الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

عوامی اثاثوں کے متعلق حنفی فقہاکی رائے

 

عوامی اثاثوں اور اس سے بالکل متضاد نجی اثاثوں کے متعلق تصور آج بہت مشہور و معروف ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ عوامی اثاثے سوشل ازم میں اور نجی اثاثے لبرل اور سرمایہ دارانہ نظام میں  مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن یہ تصورات  نئے نہیں ہیں  کہ کچھ اشیاء فرد کی ملکیت ہوتی ہیں اور انہیں اسے استعمال کرنےکا مکمل اختیار ہوتا ہے اور یہ کہ کچھ اشیاء  معاشرے کے تمام افراد کی ملکیت ہوتے ہیں اور وہ تمام اُسے استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔  موجودہ جدید دور کے دانشوار پہلے افراد نہیں ہیں جنہوں نے ان تصورات کو پیش کیا ہو بلکہ انہوں نے کچھ مخصوص نظریہ حیات (آئیڈیولوجی)  کے تحت انہیں قبول کیا۔ مثال کے طور پر John Locke نے اپنے لبرل سیاسی افکار میں نجی اثاثوں کو مرکزی حیثیت دی ہے جبکہ کارل مارکس نے پیداواری ذرائع کی نجی ملکیت کی ممانعت کو سرمایہ داریت کے استحصال کے خاتمے کے لیے مرکزی  اہمیت دی۔

 

عوامی اور نجی اثاثوں کے حوالے سے اسلام کے اپنے نظریات ہیں جو  دورِ جدید  کے نظریاتی ڈھانچے سے بالکل جدا ہے۔ نجی اثاثے نہ تو وہ بنیاد ہیں  جن پر فرد کے حقوق  کا تعین ہوتا ہے اور انسان مہذب معاشرے کی جانب منتقل ہوتا ہے اور نہ ہی نجی اثاثوں میں کوئی موروثی شیطانیت ہے جس کو ہٹایا جانا ضروری ہے۔ بلکہ اسلام کے نقطہ نظر میں  تمام اشیاء  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی ہیں اور وہی ان کا مالک ہے اور پھر وہاں سے یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اجازت سے انسان کی ملکیت میں آتی ہیں، اور انہیں اس بات کا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر انہیں استعمال کریں۔

اس اصولی دائرے  میں اسلام  نجی ملکیت کو قبول کرتا ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے فرد کے لیے اجازت ہے  کہ وہ اس میں مکمل تصرف کا حق رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام عوامی ملکیت کو بھی قبول کرتا ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے  معاشرے کے لیے اجازت ہے وہ اس کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن کسی ایک فرد کو اس پر مکمل تصرف کا حق نہیں ہوتا۔  ان دونوں باتوں کو پرانے علماء نے واضح کیا ہے۔ اس مضمون میں ہم خاص طور پر اس بات کو واضح کریں گے کہ حنفی فقہا نے عوامی اثاثوں پر کیا بحث اور ان کی کیا وضاحت کی ہے۔

 

چھٹی صدی ہجری کے مشہور و معروف حنفی عالم برہان الدین ابو الحسن علی ابن ابی بکر المرغيناني (انتقال 593 ہجری) نے "الهداية" میں کہا،

 

"لا يجوز للإمام أن يقطع ما لا غنى بالمسلمين عنه كالملح والآبار التي يستقي الناس منها"

"حکمران کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اُس شے کو کسی ایک شخص کے حوالے کردے جس کی ضرورت تمام مسلمانوں کو ہو جیسا کہ نمک کی کانیں اور بڑے کنویں جہاں سے لوگ اپنی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں"۔

 

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نویں صدی ہجری کے عظیم حنفی عالم اور محدثبدرالدین العینی (انتقال 855 ہجری) نے "البناية شرح الهداية" میں کئی نقات کو بیان کیا ۔ سب سے پہلے تو انہوں نے" جس کی مسلمانوں کو بحثیت مجموعی ضرورت ہوتی ہے" کی تشریح کی کہ ہر وہ شے جس کی معاشرے کو ضرورت ہے۔ دوسرا  انہوں نے یہ بیان کیا کہ حکمران کسی کو کچھ دیتا ہے جیسا کہ زمین کا ٹکرا، تو ایسا اُس صورت میں ہوتا ہے جب وہ کسی کو اس طرح دے کہ وہ اس کی نجی ملکیت بن جائے۔ تیسرا  انہوں نے یہ بیان کیا کہ فقہا اس بات پر متفق ہیں اور اس پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے، چوتھا یہ کہ  انہوں نے اس بات کے ثبوت کے طور پر ترمذی اور ابو داود کی یہ حدیث پیش کی:

 

عن أبيض بن حمال: «أنه وفد إلى النبي r فاستقطعه الملح الذي بمأرب، فقطعه فلما أن ولى قال رجل من المجلس: أتدري ما قطعت له؟ إنما قطعت له الماء العد. قال: فانتزع منه»

"ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ وہ انہیں 'مارب 'میں موجود نمک کی کانیں عنایت فرمادیں۔ تو آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ چلے گئے تو  مجلس میں موجود ایک آدمی نے کہا:'کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے انہیں  کیا دیا ہے؟ آپ نے انہیں نا ختم ہونے والا ذخیرہ دیا ہے'۔ تو آپ ﷺ نے ان سے وہ واپس لے لیا"۔

 

العینینے ماہر ِلغت الاصمعی کے حوالے سے کہا  کہ 'کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ' سے مراد  وہ  شے ہےجو اپنا مادہ پیدا کرتا رہتا ہے جیسا کہ چشمے یا کنویں سے نکلنے والا پانی۔ آخر میں ان باتوں کی بنیاد پر العینینے کہا ،"ہمارے علماء نے کہا ہے کہ چرواہے اور  حکمران پانی، چراہگاہوں، پہاڑوں، کانوں، معدنی ذخائر اور نمک کے ذخائر تک رسائی کے لئےجو  لیتے ہیں وہ 'السحت' ہے"۔  السحت وہ حرام مال ہوتا ہے جو غیر شرعی طریقے سے حاصل کیا گیا ہو۔  ایسی شے کے لیے پیسے لینا جس تک لوگوں کی  رسائی ہونی چاہیے ، اِس طرح کا مال ہے کیونکہ جو ایسا کررہے ہیں تو وہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ ان کی ذاتی ملکیت ہے  یا ان کو اس پر تصرف کا دوسروں سے زیادہ حق ہے جبکہ انہیں اس کا حق نہیں ہے۔ ترمذی پر تبصرۃ کرتے ہوئے اس حدیث کے متعلق علامہ انور شاہ کشمیری (انتقال 1353 ہجری) نے کہا کہ حکمرانوں کی جانب سے کانوں کو کسی فرد کی ملکیت میں دینا حنفی فقہ میں جائز نہیں۔

 

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسے ذخائر اور کانوں کی نجی ملکیت جائز نہیں جو ختم نہ ہونے والی ہوں۔ ان ذخائر سے حاصل ہونے والا فائدہ تمام افراد کے لیے ہے، یعنی کہ یہ عوامی اثاثہ ہیں۔ ہر ایک کو اس سے منفعت حاصل کرنے کا حق ہے۔ ابن ماجہ میں اس حدیث کا بیان اس بات کی مزید وضاحت کردیتا ہے:

 

ابیض بن حمال سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے 'مارب' کے نمک کے ذخائر کی درخواست کی، اور انہیں وہ دے دی گئی۔ پھرالأقرع بن حابس التميميّرضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ، میں زمانہ جاہلیت میں نمک کے ذخائر کی جانب آیا کرتا تھا اور وہ ایسی جگہ ہے جہاں پانی نہیں ہے، اور جو وہاں آتا تھا لے جاتا تھا۔ وہ بہت زیادہ ہے جیسا کہ بہتا پانی ۔ تو رسول اللہ ﷺ نےابیض بن حمال سے کہا کہ انہیں جو نمک کا ذخیرہ دیا گیا تھا اسے واپس کر دیں۔ آپ ﷺ نے کہا:

 

هُوَ مِنْكَ صَدَقَةٌ وَهُوَ مِثْلُ الْمَاءِ الْعِدِّ مَنْ وَرَدَهُ أَخَذَهُ 

"یہ تمہاری جانب سے صدقہ ہے، یہ بہتے پانی کی طرح ہے، جو وہاں آتا ہے وہ اس سے لے سکتا ہے"۔

 

           باالفاظ دیگر قدرتی طور پر موجود بڑے ذخائر لوگوں کے لیے  مشترکہ اثاثہ ہے اور جو اس پر آئے اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کوئی اس کا مالک نہیں بن سکتا اور دوسروں  کو ان کا فائدہ حاصل کرنے سے روک نہیں سکتا۔

اما م التمرتاشي (انتقال1004 ہجری) المرغنن میں اوپر بیان کی گئی بات کوتنویر الابصار میں بیان کیا ہے۔ اس پر گیارہویں صدی ہجری کے مشہور حنفی عالم  علاؤ الدینالحصكفي (انتقال 1088) نے "الدرالمختار" میں کہا:

 

" حکمران اس شے کو افراد کو نہیں دے سکتا جو مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت  ہو جیسا کہ معدنی ذخائر: نمک کی کانیں، سرمہ،  کوئلہ اور تیل۔ اسی طرح  وہ کنویں  جن کو کھود کر یا کام کر کے بنایا نہ  گیا ہو۔ اگر حکمران ان چیزوں کو کسی کی ملکیت میں دیتا ہے تو وہ کلعدم  ہوگی اور  جس کو دی گئی اور دوسرے اس بات کا برابر حق رکھتے ہیں کہ اس شے سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر  مالک بننے والا دوسروں کو اس کے استعمال سے روکتا ہے تو وہ ایسا کر کے  شریعت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا"۔

 

عوامی اثاثوں کے موضوع پر اس سے بھی زیادہ اہم اور واضح مواد  رسول اللہ ﷺ کے بیان میں ملتی ہے،

 

«الناس شركاء في ثلاث في الماء والكلأ والنار»

"مسلمان تین چیزوں میں برابر کی شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ"۔

 

کئی حنفی فقہا نے اس حدیث پر بحث کی ہے اور اس کو ثبوت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کئی اشیاء کو تمام لوگوں کی منفعت کے لیے عوامی اثاثہ قرار دیا۔شمس الائماء السرخسی (انتقال 483 ہجری) نے اپنی "المبسوط"میں کہا:

 

ولو استأجر بئرا شهرين ليسقي منها أرضه وغنمه لم يجز، وكذلك النهر والعين؛ لأن المقصود هو الماء وهو عين لا يجوز أن يتملك بعقد الإجارة، ولأن الماء أصل الإباحة ما لم يحرزه الإنسان بإنائه وهو مشترك بين الناس كافة قال r: «الناس شركاء في الثلاث في الماء والكلأ والنار» فالمستأجر فيه والآخر سواء؛ فلهذا لا يستوجب عليه أجر بسببه.

"اگر کوئی کسی کنویں کو دو مہینوں کے لیے زمین کو سیراب اور بھیڑوں کو پانی پلانے کے لیے کرائے پر دیتا ہے تو اس کی اجازت نہیں۔ اسی طرح سے دریا اور چشمے بھی۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ  ان تمام معاملات میں پانی ہے جو ایک ایسی شے ہے جس کا کوئی کرائے کے معاہدے کے ذریعے مالک نہیں بن سکتا۔ اس کے علاوہ پانی کے متعلق حکم کا اصل یہ ہے کہ تمام لوگ اس کو استعمال کرسکتے ہیں جب تک کوئی اسے کسی برتن میں ڈال کر لے نہ جائے(کہ اب وہ اس کا مالک ہے جو وہ لے جائے)۔ یہ تمام لوگوں کا مشترکہ اثاثہ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تین چیزوں میں لوگ برابر کی شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ"۔

 

کتاب میں ایک جگہ وہ اس حدیث کی اس طرغ وضاحت کرتے ہیں:

 

وعن رسول الله r: قال «المسلمون شركاء في ثلاث في الماء والكلإ والنار» وفي الروايات: الناس شركاء في ثلاث، وهذا أعم من الأول ففيه إثبات الشركة للناس كافة: المسلمين والكفار في هذه الأشياء الثلاثة، وهو كذلك، وتفسير هذه الشركة في المياه التي تجري في الأودية، والأنهار العظام كجيحون وسيحون، وفرات، ودجلة، ونيل فإن الانتفاع بها بمنزلة الانتفاع بالشمس، والهواء ويستوي في ذلك المسلمون، وغيرهم، وليس لأحد أن يمنع أحدا من ذلك، وهو بمنزلة الانتفاع بالطرق العامة من حيث التطرق فيها. ومرادهم من لفظة الشركة بين الناس بيان أصل الإباحة، والمساواة بين الناس في الانتفاع لا أنه مملوك لهم فالماء في هذه الأودية ليس بملك لأحد.

"پیغمبر- اللہ ان پر رحمتیں اوربرکتیں نازل فرمائے- نے کہا، 'مسلمان تین چیزوں میں برابر کی شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ'۔ ایک اور روایت میں انہوں نے کہا، 'لوگ تین چیزوں میں برابر کی شریک ہیں۔۔۔۔' ، جو کہ پہلی روایت کے مقابلے میں زیادہ عام ہے کیونکہ اس  روایت میں تمام لوگوں کو ان تین چیزوں میں برابر کا شریک قرار دیا گیا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ  مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔ یہی صحیح نقطہ نظر ہے۔  پانی میں شراکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی جو وادیوں اور عظیم دریاوں جیسا کہ   دجلا، فرات اور نیل، ان سے فائدہ اٹھانا ایسے ہی ہے جیساکہ سورج اور ہواسے فائدہ اٹھانا چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ کوئی بھی کسی دوسرے کو ان سے فائدہ اٹھانے سے روک نہیں سکتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ سڑکوں سے فائدہ اٹھانا جب ان پر سفر کیا جاتا ہے۔  لفظ  لوگو ں کی 'شراکت' کا مطلب اس بات کی وضاحت ہے کہ اصل حکم اجازت کا ہے اور تمام لوگوں کو ان سے فائدہ اٹھانے کا ایک جیسا حق ہے اس لیے نہیں کہ وہ اس کے مشترکہ مالک ہیں۔ ان دریاں میں موجود پانی اور اس طرح کی دیگر اشیاء کسی کی بھی ملکیت نہیں ہوتیں"۔

 

امام علاؤ الدین الکاسانی(انتقال 587 ہجری) نے چھٹی صدی ہجری میں اپنی مشہور کتاب  "بدائع الصنائع"میں اس مسئلے پر کہا:

 

لأن الماء في الأصل خلق مباحا لقول النبي r«النَّاسُ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَأِ وَالنَّارِ» «الناس شركاء في ثلاث الماء والكلأ والنار» والشركة العامة تقتضي الإباحة إلا أنه إذا جعل في إناء وأحرزه به فقد استولى عليه وهو غير مملوك لأحد فيصير مملوكا للمستولي كما في سائر المباحات الغير المملوكة، وإذا لم يوجد ذلك بقي على أصل الإباحة الثابتة بالشرع فلا يجوز بيعه؛ لأن محل البيع هو المال المملوك وليس له أن يمنع الناس من الشفة - وهو الشرب بأنفسهم - وسقي دوابهم منه؛ لأنه مباح لهم.

  "پانی کو سب کے لیے  جائز رکھا گیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،' تین چیزوں میں لوگ برابر کے شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ'۔ عمومی ملکیت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اجازت ہو۔ لیکن جب کوئی کسی برتن میں اپنے لیے اس میں سے کچھ پانی  لیتا ہے تو اِس پانی کا مالک بن جاتا ہےجبکہ اس سے پہلے وہ کسی کی ملکیت نہیں تھا،ایسا ہی دیگر تمام اشیاء کا بھی معاملہ ہے جن کا کوئی مالک نہیں ہوتا ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا توشریعت کی جانب سے  استعمال کی اجازت کا اصل حکم برقرار رہتا اور اس طرح اس کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔  ایسا اس لیے ہے کیونکہ جس چیز کا کوئی مالک بن جائے  تواسے بیچا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ  کوئی بھی اس پانی کو پینے یا اپنے جانوروں کو پلانے سے روک نہیں سکتا کیونکہ اس کا استعمال   سب کے لیے جائز ہے"۔

 

امام فخر الدینالزيلعي (انتقال 743 ہجری) نے"تبيين الحقائق" میں کہا:

 

لا يجوز بيع المراعي ولا إجارتها والمراد به الكلأ دون رقبة الأرض؛ لأن بيع الأرض وإجارتها جائز إذا كان مالكا لها، وإنما لا يجوز بيع الكلأ وإجارته؛ لأنه ليس بمملوك له إذ لا يملكه بنباته في أرضه ما لم يحرزه لقوله r«المسلمون شركاء في ثلاثة: في الماء والكلأ والنار» رواه أحمد وأبو داود ورواه ابن ماجه من حديث ابن عباس وزاد فيه «وثمنه حرام» وهو محمول على ما إذا لم يحرزه، وقال r«لا يمنع الماء والنار والكلأ» رواه ابن ماجه ومعناه أن لهم الانتفاع بشرب الماء وسقي الدواب والاستقاء من الآبار والحياض والأنهار المملوكة.

"گھاس اور چراگاہیں جو خود سے اگتی ہیں انہیں فروخت کرنا یا کرائے پر دینا جائز نہیں۔  اس کا تعلق 'کلا' سے ہے جو زمین کی گردن کا متضاد ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ زمین کے مالک کی جانب سے اس کی فروخت یا کرائے پر دینا جائز ہے کیونکہ وہ اس کا مالک ہے۔ یہ اصول  چراگاہوں پرلاگو نہیں ہوگا  کیونکہ وہ نہ ہی اس زمین کا مالک ہے اور نہ ہی اس سے اگنے والی نباتات کا ما سوائے جووہ اپنے استعمال میں لے آئے،ایسا اس لیے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، 'مسلم تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ'،  اسے احمد ، ابوداود نے روایت کیا، ابن ماجہ نے بھی اسے ابن عباس سے روایت کیا ہے اس اضافے کے ساتھ،'اور اس کی قیمت حرام ہے'، اس کو سمجھا جاسکتا ہے اس جملے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ جب تک وہ اس میں سے اپنی ضرورت کے لیے نہ لے۔ ابن ماجہ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بھی روایت کیا کہ انہوں نے کہا، 'پانی، آگ اور چراگاہوں کو ممنوع نہیں کیا گیا'، جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو یہ حق ہے کہ وہ ان چیزوں سے منفعت حاصل کریں چاہے کنووں ، تلابوں اور چھوٹے دریاوں سےسے پی کر یا اپنے جانوروں کو پانی  پلا کر یا اپنی زمینوں کو سیراب کر کے"۔

 

وشرط لجواز الانتفاع به أن لا يضر بالعامة فإن كان يضر بالعامة بأن يميله بالكري أو نصب الرحى فليس له ذلك؛ لأن الانتفاع بالمباح لا يجوز إلا إذا كان لا يضر بأحد كالانتفاع بالشمس والقمر والهواء

"ان چیزوں کو استعمال کرنے کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ انہیں ایسا نقصان نہ پہنچے کہ دوسرے اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ لہٰذا اگر وہ اس سے ایسے فائدہ اٹھاتا ہے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے جیسا کہ  کھدائی کر کے دریا کا رخ تبدیل کردینا، تو یہ جائز نہیں ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ  ان سے فائدہ اٹھانا اسی صورت میں  جائز ہے جس سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے، جیسے سورج، چاند یا ہوا سے فائدہ اٹھانا"۔

 

تیرویں صدی ہجری کے مشہور شامی دمشق کے عالم محمد امین ابن العابدین (انتقال 1252 ہجری)، جو بعد میں آنے والے  حنفی فقہا میں سب سے زیادہ مشہور  و معروف ہیں خصوصاً بر صغیر پاک و ہند میں،  نے اپنی"رد المحتار"(جو حاشیات ِابن عابدین کے نام سے بھی مشہور ہے) میں اس موضوع پر طویل  بحث کی ہے۔  انہوں نے کئی نقات کی وضاحت کی ہے:

 

1۔ شراکت(حدیث میں بیان کی گئیں تین اشیاء)  شراکت ہے استعمال کی اجازت کی نہ کہ ملکیت میں۔ ہر ایک کو حق ہے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے۔ جو بھی ان میں سے اپنے استعمال کے لیے حصہ لیتا ہے تو اتنا حصہ  دوسروں کو چھوڑ کر اُس کی ملکیت بن جاتا ہے، جسے وہ کسی بھی طریقے سے ا ستعمال میں لاسکتا ہے جو کسی بھی مالک کے لیے جائز ہو۔

 

2۔  چراگاہ (کلا) وہ ہے جو اگتی اور پھیلتی ہے اور جس کا کوئی تنا نہیں ہوتا جیسا کہ گھاس، جبکہ وہ درخت جن کا تنا ہو اس میں شامل نہیں ہوگا۔ چراگاہیں تین اقسام کی ہیں:

ا۔ ایسے علاقے میں چارہ پیدا ہونا  جس کا کوئی مالک نہ ہو۔ تمام لوگ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ان کے جانور وہاں سے کھائیں یا وہ وہاں سے چارے کو کاٹیں اور استعمال کریں۔

ب۔  ایسے علاقے میں  چارہ  پیدا ہو جس کا مالک ہو لیکن چارے کی پیداوار مالک کی کوشش کے بغیر ہو۔ تما م لوگ اس کو استعمال کرسکتے ہیں لیکن زمین کا مالک لوگوں کو اپنی زمین پر داخل ہونے سے روک سکتا ہے۔

ج۔ چارہ ایسے علاقے میں پیدا ہو جس کا ملاک ہو اور  چارہ مالک کی کوشش سے پیدا ہو۔ یہ اس زمین کے مالک کی ملکیت ہے۔

 

3۔ ایسی زمین پر لکڑی جس کا کوئی مالک نہ ہو ، اسے کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے۔

 

4۔ حدیث میں بیان کی گئی آگ وہ آگ ہے جسے لوگوں نے جلایا ہو، تو اگر کوئی کھلے علاقے میں آگ جلاتا ہے تو دوسروں کو بھی حق ہے  کہ اس کی روشنی سے فائدہ اٹھائیں، اپنے کپڑے خشک کریں یا اس سے گرمی حاصل کریں۔(دوسرے علماء کے مطابق آگ سے مراد وہ لکڑی ہے جو آگ جلانے کے کام آتی ہے)

مجالات الأحكام العدلية نے  بھی ان اثاثوں کی فہرست مرتب کی ہے جنہیں شرع نے عوامی اثاثے قرار دیا ہے۔ شراکت یا مشترک ملکیت کے موضوع پر دسویں کتاب کا چوتھا باب  اباحت میں شراکت داری پر ہے جس میں فہرست دی گئی ہے اور عوامی اثاثوں سے متعلق اصولوں پر بحث کی گئی ہے، جس کی شروعات شق1234 میں پانی، چراگاہ اور آگ سے ہوتی ہے۔

 

لہٰذا خلاصہ یہ ہے، حنفی فقہ کے مطابق تین اقسام کی  اشیاء عوامی ملکیت کے زمرے میں آتی ہیں: پہلی، وہ تمام چیزیں جن کی لوگوں کو مشترکہ طور پر ضرورت ہے جیسے کنویں؛ دوسرا، قدرتی ذخائر جو بہت بڑی تعداد میں موجو ہوں؛ اور تیسرا، پانی، چراگاہیں اور آگ جیسا کہ حدیث میں ذکر کیا گیا اور اوپر بیان بھی کیا گیا۔ تمام لوگ ان میں برابر کی شراکت دار ہیں یعنی ان کو سب استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ کسی کو بھی ان کے استعمال سے محروم نہیں رکھا جاسکتا اور نہ ہی کوئی ان سے ایسے فائدہ اٹھا  سکتا ہے جیسے یہ اس کی ذاتی ملکیت ہو۔ یعنی  نہ تو ان کی نجکاری کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی فرد یا کمپنی کو امداد کے طور پر دی جاسکتی ہے کہ وہ اس سے اپنے لیے نفع کمائیں۔

 

عثمان بدر

حزب التحریرکے میڈیا آفس کے لیے تحریر کیا

Last modified onہفتہ, 04 مارچ 2017 20:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک