لندن کانفرنس - امریکہ اور برطانیہ سرزمینِ یمن پر اپنا اثرورسوخ مضبوط کرنے کیلئے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں
- Published in حزب التحریر
- Written by Super User
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
برطانوی وزیر اعظم نے یکم جنوری 2010کو یمن کی صورتحال پر غور کرنے اور جنم لینے والے بحران سے نکلنے میں یمن کی مدد کے نام پر لندن میں کانفرنس طلب کی۔ جو آج یعنی 27جنوری 2010ئ کو منعقد ہوئی ،جس میں 21ممالک نے شرکت کی اور یہ کانفرنس دو گھنٹے جاری رہی۔ اس کانفرنس میں القائدہ کے خلاف جنگ میں یمن کی مدد اور اسکے ساتھ ساتھ ترقیاتی معاونت، اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کے نفاذ میں مدد اور IMFکیساتھ مذاکرات اورجامع مفاد کے حصول میں مدد کے متعلق قرارداد یں اور میڈیا بیانات جاری کیے گئے۔
یمن میں حالیہ واقعات اور موجودہ حالات پر نظر رکھنے والا شخص اس بات کو محسوس کرسکتاہے کہ ان قراردادوں کی ظاہری مک دمک نے درپردہ طے پانے والی حقیقی اور موثر قراردادوں کو چھپا دیا ہے۔ اور وہ یہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ و برطانیہ کویمن پر وسیع اختیار حاصل ہیں اور اس کانفرنس کے انعقاد کے پسِ پردہ ان کے اپنے مفادات اور ایجنڈا ہے اور وہ اس کانفرنس سے مخصوص نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یمن میں برطانوی اثررسوخ کے قیام سے لے کر آج تک ، خصوصاً موجودہ حکومت کے دور میں ، امریکہ یمن میں حالات کو غیر مستحکم کرنے اور اپنے دیرینہ نقطہ نظر کو نئی شکل میں مسلط کرنے کیلئے کئی کوششیں کر چکا ہے ۔ امریکہ اپنے آپ کو دم توڑتی برطانوی سلطنت کا فطری جانشین سمجھتا ہے اور اس بات کو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ پرانی اور کمزور برطانوی سلطنت کی سابقہ کالونیوں پر اپنی مرضی چلائے۔ پس وہ برطانیہ کے بجائے اپنے آپ کو یمن کا حقیقی مالک سمجھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کے باوجودیمن کی موجودہ حکومت بڑی حد تک یا مکمل طور پرامریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور امریکہ کی وفادار ہے، پس امریکہ جسے قتل کرانا چاہتا ہے یہ حکومت اسے قتل کرتی ہے ،اور امریکہ جسے گرفتار کرانا چاہتا ہے یہ اسے ہتھکڑیاں لگا دیتی ہے،امریکہ جسے ملک بدر کرنا چاہے یہ اسے ملک بدر کردیتی ہے اور امریکہ جسے غائب کرانے کی خواہش ظاہر کرے ،یہ اسے غائب کردیتی ہے...تاہم یمن میں امریکہ کے پاس کوئی ایسا قدآور سیاست دان نہیں ہے جسے امریکہ کندھا دے کر مسندِاقتدارتک پہنچا سکے اوربرطانوی اثر رسوخ کو لگام دے کر یمن میں اپنے اثرورسوخ کو مضبوط بنیادیں فراہم کر سکے ۔ چنانچہ امریکہ نے دو کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے:
یمن کی حکومت کو دھمکانے کے لیے تھریٹ بٹالین(Threat Battalions) اور امریکہ نواز درمیانے درجے کی سیاسی قیادت کی تربیت(Training Battalions)۔
جہاں تک تھریٹ بٹالین(Threat Battalions) کا تعلق ہے توایران کویہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ حوثیوں (Houthis)کو مدد فراہم کرے۔ پس یہ صورتِ حال ایک ٹِک ٹِک کرتے ٹائم بم کی شکل اختیار کر چکی ہے جو کہ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کے قریب شمالی یمن میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے...ہم نے حوثیوں(Houthis) کو'تھریٹ بٹالین‘ قرار دیاہے کیونکہ یہ یمن کے اقتدار پر قابض ہونے کیلئے کام نہیں کررہے بلکہ یہ علاقے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کے لیے کا م کر رہے ہیں۔
جہاں تک ٹر یننگ بٹالین(Training Battalions) یا امریکہ نوازمِڈ لیول سیاستدانوں کا تعلق ہے تو یہ جنوبی یمن میں ایک مسلسل تحریک ہے ،تاکہ امریکی ایجنڈے کے پہلے قدم کے طور پر جنوبی یمن کو شمالی یمن سے علیحدہ کیا جائے، اور پھر پورے یمن پر امریکی اثررسوخ کو مستحکم کیا جائے۔ ہم نے انہیں ٹر یننگ بٹالین(Training Battalions) کا نام اس لئے دیا ہے کہ ان درمیانے درجے کے سیاست دانوںکو ان کی ٹاپ لیڈرشپ کے خاتمے کے بعد پروان چڑھایا جا رہا ہے اور انہیںاشتعال و عدم استحکام پیدا کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔
امریکہ ان دونوں کاموں میں کامیاب رہا ہے کیونکہ اس نے جنو ب میں حکومت کے ظلم سے فائدہ اٹھایا اور سیاسی لحاظ سے حکومت کو کارنر کیا۔ اور پھر حوثیوں کو انکی تشریح اور اسلامی افکار کی تبنی کے مطابق احکامِ شریعہ پر عمل کرنے سے روکا گیا۔ اسی مقصد کے تحت حکمرانوں نے یمن میں احسن طریقے سے شرعی احکامات کو نافذ نہ کرنے میں رضامندی اور تعاون کا رستہ اپنایا۔ یمنی حکومت نے نرم اور قابل قبول فضا بنانے میں امریکہ کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں امریکہ شمال میں تھریٹ بٹالین اور جنوب میں ٹر یننگ بٹالین کو پھیلانے کے قابل ہوا۔ تاہم یہ صورتِحال حکومت کی گردن پر اس حد تک سوار ہو گئی کہ برطانیہ اس امر پر مجبور ہو گیا کہ وہ دو محاذوں پر 'ہنگامی‘ اقدامات کرے۔
اول : ایک امن معاہدہ کے ذریعہ امریکہ کو خوش کرنا اور حکومت کیلئے اسکی خاموش حمایت حاصل کرنا۔ 10اور 11نومبر 2009 کو صنعائ میں عسکری اور دفاعی قیادت کے مذاکرات کے بعد یمن اور امریکہ ایک امن اور دفاعی ﴿عسکری﴾ معاہدے پر پہنچ گئے۔ یہ معاہدہ عسکری اور دفاعی معاملات میں تعاون اور دونوں میدانوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کی بات کرتا ہے۔ اس معاہدہ کا اعلان یمن کی افواج کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر جنرل احمد علی اوریوایس جوائنٹ کمانڈکے پلاننگ کے ڈائریکٹر جیفری سمتھ کے درمیان گفت وشنیدکے بعد کیا گیا۔
دوم: القائدہ کی روک تھام کرنا اور اس سے لڑنا! حکومت کافی عرصہ سے القائدہ کے لوگوں کو جانتی تھی لیکن وہ انکی موجودگی کے متعلق خاموش رہی، کیونکہ حکومت حوثیوں اور جنوبیوں کے ساتھ لڑائی ک ساتھ ساتھ ایک تیسرا محاذ کھول کر اپنی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی تھی ۔ حکومت القائدہ کے بارے میں اس وقت تک خاموش رہی جب تک برطانیہ نے اسکے دوسرے پہلو پر نہیں سوچا ۔ برطانیہ جانتا ہے کہ امریکہ القائدہ کے بارے میں حساس ہے اور اگر یمن کی حکومت القائدہ سے لڑے گی تو امریکہ یمن کی مدد کرنے پر مجبور ہوجائیگا اور شمال اور جنوب سے پڑنے والا دبائو کم ہوجائے گا۔ پس حکومت نے القا ئدہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا ،جنہیں وہ پہلے سے جانتی تھی۔ القائدہ پر یہ حملہ اتفاقی نہیں تھا بلکہ یہ ایک غیر معمولی حملہ تھا۔ یمن کی حکومت شمال ﴿حوثیوں﴾اور جنوب میں دو محاذوں پر لڑرہی تھی، ایک تیسرا محاذ کھولنا غیر معمولی امر تھا جو کہ ایک سیاسی اقدام تھا ، جبکہ اس کا اظہار عسکری تھا۔ یہ قدم خالصتاً برطانوی ایما ئ اور ایجنڈے کے مطابق تھا۔
اس نازک موڑ پر برطانوی وزیراعظم نے لندن کانفرنس بلائی تاکہ القا ئدہ پر حملہ کرنے اور اس سے لڑنے کیلئے یمن کے حق میں بین الاقوامی حمایت اور مدد حاصل کی جائے۔ اور اس طرح امریکہ کو یمن کی حکومت کی مدد کرنے اور شمال اور جنوب سے دبائو کم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ امریکہ کے پاس کانفرنس کی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ہی امریکہ اپنے اثرورسوخ کو قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے سیاسی اتحادیوں کو خصوصاً جنوب میں مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اور حوثیوں کیلئے ایک ایسے حل کا متمنی ہے کہ امریکہ ان سے دور بھی ہوجائے اور ان سے قطع تعلق بھی نہ ہو ،تاکہ یہ تحریک چلتی رہے اور ضرورت پڑنے پر اسکو بڑھاکر ﴿ہوا دیکر﴾ اسکا فائدہ بھی اٹھایا جاسکے۔
کانفرنس کے دوران کیا ہوا: امریکہ اس بات پر زور دیتا رہا کہ القائدہ کے خلاف لڑنے میں یمن کی عسکری مدد کی جائے اور اسے لاجسٹک امداد دی جائے اور جنوبی اور شمالی علاقوں میں تحریکوں کیساتھ مذاکرات کرنے کیلئے یمن کے اوپر دبائو ڈالا جائے، جبکہ برطانیہ اس بات پر زور دے رہا تھا کہ شمالی اور جنوبی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کیلئے یمن کی اقتصادی معاونت کی جائے اور اس کیلئے عالمی حمایت حاصل کی جائے۔ اور حوثیوں اور جنوبیوں کے خلاف مدد کے طور پر القائدہ کی نگرانی کی جائے۔ لہٰذا یہ کانفرنس مختلف ممالک کے نمائندوں کا دو گھنٹوں کیلئے کیمروں کے سامنے کھل کر مسکرانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔ اور پھر برطانیہ اور امریکہ نے شرکائ میں سے اپنے اپنے حواری ممالک کو اپنے گرد اکٹھا کیا تاکہ یمن کے لوگوں کے خون کے بدلے اپنے اپنے ایجنڈے کو پورا کرسکیں!۔
اے مسلمانو!
آخر کب تک مسلمانوں کے علاقے بڑی متحارب اقوام کی آپس کی لڑائی کا میدانِ جنگ بنے رہیں گے اور یہاں کے بیٹوں کو اپنی جنگوں کیلئے ایندھن کے طور پراستعمال کرتے رہیں گے اور اپنے مفاد کی جنگوںکا لقمہ بناتے رہیں گے؟ آخر کب تک مسلمانوں کی زمینیں مغرب کیلئے کھیل کا میدان بنی رہیں گی ،کہ وہ انکی دولت لُوٹے اور مسلمانوں کا خون بہائے؟ آخر کب تک مسلمانوں کی زمینوں پر مغرب کی آگ اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق بھڑکائی جاتی رہے گی؟ آخر کب تک یمن اور دیگر مسلمان ممالک کے حکمران بغیر کسی شرمندگی ،رکاوٹ اور مزاحمت کے ،شطرنج کے مہروں اور کٹھ پتلیوں کی طرح استعماری مغرب کے اشاروں پر ناچتے رہیں گے۔ کیا یمن کے عوام پر اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اس بات کا ادراک کرلیں کہ یہ یمن کی حکومت اور اسکا ظلم ہی ہے جس نے مغرب کو یمن میں اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے ،یہاں کے لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے اموال کو تباہ و بربادکرنے کے قابل بنایا ہے۔ اس کے باوجود حکمرانوں کو اپنی حکومت اور اپنا عہدہ بچانے کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ،خواہ یہ طاقت اور اقتدار کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اس حد تک کہ ان کی حکومت مفلوج ہوکر کسی بھی وقت گر سکتی ہے ۔
پچھلے دس سالوں میں اس جنگ کے دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ یا تو قتل کردیے گئے یا معذور ہوچکے ہیںاور دونوں اطراف اس تباہی کا نشانہ مسلمان ہی ہیں،دونوں طرف کے لوگ اللہ کی معبودیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ۔ کیا آپ اس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ کسی مسلمان سے لڑنا انتہائی سنگین اور عظیم گناہ ہے اور ایک مسلمان کا ناجائز قتل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک بہت شدید امر ہے ،یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے گرانے سے بھی زیادہ شدید۔ ابن ماجہ نے عبیداللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا»
''کتنا طیب ہے تو اور کتنی طیب تیری ہواہے ، کتنا عظیم ہے تو اور کتنی عظیم تیری حرمت ہے۔ لیکن اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اللہ کی نظر میں ایک مومن ، اس کے خون اور اس کے مال کی حرمت تجھ سے بڑھ کر ہے ۔ اورہم اس کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ گمان نہیں کرتے‘‘
ا بے شک برطانیہ اور امریکہ آپس کی جنگ لڑرہے ہیں اور یمنی حکومت کے تعاون اورلاجسٹک سپورٹ سے یہاں کے مقامی عناصر کو استعمال کررہے ہیں جبکہ جنوب میں علیحدگی پسند اور شمال میں حوثی نادانی میں دشمنوں کے ایجنڈے کو ہی مضبوط کر رہے ہیں،جبکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ بھلائی کاکام کررہے ہیں۔
اے مسلمانو! ہمارامسئلہ دو ہراہے:
اول: مسلم ممالک کے حکمران نہ اپنے عوام کے امور کی دیکھ بھال کرتے نہ ہی وہ اپنے لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں ۔ وہ نہ تواپنے لوگوں اور نہ ہی اپنے علاقوں پر ظلم ڈھانے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ اگر وہ سوچتے تو جان لیتے کہ اپنے لوگوں سے غداری کرنے والا اور انکے امور کی دیکھ بھال نہ کرنے والا حکمران جنت میں داخل نہیں ہوگا ، حتیٰ کہ وہ اسکی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ بخاری نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»
''کوئی بھی والی اس حال میں مرے کہ اس نے اپنے لوگوں سے غداری کی ہو، تواللہ اس پر جنت کو حرام کر یتا ہے‘‘۔ ﴿بخاری﴾
اور ایسا کوئی حکمران جو اپنے لوگوں کو دھوکہ دے اور ان سے غداری کرے ، اوران کے سامنے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر دکھائے ،وہ اس چرواہے کی مانند ہے جو اپنے ہی ریوڑ کو موت اور تباہی کے دہانے پر پہنچا دے۔ امام احمد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نقل کی ہے:
«إِنَّهَا سَتَأْتِي عَلَى النَّاسِ سِنُونَ خَدَّاعَةٌ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ السَّفِيهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»
''لوگوں پر دھوکہ دہی کا ایک ایسا دور آئے گا کہ لوگ سچے کو جھٹلائیں گے اورجھوٹے کا یقین کریں گے ، امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا،اور اس وقت رویبضۃ کا بول بلا ہو گا۔ پوچھا گیا کہ رویبضۃ کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹیا اور قابلِ نفرت شخص جو لوگوں کے امور میں کلام کرے گا‘‘۔
ہمارا دوسرا مسئلہ جابر حکمرانوں کے سامنے امت کی خاموشی اور انکے خلاف آواز نہ اٹھانا اور انہیں نہ روکنا ہے۔ ایسا اس امر کے باوجود ہے کہ ان حکمرانوں نے امت پر ذلت مسلط کررکھی ہے ۔ ہم فلسطین ،کشمیر ،قبرص اور مشرقی تیمور کھو چکے ہیں،سوڈان علیحدگی کے دہانے پر ہے، عراق،افغانستان،پاکستان اور اب یمن مغرب کی آپس کی لڑائی کیلئے میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں، جبکہ ہمارے حکمران انکے آلہ کار ہیں ،اورمتحارب مغرب کے اتحادی ہیں۔ پس اس میں کوئی تعجب نہیں کہ عذاب نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام پربھی مسلط ہو، جنہوں نے خاموش رہ کر ظلم کو قبول کر لیاہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَاتَّقُواْ فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب﴾
''اور اُس فتنہ سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں پر ہی نہ پڑے گا اور جان لو کہ بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘﴿الأنفال:25﴾
احمد اور ابو داؤد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے:
«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُنْكِرُوهُ يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابِهِ»
'' جب لوگ اپنے درمیان برائی ہوتادیکھیں اور اُسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ اُن سب پر اپنا عذاب نازل کر دے‘‘
اے مسلمانو!
تاہم صبح اب قریب ہے اور نظر رکھنے والے اسکی روشنی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف اسی طرح ٹھیک ہوگا جیسے اسلام کے پہلے دور میں ہواتھا، یعنی نبوت کے قدموں پر چلتے ہوئے خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکومت کرے گی ا ور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گی۔ جس میں مسلمانوں کاحکمران خلیفۂ راشد ہوگا جو کہ ایک ڈھال کی مانند مسلمانوں کی حفاظت کرے گا اور مسلمان اس کی قیادت میں لڑیں گے۔ یہی ہے وہ ڈھال جو اپنے لوگوں کی حفاظت کرتی ہے اور انہیں عمدہ نصیحت کرتی ہے۔ پھر امریکہ ، برطانیہ اور انکی طرح کے دیگراستعماری کفارکوہم پر اور ہماری زمینوں پر حملہ آور ہونے اوراثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے نہ تو وقت ہوگا اور نہ ہی موقع ، کیونکہ وہ اپنے علاقوں اور ممالک کو بچانے کے لیے واپس بھاگیں گے۔ لیکن وہ اسلام کے نور سے ''بھاگ‘‘ نہیں سکیں گے، کیونکہ اسلام کی روشنی پھیل کر انکے گھروں کی دہلیز پرپہنچ جائے گی۔
﴿وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی أَمْرِہٰ وَلَ کِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾
''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘﴿یوسف: 21﴾