الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

افغانستان میں "تخلیقی افراتفری"(Creative Chaos) کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان لڑائی

 

خبر:

بدھ کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق  پچھلے ہفتے امریکی انٹیلی جنس کمیونٹیاس نتیجے پر پہنچی ہے کہ افغان حکومت مکمل امریکی انخلاء کے بعد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں طالبان کے ہاتھوں  ختم ہوجائے گی۔ وال اسٹریٹ جرنل کی حاصل کردہ یہ  رپورٹ انٹیلی جنس کمیونٹی کےپچھلے زیادہ امید افزا اندازوں کے برخلاف ہے،  کیونکہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران طالبان نے حکومت کے خلاف اہم فتوحات حاصل کی ہیں۔  یہ نتیجہ اس امر کے بعد اخذ کیا گیا ہے جب امریکی فوج نے یہ کہا  کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے دی گئی افغانستان سے انخلاء کی حتمی تاریخ 11 ستمبر  کے ہدف پر  50 فیصد عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔ افغان حکومت کی فوجیں اس وقت طالبان کے ساتھ شمال کے اہم شہر کندوز میں بھاری جنگ لڑرہی ہیں کیونکہ طالبان نے تاجکستان کے ساتھ مرکزی بارڈر کراسنگ پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ شدید لڑائی مزار شریف کے آس پاس بھی جاری ہے جوکہ افغانستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ پچھلے ہفتے میں کئی جگہ پر افغان فورسز کی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ویڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آئیں جو سوشل میڈیا پر پھیل گئیں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ طالبان نے فوجی اسلحہ اور گاڑیوں کی بڑی کھیپ اپنے قبضے میں لے لی ہے۔  اس بدلتی صورتحال میں انٹیلی جنس کمیونٹی نے اپنے پچھلے اندازوں کو تبدیل کردیا ہے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ افغان حکومت امریکی انخلاء کے بعد دو سال تک برقرار رہے گی۔ سرکاری حکام نے وال اسٹریٹ جرنل  کو بتایا کہ نئے اندازوں کے مطابق امریکی انخلاء کے بعد افغان حکومت چھ ماہ سے ایک سال تک برقرار رہ سکے گی۔ چئیر مین آف دی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارک ملی نے کانگریس کے سامنے  بدھ کو بیان دیتے ہوئے طالبان کی پیش قدمی کو کم اہم قرار دیتے ہوئے کہا، "ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت 81اضلاع کے مراکز طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ جبکہ مجموعی اضلاع کی تعداد 419 ہے۔"(ماخذ: اناطولیہ)

 

تبصرہ:

یہ بات بہت عرصے سے واضح ہو چکی تھی کہ امریکا افغانستان میں مجاہدین کی مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ امریکا نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس کی کابل میں ایجنٹ حکومت بھی  ملک کے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول اور اختیار لاگو کرنے میں ناکام ہے۔ لہٰذا امریکا نےطالبان کے ساتھ  اِس امید پر سفارتی حل کا رستہ اختیار کیا کہ جو مقصد وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کرسکا وہ اس طرح سے حاصل کرلے گا۔ لیکن امریکا  مذاکرات کے ذریعے سے بھی سفارتی کامیابی حاصل نہیں کرسکا   کیونکہ مذاکرات کرنے والے افغان عوام کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اس کے کچھ حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مارک ملی کی جانب سے طالبان کی پیش قدمی کو ایک معمولی بات اس لیے قرار دیا گیا تا کہ امریکی انخلاء پر اصرار کیا جائے۔  اُس کی جانب سے اس بات کو تسلیم کرنا کہ امریکی انخلاء سے قبل طالبان ملک کے 20 فیصد سے زائد حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں ، اس بات کا اعتراف ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد بھی طالبان ملک کے کئی علاقوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھیں گے۔ اسی صورتحال کے متعلق روس نے خبردار کیا تھا جب روس کے صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف  نے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور افغانستان میں بڑھتے تناؤ کے حوالے سے اپنے ملک کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔

 

                  یہ بات ناقابل تصور ہے کہ امریکا افغانستان سے ایسے انخلاء کرے کہ اس کے جانے کے بعد طالبان افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلیں۔ امریکا یہ امید رکھتا ہے کہ وہ پاکستان، ترکی اور روس کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ افغان ایجنٹ حکومت کی مدد سے اس بات کو یقینی بنائے گا کہ طالبان کابل حکومت کے اہم مراکز پر قبضہ نہ کرسکیں۔ لہٰذا واشنگٹن نے حالیہ دنوں میں، جب سے بائیڈن اقتدار میں آیا ہے، ان اقوام کے کرداروں کا تعین کیا ہے ۔  امریکا کو اس بات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی اگر وہ افغانستان میں بھی عراق والی صورتحال کو دہراتا ہے، جہاں امریکا نے عراق سے ایسی صورتحال میں انخلاء کیا تھا کہ ملک افراتفری کا شکار تھا،  اور کسی بھی گروپ کو ملک پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں تھا، مخلص لوگ اقتدار سے باہر تھے اور بغداد کی ایجنٹ حکومت امریکی مفادات کا تحفظ کررہی تھی۔ عراق کی حکومت نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ اس کا اقتدار پورے ملک پر قائم ہوجائے، لیکن وہ اس قابل تھی کہ تیل کے کنوؤں کی حفاظت کرسکے جنہیں امریکی کمپنیاں لوٹ رہی تھیں۔ حکومت اس قابل بھی تھی کہ وہ عراق میں امریکا مخالف لوگوں، چاہے وہ مسلمانوں میں سےہوں یا بعث پارٹی سے، اقتدار میں آنے سے  روک سکے۔دونوں ممالک میں یہی مقصد حاصل کرنا  ہی امریکا اور اس کے نمائندے ابراہیم خلیل زاد کی سب سے بڑی خواہش ہے۔

 

                  افغانستان میں "تخلیقی افراتفری" کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے امریکا ترکی کے اردگان، پاکستان کے عمران خان اور روس کے پیوٹن کو استعمال کر نا چاہتا ہے تا کہ طالبان افغانستان کے حساس علاقوں جیسا کہ کابل کا گرین زون، ائر پورٹ، سپلائی روٹس اور دیگر اہم تنصیبات پر قبضہ نہ کرسکیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ امریکا یہ کہہ رہا ہے ، "جب تک ہمارے ایجنٹوں کے ذریعے ہمارے مفادات محفوظ رہتے ہیں، جب تک ملک میں اسلام کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، ملک کو فتنے کی جنگ کی آگ میں جلنے دو، مسلمانوں  کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹنے دو۔" یہ اُن کا منصوبہ ہے۔ جہاں تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے منصوبے کا تعلق ہے، تو افغانستان کے مخلص لوگوں پر لازم اور فرض ہے کہ وہ اپنے پاکستان کے بھائیوں کے ساتھ مل کر پاکستان اور افغانستان کی ایجنٹ حکومتوں کا خاتمہ کریں، مسلمانوں کی خلافت قائم کریں، جو پاکستان اور افغانستان کو یکجا کر کے ایک واحد، مضبوط اور طاقتور ریاست قائم کریں جس سے دشمن خوف کھائیں گے، بالکل ویسے ہی جیسے مدینہ منورہ کی پہلی ریاست قائم کی گئی تھی۔ یہ ریاست باقی رہ جانے والے مغرب کےایجنٹوں اور چوکیداروں  کا خاتمہ کرے گی اور پوری امت کو ریاست خلافت تلے یکجا کردے گی۔

وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

"وہ اپنا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ کی تدبیر سب سے بہترہے"(الانفال، 8:30)

 

پاکستان سے بلال المہاجر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو براڈ کاسٹ کے لیے تحریر کیا

Last modified onبدھ, 30 جون 2021 03:48

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک