السبت، 28 جمادى الأولى 1446| 2024/11/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

کشمیر خلافت کی افواج کے تحت منظم جہادکے ذریعے آزاد ہوگا

پاکستان کے ہرحکمران نے خانہ پری کے لیے کشمیر کی جدوجہدآزادی کو ایک دن منانے کی حد تک محدود رکھا اور کبھی بھی پاکستان کے مسلمانوں کو اس جہاد کے لیے تیار نہیں کیا جس سے حقیقی طور پر کشمیر آزاد کروایا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یوم کشمیر 5 فروری کے دن کو حکومتی سطح پر منانے کی رسم سے بھی جان چھڑائی جا رہی ہے تاکہ حکمرانوں کے بعد امت کو بھی کشمیر کے مسلمانوں سے غداری کرنے کے لیے تیار کیا جاسکے۔ کشمیر کی آزادی صرف منظم جہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے اسے قراردادوں یا نان سٹیٹ ایکٹرز کے غیر منظم جہاد سے آزاد نہیں کروایا جاسکتا۔ پاکستان کے غدار حکمران کبھی بھی حقیقی طور پر کشمیر کی آزادی کے خواہاں نہ تھے بلکہ کشمیر میں چھیڑ چھاڑ کا مقصد بھارت کو امریکی مفادات پورا کرنے کے لئے دبائو میں لانا تھا۔ امریکہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھارت کو "کیرٹ اور سٹِک" پالیسی کے ذریعے اپنے مدار میں داخل کرنا چاہتا تھا تاکہ پاکستان اور بھارت کو ایک بلاک کی شکل میں چین کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔

چنانچہ امریکہ نے کئی سال تک کشمیر کو بطور ‘چھڑی' استعمال کیا اور پاکستان کے غدار حکمرانوں نے اس امریکی پالیسی کو جاری رکھا۔ لیکن کلنٹن کے بھارت کے دورے اور بھارت کے ساتھ امریکہ کی سٹریٹیجک پارٹنرشپ کے بعد امریکہ نے کشمیر جہاد ختم کرنے کا حکم دے دیا جسے مشرف نے من و عن نافذ کیا۔ جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی، تمام جہادی کیمپ بند کر دئے گئے، جہادی تنظیموں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے انہیں ڈسپنسریاں کھولنے اور ٹیکے لگانے کا کام سونپ دیا گیا۔ دوسری طرف سیز فائر کے نام پر پاکستانی غداروں نے بھارت کو ایل او سی پر باڑ لگانے کی اجازت بھی دے دی۔ جس کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں چن چن کر تمام جہادی کمانڈروں کو شہید کر دیا اور پاکستان نے کشمیر پر ہونے والے ظلم اور زیادتیوں پر عالمی سطح پر چپ سادھ لی۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کو مزید مضبوط بنانے کے لئے امریکہ نے بھارت کو وسطی ایشیاء تک رسائی فراہم کرنے کا بھی منصوبہ بنا لیا۔ امریکہ نے افغانستان میں بھارت کے قونصل خانے کھلوائے اور پاکستان کے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے بھارت کو ایم ایف این (MFN) سٹیٹس دلا کر اسے وسط ایشیاء کی منڈیوں تک رسائی فراہم کر دی۔ چنانچہ نئی پالیسی کے تحت امریکہ پاکستان کو بھارت کا طفیلی ملک بنا کر ان دونوں ممالک کو معاشی، سیاسی اور ثقافتی بلاک کی شکل دینا چاہتا ہے تاکہ چین کے خلاف وہ امریکہ کا ہراول دستہ بن سکیں۔ اسی لئے امریکہ بھارت پر پاکستانی انحصار کو بھی بڑھارہا ہے۔ پاکستانی حکمران بھارت سے بجلی، تیل اور دیگر وسائل درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ بعد ازاں یہ کہہ کر کشمیر سے دستبرداری اختیار کی جاسکے کہ "ہم کھاتے بھارت کا ہیں تو اس کے خلاف کھڑے کیسے ہو سکتے ہیں"۔ اس غداری میں دیگر غیر حکومتی ادارے بھی شامل ہو گئے ہیں اور "امن کی لاشا" کو اٹھانے کے لئے این جی اوز اور دیگر میڈیا کے ادارے گھناؤنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تمام کو کشمیر میں ہونے والا ظلم نظر نہیں آتا بلکہ ان کی ساری توجہ بھارتی ثقافت کو عام کرتے ہوئے پاکستان کے عوام کو بھارت کا دلدادہ بنانے پر مرکوز ہے۔ کیانی، زرداری اور گیلانی جیسے غدار کچھ بھی کر لیں پاکستان کے مسلمان کشمیر کے مسلمان بھائیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔

انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب اس خطے کے مسلمان خلافت کے قیام کے ذریعے ایک منظم جہاد کر کے کشمیر کے مسلمانوں کو کفار کے چنگل سے آزاد کروائیں گے۔ حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ حزب التحریر کو نصرت دے کر انصار مدینہ جیسا رتبہ حاصل کریں اور جہاد کشمیر کے ذریعے نبی ﷺ کی اس بشارت کو بھی پورا کریں کہ جس نے ہند کے جہاد میں حصہ لیا وہ تمام گناہوں سے پاک ہو گیا۔

نوید بٹ

پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...

غدار حکمران امریکی راج کو بچانے کے لئے فوج سے مخلص افسروں کی چھانٹی کر رہے ہیں


11فروری کو متعدد پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینلزپر بریگیڈئیر علی خان اورچار دیگر فوجی افسروں کے کورٹ مارشل کی خبر یں نشر کی گئیں ۔ خبروں میں بیان کیا گیا کہ پاکستانی فوج کے اس بریگیڈئیر کو محض اس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے پاکستان پر جاری امریکی حملے خصوصاً مئی2011ء میں ہونے والے ایبٹ آباد واقعہ پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس واقعہ پر فوجی قیادت میں سے کسی کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔


اخباری رپورٹوں کے مطابق پنجاب کے ایک سادہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے یہ جرنیل پاکستان کے قابل ترین فوجی افسران میں سے ایک ہیں جوکہ نہ صرف بتیس سالہ شاندار ملٹری کیرئر رکھتے ہیں بلکہ گولڈمیڈلسٹ بھی ہیں ۔ بریگیڈئیر علی خان کے ساتھی افسروں نے یہ بھی بتایا کہ علی خان گزشتہ کئی برسوں سے فوجی قیادت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ افغانستان اور قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی اس صلیبی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ یہ معاملہ اُس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ گیا جب علی خان نے سٹاف کالج کوئٹہ کی ایک تقریب میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف، کوکھلم کھلا چیلنج کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے خفیہ معاہدوں کی تفصیلات کو منظر عام پر لائیں۔ انہوں نے مزید یہ بھی مطالبہ کیا کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد کی واضح ''حدود‘‘ متعین کی جائیں۔ جنرل پرویز مشرف کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے سچائی پر مبنی کوئی لفظ نہ تھا ،لہٰذا اس واقعہ کے چند ہی ہفتوں بعدمشرف نے ذاتی طور پر پروموشن بورڈ کی صدارت کر کے بریگیڈئیر علی خان کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دینے سے روک دیا ،اگرچہ یہ ترقی متوقع تھی۔ چنانچہ اب جب کہ علی خان کی کورٹ مارشل کی کاروائی شروع کی جا رہی ہے، بریگیڈئیر علی خان پاکستان آرمی کے سینئر ترین بریگیڈئیر ہیں۔


حزب التحریرولایہ پاکستان بریگیڈئیر علی خان کے کورٹ مارشل سے متعلق مندرجہ ذیل اہم نکات پیش کرنا چاہتی ہے:


اول: مئی 2011 میں امریکہ کے ایبٹ آباد پرحملے کے بعد 5مئی کی کور کمانڈر میٹنگ کے موقع پر آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز (PR108/2011-ISPR) میں کہاتھا: '' چیف آف آرمی سٹاف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف اس قسم کے کسی بھی ممکنہ واقعہ کی صورت میں امریکہ کے ساتھ ملٹری اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں تعاون پر نظر ثانی کی جائیگی‘‘۔ لیکن اس کے باوجود 26 نومبر 2011 کو نیٹو اور امریکی فوج نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو درجن سے زائد مسلمان فوجیوں کو شہید کر دیا۔ جہاں تک نظر ثانی کے وعدے کا تعلق ہے، تو 7فروری 2012 کی اخباری رپورٹوں کے مطابق، جنرل کیانی نے اس معاملے کو صرف نیٹوسپلائی لائن کی معطلی تک ہی محدود رکھا ۔ اور پھر 9 فروری کو پاکستان میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ مغربی صلیبی فوجیوں کو رسد فراہم کرنے کے لئے ابھی تک پاکستانی فضائی حدود استعمال کی جارہی ہیں۔ کیا یہی ہے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی حقیقت؟ تو ہم پوچھتے ہیں کہ آخر کورٹ مارشل کس کا کیا جانا چاہئے، بریگیڈئیر علی جیسے لوگوں کا یا جنرل کیانی جیسے لوگوں کا؟


دوم: نومبر میں ہونے والے نیٹو حملوں کے بعد جنرل کیانی نے غم و غصہ سے بھری ہوئی پاکستانی فوج کو یہ یقین دھانی کرائی تھی کہ ڈرون حملے بند اور نیٹو سپلائی لائن کاٹ دی جائیگی۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر کیانی واقعی امریکہ کے خلاف ہے تو اس نے ایبٹ آباد حملے کے فوراً بعد اس قسم کا'' جرأت مندانہ ‘‘قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ یا پھر حقیقت یہ ہے کہ کیانی ہمیشہ سے ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ماضی میں اس نے جان بوجھ کر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا؛ حالانکہ وہ یہ جانتا تھا کہ ایسا نہ کرنے کے صورت میں ڈرون حملوں میں ہزاروں جانوں کا ضیاع ہو گااور بارڈر پر نیٹو حملوں کے نتیجے میں درجنوں فوجی مارے جائیں گے ۔ یا پھر سپلائی لائن کی یہ معطلی محض فوج میں موجود مخلص افسران کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کی گئی تاکہ ان کے غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور امریکہ پاکستان کی ملٹری اور انٹیلی جنس کی صلاحیتوں کو بغیر کسی تعطل اور رکاوٹ کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا رہے۔ تو ہم ایک بار پھر پوچھتے ہیں کہ کورٹ مارشل درحقیقت کس کا کیا جانا چاہئے؟ بریگیڈئیر علی جیسے لوگوں کا یا جنرل کیانی جیسے لوگوں کا؟


سوم: 27 جنوری 2011 کو امریکی انٹیلی جنس اہلکارریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں ڈرون حملوں کے لئے معلومات اکھٹا کرتے ہوئے دو پاکستانیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا، اور ریمنڈ ڈیوس کے قبضے سے لانگ رینج ریڈیو، جی پی ایس آلات اور حساس مقامات کی تصاویر بھی برآمد ہوئیں تھیں۔ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ان واضح شواہد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے حسین حقانی کو یہ اجازت دے دی کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے امریکہ سے ڈیل کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔ آج بھی ریمنڈ ڈیوس جیسے خفیہ امریکی اہلکار پاکستان کے طول و عرض میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ بریگیڈئیر علی کتنے مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہے؟ ! ہم یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا بریگیڈئیر علی نے بھی کسی ڈرون حملے کے لئے امریکہ کو انٹیلی جنس فراہم کی ہے؟ تو پھر کورٹ مارشل حقیقت میں کس کا کیا جانا چاہئے؟ بریگیڈئیر علی جیسے لوگوں کا یا جنرل پاشا جیسے لوگوں کا؟


چہارم: بریگیڈئیر علی خان کے خلاف کورٹ مارشل کی کاروائی درحقیقت مسلم ممالک میں جاری امریکی پالیسی کا حصہ ہے کہ مسلم افواج سے تمام ایسے مخلص اور قابل افسر وں کو چھانٹ کرنکال باہر کیا جائے جو امریکی تسلط سے پاک خودمختار اور مضبوط امت کی خواہش رکھتے ہوں۔ پاکستان کی فوجی قیادت میں موجود غدار اس امریکی پالیسی پرپوری طرح عمل پیرا ہیں ۔ اس پالیسی کو اپنانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس بات سے خائف ہے کہ کہیں معاملات اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائیں۔ وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں پر کنٹرول ان کی افواج پر کنٹرول حاصل کر کے ہی ممکن ہے۔ 24 نومبر 2008 کو میجر جنرل جان ایم کسٹر (جو کہ ایری زونا کے ایک انٹیلی جنس سنٹر کا کمانڈر تھا)نے واشنگٹن ٹائمز کوانٹرویو کے دوران اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ:''پرانے (پاکستانی) فوجی لیڈر ہمیں بے حد پسند کیا کرتے تھے۔ وہ امریکی کلچر کو سمجھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔ لیکن اب وہ آہستہ آہستہ ریٹائر ہوتے جارہے ہیں‘‘۔ مارچ 2009 میں واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے ڈیوڈ کلکلنDavid Kilcullen نے (جو امریکی سینٹ کام کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پٹریاس کا مشیر تھا) یہ کہا: ''پاکستان کی آبادی 173 ملین ہے، اس کی فوج امریکی فوج سے بڑی ہے اور اس کے پاس سو سے زائد ایٹمی ہتھیار ہیں... اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں آنے والے ایک سے چھ ماہ کے دوران پاکستانی ریاست ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے... انتہا پسندوں کے قبضے کا خطرہ لاحق ہے جس کے سامنے موجودہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی ہیچ نظر آئے گی۔‘‘ چنانچہ یہ ہے اسلام پسند افسران کی چھانٹی کی پالیسی جس پر بنگلہ دیش میں امریکی ایجنٹ حکمران ، شیخ حسینہ واجد، بھی بخوبی عمل پیرا ہے اور درجنوں ایسے مخلص افسران کو گرفتار کر چکی ہے جو اسلام کی حمایت میں اور امریکہ کا ساتھ دینے والے غدار حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہو رہے تھے۔ چھانٹی کی یہی پالیسی کئی دہائیوں سے شام میں جاری تھی جس کے نتیجے میں اب بشار الاسد کئی مہینوں سے بھاری اسلحے ،ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کا بے دریغ استعمال کر کے اپنے ہی عوام کا قتلِ عام کر رہا ہے جبکہ امریکہ اطمینان کے ساتھ تماشا دیکھ رہا ہے۔ ہم یہ پوچھتے ہیں کہ کیا کیانی اور پاشا بھی اسی پالیسی پر کاربند نہیں ؟ اور کیا امریکہ نے ان کی مدت ملازمت میں بار بار توسیع ان کی وفاداریوں کے عوض نہیں کی؟ کیا یہ وہی پالیسی نہیں کہ جس کے تحت کیانی اور شجاع پاشا پاکستان کے فوجی افسروں کو اپنے ہی عوام کے خلاف امریکی مفادات کا محافظ بنا رہے ہیں؟ جبکہ ان پاکستانی افسروں نے توبیرونی حملہ آوروں سے مسلمانوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا تھا! کیا قبائلی علاقوں میں بھی یہی پالیسی نہیں اپنائی گئی اور کیا کیانی اور پاشا نے اس فتنے کی جنگ کو پاکستان کے بڑے شہروں، بشمول کراچی ،تک پھیلانے میں اپنی رضامندی کا اظہار نہیں کیا؟ کیا وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کورٹ مارشلوں کے ذریعے کسی بھی مخلص افسر کوشکار کر کے فوج سے نکال باہر کرنے اور اسے دوسروں کے لئے ایک مثال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کا سٹینڈ لینے کی جرأت نہ کر سکے۔ پس ہم سوال کرتے ہیں کہ آخر کورٹ مارشل کس کا کیا جانا چاہئے؟ بریگیڈئیر علی جیسے مخلص فوجی افسروں کا یا کیانی اور پاشا جیسے غداروں کا؟


اے افواجِ پاکستان کے افسران !

آگاہ رہو کہ ایک طرف تو امریکہ اس وسیع و عریض امت کو اس کے طاقتور ترین حصے یعنی افواج کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے تو دوسری طرف وہ امت کی مخلص عالمی قیادت ، حزب التحریر، پر بھی پابندیاں لگاتا ہے تاکہ وہ پاکستان کے عوام پر اپنے کنٹرول کوبرقرار رکھ سکے۔ تمام استعماری طاقتوں نے، جو امت کے خلاف عزائم رکھتی ہیں، مختلف مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے حزب التحریرپر پابندی لگارکھی ہے۔ روس نے وسطی ایشیائی ریاستوں میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے حزب پر پابندی لگوائی جبکہ امریکہ نے پاکستان، بنگلہ دیش اور متعدد عرب ممالک مثلاً شام اور مصر میں حزب پر پابندی لگوائی۔ دوسری طرف برطانیہ نے بھی اردن، لیبیا ، تیونس اور دیگر ممالک میں حزب پر پابندیاں عائد کروائیں۔ اس کے باوجود حزب التحریرعالمی سطح پر سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے جو چالیس سے زائد ممالک میں ایک امیر اور مجتہد عطابن خلیل ابو رَشتہ کی لیڈرِشپ تلے کام کر رہی ہے۔ حزب التحریرہی اہلِ طاقت میں موجود مخلص لوگوں کو ساتھ ملا کر امت کو موجود ہ نو آبادیاتی غلامی سے نجات دلانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔


اے افواج پاکستان کے افسران !

کیا تمہیں اپنی طاقت کا اندازہ نہیں کہ کس طرح امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے تمہی پر انحصار کرتا ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ امریکہ کس طرح اپنی انتقامی چھانٹی کی پالیسی پر کاربند ہے کیونکہ وہ تمہاری طاقت سے خوفزدہ ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ کیانی اور پاشا کے لئے بریگیڈئیر علی جیسے بے شمار افسروں کو خاموش کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ وہ ان خیالات کا اظہار کررہے ہیں جو آپ کے دل و دماغ میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ فوج کے ادارے سے خوفزدہ ہے اور اسے ایک کمزور ذہنیت کی حامل کرائے کی فوج میں بدلنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ بریگیڈئیر علی وہ پہلا شخص نہیں جسے انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے اور جب تک کہ امریکہ اور اس کے ایجنٹ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہیں گے کہ فوج کا پورے کا پورا ادارہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی پرواہ کئے بغیرمحض امریکہ کے تمام احکامات کواندھادھند پورا کرے، ایسے افسران کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔


چنانچہ آج تمہاری پوزیشن کیا ہے کہ جب امریکہ تمہیں اپنے چوکیدار کے طور پر تمہارے اپنے ہی بہن بھائیوں کے خلاف ہانک رہا ہے؟ تم کہاں کھڑے ہو جب مخلص افسروں کا کورٹ مارشل کیا جا رہا ہے اور غداروں کی ملازمتوں میں توسیع کی جا رہی ہے؟


تم میں سے بعض ان غدار حکمرانوں اورکافر امریکیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی شر انگیز حرکتوں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ جان رکھو کہ خلافت کے قیام کے بعد ایسے تمام لوگوں کو غدار حکمرانوں سمیت امت کے ہاتھوں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑیگااور انشاء اللہ وہ دن بہت قریب ہے۔ یہ بھی جان رکھو کہ آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عذاب دنیاکی کسی بھی سزاسے کہیں شدید ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

فَأَذَاقَهُمْ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

''پھر اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی کا مزہ چکھایا اور آخرت کا عذاب تو اور بھی بڑا ہے ،کاش وہ جانتے ہوتے‘‘ (الزمر:26)


تم میں سے بعض خاموش تماشائی بنے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت کو ضائع کر رہے ہیں جس کے بارے میں انہیں حشرکے روز جواب دینا ہوگا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ فرعون کی فوج کو بھی ظالم فرعون سمیت عذاب دیا گیا تھا جس کی وہ اطاعت کر رہے تھے؟ کیا یہ دنیا اور اس کی عارضی لذتیں تمہیں جنت کی ہمیشہ رہنے والی خوشیوں سے دور کر رہی ہیں؟ اللہ جل شانہ فرماتا ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمْ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنْ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ

''مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو؟ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں ‘‘۔ ( التوبہ: 38)


جبکہ تم میں سے بعض وہ بھی ہیں جو دشمن کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کی آرزو رکھتے ہیں۔ تو اے عزیز بھائیو! وہ وقت آن پہنچا ہے کہ تم حزب التحریرکو خلافت کے قیام کے لئے نصرت دینے میں جلدی کرو۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے ذریعے وہ وقت جلد لائے جب اسلام کی سچائی کے ذریعے مجرموں اور غداروں کے شر و باطل کا خاتمہ ہو جائیگا

 

لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ

''تاکہ اللہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا دکھادے گو مجرموں کو یہ ناگوار ہی ہو ‘‘ ( الانفال: 8)۔

Read more...

حزب التحریر نے حقیقی تبدیلی کا جامع منصوبہ پیش کر دیا لاہور اور اسلام آباد میں "خلافت کے نظام" کے عنوان سے نمائش کا اہتمام

حزب التحریر نے حقیقی تبدیلی کا جامع منصوبہ پیش کر دیا۔ اس منصوبے کو لاہور اور اسلام آباد میں "خلافت کے نظام" کے عنوان کے تحت ہونے والی نمائشوں میں پیش کیا گیا۔ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا استعماری کفار کے ایجنٹ حکمرانوں اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کرنے کی شدید خواہش کا اظہار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے کر رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی سنگین خامیاں اس قدر واضح ہو چکی ہیں کہ مغربی ممالک میں بھی عوام Occupy Movements کے نام پر تبدیلی کامطالبہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے مجبور ہو کر تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور امت سے خلافتِ راشدہ جیسا نظام نافذ کرنے کا جھوٹا وعدہ کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اسلام کے نظام یعنی خلافت کے حوالے سے عوام اور دانشور طبقے میں آگاہی بہت محدود ہے جس کی وجہ سے آج بھی حقیقی تبدیلی کو حقیقی جمہوریت اور آمریت سے مکمل نجات کے تصور کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں صورتوں میں صرف سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے جس کے باعث عوام کئی دہائیوں سے حقیقی تبدیلی کا سورج نہیں دیکھ سکے۔ موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حزب التحریر ولایہ پاکستان نے لاہور، راولپنڈی اسلام آباد اور پشاور میں عوام اور پاکستان کے دانشور طبقے کے سامنے حقیقی تبدیلی کا ایک جامع منصوبہ ایک نمائش کی صورت میں پیش کیا۔ اس نمائش میں خلافت کے مختلف نظام جیسے اسلام کا معاشی نظام، اسلام کا حکومتی نظام، اسلام کی خارجہ پالیسی، اسلام کا تعلیمی نظام، اسلام کا عدالتی نظام، اسلام کا معاشرتی نظام وغیرہ تفصیل کے ساتھ پیش کیاگیا۔ اسکے علاوہ دوسرے حکومتی اور سیاسی امور پر کتب اور دنیا بھر میں حزب التحریر کی سیاسی سرگرمیوں اوراس کے ہدف، خلافت کے متعلق مختلف عالمی شخصیات اور اداروں کے بیانات اور رپوٹز بھی پیش کی گئیں۔ اس نمائش کے ذریعے امت اور اس کے دانشور طبقے کو اس بات کا موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اسلام کے نظام یعنی خلافت کو سمجھ سکیں تاکہ ماضی کی طرح استعماری طاقتیں اور ان کے ایجنٹ امت کو دوبارہ کسی خوش نما نعرے کے ذریعے دھوکا نہ دے سکیں اور امت کی عظیم قربانیوں کے نتیجے میں اس بار امت کو حقیقی تبدیلی یعنی خلافت نصیب ہو جس کی واپسی کا وعدہ اللہ سبحانہ وتعالی اور نبی ﷺ نے فرمایا ہے اور اس کے نتیجے میں امت کی غلامی اور رسوائی کا خاتمہ بھی ہوگا۔

شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحریرکے نائب ترجمان

Read more...

حزب التحریر پر غیر قانونی پابندی کے خلاف رِٹ چھ سال سے التوا کا شکار! کیا "آزاد عدلیہ" کا مطلب حکومت کو ظلم و جبر کرنے کی "آزادی" فراہم کرنا ہے؟

حزب التحریر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سیاسی جماعت ہے جو چالیس سے زائد ممالک میں خلافت راشدہ قائم کر کے اسلامی طرز زندگی کے ازسرنو آغاز کے لئے کوشاں ہے۔ حزب چونکہ سرمایہ دارانہ کفریہ نظام کو مسلم ممالک سے اکھاڑ کرخلافت راشدہ کا قیام چاہتی ہے اسی لئے استعمار خصوصاً امریکہ اور برطانیہ حزب التحریر پر ہر مسلم ملک میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پابندی لگاتے ہیں۔ پاکستان میں امریکہ کے پٹھو، مشرف نے امریکہ کے حکم پرحزب التحریرپر 2003 میں پابندی لگائی۔ اس کے لئے اس نے کسی قسم کی کوئی توجیح پیش کرنا بھی ضروری نہ سمجھا۔ اسی لئے خود مشرف کی قائم کردہ کراچی کی دہشت گردی کی عدالت نے حزب کے پر امن ممبران کے خلاف جھوٹا کیس خارج کر دیا اور اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ چونکہ حکومت نے حزب التحریر پر پابندی لگانے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی اس لئے یہ پابندی "ناقص" (Defective) ہے۔ اس غیر قانونی اور غیر شرعی پابندی کے حق میں حکومت کے پاس رائی برابر بھی ثبوت نہیں کیونکہ حزب التحریر خلافت کے قیام میں عسکری جدوجہد کو جائز نہیں سمجھتی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت چھ سال سے عدالتی کاروائی کے دوران پس و پیش سے کام لے رہی ہے اور پاکستان کی "آزاد عدالتیں" انہیں ایسا کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہائی کورٹ حکومت سے حزب التحریر کے خلاف ثبوت مانگے اور عدم ثبوت کی بنا پر حزب التحریر پر عائد پابندی ختم کر دے، وہ لمبی لمبی تاریخیں دے کر حکومت کو اپنا ظلم و جبر جاری رکھنے کی اجازت دے رہی ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ چھ سالوں کے دوران محض یہ توجیح پیش کر کے کہ حزب ایک کالعدم جماعت ہے، حکومت سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر چکی ہے۔ ہمیں کسی بھی قسم کا پرامن مظاہرہ یا جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہمارے ممبران کو بغیر کسی وجہ حکومتی ایجنسیاں اغوا کر لیتی ہیں اور پھر شدید تشدد کر کے انہیں کسی ویرانے میں پھینک دیتی ہیں۔ آج بھی حزب التحریرکے رکن اور رحیم یارخان کے معزز ڈاکٹر جناب عبدالقیوم کو ایجنسیاں پچھلے چھ ماہ سے اپنے عقوبت خانوں میں ٹارچر کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ان تمام ظالمانہ کاروائیوں کے ذمہ دار یہ غدار حکمران اور یہ "آزاد عدلیہ" ہے جو ان امریکہ کے ایجنٹوں کو قانونی تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

کل پھر حزب التحریرکی تاریخ ِسماعت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا گزشتہ چھ سالوں کی طرح آج بھی عدلیہ حکومت کا ساتھ دیتی ہے یا اللہ اور رسول ﷺ کا خوف غالب آتا ہے اورحزب التحریر پر عائد پابندی کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ ہم وکلاء برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں موجود مخلص لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔ ہم حکومت کو بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ حزب التحریر گزشتہ ساٹھ سالوں کے دوران پوری دنیا میں جبر و ظلم برداشت کرتی چلی آئی ہے اور پابندیاں اور گرفتاریاں خلافت کے ہدف سے حزب کو دور نہیں کر سکتیں۔ بے شک رسول اللہ کا وعدہ سچ ثابت ہو کر رہیگا اور خلافت آج نہیں تو کل ضرور قائم ہو کر رہے گی۔

نوید بٹ

پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...

موجودہ عدالتی و سیاسی بحران کا مقصد امریکی حکم پر چہرے کی تبدیلی ہے

ایک طرف فوج اور حکومت کے درمیان سیاسی دھینگا مشتی جاری ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ نے ایک بار پھر ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ کیانی اور گیلانی نے اس ظلم پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ عدلیہ، حکومت اور فوج (کیانی اور پاشا) تمام امریکی مفادات کے لئے کام کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اداروں کے درمیان جنگ نہ تو آئین و قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے ہے اور نہ ہی قومی سلامتی کو درپیش کسی خطرے کی وجہ سے ہے بلکہ یہ ادارے امریکی منصوبے کے تحت پاکستان میں چہرے کی تبدیلی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر اعلیٰ عدلیہ کے لئے آئین و قانون کی بالادستی اتنا اہم مسئلہ ہوتا تو تین پاکستانی نوجوانوں کے قاتل اور قومی سلامتی کے مجرم ریمنڈ ڈیوس کو عدلیہ کبھی بھی ملک سے جانے نہ دیتی۔ مشرف کے دور سے آج تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے ہزاروں اور قتل ہونے والے سیکڑوں افراد کے مسئلہ پر عدلیہ مجرمانہ خاموشی اختیارنہ کرتی۔ آج بھی حزب التحریر کے ممبر ڈاکٹر عبدالقیوم فوجی ایجنسیوں کے عقوبت خانے میں پڑے ہیں اور آزاد عدلیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اسی طرح یہ قومی سلامتی کا مسئلہ بھی نہیں کہ کیانی اور پاشا حرکت میں آگئے ہوں کیونکہ وہ تو پہلے ہی اپنی غیرت اور حمیت کا سودا کر چکے ہیں۔ یہ کیانی اور پاشا ہی تھے جو اس وقت بھی خاموش رہے جب مسلسل ڈرون حملے ہو رہے تھے، ملک میں امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ایجنٹ دندناتے پھر رہے تھے، قومی سلامتی کے مجرم ریمنڈڈیوس کو امریکہ کے حوالے کیا جا رہا تھا اور ایبٹ آباد اور سلالہ جیسے شرمناک آپریشن جاری تھے۔ بالکل اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت بھی اپنے دور اقتدار میں امریکی چاکری میں مصروف رہی۔ اس وقت زرداری اور گیلانی کا پارلیمنٹ اور عوام کی بالادستی کا ڈھنڈورا پیٹنا کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے کیونکہ انھوں نے اپنے چار سالہ حکومت کے دوران امریکی خوشنودی کے لیے عوام اور پاکستان کے مفادات کو بے دردی سے قربا ن کیا اور پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا۔ زردارری اور گیلانی اب کس منہ سے امریکہ کے خلاف عوام کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ چنانچہ عدلیہ، کیانی اور زرداری میں سے کوئی بھی پارسا نہیں اور یہ سب پاکستان کی بساط پر امریکی مہرے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو افغان اور پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے پاکستان میں ایسی سیاسی حکومت درکار ہے جو اس مقصد کو باآسانی پورا کرسکے۔ زرداری اور گیلانی کی حکومت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز، ڈرون حملوں پر خاموشی اور امریکی چاپلوسی میں اس قدر غداری کا مظاہرہ کرچکی ہے کہ وہ اب طالبان کی نظر میں ایک ناقابل اعتبار فریق ہے۔ جس طرح ماضی میں جب امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ایک سیاسی حکومت کی ضرورت محسوس ہوئی اور مشرف امریکہ کے لیے اپنی افادیت کھو بیٹھا تو اس وقت بھی ملک میں پہلے ایک عدالتی بحران پیدا کیا گیا جو پھر ایک سیاسی بحران میں بدل گیا اور بالآ خر عدلیہ،فوج ،میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے دباؤ کے نتیجے میں مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اب امریکہ ایک بار پھر فوج اور عدلیہ کے ذریعے چہرے کی تبدیلی میں مصروف ہے اور کیانی اور پاشا امریکہ کا مکمل طور پر ساتھ دے رہے ہیں۔ کیا گیلانی اور زرداری نہیں جانتے کہ جب بھی امریکہ کے لیے ایک ایجنٹ بے کار ہوجاتا ہے تو وہ اسے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیتا ہے۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ یہی وہ وقت ہے کہ جب انہیں پاکستان میں جاری اس امریکی کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اٹھنا ہوگا اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹا کرخلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکو نصرۃ فراہم کرنا ہوگی تاکہ خلافت کے قیام کے ذریعے امت حقیقی تبدیلی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔

شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحریرکے نائب ترجمان

Read more...

فوجی خفیہ ایجنسی کا اسلام آباد میں حزب کے ممبر کا اغوا اور ٹارچر ڈاکٹر عبد القیوم تقریباً چھ ماہ سے حکومتی غنڈوں کے عقوبت خانوں میں!

خلافت کے قیام اور استعماری نظام کے خلاف برسرپیکار امت کی واحد عالمی سیاسی جماعت، حزب التحریر،اپنے درخشاں ماضی کے عین مطابق پاکستان میں بھی قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ حال ہی میں آئی ایس آئی نے حزب التحریر کے رکن اعظم خان کو ایک مسجد کے باہر سے اغوا کیا اور اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کا قصور محض یہ تھا کہ وہ اس استعماری سرمایہ دارانہ نظام کے بر خلاف اسلام کو بحیثیت متبادل نظام پیش کر رہا تھا۔ حزب التحریر اس بزدلانہ فعل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ اعظم خان نے قائدِ اعظم یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور ایک سافٹ وئیر ہاوس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ ان حکومتی غنڈوں نے حزب کے ممبر کو اس قدر ٹارچر کا نشانہ بنایا کہ اس کے بائیں کندھے کے پٹھے ( لگیں منٹس ) زخمی ہو گئے جنہیں ٹھیک ہونے میں کم از کم چھے ہفتے درکار ہیں۔ ٹارچر کرنے کے بعد حکومتی غنڈوں نے اسے حزب چھوڑنے کی بھی ترغیب دی۔ یہ انٹیلی جنس عہدیدار شاید بھول گئے ہیں کہ قریشِ مکہ بھی صحابہ کو اسلامی دعوت کے پھیلاؤ اور اسلام کے نفاذ کی جدوجہد سے روکنے کے لئے اذیتیں دیتے تھے لیکن انہیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آج بھی پاکستان سمیت تمام مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کے اہلکار شدید تشدد کے باوجود نہ ہی حزب کے ممبران کے عزم کو توڑ سکے ہیں اور نہ ہی حزب کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈال سکے ہیں۔ ہم ایجنسی کے ان اہلکاروں اور کیانی اور گیلانی کو بتا دینا چاہے ہیں کہ خلافت ضرور قائم ہو کر رہے گی چاہے انہیں اور ان کے آقاؤں کو کتنا ہی ناگوار ٹھہرے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ امت جاگ رہی ہے اور امت نے اپنے اختیارات واپس لینے شروع کر دئے ہیں لہذا ان کا انجام عنقریب مبارک اور قذافی سے مختلف نہیں ہوگا۔ نیز ان تمام غنڈوں کو بھی معلوم ہونا چاہئے جو اپنے آقاؤں کی خواہشات کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں کہ ان کا حال بھی قذافی کے غنڈوں سے چنداں مختلف نہیں ہوگا اور آخرت میں ان کا حال اس سے کہیں ابتر ہوگا۔

قُلْ ہَلْ نُنَبِّءُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالاً oالَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعاً oأُولَءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاءِہِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْناً o ذَلِکَ جَزَاؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آیَاتِیْ وَرُسُلِیْ ہُزُواًo

''کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں؟ وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہو گئے اور ہم قیامت کے دن ان کیلئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے ۔ یہ ان کی سزا ہے (یعنی) جہنم۔ اس لئے کہ انہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں اور ہمارے پیغمبروں کی ہنسی اڑائی ۔‘‘ (سورۃ: 103-6)


دوسری طرف رحیم یار خان سے اغوا شدہ حزب کے ممبر، ڈاکٹر عبد القیوم کو بھی تقریباً چھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آزاد عدلیہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی حکومتی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔ جبکہ حزب کے رہا ہونے والے دیگر ممبران نے اپنے حلفیہ بیان میں ان ایجنسیوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کی قلعی پہلے ہی کھل چکی ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے پیشی کے لئے لمبی تاریخیں دے کر ان غنڈوں کو ٹارچر کرنے کا کھلا لائسنس دیتی رہی ہیں۔ کل جوڈیشل کمیشن کا اجلاس لاہور میں منعقد کیا گیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس دفعہ بھی عدلیہ اغوا کاروں کا ہی ساتھ دیتی ہے یا ڈاکٹر عبدالقیوم کو رہا کرانے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھاتی ہے۔ حزب التحریر نے اللہ، رسول ﷺاور امت سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ خلافت کے ذریعے اسلام کے نفاذ کی جدوجہد میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں برتے گی چاہے اس کے لئے اسے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔ الحمد للہ حزب کی گزشتہ ساٹھ سال کی جدوجہد اس عہد کی ایک بے نظیر مثال ہے۔

نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان

Read more...

حقیقی تبدیلی صرف خلافت کے ذریعے ہی ممکن ہے

 

تیونس سے لے کر بنگلہ دیش تک، پوری مسلم دنیا میں جب بھی لوگوں کا غم و غصہ انتہا کو پہنچتا ہے، تو استعماری مغرب فقط ''چہرے کی تبدیلی‘‘ اور کچھ قوانین میں ظاہری ردوبدل کے ذریعے موجودہ کرپٹ نظام کوبرقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ یہ واضح طور پر نظر آ رہاہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود غدار، اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے، ''ق لیگ‘‘کی مانند ایک نئی ''کنگز پارٹی‘‘بنانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں تاکہ امت میں اس نظام کے خلاف موجود غم وغصے کوٹھنڈا کیا جائے۔ جبکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو کہ پچھلی چھ دہائیوں سے پاکستان میں لوگوں کی ابتر صورتحال کی اصل وجہ ہے ،اور جسے جمہوری حکمران اور فوجی آمر دونوں مسلسل نافذ کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ جب تک اِس کرپٹ نظام کو اُکھاڑ کراِس کی جگہ خلافت کے نظام کو نافذ نہیں کیا جاتا ، تب تک کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ لہٰذا حزب التحریر اُس ریاستِ خلافت کا ایک مختصر جائزہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتی ہے ، جو نہ صرف اِس دنیا میں آپ کو ظلم سے نجات دلائے گی بلکہ آخرت میں بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کے غیض وغضب سے بچاؤ کا ذریعہ بنے گی۔


موجودہ سرمایہ دارانہ حکومتی نظام اِس اصول کی بنیاد پر قائم ہے کہ انسان ہی اقتدارِاعلیٰ کا مالک ہے اور اُسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے قانون بنائے۔ آمریت اور جمہوریت دونوں میں ایساہی ہے،پس گفتگو اور بحث کو اِن دونوں نظاموں تک محدود کرنے کا ہرگزکوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ آمریت اور جمہوریت دونوں میں پاکستانی قوانین استعماری قوتوںیا پھر سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود اُن کے ایجنٹوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اِس کے برعکس خلافت کے اندر آئین اور تمام تر قوانین صرف اور صرف قرآن اور سنت سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ خلافت میں خلیفہ یاپھر مجلسِ امت میں موجود منتخب مرد اور خواتین قوانین نہیں بنائیں گے، جیسا کہ آج کی جمہوری اسمبلیوں میں ہوتا ہے۔ بلکہ مجلسِ امت میں موجود منتخب نمائندوں کا کام اسلام کی بنیاد پر حکمرانوں کا محاسبہ کرنا اور اُنہیں نصیحت کرنا ہوتا ہے۔ پس خلافت ایک ایسا نظا م ہے جس میں اقتدارِ اعلیٰ کا مالک صرف اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے قطعی طور پربیان کر دیا ہے:

 

(اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ)

''حکم صرف اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ ( یوسف:67)۔


اِسی طرح سرمایہ دارانہ معاشی نظام صرف استعماری طاقتوں اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود اُن کے ایجنٹوں کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے جبکہ کروڑوں لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اور ان پر ظلم ڈھایا جاتا ہے۔ ''آزادیِ ملکیت ‘‘ کے نام پر یہ نظام استعماری قوتوں اور اُن کے ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ عوامی اثاثہ جات کے مالک بن جائیں اور پھر یہی لوگ اِن عوامی سہولیات کو ایسی قیمت پر فروخت کرتے ہیں جو عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے،اور یوں عوام ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ توانائی کا موجودہ بحران اِس کی فقط ایک مثال ہے۔ پاکستان کے توانائی پیدا کرنے والے ( پاور جنریشن ) پلانٹس کے ساتھ ساتھ گیس اور تیل کے شعبوں کی نجکاری کی جاچکی ہے اور اُن کا کنٹرول استعماری قوتوں کی کمپنیوں یا اُن کے ایجنٹوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اِس کے برعکس خلافت میں عوامی اثاثہ جات کی نجکاری نہیں کی جاسکتی، کیونکہ ان اثاثوں کے حقیقی مالک عوام ہوتے ہیں ، جبکہ ریاست لوگوں کی نمائندہ کے طور پر صرف اِن عوامی سہولیات کو لوگوں تک پہنچانے کاانتظام و انصرام کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:

 

((المُسلمون شُرَکَاءُ فِیْ ثَلَاثٍ اَلْمَاء وَالْکِلَاء وَالنَّار))

''مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں، پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)‘‘ (مسند احمد)۔


اِس حدیث کی بنا پر توانائی کے تمام وسائل، جن میں گیس اور تیل کے کنویں، کوئلے کی کانیں اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں، کی کسی صورت نجکاری نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ خلافت اِن عوامی ملکیت کی چیزوں پرنہ تو کوئی ٹیکس لگائے گی اور نہ ہی اِن چیزوں پر کوئی منافع حاصل کرے گی۔ یوں بجلی اور تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی ،جس کے نتیجے میں لوگوں کی اکثریت سکھ کا سانس لے گی اور صنعت اور زراعت کے شعبوں کو ایک نئی زندگی ملے گی۔ مزید برآں، اسلام اِس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ اِن عوامی ملکیت کی چیزوں کو بیرونِ ملک ایکسپورٹ کرکے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کوبیت المال میں رکھا جائے اور پھراِس آمدن کو ریاستِ خلافت کے تما م شہریوں پر رنگ و نسل، زبان اور مذہب کی تفریق کے بغیر خرچ کیا جائے ۔


ریاستِ خلافت کے آمدنی کے ذرائع بھی موجودہ سرمایہ دانہ نظام سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:

 

((لَا ےَدْخُلِ الْجَنَّۃ صاحب مکَس))

''ٹیکس لینے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘ (مسند احمد)۔

 

اِس حدیث کے مطابق کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ لوگوں پر اپنی من مرضی کے ٹیکس عائد کرے۔ چنانچہ خلافت میں بیت المال کی آمدنی کے ذرائع صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہوتے ہیں۔ پس خلافت میں حکمرانوں کو یہ ظالمانہ ''حق ‘‘حاصل نہیں ہوتا کہ وہ جب چاہیں اور جتنا چاہیں لوگوں پر ٹیکس عائد کردیں۔ جبکہ پاکستان میں نافذ موجودہ نظام میں جمہوری حکمران ہوں یا ڈکٹیٹر،دونوں کو اِس بات کا مکمل اختیار حاصل ہوتاہے کہ وہ ایسے ذرائع سے آمدن (ریونیو) اکٹھی کریں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔ اس حد تک کہ پچھلے 60سالوں سے پاکستان کے ایجنٹ حکمرانوں نے ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ کیا یہاں تک کہ آج جی ایس ٹی اور دیگر بلواسطہ ٹیکسوں (indirect tax)کا تناسب کُل آمدنی کے 50فیصد سے تجاوز کر چکا ہے ، جس نے پاکستان کے کروڑوں لوگوں کو ابتری سے دوچار کر رکھا ہے۔ اسلام میں لوگوں کی ذاتی ملکیت کو حرمت و تحفظ حاصل ہے ،پس ریاستِ خلافت ''ٹیکس‘‘ کے نام پر اپنے شہریوں کی ملکیتوں پرڈاکہ ڈال کر ان کا خون نہیں نچوڑ سکتی ۔ یہ صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جسے یہ طے کرنے کا اختیارہے کہ کونسا ٹیکس لیا جاسکتا ہے اوریہ ٹیکس بھی صرف اُنہی لوگوں سے وصول کیے جاتے ہیں جو اُنہیں ادا کر سکتے ہوں۔ اسلام کا اموال اکٹھا کرنے (revenue (collectionکااپنا ایک منفردنظام ہے ، جس میں عوامی اثاثہ جات جیسے گیس اور تیل سے ہونے والے اموال، زرعی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی جیسے عشر اور خراج اور صنعتی پیداوار پر عائد ہونے والی زکوٰۃوغیرہ شامل ہے۔ ان ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈ کولوگوں پر ظلم کئے بغیر اُن کے امور کی دیکھ بھال پر خرچ کیا جائے گا۔


صرف خلافت ہی خارجہ پالیسی میں حقیقی تبدیلی لائے گی ۔ اسلام کے قوانین کے نفاذکا مطلب یہ ہے کہ وہ حربی ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں،جیسے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، انڈیا اور روس وغیرہ ، اسلامی علاقوں میں موجودان کے تمام سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کردیا جائے گا۔ یوں مسلمانوں کے خلاف اُن سازشوں کا خاتمہ ہوسکے گا جو دشمن ریاستوں کے ان سازشی اڈوں سے جنم لیتی ہیں۔ مزید برآں خلافت پانامہ سے لے کر وینزویلا تک اور تھائی لینڈ سے لیکر کوریا تک غیر مسلم ریاستوں کو بھی اِس بات پر اُبھارے گی کہ وہ مغربی استعمار کے ظلم کے خلاف عالمی بغاوت کا حصہ بنیں۔ اور اِس کے ساتھ ساتھ خلافت پوری دنیا کے سامنے اسلام کی سچی ہدایت کو بھی پیش کرے گی ۔


صرف خلافت ہی داخلہ پالیسی میں حقیقی تبدیلی لائے گی۔ موجودہ جمہوری نظام میں دیگر مسلم ریاستوں کو بیرونی ممالک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ہر ملک اپنی الگ کرنسی،سرحدوں،خزانے اور فوج کا مالک ہوتا ہے۔ اِس کے برعکس خلافت کے قیام کے پہلے روز سے ہی خلیفہ تمام مسلم سرزمینوں کو ایک کرنے کا کام شروع کردے گاتاکہ یہ علاقے دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ وسائل رکھنے والی ریاست کی شکل اختیار کر لیں،وہ ریاست کہ جس کی فوج ایک ہوگی، اُس کی سرزمین ایک ہوگی اور اُس میں رہنے والے لوگ نسل اور مسلک سے قطع نظر ایک امت ہونگے اور اُن کا بیت المال اور وسائل بھی ایک ہوں گے۔


خلافت اپنے تمام شہریوں کے جان، مال اور عزت کی حفاظت کرے گی خواہ وہ مسلمان ہوں یا پھر غیر مسلم۔ غیر مسلموں کو اِس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ ذاتی معاملات مثلاً شادی اور مذہبی رسومات میں اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں۔ اِسی طرح عورتوں کو اِس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ مرد اور عورت کے درمیان تعلقات اور لباس سے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنی پسند کا پیشہ اختیارکریں جیسا کہ شعبۂ تعلیم، انجینئرنگ، میڈیکل، سیاست، میڈیا، عدلیہ وغیرہ۔


اسی طرح صرف اسلام کے عدالتی نظام کے ذریعے اسلامی قوانین کے نفاذ سے ہی معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوگا۔ پاکستان میں رائج انگریز کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام سے کبھی بھی انصاف نہیں آسکتا۔ موجودہ نظام میں استعماری غلبے کے خاتمے کی کوشش کرنااورخلافت کے قیام کی پکاربلند کرنا ایک جرم ہے، جس کی سزا ایجنسیوں کی طرف سے اغواء یا پھر جیل کی صعوبتیں ہیں، جبکہ دوسری طرف یہ نظام استعمار کی موجودگی کا تحفظ ایک فرض کی مانند کرتا ہے۔ اس نظام میں جزیہ یا خراج کی عدم ادائیگی کوئی جرم نہیں لیکن سود کی عدم ادائیگی پر ایک شخص کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک آزاد جج بھی اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں نافذ کفریہ قوانین کے مطابق ہی فیصلے دے۔ خلافت کے اندر تمام افراد قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں اور خلیفہ سمیت کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا۔ خلافت میں ایسے قوانین کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی جو حکومتی طبقے کی لوٹ مار اور ظلم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، جیسا کہ اس نظام میں NROکے ذریعے کیا گیاہے ، کیونکہ خلافت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی قانون ساز نہیں ہوتا۔


یہ اسلام کے بابرکت قوانین کی ایک جھلک ہے ،جنہیں خلافت جلد ہی نافذ کرے گی، انشاء اللہ !


اے مسلمانانِ پاکستان!
آپ کے سامنے ایک طرف مغربی استعماری طاقتیں اورپاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود غدار ہیں جواِس بات کی بھرپورکوشش کررہے ہیں کہ ایک نئے جمہوری الیکشن کے ذریعے اِس تعفن زدہ اورگرتے ہوتے ہوئے نظام کو بچایا جائے،جبکہ دوسری طرف آپ کے سامنے حزب التحریرہے جس نے پچھلی چھ دہائیوں سے اِس امت کوتیار کیا ہے یہاں تک کہ یہ امت اب اسلام اور خلافت کی آواز بلند کر رہی ہے، اور اِس حزب نے 190شقوں پر مشتمل ریاستِ خلافت کا آئین بھی تیار کررکھا ہے تاکہ اُسے خلافت کے قیام کے آغاز ہی سے نافذ کردیا جائے ۔ آپ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ موجودہ جمہوری سیٹ اَپ کے ذریعے کبھی بھی اسلام نافذ نہیں ہوسکتاکہ جس کے اندر اسلام کا نفاذ استعماری قوتوں اور اُن کے ایجنٹوں کی خواہشات کے رحم وکرم پرہو۔ پس آپ کے اوپر لازم ہے کہ آپ اِس کفریہ نظام سے منہ موڑ لیں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکی پیش قدمی کا حصہ بن جائیں۔ اوریہ آپ پر ہے کہ آپ اس نظام کے تحت کسی بھی الیکشن کو مسترد کردیں اور پاکستان کی مسلح افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کریں کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکو نُصرۃ فراہم کریں۔


یقیناًخلافت کے قیام کے ذریعے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نازل کردہ سچے دین کا نفاذ نہ صرف پوری امت کے لیے خوشحالی لے کر آئے گا بلکہ دنیا بھر میں انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کے ظلم کی چکی میں پسنے والے لوگوں کے لیے اُمید کی مضبوط کرن ثابت ہو گا۔ایک ایسے وقت میں جب پہلے ہی لندن اور نیویارک میں ہزاروں لوگ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں، یہی وہ وقت ہے کہ ظالمانہ دورِ حکومت کا خاتمہ کردیا جائے اور خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:


((ثم تکون ملکاً جبریۃً فتکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا،ثم تکون خلافۃً علی منھاج النبوۃ))۔
''پھرظالمانہ حکمرانی کا دور ہوگا ،تو وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر وہ اسے اُٹھا لے گا جب وہ چاہے گا،پھر نبوت کے نقشِ قدم پردوبارہ خلافت قائم ہوگی ‘‘(مسند احمد)

Read more...

حزب التحریر کو دہشت گردی سے منسلک کرنے کی حکومتی سازش ایک بار پھر ناکام! بم دھماکہ کیس میں عدالت نے حزب کے ممبران کو باعزت بری کر دیا

چند ماہ قبل پشاور پولیس نے حزب التحریر کو دہشت گردی سے منسلک کرنے اور اس کے ممبران کو حراساں کرنے کی ایک بودی اور ناکام کوشش کی۔ پولیس نے حزب کے چار ممبران پر جماعت اسلامی کے سابقہ ایم این اے کے گھر کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں منسلک کر دیا۔ ان نوجوانوں کو 17اپریل کو امریکہ مخالف اور خلافت کے حق میں ہونے والی ریلی سے گرفتار کیا گیا اور جب تشدد کے بعد بھی پولیس ان کے عزم کو نہ توڑ سکی تو ان پر بم دھماکے کا کیس ڈال دیا گیا۔ متعدد پیشیوں کے باوجود حکومت عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہ کر سکی جس پر جج نے بلآخر ان نڈر نوجوانوں کو باعزت بری کر دیا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب حزب کے ممبران کو حراساں کرنے اور حزب کو دہشت گردی سے منسلک کرنے کے لئے جھوٹے مقدمے بنائے گئے ہوں۔ یہ کفریہ جمہوری نظام کا طرۂ امتیاز ہے جہاں NRO کے ذریعے مجرموں کو حکمران بنایا جاتا ہے جبکہ اسلام کے دعیوں کو جھوٹے مقدموں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ بے شک عوا م جانتے ہیں کہ حزب التحریر ایک غیر عسکری اور نظریاتی سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کے لئے منہج نبوی پر کاربند ہے۔ چنانچہ حزب کے خلاف اس قسم کے جھوٹے پراپیگینڈے سے عوام ہرگز دھوکے میں آنے والے نہیں۔ یہ غدار حکمران اسلام کو روکنے اور امریکہ کو خوش کرنے میں تمام حدود پھلانگ چکے ہیں۔ حال ہی میں لاہور میں حزب کے ایک ممبر کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ کی مدد سے حکومتی غنڈے ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ان غدار حکمرانوں کو بم دھماکے کرتے ''ریمنڈ ڈیوس‘‘ نظر نہیں آتے لیکن اسلام کی دعوت دینے والے مخلص نوجوان ان کی انکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ گیلانی اور کیانی نے پاکستان کی سیکورٹی اداروں کو امریکہ کے شکاری کتے بنا کر رکھ دیا ہے جن کا کام محض امریکہ مخالف اور اسلام پسند مخلص مسلمانوں کو گرفتار کرنا اور انہیں ظلم و جبر کا نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ ہم سیکورٹی اہلکاروں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ ان غداروں کی خاطر اپنی دنیا اور آخرت تباہ نہ کریں اور کفار کی مدد کرنے کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کی مدد اور حفاظت کریں۔ حال ہی میں ہونے والا سلالہ حملہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امریکہ اپنے مفاد میں آپ کو بھی قتل کرنے سے ہر گز دریغ نہیں کرے گا ۔

ہم زرداری، کیانی اور گیلانی کو بھی متنبہہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے دن گنے جاچکے ہیں اور خلافت کا قیام نوشتہ دیوار بن چکا ہے اور وہ دن دور نہیں جب غداری کے جرم میں انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائیگا۔


نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان

Read more...

مہمند ایجنسی پر نیٹو کا حملہ! سانپ کو دودھ پلانے کا نتیجہ ہے درجنوں فوجیوں کے قتل کے ذمہ دار زرداری اور کیانی ہیں

امریکہ نے مہمند ایجنسی پر حملہ کر کے ایک بار پھر ثابت کیاہے کہ وہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس حملہ کے اصل ذمہ دار سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار ہیں جنہوں نے امریکہ کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دنیا کی ساتویں بڑی فوج پر مسلسل حملے کرے۔ اگر ان ایجنٹ حکمرانوں نے انگور اڈے پر حملے اور ایبٹ آباد آپریشن پر غیرت مندانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہوتا تو آج دوبارہ امریکہ کو ایسی جرأت نہ ہوتی۔ یہ بات ثابت ہوجانے کے باوجود کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ دراصل اسلام اور پاکستان کو کمزور کرنے کی جنگ ہے یہ غدار مسلسل امریکہ کاساتھ دئے جا رہے ہیں۔ یہ غدار ہی ہیں جو سپلائی لائن جاری رکھ کر، بلیک واٹراور سی آئی اے کے ایجنٹوں کو ویزے فراہم کر کے، امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں توسیع کی اجازت دے کراور امریکی فوجیوں کو جی ایچ کیو تک رسائی فراہم کر کے پاکستان کے خلاف امریکی جنگ میں دشمن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سانپ کو دودھ پلا کر اس سے وفا کی امید صرف زرداری اور کیانی جیسے غدار ہی کر سکتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کل ہی افغانستان میں اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل ایلن نے جنرل کیانی سے ملاقات کی تھی جس کے بعد آج صبح سویرے مہمند کی فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا گیا۔ یہی کچھ ایبٹ آباد آپریشن سے دو دن قبل دیکھنے میں آیا تھا جب کیانی سے جنرل پیٹریاس نے ملاقات کی تھی۔ یہ تمام ثبوت اس بات کی دلیل ہیں کہ امریکہ حملہ سے قبل فوج میں اپنے ایجنٹوں کو اعتماد میں لیتا ہے تاکہ ''ڈیمیج کنٹرول‘‘ میں آسانی ہو سکے۔ بیس فوجیوں کی شہادت پر ان غدار حکمرانوں کے احتجاج اور چند دنوں کے لیے نیٹو سپلائی لائن کو بند کردینا مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔ حزب التحریر مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر امریکی سفارت خانے اورقونصل خانوں کو بند کیا جائے، تمام امریکی فوجیوں بشمول سی آئی اے اور بلیک واٹر کے کارندوں کو گرفتار کیا جائے اور نیٹو سپلائی لائن کو مستقل اور مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ یقیناًحزب التحریر زرداری، گیلانی، کیانی اور پاشا سے ایسے غیرت مندانہ عمل کی توقع نہیں رکھتی۔

اس لیے حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکو مددو نصرۃ فراہم کریں تاکہ خلافت ان تجاویز کو عملی جامہ پہنا کر امریکہ کو اس خطے سے پاگل کتے کی طرح بھاگنے پر مجبور کر دے۔ ہم افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ زرداری اور کیانی کی صورت میں موجود غدار قیادت کو ہٹانے اورخلافت کے قیام میں تاخیر پاکستان اور افواج پاکستان کو دن بہ دن کمزور کریگی اور امریکی منصوبے کو بتدریج تکمیل کی پہنچائے گی۔

شہزاد شیخ
پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان

Read more...

اسلام آباد ہائی کورٹ حکومتی ایجنسیوں کو اغوا اور ٹارچر جاری رکھنے کے لئے قانونی تحفظ فراہم کر رہا ہے عدالت نے حکومتی ایجنسیوں کے جھوٹے بیان اور اغوا کے خلاف کاروائی کرنے سے انکار کر دیا

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمن نے ایجنسیوں سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے حزب التحریر کے دو اراکین کی رِٹ بغیر کسی کاروائی کے نمٹا دی۔ واضح رہے کہ ایجنسیوں کی حراست سے رہائی پانے والے حزب کے ممبر نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے حلفیہ بیان میں اغوا کی ذمہ داری آئی ایس آئی اور ایم آئی پر ڈالی تھی۔ لیکن چیف جسٹس نے ان کے خلاف کاروائی کا اعلان کرنے کے بجائے رِٹ خارج کر دی۔ حزب کے وکیل نے عدالت کی توجہ اس امر پر بھی مبذول کروائی کہ یہ ایجنسیاں اپنے تحریری بیان میں اس حقیقت کا انکار کرچکی ہیں کہ یہ ممبران ان کی تحویل میں تھے، جبکہ شواہد آنے کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ ایجنسیوں کا یہ بیان سراسر غلط بیانی اور دھوکے پر مبنی تھا۔ لہذا ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے جس پر چیف جسٹس نے یہ کہہ کر ان کی بات نظر انداز کر دی کہ اس بات کو چھوڑیں اب گمشدہ افراد واپس آ گئے ہیں۔ جج کا یہ بیان نہ صرف قانونی لحاظ سے شرمناک ہے بلکہ یہ حکومتی غنڈہ گردی جاری رکھنے کے لئے ایجنسیوں کو کھلا لائسنس مہیا کرنا ہے۔ کیا ''فاضل‘‘ جج کو یہ یاد نہیں رہا کہ آج بھی حزب کے بزرگ رکن جناب ڈاکٹر عبدالقیوم ایجنسیوں کی عقوبت خانوں میں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ایسے میں ان ایجنسیوں کو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ جج نے ان ایجنسیوں پر دباؤ نہیں ڈالا کہ ڈاکٹر صاحب کو فی الفور رہا کیا جائے؟ کیا اغوا کار کا یہی احسان ہوتا ہے کہ وہ تین ماہ شدید ٹارچر کے بعد مغوی افراد کو چھوڑ دے جبکہ عدلیہ اس ظلم پر ان سے کوئی بازپرس تک نہ کرے؟ کیا عدلیہ کا کام محض یہی ہے کہ وہ پیشی کی لمبی تاریخیں دے کر ان حکومتی غنڈوں کو ٹارچر کرنے میں مدد فراہم کرے اور جب ان کے خلاف شواہد آجائیں تو انہیں بغیر کاروائی کے چھوڑ دیا جائے؟! بے شک استعمار اور ایجنٹ حکمرانوں کی سرپرستی میں ایجنسیوں، پولیس اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ پاکستان میں ظلم و جبر کا بدترین منبع ہے۔ بے شک آج کفریہ نظام کا ہر ادارہ کفر کے نفاذ، اسلام دشمنی اور مسلمانوں پر ظلم کرنے میں برابر کا شریک ہے۔ عدلیہ کی ''آزادی‘‘ کے مہم کے دوران بھی حزب التحریر نے امت کو متنبہ کیا تھا کہ انگریز کے چھوڑے کفریہ نظام کو نافذ کرنے والا ''آزاد‘‘ جج کبھی بھی انصاف فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جس قانون کے تحت فیصلہ کرتا ہے وہ قانون بذات خود ظلم پر مبنی ہوتاہے۔ آج بھی یہ عدلیہ اسلام کے نفاذ اور کفر کے نظام کی تحفظ میں استعمار کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔

حزب التحریر وکلاء برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے موجود باضمیر افراد سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس 'قانونی ظلم‘ کے خلاف آواز بلند کریں اور ان ایجنسیوں کو لگام دینے اور ڈاکٹر عبد القیوم کی رہائی کے لئے حزب التحریر کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔ وہ دن دور نہیں جب خلافت کے قیام کے ذریعے اس (institutional)انسٹی ٹیوشنل ظلم کا خاتمہ کیا جائیگا اور اسلام کے داعیوں پر ظلم کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائیگا۔


نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک