سوال و جواب
- Published in دیگر
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
سوال: اسامہ بن لادن کے مجرمانہ قتل کے متعلق امریکہ اور پاکستان کے موقف میں تضاد ہے،کچھ بیانات کے مطابق یہ آپریشن پاکستانی انتظامیہ کی مرضی اور تعاون سے کیا گیا جبکہ کچھ بیانات اس بات کی مکمل یا جزوی تردید کررہے ہیں۔ براہ مہربانی اس معاملہ کی وضاحت کریں ۔ اگر یہ آپریشن پاکستان کے تعاون سے کیا گیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپریشن کے وقت کا تعین پاکستانی انتظامیہ کی مرضی سے کیا گیا؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب: اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ یہ آپریشن پاکستانی انتظامیہ کی آگاہی اور تعاون کے ذریعے کیا گیا ۔ یہ تعاون انٹیلی جنس کے تبادلے اور امریکہ کو ا س آپریشن کے اجازت دے کر کیا گیا۔ ان میں سے چند شواہد درج ذیل ہیں:
۱۔ 25اپریل2011کو چکلالہ کے ہوائی اڈے پر ایساف کمانڈر جنرل پیٹریاس اور جنرل کیانی کے درمیان ہونے والی انتہائی اہم اور غیر معمولی ملاقات ۔اسی رات جنرل پیٹریاس نے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے وائٹ ہاوس میں ہونے والی ایک میٹنگ میں شرکت کی جس کی صدارت بارک اوبامہ نے کی تھی۔ اس کے اگلے ہی دن پاکستان کی انتہائی اعلی سطحی فوجی رابطہ کمیٹی،جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا ششماہی اجلاس منعقد ہوا جس میں دوسروں لوگوں کے ساتھ آئی۔ایس۔آئی چیف جنرل شجاع پاشا نے بھی شرکت کی جبکہ وہاس کمیٹی کے مستقل رکن نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ میٹنگ اچانک بھی بلائی گئی تھی۔ اوبامہ نے اس میٹنگ کے متعلق اشارتاً ذکر بھی کیا جب اس نے اسامہ کے موت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ''اور آخر کار،پچھلے ہفتے،میں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ہمارے پاس آپریشن کرنے کے لیے کافی انٹیلی جنس موجود ہے اور آپریشن کی اجازت دی تاکہ اسامہ بن لادن کو گرفتار کیا جائے اور اس کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘‘ ( روزنامہ ڈان 3مئی 2011)۔
۲۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہ اسامہ بن لادن ،بلال ٹاون میں رہ رہا تھا جو کہ آرمی کنٹونمنٹ کا علاقہ ہے اور پاکستام ملٹری اکیڈمی کے انتہائی قریب واقع ہے اور فوج کی چیک پوسٹوں میں گھرا ہوا ہے۔
۳۔ زرداری نے آگرچہ آپریشن میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی تردید کی لیکن اس بات کا اقرار کیا کہ یہ قتل دو طرفہ تعاون کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ زرداری نے واشنگٹن پوسٹ میں کہا کہ ''اگرچہ اتوار کے واقعات کوئی مشترکہ آپریشن نہیں تھا لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک دہائی کے تعاون اور شراکت داری کا نتیجہ اسامہ بن لادن کے خاتمہ پر منتج ہوا جو کہ تہذیب یافتہ دنیا کے لیے مستقل خطرہ تھا‘‘۔
۴۔ اوبامہ کابیان جس میں اس نے اس قتل میں پاکستان کی معاونت کو چھپانے کی کوشش کی لیکن اس بات کا اقرار کیا کہ پاکستان کی معاونت کے نتیجے میں اوسامہ کے ٹھکانے کا پتہ چل سکا۔اوباما نے کہا کہ ''اس بات کو نوٹ کرنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سرگرمیوں میں ہماری پاکستان کے ساتھ شراکت نے ہمیں اسامہ بن لادن اور اس مکان تک پہنچنے میں مدد کی جس میں وہ چھپا ہوا تھا‘‘۔
۵۔ القاعدہ کے اکثر اہم اراکین جیسے ابو فراج ال لببی،خالد شیخ محمد،احمد خلفان اسی طرح کے علاقوں جیسے فوجی علاقوں کے قریب موجود پوش علاقوں سے گرفتار کیے گئے تھے۔ اور القاعدہ کے یہ انتہائی اہم اراکین پھر امریکہ کے حوالے کیے گئے تھے۔
یقیناً پاکستانی انتظامیہ اس قتل میں پوری طرح سے ملوث ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ امر یکہ نے اس قتل کے لیے جس وقت کا تعین کیا اس سے پاکستان کی انتظامیہ آگاہ بھی ہو۔ پاکستانی انتظامیہ کا کردار ایک جاسوس کا ہے جو کہ ایک اپنے آقا کو کسی کو مارنے کے لیے ضروری معلومات مہیا کرتا ہے تاکہ مارنے کے لیے صحیح وقت کا تعین ہوسکے۔ جاسوس کو مقررہ وقت کے متعلق بتایا جاتا ہے یا نہیں یہ جاسوس کے لیے غیر ضروری ہے کیونکہ وہ پہلے ہی انتہائی گھٹیا قیمت پر بک چکا ہوتا ہے۔
آخر میں ہم عمومی طور پرپاکستان کے عوام اورخصوصی طور پر پاکستان کی فوج کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروائیں گے کہ اس انتظامیہ کا چلتے رہنا تمام بیماریوں کی وجہ اور پاکستان کے لیے ناسور ہے۔ یہ معاملہ صرف بن لادن(اللہ اس پر رحم فرمائیں اور جنت میں داخل فرمائیں) کے قتل پر نہیں رکے گا بلکہ یہ انتظامیہ مستقل مسلمانوں کا خون بہاتی رہے گی۔ شریعت کا یہ حکم ہے کہ اس انتظامیہ کو اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کی جگہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی حرمتوں کو محفوظ بنایا جاسکے اور کفار کو ذلیل کیا جائے۔
((وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ))
اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں(یوسف۔21)
1جمادی الثانی 1432ھ
4مئی2011