الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ریاستِ خلافت کے زیر سایہ غذائی تحفظ (Food Security)

تحریر: علی القاضی۔ یمن

 

الوعی میگزین شمارہ: 387

 

ابتدائیہ : غذائی تحفظ کی اصطلاح کاماخذ

زندہ رہنے اور زندگی کی ذمہ داریوں کو سرانجام دینے کے لیےغذا  کا استعمال انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ غذا ممالک کے درمیان کشمکش کے اسباب میں سے ایک ہے۔ اس کی وجہ سے تنازعات اورجنگیں چھڑیں۔ انسان اپنی بقا کے لیے روزانہ کی بنیاد پر غذا کی ایک مخصوص مقدار کا محتاج ہوتا ہے ۔    جس کو یومیہ  غذا میسر ہو ،اور اس کی زندگی پُر امن ہو اور اس کے جسم تندرست و توانا ہوتو گویا وہ ساری دنیا اور جو کچھ اس میں موجود ہے اس کا مالک ہے ،جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:((من أصبح منكم آمنًا في سربه، معافى في جسده، عنده قوت يومه، فكأنما حيزت له الدنيا))"جو کوئی اپنے گھر میں امن سے رہا ، اس حال میں کہ اس کا جسم صحیح سلامت ہو اور اس کے پاس یومیہ غذا موجود ہو ، ایسے آدمی کے پاس گویا ساری دنیا اکٹھی ہوگئی" (ترمذی)۔

 

ایک ریاست صرف اسی صورت میں ہی  غذائی تحفظ فراہم کرنے کی قابل ہوتی ہے جب وہ زرعی پیداوارکی اتنی  مقدار کے حصول کو یقینی بناسکے جو ریاست کی تمام رعایا کے لیے کافی یا کافی سے زیادہ ہواور اس کا سہارا دیگر ممالک سے برآمد کی جانے والی غذاؤں  پر نہ ہو،کیونکہ رعایا کو غذا کی فراہمی میں کسی ملک کی ناکامی اس کو دوسروں کا محتاج بنا کر رکھ دیتی ہےجس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ  دوسری ریاستیں اس کے نظم و نسق اور نظام ِحکومت میں دخل دینے لگتی ہیں۔

 

                  بیسویں صدی کے آغاز میں جب مغربی مفکرین نے دیکھا کہ انسانوں کی تعداد اربوں کے حساب سے بڑھتی جا رہی ہے، تو انہوں نے خبردار کرنا  شروع کیا کہ عنقریب دنیا کی بڑھتی آبادی کو غذا کی فراہمی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 1968 میں ایک امریکی بیالوجسٹ "پال ارلک"(Paul Erlich) نے ،  اپنی شہرۂ آفاق تصنیف "آبادی کا بم" (The Population bomb) میں لکھا:"پوری نسانیت کو کھلانے کی جنگ ختم ہوئی۔۔۔اس (بیسویں)صدی کی ساتویں دہائی میں دنیابھوک اور فاقہ کشی کے ہاتھوں لاکھوں انسانوں کی موت کے واقعات کا سامنا کرے گی"۔ اگر چہ اس کی یہ پیشین گوئی جھوٹی ثابت ہوئی، مگر دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کے تسلط کے زیر سایہ غذا کی عدم فراہمی کا مسئلہ بدستور قائم ہے۔  جنگوں ،خشک سالی، زلزلوں، آتش فشاؤں کے پھٹنے اور وبائی بیماریوں جیسی قدرتی آفات میں غذاکی فراہمی مزید گھمبیر صورت  اختیار کرلیتی ہے، بالخصوص ان ممالک میں جوتیسری دنیا کہلاتے ہیں، جن کے وسائل پربڑی سرمایہ دار ریاستیں باہمی جنگ و جدال میں مصروف ہیں۔"تیسری دنیا"کےیہ ممالک بے پناہ قدرتی  وسائل سے مالامال ہیں، مگر یہ وسائل ان کے لیے ایک بوجھ ہیں، اس کا سبب وہاں کے ایجنٹ حکمران اور ان وسائل پر تسلط کے لیے جاری بڑی ریاستوں کی کشمکش ہے،یہیں سے انسانوں پر مسلط سرمایہ دارانہ تہذیب کے سائے تلے،"غذائی سیکورٹی "کی اصطلاح چل نکلی۔

 

غذائی سیکورٹی کا کیا مطلب ہے؟ اور اس حوالے سےاسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ 

                  عام حالات میں بھی لوگوں کو  خوراک نہ ملنے کی صورتحال کی سنگینی کسی پر مخفی نہیں ہے۔ آج کی صورتِ حال سے بری صورتِ حال کیا ہو گی ۔ آج انسانوں کی قسمتوں کا فیصلہ کرنے والی سرمایہ دارانہ  لالچی اور بھوکی تہذیب کے سائے تلے طاقتور کمزور کی غذا کو کھاجاتا ہے،جس کے نتیجے ایسے مسائل اور حالات پیدا ہوتے ہیں جو قحط سالی اور غربت کو جنم دیتے ہیں۔ اس تہذیب نے انسانیت کو ایسے گھمبیر اور لا ینحل  مسائل اور حالات سے دوچار کردیا   ہے کہ جس نے  فاقوں ،غربت اور کسمپرسی کو فروغ دیا ،مثلاً کہیں معاشی پابندیوں کا حصار لگا کر اور کہیں جنگیں کھڑی کرکے۔ کئی ممالک ایسے ہیں جو پانی اور غذا کی قلت کے باعث  زوال کا شکار ہوئے اور کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نے اپنے وسائل اور دولت کو صرف روٹی کے حصول کے لیے دیگر ممالک کی قدموں میں ڈال دیا۔  یہ ایک خطرناک صورتحال    ہے جبکہ انہی حالات میں  مزید بڑے خطرات  کا نقارہ بجایا جارہا ہے۔چنانچہ غذائی تحفظ( فوڈ سیکورٹی) کا مطلب ہے: کسی ریاست کا اپنے لوگوں کو ہر قسم کے عام حالات یا غیر معمولی حالات جیسا کہ جنگ ، محاصرہ یا خشک سالی میں پانی اور غذا  کی بنیادی ضروریات  فراہم کرنا ۔

 

                  اسلام عالمی غذائی  بحران کی  پیشین گوئی کو تسلیم نہیں کرتا  کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں بیان فرمایا ہے کہ اس ذات عالی نےکرۂ ارضی کو وسائل سے بھر دیا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَجَعَلَ فِيهَا رَوَٰسِيَ مِن فَوۡقِهَا وَبَٰرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَآ أَقۡوَٰتَهَا فِيٓ أَرۡبَعَةِ أَيَّامٖ سَوَآءٗ لِّلسَّآئِلِينَ

"اور اس  نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ پیدا کیے جو اُس کے اوپر اُبھرے ہوئے ہیں، اور اس میں برکت ڈال دی اور اُس میں توازن کے ساتھ اِس کی غذائیں پیدا کیں۔ سب کچھ چار دن میں ، محتاجوں کے لیے یکساں طور پر"(حم السجدۃ:10)۔

 

اس لیے غذا وافر مقدار میں موجود ہے،صر ف اس بات کی ضرورت ہے کہ پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جائے اور منصفانہ تقسیم کو ممکن بنایا جائے۔ یہ بات بے بنیاد ہے کہ آبادی میں اضافہ، پانی کی قلت اور زرعی زمینوں کی کمی لوگوں کے بھوک سے مرجانے کا سبب ہے۔یہ بات اس لیے غلط ہےکہ کبھی  کم آبادی والے علاقوں میں   بھی قحط پڑجاتا ہے،جبکہ زیادہ آبادی والے علاقے اس سے محفوظ رہتے ہیں۔  چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ، وہ کسی سنگین غذائی بحران سے دوچار نہیں، جبکہ اس کی آبادی ایک ارب نفوس سے زیادہ ہے، جبکہ دوسری طرف کم آبادی والےافریقی ممالک ساحلوں پر موجود ہونے کے باوجود وہاں کے باشندے دائمی فاقہ کی زندگی بسر کرتے ہیں۔

 

                  باوجود اس کےکہ دنیا میں رہنے والے انسانوں کی آبادی دوسری جنگ عظیم کے بعد دُگنی ہوچکی ہے، مگر اس دوران زراعت کے شعبے میں  غذا پیداکرنے کی صلاحیت میں تین گُنا اضافہ ہوا۔ اسی وجہ سے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ زمین 47 ارب لوگوں کو اُس معیار کی غذا فراہم کر سکتی ہے جو امریکہ میں لوگوں کو میسرہے جو کہ ایک اعلیٰ معیار ہے،جبکہ زمین جاپان کے لوگوں کی خوراک کےمعیارکے مطابق 157 ارب انسانوں کو خوراک مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگرزرعی زمینوں کو درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو دنیا کی حالیہ آبادی کی دس گنا تعداد کو زیادہ سے زیادہ کھپت کے مطابق خوراک دی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کی موجودہ آبادی 7 ارب سےکچھ زیادہ ہے۔بعض دیگر ماہرین مذکورہ تمام سے بہت آگے کی بات کرتے ہیں۔ ان کے اندازے کے مطابق زمین ایک لاکھ بتیس ہزار ارب (132000)نفوس کو خوراک مہیا کر سکتی ہے جو ایک خیالی چیز ہی لگتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کےبڑے سائنسی انقلابات اور چھلانگوں کے باوجود اس کائنات کی گود میں رہائش پذیر انسان نے اب تک اس کی جوطاقت معلوم کی اور اُس سےجو فائدہ اٹھایا ہے، وہ اس کے ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

 

اگر غذائی کمی کا مسئلہ پیش آجائے تو اسلام نےاس کا کیا حل دیا ہے؟

خوراک یا غذاکی فراہمی بڑی ذمہ داری ہے۔ ایک مسلمان حکمران  نگہبان ہوتا ہےاوروہ اپنی رعایا کی دیکھ بھال کے بارے میں جوابدہ ہوتا  ہے۔ دیکھ بھال کی اس ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ  لوگوں کو  اشیائے خوردنی مہیا کی جائیں تاکہ  بھوک کی وجہ سےاموات واقع نہ ہوں،اورمارکیٹ میں وافر مقدار میں غذائی اشیاء میسر ہوں، جس کے نتیجے میں قیمتوں میں  استحکام کے ساتھ ساتھ اجارہ داروں کی بیخ کنی بھی ہو خصوصاً اس صورتحال میں جبکہ مٹھی بھر سرمایہ داروں نے عالمی اجارہ داری(Monopoly(قائم کی ہوئی ہے۔ دیکھ بھال کرنے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ مسلمانوں کا امام زمانۂ جنگ ، قحط اوربڑے حادثات کے لیے پہلے سے تیار اور چوکنا رہے کیونکہ اس قسم کے حالات میں زراعت میں کمی آجاتی ہے اوراشیائے خوردو نوش مہیا کرنے کی قوت متاثر ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ انسانی جان کی حفاظت فرض ہے ،اس لیے خوراک کی فراہمی بھی فرض ہے، اس کی دلیل یہ شرعی  ضابطہ ہے: ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب" جس چیز کے بغیر ایک واجب امر پورا نہ ہو سکتا ہو تو وہ چیز بھی واجب ہو جاتی ہے "۔

                  دین اسلام زراعت پر بھر پور توجہ دیتا ہے، جو بنیادی غذا کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اورصنعت و تجارت اور انسانی محنت کے بشمول معیشت کا بھی اولین ذریعہ ہے، کیونکہ زراعت ہی کے ذریعے ملک کی تمام رعایا کو خوراک مہیا کی جاسکتی ہے۔ پس زراعت کی بنیاد زمین ہے، اورپیداوار  اس کی تخلیقی  طبیعت کا لازمی جز ہے، جیسے بال ااور دانت ا ُگانا انسان کے پیدائشی مزاج کا حصہ ہے،زرعی زمین کے اندر جڑی بوٹیاں اُگنا زمین کی پیدائشی صفت ہے،خواہ کوئی انسان اس میں  کاشت کاری کرے یا  نہ کرے۔ مسلم ممالک کی سرزمینیں انواع و اقسام کے عمدہ ترین وسائل اور زرعی  ذرائع سے مالامال ہیں۔  یہ وسائل و ذرائع  ان ممالک کواس قابل بناتے ہیں کہ نہ صرف ان ممالک کے باشندے غذائی  طور پر خود کفیل ہوسکیں، بلکہ یہ صلاحیت بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان غذائی ذرائع سے پوری دنیا پر چھا جائیں۔

 

                  اگر ہم عرب ممالک پر نظر ڈالیں گے جو  عالم اسلام کا ایک اہم حصہ ہے توخطۂ عرب کےممالک میں 32.3کروڑ لوگ آبادہیں۔ اس کا رقبہ1.4کروڑ مربع کلومیٹر پر مشتمل  ہے۔آج کل یہ خطہ غذائی خود کفالت کے حصول کے لحاظ سے پریشان کن صورتِ حال سے دوچار ہے،یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کو  بیرونی بڑی ریاستوں سے غذائی اشیاء (Foodstuff)درآمد کرنی پڑتی ہیں، اور 2006 تک   ان ممالک میں غذائی  تعطل (food gap) 21ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا،  جبکہ عرب آرگنائزیشن فار ایگریکلچرل ڈیویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق اس بحران میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، یہ امر ان ممالک کو کفریہ ریاستوں کے  زیر تسلط رکھے گا۔ اس قسم کے حالات سیاسی خودکشی کہلاتی ہے کہ طاقت اپنی ہو مگر اس میں مرضی دشمن کی چلے۔

 

                  عرب خطے میں قائم  ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے خود کفیل نہ ہونے کےاصل وجہ وہاں  ذرائع اور دولت کی کمی نہیں ہےکیونکہ ان ریاستوں کے پاس قابلِ کاشت زمینیں، پانی،انسانی وسائل اور مالی ذرائع بکثرت موجود ہیں۔اصل وجہ یہ ہے کہ یہ ریاستیں ہر چھوٹی بڑی چیز کے لیے کفریہ ممالک پر انحصار کرتی ہیں،کیونکہ اسلامی ریاست موجود نہیں، اور مسلمانوں کا خلیفہ موجود نہیں جو ہماری دیکھ بھال کرے  اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہمیں تحفظ فراہم کرے، جو تمام کفریہ ریاستوں سے دستبرداری اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کی وفاداری کا ببانگ دُہل اعلان کرے۔

 

                  اللہ کے اذن سے جلد قائم ہونے والی خلافت کا خلیفہ ہنگامی بنیادوں پر اپنی رعایا کے  تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرےگا۔اس تحفظ میں غذائی تحفظ ( فوڈ سیکورٹی )بھی شامل ہےتاکہ کافروں کو مسلمانوں پر ایسا کوئی اختیارحاصل  نہ رہے   جس سے وہ آنے والی اسلامی ریاست کے وسائل ، پالیسیوں اور نظام مملکت میں اپنی مرضی چلاسکیں جیسا کہ موجودہ حالت  میں ہورہا ہے،درحقیقت یہ صورتِ حال مسلمانوں کے وجود  اور ا ن کے تحفظ کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

 

1-   قابلِ کاشت زرعی زمینیں:

زرعی اراضی غذائی تحفظ کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک ہے، جس کے سہارے غذائی خود کفالت کے حصول کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اسلام کاشتکاری اور زرعی زمینوں کی دیکھ بھال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی زرعی پالیسی ایک اہم چیز پر قائم ہے،اور وہ ہے زرعی پیداوار میں اضافہ۔ اس کے لیے دو طریقے استعمال کیے جاتے تھے:

 

ا- زمین کی پیداوار بڑھانا - پیداوار میں اضافہ   کیمیاوی مواد  کے استعمال اور کسانوں میں جدید اسالیب کو رواج دے کر، معیاری بیج مہیا کرکے اور غریب کسانوں کو ضروری اخراجات مفت فراہم کر کے کیا جا سکتاہے ،تاکہ یہ کسان ضروری آلات ، بیج اور کیمیاوی مواد خریدسکیں۔  اوروہ تمام سہولیات  فراہم کی جائیں جو پیداوار میں اضافے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

 

ب۔ زرعی میدانوں میں توسیع- یہ مقصد  بنجر زمینوں کو آباد کرنے اور ان پر باڑ لگاکر ان کی ملکیت حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہےجیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((من احیا ارضا میتۃ فھی لہ)) " جو کسی بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ملکیت ہے" ( بخاری، ابوداؤد، احمد ، موطا)۔ ریاست ایسے افراد کو جن کے پاس کوئی زمین نہ ہو یا وہ تھوڑی سی زمین کے مالک ہوں اور کھیتی باڑی کرسکتے ہوں، زرعی قطعات دیتی ہے، اور جو اپنی زمین کو تین سال بغیر کاشت کے چھوڑے رکھے اس سے وہ زمین جبراً واپس لے لیتی ہے۔

 

اس کی ایک مثال  : رسول اللہ ﷺ نے بلال المزنی ؓ کو سمندر اور الصخر کے درمیانی زمینیں دی تھیں۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور سیرتِ خلفائے راشدین میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لہٰذا ان دو طریقوں سے زرعی پیداوار میں اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

چار چیزوں کابڑھایا جانا ضروری ہے:

 

1۔ غذائی مواد میں اضافہ، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھلایا جاسکے، اور ان کو قحط کے خطرے سے محفوظ کیا جاسکے، نیز ہنگامی حالات ( ایمرجنسی) کے لیے بطورِ ذخیرہ رکھا جاسکے۔

 

2۔ کپڑا بنُنے کے لیے لازمی خام مواد کی پیداوار میں اضافہ، جیسے کپاس ، ریشم اور اُون۔ یہ وہ ضروری اشیاء ہیں جن کے بغیر چارۂ کار نہیں۔

 

3۔ان مواد میں اضافہ جن کی بیرونی دنیا میں مارکیٹ ہو ، خواہ غذائی مواد  ہوں یادیگر زرعی پیداواری اشیاء،مثلاً غلہ یا کپڑے کی مصنوعات ۔

 

4۔ اہم اور ضرور ی مواد کی در آمد پر سے رکاوٹوں کو ہٹانا تاکہ ان میں اضافہ اور ان کی رسد کو آسان بنایا جاسکے ۔ حضرت عمر ؓ کا عمل یہی تھا جیسا کہ ابو عبید نے بیان کیا ہے:" عمر‌رضی اللہ عنہ نبطین والوں سے تیل اور گندم کا  آدھا  عشر لیتے تھے تاکہ مدینہ میں اس کی رسد کو بڑھایا جائے ، مکمل عشر کی جگہ آدھا عشر لینے کا مقصد یہ تھا کہ تیل اور گندم مدینہ میں زیادہ لایا جائے اور کپڑے پر پورا عشر لیتے تھے"۔

 

الجزیرہ چینل نے23 اپریل2014 کو ایک رپورٹ میں کہا : عرب خطے میں قابل کاشت زمین کا رقبہ 197 ملین ہیکڑ تک ہے اور اس وقت صرف 80 ملین ہیکڑ کاشت کیا جاتا ہے جو مجموعی رقبے کا 40فیصد ہے۔ اس میں موسمی فصلوں کی پیداوار 23 فیصد اور دائمی فصلوں کا حصہ 4.9 فیصد ہے۔  کھیتی باڑی کا کام کرنے والے افراد اس خطے کی مجموعی لیبرفورس کے23 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں اور دیہات سے شہروں کی طرف  نقل مکانی کے باعث یہ تعداد مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔عرب سرزمین  ساحلِ سمندر  پر واقع ہے، یہ سمندر مچھلیوں سے مالا مال ہیں جس کی وجہ سے انہیں غذائی سیکیورٹی حاصل ہوتی ہے۔

زراعت کے لیے جس طرح زرعی زمینوں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح کچھ اور ذرائع بھی ضروری ہوتے ہیں تاکہ زرعی عمل کو مکمل کیا سکے اور اس کی پیداوار کو بڑھایا جاسکے۔ 

 

2۔ پانی کے وسائل:

پانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی عناصر میں سے ایک عنصر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَجَعَلۡنَا مِنَ ٱلۡمَآءِ كُلَّ شَيۡءٍ حَيٍّ" ہم نے ہر ذی روح کو پانی سے پیدا کیا ہے"(الانبیا: 30)۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے، ((الناس شركاء في ثلاث: الماء والكلأ والنار)) " لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں : پانی،چراگاہیں اور آگ(توانائی)"۔ اس بنا پر غذائی تحفظ کے ساتھ پانی کا حتمی تعلق  ہے، چنانچہ فوڈ سیکورٹی  تبھی پائی جائے گی جب واٹر سیکورٹی میسر ہوگی ، کیونکہ زراعت صرف پانی کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی ریاستوں کے درمیان جنگیں بھڑکنے اور تنازعات پھوٹنے کے اسباب میں سے ایک ہے۔ الحمد للہ اسلامی سرزمین پانی کے بڑے ذخائر سے گھری ہوئی اورانتہائی اہم تزویراتی ( اسٹریٹجک ) آبی گزرگاہوں پر واقع ہے اور ان پانیوں کی کوئی حد نہیں۔ ہماری سرزمینوں میں دریائے نیل اور دجلہ و فرات جیسے دنیا کے مشہور دریا بہتے ہیں۔ صرف یہی دریا 150ارب   کیوبک میٹر  سے زائدپانی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیر زمین پانیوں کے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں جن کا اندازہ 7734 ارب کیوبک میٹر لگایا گیا ہے۔ 

   

مسلمانوں کے پاس پانی کے متعدد ذرائع موجود ہیں جو کرۂ ارض کے تمام باشندوں  کے لیے کافی ہیں۔ پانی کے یہ وسائل   قابل کاشت زمینوں کی کاشتکاری اور بنجر  زمینوں کوقابل زراعت بنانےاور انہیں آباد کرنےکو ممکن بناتے ہیں۔ ریاست کا کام صرف یہ رہ جاتا ہے کہ وہ رعایا کوپانی کے بہتراستعمال  سے روشناس کرانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے،اس حوالے سے ان کی رہنمائی کرے اور پانی ضائع کرنے اور بے جا خرچ کرنے سے انہیں روکے۔ ریاست ڈیم بنانے  اور اس کے لیے مصنوعی فوارے (Artesian well)کھدوانے پر کام کرے،جو کہ ایک ضروری امر ہے۔

 

3۔ انسانی ذرائع:

زمینوں کی  بحالی و اصلاح ، کاشتکاری اور ان کی آبادی کے لیے صرف پانی ہی ضروری نہیں، بلکہ اس میں انسانی محنت و کوشش  کی بھی حاجت ہوتی ہے، یعنی کاشتکاروں اور کسانوں کو یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس یہ ذرائع بھی بکثرت موجود ہیں۔ عرب خطے میں48 ملین  افراد زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔اس طرح اگر کام کاج کے قابل  غریب لوگوں کو کام پر لگا یاجائے تو بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہے، ریاست بنجر زمینیں ان غریبوں میں تقسیم کرے اور یہ لوگ ان کو آباد کریں گے اور اس میں کاشتکاری کریں گے۔ 

 

4۔مالی ذرائع:

بلا شبہ زمینوں کی کاشت ، بحالی اور آبادکاری  کے لیے کثیر مال کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ بھی ہمارے پاس وافر   مقدار میں موجود ہے۔ ان میں سر فہرست تیل کی دولت ہے۔ مثلاً الوعی میگزین کے شمارہ نمبر233 میں ایک مضمون میں بیان کیا گیا : " دستاویزی فلم" فارن ہائٹ 11 " میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ نے صرف سعودی تیل سے جو فائدہ اُٹھایا ہے اس کی قیمت 86 ٹریلین ڈالر ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر اس دولت کو دنیا کے تمام مسلمانوں پر تقسیم کیاجائے تو ان  کے ہر بوڑھے بچے اور مردو عورت کے حصے میں تقریباً 66 ہزار ڈالر آئیں گے،جبکہ امریکہ اُمت  کو محروم رکھ کر خودان اموال سے فائدہ اُٹھاتا ہے"۔ گیس اور معدنیات کے خزانے اس کے علاوہ ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلم ممالک میں سے گزرنے والے موجود اسٹریٹجک راستوں سے زبردست فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔

 

اس کے علاوہ زرعی زمینوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لیے جدید سائنسی وسائل اور اسالیب کو بروئے کار لایا جائے ،اور زرعی پیداوار میں بنیادی اور ضروری مواد  کی پیداوار پر اصل توجہ دی جائے، جیسے گندم ،نباتاتی تیل ، گوشت ، دودھ اور  اس سے بنی ہوئی اشیاء، مچھلی اور انڈے وغیرہ۔ ان غذاؤں کو کئی سالوں  تک ذخیرہ جاسکتا ہے،گندم کو خوشوں میں چھوڑ کر یا دانہ کی شکل میں ، کھجور، انجیراورانگور کو خشک کر کےاور تیل، خشک گوشت یا  ٹین کے ڈبوں میں پیک کرکے، اسی طرح خشک دودھ اور انڈوں کا پاؤڈروغیرہ۔ اوربالخصوص جن غذاؤں کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے، ان کو ترجیحی بنیادوں پر محفوظ کیاجائے ۔

 

یہ بحث غذا کو ذخیرہ کر کے رکھنے میں ریاست کے کردار کے حوالے سے تھی۔ جہاں تک افراد کا تعلق ہے تو ان کو طویل زمانہ تک ذخیرہ کی جانے والی غذائی مواد گندم ،تیل یا ڈرائی فروٹ اور مِلک پاوڈر  گھروں میں محفوظ کر کے رکھنے کے حوالے سے ترغیب و تحریص دلائی جائے گی۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت نقل کی ہے، آپؓ فرماتی ہیں: آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:((لا يجوع أهل بيت عندهم التمر))"جن گھر والوں کے پاس کھجور ہو وہ بھوکے نہیں ہوں گے"اور آپ ﷺ فرمایا:((يا عائشة، بيت لا تمر فيه جياع أهله، أو جاع أهله))" اے عائشہ! جس گھر میں کھجور نہ ہو ، وہ بھوکے ہوں گے"۔ اور یہ ثابت ہے کہ مسلمان  رسول ﷺ کے زمانہ میں کھجور جمع کرکے رکھ لیا کرتے تھے۔ العریہ کی فروخت کی اباحت اور جواز اس کی دلیل ہے(اس معاملے میں کھجور کے درخت پر موجود پھل  کو اتاری ہوئی کھجور کے بدلے فروخت کیا جاتا ہے) ،اور آپ ﷺ نےارشاد فرمایا: ((كنت نهيتكم عن  لحوم الأضاحي فوق ثلاث، لِيَتَّسِعَ ذو الطَّوْلِ على من لا طَوْلَ له، فكلوا ما بدا لكم، وأطعموا، وادخروا))" میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ تک قربانی کا گوشت جمع رکھنے سے منع کیا تھا تاکہ صاحبِ استطاعت ،نادار اور فقیر لوگوں پر کھل کر صدقہ کریں، اب جیسے چاہو خود بھی کھاؤ اور اکٹھا بھی کرو" اور آپ ﷺ نے فرمایا:((رحم الله امرأ اكتسب طيبًا، وأنفق قصدًا، وقدم فضلًا ليوم فقره وحاجته)) "اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو پاکیزہ مال کمائے اور اس میں سے میانہ روی کے ساتھ خرچ کرے ،اور حاجت و ضرورت مندی کے دنوں کے لیے بچت کرکے رکھ لے"۔ 

    

                  غذائی مواد ذخیرہ کرنے کے چند اصول و ضوابط ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے:

 

أ‌)     غذا کو ذخیرہ کرنے سے اجارہ داری جنم نہ لے کہ سامان کو بازار سے  غائب کردیا جائے، جس کے نتیجے میں مہنگائی پیدا ہو جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:كل محتكر خاطِئ" ہر ذخیرہ اندوز گناہگار ہے"۔ اور آپ ﷺ  نےفرمایا :من دخل في شيء من أسعار المسلمين ليغليه عليهم، فإن حقًا على الله أن يقعده بعُظم من النار يوم القيامة" جو کوئی مسلمانوں کے لیے چیزیں مہنگی کردینے کے مقصد سے قیمتوں میں مداخلت کرے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے تئیں یہ لازم کرلیا ہے کہ اس کو قیامت کے دن آگ  کے بڑے حصے پر بٹھائے گا"۔

 

ب‌)  جو کچھ ذخیرہ رکھا جائے، عام آدمی کو اس کی ضرورت نہ ہو، چنانچہ لوگ بھوکے ہوں، تو  کھانے کے سامان کو ذخیرہ نہیں کرنے دیا جائے گا، لہذا ذخیرہ اندوزی  کا عمل فاضل پیداوار میں سے کیا جائے ۔ خیثمہ ؓ روایت کرتے ہیں : ہم عبد اللہ بن عمروؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کہ انکے پاس ان کا قہرمان (خزانچی) آیا،آپؓ نے قہرمان سے کہا: تم نے غلاموں کو کھانا دیا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ عبد اللہ بن عمرو نے کہا ، جاؤ ان کو کھانا دیدو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ، كفى بالمرء إثمًا أن يحبس عمن يملك قوته  "آدمی کے گناہگار ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ کسی ایسے انسان سے کھانا روکے جس کے کھانے کا وہ ذمہ دار ہو"۔

 

مزید یہ کہ بنیادی طور پر مسلمان جب کھانا کھائے توکم کھائے، کیونکہ مسلمان جینے  کے لیے کھاتا ہے نہ کہ کھانے کے لیے جیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((الكافر يأكل في سبعة أمعاء، والمسلم يأكل في معي واحد))" کافر سات آنتوں سےکھاتا ہے اور مسلمان ایک آنت سے کھاتا ہے" ( مسلم)۔ اس حدیث کا مطلب مسلمانوں کو کم کھانے کی ترغیب دینا ہے۔ زیادہ کھانا کفار کے اوصاف میں سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں کہا ہے:﴿وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يَتَمَتَّعُونَ وَيَأۡكُلُونَ كَمَا تَأۡكُلُ ٱلۡأَنۡعَٰمُ" اور جنہوں نے  کفر اپنا لیا ہے، وہ یہاں تو مزے اُڑا رہے ہیں اور اس طرح کھا رہے ہیں جیسے  چوپائے کھاتے ہیں"(محمد 47:12)۔ اور ابوہریرہؓ کی حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، ((طعام الواحد يكفي الاثنين، وطعام الاثنين يكفي الأربعة, وطعام الأربعة يكفي الثمانية))" ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے  اور دو کا کھانا چار کے لیے اور چار کا کھانا آٹھ لوگوں کے لیے کافی ہوجاتا ہے" ( متفق علیہ)۔

 

اسی طرح مقدار اور معیار کے حوالے سے کھانے کی منصفانہ تقسیم کے دلائل:

1۔ وہ احکام جو امیروں کے درمیان دولت کی گردش کو منع کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے﴿كَيۡ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيۡنَ ٱلۡأَغۡنِيَآءِ مِنكُمۡۚ" تاکہ (مال) تم میں سے صرف دولتمندوں کے درمیان  گردش کرتا نہ رہ جائے"( الحشر59:7)۔

 

2۔ مسلمانوں پر ضرورت مندوں کوکھانا کھلانے کی فرضیت : آنحضرت ﷺ کے اس قول مبارک کی رو سے کہ ((ما آمن بي من بات شبعان وجاره جائع إلى جنبه، وهو يعلم به)) " مجھ پر اس شخص کا ایمان نہیں جو خود تو سیر ہو کر رات گزارے جبکہ اس کے ساتھ والا پڑوسی بھوکا سوئے جبکہ اسے اس کی حالت کاعلم ہو"۔اور آپ ﷺ نے فرمایا،(("أيما أهل عرصة أصبح فيهم امرؤ جائع فقد برئت منهم ذمة الله))" کسی بستی والوں میں سے کوئی شخص بھوکا سوجائے تو اللہ ان بستی والوں سے بری الذمہ ہے"۔ 

     

جہاں تک اسلامی علاقوں پر قائم ضرررساں ریاستوں کا تعلق ہے، جو آج کے دور میں مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش ہیں، ان کے نزدیک غذا کی فراہمی کا مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، کیونکہ ان کے ہاں خود انسان کی کوئی قیمت نہیں۔ مثلاً سوڈان کے باشندے بھوک میں مبتلا ہیں، جبکہ جتنا دودھ زمین پر گراکر ضائع کر دیا جاتاہے اس کا اندازہ 700 ملین ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے(16/6/2018 کی الجزیرہ چینل کی رپورٹ)۔ آخر کیا وجہ ہےکہ ایک ایسا ملک جہاں اقوام متحدہ کےذیلی ادارہ برائے خوراک   و زراعت کی سال 1998 کی رپورٹ کے مطابق 35 ملین گائے موجود ہوں ،اور جہاں 126 ملین حیوانی وسائل موجود ہوں،مگر ان وسائل کا نہ تو  سوڈان والوں کی خوراک پر کوئی اثر دکھائی دیتا ہے، نہ ہی گوشت، دودھ یا دودھ کےمصنوعات  برآمد کرنے میں ان وسائل کا کوئی کردار نظر آتا ہے۔

 

44 سال سے زائد عرصےیعنی 1974 سےقائم 'تنظیم برائے خوراک و زراعت ' FAO(اقوامِ متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت،جسے 1945میں کینیڈا میں قائم کیا گیا اور اس کا ہیڈ کوارٹر اٹلی میں ہے ) نے سوڈان،کینیڈا اور آسٹریلیا کو عالمی فوڈ باسکٹ کی حیثیت سے نامزد کیا تھا، کیونکہ  سوڈان کے پاس دنیا کی 200 ملین ایکڑ زرخیز اراضی، نہروں، بارشوں اور زیر زمین پانی کی کثیر دولت  موجود ہے۔مگر بد ترین سیاست اور نظامِ حکومت کی وجہ سے سوڈان کی غذائی درآمدات جو1990میں 72 ملین ڈالر تھی  بڑھ کراب ایک ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گئیں ہیں۔کینیڈا اور آسٹریلیا سب سے زیادہ گندم برآمد کرنے والے ممالک میں سے ہیں، مگر سوڈان سب سے زیادہ گندم درآمد کرنے والے ممالک میں سے ہےاور 2.2 ملین ٹن سالانہ گندم در آمد کرتا ہے۔

 

آخر ی بات،سب جانتے ہیں کہ جس کے پاس غذا نہیں ،اسے استحکام حاصل نہیں ہوتا۔ ہم نے باقی مسلم ممالک کو چھوڑ کر صرف عرب خطے میں پائے جانے والے وسائل اور دولت کو سامنے رکھا ، جس سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ مستقبل قریب میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست نہ صرف اس قابل ہوگی کہ وہ اپنی رعایا کو مکمل غذائی تحفظ فراہم کرسکے، بلکہ وہ بین الاقوامی سطح پر  ایک بااثر عالمی زرعی ریاست بن سکے گی۔

 

البتہ یہ نکتہ اہم ہے کہ زرعی دولت، جس کے بل بوتے پر ہی غذائی سیکورٹی حاصل کی جاتی ہے، صنعتی دولت سے حتمی تعلق رکھتی ہے،جس کی اہمیت زرعی دولت سے کم نہیں، بلکہ یہی وہ بنیاد ہے  جس پر اقوام ترقی اور مقابلہ کے میدان میں انحصارکرتی ہیں۔ پس اسلام کی صنعتی پالیسی ایک ہی طریقہ پر استوار ہے، اور وہ ہے عسکری  و تمدنی آلات ، مشنری اور ان کے تمام تر لوازمات اور سپئیر پارٹس کی تیاری۔ اس کا نتیجہ یہ  ہوگا کہ  پھرکفر یہ ریاستوں کے ہاتھوں میں ریاستِ خلافت  کی پالیسیوں اور امورِ حکمرانی  میں اپنی مرضی چلانے کے مواقع نہیں رہیں گے۔

 

اسلامی ریاست کے سائے تلے اس زرعی اور صنعتی پالیسی پر گامزن ہوکر ہم غذائی و صنعتی سیکورٹی حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہی وہ پالیسی ہے جو ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم استعمار اور استعماری ریاستوں کو اپنے امور میں مداخلت اور مرضی چلانے سے روک سکیں۔ نتیجتاً شریعت کے احکامات نافذ کرنے کے بعد ریاست اپنی دوسری ذمہ داری پر توجہ مرکوزکر سکے گی،یعنی دنیا تک اسلام  کی دعوت پہنچانے پر ،جس کے لیے وہ اپنے آپ کو اقتصادی و عسکری طور پر تیار کرےگی، یوں اس کے لیے ممکن ہو گا کہ وہ مسلسل جہاد کی حالت میں رہ سکے۔

 

پس مسئلے کا حل اسلام کے نفاذ اور کار زارِ حیات میں اسلام کو واپس لوٹانے  میں پوشیدہ ہے۔ مسئلے کا حل ایک خلیفہ کو مقرر کرنے میں ہے جو شریعتِ الہٰی کے ذریعے ہم پر حکومت و سیاست کی باگ ڈور سنبھالےگا اور زمینوں سے متعلق اسلامی احکامات کو نافذ کرے گا، اور کثیر پیداوار کو امت کے مفاد میں بہترین انداز میں خرچ کرے گا، اور امت کی زرعی ، حیوانی اور  صنعتی پیداوار میں اضافہ کرکے امت کو  اقوام کی دست نگری سے نجات دلائے گا، بلکہ دیگر اقوام اس کی دستِ نگر ہوں گی۔ اور خلافت کے قیام اور تسلسل سے ان شاء اللہ "فوڈ سیکورٹی" کی اصطلاح دم توڑ جائے گی۔ خلافت  کی بقا ء اور دوام سے پوری دنیا میں بھلائی رائج ہوگی، اے اللہ! اپنی مدد و نصرت  سے ہمیں جلدی سرفراز فرما۔

 

Last modified onمنگل, 27 جولائی 2021 22:52

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک