الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: مجددکی پہچان

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال: اللہ آپ کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح یاب کرے اور آپ کے علم سے ہمیں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مشہور صحیح احادیث میں سے ایک حدیث وہ ہے جسے جلیل القدر صحابی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) "بے شک اللہ ہر سو سالوں میں اس امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس دین کو امت کے لیے زندہ کرتا ہے" (ابوداود 4291 نےروایت کی اور اسخَوی نے المقاصد الحسنة 149 میں اور اللبانی نے السلسلة الصحيحة 599 میں اسے صحیح قرار دیا ہے)۔ سوال یہ ہے کہ حدیث میں مجدد کا جو ذکر ہے یہ ایک فرد کے لیے ہے یا جماعت کے لیے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ماضی میں گزرے ہوئے مجددین کی فہرست بیان کردیں؟ (ازطرف ابو مومن حماد)
جواب: وعليكم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ
جی ہاں یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے منسلک پانچ معاملات ہیں:
1۔ سو سال کا آغاز کس تاریخ سے ہوتا ہے؟ کیا یہ اللہ کے نبیﷺ کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے؟ یا نبیﷺ کی بعثت سے ؟ یا ہجرت کے وقت سے یا پھر ان کی وفات سے؟
2۔ کیا ہر سو سال کے آغاز کا مطلب ہر سو سال کا آغازہے یا سو سالوں کے دوران یا سو سالوں کے آخر میں؟
3۔ کیا لفظ 'مَن' کا مطلب ایک فرد کا ہے یا لوگوں میں سے ایک گروہ جو لوگوں کے لیے دین کو زندہ کرے۔
4۔ کیا کسی صحیح ذریعے سے ایسی کوئی خبر ملتی ہے جو پچھلے کئی سو سالوں میں مجددین کی تعداد بتاتی ہو؟
5۔ کیا یہ جاننا ممکن ہے کہ چودھویں صدی ہجری میں جو 30 ذی الحجہ 1399 کو ختم ہوئی کون مجدد تھا جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
میں مقدور بھر کوشش کرو ں گا کہ ان ممکنات کے متعلق جو مضبوط ترین رائے (راجع قول) ہے بغیر کسی اختلافی نکات میں پڑے بیان کردوں۔ اور میں کہتا ہوں کہ توفیق اللہ کے پاس ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔
1۔ کس تاریخ سے سو سالوں کا آغاز ہوتا ہے؟
المناوی نے فتح القدیر میں کہا ہے کہ "اور انھوں نے سال کے آغاز کے معاملے میں اختلاف کیا ہے۔کیا یہ آغاز پیدائش نبوی سے ہے یا بعثت سے یا ہجرت سے یا پھر آپ ﷺ کی وفات سے؟ اور میری رائے میں راجع قول یعنی قوی بات یہ ہے کہ اس کو ہجرت سے لینا چاہیے کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن مسلمانوں اور اسلام کو ریاست کے قیام سے عزت اور طاقت عطا کی گئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کو سال کےآغاز کے بارے میں جاننے کے لیے اکٹھا کیا تو انھوں نے ہجرت پر ہی انحصار کیا"۔ الطبری نے اپنی طریق میں کہا ہے کہ "عبد الرحمن ابن عبد اللہ بن عبدل الحکم نے مجھ سے کہا ، نعیم بن حماد نے ہم سے کہا کہ الدراوردی نے ہمیں عثمان بن عبید اللہ بن ابی رافع سے بتایا، جس نے کہا کہ میں نے سعید ابن مصعب کو کہتے سنا کہ ، 'عمر بن خطاب نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان سے پوچھا ، کس دن سے ہم تاریخ لکھیں تو علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اس دن سے جس دن اللہ کے نبی ﷺ نے ہجرت کی اور شرک کی زمین کو چھوڑا"۔ اور ابو جعفر نے کہا "ہجرت کے پہلے سال کا تعین اس سال کے محرم سے ہونا چاہیے جس سال محمد ﷺ نے ہجرت کی یعنی نبی ﷺ کی مدینہ آمد سے دو ماہ اور چند دن قبل سے کیونکہ محمدﷺ 12 ربیع الاول کو مدینہ پہنچے تھے"۔ اس بنیاد پر یہ زیادہ بہتر ہے کہ سو سال کی گنتی ہجرت کی تاریخ سے کی جائے جس کی تبنی صحابہ کرام نے کی۔
2۔ جہاں تک صدی کی شروعات کا تعلق ہے تو راجع قول اختتام ِصدی کا ہے یعنی کہ مجدد ایک ایسا متقی و مشہور عالم ہے جوسو سال کے آخر میں ہو گا اور اس کا انتقال بھی سو سال کے آخر میں ہو گا نہ کہ صدی کے شروع یا وسط میں۔ جہاں تک میرا اس رائےپر بھروسہ کرنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے:
ا) صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "عمر بن عبدلعزیز (راس) پہلے سو سالوں کے آغاز میں آئے اور 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا جب ان کی عمر 40 سال تھی۔ جبکہ امام شافعی دوسری صدی ہجری کے آغاز میں آئے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں 54 سال کی عمر میں ہوا۔
اب اگر ہم دوسری رائے کو سو سالوں کے آغاز کے بارے میں دیکھیں جو صدی کے آغاز کو ان سو سالوں کے لیے بنیاد بناتی ہے تو پھر عمر بن عبدالعزیز پہلی صدی کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ آپ کی پیدائش 61 ہجری میں ہوئی۔ اور امام شافعی بھی دوسری صدی ہجری کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی پیدائش 150 ہجری میں ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا حدیث میں ہر سو سال پر مجدد کی آمد سو سال کے آخر کے بارے میں ہے نہ کہ آغاز کے بارے میں یعنی مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہو ، پھر صدی کے آخر کی طرف وہ مشہور عالم ہو اور صدی کے اختتام پر اس کا انتقال ہو۔
ب) جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے جو یہ بتاتی ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی کے مجدد تھے، جو اس امت کے علما اور اماموں میں مشہور ہے تو ازہری اور امام احمد بن حنبل اورشروع اور بعد کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز اور دوسری صدی ہجری کے مجدد امام شافعی ہیں۔ عمر بن عبد العزیز کا انتقال 101 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 40 برس تھی اور ان کی خلافت کی مدت ڈھائی سال تھی جبکہ امام شافعی کا انتقال 204 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 54 برس تھی۔ حافظ ابن حجر نے 'توالی التاسیس' میں بیان کیا ہے کہ "ابو بکر البزار نے کہا کہ میں نے عبد المالک بن عبد الحمید المامونی کو کہتے سنا کہ میں امام احمد بن حنبل کے ساتھ تھا جب امام شافعی کا ذکر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام احمد نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ سے منقول کیا کہ اللہ تعالی ہر سو سال کے شروع میں ایک ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو دین سِکھاتا ہے ۔اور انھوں نے کہا کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی ہجری کے آخر میں تھے اور میں یہ امید کرتا ہو ں کہ دوسری صدی ہجری کے آخر میں وہ امام شافعی تھے"۔
اور ابو سعید الفربابی نے کہا کہ امام احمد نے کہا "بے شک اللہ لوگوں کے لیے ہر سو سال میں ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو سنت سِکھاتا ہے اور نبیﷺ کی سنت سے جڑے ہوئے جھوٹ کو رد کرتا ہے، تو ہم نے اس کو سمجھا اور جانا کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز تھے جبکہ دوسری صدی ہجری میں امام شافعی تھے۔اور خاتم نے اپنی مستدرک میں ابو الوحید سے روایت کیا کہ "میں ابو العباس بن شریح کی مجلس میں تھا جب ایک شیخ ان کے پاس آئے اور ان کی تعریف کی۔ پھر میں نے ان کو کہتے سنا کہ ابو طاہر الخولانی نے ہم سے کہا اور دوسرا عبد اللہ بن وحب کہ سعید ابن ایوب نے مجھے شوراحیل بن یزید سے بتایا، انھوں نے ابو القامہ سے اور انھوں نے ابو ہریرہ سے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) " بے شک اللہ اس امت میں ہر سو سال کے آخر میں ایک ایسا بندہ( مجدد) بھیجتا ہے جو ان کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ تو اے قاضی خوشخبری ہو کہ بے شک اللہ تعالی نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں عمر بن عبد العزیز کو بھیجا اور دوسری صدی ہجری کے آخر میں اللہ نے محمد ابن ادریس الشافعی کو بھیجا۔حافظ ابن حجر نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حدیث اس دور میں مشہور تھی۔
د) یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کے آغاز کا مطلب لغوی طور پر اس کی ابتدا ہوتی ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قوی رائے میں ہر سو سال کے آغاز سے مطلب سو سال کے آخر ہوتے ہیں، ابتدا نہیں ہوتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح 'راس' کا مطلب عربی میں کسی چیز کی ابتدا ہوتی ہے اسی طرح 'راس' کے معنی آخر کے بھی ہیں۔ تاج العروس لغت میں کہا گیا ہے کہ کسی چیز کے راس کا مطلب ہے راس کی انتہا یعنی اس کا آخری حصہ۔ اور لسان العربی لغت میں کہا گیا ہے چھپکلی اپنے راس کے ساتھ بل سے باہر آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ سر پہلے باہر آیا یا دُم، یعنی آخری حصےکا پہلا حصہ۔ اس لیے کسی چیز کے راس کا مطلب عربی زبان میں ابتدا ہوسکتا ہے اور اس کا مطلب انتہا بھی ہوسکتاہے چاہے وہ آغاز ہو یا آخر ۔ لہذا ہمیں قرینہ کی ضرورت ہے جو ظاہر کرے کہ یہاں کون سے معنی مطلوب ہیں۔ کیا "سو سال کے راس" کا مطلب آغاز ہے یا آخر؟ اور یہ قرینہ پچھلی روایت میں موجود تھا جس کے مطابق عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 101 ہجری میں ہوا اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں ہوا۔ یہ تمام دلائل واضع کرتے ہیں کہ قوی معنی حدیث میں راس کے سو سال کے آخر میں مجدد کے ہیں نہ کہ شروع میں۔لہذا ان دلائل کی بنیاد پر میرے نزدیک مضبوط رائے یہ ہے کہ 'راس' کے معنی ہیں"ہر سو سال میں راس" کا مطلب صدی کے آخری حصے کے ہیں۔
3۔ جہاں تک لفظ 'مَن' کا تعلق ہے کہ یہ ایک فرد کے لیے ہے یا ایک گروہ کے لیے تو حدیث کہتی ہے ((يبعث لهذه الأمة... من يجدد لها دينها)) "اللہ امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس امت کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ اب اگر 'مَن' سے مرادگروہ ہوتا تو فعل جمع کی شکل میں ہوتا جیسے 'یجدونا'، لیکن یہاں فعل واحد کی شکل میں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ 'مَن' جمع کے معنی بھی ظاہر کرتا ہے چاہے فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ میرے نزدیک یہاں قوی رائے فرد کے معنی ظاہر کرتی ہے کیونکہ قرینہ 'یجدو' واحد کی شکل میں موجود ہے۔ اور میں قوی رائے بیان کر رہا ہوں کیونکہ جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے اس کے معنی قطعی طور پر فرد کے نہیں ہیں چہ جائکہ فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے کچھ فقہا نے یہاں 'مَن' کے معنی سے گروہ مراد لی ہے اور انھوں نے وہ قول لیے ہیں جو ہر صدی میں علما کے گروہوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ رائے پہلی بیان کردہ رائے سے کمزور ہوجاتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔
آخر میں قوی رائے یہ ہے کہ 'مَن' سے مراد فرد کے ہیں یعنی مجدد، جس کا حدیث میں ذکر ہے یعنی ایک فرد جو متقی اور مشہور عالم ہیں۔
4۔ جہاں تک گزری ہوئی صدیوں میں مجددین کے ناموں کی فہرست کا تعلق ہے تو روایات بتاتی ہیں کہ سب سے مشہور فہرست منظم انداز میں السیوطی کی ہے جو نویں صدی ہجری تک بیان کرتی ہے اور وہ اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ خود نویں صدی ہجری کے مجدد ہوں۔ اب میں ان کا کچھ حصہ بیان کرتا ہوں۔
۔ پہلی صدی ہجری میں عمر تھے، عادل خلیفہ جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور امام شافعی دوسری صدی میں اپنے اونچے علم کی بنیاد پر۔
۔ پانچویں امام غزالی اپنے بحث اور دلائل کی بنیاد پر ۔
۔ ساتویں جو اونچائی تک اونچے ہوئے ابن دقیق العید جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور یہ نویں صدی ہے اور جو ہدایت دیتا ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور میں امید کرتا ہوں کہ نویں صدی کا مجدد میں ہوں کیونکہ اللہ کا کرم کبھی ختم نہیں ہوتا۔
5۔ اور کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کون تھا چودھویں صدی ہجری کا مجدد جو 30 ذی الحجہ 1399 کو اختتام پذیر ہوئی جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
یہ بات میری توجہ میں آئی جو مشہور اور قابل احترام علما ء کے درمیان موجود ہے جس کے مطابق 'راس' صدی کے آخر میں ہے۔ عمر بن عبدالعزیز 61 ہجری میں پیدا ہوئے اور پہلی صدی ہجری کے آخر میں 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا اور امام شافعی سن 150 ہجری میں پیدا ہوئے اور صدی کے آخر میں 204 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں ہر مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہوا اور صدی کے آخری دور میں مشہور ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ میرے نزدیک مضبوط ترین رائے جو قابل احترام علما ءکے نزدیک مشہور ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے۔ تو اس بنیاد پر میرے نزدیک قوی رائے یہ ہے کہ عظیم عالم ِدین تقی الدین النبہانی چودھویں صدی کے مجدد تھے۔ ان کی پیدائش 1332 ہجری میں ہوئی اور وہ صدی کے آخر میں مشہور ہوئے خاص کر جب انھوں نے جمادی الثانی 1372 ہجری میں حزب التحریر کی بنیاد رکھی اور ان کا انتقال 1398 ہجری میں ہوا۔ ان کی دعوت مسلمانوں کے اہم ترین مسئلے یعنی خلافت کے قیام کی طرف تھی، اسلامی زندگی کے ازسرنو آغاز کی طرف اور اس دعوت نے مسلمانوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ۔ اور ان کی دعوت اور اجتہاد کےذریعےخلافت آج مسلمانوں کی آواز بن چکی ہے۔ تو اللہ کا رحم اور مہربانی ہو ابو ابراہیم پر اور اللہ کی مہربانی ہو ان کے بھائی ابو یوسف پر جو ان کے بعد آئے اور اللہ ان کو جنت میں انبیاء، صدیقین، شہدا ءاور صالحین میں اکٹھا کرے اور یہ کیا ہی عظیم صحبت ہے۔
میرے بھائی ابو مومن! یہ وہ ہے جو میں سب سے قوی سمجھتا ہوں اور اللہ سب سے زیادہ با خبر ہے کہ کیا صحیح ہے اور اسی کا ہے جو سب سے بہتر ٹھکانہ ہے۔
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو الرشتہ

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک