الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خبر اور تبصرہ

پاک-افغان سرحد کی بندش بھارت کے سامنے مسلمانوں کو کمزور کرتی ہے

 

خبر:

7 مارچ 2017 کو وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاک-افغان سرحد صحیح بند کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ”اپنے ملک کے دفاع کے لیے ہم ہر قدم اٹھانے کے پابند ہیں”۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ “دہشت گرد” افغانستان سے کارروائیاں کررہے ہیں اور لوگوں کی حفاظت کرنا لازمی ہے۔

 

تبصرہ:

16 فروری کو پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک مزار پر ہونے والے خودکش دھماکے میں 80 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس حملے کے فوراً بعد پاکستان کی حکومت نے افغانستان کے ساتھ سرحد یہ کہتے ہوئے بند کردی تھی کہ اس حملے میں ملوث مجرموں کے اڈے افغانستان میں ہیں۔ سرحد کی بندش نے پاکستان و افغانستان کے مسلمانوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کردیں کیونکہ ہر روز دونوں جانب سے ہزاروں افراد کاروبار، علاج، تعلیم اور معاشرتی ذمہ داریوں کے ادائیگی کے لیے سرحد پار کرتے ہیں۔   لیکن افغانستان کے مسلمان سرحد کی بندش سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ افغانستان چاروں جانب سے خشکی سے گھرا ملک ہے اور بیرونی دنیا تک رسائی کے لیے پاکستان سب سے قریبی اور سستا ذریع ہے۔ چند ہی دنوں میں سرحد کے دونوں جانب ہزاروں افراد پھنس گئے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرنے لگے کہ سرحد کو فوراً کھولا جائے۔ صورتحال اس قدر خراب ہوگئی کہ پاکستان میں افغان سفیر ، عمر ذخیلوال، نے 4 مارچ 2017 کو کہا کہ اگر اگلے دو دنوں میں سرحد نہ کھولی گئی تو وہ اپنی حکومت سے پاکستان میں محصور افغان باشندوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے نکالنے پر زور دیں گے۔ پاکستان نے 7 مارچ 2017 کو صرف دو دنوں کے لیے سرحد کھولی جس کے دوران صرف ان لوگوں کو پیدل سرحد پار کرنے کی اجازت دی گئی جن کے پاس ویزہ تھا۔ ان دو دنوں میں تقریباً پینتیس ہزار افراد نے سرحد پار کی اور پھر 9 مارچ 2017 کو سرحد دوبارہ بند کردی گئی۔

 

پاکستان کی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی آمدو رفت کو منظم کرنے کے تحت افغانستان سے “دہشت گردوں” کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سرحد کو بند کرنا ضروری تھا ۔ لیکن قومی اسمبلی کے ایک رکن نے اس احمقانہ دعویٰ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے اس طرح “دہشت گردی” ختم ہوگی تو اسے پھر لازمی پاک-بھارت سرحد پر واہگہ چیک پوسٹ بھی بند کردینی چاہیے کیونکہ حکومت یہ کہتی ہے بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی حمایت کرتا ہے۔ آج مسلمانوں کے حکمران مسلمانوں پر سختی کرتے ہیں جبکہ دشمنوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ

“محمد ﷺ اور ان کے ساتھی کفار کے خلاف سخت اور آپس میں رحم دل ہیں “(الفتح:29)۔

 

یہ بات بھی سامنے رہے کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں تقریباً تیس لاکھ افغان مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ اُس وقت سوویت یونین، اس کی پروردہ افغان حکومت اور بھارت ،پاکستان میں اس قدر “دہشت گرد” نہیں بھیج سکے جو پورے پاکستان میں تباہی و بربادی پھیلا دیتے۔ لیکن اب جب افغانستان میں امریکی افواج اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت موجود ہے ، جبکہ امریکہ پاکستان کااتحادی ہے، تو پاکستان میں “دہشت گردوں” کی ناختم ہونے والی فوج مسلسل داخل ہورہی ہے! یقیناً حکومت کا دعویٰ ایک جھوٹ ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان میں افراتفری کی وجہ خطے میں امریکہ کی موجودگی ہے۔ امریکہ ہی پاکستان میں عدم استحکام کے سانپ کا سر ہے۔ امریکہ کا ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ان حملوں کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے وسائل فراہم کرتا ہے لیکن حکومت اس کے خلاف کچھ نہیں کرتی۔ اس کے ساتھ امریکہ نے بھارت کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو بڑے پیمانے پر وسعت دے اور اس سہولت کے ذریعے بھارت پاکستان میں حملے کرواتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومت امریکہ کے ساتھ اتحاد کو برقرار رکھتی ہے اور بھارت کی مسلسل جارحیت کے باوجود اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا پیغام بھیجتی رہتی ہے۔

 

موجودہ دور مسلمانوں کے لیے بدقسمت ہے کہ ان کے علاقوں کو سرحدوں نے تقسیم کررکھا ہے اور چیک پوسٹوں پر دونوں جانب کے عام لوگوں کو سیکیورٹی چیکنگ کے بعد گزرنے کی اجازت ہوتی ہے۔   سرحدوں کی بندش سرحد کے دونوں جانب رہنے والے عام مسلمانوں کی زندگی میں شدید مصائب پیدا کردیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومت اس پالیسی کو جاری رکھتی ہے کیونکہ اس کا ہدف پاکستان اور افغانستان کے درمیان دشمنی اور نفرت پیدا کرنا ہے۔ اس عمل کا فائدہ خطے میں صرف بھارت کو ہوتا ہے کیونکہ اس طرح مسلمان تقسیم ہوتے ہیں جبکہ اسلام مسلمانوں سے ایک ریاست ، ایک حکمران کے سرپرستی میں دشمن کے سامنے ایک یکجا قوت کی صورت میں آنے کا تقاضا کرتا ہے۔

 

پاک-افغان سرحد اس بات کی واضح مثال ہے کہ استعماری طاقتوں کی بنائی سرحدوں نے امت کو تقسیم کررکھا ہے جس کے نتیجے میں سرحد کے دونوں جانب کے مسلمان شدید مصائب میں زندگی گزار رہے ہیں۔ خطے اور پوری مسلم دنیا کے مسلمانوں کی یہ مشکل صرف اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہے اگر نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کی جائےجو استعماری سرحدوں کو ختم کردے گی۔ خلافت مسلمانوں کو اس قابل بنادے گی کہ وہ مسلم علاقوں میں آزادی سے گھومیں پھریں، معاشی، تعلیمی، طبی اور دوسرے مواقعوں کو بڑھائیں اور خلافت کو اندرونی طور پر مضبوط و مستحکم بنائیں۔

 

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان

 

Last modified onجمعہ, 24 مارچ 2017 18:50

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک