الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلمان عورتوں اور بچوں کی نسل کشی کے حوالے سےایڈیٹرز کے نام خط

جنابِ ایڈیٹر،
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
میں اس خط کا آغاز اﷲ تبارک و تعالٰی کے نام سے کرتی ہوں جس کے قبضہ میں ہم سب کی جان ہے اور جس کے پاس ہم سب کو لوٹنا ہے تاکہ ہم سے اس کے احکام کی بجاآوری کے متعلق حساب لیا جائے۔ یقینا اﷲ سبحانہ و تعالٰی کا آپ پر خاص کرم ہے کہ اس نے اس مقام پر پہنچنے میں آپ کی مدد کی جو آپ کو میڈیا کمیونٹی کا رکن ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے اور یقینا وہ آپ سے پوچھے گا کہ آپ نے مسلم امت اور انسانیت کو اس عطا کردہ نعمت سے کیا فائدہ پہنچایا۔ وہ درست بات جس کو آپ لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ سچ جو کہ آپ لوگوں کی سماعت تک پہنچا سکتے ہیں، ان میں وہ طاقت ہے جو کہ عوام کو ہلا کر ناانصافی اور ظلم کے خلاف کھڑا کر سکتے ہیں اور وہ حق کے لیے جد و جہد کر سکتے ہیں جو کہ آپ کے لیے آخرت میں عظیم اجر کا باعث ہے۔
اس لیے میری تحریر کا مقصد آپ کو ان خوفناک حالات سے آگاہ کرنا ہے جو آپ کے مسلمان بھائی اور بہنوں کو وسطی افریقی جمہوریہ میں درپیش ہیں، یہ ایک با ضابطہ مہم ہے جس کے تحت وہ خون کے پیاسے عیسائی ملیشیا کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران ہزاروں کو انتہائی وحشیانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتارا گیا، ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلایا گیا، اور کچھ واقعات میں ان کے قاتلوں نے ان کا کچا گوشت کھایا۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ایمرجنسی ڈائریکٹر پیٹر بوکارٹ کے مطابق محلے کے محلے اپنی مسلمان آبادی سے مکمل طور پر خالی ہو گئے۔ ان کے گھر انتہائی منظم انداز میں مسمار کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کی اس ملک میں موجودگی کا ہر ثبوت مٹا دیا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے نسلی صفائی کا نام دیا ہے اور تاریخی پیمانے پر مسلمانوں کی ہجرت سے متعلق تنبیہ کی ہے۔ جب کہ اقوامِ متحدہ نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ 130,000 سے 145,000 مسلمان جو کہ عام طور پر دارالحکومت بانگی میں رہائش پذیر تھے ان میں سے صرف 900 باقی ہیں۔ عیسائی ملیشیا نے آزادانہ اعتراف کیا ہے کہ وہ اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک وہ ملک کو مسلمانوں سے صاف نہ کر دیں۔
اور شام، میانمار اور امت کے خلاف بھڑکائے گئے دیگر قتل عام کی طرح،یہ عورتیں اور بچے ہی ہیں جو اس خونریزی کا پہلا ہدف بنتے ہیں۔ انہیں بدترین، ناقابل بیان ایسے وحشی افعال کا نشانہ بنایا جاتا ہے جن کا ذکر بھی تکلیف دہ ہے لیکن دنیا کے سامنے لایا جانا بھی ضروری ہے۔ انہیں اذیت دی گئی ، گولی ماری گئی، کاٹ کر مارا گیا، ان کی لاشوں کو مسخ کر کے جلایا گیا، بچوں کے سر قلم کیے گئے، شیر خوار بچوں کو ذبح کیا گیا اور ہماری بہنیں بد ترین عصمت دری کا شکار ہوئیں، اور جرائم کا یہ تسلسل روانڈا میں 1990 کی نسل کشی کی بازگشت ہے۔ بچوں نے ایسے خوفناک مناظر دیکھے جو کہ کسی بچے کو کبھی نہیں دیکھنے چاہییں، جن کو زمین پر جہنم کہا جا سکتا ہے۔ علاقے میں یونیسف کے حکام اس ظلم و بربریت کو دیکھ کر وحشت زدہ ہیں جس سے بچوں کو مارا اور مسخ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بیان دیا کہ بچوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر انتقامی ہدف بنایا جا رہا ہے۔
دسمبر 2013 میں ایک حاملہ خاتون اور دس مسلمان بچوں کو عیسائیوں کے ایک گروہ نے مار دیا۔ انہوں نے عورت کا پیٹ چاک کر دیا اور بچوں کو بڑے چھروں سے کاٹ دیا گیا۔ اس جنوری میں ایک اور واقعہ میں مسلم خاتون فاطمہ یمسا جو کہ تشدد سے بچ کر ٹرک میں فرار ہو رہی تھی، اس کو چوکی پر گاڑی سے اتار کر عیسائی ملیشیا نے اس کے پانچ اور تین سال کے بیٹوں کے ساتھ مسجد کی سیڑھیوں پر چیر پھاڑ دیا۔ پچھلے ماہ سات سالہ ابراہیم احمد امدادی ایجنسیوں کو ملا جو کہ کئی روز سے کھانے اور پناہ کے بغیر 100 کلو میٹر کا سفر طے کر چکا تھا۔ اس کے ماں اور باپ کو اس کے سامنے مار دیا گیا اور اس کے پانچ بہن بھائیوں کا کچھ پتا نہیں۔ زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ دس سال سے کم عمر تقریبا چھ بچے کارنوٹ کے علاقے میں اس طرح کی کہانی سنا رہے ہیں۔
یہ مظالم ملک بھر کے گاؤں اور قصبوں میں دہرائے جا رہے ہیں ، اور یہ خونریزی فرانس کی امن فوج کی موجودگی کے باوجود جاری ہے۔ یہ قوتیں نہ صرف قتل و غارت گری کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں، بلکہ واضح طور پر ان کا مکمل جھکاؤ مسلح عیسائی دشمن ملیشیا کی طرف ہے اور ان کے ساتھ اس خونریزی میں ملوث ہیں، یقینا یہ حیران کن ہے۔ اس نو آبادیاتی طاقت کی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تاریخی نفرت مشہور ہے۔ مسلمان جانوں کو بچانے کیلئے نہ تو بےکار اقوامِ متحدہ پر کوئی انحصار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی خود غرض مغربی لا دین ریاستوں پر، بلکہ یہ تو اس خونریزی کی خاموش تماشائی ہیں۔ مسلمان خون کے بہنے سے متعلق ان کی برداشت جانی پہچانی ہے، جیسا کہ افغانستان اور ایراق میں ان کی جنگوں سے لیکر 1995 میں سبرینیکا میں 8000 مسلمانوں کا قتل عام، شام میں لاکھوں، غاصب اسد کے ہاتھوں اور میانمار میں ان گنت لوگ بدھ مت کے ہاتھوں مارے گئے۔
مسلمان حکمرانوں نے بھی غیر حیران کن طور پر اور روایتی تاریخی انداز میں مسلم امت کے خون کی حفاظت کی ہر مہم کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری سے اپنے آپ کو دست بردار کر لیا ہے۔ انہوں نے وسطی افریقہ کے مسلمانوں کی صعوبتوں سے پیٹھ پھیر لی ہے اور اسلام کی عورتوں اور بچوں کی چیخوں پر بھی کان نہیں دھرتے۔ان مسلم قیادتوں سے اسی بزدلانہ رویےکی توقع ہے اور ہم بطور مسلمان ان حکومتوں سے کوئی امید نہیں رکھتے کہ وہ ہمارے خون اور عزت کی حفاظت کے لیے ایک انگلی بھی اٹھائیں۔
البتہ میڈیا میں موجود ہمارے مسلمان بھائی اور بہنیں، وہ جو خالق ِ کائنات کی جانب سے آوازِ حق اٹھانے کے لیے متعین کیے گئے ہیں، ان کی انتہائی کم توجہ اور وسطی افریقی جمہوریہ کو دی گئی کوریج ہمارے لیے مایوس کن ہے ۔ اس خاموشی کی دیوار نے خطہ میں مسلمانوں کے خلاف خوفناک جرائم کے ہونے اور بند دروازوں کے پیچھے چھپے اور بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی نظروں سے دور رہنے میں مدد کی۔ نتیجتا، بہت سے مسلمان اور دنیا، ابھی بھی اس تشدد کی اصل نوعیت سے بے خبر ہیں جو ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کے خلاف ہو رہا ہے۔
کسی ردِعمل کے حصول کے لیے مسلمانوں پر مظالم کی کیا حد ہونی چاہیے؟ خاموشی یقینا اس ظلم کے ساتھ رضامندی ہے۔ آپ کے بہن بھائیوں کی بے کس پکار کو کس طرح نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ یقینا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے خلاف ہمارے ردِعمل کے متعلق ہم اﷲ سبحانہ و تعالٰی کے سامنے جوابدہ ہونگے۔ آپ کے لیے میری پکار کی وجہ وہ حیثیت ہے جس کو اﷲ تعالٰی نے امت کی ایک عظیم ذمہ داری سونپی ہے۔ قابلیت، مرتبہ اور اثر انگیزی کے ذریعہ اس نے آپ کو ایک صحافی کا درجہ عطا کیا، کہ آپ صحافتی مرکزِ نگاہ کو اس معاملہ کی طرف موڑیں اور بین الاقوامی سطح پر ان خوفناک جرائم کو بے نقاب کریں۔ کیا آپ کا کردار دنیا کو سچ کی طرف لا کر کسی بھی جگہ ہونے والے ظلم اور نا انصافی کو ظاہر کرنا نہیں؟؟ اس لیے اﷲ کی طرف سے اپنے فرض کو پورا کریں۔ اپنی امت کی طرف اپنے بھائیوں اور بہنوں کے برے حالات کی طرف توجہ دلوائیں۔
اس خط کا اہتمام عالمی مہم کے حصہ کے طور پر حز ب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے شعبہ خواتین کی جانب سے وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلمان عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم اور نسل کشی سے متعلق جرائم کو بے نقاب کرنے کے لئے مسلمان میڈیا سے مطالبہ میں کیا گیا۔ یہ حزب التحریر کی طرف سے ایک بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے جس کا عنوان ہے " وسطی افریقہ کے مسلمانوں کو کون فتح یاب کرے گا!" تاکہ علاقے کے مسلمانوں کی بد حالی پر توجہ دلائی جائے اور اس پیغام کو مؤثر بنایا جائے کہ یہ صرف خلافت کے دوبارہ قیام سے ہی ممکن ہے۔ نظام اسلام کے ذریعے ہی وسطی افریقہ ، شام، میانمار، بھارت، کشمیر، چین اور تمام دنیا میں مسلمانوں کی خونریزی اور منظم توہین کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ ریاستِ خلافت ہی ہے جو تمام دنیا کے ستائے ہوئے مسلمانوں کو ایک محفوظ پناہ فراہم کرے گی۔ اس لیے میں آپ کو بھی پکارتی ہوں کہ آپ اﷲ کے اس نظام کے دوبارہ قیام کا ساتھ دیں جو ان گنت سوانح، دکھی دلوں اور امت کی اِن ان کہی اداس کہانیوں کا اختتام ہو گا اور مسلمانوں کے لیے ایک خوش حال ، محفوظ اور انصاف سے بھرپور مستقبل کی تعمیر ہو گا۔
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى))
" اہل ایمان کی آپس میں محبت ، رحم اور ایک دوسرے سے ہمدردی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک جسم ہو۔ جب کوئی ایک حصہ تکلیف کا شکار ہو تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہو جاتا ہے"۔
والسلام وعلیکم و رحمۃ اﷲ

Read more...

سوال کا جواب: اوباما کا سعودی عرب کا دورہ اور شام پر اس کے اثرات

سوال: 8/3/2014 کو الحیات ویب سائٹ نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے ایک خبر شائع کی کہ: "فری سیرین آرمی کی سپریم ملٹری کونسل نے میجر جنرل سلیم ادریس کی جگہ بریگیڈئر عبد الالٰہ البشیر النعیمی کو چیف آف سٹاف مقرر کر لیا ....." یہ "سپریم ملٹری کونسل کے ڈھانچے کو مکمل کرنے" کے ضمن میں کیا گیا.....اس تکمیل میں سٹاف کے دوسرے ممبران کی تقرری بھی شامل ہے.....ان واقعات کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی منظر عام پر آگئی کہ ترکی نے قومی کونسل دفاتر بند کر دیا اور ان کے قاہرہ منتقل ہو نے کا امکان ہے۔ سوال یہ ہے کہ: کیا ان تبدیلیوں اور منظر عام پر آنے والی ان خبروں کا اس ماہ کے آخر میں اوباما کے خطے خاص طور پر سعودی عرب کے دورے کے ساتھ کوئی تعلق ہے کیونکہ سعودی عرب کا شام میں لڑائی کے محاذوں خصوصا جنوبی محاذ میں کردار ہے؟ان دفاتر کو بند کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب: یقیناً اوباما کی جانب سے اس مہینے کے آخرمیں سعودیہ کے دورہ اور میجر جنرل سلیم ادریس کو برطرف کر کے بریگیڈئر عبد الالٰہ البشیر کو سپریم ملٹری کونسل کے چیف آف سٹاف مقرر کر کے اس کے ڈھانچے کو مکمل کرنا دونوں شام کے لیے امریکی پالیسی کے دوایسے راستے ہیں جو آخر کار یکجا ہو جاتے ہیں لیکن تفصیل میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہر ایک کے مخصوص اغراض ومقاصد ہیں اس کی وضاحت ہم اس طرح کریں گے:
اوّلاً: اوباما کی جانب سے اس ماہ کے آخر میں خطے بالخصوص سعودی عرب کے دورے کے حوالے سے:
1۔ امریکی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ آئی آئی پی ڈیجیٹل نے 21/1/2014 کو ایک بیان شائع کیا جس کو وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری کے آفس نے جاری کیا تھا،جس میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما 24، 25 مارچ کو ایٹمی مواد کی سکیورٹی کی ضمانت کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت اور ایٹمی دہشت گردی کو روکنے کے لیے مستقبل کے اقدامات پر بحث کر نے کے لیے ایٹمی امن سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ہالینڈ میں ہوں گے.....جس کے فوراً بعد 26 مارچ کو امریکہ اور یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز جائیں گے.....27 مارچ کو پوپ فرانسیس سے ملاقات کے لیے ویٹیکن کا دورہ کریں گے.....اٹلی کے صدر اور وزیر اعظم سے بھی ملاقات کریں گے.....3/2/2014 کو یعنی دس دن کے بعد وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ: "دونوں ملکوں کے درمیان انتظامی مشاورت کے حصے کے طور پر صدر اوباما مارچ میں سعودی عرب کا دورہ کریں گے جس میں دوممالک کے مابین قائم مضبوط تعلقات پر تبادلۂخیال اور خلیج کی سکیورٹی، علاقائی امن اور مشرق وسطیٰ کی سلامتی سے متعلق مشترکہ مفادات ، انتہا پسندی اور تشدد کی سرکوبی اور ترقی اور امن کے فروع سے متعلق معاملات زیر بحث آئیں گے،صدر کا سعودیہ کا دورہ اس کے یورپ کے دورے جس میں ہالینڈ،بلجیم اور اٹلی شامل ہیں کے بعد ہو گا "۔(آئی آئی پی ڈیجیٹل ویب سائٹ امریکی وزارت خارجہ 3/2/2014 )۔
اس سے یہ واضح ہو گیا کہ سعودیہ کا دورہ اس ماہ کے آخر میں یعنی 27/3/2014 کو اٹلی کے دورے کے بعد ہو گا۔
2۔ سی این این سائٹ نے 3/2/2014 کو یہ خبردی کہ ان کو یہ رپورٹ ملی ہے کہ "امریکی صدر مارچ میں سعودی فرمانروا کے ساتھ ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے حال ہی طے پانے والے معاہدے کے بارے میں واشنگٹن اور ریاض کے درمیان اختلافات پر بات چیت کریں گے"سائٹ نے اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا یہ بیان شائع کیا: "ہمارے درمیان نقطہ نظر کا جس قدر بھی اختلاف ہو لیکن اس سے کسی چیز میں تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ ہمارا اشتراک بہت ہی اہم اور اعتماد سے بھر پور ہے"۔
واشنگٹن پوسٹ نے 3 فروری کو یہ خبر نشر کی کہ وائٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ: "سعودی عرب امریکہ کا دوست ہے ہمارے درمیان وسیع اور گہرے دوطرفہ تعلقات ہیں جو ہمہ گیر ہیں، صدر کو اس دورے کا شدت سے انتظار ہے، ملاقات میں تمام مسائل پر بحث کی جائے گی .....ہمارے درمیان اختلافات کی نوعیت جو بھی ہو لیکن یہ اس حقیقت کو ذرا برابر بھی تبدیل نہیں کر سکتے کہ یہ اشتراک اہم اور اعتماد سے بھر پور ہے"۔
امریکی اخبار (وال سٹریٹ جرنل) نے 1/2/2014 کو خبر شائع کی کہ امریکی صدر باراک اوباما رواں ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں وہ سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان مشرق وسطیٰٰ کے خطے کے لیے امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں خاص طور پر ایرانی ایٹمی پروگرام اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے بگڑتے تعلقات کو معمول پر لانے کو شش کریں گے، سائٹ نے ایک عرب عہدہ دار کے حوالے سے کہا کہ یہ سربراہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اس کا مقصد امریکہ اور سعودی عرب کی پالیسیوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے اس نے مزید کہا کہ (اس کا مقصد بگڑتے تعلقات اور بے اعتمادی کو ختم کرنا ہے)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بات ایسی ضرور ہے کہ جس نے امریکہ کو اوباما کی جانب سے تین یورپی ملکوں کے اس مقررہ دورے، جس کا اعلان دس دن پہلے کیا گیا تھا، میں اسے شامل کرنے پر مجبور کیا !اس کو سمجھنے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے ہم یہ پیش کرتے ہیں:
ا۔ 24 /11/2013 کو امریکہ اور ایران کے درمیان اس ایٹمی معاہدے، جس نے خطے میں ایران کا ہاتھ کھول دیا، کےبعد امریکہ اور ایران کے درمیان قربت، پھر شام میں رونما ہو نے والے واقعات میں امریکہ کے مؤقف جس سے واضح ہو تا ہے کہ وہ بشار کی بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کر رہا ہے .....اس سب نے خاص کر خطے میں ایران کے ہاتھ آزاد کرنے سے سعودی عرب کو متاثر کر دیا، ایران کے بارے میں تو یہ مشہور ہے کہ وہ ہر ملک میں اس مسلکی پہلو کو استعمال کرتا ہے جس کا اس سے تعلق ہو اور وہاں افراتفری کو ہوا دیتا ہے،سعودی عرب نے اس پر نظر رکھی ہوئی ہے جو کچھ بحرین،عراق،شام، لبنان اور یمن میں ہو رہا ہے.....وہ سعودیہ کے مشرقی علاقوں میں ایران کی حرکات وسکنات سے بھی پریشان ہے جو ان کی حکومت کے لیے امن آمان کا مسئلہ پیدا کررہی ہیں.....اس سب کی وجہ سے سعودی عرب نے بین الاقوامی برادری کے اقدامات سے ناراض ہو کر احتجاج کے طور پر سلامتی کونسل کی نشست لینے سے انکار کر دیا، ظاہر ہے بین الاقوامی بردری سے ان کی مراد امریکہ ہی ہے۔یہ ان بیانات کے علاوہ ہیں جن میں بعض سعودی عہدیداروں کی جانب سے امریکی مؤقف پر تنقید بھی کی گئی.....
ب۔ سعودیہ شام کےجنوبی علاقوں میں انقلابیوں کو جو اسلحہ فراہم کر رہا ہے یعنی اردن کے راستے اور خاص کر وہ کھیپ جو شام کے جنوبی علاقوں کے انقلابیوں کے لیے اسلحے کی فراہمی پر نگران اردن میں امریکی چیک پوسٹوں کو بائی پاس کرتے ہیں یہ کھیپ امریکہ کو پریشان کر رہی ہیں .....فرانسیسی اخبار لوفیگارو نے 28/10/2013 کو صحافی جارجز مالبرونو کی ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق (ہر ہفتے 15 ٹن اسلحہ فری سیریئن آرمی کے اسلحے کے گوداموں میں پہنچ جاتا ہے، اس میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ سعودی سرمائے سے اسلحہ یوکرائن اور بلغاریا کہ بلیک مارکیٹوں میں خریدا جاتا ہے پھر سعود جہازوں کے ذریعے اس کو جنوبی اردن کے ہوائی اڈوں پر پہنچا یا جاتا ہے) اس رپورٹ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ (روان سال کے پہلے چھ مہینوں کے دوران چھ سو ٹن اسلحہ (شامی صدر بشار) اسد کےمخالفین کو اردن کے راستے پہنچایا گیا).....السفیر میگزین نے 21/2/2014 کو یہ خبر شائع کی کہ (.....گزشتہ 29 جنوری کو اسلحے سے لدے ہوئے تین سعودی ملٹری کارگو طیارے اترے ہیں، اس اسلحہ میں لاو راکٹ، ذرائع موصلات کے آلات، ٹینک شکن راکٹ، ہلکا اسلحہ اور بکتربند گاڑیاں شامل ہیں.....عرب ذرائع نے کہا ہے کہ امریکہ اب بھی شامی مسلح اپوزیشن کو چائنا ساختہ میزائل اور جدید اسلحہ فراہم کرنے میں تردد کا شکار ہیں.....) یہ بھی کہا کہ: (عرب اور مغربی متضاد سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ الغوطہ الشرقیہ کے معرکے کے دوران اور اس کے بعد کے ہفتوں میں سعودیوں نے المفرق ائرپورٹ کے ذریعے اسلحے کی بھاری کھیپ منتقل کر دی جس میں سے کچھ یوکرائن میں خریدا گیا تھا، ہر ہفتے 15 ٹن اسلحہ لے کر قافلے اردنی شامی سرحد سے صحرائی گزرگاہوں کے ذریعے ان مراکز تک پہنچے جن کی تعداد 15 سے زیادہ ہے جو الغوطہ الشرقیہ کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں) اسلحے کے پہنچنے کے حوالے سے 6/2/2014 کو 'السفیر' میں نشر ہو نے والی یہ خبر بھی دلالت کر تی ہے کہ "درعا کے اکثر مسلح گروپ کل اکھٹے ہوئے اور "فرقۃ الیرموک" کے جھنڈے تلے اکٹھےہونے کا اقرار کیا جس میں اس وقت 14 مختلف بریگیڈ اور بٹالین شامل تھیں جن میں سے نمایاں ترین 'درع الجنوب'، 'البراء بن مالک' اور ' کتیبۃ المدرعات' ہیں"، مزید یہ کہ: "مسلح گروپوں کی یہ وحدت جنوبی شام میں شروع کی جانے والی ایک لڑائی کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوئی جس کو"حوران کے جنیوا" کا نام دیا گیا، جس کی قیادت پانچ آپریشن رومز کر رہے تھے جو پورے درعا صوبے میں پھیلے ہوئے تھے".....
اس سب نے امریکہ کو پریشان کر دیا کیونکہ اس کے ذریعے جنوبی محاذ کے بعض انقلابیوں کا اس کی حلقۂ اثر سے نکلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا، خاص کر چونکہ سعودیہ میں ایسی قوتیں ہیں جو انگریز کے پیروکار ہیں اور اس کے نقش قدم پر چل کر امریکی منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں جو کہ انگریز کی پالیسی میں معروف ہے.....اس سب نے شام کے جنوبی محاذ میں سعودی سرگرمیوں سے امریکہ کو تشویش میں مبتلا کر دیا.....اگر چہ امریکہ 13 دسمبر 2013 کو شام کے جنوب میں سعودی سرگرمیوں کے رد عمل میں جنوب میں فری سیرئن آرمی کے ماتحت شامی انقلابیوں کا محاذ قائم کر چکا ہے، تاہم امریکہ جنوب میں سعودی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لے رہا ہے خاص کر ان سرگرمیوں کو جواردن میں امریکی نگرانی کو بائی پاس کرتی ہیں۔
ج۔ پھر ایک اور عامل بھی ہے؛ اگرچہ آل سعود کی قیادت اس وقت برطانوی وفادار عبد اللہ اور اس کے معاونین کے پاس ہے لیکن ان کی صفوں میں امریکہ کے وفادار بھی ہیں اور امریکہ کو بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اقتدار تک پہنچانے اور حکومت کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کے طور پر، جیسا کہ فہد کے دور میں تھا، سعودیہ کے ساتھ دشمنی کا اظہار نہ کرے۔ ساتھ شاہی خاندان میں امریکی کارندے امریکہ کے ساتھ تعلقات سنوارنے کا اہتمام بھی کر رہے ہیں.....
3۔ یو ں فریقین اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں! اب دو نوں طرف سے یہ چاہتیں اس ماہ کے آخر میں اوباما کے متوقع دورے کی تمہید کے طور پر عملی اقدامات کی شکل اختیار کر چکے ہیں ، طرفین نے کے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں:
ا۔ سعودی عر ب نے "ملک سے باہر جا کر لڑنے والوں اور انتہا پسند گروہوں سےتعلق رکھنے والوں کو سزادینے کےقانون " کا اجراء کیا، (الاقتصادیہ 3/2/2014)، ظاہری بات ہے کہ اس سے مقصود شام کی لڑائی ہے، اس قانون کا اجراء 3/2/2014 یعنی اوباماکی جانب سے سعودیہ کو بھی اپنے دورے کی ترتیب میں شامل کر نے کے ساتھ ہوا جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے! یہ سب امریکہ کو خوش کرنے کے لیے تھا.....اس کے ساتھ ساتھ شہزادہ محمد بن نایف (وزیرداخلہ) نے امریکی سی آئی اے اور واشنگٹن کی دوسری انٹلیجنس ایجنسیوں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں کی اور کئی مسائل، جن میں شام کا مسئلہ بھی شامل ہے، کے بارے میں گفت وشنید کی.....الرویہ نیوز نیٹ ورک نے 24/2/2014 کو خبر دی کہ: (نیشنل سکیورٹی کی مشیر سوزان رائس اور داخلی سکیورٹی کی مشیر لیزا موناکو نے گزشتہ بدھ سعودیہ کے وزیرداخلہ شہزادہ محمد بن نایف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد نیشنل سکیورٹی کونسل کی ترجمان کیٹلن ہائیڈن نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ تینوں عہدہ داروں نے "علاقائی مسائل پر تبادلۂخیال کیا اور مشترکہ مفادات کے کئی معاملات میں باہمی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا"۔
ب۔ امریکہ نے حالیہ مہینوں میں کیری کو دوبارہ بھیجا: نومبر 2013 اور جنوری 2014 میں یہ دورے ایران اور شام سے متعلق امریکی پالیسی کے حوالے سے سعودی عہدہ داروں کو مطمئن کرنے کے لیے تھے۔کیری نے امریکہ کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ کیری نے میٹنگ سے تھوڑی دیر پہلے ہی کہا کہ سعودیہ خطے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے (بی بی سی ترکی 6/11/2013 )۔
4۔ پھر اوباما کی جانب سے سعودیہ کا دورہ جو کہ باہمی صلح کی اعلی سطحی کوشش کرنا، فریقین کے درمیان ناراضگی کو کم کرنے اور آل سعود کو ان کی کرسی، کہ جس کے حوالے سےوہ خوفزدہ ہیں، کے بارے میں مطمئن کرنا ہے۔ اس کرسی کے علاوہ ان کو کسی چیز کی فکر نہیں۔ صرف یہی چیز ہے جس کے لیے ان کو تشویش لاحق ہےورنہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہےاس سے ان کو کوئی پریشانی نہیں سوائے اس کے کہ کہیں اس کی بازگشت ان کی کرسی تو تہہ وبالا نہ کر دےگی۔ اسی وجہ سے وہ اہل شام کی مدد نہیں کرتے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ امریکہ جنیو -1 اور جنیو -2 کانفرنسوں میں جن کی آل سعود نے حمایت کی تھی شامی حکومت کے مسئلے کو حل کر دے تاکہ وہ شامی انقلاب کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ ہاں ان کی جانب سے یہ اہتمام اپنے تخت وتاج کو بچانے کے لیے ہے شام کے مسلمانوں کی مدد یا ان کے بہتے ہوئے خون کو روکنے کے لیے نہیں.....
یوں یہ دورہ سعودیہ کے ساتھ اختلافات کو کم کرنے اور ان کے سامنے یہ واضح کرنے کے لیے ہے کہ ایران کے ساتھ اس کی قربت یا شام کے بارے میں اس کا مؤقف سعودی حکومت کو پریشان کرنے کے لیے نہیں، امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ آل سعود کے لیے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ان کی حکومت متاثر نہ ہو، ان کی کرسی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہی چیز ان کے لیے اہم ہے۔ یہ ان کے لیے شام کے زخمیوں یا مقتولین کی تعداد سے زیادہ اہم ہے.....
اس بات کا امکان ہے کہ اوباما خطے کے اپنے دورے کے دوران دوسرے علاقوں کا بھی دورہ کرے گا مگر توقع یہی ہے کہ سعودی عرب کا یہ دورہ ہی اس کا اہم سنگ میل ہے.....اوباما سعودی حکمرانوں کو باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ ان کی کرسیاں محفوظ ہیں اور ایران، عراق، شام، لبنان اور یمن کے ساتھ امریکہ کے تعلقات سعودی حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ نام نہاد "دہشت گردی" کے خلاف ہیں، وہ اس حوالے سے سعودیوں کو لڑائی کے لیے شام جانے سے روکنے کے فیصلوں پر سعودی اقدامات کی تعریف کرے گا.....
ثانیاً: جہاں تک سلیم ادریس کی برطرفی اور بعض دفتاتر کو بند کر کے ان کو قاہرہ منتقل کرنے کے موضوع کا تعلق ہے تو معاملہ کچھ یوں لگ رہا ہے:
1۔ 7/12/2012 کو 250 تا 260 عسکری قائدین اور مسلح شامی اپوزیشن کا اجتماع ہوا اس اجتماع میں مغربی اور عرب سکیورٹی عہدیداروں نے شرکت کی جس میں متحرک کردار امریکہ کا تھا،یہاں فری سیرین آرمی کے لیے نئی ملٹری کونسل کا انتخاب کیا گیا جو تین عسکری قائدین پر مشتمل تھی جس میں بریگیڈئر سلیم ادریس کو فری سیرین آرمی کا نیاسربراہ منتخب کیا گیا اور یوں وہ سپریم ملٹری کونسل (SMC) کا سربراہ بن گیا (ایسوسی ایٹڈ پریس 7 دسمبر 2012)۔
2۔ 7/5/2013 کو واشنگٹن پوسٹ نے خبر شائع کی کہ "باراک اوباما کی قیادت میں امریکی انتظامیہ سلیم ادریس پر اعتماد کرتی ہے"۔ اخبار نے کہا کہ: "یہی امریکہ کی نئی پالیسی میں سنگ بنیاد ہے اس کا ذمہ دارانہ مؤقف اور اعتدال پسندی ہی انتظامیہ کےاس پر اعتماد کرنے کا محرک ہے"۔ اخبار نے کہا کہ: "اس (سلیم ادریس) نے صدر اوباما کو خط لکھا جس میں اس نے شام میں مداخلت نہ کرنے کے بارے میں امریکہ کے مؤقف کو سمجھنے کا اظہار کیا اور مالی، انٹلیجنس اور تربیتی مدد کا مطالبہ، ساتھ ہی جہادی جماعتوں کا سامنا کرنے کے لئے اپنی تیاری کا عندیہ دیا" اس حال میں ان کے علم بلکہ اشارے کے بغیر سلیم کو برطرف کرنا ممکن نہیں کیونکہ اسی نے اس کا تقرر کیا تھا، وہی اس پر اعتماد کر تھا اور اسی نے قومی کونسل کی طرح ملٹری کونسل بنائی ہے۔
3 ۔ سلیم ادریس انقلابیوں کے محاذوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوا اور نہ ہی کوشش کے باوجود وہ کسی اندرونی محاذ کو اپنی طرف کر سکا، بلکہ وہ تو فری سیرین آرمی کے جنگجوؤں اور بعض بریگیڈز کو اسلامی جنگجووں میں شامل ہونے سے بھی نہیں روک سکا، رائٹرز نے 30/9/2013 کو اس شمولیت کے بارے میں کہا کہ: "جنگجو صرف انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مکمل بریگیڈ جو کہ طاقتور تھے ان میں شامل ہوگئے" پھر جس چیز نے امریکہ کی پریشانی میں اضافہ کر دیا وہ اسلامی گروپوں کا دسمبر 2013 میں سرحدی چیک پوسٹوں اور مغرب کی حمایت یافتہ فری سیرین آرمی کے اسلحے کے گوداموں پر قبضہ ہے ..... امریکی میگزین ٹائمزنے نے خبر دی کہ امریکی عہدہ داروں نے تصدیق کی ہے کہ فری سیرین آرمی کا سربراہ سلیم ادریس شام سے بھاگ گیا ہے، امریکی میگزین نے 12/12/2013 کو اپنی ویب سائٹ پر نشر کی جانے والی رپورٹ میں امریکی عہدیداروں کے حوالے سے کہا کہ "ادریس شام سے ترکی بھاگ گیا پھر وہاں سے قطر چلاگیا....." گویا سلیم ادریس کے اقدامات ان کو پسند نہیں آئے۔ اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ امدادی گوداموں پر حملے کے واقع نے ان کو پریشان کر دیا کیونکہ امریکہ نے یہ شرط لگا رکھی تھی کہ یہ ان انقلابیوں کے ہاتھ نہیں لگنے چاہیے جو ان کے ساتھ چلنا نہیں چاہتے، قومی کونسل کو تسلیم نہیں کر تے اور اس کے منصوبے قبول نہیں کر تے۔
4۔ جہاں تک سلیم ادریس کا تعلق ہے اس کو امریکہ ہی نے مقرر کیا تھا جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے اور اسی پر اعتماد کر تا رہا کہ وہ کچھ قابل ستائش اقدامات کے ذریعے شام کے اندر فری سیرین آرمی کی حیثیت قائم کرے اور کچھ گروپوں کو فری سیرین آرمی میں ضم کر دے.....لیکن اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ وہ شام کے اندر کسی گروپ کو فری سیرین آرمی میں ضم نہیں کر سکا، بلکہ وہ تو خود اس آرمی کو نقصان سے نہیں بچا سکا اور اس کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ ایک بڑی تعداد اس کو چھوڑ کر دوسرے گروپوں میں شامل ہو گئی! پھر جس چیز نے معاملے کو اور پیچیدہ کر دیا وہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے دیے گئے اسلحے کو بھی محفوظ نہیں کر سکا اور اسلحہ گوداموں پر دوسرے گروپوں نے قبضہ کر لیا اسی لیے یہ افواہ پھیل گئی کہ سلیم ادریس قطر بھاگ گیا جس نے امریکہ کو پریشان کر دیا۔ یوں امریکہ سلیم ادریس کے ذریعے شام کے اندر فری سیرین آرمی کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں ناکام ہو گا، امریکہ اسی پر بھروسہ کرتا تھا کیونکہ کونسل میں اس کے آلہ کار بھی باہرتھے۔ وہ یہ گمان کر تا تھا کہ فری سیرین آرمی مؤ ثر آپریشن کے ذریعے اندرونی طور پر اپنا لوہا منوائے گی لیکن امریکہ کی یہ امید خاک میں مل گئی، جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں،اسی وجہ سے وہ ایک ایسا قائدتالاش کرنے لگا جس کی جڑیں نسب کے لحاظ سے کسی قبیلے یا خاندان کی وجہ سے مضبوط ہوں،میدان جنگ میں لڑائی میں بھی اس کی جڑیں پیوست ہوں۔ اسی لیے اس کی نظریں عبد الالٰہ البشیر پر مرکوز ہو گئیں اور اس کو 16/2/2014 کو سلیم ادریس کی جگہ متعین کر دیا اور ملٹری کونسل نے اس بارے میں فیصلہ کردیا، اسی طرح بریگیڈئر ھیثم افصیح کو شمال میں ادلب کے صوبے میں البشیر کے نائب کے طور پر کما ن سونپ دی گئی، امریکہ امید کر تا ہے کہ البشیر جنوب میں اور ھیثم شمال میں دونوں محاذوں کے درمیان نظم ونسق کو بہتر بنانے اور اندرونی طور پر اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ نئے تقرر کردہ یہ دونو ں قائدین سیرین انقلابی فرنٹ کے ساتھ پُر اعتماد طریقے سے کام کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس کے قائد جمال معروف ہیں۔ امریکہ جنوبی علاقوں میں البشیر کے تعلقات کو باہر بیٹھی کونسل کے لیے اندر ونی طور پر ایک قوت تشکیل دینے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی جنوب میں سعودی حمایت یافتہ انقلابیوں کو بھی قابو کرنا چاہتا ہے۔
ابتدا میں سلیم ادریس نے انتہائی رد عمل کا مظا ہر کیا اور کونسل کے سربراہ الجربا پر آمر ہو نے کا الزام لگا یا۔ مختلف فرنٹوں اور ملٹری کونسل کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا اور الجربا کو سپریم ملٹری کونسل کے فیصلے کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ: "فارمیشن لیڈران اس پر اعتماد نہیں کر تے اور اس پرکرپشن کا الزام لگاتے ہیں۔ اس نے فیصلے پر دستخط کرنے والوں کو رشوت دی ہے" (اے ایف پی 17/2/2014)۔ اگر چہ سب جانتے ہیں کہ الجربا اور جو بھی اس کے ساتھ ہیں وہ امریکہ کی مرضی اور اس کے اشارے کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے.....!
بہر حال اس کے بعد ادریس ٹھنڈے ہو گئے خاص کر 6/3/2014 کو اس خبر کے نشر ہونے کے بعد کہ (سیرین قومی کونسل سربراہ احمد الجربا، پانچوں عسکری قائدین،جنوبی محاذ کے قائدین اور درعا میں انقلابی کونسل کے سربراہ نے اتفاق کر لیا کہ وزیر دفاع اسعد مصطفی کونسل کے سربراہ کو اپنا استعفیٰ پیش کرے گا اور اس کے نائبین کو مستعفی سمجھا جائے گا.....اسی طرح بریگیڈیئر سلیم ادریس بھی سٹاف کے سامنے اپنا استعفی پیش کرے گا اور پھر اس کو کونسل کے سربراہ کے عسکری امور کا مشیر نامزد کیا جائے گا،ساتھ سپریم ملٹری کونسل کے ممبران میں اضافہ کیا جائے گا)۔
پھر اس کے بعد آج بتاریخ 8/3/2014 کو 6/3/2014 کی خبر کی تصدیق ہو گئی جب الحیات ویب سائٹ نے فرانسیسی نیو ز ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے 8/3/2014 کو یہ خبر شائع کی تھی کہ: "فری سیرین آرمی کی سپریم ملٹری کونسل نے بریگیڈیر عبد الالٰہ البشیر النعیمی کو میجر جنرل سلیم ادریس کی جگہ چیف آف سٹاف مقرر کر دیا ....."۔
5۔ "فری سیرین آرمی "کے نئے چیف آف سٹاف بریگیڈیرعبد الالہٰ البشیر النعیمی شام کے جنوب مغربی صوبے القنیطرہ کے علاقے الرفید سےتعلق رکھتا ہے، جو کہ گولان کی ان پہاڑیوں کے ساتھ ہے جن پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ النعیمی قبیلے جو کہ شام کے بڑے قبائل میں سے ہے کے سرداروں میں سے ہے۔ البشیر شامی حکومتی فورسز سے جون 2012 میں منحرف ہو گیا تھا، تب سے وہ القنیطرہ صوبے میں "فری سیرین آرمی" کی تاسیس اور تشکیل نو میں مصروف ہے۔ وہاں آپریشن کی قیادت، اس کے بعد ملٹری کونسل کی سربراہی قبول کرنے تک خود ہی آپریشن فارمیشن کی قیادت کی۔ ان عسکری منصوبوں کو ترتیب دیا جن سے صوبے کے جنوبی مضافات میں اس کی قیادت میں 90 ٪ سے زائدعلاقے پر قبضہ کیا گیا۔ ملٹری کونسل کے فیصلے پر قومی کونسل کے سربراہ احمد الجربا کا یہ بیان سامنے آگیا کہ کونسل "ملٹری کونسل کی جانب سے عبد الالہٰ البشیر کو فری سیرین آرمی کے چیف آف سٹاف اور بریگیڈئر ھیثم افصیح کو ڈپٹی چیف مقرر ہو نے پر خوشی محسوس کر تی ہے" (الجزیرہ- ایجنسیاں)۔
البشیر کی انہی خوبیوں کی وجہ سے کہ وہ جنوب کے ایک قبیلے سے ہےاور عملی طور پر میدان جنگ کا قائد ہے، امریکہ نے اس امید کے ساتھ اس کا تقرر کیا کہ وہ اس کے بیرونی آلہ کاروں کے لیے اندر ونی طور پر جڑیں مضبوط کر ے گا.....لیکن اللہ کے اذن سے اس کی یہ امید بھی خائب و خاسر ہو گی جیسا کہ پہلے بھی ہوئی ۔اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے۔
ثا لثا ً: رہی بات ترکی میں بعض دفاتر کے بند ہو نے اور ان کو قاہرہ منتقل کیے جانے کی.....:
جی ہاں اس حوالے سے خبر ویب سائٹ "کلنا شرکاء" میں 12/2/2014 کو نشر ہوئی، سائٹ پینوراما مشرق وسطیٰ نے بھی 5/2/2014 کو ترکی میں بعض دفاتر کو بند کیے جانے کی طرف اشارہ کیا.....
لیکن ان خبروں کی بعد میں تردید بھی کی گئی جیسا کہ الشرق الاوسط اخبار نے 25/2/2014 کوخبر شائع کی کہ ".....'شامی کونسل'کے ترکی میں نمائندے خالد خوجہ نے 'الشرق الاوسط' سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کردی کہ 'ترک حکومت نے کونسل سے اپنے ہیڈ کواٹر کو قاہرہ منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے' اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا کہ 'کل ہی اسکے اور ترکی وزارت خارجہ کے نمائندوں کے درمیان ملاقات ہو ئی جس میں کہا گیا کہ کونسل کے ارکان کو تر کی میں خوش آمدید کہا جائے گا اور ہم اپنے اس بنیادی مؤقف پر قائم ہیں کہ ہم ایک آمر کے خلاف شامی عوام کی جدوجہد میں ان کی حمایت جاری رکھیں گے' "۔
جیسا کہ پیرس کی روزنہ ویب سائٹ میں 24/2/2014 کو یہ خبر آئی کہ "شامی اپوزیشن کونسل میڈیا ایڈوائزر محترمہ بہیہ ماردینی نے کہا کہ ترک حکومت نے ترکی میں کونسل کے دفاتر بند نہیں کئے، ماردینی نے روزنہ ریڈیو سے خصوصی بات چیت میں اس بات پر زور دیا کہ یہ خبر جنیوا-2 کے انعقاد سے قبل شامی حکومت کی پروپیگنڈہ مہم کے سلسلے میں اس کی زیر اثر ویب سائٹوں کی پھیلائی ہوئی ہے، ماردینی نے وضاحت کی کہ کونسل نے ترکی میں اپنے دفاتر "بر جلی" کے علاقے سے "فلوریا" میں منتقل کر دیاہے۔ یہ منتقلی داعش(ISIS) اور شامی حکومت کی جانب سے دھمکیوں کے اطلاعات کے بعد سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ترکی حکومت نے کی۔ یہی مسائل وہ وجہ ہیں کہ یہ دفاتر پر ہجوم علاقوں سے کم خطرے والے عاقوں میں منتقل کیے گئے"۔
لگتا ہے اس موضوع کے حوالے سے جو کچھ شائع ہوا وہ درست ہے لیکن دفاتر ترکی کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے گئے پھر جان بوجھ کر اتحاد کو تر کی سے نکالے جانے کا شوشہ چھورا گیا تا کہ قومی اتحاد اور قومی کونسل دونوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ دونوں پھر یکجا ہوں ورنہ ان کو ترکی سے قاہرہ منتقل ہونا پڑے گا، ظاہری بات ہے کہ ان کا منتقل ہو نا ان کے لیے ڈراؤنا خواب ہو گا کیونکہ وہ شام سے دور ہوں گے اور پرانے اتحاد کو "دھتکارنے " کے بعد ترکی میں کوئی اور متبادل اتحاد قائم کیا جائے گا اور یہ ان کے لیے بمزلہ موت ہو گا! اس خبر کے آتے ہی قومی کونسل نے قومی اتحاد کے ساتھ یکجا ہونے کا اعلان کر دیا ! فرانس پریس نیوز ایجنسی نے 1/3/2014 کو خبر شائع کی کہ "شامی قومی کونسل کی مشترکہ قیادت نے اپنے 27، 28 فروری کے استنبول اجلاس میں شامی قومی کونسل کے تمام عناصر نے، انقلابیوں اور شامی اپوزیشن کے لئے، قومی اتحاد کی صفوں میں واپس آنے کا عندیہ دیا"۔
رابعاً: آپ کے سوال کے جواب میں ان تین نکات پر مشتمل میری یہی ترجیحی رائے ہے اور ہم نے اس موضوع پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ اگر اس حوالے سے مزید کسی بیان اور وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو ہم انشاء اللہ کریں گے۔ اللہ ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔

Read more...

صرف خلافت ہی سندھ کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے

پریس ریلیز
پیر 10 مارچ کو رائیٹرز، بی۔بی۔سی اور میڈیا کے دیگراداروں نے یہ خبر دی کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں پچھلے چند ماہ کے دوران سیکڑوں بچے قحط کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائیت کی کمی اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ مقامی میڈیا نے اس علاقے میں پچھلے تین ماہ کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 140 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس قحط سے 9 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ پیر کے دن پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس علاقے کا دورہ کیا اور 10ملین ڈالر کی امداد اور خالی وعدوں کا اعلان کیا کہ "لوگ جلد ہی اپنے گھروں کو جانے کے قابل ہوجائیں گے اور خوشحالی اس علاقے میں بھی آئے گی"۔
ایک کے بعد دوسری آنے والی پاکستان کی نااہل اور سیکولر قیادت نے قدرتی آفات کو انسانی المیے میں تبدیل کردیا ہے۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے لوگوں پر آنے والی اس آفت میں کئی گنا اضافہ کی ذمہ دار دہائیوں سے جاری ناکام سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں، وسائل کی نامناسب تنظیم، زراعت کے شعبے میں ضرور ت سے انتہائی کم سرمایہ کاری اور پاکستان کی کرپٹ، اپنی جیبیں بھرنے والی جمہوری اور آمر حکومتیں اور حکمران ہیں ۔ اس علاقے میں صحت کی مناسب سہولیات کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غربت نے ایسی صورتحال کو پیدا کیا جس کے نتیجے میں اس مسئلہ کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کا تاخیر سے پہنچنے کی وجہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ٹرانسپورٹروں کو سالوں سے ان کے باقیاجات ادا نہ کرنا بھی بتایا جارہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کے ذمہ ٹرانسپورٹروں کے 60 ملین روپے کی ادائیگی واجب ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ انسانی المیے سے بچا جاسکتا تھا اگر اس کا سامنا کرنے کی تیاری اور احتیاتی تدابیر اختیار کرلی جاتیں لیکن ایسا اس صورت میں ممکن تھا اگر ملک کے حکمران صاحب بصیرت اور اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوتے۔ لہٰذا ان بچوں کی اموات کی ذمہ داری صرف اور صرف سابقہ اور موجودہ سیکولر حکومتوں اور نظام پر عائد ہوتی ہے جس نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک ادارہ تو بنا دیا لیکن اس کو کام میں نہیں لاتے۔ مزید یہ کہ یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے کہ کئی مہینے کے قحط اور سینکڑوں اموات کے بعد پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے اس بحران کی سنگینی کا احساس کیا ہے۔ کیا متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے حکومتی اداروں کو فوراًپہنچ نہیں جانا چاہیے تھا؟ لیکن اس کی جگہ امت پر ایسے لوگ حکمران ہیں جو ایک ایسے وقت میں مہنگے اور نفیس ترین کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ اس امت کے بچے بھوک سے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ایک ایسا ملک جس کا سب سے اہم قدرتی خزانہ اس کی قابل کاشت زمین اور پانی ہے اور جو دنیا میں گندم، چاول، دودھ، گنا اور چنے کی پیداوار میں سرفہرست ہے، وہاں پر لوگ غربت اور غذائی قلت کا کیسے شکار ہوسکتے ہیں۔
صرف خلافت ہی سندھ اور پوری مسلم دنیا کے بچوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ کرسکتی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند اسلام کی حکمرانی میں دنیا میں زراعت کی پیداوار کا انجن تھا اور اس کی معیشت کُل دنیا کی معیشت کا 25فیصد تھی اور ایسا صرف اسلام کے معاشی نظام اور زرعی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ خلافت کی دولت اس قدر وسیع تھی کہ وہ دوسرے ممالک کو قدرتی آفات کی صورت میں امداد فراہم کرتی تھی جیسا کہ انیسویں صدی میں عثمانی خلافت نے تین بہت بڑے بحری جہاز جو غذائی اجناس سے لدے ہوئے تھے، اس وقت آئرلینڈ بھیجے جب وہ شدید قحط سالی کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ صرف ریاست خلافت ہی ہوگی جو اسلامی قوانین کو مکمل طور پر نافذ کرے گی جس کے نتیجے میں امت صحیح معنوں میں خوشحالی کے تصور سے آشنا ہوگی۔ خلافت زرعی زمینوں کو منظم اور انہیں سیراب کرے گی اورمسلم دنیا کے بیش بہا خزانوں کو پوری امت کے مفاد میں استعمال کرے گی اور اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ یہ دولت چھوٹے سے امیر اشرافیہ کے گروہ کی ملکیت میں نجکاری کے نام پر دے دی جائے یا وہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں۔ یہ وہ ریاست ہو گی جس کے مخلص حکمران اس ذہنیت کے حامل ہوں گے کہ ان پر عوام کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ دوسرے خلیفہ راشد، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے ہوں گے جنہوں نے اس وقت جب جزیرۃ العرب شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تو مصر کے گورنر امر بن العاص کو حکم جاری کیا کہ دریائے نیل اور بحیرہ احمر کے درمیان ایک نہر کے ذریعے غذائی اجناس جزیرۃ العرب بھیجیں اور کہا کہ "اگر تم یہ چاہتے ہو کہ مدینہ میں بھی غذائی اجناس کی وہی قیمت ہو جو مصر میں ہے تو دریا اور نہریں تعمیر کرو"۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ لکھا کہ "میں ضرور یہ کروں گا اور میں اس میں جلدی کروں گا"۔ لیکن مصر کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی کہ اس کے نتیجے میں مصر کی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ لکھ کردیا کہ "جلدی کرو، اللہ اس تعمیر میں مصر کو تباہ کردے اور مدینہ کو آباد کردے"۔ اس کے نتیجے میں مصر کی دولت میں اضافہ ہوا اور پھر مدینہ نے کبھی 'راکھ کے سال' جیسا قحط نہیں دیکھا۔ قحط کے دوران جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحت خراب ہونے لگی تو ان سے کہا گیا کہ اپنی صحت کا خیال کریں تو انہوں نے کہا کہ "اگر تکلیف کا مزہ نہیں لوں گا تو میں کس طرح دوسروں کی تکلیف کو جان سکوں گا؟"۔ یہ ہے وہ زبردست قیادت جس کا حق سندھ کے بچے رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر نظرین نواز
رکن مرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

Read more...

خبر اور تبصرہ پاکستان صرف خلافت کے زیر سایہ ہی بھارت کے لئے امریکی چارے کے کردار سے چھٹکارا پاسکتا ہے

 

خبر: 13 مارچ 2014 کو ، وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ، سرتاج عزیز نے برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مودی کے وزیر اعظم بن جانے سے بھارت کے ساتھ تعلقات میں موجود کھچاؤ کو ختم کرنے کے حوالے سے ان کی کوششوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلی بار جب ہمارے تعلقات میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی تو اس وقت بھی بی۔جے۔پی کی حکومت تھی۔ جناب واجپائی کا تعلق بی۔جے۔پی سے تھا"۔
تبصرہ: وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی نواز شریف نے بہت واضح اشارے دے دیے تھے کہ وہ ایسے تمام اقدامات کریں گے جس کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جاسکے۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد اس کی حکومت نے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے اور اسے تجارت کے لئے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کے عمل کو تیز کردیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی حکومت نے بھارت سے 500 سے 1000 میگاواٹ بجلی کی درآمد کے لئے بھی بات چیت کا آغاز کر دیا جبکہ بھارت بذات خود بجلی کے بحران کا شکار ہے۔
پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی بھارت کا رویہ پاکستان کے ساتھ جارحانہ رہا ہے اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ سرد جنگ کے اختتام تک پاکستان نے بھی اس کی جارحیت کا دفاع ، معیشت اور دوسرے میدانوں میں منہ توڑ جواب دیا۔ سرد جنگ کے دوران اس خطے میں سوویت روس کے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے پاکستان امریکہ کا اہم ترین اتحادی تھاجبکہ بھارت سب سے زیادہ سوویت اسلحہ حاصل کرنے والا ملک تھا اور اس نے نام نہاد غیر جانبدارانہ پوزیشن اختیار کررکھی تھی جو کہ اس کی اصل پوزیشن کو چھپانے کے لئے ایک آڑ تھی کیونکہ درحقیقت کانگریس پارٹی کی وجہ سے برطانیہ سے اس کے مضبوط تعلقات تھے اور بھارت بین الاقوامی امور میں برطانوی موقف کے مطابق پوزیشن اختیار کرتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان اور کشمیر کو بھارت کے خلاف ایک ڈنڈے کے طور پر استعمال کیا تا کہ بھارت کو برطانوی اثرو نفوذ سے نکال کر اپنے زیر اثر لے آئے۔ لیکن سرد جنگ اور سوویت روس کے خاتمے کے بعد امریکہ نے اپنی ڈنڈے والی حکمت عملی تبدیلی کی اور اس کی جگہ بھارت کو مختلف مراعات کے ذریعے اپنے زیر زثر لانے کی کوشش کرنے لگا۔ بل کلنٹن کے دورِ حکومت کے دوران امریکہ نے کشمیر کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرلیا اور اسے متنازعہ علاقہ اور بین الاقوامی مسئلے کی جگہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تنازعہ قرار دے دیا اور اس کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداد کے نفاذ کی جگہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دینے لگا۔
تو جیسے ہی امریکہ نے بھارت کے حوالے سے اپنی خفیہ جارحیت کی حکمت عملی تبدیل کی اور کھل کر اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لئے کام کرنے لگا، تو پاکستان میں موجود اس کے ایجنٹوں نے بھی پاکستان کی بھارت کے خلاف مزاحمت کی پالیسی کو تبدیل کرلیا اور اس کی جگہ وہ بھارت کو امریکی اثرو رسوخ کے زیر اثر لانے لئے ایک چارے کا کردار ادا کرنے لگا۔ 2004 سے قائم کانگریس کی حکومت کی وجہ سے امریکہ اپنی اس حکمت عملی پر زیادہ تیزی سے کام نہیں کرسکا جس قدر کہ وہ چاہتا تھا۔ لیکن اب چونکہ اس سال اپریل میں بھارت میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ بی۔جے۔پی، گجرات کے قصائی، مودی کی قیادت میں حکومت بنالے گی، تو امریکہ کو اس بات کی امید ہے کہ وہ بھارت کو اپنے زیر اثر لے آئے گا کیونکہ بی۔جے۔پی امریکی حمائت یافتہ جماعت ہے۔ اور بالآخر امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ ایسے علاقائی بلاک کو بھارت کی قیادت میں قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس کے ذریعے وہ چین کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرسکے گا اور ایشیا پیسیفک میں اس کے اثرو رسوخ کو محدود کرسکے گا۔
لہٰذا سرتاج عزیز کا یہ بیان حیران کن نہیں کہ پچھلی بار جب ہمارے تعلقات میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی تو اس وقت بھی بی۔جے۔پی کی حکومت تھی بلکہ یہ بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار بڑی بے تابی سے بی۔جے۔پی کی جیت کا انتظار کررہے ہیں تا کہ وہ امریکی مفاد کی خاطر بھارت کو امریکہ کی گود میں ڈالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ انھوں نے پہلے ہی اس حوالے سے بہت کام کیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے لئے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھے جانے کی پالیسی تبدیل کی جائے۔ اب سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اس بات کو ثابت کرنے پر پوری قوت صَرف کررہے ہیں کہ اس خطے میں معاشی ترقی کے لئے پاکستان اور بھارت کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے خصوصاً مسئلہ کشمیر کو، اور انھیں مضبوط معاشی تعلقات قائم کرنے چاہیے۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ 67 سال سے امریکی مفادات کے مطابق عمل کرنے کے باوجود پاکستان کی معیشت نہ تو مضبوط ہوسکی اور نہ ہی خود انحصاری کی منزل کو پاسکی۔ اس کے برعکس امریکہ نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کی معیشت کا استحصال کیا اور یہ عمل اب پہلے سے بھی زیادہ تیز تر ہوچکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی معیشت کو بھارت کے ساتھ جوڑنے سے بھی کوئی خوشحالی کی لہر نہیں آئے گی بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت بھارت کی خواہشات کے تابع ہوجائے گی۔ لہٰذا پاکستان کو ایک چارے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، 180 ملین آبادی کی مارکیٹ جو امریکہ بھارت کو پیش کررہا ہے تا کہ اسے اپنے اثرو رسوخ کے تابع لاسکے۔
صرف خلافت ہی پاکستان کو بھارت کے لئے امریکی چارے کے کردار سے چھٹکارادلا سکتی ہے۔ اسلام کی بنیاد پر ایک آزاد خارجہ پالیسی کے نتیجے میں یہ مسلم علاقے ایک بار پھر خلافت کے زیر سایہ پوری قوت سے اٹھیں گے کیونکہ یہ پالیسی دشمن کے ساتھ دشمن جیسا ہی سلوک کرتی ہے اور اسلام کی بالادستی کو قائم کرتی ہے۔ جہاں تک کشمیر اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کا تعلق ہے تواسلام ہم پر یہ لازم کرتا ہے کہ اسلامی سرزمینوں کو دشمن سے واپس حاصل کیا جائے چاہے اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے یا طویل عرصے تک انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے پالیسی


حزب التحریر /ولایہ پاکستان فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے پالیسی کوشائع کررہی ہے،جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ خلافت کس طرح اختلاف رائے کے احترام کی فضاء قائم کرے گی اورفرقہ واریت کا خاتمہ کرے گی۔
ا) مقدمہ: جمہوریت معاشروں میں تفریق، گروہ بندی اورتصادم کی سیاست کوپروان چڑھاتی ہے، جمہوری معاشروں میں فرقہ واریت انہی اختلافات کاشاخسانہ ہے۔
جمہوریت ایسانظام حکومت ہے جوریاست کے وسائل اور توجہ کو معاشرے میں موجود گروہوں کی سیاسی قوت کے مطابق تقسیم کرتا ہے۔ وہ گروہ جو زیادہ سیاسی قوت اور وزن رکھتے ہیں وہ ملک میں ہونے والی قانون سازی پر زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں اور نتیجتاً اپنے لیے ریاست سے زیادہ وسائل اور مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ لہذا جمہوری ریاست میں صرف ان شہریوں کے مفادات اور حقوق کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے،جو ریاست پر اس قدر دباو ڈال سکیں کہ ریاست ان کے مطالبات ماننے پرمجبورہوجائے، یوں نمائندہ جمہوریت کاتصور معاشرے میں پائے جانے والے مختلف گروہوں میں عدم تحفظ کااحساس اُجاگرکرتاہے کہ وہ کس طرح ریاست کی توجہ حاصل کر کے اپنے مطالبات منوا سکیں۔
جمہوری معاشرے میں مقامی سطح پرہم سیاسی قائدین کودیکھتے ہیں جواکثراوقات اپنے لیے اس بات کو فائدہ مند بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ معاشرے کے اندر تقسیم کی حوصلہ افزائی کریں اورجس گروہ کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں اس کی مخصوص نسلی یاسیاسی شناخت کواجاگرکریں، تاکہ وہ اپنے گروہ کی مخصوص شناخت برقرار رکھ کر اپنے لئے سیاسی وزن پیداکرسکیں اور ریاست کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا سکیں۔ یوں جمہوری نظام حکومت معاشرے میں تقسیم اور گروہ بندی کی حوصلہ افزائی کرتاہے، جہاں مختلف گروہ ریاست کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے ہیں۔ یہ صورتحال ہراس ملک کےاندرواضح دکھائی دیتی ہے جہاں جمہوریت نافذ ہے اور جہاں مختلف گروہ پائے جاتے ہیں جواپنے مفادات اورحقوق کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے مقابلہ کررہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بھی جمہوری سیاست کواختیارکیاجاتاہےجو قومیت، نسل اورمسلکی بنیادوں پرمختلف گروپوں کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس کے باعث ایک طرف کراچی میں مہاجر،پٹھان اورسندھی کی تفریق کی بنیاد پر تصادم اور لڑائی کو ہوا مل رہی ہے،تودوسری جانب بلوچستان میں بلوچوں اورپاکستانی حکومت کے درمیان ایک نسلی تنازعہ چل رہا ہے۔ ان تنازعات کی وجہ سے ملک عدم استحکام اورغیریقینی کی صورتحال سے دوچارہے، جسے جب بھی چاہیں،اجنبی قوتیں بھڑکاسکتی ہیں۔
ب) سیاسی اہمیت: سامراجی قوتیں فرقہ واریت کوہوادیتی ہیں۔
ملک میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کی کاروائیوں کی حالیہ لہر کا تعلق پاکستانی حکومت کی غلامانہ خارجہ پالیسی اور اس کی افغانستان پر امریکی قبضے کے لیے سہارا دینے سے ہے۔ افغانستان کے مسلما نوں اور پاکستان کے فاٹا کے علاقے میں موجود ان کے بھائیوں کے ہاتھوں شکست کے خوف نے اور اپنے ملک میں جاری معاشی بحران نے جس نے امریکہ کو کمزور کر دیا ہے، امریکہ کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ خطے میں جار ی امریکہ مخالف مزاحمت کو کمزور کرے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی انٹلیجنس ایجنسیاں پاکستان کے شہری علاقوں میں بم دھماکوں اور False Flag حملوں کی مہم چلا رہی ہیں تا کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوایا جا سکے اور امریکہ کے خلاف افعانستان میں جار ی مزاحمتی تحریک کو پاکستانی عوام کی نظروں میں بدنام کیا جا سکے۔ یہ امریکہ کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے کہ وہ پاکستان کی فوج اور جنگجوں کے درمیان فتنے کی جنگ کو بھڑکائے اور اس مقصد کے لیے امریکہ پرتشدد فرقہ وارانہ کاروائیوں کو استعمال کر رہا ہے تا کہ ان گروہوں کو جو امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں ان کو فرقہ وارانہ گروہ ، جو شیعہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں، کے طور پر پیش کر کے ان کو بدنام کرے۔ یہ وہی پالیسی ہے جو امریکہ نے عراق میں استعمال کی جہاں اس نے مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی اور فرقہ واریت کو استعمال کرتے ہوئے امریکی قبضے کے خلاف جاری تحریک کو تقسیم اور کمزور کیا اور عراق پر اپنی گرفت مضبوط کی۔
امریکی غلامی کی پالیسی پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت اورخائن حکمران بھی مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ عو ام پراپنے غیرفطری اقتدار کوبرقرار رکھ سکیں۔ امریکی ایما ءاور حوصلہ افزائی پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی حکومت نے، جوخطے میں اسلام کی واپسی سے خوفزدہ تھی، پاکستان میں فرقہ وارنہ بنیادوں پرتنظیمیں بنانے کی حوصلہ افزائی کی، تاکہ امت کی اسلام کی طرف لوٹنے کی کوششوں کو روکا جا سکے۔ آج بھی پاکستانی حکومت مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کوبھڑکانے کی پالیسی پر گامزن ہے تا کہ امریکہ کی اسلام کے خلاف جنگ میں اپنی شمولیت کے لیے جواز فراہم کر سکے۔ مزید براں حکومت ا ور اس کے حواری مسلمانو ں کے درمیان فرقہ واریت کو اس لیے بھی ہوا دیتے ہیں تا کہ ملک میں شریعت کے نفاذ کے بڑھتے ہوئے مطالبے کی مخالفت اور مقابلہ کیا جا سکے اور پاکستان کے لیےسیکولر سول جمہوری حکومتی ماڈل کی ترویج کی جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک کے لیے مختلف تعلیمی نصاب قائم رکھ کر پاکستانی ریاست مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو برقرار رکھتی ہے۔
ج) قانونی ممانعت: اسلام تمام رعایا کے حقوق کی ضمانت دیتاہے اورمختلف گروہوں کےدرمیان اختلاف رائے کی تعمیری طریقہ سے نگرانی اوردیکھ بھال کرتاہے۔وہ طریقہ یہ ہے۔
ج1۔ شہریوں کے حقوق کی ضمانت احکام شرعیہ کے ذریعے کی جاتی ہے، نہ کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے سیاسی اتھارٹی تک پہنچنے کی قابلیت کے ذریعے۔
جمہوریت کے برعکس اسلام ایسے قومی نمائندوں پریقین نہیں رکھتاجوعوام پرحکومت کرنے کیلئے قانون سازی کریں۔جمہوریت میں یہ طریقہ کارفطری طورپران جماعتوں اورگروپوں کے ساتھ امتیازی سلوک کوجنم دیتا ہے، جن کے پاس ریاست کی قانون ساز اتھارٹی پراثرانداز ہونے کیلئے مطلوبہ سیاسی اثرورسوخ موجود نہ ہو۔ اس سے معاشرے میں مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی بڑھتی ہےاوران کے درمیان خوفناک قسم کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے، یوں معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکارہو کر تقسیم ہوجاتاہے۔ اگر چہ خلیفہ کوانتخابات کے ذریعے چنُا جاتا ہے، مگرنہ توخلیفہ اورنہ ہی مجلس امت (مجلس شوریٰ) کے ارکان کے پاس قانون سازی کا اختیارہوتاہے، بلکہ خلیفہ صرف اورصرف شریعت اور اس کے احکا مات کے ذریعے حکمرانی کاپابند ہوتاہے۔ اسلا م گروہ بندی پر مبنی سیاست کومسترد کرتا ہے۔ اسلامی ریاست میں شہریوں کے د رمیان ریاست کے وسائل شرعی ضوابط کے مطابق تقسیم کئے جاتے ہیں نہ کہ معاشرے کے اندرموجود مختلف گروہوں کے سیاسی وزن کے مطابق۔ اورخلیفہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ نسل، قومیت، دین، مسلک وغیرہ کی بنیاد پرریاست کے شہریوں کے درمیان کوئی تفریق کرے،بلکہ اس پریہ واجب ہےکہ وہ صرف احکام شرعیہ کی بنیاد پراسلامی ریاست کے شہریوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرے۔
حزب التحریر کے مقدمہ دستور کی شق (6) میں ذکرکیاگیاہے "ریاست کیلئے جائز نہیں کہ وہ حکومت، عدالتی امور، لوگوں کے زندگی کے نظم ونسق اوردیگرمسائل میں شہریوں کے درمیان تفریق وتمیز کرے،بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومیت، دین، رنگ ونسل وغیرہ سے بالاترہوکرتمام افرادکو ایک نظرسے دیکھے۔"
دستور کی شق (7) میں یہ واضح کیاگیاہے کہ"ریاست ان تمام لوگوں پرجواسلامی ریاست کےشہری ہوں، چاہے مسلمان ہوں یاغیرمسلم،حسبِ ذیل طریقے سے اسلامی شریعت کونافذ کرتی ہے: 1۔مسلمانوں پربغیرکسی استثناء کے تمام اسلامی احکامات لاگوہوتے ہیں۔ 2۔ غیرمسلموں کوعمومی نظام کے تحت اپنے عقائد وعبادات کی اجازت ہوتی ہے۔ 3۔ مرتد ہونے والوں پرمرتدوں کے احکام لاگوں کئے جاتے ہیں، ایسے لوگ جوکسی مرتد کی اولادہوں اوروہ پیدائشی غیرمسلم ہوں، ان کے ساتھ غیرمسلموں کاسامعاملہ کیاجاتاہے یعنی ان کی حالت پرہے کہ وہ مشرک ہیں یااہل کتاب۔ 4۔ کھانے پینے اورلباس کے امورمیں غیرمسلموں کے ساتھ شرعی احکامات کی حدود میں رہتے ہوئےان کے مذاہب کے مطابق معاملہ کیاجاتاہے۔ 5۔ غیرمسلموں کے درمیان شادی بیاہ اورطلاق کے امورکوان کے مذاہب کے مطابق نمٹایاجاتاہے، اگرمعاملہ ان کے اورمسلمانوں کے درمیان ہوتوپھراسلامی احکامات کے مطابق طے کیاجاتا ہے۔ 6۔ باقی تمام شرعی احکامات اور شرعی امورمثلاً لین دین، سزائیں، گواہی، نظام حکومت، نظام معیشت وغیرہ کو تمام رعایاپر،خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ریاست برابری کی بنیاد پرنافذ کرتی ہے۔ اسی طرح معاہدین (اہل ذمہ)، مستامنین (اسلامی ریاست کی پناہ میں آنے والے) اورہراس شخص پر جو اسلامی ریاست کے زیرسایہ رہتاہے، ریاست ان احکامات کوناٖفذ کرتی ہے،ماسوائے سفیروں، ایلچیوںاوراسی نوعیت کے دیگرلوگوں کے جنہیں سفارتی امان حاصل ہو۔
ج2۔ خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے،اور وہ مسلمانوں کے مابین وحدت کومضبوط کرے گی۔
ریاستِ خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے، اس سےقطع نظر کہ شرعی نصوص اوراسلامی تاریخ کے حوالے سے ان کی تشریح کیا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان وحدت کومضبوط رکھنے کے لیے ریاست خلافت، ذرائع ابلاغ اوریکساں نصاب تعلیم کے نفاذکوبروئے کار لائے گی اورمسلمانوں کے درمیان اسلام کی صحیح فہم کے مطابق بھائی چارے کے ربط کا پرچار کرے گی۔ پوری ریاست میں یکساں تعلیمی نظام مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اخوت کے ربط کو مضبوط کرے گا۔
مقدمہ دستور کی شق (103) اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ "میڈیاوہ شعبہ ہے جوریاست کی میڈیاپالیسی بناتاہے،اوراسے نافذکرتا ہےتاکہ اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کوپوراکیاجائے۔ داخلی طورپریہ ایک قوی اورمتحداسلامی معاشرے کی تشکیل کرتاہے،جوخباثت کونکال باہر کرے اوراپنی خوشبوؤں کوبکھیرتارہے۔ اورخارجی طورپریہ اسلام کوجنگ اورامن کے دوران اس انداز میں پیش کرتاہے جس سےاسلام کی عظمت، اس کے عدل اوراس کی افواج کی قوت کااظہارہوتاہواورانسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کے فساد اورظلم کوبیان کرے اوران کی افواج کی کمزوری کو آشکارا کرے۔
شق (177) یہ واضح کرتی ہے کہ "منہج تعلیم ایک ہی ہوگااورریاست کے منہج تعلیم کے علاوہ کسی دوسرے منہج کی اجازت نہیں ہوگی۔ پرائیویٹ سکولوں کی اس وقت تک اجازت ہوگی جب تک کہ وہ ریاست کے تعلیمی منہج، اس کی تعلیمی پالیسی اوراس کے مقصد کی بنیادپرقائم ہوں گے۔ یہ بھی شرط ہوگی کہ ان میں مخلوط تعلیم کی ممانعت ہوگی، مردوزن کااختلاط معلمین اوراساتذہ دونوں کے درمیان ممنوع ہوگا۔مزید برآں یہ بھی شرط ہوگی کہ تعلیم کسی خاص کردہ دین یامذہب یارنگ ونسل کے ساتھ مخصوص نہ ہو۔"
ج3۔ معاشرے کی بھلائی کی خاطراختلاف رائے کی نگرانی اوراحترام۔
اسلام اختلافِ رائے کی اجازت دیتاہے،اورشرعی طورپرمعتبرنصوص سےاجتہاد کرکے احکام شرعیہ اخذکرلینےمیں اختلاف کی گنجائش کو تسلیم کرتاہے۔ بخاری اور مسلم عمر بن العاص کی سند پر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (اذاحکم الحاکم فاجتہد ثم اصاب فلہ اجران واذاحکم فاجتہد ثم اخطافلہ اجر) "جب قاضی فیصلہ دے اور اجتہاد کرے اور وہ درست ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ اگر وہ فیصلہ کرے اور غلطی کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے"۔ یہ حدیث بخاری اورمسلم نے روایت کی ہے۔ مختلف مجتہدین کے درمیان شرعی نصوص میں اسی اجتہادی اختلاف کی وجہ سے فقہ اسلامی کاعظیم ذخیرہ وجود میں آیا۔ اسی نے اسلا م میں مختلف قانونی مسالک کو جنم دیا۔ اسلام اجتہادی آراء میں اختلاف کی اجازت دیتاہے۔ جمہوریت کے برعکس جوقانون سازی کیلئے اکثریت پراعتماد کرتی ہے، جس کی وجہ سے ریاست اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روارکھتی ہے، اسلام ریاست کے قانونی انتظام کے لیے اختلاف رائے کو حل کرنے کیلئے ایک منفرد انداز اپناتا ہے۔ اسلام نے ریاست میں قانون کے نفاذ کے لیے خلیفہ کوہی احکام کی تبنی کاحق دیاہےتاکہ انہیں نافذکیاجائے مگر اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے خلیفہ پر شرعی احکامات کی تبنی کے حوالے سے بعض پابندیاں بھی لگائیں ہیں۔ مقدمہ دستورکی شق نمبر3 میں ذکر کیا گیا ہے کہ "خلیفہ متعین شرعی احکامات کی تبنی کرے گاجودستوراورقوانین کہلائیں گے۔ خلیفہ جب کسی حکم شرعی کی تبنی کرے توصرف یہی حکم وہ حکم شرعی ہوگاجس پرعمل کرناعوام پرفرض ہوگا، یہ اس وقت سے ہی نافذ العمل قانون بن جاتاہے جس پرعمل درآمد عوام میں سے ہرفرد پرظاہراًاورباطناً فرض ہوگا"۔
قانونی آراء کی تبنی میں جو ریاست میں نافذ کی جائیں گی خلیفہ کیلئےعبادات میں سوائے زکوٰۃ اورجہاد کے تبنی کی اجازت نہیں اور نہ ہی وہ عقیدہ سے منسلک افکار میں تبنی کرے گا۔ یہ چیز ریاست میں مختلف مسالک کے درمیان سیاسی وحدت قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ جیساکہ مقدمہ دستور کی شق (4) میں ذکر کیا گیا ہے "خلیفہ عبادات میں سے زکوٰۃاورجہادکے سوا اور جو کچھ بھی امت کی وحدت کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہو کے علاوہ، کسی متعین حکم شرعی کی تبنی نہیں کرےگا۔ نہ وہ اسلامی عقیدہ سے متعلقہ افکارمیں سے کسی فکرکی تبنی کرے گا۔"
علاوہ ازیں اسلام نے خلیفہ کی احکام شرعیہ کی تبنی کومنظم کیاہے، کہ وہ شرعی نصوص سے احکام شرعیہ کے استنباط کیلئے ایک طریقہ کار وضع کرے گا، اور اس کو صر ف ان احکام کی تبنی کی اجازت ہو گی جو اس نے اس طریقہ اجتہا د کو استعمال کرتے ہو ئے اخذ کئے ہیں جس کی وہ پہلے تبنی اور اعلان کر چکا ہے۔ اس لئے اگرخلیفہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جوشرعی نصوص سے استنباط کرکے اخذ نہیں کیاگیا یا جس کے اخذ کرنے میں اس طریقہ اجتہاد کو استعمال نہیں کیا گیا جس کو خلیفہ پہلے اپنا چکا ہے اور جس کا وہ اعلان کر چکا ہے تو ایسے ہر حکم کو باطل سمجھاجائے گا۔مقدمہ دستورکی شق (37) وضاحت کرتی ہےکہ"خلیفہ احکام شرعیہ کی تبنی میں احکام شریعت کاپابندہے، چنانچہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرنااس کے لئے حرام ہے جس کااس نے "ادلہّ شرعیہ" سے صحیح طورپر استنباط نہ کیاہو۔ وہ اپنے تبنی کردہ احکامات اورطریقہ استنباط کابھی پابندہے، چنانچہ اس کے لئے جائزنہیں کہ وہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جس کے استنباط کاطریقہ اس کے تبنی کردہ طریقے سے متناقض ہو۔ اورنہ ہی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کوئی ایساحکم دے جواس کے تبنی کردہ احکامات سے متانقض ہو۔"
نوٹ: مذکورہ شقوں (3، 4، 6، 7، 37، 103، 177) کےبارے میں قرآن وسنت سے ان کےمکمل دلائل دیکھنے کے لئے مقدمہ دستور کی طرف رجوع کیاجائے، نیز مقدمہ دستورمیں سے ان سے متعلقہ شقوں کودیکھنے کے لئے اس لنک پرویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں:
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
د) پالیسی: خلافت جمہوریت کی گروہ بندی اور تقسیم پر مبنی سیاست کا خاتمہ کرے گی۔
1- جمہوریت کا خاتمہ معاشرے سے گروہ بندی اور تقسیم کی سیاست کو ختم کر دے گا۔
2- خلافت نسل، قومیت اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر اپنے تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دے گی اور ان کے معاملات کو اسلام کے احکام کے مطابق منظم کرے گی۔
3- خلافت تمام مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے۔ وہ تعلیمی نصاب اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں میں ہم آہنگی اور وحدت کا پرچار کرے گی۔
4- خلیفہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ درست اجتہاد کے ذریعے جو ان قانونی مصادر پر مبنی ہو جو اللہ نے اپنے رسولﷺ پر نازل کیے ہیں، قانونی آراء کی تبنی کرے اور اس کی تبنی شدہ احکام کی اتباع تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ خلیفہ کی احکام کی تبنی شرعی احکام کی تابع ہے۔ خلیفہ عقائد اور عبادات میں تبنی نہیں کرے گا۔
5- خلافت تمام حربی ممالک، جن کا سربراہ امریکہ ہے، سے تمام تعلقات منقطع کر لے گی اور پاکستان سے ان ممالک کی سفارتی، فوجی اور انٹلیجنس موجودگی کا خاتمہ کر دے گی۔ یوں امریکہ کی ہمارے علاقوں تک عدم رسائی امریکہ کی مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے کی قابلیت کو ختم کر دے گا۔

Read more...

حزب التحریر ازبک سفیر کے بیان کو مسترد کرتی ہے حزب التحریر ایک پر امن سیاسی جماعت ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں

حزب التحریر ازبک سفیر کے بیان کو مسترد کرتی ہے اور اس کے بیان کی سختی سے مذمت کرتی ہےجو ایک اخبار میں بروز جمعہ 14مارچ 2014 کو شائع ہوا۔ اس بیان میں ازبک سفیر نے حزب التحریر کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی اور یہ بے بنیاد الزام عائد کیا کہ حزب التحریر سے منسلک ازبک باشندے پاکستان کے قبائلی علاقے میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ حزب التحریر سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ حزب التحریر ایک پرامن سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کی جدوجہد میں رسول اللہﷺکے منہج پر سختی سے کاربند ہے اور اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
ازبکستان کی مجرم حکومت اور اس کے بے شرم اہلکار اسلام کے خلاف کسی بھی محاذ میں اپنے حصہ ڈالنے کے لیے تیاررہتے ہیں۔ اس وقت جبکہ پاکستان کی حکومت مذاکرات اور آپریشن کا ڈرامہ کھیل کر افغانستان کے نام نہاد الیکشن کو کامیاب بنانے میں مدد فراہم کر رہی ہےاور ان لوگوں کونشانہ بنارہی ہے جو جزوی امریکی انخلاکے نام پرافغانستان میں مستقل امریکی اڈوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، تو ازبکستان کی حکومت بھی آگے بڑھی ہے تاکہ قبائلی علاقے کے مسلمانوں کا خون بہانے میں اپنا کردار ادا کرے اور ساتھ ہی اس نے حزب کے صاف دامن پر کیچڑ اچھالنے کو بھی ضروری سمجھا ،تاہم یہ ازبکستان کی حکومت کی پہلی ناکام کوشش نہیں ہے۔ ازبکستان کی مجرم حکومت ایک عرصے سے حزب التحریر کو بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث دکھانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ لیکن اس کی نتیجے میں امت کی نظر میں حزب التحریر کی قدر و منزلت میں اضافہ ہی ہوا۔ کیونکہ امت خلافت کے تصور اور اس کی نگہبانی کرنے والی جماعت حزب التحریر کی پر امن سیاسی و فکری جدوجہد کےطریقہ کار سے آگاہ ہے اور امت اس بات کو بھی جان چکی ہے کہ کس طرح مسلم دنیا کہ غدار حکمران اپنے استعماری آقاؤں کی خاطر اسلام کی واپسی ، خلافت کے دوبارہ قیام کے راستے میں کھڑے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو خلافت کے قیام کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ ازبکستان کی جیلیں اس بات کا سب سے بڑاثبوت ہیں جہاں حزب التحریر کے درجنوں شباب کو شہید کیاجا چکا ہے، محض اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔
حزب التحریر ازبکستان کے سفیر کو خبردار کرتی ہے کہ اب وہ دن زیادہ دور نہیں کہ جب کفار کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والی مسلم دنیا میں قائم مصنوعی حکومتیں کیفر کردار تک پہنچیں گیں ، کیونکہ خلافت کا قیام اب بہت قریب ہے۔ عنقریب خلافت کا قیام ان کے چہروں کو خوف سے بے رونق اور سیاہ کر نےوالاہےا وروہ وقت کیسا ہو گا کہ ازبکستان کے مجرم حکمران کو دنیا میں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اس وقت یہ استعماری کفار کہ جن کی خاطر ازبکستان کا حکمران مسلمانوں اور ان کے نظامِ خلافت کے خلاف لڑنے کے لیے دن رات ایک کرتا رہااس سے منہ موڑ لیں گے ، جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے ایجنٹوں کے ناکارہ ہوجانے پر ان کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔
كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ๐ وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ ๐ وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ ๐ كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ ๐ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ
"وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور راحت بخش ٹھکانے اور وہ آرام کی چیزیں جن میں عیش کررہے تھے ، اسی طرح ہوگیا اور ہم ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنادیا۔ ان پر نہ تو آسمان و زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی" (الدخان:29-25)

Read more...

آزادی رائے، لبرل دنیا کے لئے بالادستی کا ایک ہتھیارہے

 

تحریر: عثمان بدر (آسٹریلیا میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے نمائندے)
میں نے حال ہی میں ایک بحث میں حصہ لیا، جس کا عنوان تھا ''خدا اور اس کے پیغمبروں کو توہین سے تحفظ دینا چاہیے''۔ لیکن میں نے یہ اعتراض اٹھا یا کہ یہ سوال لبرل ازم کی سوچ پر مبنی ہے اور اس فہم کے تحت ہے کہ آزادی رائے ایک نقطہ آغاز ہے اور اس پر جو بحث باقی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حدود کیا ہیں۔
میں اس مقدمے کو پوری طرح سے رد کرتا ہوں۔ آزادی رائے کا تصور لبرل تصور کے تحت آتا ہے نہ کہ یہ کوئی غیر جانبدار عالم گیر سوچ ہے۔تو لبرل لوگوں سے میں ایک سیدھی بات کرتا ہوں، بہت ہوگیا خود کو خوش کرنا، آپ ایک صحیح مؤقف کی نمائندگی نہیں کرتے۔
کروڑوں لوگ دنیا میں لبرل نہیں ہیں۔ اس تصور کو ایک عالم گیر تصور کے طور پر پیش کرنا چھوڑ دو۔ اس دکھاوے کو چھوڑ کر ایک صاف اور منصفانہ بحث کی طرف آؤ۔دوسروں کی عزت کرنا انسانی شرافت کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ یہ ہے بنیادی نقطہ نہ کہ آزادی رائے۔
دوسروں کی توہین کرنا ایسے ہی ہے جیسے دوسروں کے احساسات کی پروا نہ کرنا، گستاخی کرنا اور حقارت کا برتاؤ کرنا۔ اس روئیے کو صحیح ثابت کرنے کا بوجھ ان لوگوں پر ہے جو ایسے برتاؤ کی اجازت چاہتے ہیں کہ سیاہ کاری اور انتہا درجے کی بد اخلاقی جائز ہونی چاہیے۔
کیا مکمل آزادی رائے کا کوئی وجود ہے؟
آزادی رائے کا تصور اپنے نظریے کے لحاظ سے ناقص ہے اور اپنے نفاذ کے لحاظ سے اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس کا نفاذ ناممکن ہے اور تاریخ میں کبھی بھی کہیں بھی یہ نافذ نہیں ہوا یہاں تک کہ آج کے لبرل معاشروں میں بھی نافذ نہیں ہوسکا۔
مثال کے طور پر جب حال ہی ایک فلم جس میں رسول کی توہین کی گئی تھی تو اس عمل کے دفاع میں وائٹ ہاؤس نے کہا "اس ملک میں آزادی رائے کو ہم ختم نہیں کرسکتے اور نہ کبھی ختم کریں گے ''۔ پھر سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ '' ہمارے ملک میں آزادی رائے کی روایت ایک تاریخی رسم ہے۔ہم شہریوں کو رائے کا اظہار کرنے سے نہیں روکتے اس کے باوجود کہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں''۔ ان جذبات کا اظہار یورپ اور آسٹریلیا کے رہنماؤں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
لیکن یہ بیانات بالکل درست نہیں ہیں۔ آزادی رائے بغیر کسی روک ٹوک کے قطعی طور پر وجود نہیں رکھتی ۔ توہین کرنے کی کوئی مکمل آزادی نہیں ہے۔مغربی لبرل یورپ میں ہم توہین کے خلاف قوانین ، بغاوت انگیز تقریر کے قوانین، پیشہ ور معیاراور سیاسی اور نامور لوگوں کے بارے میں اور ان کے بیانات کے حوالے سے صحافتی معیار دیکھتے ہیں۔ جرمنی میں ہولوکاسٹ کا انکار ممنوع ہے۔ برطانیہ میں پبلک آرڈر ایکٹ میں دھمکی، گالی اور توہین آمیز الفاظ ایک جرم ہے۔آسٹریلیا میں کامن ویلتھ کریمنل کوڈ کے مطابق اگر کوئی شخص ڈاک یا اس جیسی کسی بھی سہولت کو اس طرح سے استعمال کرتا ہے کہ کوئی بھی مناسب شخص اسے توہین سمجھے تو یہ عمل جرم تصور کیا جائے گا۔
جہاں تک عملی مثالوں کی بات ہے تو اس عمل میں ہمیں کئی لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں جن کو زبان درازی کی وجہ سے سزا دی گئی۔ برطانیہ میں اظہر احمد کو 2012 میں اس لئے مجرم قرار دیا گیا کیونکہ اس نے اس نےصریحاً توہین آمیز پیغامات بھیجے تھے۔ اظہر احمد نے فیس بک پر افغانستان میں قتل ہونے والے ایک برطانوی سپاہی کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ " سب سپاہوں کو مرنا چاہیے اور جہنم میں جانا چاہیے"۔ ڈسٹرکٹ جج جین گوڈون جب اسے سزا دینے کے نتیجے پر پہنچا تو اس نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا کہ اصل امتحان یہ تھا کہ جو کچھ لکھا گیا کیا وہ ہمارے معاشرے کی قابل برداشت حد سے باہر ہے۔ آسٹریلیا میں ایک مسلمان آدمی کی جانب سے مارے گئے سپاہیوں کے خاندانوں کو بھیجے گئے خطوط کو توہین آمیز اور غلط خیال کیا گیا اور اسے اوپر بیان کیےگئے کریمنل کوڈ قانون کے مطابق مجرم قرار دیا گیا ۔ یہ ان بہت ساری مثالوں میں سے صرف دو مثالیں ہیں۔
آزادی رائے ایک سیاسی ہتھیار
آزادی رائے کا اصول جس کے بارے میں نے بحث کی، اسے مخصوص معاملات میں ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب مسلمانوں کی مقدس شخصیات کی توہین کی جاتی ہےتو ہمیں آزادی رائے کے متعلق سمجھایا جاتا ہے اور یہ بتا یا جاتا ہے کہ یہ معاملہ آزادی رائے کا ہے۔ لیکن جب مسلمان اور دوسرے توہین کریں تو انھیں قانون کی طاقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کون یہ فیصلہ کرے گا کہ آزادی رائے کب، کہاں اور کیسے لاگو ہوتی ہے؟ اصل سوال پھر آزادی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس بارے میں ہے کہ طاقت کس حد تک جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ طاقت کےمتعلق ہے جسے ہر جگہ استعمال کرنے اور نافذ کرنے کے لئے آزادی کے نعرے کو استعمال کیا جاتا ہے۔
بہت زیادہ لبرل یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان سارے قوانین اور واقعات سے اتفاق نہیں کرتے اور سب کے لئے مکمل اور قطعی آزادی رائے کے قائل ہیں لیکن کیا یہ مؤقف معاشرے کے لیے ممد ہو گا؟ کیا ہم ایسی زبان کو قبول کریں گے جب سفیدفام سیاہ فام کے لیے "n word'' استعمال کریں؟ یا کوئی ایک آدمی ایک پرہجوم تھیٹر میں یہ چلائے کہ ''آگ!'' یا کوئی شاگر اپنے استاد کی یا کوئی اولاد اپنے والدین کی بے عزتی کرے؟ ہر شخص اپنے بچوں کو دوسروں کی عزت کرنا سکھاتا ہے نہ کہ بے عزتی کرنا۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ توہین محض توہین، نفرت اور تلخی کو جنم دیتی ہے۔ کیا اس قسم کا معاشرہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں؟
کچھ لوگ شاید بھول جاتے ہیں کہ مغربی تہذیب میں بھی آزادی رائے کو ایک انتہائی بنیادی قدر کے طور پر رکھا گیا تا کہ کچھ مخصوص معاملات کو انجام دیا جاسکے جیسا کہ نت نئے خیالات پیش ہوں، سچائی کو جاننے کے لئے اور حکومتوں کا احتساب کرنے کے لئے۔ کیا ان عالی ظرف مقاصد میں سے کسی ایک کے لئے بھی - کہ جن کو اسلام بھی برقرار رکھتا ہے - بے عزت کرنے یا توہین کرنے کی آزادی کی ضرورت ہے؟ اور کیا توہین کرنا ، حقیقت میں، انہی مقاصد کے حصول کو شکست نہیں دیتا؟ دوسروں کے عقیدے کی توہین کرنا انہیں اپنے مؤقف کے حوالے سےسوچنے سمجھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔ بلکہ یہ انہیں مورچہ بند ہونے، دفاعی طرز عمل اختیار کرنے اور بدلے کے لئے تیار رہنے والا بنا دیتا ہے - یہی انسانی فطرت ہے۔
سیکولر لبرل ازم
لیکن ہمیں سچ بولنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ دوسرے کی توہین کرنے کی آزادی پر بحث اس لئے ہو رہی ہے کیونکہ سیکولر لبرل ازم مشرق و مغرب ، ہر جگہ بالادست ہے اور یہ بالادستی اس کی اقدار کی مضبوطی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی افواج کی مضبوطی کی وجہ سے ہے۔ مسلم دنیا نے سیکولر لبرل ازم کا مقابلہ کیا اور کر رہی ہے۔ لیکن عیسائیت اور یہودیت، جو سیکولرازم کی طاقت کے سامنے شکست کھا گئی، کے برعکس اسلام نے شکست تسلیم نہیں کی۔ اسلامی سر زمینوں کو تقسیم کردیا گیا، انہیں اپنی نو آبادی (colony) بنایا گیا، ان پر قبضہ کیا گیا اور ان کا استحصال کیا گیا۔ اسلامی ریاست، خلافت کو اگرچہ ختم کردیا گیا لیکن اسلامی فکرباقی رہی۔ یہ توہین اسی لیے کی جاتی ہےکہ اس مزاحمت کو توڑدیا جائے تاکہ سیکولر لبرل ازم کو نافذ کردیا جائے اور ہمیشہ کے لئے اپنی فتح کو مستحکم کردیا جائے۔
مغرب بشمول آسٹریلیا نے مصر کے وحشی آمر حسنی مبارک کی حمائت کی۔کیا مغرب ایسے بلند اخلاقی مقام پر کھڑا ہے کہ وہ دوسروں کو تشدد یا اقدار کے حوالے سےنصیحت کرے؟ یہ "آزاد دنیا'' باقی ساری دنیا پر اپنی فوجی، سیاسی، اور علمی تشدد کی بنیاد پر غالب ہونا چاہتی ہے۔ مشتشرقین یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان متشدد، زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے اور اپنے معاملات کو خود سنبھالنے سے قاصر ہیں لہٰذا انھوں نے حسنی مبارک اور شاہ عبداللہ جیسے آمروں کی حمائت کی، جنگوں کے ذریعے پورے کے پورے ملکوں کو تباہ کیا اور اس مقصد کے لئے بغیر انسانی پائلٹ کے اڑنے والے ڈرون طیاروں کی مدد سے یمن اور پاکستان میں بلا تفریق لوگوں کو قتل کیا۔ یہ ہے وہ وسیع اشتعال انگیز سیاق وسباق ہے جس پر مسلمانوں کا توہین کے خلاف ردِ عمل آتا ہے۔ یہ ہے وہ مقام جہاں بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
جب بات آتی ہے تنقید کی جو توہین سے بالکل فرق چیز ہے، تو میں کہوں گا کہ اسے سامنے لے آؤ۔ کوئی بھی ایسا قدم یا کوشش جو ایک اہم بحث کا گلہ گھونٹ دے، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ کسی بھی سوچ یا عقیدے پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ یہ حلال ہے۔ لیکن لوگوں کی یا ان کے عقیدے کی توہین نہیں کی جاسکتی۔ تنقید کرو اسلام پر جتنا چا ہو۔ ایک مہذب طریقے سے اسلام کے متعلق لکھو کہ کیوں یہ حق نہیں ہے یا کیوں پیغمبر، پیغمبر نہیں ہیں۔ اس قسم کی کتابیں مغرب میں بھری پڑی ہیں اور کبھی بھی ان کتابوں کے نتیجے میں فسادات نہیں ہوتے لیکن مذاق اڑانا ، توہین کرنا ، غصہ دلانا یہ تنقید سے الگ ایک بات ہے اور ناقابل قبول ہے۔
ہر کوئی ایسی حدود رکھتا ہے جو وہ کبھی پار نہیں کرتا۔ دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت چند معاملات، کہ جنہیں وہ عزیز رکھتی ہے، کے حوالے سےحساس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرآسٹریلیا کی تہذیب میں حضرت عیسی علیہ اسلام پر تنقید کرنا کوئی برائی نہ ہو لیکن ANZAC پر تنقید نہیں ہوسکتی۔ جدیدیت نے تقدیس کا تصور توختم نہیں کیا ، فقط اس نے اسے مذہب سے دنیا پر منتقل کرلیا ہے۔
سوچنے سمجھنے والے اور اپنی عزت کرنے والے لوگوں کے لیے دوسری تہذیبوں اور ان کے حامل افراد سے رابطہ کرنے کے لئے توہین کا طریقہ کار نا قابل قبول ہے۔ یہ خود ساختہ دانشوروں کا طریقہ کار ہے جن کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں اور نا ہی ان کا مقصد دوسروں کو سمجھنا ہے بلکہ ان کا مقصد صرف اپنے عدم تحفظ کی دوسروں کے سامنےتشہیر کرنا ہوتا ہے۔ توہین معاشرے کو کچھ نہیں دیتی سوائے نفرت کے۔
اس لئے تمام عقائد، مقدس شخصیّات اور کتابوں کو، بشمول اس کے کہ جو دنیا بھر میں اربوں کی تعداد میں موجود لوگوں کے لئے انتہائی مقدس ہے یعنی اللہ اور اس کے رسو لوں علیہم السلام کو، توہین سے تحفظ دینا چاہیے۔ ہماری موجودہ صورتحال میں یہ ایسے ہونا چاہیے کہ اقدار کو بلند ثابت کیا جائے نہ کہ قوانین کے نفاذ کی قوت کے ذریعے معاشرے کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ آپ اخلاق کو پابند نہیں کر سکتے۔ آپ لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ عزت کریں۔ یہ سب انسانی حالت کو بلند کرنے سے ہوگا، انسانی تہذیب کی ان مقدس اور بنیادی ترین اقدار کے احیاء سے ہو گا جنہیں سیکولر لبرل ازم نے ختم کردیا ہے۔

Read more...

سوال کا جواب: یوکرائن میں جاری واقعات اور بین الاقوامی مفادات

سوال:
20/2/2014 کو ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ یوکرائن کی سکیورٹی فورسز، جو کیف (دارالحکومت) میں آزادی چوک سے نکل چکی تھیں، اور حکومت مخالف احتجاج کرنے والوں کے درمیان تازہ ترین جھڑپوں میں کم ازکم 17 افراد ہلاک اور کئی ایک زخمی ہوگئے، احتجاج کرنے والوں نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا جس کو اور وزارت عظمی ٰکی عمارت کو خالی کرا لیا گیا تھا.....بدھ19/2/2014 کو یوکرائینی حکومت نے "دہشت گردی" کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا جس کا ہدف حزب اختلاف تھا، جن کو انہوں نے 'سخت گیر' کے طور پر بیان کیا، اس کے سبب 26 افراد لقمہ اجل بن گئے اور آزادی چوک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا! لیکن کل 21/2/2014 کو یوکرائنی صدر اور حزب اختلاف نے معاملے کو دوطرفہ افہام وتفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کا اعلان کر دیا.....پھر آج 22/2/2014 کو یہ اعلان کیا گیا کہ یو کرائنی پار لیمنٹ نے صدر کو برطرف کرنے اور جلد ہی 25/5/2014 کو نئے سرے سے صدارتی انتخابات کرانے کے حق میں قرارداد پاس کی.....سوال یہ ہے کہ: کیا یہ واقعات مقامی ہیں، یعنی حکومت اور حزب اختلاف کے مابین؟ یا یہ بین الاقوامی ہیں کہ اس میں امریکہ، یورپی یونین اور روس کا ہاتھ ہے؟ کیا یہ بالآخر نیا نارنجی انقلاب ہے جو یوکرائن میں روسی اثرو رسوخ کو امریکی مفادات کی خاطر ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا، جیسا کہ پہلے انقلاب میں رونما ہوا تھا؟ اور کیا روسی رد عمل کی توقع ہے جیسا کہ 2010 میں ہوا تھا؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب:
مندرجہ ذیل امور سے جواب واضح ہو جائے گا:
1۔ یوکرائن پر روس اور یورپ کے درمیان رسہ کشی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تاریخ میں دوسرے ممالک جیسے روس اور خلافت عثمانیہ نے اسے، بالخصوص کریمیا اور پولینڈ کو آپس میں تقسیم بھی کر رکھا تھا.....پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب اور اس کے ایجنٹوں نے عثمانی ریاست کے خلاف سازشیں کیں جس کے نتیجے میں اس کا انہدام ہوا اور سوویت یونین کا ظہور ہو گیا.....پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نیٹو ممالک کاسر غنہ بنا جنہوں نے جنگ جیت لی اور یوں یوکرائن کے لیے رسہ کشی کرنے والے ممالک: مغرب اور سوویت یونین بن گئے، جس نے پولینڈ کو بھی اپنی جمہوریتوں میں ضم کر دیا اور یوکرائن کو بھی۔ یوکرائن ان 15اہم جمہوریتوں میں سے ایک ہے جو سوویت یونین کے سابقہ ممبر ریاستیں تھیں.....سوویت یونین کے زوال کے بعد یوکرائن کے لیے رسہ کشی کرنے والے ممالک: روس ، امریکہ اور یورپی یونین بن گئے۔ ان میں سے ہر ریاست یوکرائن کو بھر پور اہمیت دیتی ہے:
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو یوکرائن اس کے لیے اہم ترین علاقوں میں سے ہے اگر وہ اس کو کھو دے تو مغرب براہ راست اس کی سرحدوں پر ہو گا، اس لیے روس کے لیے یورپی سمت سے یہ حفاظتی ڈھال کی طرح ہے۔ اس کی اقتصادی اہمیت اس کے علاوہ ہے،جہاں سےمغرب کو جانے والی روسی گیس کی پائپ لائنیں گزرتی ہیں، اسی طرح یوکرائن روس کے لیے اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے صنعتی، زرعی اور توانائی کے شعبے روسی اشتراک سے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں، چونکہ یہ روس اور یورپ کو جدا کر نے والا خطہ ہے اس لیے روس کی جانب سے یو کرائن کو کھونے سے یورپ عملا َ َروس کے دروازے پر ہو گا کیونکہ یوکرائن ماسکو سے صرف 300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ہے روس کی یوکرائن میں مداخلت کا سبب۔ ایک عامل اور بھی ہے جس کی وجہ سے روس یوکرائن کو انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ یہ کہ مشرقی یوکرائن کے باشندوں کی بھاری اکثریت تقلید پسندنظریے کی پیروکار ہے اور روسی زبان بولتی ہے۔ یہ تو ایک لحاظ سے تھا جبکہ ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ روس کے بحر اسود کے فوجی اڈے کے جنگی جہازوں کا بیڑہ یہاں موجود ہے۔
یورپ کا جہاں تک تعلق ہے تو یوکرائن روس اور مشرقی یورپ کو جدا کرنے والی دیوار ہے۔ اس کی سرزمین سے گزر کر 80 ٪ روسی قدرتی گیس یورپ جاتی ہے جوکہ یورپ کے ایندھن کا ایک چوتھائی ہے۔ اس لیے یہ یورپ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ 2004 میں پولینڈ کے یورپی یونین کا رکن بننے کے ساتھ، جس کے بعد رومانیہ اور بلغاریہ بھی یونین میں شامل ہو گئے، یو کرائن یورپی یونین کے ممالک کا ہمسایہ بن گیا اور یورپ کے لیے بڑی اہمیت اختیار کرگیا۔ یہ ایک طرف یورپ اور روس کے درمیان پُل ہے اور دوسری طرف ان کے درمیان جدائی کر نے والا علاقہ ہے۔
امریکہ کا جہاں تک تعلق ہے، یوکرائن اس کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، امریکہ روس کے زیر اثر خطے کا محاصرہ کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے، اسی طرح یو کرائن کی بندرگاہیں نیٹو اور اس کے بحری بیڑوں کے بحر اسود میں داخلے کے لیے بہت اہم ہیں۔ یوکرائن میں امریکی بالادستی کا مطلب خطے اور خصوصا مشرق وسطیٰ میں امریکی منصوبوں کو ناکام بنانے سے روس کو باز رکھنے کے لیے مسلسل اس کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور اس پر دباؤ ڈالنا ہے۔
2۔ امریکہ کی جانب سے یوکرائن کو نیٹو کا رکن بنانے کے اہتمام اور یورپ کی جانب سے یوکرائن کو یونین کا ممبر بنانے کے بندو بست کے نتیجے میں مغرب نے 2004 میں نارنجی انقلاب اور 2005 کے انتخابات کی پشت پناہی میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا.....اور چونکہ ابھی روس کو سوویت یونین کے سقوط کے زخموں سے چھٹکارا پانا تھا.....اس سب کے نتیجے میں مغرب نارنجی انقلاب کے اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجے میں یانوکووچ (Yanukovych) کو شکست سے دوچار کیا، جو کہ 2005 کے انتخابات میں روس کا نامزد کردہ تھا۔ یوں مغرب، خاص کر امریکہ کا نامزد امیدوار یو شینکو (Yushchenko) جمہوریہ کا صدر بننے میں کامیاب ہو گیا۔ پس مغربی بالادستی نے روسی بالادستی کی جگہ لے لی۔
3۔ پے در پے ایسے واقعات رونما ہو نے لگے جن کے پس پردہ یوکرائن کو نیٹو اور یورپی یونین میں شامل کرنے کے منصوبے تھے اور امریکہ نے موقع سے فائدہ اٹھایا ۔ روس 2005 کے انتخابات میں اپنے وفادار حکمران سے ہاتھ دھو بیٹھا اور یورپ اگر چہ یوکرائن کو یورپی یونین میں شامل کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے لیکن یونین بدستور مشرقی یورپ کے ان ممالک کی مشکلات سےدوچار ہے جن کو یونین میں شامل کیا گیا تھا.....یوں 2005 کے انتخابات کےنتائج سے فائدہ اٹھانے اور اپنے ایجنٹ وکٹر یو شینکو کو کامیاب بنانے کے لیے حالات امریکہ کے لیے ساز گار تھے۔ اسی لیے امریکہ نے اس کی حکومت کے دوران یوکرائن اور مغرب کے درمیان گٹھ جوڑ میں جلدی میں اس دورانیے سے فائدہ اٹھا یا۔ یو شینکو اپنی حکومت کے دوران روس کے بحر اسود کے بیڑے کو 2017 میں روس کے ساتھ فوجی معاہدے کے ختم ہونے پرSevastopol سے بھگا نے کی دھمکی دیتا رہا، یوشینکو یوکرائن کو مکمل طور پر مغربی اداروں جیسے یورپی یونین اور نیٹو میں مدغم کر نے کی اپنی خواہش کو چھپاتا بھی نہیں تھا،کیف (Kiev)نے یورپی یونین میں شمولیت کے معاہدے کے لیے مذکرات بھی شروع کر دیے، نیٹو میں رکنیت کے لیے لائحہ عمل دینے کا مطالبہ بھی کیا.....اس وجہ سے ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے نارنجی انقلاب کی پشت پناہی میں کس طرح ایڑی چوٹی کا زور لگا یا جس کے نتیجے میں یو شینکو اقتدار پر براجمان ہوا اور یوکرائن اس عرصے میں امریکہ کا اہم اسٹریٹیجک پارٹنر بن گیا، امریکہ اس کو معاشی امداد بھی دیتا رہا، یہاں تک کہ یوکرائن امریکہ سے امداد لینے والے ملکوں کی فہرست میں اسرائیل اور مصر کے بعد تیسرے نمبر پر آگیا۔ اس کا مقصد یوکرائن کا روس پر معاشی اعتماد کو ختم کرنا تھا.....
4۔ اس صورت حال کا روس پر گہرا اثر ہوا بلکہ وہ اپنے مفادات کو ضرب لگنے کی وجہ سے مشتعل ہوا۔ 2004 میں یوکرائن میں نارنجی انقلاب برپا ہو نے کے بعد یوکرائن کی جانب سے یورپی یونین اور نیٹو میں رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں سے روس کے ساتھ اس کے تعلقات بگڑ گئے تھے، اسی طرح یوکرائن کی جانب سے Sevastopol میں لنگر انداز روسی بحری بیڑے کے بارے میں مؤقف اور قدرتی گیس کے حوالے سے اختلافات بھی ان تعلقات کے بگڑنے کےاسباب تھے، لیکن روس دو بنیادی اسباب کی بنا پر 2005 کے انتخابات کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات کے سامنے ڈٹ جانے کے قابل نہیں تھا۔ پہلا سبب: وہ سوویت یونین کے سقوط کے زخموں سے مکمل طور پر شفایاب نہیں ہو پایا تھا، دوسرا سبب: امریکہ اور یورپ کو اپنی سیاسی اور معاشی صورت حال میں کسی مشکل کا سامنا نہیں تھا، مزید یہ کہ طرفین کی ترجیحات میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا: امریکہ چاہتا تھا کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو اور یورپ کی خواہش تھی کہ یوکرائن یونین میں شریک ہو۔ اس وقت ان ترجیحات کے درمیان کوئی بڑا فرق نہیں تھا.....ان دو عوامل نے امریکہ اور یورپ کو مل کر یوکرائن کو روس سے دور کرنے کے اقدامات کر نے کی شہ دی جبکہ اس وقت روس اپنی دیگر گوں صورت حال کی وجہ سے مزاحمت پر قادر نہیں تھا.....
5۔ تاہم 2007 کے اواخرسے اور خاص کر 2008 میں صورت حال اس وقت تبدیل ہو گئی، جب امریکہ اور یورپ اقتصادی بحران میں ڈوب گئے جبکہ روس نے کسی حد تک سیاسی اور اقتصادی استحکام حاصل کر لیا، یوں اس صورت حال نے روس کو نارنجی انقلاب کے بعد بننے والی یوکرائن کی نئی حکومت کو تنگ کرنے، خاص کر گیس کے ذریعے اقتصادی طورپر اس کو ستانے کے لیے مہمیز دی،کیونکہ وہ مطمئن تھا کہ امریکہ اور یورپ اپنے بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ روس نے یوشینکو حکومت کے خلاف ماحول کو گرمانے ،خاص کر یوکرائن کے مشرقی علاقوں اور کچھ دوسرے روس نواز علاقوں میں بھر پور کوشش کی.....گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور اس کو بند کرنے نے یوکرائن کی مغرب نواز حکومت کے خلاف موثر ہتھیار کا کام کیا، اس کے علاوہ مشرقی یوکرائن میں اپنے ہمنواؤں کو متحرک کیا یہاں تک کہ 2010 کے انتخابات تک یوکرائن میں لوگوں کی بڑی تعداد مغرب نواز حکومت سے بیزارہوچکی تھی، یوں انتخابات کے نتائج روس کے حق میں تھے اور یانوکوویچ دوبارہ حکمران بن گیا، تب روس نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ یانوکوویچ نے توانائی کے میدان میں ماسکو کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کر دیے، دوطرفہ اقتصادی تعاون پائیدار ہو گیا اور صحافت،نشر و اشاعت، تعلیم، زبان اور ثقافت کے شعبوں میں تعلقات کو مضبوط کیا ، یانوکوویچ نے قدرتی گیس کی قیمتوں میں کمی کے بدلے روس کے بحر اسود کے بیڑے سے متعلق نئے معاہدے کے اجراء کا اشارہ دیا، جس کو بعد میں عملی جامہ پہنایا گیا۔
یوں انتخابات کے نتائج روس کے حق میں نکلے اگر چہ فرق زیادہ نہیں تھا لیکن نتائج بہر حال یوشینکو سے لوگوں کی ناراضگی کی عکاسی کرتے تھے،پہلے مرحلے کے نتائج کے مطابق اس نے 5.33 ٪ ، یولیا ٹیمو شینکو نے تقریبا 25 ٪ اور وکٹور یانوکوویچ نے تقریبا 35.5٪ ووٹ لیا،چنانچہ اتخابات دوبارہ کر وائے گئے اور دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو اتو یا نوکوویچ نے 49 ٪ ووٹ کے ساتھ 3 ٪ کے فرق سے مغرب کی نامزدکردہ ٹیمو شینکو جس نے 46 ٪ ووٹ لیا تھا، پر برتری حاصل کی،یوں روس فروری 2010 میں یوکرائن میں اپنے آدمی ویکٹوریانوکوویچ کو برسر اقتدار لانے میں کا میاب ہو گیا، یہ ملک کا چوتھا صدر اور روس کا زبردست حامی ہے، تب سے امریکی اثرورسوخ زوال کا شکار ہو گیا اور یوکرائن روس کے ساتھ تعلقات استور کر نے کی راہ پر گامزن ہو گیا۔
معمولی فرق کے باوجود روس نے ان نتائج سے مؤثر طریقے سے فائدہ اٹھا یا، صدر یانوکوویچ نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد دو ماہ سے بھی کم عرصے میں خارکیف میں 21/4/2010 کو روسی صدر مید ویدیف سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں بحر اسود کے روسی بیڑے کے معاہدےکی مدت جو 2017 کو ختم ہو رہی تھی ،میں مزید 25 سال کی توسیع کر دی جو 2042 میں ختم ہو گی، جس کے بدلے روسی کمپنی گیس پروم نے 2009 میں انجام پا نے والے معاہدے کی باقی ماندہ مدت کے لیے قدرتی گیس کی قیمتوں میں 100 ڈالر فی ہزار مکعب میٹر کمی کر دی۔
6 ۔ یانوکوویچ بہت تیزی سے روس نوازی میں آگے بڑھتا رہا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ سمجھ ہی نہ سکا کہ ووٹ کے 3 ٪ کے اس معمولی فرق کا یہ مطلب ہے کہ مغرب کے آلہ کاروں کا یوکرائن میں بدستور اسی طرح وزن ہے جیسا کہ روس نوازوں کا وزن ہے.....پھر وہ اس غلط فہمی کا بھی شکار رہا کہ امریکہ اور روس کے درمیان دوسرے عالمی مسائل میں ہم آہنگی، شاید امریکہ کی جانب سے یورپ کی تائید کی راہ میں حائل ہو جائے گی جب وہ اس مغرب نواز تجارتی معاہدے سے، جس کے لیے بات چیت جاری تھی، پیٹھ پھیر لے۔ ایسا ہی ہواکہ اس کا یہ گمان غلط ثابت ہوا، اس کے گمان نے اس کو دھوکہ دیا، امریکہ اگر چہ روس سے ہم آہنگی آگے بڑھا رہا تھا، لیکن وہ اسی وقت اس بات کو بھی اہمیت دے رہا تھا کہ یوکرائن میں نہ صرف قدم جمائے بلکہ نیٹو کے لیے اڈہ بھی قائم کرے! یعنی امریکہ اگر چہ یورپ کے لئے یوکرائن کواپنے ساتھ ضم کرنے کے راستے میں روکاوٹ بن جائے ، مگر یہ اس لیے نہیں کہ یوکرائن میں روسی اثرورسوخ کو جاری رکھا جائے بلکہ اس لیے کہ یوکرائن امریکہ کے گود میں جابیٹھے! اگر یانوکوویچ سیاسی اعتبار سے بیدار ہو تا، وہ اس بات کو اہمیت دیتا لیکن وہ ایسا نہیں تھا..... یوں یہ بحران شروع ہو گیا۔
7۔ قبل اس کے کہ ہم بحران پر بحث کریں پھر قتل و غارت کے رونما ہو نے اور پھر دوطرفہ حل .....اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی جانب سے صدر کو معزول کر نے پر بحث کریں.....وغیرہ وغیرہ۔ ہم یوکرائن میں دلچسپی لینے والے تینوں ممالک کے مؤقف کو بیان کریں گے تا کہ یہ بالکل واضح ہو جائے کہ یوکرائن میں پیش آنے والے واقعات میں ان ممالک کا کر دار کیا ہے اگرچہ ان میں ہر ایک کا حالات کے لحاظ سے سرگرم یا ہلکا پھلکا کردار ہے، ان میں سے ہر ملک کے مفادات کا تقاضا کیا ہے، یہ مؤقف مندجہ ذیل ہے:
ا۔ روس : روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے 25 جنوری 2014 کو یورپی سربراہ کانفرنس کے موقع پر یورپی یونین پر تنقید کی، حکومت مخالف احتجاجات کے دوران یورپی یونین کی جانب سے اعلی سطحی وفد یوکرائن بھیجنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا "اس کو سیاسی مداخلت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے" اور برسلز میں اس سربراہ کانفرنس کے اختتام کے موقع پر اس نےکہا: "اگر ہمارا وزیر خارجہ یونان یا کسی بھی ریاست کے بحران کے حوالے سے کسی ایسے اجتماع میں شرکت کر ے جویورپی یونین کے خلاف ہو اور لوگوں کو کسی بھی کام کے لیے اکسا یا جا رہا ہوتو میں اپنے یورپی شرکاء کے رد عمل کا تصور کر سکتا ہوں" (یاہو نیوز 18/1/2014)، اسی طرح انٹر فیکس نے روسی وزیر خارجہ لاروف کا یہ قول نقل کیا کہ: "جب جان کیری یہ کہتا ہے.....یوکرائن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کر ے کہ وہ کس کے ساتھ ہو نا چاہتا ہے - پوری دنیا کے ساتھ یا ایک ریاست کے ساتھ، کیری - اپنے تجربے اور درست حس کے ساتھ - وہ آخری شخص ہے جس سے میں اس قسم کے پرو پگینڈے کی توقع کر سکتا ہو"، 01/2/2014 کو برطانوی نشریاتی ادارے نے کہا کہ روسی وزیر خارجہ لاروف نے کہا: "سڑکوں پر پُرتشدد مظاہروں پر اکسانے کا جمہوریت سے کیا تعلق ہے؟.....کیوں اعلی پائے کے یورپی سیاست دان آخر اس قسم کے کاموں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، وہ اپنے ملکوں میں اس قسم کی قانون شکنی پر فورا ً سخت سزائیں دیتے ہیں ؟" روس نے یوکرائن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو حکومت کے خلاف "انقلاب کی کوشش" سے تعبیر کیا اور وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے یوکرائن کے خونی واقعات کی ذمہ داری بعض یورپی ممالک پرڈال دی، اور مغرب سےاس بحران میں ثالث نہ بننے کا مطالبہ کیا، (19/2/2014 الجزیرہ)، 6/2/2014 کو رائٹرز ایجنسی نے روسی صدر کے مشیر اور یوکرائن کے ساتھ تعلقات کےذمہ دار گلازییف کا اخباری بیان نقل کیا جس میں اس نے زور دے کر کہا کہ امریکی "مداخلت " 1994 میں طے پانے والے اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کی رو سے واشنگٹن اور ماسکو نے یوکرائن کے اقتدار اعلیٰ کی حفاظت کی ضمانت دی ہے اور اس قسم کے ہنگامے پھوٹنے کی صورت میں لازمی مداخلت کریں گے، یہ سوویت دور کے اپنے ایٹمی شیلڈ سے دستبردار ہونے کے بعد تھا، روسی عہدہ دار نے کہا کہ "اب جو کچھ امریکی کر رہے ہیں یہ یوکرائن کے اندرونی معاملات میں کھلی یکطرفہ مداخلت اور اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے جو اجتماعی ضمانت اور مل کر کام کرنے کی بات کر تا ہے" (رائٹرز، الجزیرہ ایجنسیوں سے 6، 7 /2/2014 )۔
ب ۔ یورپی یونین : پولینڈکے وزیر خارجہ رادو سلاف نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ یورپی یونین کی جانب سے ذمہ داری ملنے پر کیف روانہ ہو چکے ہیں تاکہ وہاں کے بحران کو ختم کرنے کی کوشش کریں، پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ پیوٹر سیرافن نے اعلان کیا کہ یورپی یونین کے اندر اس بات پر اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے کہ یوکرائن کے عہدہ داروں پر پابندیاں عائد کی جائیں، فرانسیسی صدر فرانسو ہولاندی کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران جرمن چانسلر میرکل نے کہا کہ "یورپی وزراء خارجہ جمعرات 20/2/2014 کو اس بات پر بحث کریں گے کہ کس قسم کی پابندیاں تجویز کی جائیں کہ جس سے اس بات کا اظہار ہو کہ یورپ یوکرائن میں سیاسی منزل کی واپسی چاہتا ہے" یورپی یونین نے دو ماہ سے زائد عر صہ سے جاری یورپ سے قرابت داری کے حامی مظاہروں کو ختم کرنے کی صورت میں یوکرائن کے لیے امدادی پیکج دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ یہ پیش کش یونین کی خارجہ سیاست کی ذمہ دار کیتھرائن آشٹن کی کیف میں صدر یانوکوویچ اور ان اپوزیشن راہنماوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کی ہے جو صدر کی برطرفی کے مطالبے پر ڈٹے ہو ئے ہیں۔
اس کی حمائت میں اپوزیشن لیڈر ویٹالی کلیچکو نے یورپی یونین کو اس گہرے سیاسی بحران میں، جس سے ان کا ملک دو چار ہے، ثالث بننے پر زور دیا۔کلیچکو نے مزید کہا کہ آشٹن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یورپی یونین اپوزیشن لیڈروں اور حکومت کے درمیان مذکرات میں ثالثی کے لیے اعلی سطحی وفد بھیجے گا، (5/2/2014 الجزیرہ)، 31 جنوری 2014 کو جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی امن سربراہی کانفرنس میں بھی یوکرائن کا موضوع چھایا رہا، یورپی کمیشن کے سربراہ ہرمان وان رومپوی (Herman Van Rompuy)نے کہا: "پیشکش بدستور قائم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ہمارے لیے سازگار ہے، یوکرائن کا مستقبل یورپی یونین کے ساتھ ہے"، رائٹرز ایجنسی نے خبر دی کہ جرمنی، پولینڈ اور فرانس کے وزراء خارجہ یوکرائنی صدر کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، سفارتی ذرائع کے مطابق ابھی وہ وہاں سے نہیں گئے ہیں، ایک سفارتکا رکا یہ قول نقل کیا کہ "وہ اب ان کے ساتھ ملاقات میں ہیں" یہ کئی ماہ سے جاری بحران کوختم کرنے کے لیے ان کی کوشش ہے۔ (رائٹرز 20/2/2014)۔
اسی سلسلے میں ارسینی جو کہ گرفتار اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم یولیا ٹیموشینکو کے حلیف ہیں اور قد آور اپوزیشن لیڈر اور باکسنگ کے سابق چیمپئن ویٹالی کلیچکو نے جرمن چانسلر انجیلا میرکل سے برلن میں ملاقات کی ، کلیچکو نے کہا کہ جرمنی اور یورپی یونین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یوکرائن کے بحران کے حل کی تلاش میں قائدانہ کردار ادا کریں،کلیچکو نے اس پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یوکرائنی عوام کی مالی امداد اور یورپ کے ساتھ ویزے کے نظام کو ختم کرنے یا اس میں نرمی کرنے کے مثبت پروگرام کے ساتھ مغرب کو چا ہیے کہ وہ یانوکوویچ پر دباؤبھی ڈالے، اس کے ساتھ میرکل نے کیف سے نئی حکومت تشکیل دینے اور دستور میں اصلاح کا مطالبہ کیا اور ایک بیان میں کہا "مظاہرین کو رہا کرنے پر اتفاق مثبت قدم ہے اور اس سمت میں مزید مثبت اقدامات کی ضرورت ہے" (الجزیرہ 18/2/2014)۔
ج ۔ امریکہ : رائٹر نے 7/2/2014 کو واشنگٹن سے خبر دی کہ : " یوٹیوب پر نشر ہو نے والی امریکی وزارت خارجہ کے عہدہ دار اور یوکرائن میں امریکی سفیر کے درمیان بات چیت سے اس ملک میں سیاسی انتقال اقتدار کے بارے میں امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے"، مزید کہا کہ "اس بات چیت میں جو 4/2/2014 کو یوٹیوب پر نشر ہوئی ، اس میں معاون امریکی وزیر خارجہ وکٹوریا نولینڈ نے کیف میں امریکی سفیر جیفری پایات کو پیغام دیا کہ ویٹالی کلیچکو جو کہ سابق باکسنگ چیمپئن ہے اوراب سیاست میں آیاہے اور اہم اپوزیشن لیڈر ہے ، وہ نہیں سمجھتی کہ اس کو نئی حکومت میں ہو نا چاہیے"، اس کے باوجود کہ کلیچکو کو یورپ میں خوش آمدید کہا گیا خاص کر وہ یورپی وفد جس نے یوکرائنی صدر اور اپوزیشن سے ملاقات کی اور اپوزیشن لیڈروں میں سے ایک یہی کلیچکو ہے ، مگر امریکی معاون وزیر خارجہ ویکٹوریا نولینڈ نے امریکی سفیر کے ساتھ اپنی بات چیت میں یورپی یونین کی رائے کو پسند نہیں کیا اور کہا "یورپی یونین بھاڑ میں جائے"، نولینڈ نے کیف کے بحران کے سیاسی حل میں اقوام متحدہ کو شامل کرنے کا اشارہ دیا، اگر چہ نولینڈ نے اپنی بات پر معذرت کی، لیکن اس کا بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ یورپ سے مکمل متفق نہیں۔
اوباما نے بھی یوکرائن میں پھوٹنے والے پرتشدد ہنگاموں کی مذمت کر تے ہوئے کیف حکومت کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا ذمہ دار قرار دیا، حکومت سےصبر سے کام لینے اور ایسے معاملات میں عسکری قوت استعمال نہ کرنےکا مطالبہ کیا، جن کو مہذب طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے، تاہم امریکی صدر نے مظاہرین سے بھی کہا کہ وہ پر امن رہیں اور یہ جان لیں کہ تشدد کوئی طریقہ کار نہیں، یہ اس وقت کہا گیا جب وائٹ ہاوس نے اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرائن میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، امریکی صدر کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر بین روڈس (Ben Rhodes) نے کہا کہ امریکی انتظامیہ ان ضروری اقدامات کے لیے یورپی یونین کے ساتھ مشاورت کر رہی ہےجن میں سے یہ بھی ہے کہ یوکرائن پر پابندیاں لگائی جائیں، (البوابہ نیوز 20/2/2014)۔
اسی طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ : "جمہوری یورپ کے مستقبل کے لیے یوکرائن میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے زیادہ اہم کشمکش کہیں نہیں ہو سکتی، امریکہ اور یورپی یونین اس معرکے میں یوکرائنی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں"، (بی بی سی: یوکرائینی انتشار-1/2/2014 )۔
ان مواقف اور بیانات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ :
روس یوکرائن کو اپنے لیے موت و حیات کا مسئلہ سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ صدر کی معاشی مدد میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ ان احتجاجات کے دوران ہی روس نے منگل 17 جنوری کو یوکرائن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی روسے قدرتی گیس کی سپلائی میں 33 ٪ رعایت ملے گی جو ہر ہزار معکب میٹر پر 268 سے 400 ڈالر ہو گی، ماسکو نے 15 ارب ڈالر مالیت کے یوکرائن کے قرضوں کو خرید نے کی حامی بھر لی، (یاہو نیوز 18/1/2014)۔ یہ بات روسی نقطہ نظر سے یوکرائن کی اہمیت کو ثابت کرتی ہے کہ اس کے نمائندے نےجمعہ 21/2/2014 کو طے پانے والے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے شرکت نہیں کی حالانکہ یہ اس کی رضامندی سے طے ہو گیا تھا کیونکہ یانوکوویچ اس کی مرضی کے بغیر کسی معاہدےکو انجام نہیں دے سکتا تھا، لیکن روس نے اپنے نمائندے کو واپس بلا کر یہ تاثر دیا کہ معاملہ سنگین ہے اور وہ یوکرائن کے لیے اس کے علاوہ کوئی حل نہیں چاہتا کہ یوکرائن اس کا ہو.....! مزید برآں اس کا مقصد یوکرائن میں روس کے ان حامیوں کوبھی خوش کرنا تھا جو اس معاہدے سے خوش نہیں تھے.....
یورپی یونین تو اس موضوع میں مرکزی کر دار تھا، اس کے نمائندے آتے جاتے رہتے .....انہوں نے ہی معاہدے کے انتظام اور اس پر دستخط کی نگرانی کی، اپوزیشن کے ساتھ ان کے تعلقات عیاں ہیں اور اپوزیشن بھی واضح طور پر یورپ سے مدد مانگتی ہے بلکہ ان احتجاجات کا سبب ہی یانوکوویچ کی جانب سے یورپ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط سے انکار ہے۔
امریکہ کا مؤقف واضح ہے کہ وہ طرفین کو راضی کرنا چاہتا ہے: یعنی یورپ اور روس کو ۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ یوکرائن یورپی یونین سے باہر رہے مگر نیٹو میں شامل ہو کیونکہ نیٹو کی قیادت عملا ًامریکہ کے پاس ہے۔ یوکرائن کا یورپی یونین سے الگ رہنا روس کے جذبات کی ترجمانی ہے جبکہ یوکرائن ساتھ ہی روس - امریکی منصوبوں میں تعاون بالخصوص مشرق وسطیٰ میں روسی تعاون کو جاری رکھنے کے لیے امریکی دباؤ بر قرار رکھنے کاایک ذریعہ ہے۔
8۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ بحران کس طرح شروع ہوا ، کیا یہ نیا نارنجی انقلاب ہے جو مغرب کے مفاد میں روسی اثر و رسوخ کو ختم کر دے گا جیسا کہ 2004-2005 کے نارنجی انقلاب میں ہوا ، جب مغرب نے یوکرائن میں بالادستی حاصل کر لی؟ کیا روسی بالادستی کی واپسی متوقع ہے جیسا کہ 2010 کے انتخابات میں ہوا؟
اس مسئلے کو یوں سمجھا جاسکتا ہے:
ا۔ 21 نومبر کو فیلنیو (لیتوانیا) میں ہو نے والے ایسٹرن پارٹنر شپ سربراہی ملاقات میں یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے پر یوکرائن کی جانب سے دستخط طے شدہ بات تھی، لیکن یوکرائنی حکومت نے اس معاہدے پر دستخط سے انکار کر دیا اور اس کی جگہ سہ فریقی تجارتی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی جو یوکرائن، یورپی یونین اور روس پر مشتمل ہو، جس کی ذمہ داری تمام اطراف کے مابین تجارتی مسائل کو حل کر نا ہو، اس انکار کے نتیجے میں کیف کی سڑکوں پر احتجاج شروع ہو گیا.....پھر 15 دسمبر 2013 کو یوکرائن کے دار الحکومت کیف میں200,000 لوگ اکھٹے ہوئے اور حالات بے قابو ہو گئے.....
ب۔ اس کے بعد احتجاج میں اضافہ ہو تا رہا: مسلسل احتجاج..... آزادی چوک میں خیمے نصب کیے گئے.....بعض حکومتی عمارتوں پر قبضہ کیا گیا.....صدر سے استعفی یا اس کے اختیارات میں کمی کا مطالبہ سامنے آگیا.....2004 کے دستور کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا جوصدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیتا ہے.....گرفتار افراد کی رہائی خاص کر یولیا ٹیموشینکو کو رہاکرنے کا مطالبہ کیا گیا.....پھر 18، 19 ، 20 کو تشدد اور قتل و غارت کے واقعات رو نما ہوئے.....ساتھ ہی یوکرائنی حکومت نے 18/2/2014 کو "دہشت گردی" کے خلاف آپریشن کا اعلان کردیا جن کا ہدف حزب اختلاف تھا جن کو سخت گیر کہا گیا ، اس کے ساتھ سکیورٹی فورسز نے کیف میں احتجاجی مرکز پر دھاوا بول دیا، جس سے 26 افراد ہلاک ہو گئے.....
حکومت نے ایمرجنسی کا اعلان کر کے مظاہروں سے روک دیا اس کے بعد اپوزیشن کو وزارت عظمیٰ کی پیش کش کر کے حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی..... اس کے بعد آزادی چوک پر ہلہ بول دیا گیا، جس کے نتیجے میں قتل وغارت ہوا یہاں تک کہ 21/2/2014 کو اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے دوطرفہ بات چیت کے نتیجے میں ایک تصفیہ تک پہنچنے کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق وقت سے پہلے انتخابات اور دستور میں ترمیم کی جائے گی.....21/2/2014 جمعہ کے دن ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ یوکرائنی اپوزیشن میں سے تین قائدین نے صدر وکٹور یانوکوویچ کے ساتھ صدارتی محل میں یورپی یونین کے ثالثوں کی موجودگی میں بحران کو ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے جبکہ یوکرائن کے مذکرات میں ماسکو کا نمائندہ اپنے ملک چلاگیا اور اس معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت نہیں کی .....پھر آج 22/2/2014 کو پارلیمنٹ نے صدر کو برطرف کرنے اور وقت سے پہلے انتخابات کر نے اعلان کر دیا.....
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ یورپی یونین نے ہی بات چیت کے اجتماعات کا انتظام کیا تھا اور معاہدہ بھی ان کی وساطت سے ہوا مگر معاہدے پر دستخط ہو نے کے بعد سب سے پہلے اوباما نے پیوٹن کو فون کیا، امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلی عہدہ دار نے کہا کہ دونوں صدور اوباما اور پیوٹن نے ٹیلیفون پر "تعمیری" رابطہ کیا ہے جس کے دوران دونوں نے یوکرائن میں امن معاہدے کو جلد از جلد نافذ کر نے اور یوکرائن میں معاشی استحکام کے حصول پر زور دیا۔ امریکی عہدہ دار نے ٹیلیفون پر پریس کانفرنس کے ذریعے صحافیوں کو بتا یا کہ طرفین نے اس معاہدے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے پر اتفاق کر لیا جو طے پا چکا ہے، یہ بات سب سے اہم ہے کہ تمام اطراف تشدد سے باز آئیں، پر امن نتیجے تک پہنچنے کے لیے یہ حقیقی موقع ہے، (الجزیرہ 22/2/2014 صبح 03:3 GMT)۔
ج۔ رہی یہ بات کہ کیا یہ احتجاج وہی نئی نارنجی انقلاب ہیں جیسا کہ 2004-2005 کو رونما ہوا؟ اور کیا 2010 کی طرح روسی رد عمل کی توقع ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ حالات 2005 اور 2010 سے مختلف ہیں تینوں اطراف میں سے کسی ایک کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ساری ڈوریاں تھام لے اور اپنی مرضی کا حل ڈھونڈے، تصویر کو مزید واضح کر نے کے لیے ہم یہ دہرائیں گے:
۔ نارنجی انقلاب کے وقت روس سوویت یونین کے زوال کے اثرات سے باہر نہیں آیا تھا اور سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے ایک بڑی ریاست کے طور پر مستحکم نہیں تھا، اس وقت امریکہ اور یورپ ایک ہو کر نارنجی انقلاب کی پشت پناہی کر رہے تھے، امریکہ اور یورپ کے لیے یہ بات اہم تھی کہ یوکرائن روسی پنجے سے نکل آئے اس کے بعد یوکرائن میں طاقتور "امریکہ اور یورپ" کا پلہ بھاری ہو، امریکہ اس بات سے بھی مطمئن تھا کہ اس کا ایجنٹ یوشینکو بلامقابلہ توازن اس کے حق میں کر دے گا، یوں رسہ کشی طاقتور فریق "امریکہ اور یورپ" اورکمزور فریق روس کے درمیان تھی، اس لیے روس اپنے حامی صدر کی حمایت نہ کر سکا اور وہ 2005 کے انتخابات میں شکست کھا گیا اور یو شینکو جو کہ امریکہ کا آلہ کار تھا یوکرائن کا صدر بن گیا.....
۔ جہاں تک 2010 کی بات ہے تو روس کسی حد تک سنبھل چکا تھا، وہاں سیاسی اور اقتصادی استحکام آچکا تھا، جبکہ امریکہ اور یورپ معاشی بحران میں ڈوب چکے تھے اور بحران کی وجہ سے آخری سانسیں لے رہے تھے ۔ ایسی صورت حال میں روس یوکرائن میں مغرب نواز حکومت کو اقتصادی بحرانوں خاص کر گیس کے مسئلے میں پھنسانے میں کامیاب ہو گیا ساتھ ہی یوکرائن میں اپنے ہمنوؤں کو متحرک کیا ، اسی وجہ سے یوکرائن میں اس کا آدمی یانوکوویچ جیت گیا وہ بھی 3 ٪ ووٹوں کے فرق سے مگر روسی بالادستی لوٹ آئی۔
۔ اب تینوں طاقتیں داخلی بحران سے دوچار ہیں .....اس کے ساتھ امریکہ نہیں چاہتا کہ یوکرائن یورپ کے زیر اثر آئے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ یورپی یونین سے باہر یہ اس کی بالادستی کا مرکز بن جائے، اس لیے وہ اس کو اپنے منصوبوں خصوصا مشرق وسطیٰ میں روس کا تعاون حاصل کر نے کے لیے دباؤ کے وسیلے کے طور پر استعمال کر تا ہے۔ یوں یوکرائین کا یورپی یونین میں مدغم نہ ہو نا روس کو راضی کرے گا خواہ وہاں بڑا حصہ روس کی بجائے امریکہ کا ہو!
۔ لہذا اس بات کی توقع نہیں کہ تینوں میں سے کوئی ایک فریق یوکرائن کو اپنے پاس رکھے، کم ازکم مستقبل قریب میں ایسا نظر نہیں آتا، بلکہ مفاہمتی تصفیہ کی توقع ہے کہ صدر استعفی دے یا اس کو برطرف کیا جائے ،یا وقت سے پہلے صدارتی انتخابات ہوں، جس کے نتیجے میں ایساصدر آئے جو سب کے لیے قابل قبول ہو جس کے اختیارات محدود ہوں اور 2004 کے ترمیم شدہ دستور کے مطابق ہوں، یہ سرمایہ د اریت کا حل ہے یعنی درمیانہ حل۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ بعید از امکان ہے کہ یوکرائن میں نئی صورت حال خالصتا کسی ایک فریق کے حق میں ہو، اس وجہ سے یوکرائن میں جو بھی صدر آئے تین اطراف سے جکڑا ہوا ہو گا کم ازکم موجودہ وقت میں.....
۔لیکن یہ تصفیہ بارود کی طرح ہو گا، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے جس کے بعد ان تینوں میں سے کوئی ایک یوکرائن میں مکمل بالادستی حاصل کر سکتا ہے،یہ تینوں اطراف سرمایہ داریت کے حامل ہیں اور سرمایہ داریت منفعت پر قائم ہے،ان کے کوئی پائیدا ر اقدار نہیں، بلکہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں جو زیادہ خبیث، زیادہ پر تشدد اور زیادہ ظالم ہو گا وہی غالب آئے گا۔
۔یہی وجہ ہے کہ یہ مفاہمتی تصفیہ موجودہ حالات میں تینوں اطراف کو چپ کرنے کے سوا کچھ نہیں،جوں ہی صورت حال تبدیل ہو جائے گی معاملات پھربگڑ جائیں گے، یوکرائن میں استحکام اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک مسلمانوں کی خلافت قائم نہ ہو جائے جو کریمیا اور اس کے مضافات کو اپنے زیرنگیں کرے گی تب ہی معاملات میں استحکام آئے گا اور خیر دنیا کے گوشے گوشے تک پھیلے گا۔ اسلام تمام عالم کے لیے رحمت ہے جس کےقلم رو میں کسی پر ظلم نہیں ہو تا اور اللہ کے اذن سے کو ئی بھوکا یاننگا نہیں ہو گا، بلکہ ہر شخص باعزت ہو گا، کسی کی توہین نہیں ہو گی، ریاست کے تمام شہریوں کےاحکام شرعیہ کے مطابق فرائض اور حقوق ہیں چاہیں یہ رعایا مسلمان ہوں یا غیر مسلم ۔ ﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اللہ اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ ناسمجھ ہیں"۔

Read more...

رَبّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا  - التحریم: 11

 

تحریر: مصعب بن عمیر،پاکستان

صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی ہیں جو انسان میں جنت کے حصول کی خواہش کو جگا سکتے ہیں اور اُسے اِس قابل کر سکتے ہیں کہ اس کی نگاہیں اس دنیاکی زندگی کی لذتوں اور آسائشوں سے آگے کی اُس دنیا کو دیکھ سکیں جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور جس کی لذتیں اور آسائشیں بھی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ایسی مثال دیتے ہیں کہ انسانی ذہن اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اس کا دل اُسے پانے کی خواہش سے لبریز ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں اُسے دیکھنے کی تمنا میں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں ، وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لّلَّذِينَ امَنُواْ امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ وَنَجّنِى مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجّنِى مِنَ الْقَوْمِ الظَّـلِمِينَ "اور اللہ نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے" (التحریم:11)۔
سبحانہ اللہ کس قدر طاقتور مثال ہے فرعون کی بیوی، حضرت آسیہ بنت مزاحم کی! ان کی شادی اس گھر میں ہوئی تھی جہاں اس قدردولت کی فراوانی اور زبردست طاقت تھی کہ شاید ہی کوئی ایسی دولت اور طاقت حاصل کرسکے اگر وہ اپنی پوری زندگی بھی اس کے حصول میں خرچ کردے۔ وہ ایک پیار اور خیال رکھنے والی ماں تھیں اور اپنی اولاد سے بہت محبت کرتی تھیں لیکن انھیں اپنی اولاد کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا۔ لیکن اپنے ایمان کی خاطر انھوں نے اپنی نگاہیں اس جانب مرکوز کردیں جو اس بات کی زیادہ حقدار تھی یعنی کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جنت۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ، "زمین پر بسنے والے لوگوں میں فرعون سب سے زیادہ جابر اور ایمان کی دولت سے محروم تھا۔ اللہ کی قسم! اس کی بیوی اس کے کفر سے متاثر نہیں ہوئی تھی کیونکہ انھوں نے اپنے رب کی طابعدار ی کی تھی"۔ یہ اللہ کی اس جنت کی جانب نظریں مرکوز کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایک نازک اور کمزور عورت نے لوہے جیسے مضبوط ارادے کا مظاہرہ کیا۔ یہ ارادہ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں گزرے کئی جابر اسے توڑ نہ سکے! ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ سیلمان نے کہا کہ "فرعون کی بیوی پر سورج کی تپش میں تشدد کیا گیا اور جب فرعون اپنے تشدد کے سلسلے کو روکتا تو فرشتے اپنے پروں سے ان پر سایا کردیتے۔ انھیں جنت میں ان کا گھر دِکھایا گیا"۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ القاسم بن ابی بازح نے کہا کہ "فرعون کی بیوی کہا کرتی تھی، 'کون باقی رہا'۔ جب انھیں بتایا جاتا موسٰی اور ہارون تو وہ فرماتیں،'میں موسٰی اور ہارون کے رب پر ایمان رکھتی ہوں' "۔
یہی اُس جنت کے حصول کی شدید خواہش تھی جس نے انھیں جابر اور اس کے جبر کے سامنے ثابت قدم رکھا اور اللہ سبحانہ و تعالٰی ان سے اس قدر خوش ہوئے کہ انھیں اُس موت سے محفوظ رکھا جو جابر انھیں دینا چاہتا تھا کہ اس کے مارنے سے قبل ہی ان کی روح اللہ سبحانہ و تعالٰی کے پاس پہنچ گئی۔ فرعون نے اپنے ساتھی ان کی پاس بھیجے اور ان سے کہا کہ سب سے بڑا پتھر تلاش کرنا اور اگر وہ اپنے ایمان پر اصرار کرے تو وہ پتھر اُس کے سر پر مار دینا ، ورنہ وہ میری بیوی ہے۔ جب فرعون کے ساتھی بی بی آسیہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے آسمان کی جانب دیکھا اور جنت میں موجود اپنے گھر کو دیکھا۔ انھوں نے اپنے ایمان پر اصرار کیا اور پھر اللہ کے حکم سے ان کی روح قبض کرلی گئی۔ آخر میں وہ پتھر ان کے بے جان جسم پر پھینکا گیا۔ یہ مثال ہر اس مرد اور عورت کے لئے ہے جو اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کی رضا کے لئے حق پر اور جابر کے سامنے ڈٹا رہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس مقدس روح کے متعلق فرمایا، أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ: خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْن "جنت کی خواتین میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں"۔
موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے یہ ایک انتہائی طاقتور مثال ہے جو انھیں اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ آج کے دور کے جابروں، بشار، کریموف اور ان جیسوں کے سامنے استقامت کے ساتھ کھڑے ہو سکیں جو مسلمانوں پر کفر نافذ کرتے ہیں۔ ہمیں کسی صورت اس عمل سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے کوئی جان سے مارنے کی دھمکیاں دے یا ہمیں جان سے مارنے کی کوشش کرے۔ اس دنیا کی زندگی اور اس میں پیش آنے والی تکالیف کا جنت کی ہمیشہ ہمیشہ کی راحت سے کیا مقابلہ ہے؟ إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ وَأَخْبَتُواْ إِلَى رَبِّهِمْ أُوْلَـئِكَ أَصْحَـبُ الجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ "یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے کام بھی نیک کیے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں" (ھود: 23)۔ ہمیں کسی صورت جبر کو ختم کرنے کی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے زندانوں میں چلے جانے کی وجہ سے یا جابروں کے غنڈوں سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے گھر ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے اور اس کے نتیجے میں ان لوگوں سے ہی کیوں نہ جدا ہوجائیں جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ہاں جب ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بوڑھے والدین سے جدا ہوتے ہیں تو دل غم سے بوجھل ہوجاتا ہے لیکن ایسی کوئی بھی جدائی بہت مختصر ہوتی ہے اگر اس کا تقابلہ ہمیشہ ہمیشہ کی جنت کی زندگی سے کیا جائے جہاں ہمیں پھر اپنے پیاروں سے ملا دیا جائے گا اور پھر کوئی کبھی بھی جدا نہ کرسکے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، جَنَّـتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ "ہمیشہ رہنے کے باغات، جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ، دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے" (الرعد: 23)۔ لہٰذا اللہ انھیں ان کے پیاروں کے ساتھ اکٹھا کرے گا جو ان کے باپوں ، خاندان اور اولادوں میں سے ہونگے اور نیکو کار بھی ہونگے اور اس بات کے حقدار ہونگے کی وہ جنت میں داخل ہوں تا کہ انھیں دیکھ کر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ جدائی کے بعد کیا ہی خوشیوں والا ملاپ ہوگا! ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَجُكُمْ تُحْبَرُونَ - يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَـفٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَبٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاٌّنْفُسُ وَتَلَذُّ الاٌّعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ - وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ - لَكُمْ فِيهَا فَـكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ "تم اور تمھاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ۔ ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا، ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ یہی وہ جنت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو۔ یہاں تمھارے لئے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے " (الزخرف: 70-73)۔ وہ لوگ جنہیں ان کے پیاروں سے جدا کردیا گیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ صبر کریں اور اپنی اس صورتحال پر افسوس نہ کریں اور نہ ہی غمگین ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی جنت میں ان لوگوں کے درجات کو بھی بلند فرمائیں گے جن کے درجات بلند نہیں ہوں گے اور انہیں بلند درجوں والوں تک بلند کریں گے اور ایسا کرنے سے بلند درجوں والوں کے درجات کم نہ ہوں گے اور یہ اللہ کی خاص مہربانی ہو گی۔ عبدل اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمْ يَلْحَقْ بِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ "ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ: اے اللہ کے پیغمبرﷺ! اس آدمی کے متعلق آپﷺ کیا فرماتے ہیں جو لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان کے درجات کو نہیں پہنچ پاتا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی ان کے ساتھ ہو گا جن سے وہ پیار کرتا ہے" (بخاری: 5703)۔ ال بزر نے حسن اسناد کے ساتھ عبدل اللہ بن عمر سے روایت کی کہ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: مَنْ أَحَبَّ رَجُلا لِلَّهِ ، فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّكَ لِلَّهِ ، فَدَخَلا الْجَنَّةَ ، فَكَانَ الَّذِي أَحَبَّ أَرْفَعُ مَنْزِلَةً مِنَ الآخَرِ ، الْحَقُّ بِالَّذِي أَحَبَّ لِلَّهِ "جو شخص بھی اللہ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اور کہتا ہے: میں نے تم سے اللہ کے واسطے محبت کی، اور پھر انہیں جنت میں داخل کردیا گیا، اور ان میں ایک کا درجہ دوسرے سے بلند تھا لیکن دوسرے کو پہلے والے کے ساتھ ملا دیا جائے گا" (ال بزر: 2439)۔
تو ہمیں جابروں کے سامنے ثابت قدم رہنا ہے ، مسلمانوں کو مصائب سے بچانا ہے اور بلند درجات کوحاصل کرنا ہے کہ یہی جنت کا راستہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، هَلْ تَدْرُونَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ؟ "کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوقات میں سے کون سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا؟ أوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلَائِكَتِهِ: ائْتُوهُمْ فَحَيُّوهُمْ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ، وَخِيرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَأْتِي هؤُلَاءِ وَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَتُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً قَالَ : فَتَأْتِيهِمُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ فَيَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَاب "اللہ کی مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونےوا لے غریب مہاجرین ہوں گے (جنھوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی) جن کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہو گی اور بیشتر مشکلات سے بچاؤ ہوگا۔ ان میں سے ایک اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ خود اپنی اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ اپنے فرشتوں میں سے جن کو چاہے گا کہے گا کہ ان کے پاس جاؤ ان کا استقبال کرو اور انہیں سلام کہو۔ فرشتے کہیں گے کہ ہم آپ کی جنت میں رہنے والے ہیں اور آپ کی تخلیقات میں سے سب سے بہترین ہیں، تو کیا آپ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس جائیں، ان کا استقبال کریں اور انہیں سلام کہیں۔ اللہ فرمائیں گے، یہ میرے بندے ہیں جنہوں نے میری عبادت کی اور کسی شخص یا چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا۔ ان کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہوئی اور مشکلات کا منہ موڑ دیا گیا۔ ان میں سے ایک اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ اس کو حاصل نہیں کرسکتا تھا"۔
جابروں کو ہٹانے اور جنت کے حصول کی راہ میں آنے والی مشکلات اور مصائب سے ہم نے کسی صورت نہ تو گھبرانا ہے اور نہ ہی اس پر افسوس کا اظہار کرنا ہے۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ َالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ "کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے آگلے لوگوں پر آئے تھے، انھیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان لانے والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے" (البقرۃ: 214)۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَـهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّـبِرِينَ "کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ تعالٰی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں" (آل عمران: 143)۔ ہمیں اس زمین پر اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے اور یہ جدوجہد ایسی شاندار ہونی چاہیے کہ جابر خوفزدہ ہوجائیں، ان کا اقتدار لڑکھڑائے اور گر جائے اور ان کا جبر ہمارے ایمان کی مضبوطی اور سختی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے!

Read more...

اے شام کے مسلمانو! تمہاری حقیقی جنگ اس مغرب کے ساتھ ہے جو تمہیں خلافت راشدہ کو قائم کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے، سفاک بشار تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس وحشیانہ جنگ میں بھونکنے والے کتے کے سوا کچھ نہیں ۔

شام کے مسلمانوں پر مغرب کے براہ راست اور مسلمانوں کے حکمرانوں میں سے اس کے آلہ کاروں کی جانب سے کیے جانے والے بالواسطہ حملوں میں شدت آگئی ہے۔ شام میں مسلمان اس مجرمانہ صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کی مثال بھی صرف دوسرے مسلم خطوں جیسے چیچنیا، عراق ، افغانستان،وسطی افریقہ اور برمامیں ہی ملتی ہے.....یہ ناگفتہ بہ صورت حال ہمیں اللہ کا یہ فرمان یاد دلاتی ہے: ﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ "وہ ان سے صرف اس بات کا انتقام لیتے ہیں کہ یہ اللہ زبردست اور قابل حمدو ثنا پر ایمان لائے ہیں" (البروج : 8)۔ یہ ہمیں خندقوں والوں کا قصہ یاد دلاتی ہے۔ اللہ کے دشمن اسلام سے کھلی عداوت کے اعلان کی جسارت کر رہے ہیں اور اسلام کو دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی اپنے دین کی طرف شاندار واپسی اور اپنی عزت کے سرچشمہ "خلافت راشدہ کی ریاست " کے مطالبے سے خوفزدہ ہو کر ان کو بدترین عذاب دے رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمان صرف اس خلافت کے ذریعے سرخ رو اور مغربی کفر اور کفار سیاہ رو ہوں گے۔ سرمایہ دارانہ کافر مغرب کو اسلام کے ذریعے حکمرانی اور دعوت اور جہاد کے ذریعے اسلام کے عروج کے حوالے سے تلخ تجربہ ہے،اسی وجہ سے وہی اس خون ریز یلغار کی قیادت کر رہا ہے جس سے اسلام کے ساتھ اس کے بغض اور اس کے میدان کارزار میں نمودار ہونے کے بارے میں خوفزدگی کا ا اندازہ ہو تا ہے۔ اسلام کے خلاف اس خونخوار جنگ میں دمشق کے درندوں کی حیثیت بھونکتے کتے سے زیادہ نہیں۔
جی ہاں یہ ہمیں اس درد ناک واقعے کی یاد دلاتا ہے جس کو قرآن کریم نے سورۃ البروج میں خندقوں والوں کے قصے کے طور ذکر کیا ہے، اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کو یاددہانی، عبرت اور بہترین نصیحت کے طور پر ذکر کیا ہے، ﴿هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ "ایمان والی قوم کے لیے ہدایت اور رحمت کے طور پر" (الاعراف: 52)۔ اللہ تعالی کا یہ فرمان: ﴿قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ O النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ O إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ﴾ "خندقوں والے ہلاک کیے گئے وہ آگ جو ایندھن والی تھی جب وہ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے تھے" (البروج : 4-6)۔ یہ ہمیں ان نت نئے طریقوں سے قتل کرنے اور اس کے ہولناک مناظر کو یاد دلاتا ہے جو اب شام میں بمباری، تشدد، ذبح کر کے، جلا کر، زندہ دفنا کر ، کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے اور پھٹنے والے ڈرموں کے ذریعے قتل اور اس کے نتیجے میں بکھرے ہوئے انسانی اعضاء کے مناظر کا مشاہدہ کر کے کیا جاسکتا ہے..... انواع و اقسام کے قتل جن کا ذکر کرتے ہوئے بھی دل ہل جاتا ہے جس کی مثال انسانیت نے نہیں دیکھی ہو گی۔ جو بھی کہا جائے قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کے ان جرائم کی تعبیر کرنا زبان کے لیے ممکن نہیں۔ ایسے ماحول میں زندگی گزارنا جہاں ماں باپ کو کھودیا گیا ہو، بچوں سے ہاتھ دھو دیا گیا ہو، شوہروں اور بیویوں سے جدائی کا غم ہو بہنوں اور عزیز و اقارب کا نام ونشان نہ ہو .....
اللہ کا یہ فرمان ﴿وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ﴾ "اور مسلمانوں کے ساتھ جو کررہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے" (البروج: 7) ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو مجرمانہ سازشیں ہو رہی ہیں وہ اس لئے مسلمانوں کی نظروں کے سامنے ہو رہی ہیں تاکہ ان کو خوفزدہ کیا جائے ۔ یوں وہ گناہ عظیم اور ایسے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں جس سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں جس کا اعلان انہوں نے بر ملاء کر رکھا ہے۔ اس سے ان کا ارادہ شام اور ہر جگہ کے مسلمانوں کو اسلام کی بنیاد پر تبدیلی کے بارے میں سوچنے سے بھی ڈرانا ہے۔ وہ مسلمانوں کو اندرونی طور پر ہی شکست دینا چاہتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ خباثت سے پُر نتائج حاصل کرنے کے لئے وہ اپنے جرائم کوایسا مثالی بنا کر دکھا رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے تمام بین الاقوامی قوانین کو روند ڈالا اور اپنے تمام کارندوں کو دوڑا یا جن میں سب سے آگے مسلم علاقوں میں ان کے آلہ کار حکمران ہیں جن کے ساتھ ذلیل سیکولر اور ذہنی طور پر غلام لوگوں کو متحرک کیا.....جن کو امت کے اسلامی منصوبے کو ناکام بنانے اور روشنی کی کرن دیکھنےسے روکنے کے لیے مسلح کیا گیا۔ اس وحشیانہ دشمنی میں رحم اور انسانیت کی ادنٰی ترین علامات بھی مفقود تھیں۔ اللہ کے اس فرمان کی حقیقت واضح ہو گئی کہ: ﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ "ان کا جر م اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ زبردست اور تعریفوں والے اللہ پر ایمان رکھتے تھے" (البروج : 8) درحقیقت تہذیبوں کے تصادم کے میدان میں یہ اس قدر قابل دید سازش اسلام کے سامنے مغرب کی شکست ہے اوریہی اسلام کے غلبے کے قریب ہونے کی بشارت ہے۔ یہ وہی کشمکش ہے جو ہمیشہ حق اور باطل اور اللہ کے دین کے پیرو کاروں اور ابلیس کے چیلوں کے درمیان جاری رہتی ہے اور یہ اس وقت سے ہے جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور یہ قیامت تک جاری رہے گی اورجس کا ذکر قرآن اور سنت نے کیا ہے یہ سب ایک ہی معرکہ ہے اس کی فطرت اور اہداف ایک ہیں۔ یہ وہی معرکہ ہے جو رسول اللہﷺ کی اس حدیث میں مذکور ہے جس کو بخاری نے روایت کی ہے: "خباب بن الارت سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ سے شکا یت کرنے گئے تو آپﷺ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنا کر لیٹے ہوئے تھے، ہم نے عرض کیا: کیا آپ ہمارے لیے مدد نہیں مانگتے کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کر تے، فرمایا: «كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ» "تم سے پہلے ایک شخص کو زمین میں گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کیا جاتا تھا پھر آری لاکر اس کے سر پر رکھ کر اس کو چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا لیکن یہ چیز بھی اس شخص کواس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی، لوہے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت کے بعد ہڈیوں اور پھٹوں تک کو نکال دیا جاتا لیکن یہ چیز اس کو اس کے دین سے نہیں روکتی تھی،اللہ کی قسم ضرور اس دین کو عروج پر پہنچا یا جائے گا یہاں تک کہ سوار صنعا سے حضر موت تک چلے گا اس کو اپنے مویشیوں کے بارے میں اللہ اور بھیڑیئے کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہو گالیکن تم لوگ جلد بازی کرتے ہو"۔ یہ وہی جنگ ہے جس کا ذکر اللہ نے سورہ البروج میں خندقوں والوں کے بارے میں کیا ہے۔ یہ ایسی جنگ ہے جس میں لازما ایک جیتنے والا اور ایک ہارنے والا ہے، اس میں جیتنے والے کے لیے تقویٰ لازمی ہے اوریہ ہی دشمن کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ صرف اللہ سے ہی مدد طلب کرنی چا ہیے اس کے علاوہ ہر استعانت سے قطع تعلق ہو جانا چاہئے۔ یہ حقیقی جنگ ہے، یہ خباثت کو پاکیزگی سے الگ الگ کر کے رکھ دے گی.....یہ وہ جنگ ہے جس میں آزمائش عظیم اور قیمت بھاری ہوتی ہے۔ یہ وہ قیمت ہے جس کو ادا کرنے پر اللہ کے ساتھ مخلص ہی صبر کر سکتے ہیں۔ اس جنگ کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ اللہ کے لیے اللہ کی خاطر ہے اوراگر یہی بات ہے تو یہ منافع بخش ہے اور کوئی بھی قیمت اس کے سامنے ہیچ ہے۔ اس تمام میں صرف اللہ ہی گواہ ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: ﴿وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾ "اور اللہ ہی ہر چیز پر گواہ ہے" (البروج : 9)۔ اس کے بعدکی آیات اس کے نتیجے کےبارے میں بتاتی ہیں۔ جہاں تک آخرت کی بات ہے تو اللہ تعالٰی کفار کی سزا کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ﴾ "جن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو آزمائش میں ڈال دیا پھر توبہ بھی نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب اور جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10) جبکہ مؤمنوں کے بارے میں اللہ عزّوجلّ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ﴾ "بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں یہی بڑی کامیابی ہے" (البروج: 11)۔
جہاں تک دنیا کی بات ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اللہ کی انہی آیتوں میں اسی سورۃ میں ہمیں بتایا جاتا ہے: ﴿إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ O إِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيدُ O وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ O ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ O فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ O هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ O فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ O بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي تَكْذِيبٍ O وَاللَّهُ مِنْ وَرَائِهِمْ مُحِيطٌ O بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ O فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ﴾ "یقینا تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے بے شک وہی اکیلا پہلی بار پیدا کرتا ہے وہی لوٹا تا ہے وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے جو چاہتا ہے کر گزر تا ہے کیا فوج والوں کی بات تم تک پہنچی ہے یعنی فرعون اور ثمود کی بلکہ کافر تو جھٹلاتے ہیں اور اللہ تعالٰی بھی انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے یہ تو قرآن عظیم الشان ہے جو کہ لوح محفوظ میں ہے" (البروج: 12-22)۔
اے مسلمانوں! جن کو اللہ تعالٰی نے اس بات کے لیے منتخب کر لیا ہے کہ ان کا ملک اسلام کا مسکن بن جائے: صبر کرو تم حق پر ہو یہ اللہ کا ارادہ ہے کہ تمام مسلمانوں میں سے تمہیں اس بنیادی تبدیلی کی ابتدا ءکر نے کا شرف حاصل کر لو جس کا مسلمان شدت سے انتظار کر رہے ہیں، اللہ ہی کا ارادہ ہے کہ تم اس کی بھاری قیمت ادا کرو ، اگر یہ قیمت صرف اللہ کے لیے اور اس کی شریعت کو قائم کرنے کی خاطر ہو تو تم اس امت کے اسلاف کے بہترین جانشین ہو، اگر مہاجرین اور انصار السابقون االاولون ہیں تو تم السابقون الآخرون ہو جنہوں نے اچھے طریقے سے ان کی پیروی کی جیسا کہ اللہ نے فرمایا ﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ "اور مہاجرین اور انصار میں سے سابقون اولون اور وہ لوگ جنہوں نے اچھے انداز سے ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو ا اور ان کو راضی کر دیا اور ان کے لیے وہ باغ تیار کرلیا ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے" (التوبۃ: 100)۔ کیا وہ رسول اللہﷺ کے اصحاب اور ہم آپﷺ کے احباب نہیں ؟ کیا ہم میں سے ایک شخص کا اجر ان کے چالیس کے اجر کے برابر نہیں؟ اللہ سے اپنے اجر کی امید رکھو، یقینا رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق تبدیلی کے تمام عوامل شام میں یکجا ہو چکے ہیں۔مسلمانوں کے علاقے بھی مسلمانوں کے ممالک میں سے اس ملک کے ساتھ الحاق کے لیے تیار ہو چکے ہیں جہاں خلافت راشدہ کی ریاست قائم ہو گی۔ اس لیے تم سب سے سبقت لے جانے والے بن کر دنیا اور آخرت کی عزت سمیٹ لو۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ O أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ O فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ O ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ O وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ﴾ "سبقت لے جانے والے ہاں سبقت لے جانے والے ہی اللہ کے مقرب ہیں یہی باغوں کی نعمتوں میں ہو ں گے پہلوں میں سے ایک گروہ اور پچھلوں میں سے تھوڑے" (الواقع: 10-14)۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک