الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کی حاکمیت اور بالادستی

مصعب عمیر، پاکستان

 

دنیا بھر میں اس وقت ایک فکری و نظریاتی (آئیڈیالوجیکل) خلاء موجود ہے جو مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بھی واضح ہے اور جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ انسان کا بنایا ہواقانون اور نظام ، جسے ہمارے دور میں سیکولر  اور لیبرل ڈیموکریسی کہا جاتا ہے، اس وقت اپنی زبردست  ناکامی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ انسان کے بنائے ہوئےقانون کی وجہ سے حکمران اشرافیہ کے چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کا زبردست ارتکاز ہوچکا ہے ۔ دولت کے اس ارتکاز میں سرمایہ داریت اور کرپشن دونوں نے کردار ادا کیا ہے۔سوئس بینک یو بی ایس (UBS)کی رپورٹ کے مطابق    اس سال اپریل اور جولائی کے درمیانی عرصے میں دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت  27.5فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 102کھرب ڈالر پر پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ 7 اکتوبر 2020 کو عالمی بینک کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ  پچھلی دو دہائیوں میں پہلی بار شدید غربت میں اضافہ ہونے جارہا ہے۔ دولت کی تقسیم کو ٹھیک کرنے کے لیے اب خدمت خلق کے کاموں اور امیر افراد پر بھاری ٹیکس لگانے کے لیے   اصلاحات کی پکار بلکہ انقلاب  کے نعرےبلند ہورہے ہیں جس میں خلافت کے قیام کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ مسلم دنیا میں خلافت کے قیام کا مطالبہ جس شدت سے اب سامنے آرہا ہے ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔

 

                  یہ بات بھی واضح ہے کہ جمہوریت کا دعوٰی کہ وہ   "لوگوں کی اور لوگوں کے لیے"  (of the people, for the people)ہے بالکل جھوٹ ہے۔ قانون سازی حکمران اشرافیہ کی طاقت ہے اور  اس کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ حکمرانہ اشرافیہ کو قانون سازی میں بالادستی حاصل ہے اور اس طبقہ کو یہ مقام اپنی زبردست دولت اور قانون سازی کے اختیار کی وجہ سے حاصل ہے۔ حکمران اشرافیہ ہی وہ واحد طبقہ ہے جس کے پاس اس قدر دولت موجود ہے کہ وہ انتہائی مہنگی انتخابی مہم چلاسکے اور اپنے مرضی کے لوگوں کو قانون ساز اسمبلیوں میں بھیج سکے۔ اس حقیقت کا ادراک حالیہ امریکی صدارتی اور کانگرس اور سینٹ کے انتخابات کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔  اس مرحلے سے گزر کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے منتخب قانون ساز ایسے قوانین کی منظوری کو یقینی بناتے ہیں جو ان کو یا ان کی مالی مدد کرنے والوں کو فائدہ پہنچائے اور اس طرح حکمران اشرافیہ کی حاکمیت اور بالادستی یقینی بنتی ہے۔ پاکستان  میں بھی سیاسی و فوجی حاکمیت و بالادستی  کا تنازعہ حکمران اشرافیہ میں موجود گروہوں کی آپس میں  محض اقتدار کی جنگ ہے جو اپنے مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے باریاں لگاتے ہیں۔

 

                  سیکولر اور لبرل ڈیموکریسی کا  ماڈل جو اب ناکام ہورہا ہے کا اصل  انسان کو قانون سازی کا اختیار تفویض کرنا ہے۔ اس نظام میں کیا چیز قانونی ہے اور کیا غیر قانونی ، اس کا تعین انسانی ذہن کرتا ہے جو کہ محدود صلاحیتوں کا مالک ہے اور  جوانسان کی خواہشات اور رجحانات سے متاثر ہوتا ہے۔ انسان کے قانون سازی کے اختیار نے حکمران اشرافیہ کو یہ موقع فراہم کررکھا ہے کہ وہ اپنے ذاتی  مفادات کے حصول کے لیے قوانین  بناسکیں  یا ان میں تبدیلی کرسکیں۔ انسان کا قانون  بنانا ہی وہ مسئلہ ہے جس پر قانون ساز جون ڈیلبرگ ایکٹون (John Dalberg-Acton ) نے کہا تھا، "طاقت کرپٹ کرتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر کرپٹ کردیتی ہے"۔

 

                  مغربی دنیا کے برخلاف جمہوریت مسلمانوں کے لیے لازم و ملزوم نہیں ۔ مغربی دنیا نے چرچ کے قانون اور اس کی حاکمیت ا و ربالادستی  کا جو خوفناک دور دیکھا اس نے مغرب کو مذہب کی بالادستی و حاکمیت  کے تصور کا باغی بنا دیا ۔ لیکن مغربی دنیا کے برخلاف  مسلم دنیا نے اسلام کے نظام حکمرانی خلافت ، کے ذریعے  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کی بالادستی و حاکمیت کا بہت عظیم و شاندار دور دیکھا ہے، لہٰذا دین  کی حکمرانی کے حوالے سے مسلم دنیا کا تجربہ مغربی دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ جمہوریت میں "انسان کے بنائے ہوئےقانون کی حاکمیت حکمران اشرافیہ کے لیے" ہوتی ہے جبکہ خلافت میں "اللہ کے قانون کی حاکمیت لوگوں کے لیے " ہوتی ہے۔ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے اس کا تعین و فیصلہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کرچکے ہیں، اور ا س طرح سے  اسلام میں اہلِ اقتدار پر قانون سازی کے دروازے بند کیے جاچکے ہیں۔

 

                  لہٰذا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کی حاکمیت میں صاحب اقتدار اپنے مفاد کے لیے کبھی بھی قانون میں تبدیلی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ صرف اور صرف قرآن و سنت سے اخذ شدہ قوانین کو نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کی حاکمیت میں صاحب اقتدار پر بھی اللہ ہی کا قانون لاگو ہوتا ہے اور مقدمات کا سامنا کرنے سے اسے کسی قسم کا استثناء حاصل نہیں ہوتا  ۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ، العلیم و الحکیم، کے قانون کی حاکمیت میں اسلامی معیشت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ معاشرے میں دولت کا ارتکاز نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو۔ کئی صدیوں تک خلافت نے اپنے تمام شہریوں کو  مذہب سے قطع نظر اعلیٰ میعار زندگی فراہم کیا  جس میں مفت صحت و تعلیم کی سہولیات بھی شامل تھیں۔

 

                  یقیناً اسلامی امت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کے پاس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قانون موجود ہے۔ موجودہ عالمی سیاسی خلاء نہ صرف نبوت کے  نقش قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے  سنہری موقع ہے بلکہ پوری انسانیت کے سامنے اسلام کو ایک متبادل نظام کے طور پر پیش کرنے کا بہترین موقع ہے وہ انسانیت جو آج انسان کے قانون کے بوجھ تلے کچلی جارہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

" بھلا جس نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے"(الملک، 67:14)۔            

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک