء کو عوامی قبولیت اور مفادات کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے ۔اسلام اجتماعی حکمرانی کی نفی کرتا ہےاور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک ریاست کے ایک سے زیادہ حکمران ہوں۔ خلیفہ ہی وہ شخص ہوتا ہے جسے ریاست کے مسلمان شہری بیعت کے ذریعے اسلام کو نافذ کرنے اور پھیلانے کی اتھارٹی سونپتے ہیں، لہٰذا حکمرانی کی ذمہ داری کا عقد صرف اسی شخص کے ساتھ ہی انجام پاتا ہے جو خلیفہ اور ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اسلامی ریاست وہ ہوتی ہے جس میں حکمرانی مرکزیت پر استوار ہوتی ہے۔علاوہ ازیں، خلیفہ کے منصب پر فائز ہو جانے کے بعد تمام مسلمانوں کیلئے خلیفہ کی اطاعت کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:« وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»"اور جو کوئی بھی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (خلیفہ کی)بیعت  نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا"(مسلم)۔اس اطاعت کے لازم ہونے کے سبب، مسلم دنیا کے تمام علاقے خلافت کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں جن کیلئے خلیفہ کی اطاعت کرنا اور نتیجاً اپنی اتھارٹی خلیفہ کو سونپ دینا واجب ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ مسلمان باغی تصور ہوں گے جن کو اسلام کی اتھارٹی اور خلیفہ کی اطاعت میں لانا خلیفہ کیلئے واجب ہے۔ لہٰذا اسلامی ریاست وہ ہوتی ہے  جس میں حکمرانی مسلم دنیا کی وحدت پر استوار ہوتی ہے۔

 

ابو سعید حذری سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا «إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَـيْنِ فَاقْتُلُوا الآخَرَ مِنْهُمَا»’’جب دوخلفاء کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کرو‘‘ (مسلم)۔ یہ حدیث اس حکم کی صریح دلیل ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک سے   زیادہ خلیفہ کا ہونا حرام ہے۔احمد نے عبداللہ بن  عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لایحل لثلاثۃ نفریکونون بأَرض فلاۃ إِلا أَمّروا علیھم أَحدھم»"کسی تین اشخاص کیلئے جائز نہیں کہ وہ کھلی زمین پر ہوں اور وہ اپنے میں سے کسی ایک کو اپنے  اوپر امیرمقرر نہ کریں"۔ابو داؤد نے ابی سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِذا خرج ثلاثۃفی سفر فلیؤ مروا أَحدھم»"جب تین لوگ سفر پر نکلیں تو وہ اپنے میں سے  ایک شخص کو امیر مقرر کر یں"۔ان دونوں احادیث میں لفظ 'احد' واحد کے مترادف ہےجو اس پر دلالت کرتا ہے کہ امیر ایک ہی شخص ہو سکتا ہے اور ایک سے زیادہ نہیں۔عدد اور صفت کے معاملے میں مفہوم المخالفہ پر عمل کیا جاتا ہے جو اس معاملے میں امیر کے ایک سے زائد ہونے کی نفی کرتا ہے۔رسول اللہ ﷺ کا عمل اس بات کی تائید کرتا ہے کہ جب بھی کسی معاملے میں امیر مقرر کرنے کی ضرورت پیش آئی تو آپ ﷺ نے صرف ایک ہی شخص کو امیر مقرر فرمایا اور کبھی بھی ایک معاملے پر ایک سے زیادہ امیر مقرر نہیں کیے۔

 

لہٰذا اسلامی حکومت  میں  حکمرانی کا اصل اختیار اسی  شخص کے پاس ہوتا ہے جسے امت  خلیفہ کے طور پر مقرر کرتی ہے۔ دیگر تمام  حکمران جو حکمرانی کے ڈھانچے میں خلیفہ  کے معاون یا نائب ہوتے ہیں، ان کا تقرر خلیفہ ہی کرتا ہے  اور وہ اپنے حکمرانی کے اختیارات  خلیفہ سے ہی  بطور نائب لیتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی ریاست میں خلیفہ کے ماتحت تمام  حکمران بشمول معاونین، والی اور عامل  اپنی حکمرانی کیلئے اصل اختیار نہیں رکھتے بلکہ  ان کا اختیار خلیفہ ہی کا تفویض کیا ہوا ہوتا ہے جسے خلیفہ جب چاہے واپس لے کر انہیں  معزول کر سکتا ہے۔اگرچہ اسلام اس بات کی تاکیدکرتا ہے کہ خلیفہ لوگوں کے معاملات میں ان سے مشورہ لے لیکن فیصلے اور حکمرانی کا اختیار بحرحال واحد خلیفہ ہی کے پاس ہوتا ہے اور کوئی دوسرا شخص  اس کے ساتھ اس حکمرانی میں شریک نہیں ہوتا۔اس بنیاد پر ہم پلہ اختیارات رکھنے والے ایک سے زائد  حکمرانوں پر مشتمل حکومت اسلامی حکومت  نہیں ہوتی۔

 

نمبر-4: کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے ضروری ہے  کہ  حکمران کے انتخاب اور تقرری کا حق امت کے پاس ہو جو بیعت کے ذریعے خلیفہ کو ریاست کے سربراہ کے طور پر مقرر کر سکے۔

اسلامی حکومت میں حکمران  کے انتخاب یا تقرری کا  حق امت کے پاس ہوتا ہے جو اسلام کے نظام کے نفاذ اور اسلامی دعوت کو پوری دنیا تک لے کر جانے پر منتخب حکمران کی بیعت کر کے اسے خلیفہ کے منصب پر فائز کرتی ہے۔ خلیفہ کی تقرری کا یہ حق اسلام نے امت  کو ہی دیا ہے جو اپنی رضا مندی سے حکمران کو بیعت کے ذریعے مقرر کرتی ہے۔لہٰذا کوئی بھی حکومت تب ہی اسلامی حکومت ہو سکتی ہے جب وہاں حکمران کی تقرری کا حق امت کے پاس ہو اور امت بیعت کے ذریعے  اس حکمران کی تقرری کرے۔

 

رسول اللہ ﷺ  اس وقت مدینہ کے حکمران بنے جب محرم کے مہینے میں   عقبہ کی گھاٹی میں  بیعت ِ عقبہ  ثانیہ کا واقعہ  پیش آیا،جس میں اوس اور خزرج کے قبائل  سے آئے ہوئے مسلمانوں نے اپنی رضامندی  سے رسول اللہ ﷺ کو  اطاعت اور حفاظت  پر حکمرانی کی بیعت دی۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے وصال  کے فوراً بعد مہاجرین اور انصار کے سربراہان اور نمائندگان  سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے  اور ایک بحث و مباحثے کے بعد  اپنی رضامندی سے ابو بکر صدیق ؓ کو خلافت پر بیعت دی۔پھر ابو بکر ؓ  نے اپنی وفات سے پہلے علالت کے دنوں میں مدینہ کے  مسلمانوں   کی خواہش پر  اپنے بعد عمرؓ کو خلافت کیلئے تجویز کیا اور  ابوبکرؓ کی وفات کے بعد  لوگوں نے ہی عمرؓ کو بیعت دے کر خلافت  کا منصب سونپا۔عمر ؓ کی وفات کے بعدخلافت کے چھ امیدواران کے درمیان  انتخاب  کے ایک  جامع  عمل  سے گزر کر مدینہ کے لوگوں نے  عثمانؓ کو منتخب کیا اور ان کو خلافت پر بیعت دی۔ اسی طرح عثمانؓ کی وفات کے  کچھ دن بعد  لوگ  علیؓ کے پاس آئے اور ان کو حکمرانی کا منصب سنبھالنے  پر رضامند کیا جس کے بعد بیعت کے ذریعے انھیں خلافت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ اس کے بعد آنے والے  ادوار میں بھی خلفاء کی تقرری کیلئے  بیعت ہی کا اسلامی طریقہ رائج رہا،اگرچہ ایک خلیفہ کی وفات کے بعد اگلے خلیفہ کے چناؤ میں امت نے دلچسپی لینا چھوڑ دی جس کی وجہ سے خلیفہ کا انتخاب ایک طے شدہ طریقے سے چلتا رہا جو کہ ایک کمزوری تھی لیکن یہ حق بحرحال  امت ہی کے پاس تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں  بغیر کسی استثناء  کے ،تسلسل کے ساتھ، امت کا ہی ایک حکمران کو اپنی رضامندی سے ، بالواسطہ یا بلاواسطہ منتخب  کرنا اور بیعت ہی کو حکمران کی تقرری کی بنیاد بنانا  اس بات کی حتمی دلیل ہے کہ اسلامی حکومت میں حکمران یا خلیفہ  کو منتخب کرنے کا اختیار  امت ہی کے پاس ہوتا  ہے جو اپنی رضامندی سے بیعت کے ذریعے اس کی تقرری کرتی ہے۔پس بیعت ہی کے ذریعے امت ایک شخص کو اپنے اوپر حکمرانی کرنے کا اختیار سونپتی  ہے اور بیعت ہی امت سے حکمران کی جانب اقتدار(اتھارٹی)  کی منتقلی کا شرعی طریقہ کار ہے۔ لہٰذا وہ حکومت اسلامی نہیں ہو سکتی جہاں حکمران کے انتخاب کا  حق امت سے چھین  کر کسی مخصوص طبقے یا گروہ  کو دے دیا جائے یا حکمران  کی تقرری شرعی بیعت کے ذریعے  نہ ہو۔

 

ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرما یا

«كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ»

’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا،جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘ بلکہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔صحابہؓ نے پوچھا:  آپ ﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟  آپ ﷺ نے فرمایا:  ’تم ایک کے بعد ایک کی بیعت کو پوراکرو اور انہیں ان کا حق اداکرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا،جو اُس نے انہیں دی ‘‘(مسلم) ۔ 

 

نا فع کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر ؓنے مجھ سے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرما تے ہوئے سنا :

«مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»

’’جس نے اطا عت سے ہاتھ کھینچ لیا ،وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حا ل میں ملے گا کہ اس کے پاس کو ئی حجت نہیں ہو گی ،اور جو اس حا ل میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت کا طوق نہیں تو وہ جا ہلیت کی مو ت مرا ‘‘(مسلم)۔ 

یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خلیفہ کواختیا ر واقتدار اس بیعت کی وجہ سے حا صل ہوتا ہے جو اسے دی جاتی ہے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی اطاعت کو بیعت کے بعدہی فرض قرار دیا ہے، پس فرمایا کہ جو امام کی بیعت کرے تو اسے چاہیئے کہ اس کی اطاعت بھی کرے ۔  پس ایک شخص بیعت لینے کی وجہ سے ہی خلیفہ بنا اور اس کی اطاعت فرض ہو گئی کیونکہ وہ ایسا خلیفہ بن گیا جس کو امت نے بیعت دی ،یوں بیعت کے ذریعے اس نے امت سے اقتدار (اتھارٹی ) اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔

 

نمبر-5: کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے ضروری ہے  کہاختلافی آرا میں سے کسی رائے کو قانون کے طور پر تبنی کرنے کا اختیار صرف خلیفہ ہی کے پاس ہو

جمہوریت کی طرح اسلام نے بھی اختلافِ رائے کو رفع کرنے  اور قانون بنانے کیلئے مختلف آراء میں ایک رائے کو اختیار کرنے کا طریقہ کار رضع کیا ہے جو جمہوری طریقہ کار سے یکسر مختلف ہے۔ایک اسلامی حکومت میں ریاست کے سربراہ  یعنی خلیفہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  متعدد اسلامی آراء میں سے مضبوط ترین رائے کو قانون کی حیثیت سے اختیار کر سکتا ہے۔شرعی احکامات کے معاملے میں مضبوط ترین رائے کا انتخاب شرعی دلیل کی مضبوطی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔خلیفہ کے کسی رائے کی تبنی کرنے سے وہ رائے قانون کا درجہ حاصل کر لیتی ہے جس کی اطاعت  ظاہری طور پر اور باطنی طور پر لازم ہو جاتی ہے۔ اس کی دلیل اجما ع صحا بہؓ ہے ۔ اس با ت پر اجما ع صحا بہؓ منعقد ہوا تھا کہ خلیفہ معین شرعی احکا ما ت کی تبنی کر سکتا ہے ، پھر اس با ت پر بھیصحا بہؓ کا اجماع ہوا تھا کہ خلیفہ جن احکا ما ت کی تبنی کر ے ان پر عمل کرنا فرض ہے ۔ مثال کے طور پر، ابوبکر ؓ نے ایک نشست میں تین طلاقوں کو ایک طلا ق قرار دیا اور مال غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان برا بر تقسیم کرنے کو تبنی کیا اور اس معاملے میں نئے اور پرانے مسلمان کے درمیان فرق نہیں کیا وغیرہ۔ تمام مسلما نوں نے ان مسائل میں آپ کی پیروی کی حتیٰ کہ قا ضیوں اور گورنروں نے بھی آپ کی تبنی کے مطا بق فیصلے کیے۔ جب عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے ان مسا ئل میں ابو بکرؓ کی رائے کے بر خلا ف تبنی کی اور تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیا اور مال کی تقسیم میں اسلام میں سبقت اور ضرورت مندی کو مقدم رکھا اوربرا بری کی بنیا دپر تقسیم نہیں کی۔مسلمانوں نے ان کی پیروی کی اور قا ضیوں اور گورنروں نے ان کی را ئے کے مطا بق فیصلے کیے ۔ اسی طرح عمر بن الخطا ب ؓ نے یہ تبنی کی کہ مال غنیمت کے طور پر حا صل ہونے والی زمین لڑنے والوں کے درمیان تقسیم نہیں ہو گی بلکہ اسے بیت المال کا حق قرار دیا جائے گااور یہ حکم دیا کہ زمین ان لو گوں کے پا س ہی رہے گی جن کی ہے،  مسلمانوں اور لڑنے والوں میں تقسیم نہیں کی جائیگی اور قاضیوں اور گو رنروں نے اس تبنی کے مطا بق فیصلے کیے اور تمام مسلما نوں نے بھی ان کی تابعداری کی ۔ یو ں تمام خلفا ئے راشدین نے تبنی کی اور لو گوں کو اپنے تبنی کر دہ احکا ما ت پر عمل کرنے کا پا بند بنا یا اور ان کو اپنے اجتہا د چھوڑ کر خلیفہ کی رائے پر عمل کرنے کا حکم دیا ۔ پس دو باتوں پر اجما ع ٹھہرا۔  ایک تبنی پر اور دوسرا اس بات پر کہ خلیفہ کی جا نب سے تبنی کر دہ حکم پر عمل کرنا فرض ہے ۔ اس اجما ع سے یہ مشہو ر شر عی قاعدے اخذ کئے گئے  (للسلطان أن يحدث من الأقضية بقدر ما يحدث من مشكلات) ’’خلیفہ ہر نئے آنے والے مسئلے کے حل کے لئے حکم دینے کا اختیار رکھتا ہے‘‘۔  (أمر الإمام يرفع الخلاف) ’’خلیفہ کا حکم اختلا ف کو ختم کرتا ہے‘‘(أمر الإمام نافذ)’’خلیفہ کا حکم نا فذ ہو تا ہے‘‘۔

 

لہٰذا صحابہ اکرامؓ کے درمیان اسلام کی سمجھ میں فرق کی وجہ سے شرعی احکامات میں اختلافات کے باوجوداس بات پر ان کا اتفاق ٹہرا کہ لوگوں کے درمیان ان معاملات سے متعلق اختلافات کو ختم کرنے کیلئے شرعی احکامات کو  خلیفہ کی تبنی کے ذریعے ہی قانون کا درجہ دیا جا سکتا ہے جس پر عمل درآمد لازم ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اسلام اس بات کی تاکیدکرتا ہے کہ خلیفہ  لوگوں کے معاملات میں ان سے مشورہ لے لیکن اختلافی معاملات میں کسی  اسلامی رائے کو قانون کا درجہ دینے کیلئے خلیفہ کی تبنی کا یہ عمل تمام خلفائے راشدینؓ اور ان کے بعد آنے والے خلفاء کے دور میں تسلسل سے نظر آتا ہے جو اس اصول کی واضح دلیل ہےکہ ایک اسلامی حکومت میں شرعی احکامات سے قوانین بنانے کا  شرعی طریقہ کار صرف اور صرف خلیفہ کی تبنی ہے۔ قانون اختیار کرنے کا کوئی بھی دوسرا طریقہ کار غیر اسلامی حکومت کی نشانی ہے۔

 

نمبر -6: کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے ضروری ہے  کہ  اس ریاست کا مکمل آئین ،تمام قوانین  اوردیگر پالیسیاں صرف اور صرف وحی پر مبنی نصوص سے اخذ شدہ ہوں۔

اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے نازل کردہ  وحی ہی وہ راہنمائی  اور ہدایت ہے جس پر عمل کرنا تمام دنیا کے انسانوں کیلئے روزِ قیامت نجات کا ذریعہ ہے۔اسلامی عقیدہ اس امر کا مطالبہ کرتا ہے کہ ایک مسلمان کیلئے زندگی کے تمام معاملات میں اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی ہی  بنیاد ہو اور تمام تر راہنمائی اسی سے حاصل کی جائے، یہی دین کا ماخذ ہے  اور اسی سے اللہ سبحانہ وتعالی کے اوامر و نواہی کا علم حاصل ہوتا ہے۔لہٰذا اسلامی عقیدے  پر مبنی ریاست کیلئے یہ لازم ہے کہ  اس کے آئین و قوانین  اور تمام پالیسیاں خالص طور پر صرف وحی پر ہی مبنی ہوں اور  حکمرانی کیلئے کسی دوسرے ماخذ  کی طرف رجوع نہ کیا جائے جو وحی پر مبنی نہ ہو۔ وحی سے مراد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔ لہٰذا  حکمرانی  اور نظام کیلئے   قوانین کی بنیاد صرف  قرآن و سنت ہیں، اور وہ ماخذ جو قرآن و سنت ہی پر مبنی ہوں ۔

 

اللہ سبحانہ وتعالی نے  فرمایا:

﴿وَمَن لَّمۡ يَحۡكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡكَـٰفِرُونَ﴾

"اورجو اللہ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہی لوگ کافر ہیں"(المائدۃ:44)۔

اور فرمایا:

﴿وَمَن لَّمۡ يَحۡڪُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ﴾

"اورجو اللہ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہی لوگ ظالم ہیں"(المائدۃ:45)۔

اور فرمایا:

﴿وَمَن لَّمۡ يَحۡڪُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡفَـٰسِقُونَ﴾

"اورجو اللہ کے نازل کردہ (احکامات) کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہی لوگ فاسق ہیں"(المائدۃ:47)۔

اور فرمایا:

﴿وَأَنِ ٱحۡكُم بَيۡنَہُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعۡ أَهۡوَآءَهُمۡ﴾

"اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ (احکامات)  کے مطابق حکومت کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں"(المائدہ:49)۔

 

یہ اور ان جیسی کئی اور آیات اس بات پر قطعی دلیل ہیں کہ مسلمانوں کیلئے یہ فرض ہے کہ وہ اس ہی کے ذریعے حکومت کریں جو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے رسول ﷺ پر نازل کیا ہے، یعنی وہ وحی جو قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے اور ہم تک پہنچی ہے۔

لہٰذا کوئی بھی حکومت صرف تب ہی اسلامی حکومت ہو سکتی ہے جب  اس میں حکمرانی  صرف وحی ہی سے ثابت شدہ ادلہ شریعہ (اعمال کیلئے درکار دلیل  کے شرعی ماخذ) کی بنیاد پر ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے قیامت تک کیلئے دنیا بھر کے انسانوں کو درپیش آنے والے تمام مسائل کے بارے میں رہنمائی اس وحی میں بیان فرما کر اسلام کو مکمل کر دیا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

﴿ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِينً۬ا‌

"آج ہم نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام ہی کو تمھارے لیے دین کے طور پر پسند کیا"(المائدہ:3)۔

 

لہٰذا اسلام میں ہر زمان و مکان کیلئے وہ تمام تفصیلات اور احکامات موجود ہیں جو کسی بھی ریاست میں اللہ سبحانہ وتعالی کے وحی کی بنیاد پر حکمرانی کرنے کے حکم کو پورا کرنے کیلئے درکار ہیں۔لہٰذا وہ تمام افکار ، قوانین اور پالیسیاں اپنانا ایک اسلامی حکومت کیلئے بالکل جائز نہیں جو  وحی سے اخذ شدہ نہ ہوں بلکہ انہیں کسی  دوسرے ماخذ سے  اخذ کیا جائے، چاہے وہ اسلام کے مخالف ہوں یا اسلام کے موافق۔لہٰذا آئین و قوانین  اور حکومت  کرنےکیلئے  ادلہ شریعہ میں سے قوانین  لینے میں ، اور کسی دوسری جگہ سے قوانین لے کر انھیں اسلام سے جواز فراہم کرنے میں فرق ہے۔پہلی صورت میں قوانین اسلامی ہوں گے جبکہ دوسری صورت میں قوانین غیر اسلامی ہوں گے، اگرچہ انھیں طاغوت سے لینے کے بعد اسلام سے جواز فراہم کر دیا جائے۔  ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ»

’’جو کو ئی ہمارے اس معاملے (دین کے معاملے)میں ایسی نئی بات لا ئے جو ہم( اس دین) سے نہیں تو وہ (کام) مردود ہے ‘‘ 

یہ الفاظ بخا ری کے ہیں جبکہ مسلم نے «ما ليس منه»’’وہ ہم میں سے نہیں‘‘  کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور ابن حزم نے المُحلی میں جبکہ ابن عبد البرنے التمھید میں یوں روایت کیا ہے کہ  «كُلُّ عَمَلٍ لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»’’ہر و ہ کام جو ہما رے حکم کے مطابق نہیں وہ مردودہے‘‘۔یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ ہر وہ حکم جو وحی کے علاوہ کہیں اور سے لیا جائے، وہ حکم رد ہے اور قابلِ قبول نہیں۔ یہ امر اس بات سے قطع نظر ہے کہ آیا وہ حکم جو اسلام کے علاوہ کہیں سے لیا گیا، وہ اسلام سے موافق ہے یا مخالف۔لہٰذا وہی ریاست ایک اسلامی ریاست ہو گی جس کا تمام تر آئین و قوانین اور مکمل نظام صرف اور صرف اسلام سے اخذ شدہ ہو۔

 

نمبر -7: کسی ریاست کو اسلامی ریاست بننے کیلئے ضروری ہے  کہ  وہ دیگر ممالک کے ساتھ صرف  اسلام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرے اور دینِ  اسلام کو پوری دنیا پر غالب کرنے کیلئے دعوت کی علمبردار بنے۔

مسلمانوں کی طرف سے خلیفہ کی تقرری کیلئے دی جانے والی بیعت دو موضوعات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اول یہ کہ خلیفہ اس امت کی طرف سے دی جانے والی اتھارٹی کے ذریعے شریعت کے احکامات کو نافذ کرے گا یعنی اسلام کے ذریعے حکومت کرے گا، اور دوئم یہ کہ خلیفہ اسلام کو پوری دنیا تک لیجانے کیلئے پوری دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت رکھے گا اور اس دعوت کے راستے میں حائل مادی رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے بقدرِ ضرورت  افواج کے ذریعے جہاد بھی کرے گا۔لہٰذا اسلام میں حکمران دونوں امور پر ذمہ دار ہوتا ہے یعنی اندرونی طور پر اسلام کا نفاذ اور بیرونی طور پر دعوت و جہاد کرنا۔رسو ل اللہ ﷺ نے فرما یا :

«أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّ الإِسْلامِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ»

’’مجھے اس وقت تک لو گوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ  لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہکی شہا د ت نہ دیں اور نما ز کو قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ، اگر وہ یہ کام کریں تب وہ اپنی جان اور ما ل کو مجھ سے محفوظ کریں گے ،سوا ئے اُس کے جواسلام کی جانب سے ان پر حق ہو اور ان کا حساب اللہ کے پاس ہے‘‘(متفق علیہ)۔

 

اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ  مدینہ میں مسلمانوں کی فوجی طاقت کا قریش سے کمزور ہونا مسلمانوں کو معلوم تھا  لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے قریشِ مکہ سے تعلقات اسلام ہی کی بنیاد پر رکھے ، ان پر غلبہ حاصل کرنے کی پالیسی کو جاری رکھا اور بالآخر مکہ میں فتح حاصل کی۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے دور کی جتنی بھی عالمی طاقتوں کے بادشاہوں کو خطوط بھیجے، وہ سب باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کیلئے نہیں بلکہ صرف اسلام  کو قبول کرنے اور اسلام کی حاکمیت تسلیم کرنے کی طرف دعوت دینے پر مبنی تھے۔ اسامہ ؓ کے لشکر کی تیاری جسے آپ ﷺ   نے اپنے وصال سے پہلے سخت بیماری کی حالت میں بھی روانہ کرنے پر اصرار کیا، وہ   سلطنتِ روم کو اسلام کی اتھارٹی کے نیچے لانے کیلئے تھا۔اس کے علاوہ تمام خلفائے راشدین کے دورِ خلافت میں اسلامی ریاست مسلسل پھیلتی رہی اورمسلمان  دیگر دنیا میں موجود نظاموں کو چیلنج کرتے ہوئے  دعوت و جہاد کرتے رہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی  نے جس مقصد کے ساتھ دینِ اسلام  کو اس دنیا کیلئے بھیجا وہ مقصد یہی تھا کہ پوری دنیا پر اسلام ہی کی اتھارٹی قائم کی جائے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا،﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ﴾،"وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کر دے"(الفتح:28)۔یقیناً آج دنیا میں اسلام کے علاوہ دیگر ادیان کا موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے مسلمانوں کو دیا گیا یہ مقصد ابھی پورا ہونا باقی ہے، جو رسول اللہ ﷺ کے بعد اب ان کی امت کی ذمہ داری ہے ، جس کو پورا کرنے  کیلئے امت خلیفہ کو بیعت دیتی ہے۔

 

لہٰذااسلام میں ایسی کسی ریاست کا تصور موجود نہیں جو اسلام کو پوری دنیا تک پھیلانے اورتمام ادیان پر  غالب کرنے کے اس مقصد  کو پورا کرنے کی کوشش نہ کرے یا اس کیلئے تیاری نہ کرے۔ اسی طرح اسلام کسی ایسی ریاست کا تصور پیش نہیں کرتا جو  اندرونی طور پر تو اسلام کے احکامات کے نفاذ کا دعویٰ کرے لیکن  دنیا کی عالمی طاقتوں کے سامنے  اپنے مقام اور حیثیت کو تسلیم کروانے کیلئے عالمی ورلڈ آرڈر کو تسلیم کر لے۔اسلام میں ایسی کسی ریاست کا تصور موجود نہیں جو مغربی عالمی قوانین کی پاسداری کرے، اقوامِ متحدہ یا سلامتی کونسل یا آئی ایم ایف یا عالمی عدالتِ انصاف جیسے مغربی اداروں کو تسلیم کرے یا ان میں شمولیت اختیار کرے، قومی ریاستوں کے تصور کی بنیاد پر ریاست کی مستقل سرحدوں کو تسلیم  کرے اور اپنی  سرحدوں کے پار مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے تسلط سے آزاد کروانے کو   اپنا اولین مسئلہ نہ سمجھے، ایسی کسی ریاست کے وجود کیلئے اسلام میں کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔

 

اختتامیہ:

مندرجہ بالا بیان کردہ اصولوں کی بنیاد پر یہ واضح ہو گیا کہ وہ حکومت ایک اسلامی حکومت نہیں ہو سکتی جو حکمرانی میں اسلام کے چند بنیادی اصولوں کو تو اپنا لے لیکن  نظامِ حکومت، نظامِ اقتصادیات ، معاشرت ، عدلیہ، داخلہ و خارجہ امور، فوج ، تعلیم ، صنعت  وغیرہ کی تمام تفصیلات  وضع کرنے کیلئے  مغرب یا دیگر نظاموں کی طرف رجوع کرے۔اسی طرح اگر کوئی حکومت دعوت و جہاد کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کے پوری دنیا تک اسلام پھیلانے  کے مشن کو ترک کر کے  قومی سرحدوں کی پہرہ دار بن جائے، اپنی عالمی پوزیشن مستحکم کرنے کیلئے اسلام پر سمجھوتہ کر کے اقوامِ متحدہ اور عالمی اداروں  کے طاغوتی نظام کو اپنا لے، اسلام کے سونے اور چاندی پر مشتمل کرنسی کے حکم کو نظر انداز کرکے fiat کرنسی کو اقتصادیات کی بنیاد بنائے، اسلام کے نظریاتی پہلوؤں پر سمجھوتا کرتے ہوئے کفر کے سردار امریکہ یا اس کے حواریوں کے ساتھ' کچھ لو کچھ دو' کی بنیاد پر تعلقات قائم کرے، قومی مفادات کو اسلامی شریعت سے بالاتر سمجھے، اسلامی افکار کو بنیاد بنانے کی بجائے مغرب کے پیش کردہ افکار جیسے انسانی حقوق، حقوقِ نسواں، بنیادی حقوق ، عالمی قانون وغیرہ کی پاسداری پر رضامند ہو،ایسی کوئی بھی حکومت اسلامی حکومت نہیں ہو سکتی۔یقیناً موجودہ  دور میں ،جب مغرب مسلم دنیا پر اپنی زبردست  ثقافتی اورفکری یلغار کے ذریعے مسلم اذہان سے اسلامی تصورات کو کھرچنا چاہتا ہے، وہاں مسلمانوں کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے والے ان افکار  کا مکمل فہم حاصل کریں تاکہ اسلام دشمن عالمی طاقتیں اور مسلم دنیا میں موجود ان کے ایجنٹ حکمران  امت کو اسلامی حکومت کے نام پر کوئی دھوکہ نہ دے سکیں۔یقیناً یہ ان اسلامی تصورات کا درست فہم ہی ہو گا جو تمام دنیا کے مسلمانوں کو، ان شاءاللہ،  جلد ہی قائم ہو نے والی ریاستِ خلافت کی پہچان کروائے گا۔اس دن مومنین خوشیاں منائیں گے اور پھر پوری دنیا اسلام کے نظام کے حقیقی نفاذ اور اس کے ثمرات  کا مشاہدہ کر لے گی۔

 

Last modified onپیر, 13 دسمبر 2021 20:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک