الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ظالم کے غضب کردہ حقوق اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے کبھی واپس نہیں ملتے

 

مصعب عمیر - ولایہ پاکستان

 

مسلمانوں کے غصب شدہ حقوق گھٹنے ٹیک دینے ، سمجھوتے ، سفارت کاری اور مذاکرات سے کبھی واپس نہیں ملتے۔ بلکہ ان کو مخالف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے ، جدوجہد اور قربانی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کے مطیع ہونے کےطرزِ عمل سے متعلق ، عظیم تاریخ دان ابنِ خلدون  نے مقدمہ میں ظلم کے آگے نرمی برتنے کے بارے میں ان الفاظ میں خبردار کیا،

أن المذلة والانقياد كاسران لسورة العصبية وشدتها فإن انقيادهم ومذلتهم دليل على فقدانها فما رئموا للمذلة حتى عجزوا عن المدافعة

"(ظلم کے مقابلے میں) تذلیل اور تابعداری اجتماعی احساس کی قوت کو توڑ دیتی ہے۔ ان کا ذلیل ہونا اور اطاعت میں گر جانا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نقصان میں پڑ گئےہیں۔ وہ تذلیل  کو برا نہیں سمجھتے ، حتیٰ کہ وہ اپنے دفاع کے قابل نہیں رہے"۔

 

ہمارے اس موجودہ دور میں ، جب طاقت سے دبانے اور وی آئی پی کلچر کا راج ہے، اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ طاقت اختیار ، عہدے ، دولت یا پروٹوکول سے نہیں آتی ، بلکہ حق پر ثابت قدمی سے آتی ہے ، چاہے آپ کے پاس کوئی بڑا عہدہ ہو یا نہ ہو۔ ایک مسلمان شاید اختیار اور حکمرانی سنبھالنے کی صلاحیت بھی نہ رکھتا ہو ، لیکن وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضاکو مقدم رکھتے ہوئے ظالم لوگوں یاحکمرانوں کے سامنے کمزور نہیں پڑتا اور نہ ہی ان کا مطیع بنتا ہے۔

 

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے خود کوگورنر بنانے کی درخواست کی ، لیکن آپ ﷺنے ان کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ،

يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ ضَعِيفٌ وَإِنَّهَا مَمَانَةٌ وَإِنَّهَا يَوْم ِّلَّا مَنْ خَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا

"تم کمزور ہو ابوذر ، اور یہ ایک امانت ہے جو قیامت کے دن شرمندگی اور ندامت کا باعث بنے گی سوائے اس کے لیے جو اس کا حق ادا کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے"(مسلم)۔

ایک اور روایت میں ہے کہ آپﷺ نے ان سے کہا،

يَا أَبَا ذَرٍّ إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ وَلَا تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ،

" میں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور ہو ابوذر ، اور میں تمہارے لیے وہی چاہتا ہوں جو میں اپنے لیے چاہتا ہوں۔ دو لوگوں پر بھی حکمرانی کو قبول نہ کرو اور یتیم کی جائیداد کے سرپرست نہ بنو"۔

 

امام نووی نے اس پر یوں تبصرہ کیا،

ھذا الحديث أصل عظیم في اجتناب الولايات ، لا سیما لمن كان فيه ضعف عن القيام بوظائف تلك الولاية

"یہ حدیث حکمرانی سے بچنے کے بارے میں ایک عظیم اصول ہے ، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ریاست کے فرائض کو انجام دینے کے لحاظ سے کمزور ہوں"۔

 

حکمرانی کے قابل نہ ہونے کے باوجود ، ابوذرغفاریؓ نہ تو گھٹنے ٹیکنے والے تھے اور نہ ہی کمزور پڑنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے مکہ کی حکمران اشرافیہ یعنی قریش کے سامنے بہادری سے اپنا اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، جس پر ان پر وحشیانہ حملہ کیا گیا اور بے رحمی سے مارا گیا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم ، غفار قبیلے کے پاس واپس چلے گئے  اور اس وقت تک آرام نہیں کیا جب تک کہ ایک بڑی تعداد اسلام میں داخل نہ ہو گئی ، جس سے قریش کے شرک کو ایک زبردست دھچکا لگا۔

 

درحقیقت ابوذر ؓ ایک مضبوط شخصیت تھے جو آج کی مضبوط شخصیات کے لیے رہنما ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یقینی طور پر ، مسلمان کو ان ظالموں کے سامنےکمزور یا مطیع نہیں ہونا چاہیے جو امتِ مسلمہ کو تکلیف دیتے ہیں۔ یہ یزید کی جنس سے تعلق رکھنے والے ناجائز غاصب ہیں ، کیونکہ ان کو کسی شرعی بیعت کے ذریعے اسلام کے مطابق حکومت کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں ۔ ان کے ظلم کو قبول کرنے یا برداشت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا تبدیلی کے لیے دوسرا  کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ تمام نسلوں میں سے بہترین یعنی صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم کی مخالفت کی جائے، اورظلم کے خلاف جدوجہد اور قربانی کی راہ اختیار کی جائے۔

 

Last modified onاتوار, 22 اگست 2021 15:53

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک