الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال وجواب :  کیاواقعی عالمی معیشت بہترہورہی ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال : 6/9/2013کوجمعہ کے دن G-20کی سربراہی اقتصادی کانفرنس سینٹ پیٹرس برگ(روس) میں حتمی بیان کی منظوری کے ساتھ اختتام کو

پہنچی۔ 6/9/2013کوروئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق بیان میں کہاگیاکہ " عالمی معیشت روبصحت ہے " ۔ ایجنسی نے رشین فائنانس منسٹری کے ڈائریکٹر آف ڈیپارٹمنٹ آندرے بوکاریف کے حوالے سے کہا،جس نے جی ٹونٹی کے اختتامی بیان کی تیاری میں شمولیت کی،کہ" مشکل ترین اورطویل ترین بحث، عالمی اقتصاد کاجائزہ لینے اور اس کی تشخیص کی تھی"۔ تازہ ترین اعدادوشمار ا س بہتری کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،چنانچہ یورپی یونین نے بیان جاریکیاہے کہ ان کی معیشت بڑھ رہی ہے،اگرچہ اس کی شرح نموکم ہے ۔امریکہ نے کہاہے کہ سال 2013 میں اس کی معیشت 1٪ کی شرح سے بڑھی ہے اورچین نے ایسے اعدادوشمار جاری کیے جن کی مطابق سال رواں میں اس کی معیشت جولائی 2013تک 7٪سے زیادہ کی شرح سے بڑھی ہے۔
تو کیاواقعی عالمی معیشت بہترہورہی ہے ،جس کے نتیجے میں 2007میں امریکہ میں شروع ہونے والااقتصادی بحران ،جوچھ سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا،میں کمی آئی؟ اوراگرمعیشت بہترنہیں ہوئی، توان معلومات اوراعداد وشمارکاکیامطلب ؟ امید ہے کہ اس کی کچھ وضاحت فرمائیں گے ،جزاک اللہ خیراً۔

 

جواب : ہم پہلے عالمی سطح پرمعاشی پہلوسے نمایاں طورپر اثراندازہونے والے ممالک ،یعنی امریکہ ،یورپی یونین اورچین کی اقتصادی صورتحال کوسامنے رکھتے ہیں کیونکہ ان ممالک کی معیشت دنیاکی50 ٪ سے زائد معیشت کی نمائندگی کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ عالمی اقتصادی بحران کاامریکہ اوریورپی یونین کے اختیارکردہ سرمایہ داریت کے ساتھ گہرا رابطہ ہے،اس لئے اس بحران میں اصل کرداران ہی کاہے۔جہاں تک چین کی بات ہے ،توجیساکہ ہم آگے بتائیں گے کہ اس بحران کوکھڑاکردنے یااس پرقابوپانے میں اس کاکردارردِعمل کاتھا،نہ کہ اثراندازی کا۔ آپ کی معلومات کیلئے کہ تنہاامریکی معیشت دنیاکی تین بڑی اقتصادی طاقتوں ،چین ،جاپان اورجرمنی کی مجموعی معیشت کی لگ بھگ ہے ، جن کانمبرامریکہ کے بعد آتاہے،کیونکہ ورلڈ بینک اوراقتصادی ترقی و تعاون آرگنائزیشن کے بیانات کے مطابق ،سال 2012 میں امریکی معیشت کاحجم15.1ٹریلین ڈالر تھا،جوعالمی معیشت کا 22٪ ہے ،جبکہ چین کی معیشت 8.2ٹریلین ڈالرتھی۔جہاں تک جاپان اورجرمنی کی معیشت کی بات ہے ،تویہ بالترتیب 5.9اور3.4ٹریلین ڈالر تھی۔ امریکی معیشت کے اس وسیع حجم کے باعث امریکی اقتصادی بحران کے اثرات پوری دنیامیں رونماہوئے ،جوامریکہ میں جائیدادکی پراپرٹی مارکیٹ کے انہدام کے نتیجے میں پیداہوا ۔ اس بناپرہم بحث کو ان تینوں ممالک کی معیشت پرمرکوزرکھیں گے، جو عالمی معیشت پرسب سے زیادہ اثراندازہوتے ہیں ،اورچونکہ معیشت کی بہتری یاعدم بہتری کی حقیقت کی طرف اشارہ دینے والے نمایاں ترین عوامل : بے روزگاری کی شرح ،علاقائی قرضے ،انتظامی اداروںجیسے میونسپلٹی کے اخراجات مع سوشل اخراجات ، اورحکومتی قرضے، ہیں اوریہ تینوں عوامل لیبرمارکیٹ ،کرنسی ایکسچینج مارکیٹ ،نیز حکومتی اورپرائیویٹ منصوبوں کی مارکیٹوں کی سرگرمیوں کے غمازہوتے ہیں ،اس لئے ہماری بحث کامحور یہی تین عوامل ہوں گے ،اس بحث کے نتیجے میں ہی ہم عالمی معیشت کی بہتری یاعدم بہتری کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔
پہلا : یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ :
1.بے روزگاری کی شرح : سنٹر ل بینک نے 2008 کےاواخرمیں جان بوجھ کر قرضوں پرشرح سود میں کمی کرکے صفرکے قریب لے آیااور جنرل بجٹ میں بانڈزخریداری پروگرام کے تحت تین گنااضافہ کیا،جولگ بھگ تین ٹریلین ڈالر کاتھااورسنٹرسل بینک نے اپنی آخری میٹنگ میں اس کےماہانہ شرح کو85 بلین تک برقراررکھا۔یہ سب کچھ طویل المیعاد قرضوںکے اخراجات میں کمی لانے کیلئے کیا اور اس طرح کاروبارکے مالکان اورمنصوبوں کوچلانے والوں کیلئے قرض کاحصول آسان بنایاگیاتاکہ لیبرمارکیٹ کوفروغ دیاجائے لیکن اس کے باوجود بے روزگاری کی شرح گزشتہ مہینے7.9%کی نسبت سے برھتی رہی،یہ5سال قبل کی شرح سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو8.9%تھی ۔باوجود یکہ یونائیٹڈ سٹیٹس نے ترغیبی بل کی منظوری دیدی ،یعنی شئیرز کی خریداری کرکے کمپنیوں میں سرمایہ کی فراہمی کابل،یہ بل 2009 سے نافذ کیاگیا،مگر معیشت کے تن ِمردہ میں جان آئی اورنہ ہی بے روزگاری کی شرح میں خاطرخواہ کمی ہوئی ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ بڑا بحران برقرار ہے اور معیشت بہتر نہیں آئی ہے۔
2. سروسزر سیکٹرکاقرضہ ،مثلابلدیات ( municipalities): سکائی نیوز کی عربی ویب سائٹ نے 11/8/2013 کوذکرکیا کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے شہروں اورمیونسپلٹیز میں قرضوںکے بوجھ اوران کی ادائیگی سے قاصر ہونے کی وجہ سےدوسالوں میں 41شہروں کومالیاتی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے"۔ اس کامطلب ہے کہ کئی امریکی شہری آج تک عالمی مالیاتی بحران کے اثرات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایکبارپھرامریکیشہروںپرماضیکیدیوالیہپنکیپرچھائیاںنظرآنےلگیں ہیںجب گزشتہ جولائی میں اپنے ذمہ اٹھارہ بلین ڈالر کاقرضہ واپس کرنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے امریکی ریاست ڈیٹروئٹ نےسرکاری طورپردیوالیہ ہونے کااعلان کیا ۔ قرض خواہوں سے بچنےیابالفاظِ دیگرحقیقت سے فراراورآسان حل کیلئے مالیاتی دیوالیہ کا اعلان ہی میونسپل اداروں اورشہروں کی آخری اُمید ہوتی ہے۔ "امریکی انسٹی ٹیوٹ برائے دیوالیہ پن "کےاعدادوشمار کے مطابق 2007اور2011کے درمیانی عرصہ میںامریکی شہروں اوربلدیات کے40 سےزائددیوالیا ہونے کے کیسزسامنےآئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ سالانہ 8 دیوالیہ پن کے کیسز سامنے آرہے ہیں ۔یہ اخباری رپورٹ ظاہرکرتی ہے کہ پچھلے دو سالوں (2011اور2013 )کےدوران شہروں کے دیوالیہ ہونے کے کیسز معاشی بحران کے عروج پر ہونے کے عرصے سے بھی زیادہ سامنے آئیں ہیں، جس سے امریکی اقتصاد کی بہتری کے بارے میں شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں۔
3. حکومتی قرضے: امریکی وزیرِ خزانہ جیکب لیو نے 26/8/2013کوکانگریس کوبھیجے گئے اپنےایک خط میں متنبہ کیاکہ : "حکومت کواپنےقرضوں کی ادائیگی کی نااہلی سے بچانے کیلئےگزشتہ مئی میں کیے گئےغیرمعمولی اقدامات کی مدت،اکتوبرکے وسط میں ختم ہونے والی ہے" اوراس نےکانگریس پرزوردیاکہ وہ قرض لینے کی حکومتی حق میں توسیع کرے( القدس ویب سائیٹ 27/8/2013) ۔امریکی وزیرخزانہ جیکب لیو نے اپنے خط میں اشارہ کیاکہ: اگر حکومت کےمجموعی قرضوں کی حد کو بڑھایا نہ گیا ،جس کی فی الحال جائزانتہائی حد16.7ٹریلین ڈالرزہے، تواس سال 15 اکتوبر کے آتے ہی امریکی حکومت اپنی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کیلئے درکارضروری وسائلسےبہت جلد ہاتھ دھوبیٹھے گی" ۔اس نےانتباہ دیتے ہوئے کہا:"مالیاتی مارکیٹ میں بگاڑآسکتاہے ،اوراگرحکومتی قرضوں کی حد موجودہ سطح پر رہی تومعیشت گرسکتی ہے۔" اس نے مزید کہا:" کانگریس کا مشن یہ ہوناچاہئےکہ یونائیٹڈ اسٹیٹس کے اعتماد کی حفاظت کی جائے،کیونکہ کوئی دوسراادارہحکومتی قرضوں کی حداونچی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا" ( رشیاٹوڈےویب سائٹ 8/28/2013)۔ یعنی امریکہکے قرضے اب16.7ٹریلین ڈالرزکی آخری جائز حد کوچھورہے ہیں،لیکن اس کے باوجود اس کامطالبہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کوپوراکرنےکیلئے قرضوں کی حد اونچی کردی جائے۔
یہ امریکہ کی صورتحال ہے ،جہاں قرضوں کی سطح بہت بلندہوئی ہے اوراپنے اخراجات اور خسارےکوپوراکرنے اورمعاشی زوال سے بچنے کیلئے وہ قرض حآصل کرنے کی حد کومزید بلند کرنا چاہتا ہے ۔ یہ صورتحال کسی بھی طرح امریکی معیشت میں بہتری کااشارہ دیتی ہے اورنہ ہی بحران سے نکل جانے کی غمازہے۔
دوسرا : یورپی یونین :
1۔ بے روزگاری کی شرح :آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈ (Christine Lagarde)نے بیان دیاہے کہ" اسپین اوریونان میں بے روزگار ہونے والوں کی شرح 27٪ہے" (یورونیوز ویب پیج ،26/4/2013) ۔اس نے 3/5/2013کومزید بتایاکہ " یہ توقع کی جاتی ہے کہ 17ریاستوں پرمشتمل یوروزون میں فروری میں بے روزگاری کی شرح 12٪تھی اور جنوری کے مہینے میں بے روزگاری کی شرح 11.9٪تھی لیکن بعد میں اعدادوشمار میں تبدیلی کے بعد وہ بھی 12٪ نکلی،لگسمبرگ میں یورپی یونین کے اعدادوشمار کے آفس نے آج کہا کہ یورپی یونین کمیشن اس سال بے روزگاری کی شرح 12.2٪ ہونے کی پیش گوئی کرتا ہے جبکہ 2014میں بے روزگاری کی شرح اوسطاً 12.1٪تک پہنچ جائےگی"۔
یورپین کمیشن کےوائس پریذیڈنٹ فاراکانومک اینڈ مانیٹری افئیرز،اولی رین Olli Rehnنے کہا کہ "کسادبازاری(recession)کےتسلسل کے پیش نظرہمیں یورپ میں بے روزگاری کے بحران کاسامناکرنے اوراس پرقابوپانے کیلئے بھرپورانداز میں ہرممکن کوشش بروئے کارلاناہوگی"۔
انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کےانٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فارلیبرسٹڈیز کے ڈائریکٹرریمنڈ ٹوریس Raymond Torresنے کہا " اگرہم نے واضح پالیسیاں اختیارنہ کیں، تویورپ میں کساد بازاری recessionکے بحران کے خطرات پیداہوں گے، جس کی وجہ سے طویل عرصے تک مزید لوگ بے روزگاری کاشکارہوں گے یا اس مارکیٹ سے ہی نکل جائیں گے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اب اس مارکیٹ میں موجود ہی نہیں ہیں "۔ اس نے مزید کہا" بالخصوص یوروزون میں تیز ترترقی کی پالیسی کواپناناوقت کی اہم ضرورت ہے ،اورسمال بزنس کوآسان قرضے فراہم کیے بغیرلیبرمارکیٹ میں حرکت پیداہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی " (یورونیوز 3/6/2013) ۔ ایرونیوز نے مزیدکہا کہ" آرگنائزیشن نے اشارہ دیاکہ 2010سےاب تک دوتہائی یورپین ممالک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اوریہ واضح کیاکہبے روزگاری کی شرح کو بحران سے پہلے والی شرح تک ،جوکہ5۔6٪تھی، لانے کیلئے 30 ملین روزگارکے مواقع پیداکرنے کی ضرورت ہے"۔
2.سوشل اخراجات : یورونیوزویب پیج نے 30/8/2013کوشائع کیاکہ " ڈنمارک کے وزیرخزانہ بجارنی کوریڈونBjarne Corydonکے مطابق،اسکنڈینویا(شمالی یورپ ) کے ممالک، جو ایک عرصے سے فلاہی ریاست کے حواکے سے شہرت رکھتی ہیں،اب مزید اپنے شہریوں کو ویسی سہولتیں فراہم نہیں کرسکتیں "۔اقتصادی ترقی وتعاون تنظیم نے حال ہی میں ممبرممالک کے اخراجات کے اعدادوشمارپیش کیے۔فرانس اس فہرست میں اپنی کُل قومی پیداوار کا33%فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کے حوالے سے پہلی پوزیشن پر ہے ،پھرڈنمارک اوربلجیم%30.8کی نسبت سے ، اس کے بعد 30.6%کی نسبت سےفین لینڈ ،سویڈن 28.6%ہیں۔ یہ اخراجات ان ممالک کے شہریوں کی تمام ضروریات کوپوراکرنے کیلئے ناکافی ہیں ،ماسوائے جرمنی کے کہ اس کے سماجی شعبے میں اخراجات کسی حد تک قابل قبول ہی۔ آپ اندازہ کریں یہ ان ممالک کی حالت ہے جواخراجات کے حوالے سے سب سے زیادہ طاقتورشمارکئے جاتے ہیں تو پھردیگرکمزور ممالک کی حالت کیاہوگی؟
3۔ قرضے :یورونیوز ویب پیج نے 22/7/2013کوشائع کیاکہ" یوروزون اس مالیاتی سال کے پہلےتین مہینوں میں مزید قرضوں میں دھنس گیا ہے باوجود اس بات کے کہ اخراجات میں کمی کی رفتار کو کچھ سست رفتار کیا گیا ہے جبکہ اس دوران یونان، اٹلی اور پرتگال نے کُل قومی پیداوار اور قرض کیے درمیان شرح کا بدترین ریکارڈ پیش کیا اور کم ترین شرح لیگسمبرک اور ایسٹونیا کی ہے"۔یہ بھی ذکرکیاکہ " واحد کرنسی بلاک کے کساد بازاری recessionکی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جبکہ بے روزگاری کی شترح انتہائی بلند اور معاشی بہتری کی بہت کم توقع ہے"۔معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے یورپی حکومتوں یہ فیصلہ کیا کہ اخراجات میں کمی کی رفتار کو سست کیا جائے لیکن اس کے نتیجے میں قرضوں پر شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہوا کیونکہ سرمایہ کار اس حوالے سے پریشان تھے کہ کہی اتنے بڑے حکومتی قرضے ان کی رقم کی واپسے کے امکانات کو کم نہ کردیں"۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ یورپی یونین کے کئی ممالک نے یونین میں شامل ہونے کے بعد قرضےحاصل کرلئے، جن کاحجم ان کی معیشت سے تجاوز کرگیا ۔جب یہ بحران یورپ پہنچا تویورپی یونینکے کئی ممالک ایک ایسی صورتحال سے دوچار تھے کہ وہ بحران کے شروع ہونے سے قبل کے قرضے بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ۔یہ ذہن میں رہے کہ یورپی معیشت میں پہلے درجے کی مؤثرریاست جرمنی ہے،جواس قابل ہوئی کہ اس نے یورپی یونین میں موجود یورو زون کے ممالک پر اخراجات کم کرنے اورقوموں پرموجود مقروضوں میں کمی کرنےاورسادگی کی زندگی اپنانے کی پالیسی مسلط کی جبکہ اس کے برعکس امریکہ نے سرمائے کی ترسیل اورزیادہ قرضے لینے کی پالیسی اپنائی۔
لہذا یہ بیانات اوررپورٹیںاس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یورپی معیشت تاحال بحران کے اثرات سے دوچارہے ،اوروہ اس سے نکل نہیں پارہی،وہ اب تک کساد بازاری کا شکار ہے اوراس لئے اس میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے۔
تیسرا : چین
بلاشبہ چینی معیشت کامعاملہ مختلف ہے ،کیونکہ چینی معیشت کے تجزیہ کاریہ کہتے ہیں کہ " اس کی اقتصادی ترقی میں اضافے کاسہرابڑی حدتک برآمدات اورسرمایہ کاری کے سیکٹر پرہے ،مقامی کھپت پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ اپنے معیارِ زندگی بلندہونے کی حد کو گہرائی سے محسوس نہیں کرتے ۔" اگرچہ اس کی مقامی مارکیٹ بدستورانتہائی کمزورہے ،لیکن یہ کوئی پیمانہ نہیں اوریہ دیگرممالک کی معیشتوں پراثراندازنہیں ہوتا۔ چین پہلے نمبرپرامریکی منڈیوں کو برآمدات اوردوسری جانب امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پرسرمایہ کاری کے تبادلے پرانحصارکرتاہے ،اوروہ یوں کہ چین سینکڑوں بلین ڈالرزکےامریکی کمپنیوں کے شئیرزخریدتاہے،یاٹریلین ڈالرزکے امریکی خزانے کے بانڈز خریدتاہے ، جبکہ امریکی کمپنیاں چین کے اندرسرمایہ کاری کرتی ہیں اوراس طرح اس کے ڈالرکے ذخائر3 ٹریلین ڈالرتک بڑھ گئے ہیں۔توچین دنیائے سرمایہ داریت کی سربراہ ریاست نہیں،بلکہ اس کے زیراثرہے ،کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ طریقہ کاراختیارکرتاہے اوراس کی معیشت امریکی معیشت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ،یوں چین امریکی اقتصادی پالیسیوں کے زیراثرہے ۔چین بہت عجلت ا ورمستعدی سے ان معاشی فیصلوں کی تعمیل کرتاہے،جن کی قیادت امریکہ کے زیراثرعالمی سرمایہ دار اداروں کی ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ہاں ! اپنے بارے میں یہ اعلان نہیں کرسکتاکہ وہ ایک سرمایہ دارریاست ہے اورپھرسرمایہ دارمعیشت کی قیادت کرے ،کیونکہ وہ سرکاری اورروایتی طورپریہ اعلان کرتاہے کہ وہ کمیونسٹ اوراشتراکی سٹیٹ ہے اور اپنےآزاد وجود کے خاتمے کے خوف سےاس سرکاری تاثر کی حفاظت کرتاہے ۔ ان کایہ خوف بھی اس حفاظت کاباعث ہے کہ اگروہ اس تاثرکی حفاظت نہ کریں ،توحکومت کی قیادت کرنے والے کمیونسٹ خیالات کے لوگ اپنااستحقاق کھوبیٹھیں گے ۔ اس لیے کمیونسٹ اوران کی پارٹی شرماتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظاموں کونافذکرتے اورسرمایہ داردنیاکے سربراہ ،امریکی معیشت کے ساتھ ربط وتعلق کوقائم رکھے ہوئے ہیں ۔اس لئے مستقبل قریب میں اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ چین اس پالیسی سے جان چھڑالے گااوردنیائے سرمایہ داریت کی قیادت کوسنبھال کرعالمی معیشت پراثراندازہونے لگے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم سرمایہ دارانہ اقتصادی بحران کوزیربحث لاتے ہیں توہم اول درجہ میں امریکہ پراس کومرکوزکرتے ہیں ،پھراس طرح دوسرے درجے میں یورپ پر۔ پس وہ دنیا،جس پراس وقت سرمایہ دارانہ نظام پنجے گاڑے ہوئے ہے ،معاشی لحاظ سے ان ہی دوممالک سے متاثر ہوتی ہے، امریکہ اوریورپ۔
چوتھا : دیگرریاستوں کی معیشتیں :
باقی ممالک کی معیشتیں عالمی معیشت کوکنٹرول کرنے میں کم اثرانداز ہوتی ہیں :
پس جاپان ،کاقرضہ آئی ایم ایف کے دیے ہوئے اعداد وشمارکے مطابق جی ڈی پی کی245٪تک پہنچتاہے ۔آئی ایم ایف نے ایک بارپھراس سے درمیانی مدت کاقابل اعتمادبجٹ پلان بنانے کامطالبہ کیاہے ،تاکہ بھاری قرضوں کے سلسلے کوروکاجائے ۔ان قرضوں کا نوے فیصدحصہ جاپانی لوگوں کی ملکیت ہے ۔جاپانی حکومت نے 8/8/2013میں جاپانی تحریکی پالیسی(Japanese stimulus policy) کے برعکس ،عمومی اخراجات میں سےدوسالوں میں85بلین ڈالر کی کٹوتی کے عزم کااعلان کیا۔
جہاں تک روسکی باتہے تووہ بھی ملکی سطح پرسرمایہ دارانہ نظامیں نافذ کرتاہے،اوران نظاموں کے نفاذ اوردوسرے ممالک کے ساتھ معاشی تنظیموں کے قیام میں مغرب کی تقلید کرتاہے ۔اس کے اندرکسی تخلیقی کارنامے کی قابلیت نہیں ،اس لیے اس نے یورپین کسٹمز یونین کی نقالی کرتے ہوئے2010میں اس کے زیراثرریاستوں کے ساتھ معاشی تنظیمات تشکیل دی ،جیسے بیلاروس اورقزاقستان کے ساتھ اس کاتشکیل دیاہواکسٹمز یونین .......بہرحال روسی معیشت سرمایہ دارانہ نظام کے زیراثرہے ،جس کی قیادت مغرب کررہاہے ۔ روس اسی سرمایہ دارانہ نظام کی نقش قدم پرچلتاہے ،اسی کے قراردادوں کونافذکرتاہے ،اوراقتصادی آرگنائزیشنز قائم کرنے میں سرمایہ دار ریاستوں کی تقلید کرتاہے۔اس لیےاس پہلوسے روس عالمی معیشت میں کوئی حرکت نہیں لاتا،بلکہ یہ خودمغربی سرمایہ دارمعیشت سے متاثر ہوتاہے ،چہ جائیکہ وہ ایک مؤثرکاکرداراداکرے۔
بریکس BRICS)(گروپ (برازیل ، انڈیااورجنوبی افریقہ )یامیکسیکواورترکی جیسےدوسرے ترقی پذیرممالک کاجہاں تک تعلق ہے،توعالمی معیشت پران کاکوئی قابل ذکراثرنہیں ،بلکہ یہ بلاواسطہ (ڈائرکٹ)مغربی معیشت کے زیراثرہیں اور امریکی ویورپی منڈیوں کے ساتھ مربوط ہیں ۔ ان میںسے کچھ ممالک ،جیسے ترکی ،ترقی کوبڑھانے کے لئے بنیادی طورپرقرضوںکاسہارالیتے ہیں،ایسی معیشت حقیقی معیشت نہیں ہوتی ،اس طرح اس میں کھپت بڑھ جاتاہے ،کیونکہ لوگ قرضوں پرانحصارکرتے ہیں ،اس کے ریاستی ادارے یاپرائیویٹ ادارے اورکمپنیاں بھی قرضوں کاسہارالیتی ہیں۔ کچھ ممالک کے اندر ملک سے باہرسرمایہ کی کثرت سے منتقلی اوربڑے پیمانے پرکرپشن موجود ہے جیسے انڈیا،ان جیسے ممالک کی معیشتیں مستحکم نہیں اوران کاکوئی حقیقی معاشی سہارانہیں۔برازیل اورجنوبی افریقہ کااثراپنے دائرےتک محدود ہے یعنی جنوبی امریکہ اورافریقہ میں ،عالمی اقتصاد میں اس کاکوئی اثرنہیں۔
لہذا عمومی طور پر بحرانوں کے پیدا ہونے اوران کوختم کرنے کے مطالعے میں ان معیشتوں پرزیادہ توجہ مرکوز نہیں رکھی جائے گی۔

پانچواں : جہاں تک اعلان کیے گئےاعدادوشماراوربیانات کاتعلق ہے ،تویہ بیانات صادرکرنے والی ریاست کے اندرموجوداقتصادی ادارے کی مرضی کے مطابق تیارکیے جاتے ہیں۔
1۔ پس 2013میں یونائیٹڈ اسٹیٹس نےسرکاری طورپر جس شرح نمو کاذکرکیاہے،اس کاسبب درحقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت نےمعیشت کی پیمائش کےطریقہ کارکوتبدیل کردیا ، اس نے انٹالیکچول پراپرٹی (INTELLECTUAL PROPERTY)کومعیشت میں داخل کردیا ،جیسےموسیقی کے مصنوعات یامیڈیسن اورڈرگز مصنوعات کی ملکیتی حقوق........یہ تبدیلی معیشت کےاندر 370 بلین ڈالرزکے اضافے کاسبب بنی جو2.5% کی (اضافی) تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کی معیشت ایسے وقت میں ترقی کیلئے جدوجہد کررہی ہے ،جبکہ امریکی شہریوں نے اپنے اخراجات کم کردیے ہیں اس لیے یہ رپورٹیں جن سے کسادبازاری ختم ہونے کاتاثرابھرتاہے ،اصل میں یہ ایک طریقہ ہے کہ ایسے اعدادوشمارشائع کیے جائیں ،جن کے پیچھےکوئی حقیقت نہیں ہوتی اورسراسرمن گھڑت ہوتے ہیں۔
2۔ جہاں تک یورپین کے اہلکاروں کی طرف سے پیش کیے گئے مندرجات کا تعلق ہے ،تو یہ بھی مستقل ترقی کی بنیاد پرنہیں تھے ۔جن مندرجات کااعلان کیاگیاوہ محض ابتدائی اندازہ تھااوروہ بھی پورے یورپی معیشت کانہیں، کیونکہ اس میں وہ ممالک شامل نہیں کیے گئے، جومعاشی مشکلات سے دوچارہیں ،جیسے آئیرلینڈ اوریونان ۔ دیے گئے مندرجات صرف اورصرف وہ تخمینے ہیں جنہیں یورپین ڈیٹاایجنسی "یوروسٹاٹ" نے اکٹھاکیا،جومختلف انداز سے اعدادوشماراکٹھاکرنے والےقومی شماریات کے دفاترسے ،جوبڑی حد تک ترقی کیلئے ابتدائی تخمینوں کے سرویز پراعتمادکرتے ہیں ، فراہم کیے جانے والے ڈیٹاپرانحصارکرتی ہے ۔ ان تخمینوں پرعموماً کئی مرتبہ نظرثانی کی جاتی ہے۔ جرمن دفترشماریات اس بات کااشارہ دیتاہےکہ نظرثانی کی کاروائی ابتدائی تخمینوں کے کوئی چارسال بعد ممکن ہوتی ہے ،کیونکہ اس میں اضافی مندرجات کوبھی شمارکیاجاتاہے۔ اس لئے سرویز کی خامیوں کودیکھتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ یورپ میں حالات بہترہوگئے ہیں۔
3۔ بالخصوص ، اگرہم چین کی بات کریں،تو ہمیشہ سے ان بیانات کے بارے میں کچھ ایسے سوالات اورشکوک پائے جاتے ہیں جوچین کی طرف سے اس کی معیشت کے حوالے سے نشرکیے جاتے ہیں۔چین رقبہ اورآبادی کے لحاظ سے دنیاکی ایک بڑی ریاست ہے ،اس کی معاشی کارکرگردگی کے بارے میں تمام معلومات اکٹھاکرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔
مبصرین کے نزدیک شکوک کاباعث یہ ہے کہ چین نےاپنے سالانہ GDP کے اعدادوشمارگزشتہ سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں شائع کیے ،حالانکہ چینی حکومت کیلئے پورے سال کے نتائج کاتین ہفتوں میں ترتیب دینامشکل امرہے ۔اس سے اس خیال کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ چین کی طرف سے پیش کیےجانے والے اعدادوشماردرحقیقت ایسے ہوتےہے ،جس کی بنیادپردنیااس کی معیشت کے بارے میں ویساہی سمجھے جیساوہ چاہتاہے۔
چھٹا: خلاصہ
بے شک عالمی مالیاتی بحران ابھیتک ختم نہیں ہواہے ،اوراس کے جھٹکے اب تک محسوس کیے جارہے ہیں ،امریکہ اس بحران کوسرمایہ ٹھونسنے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش میں لگاہواہے ،اوریورپ میں جرمنی سادگی کی زندگی اپنانے کی پالیسی کے ذریعے اس کے ساتھ نمٹ رہاہے ۔امریکہ نے 85بلین ڈالرز مارکیٹ میں ڈالتا ہے اوریہ سرمایہ کپنیوں کو زندگی برقراررکھنے کیلئے فراہم کرتا ہے تا کہ وہ چلتی رہیں،اوریورپ سادگی کی پالیسی پرچل رہاہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بحران اب تک خم ٹھونک کے کھڑاہےاور معیشت حکومت کی مداخلت اورتعاون کے بغیرطبعی انداز سے نہیں چل رہی، گویاریاست کی معیشت کے لیے ایک وینٹی لیٹرکاکرداراداکررہی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ مارکیٹ میں ریاستی مداخلت سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی ضد ہے ،کیونکہ یہ نظام مارکیٹ کواتھارٹی کی چنگل سے آزادی کی ترویج کرتاہے ، سو یہ نظام کمپنیوں اورباقی مالیاتی اداروں کوبچانے کیلئے ریاست کومارکیٹ میں مداخلت کی یامارکیٹ کی حرکت کومحدودکرنے کی اجازت نہیں دیتا۔یہ نظام لازم قراردیتاہے کہ مارکیٹ کومطلق آزادی حاصل ہونی چاہئے ،اوریہ کہ مارکیٹ اپنے مسائل آپ ہی حل کرے گی ۔ پس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے مطابق مداخلت ،ترقی کیلئے رکاوٹ ہے،اوربقائےاصلح کے اصول کے مطابق ،جوکمپنیاں کاروبار کے قابل نہ ہوں ،انہیں بندہوناچاہئے ،تاکہ ان کی جگہ دیگرکمپنیاں کام کریں، اس طرح مارکیٹ میں صرف وہی کمپنیاں باقی رہ جائیں گی جومقابلے کی دوڑمیں شریک ہوسکتی ہوں،چنانچہ معیشت کوترقی ملے گی اورآزادی سے کاروبارکرسکے گی۔یہ اس سرمایہ دارانہ نظریے کے مطابق ہے،حقیقت جس کی تصدیق نہیں کرتی اورسرمایہ دارریاستوں کی مسلسل مشقوں نے اس کوغلط ٹھہرایاہے ۔ تو اس بحران کے اسباب اورمسائل کےسرچشمےکاحل نہیں نکالاگیا،جوسرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں موجودہے ،جہاں ہرلمحہ بیماری لوٹ آنے کاخطرہ موجود ہوتاہے ،اس مریض کی طرح جسے مختلف پرانی بیماریوں نے گھیررکھا ہو،کبھی توایسے رپورٹیں آتی ہیں جوفلاں فلاں نسبت سے اس کی صحت کی بہتری کااشارہ دیتی ہیں ،کچھ دیربعد ہی اس کے برعکس رپورٹیں سامنے آتی ہیں ،پھراس کی زندگی کوباقی رکھنے کیلئےاس کو آرام پہنچانے والی ادویات اورانجکشن دیے جاتے ہیں ،تاہم وہ مسلسل دردکی ٹھیسوں سے بے چینی کی کیفیت میں مبتلاہوتاہے۔
اس طرح عالمی معیشت کبھی بھی اچھی نہیں ہوئی ،بحران تاحال اپنی جگہ موجود ہے ،اورمسائل کھڑے ہیں ،اورجب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود رہے گا،مسائل سراٹھاتے رہیں گے۔یہ نظام غربت وتنگدستی کوجنم دیتاہے ،اربوں انسانوں کومحرومی کی دلدل میں دھکیل دیتاہے اورڈھیرسارے اموال ،قبل اس کے کہ لوگوں تک پہنچ کروہ اس سے بہرہ ور ہوجاتے،یہ نظام ان اموال کی بربادیکاباعث بنتاہے، نتیجۃًلوگوں کی ایک بڑی تعداد بدقسمتی اورزبوحالی کا شکار ہوجاتی ہےاورسرمایہ داروں کاایک چھوٹاساطبقہ وسائل کابہت بڑاحصہ ہڑپ کرلیتاہے ۔ اسی سبب ،بحران ایک آتش فشاں کی صورت میں موجود ہے ،جوکبھی لرزہ خیز دھماکے سے پھٹ جاتاہے توکبھی ساکن ہوجاتاہے ،مگرلاوااندرہی اندرجوش مارتارہتاہے ۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقی حل اسلام کے علاوہ کہیں اورموجود نہیں ،جوصحیح طریقے سے وسائل کی تقسیم اورہرفرد کوان سے فائدہ اٹھانے اوراپنے حصے کے بقدرحصول کو معاشی مسئلہ کی نظرسے دیکھتا ہے،جوچندلوگوں کےجیبوں میں ارتکاز دولت کے راستے میں رکاوٹ ڈالتاہے ۔ جومعاشرے کوسرسری اور اجمالی نظرسے نہیں دیکھتاکہ اتنی اتنی قیمت کے کچھ سرمایہ جات اوروسائل موجود ہیں جس میں فرد کااتنااتناحصہ ہوگا،جبکہ حقیقت میں وہ فرد کاحصہ نہیں ہوتا ،بلکہ ایک انتہائی چھوٹے سے گروہ کاہوتاہے۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت ،خلافت راشدہ پھرسے قائم ہو،تب آسودگی وخوشحالی اورتندرست معاشی زندگی کادوردورہ ہوگا،نہ صرف امت مسلمہ بلکہ چاردانگِ عالم میں خیراورامن وآشتی پھیل جائے گی، اللہ سبحانہ غالب اورحکمت والاہے۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک