وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلمان عورتوں اور بچوں کی نسل کشی کے حوالے سےایڈیٹرز کے نام خط
- Published in دیگر
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
جنابِ ایڈیٹر،
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
میں اس خط کا آغاز اﷲ تبارک و تعالٰی کے نام سے کرتی ہوں جس کے قبضہ میں ہم سب کی جان ہے اور جس کے پاس ہم سب کو لوٹنا ہے تاکہ ہم سے اس کے احکام کی بجاآوری کے متعلق حساب لیا جائے۔ یقینا اﷲ سبحانہ و تعالٰی کا آپ پر خاص کرم ہے کہ اس نے اس مقام پر پہنچنے میں آپ کی مدد کی جو آپ کو میڈیا کمیونٹی کا رکن ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے اور یقینا وہ آپ سے پوچھے گا کہ آپ نے مسلم امت اور انسانیت کو اس عطا کردہ نعمت سے کیا فائدہ پہنچایا۔ وہ درست بات جس کو آپ لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ سچ جو کہ آپ لوگوں کی سماعت تک پہنچا سکتے ہیں، ان میں وہ طاقت ہے جو کہ عوام کو ہلا کر ناانصافی اور ظلم کے خلاف کھڑا کر سکتے ہیں اور وہ حق کے لیے جد و جہد کر سکتے ہیں جو کہ آپ کے لیے آخرت میں عظیم اجر کا باعث ہے۔
اس لیے میری تحریر کا مقصد آپ کو ان خوفناک حالات سے آگاہ کرنا ہے جو آپ کے مسلمان بھائی اور بہنوں کو وسطی افریقی جمہوریہ میں درپیش ہیں، یہ ایک با ضابطہ مہم ہے جس کے تحت وہ خون کے پیاسے عیسائی ملیشیا کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران ہزاروں کو انتہائی وحشیانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتارا گیا، ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلایا گیا، اور کچھ واقعات میں ان کے قاتلوں نے ان کا کچا گوشت کھایا۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ایمرجنسی ڈائریکٹر پیٹر بوکارٹ کے مطابق محلے کے محلے اپنی مسلمان آبادی سے مکمل طور پر خالی ہو گئے۔ ان کے گھر انتہائی منظم انداز میں مسمار کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کی اس ملک میں موجودگی کا ہر ثبوت مٹا دیا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے نسلی صفائی کا نام دیا ہے اور تاریخی پیمانے پر مسلمانوں کی ہجرت سے متعلق تنبیہ کی ہے۔ جب کہ اقوامِ متحدہ نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ 130,000 سے 145,000 مسلمان جو کہ عام طور پر دارالحکومت بانگی میں رہائش پذیر تھے ان میں سے صرف 900 باقی ہیں۔ عیسائی ملیشیا نے آزادانہ اعتراف کیا ہے کہ وہ اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک وہ ملک کو مسلمانوں سے صاف نہ کر دیں۔
اور شام، میانمار اور امت کے خلاف بھڑکائے گئے دیگر قتل عام کی طرح،یہ عورتیں اور بچے ہی ہیں جو اس خونریزی کا پہلا ہدف بنتے ہیں۔ انہیں بدترین، ناقابل بیان ایسے وحشی افعال کا نشانہ بنایا جاتا ہے جن کا ذکر بھی تکلیف دہ ہے لیکن دنیا کے سامنے لایا جانا بھی ضروری ہے۔ انہیں اذیت دی گئی ، گولی ماری گئی، کاٹ کر مارا گیا، ان کی لاشوں کو مسخ کر کے جلایا گیا، بچوں کے سر قلم کیے گئے، شیر خوار بچوں کو ذبح کیا گیا اور ہماری بہنیں بد ترین عصمت دری کا شکار ہوئیں، اور جرائم کا یہ تسلسل روانڈا میں 1990 کی نسل کشی کی بازگشت ہے۔ بچوں نے ایسے خوفناک مناظر دیکھے جو کہ کسی بچے کو کبھی نہیں دیکھنے چاہییں، جن کو زمین پر جہنم کہا جا سکتا ہے۔ علاقے میں یونیسف کے حکام اس ظلم و بربریت کو دیکھ کر وحشت زدہ ہیں جس سے بچوں کو مارا اور مسخ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بیان دیا کہ بچوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر انتقامی ہدف بنایا جا رہا ہے۔
دسمبر 2013 میں ایک حاملہ خاتون اور دس مسلمان بچوں کو عیسائیوں کے ایک گروہ نے مار دیا۔ انہوں نے عورت کا پیٹ چاک کر دیا اور بچوں کو بڑے چھروں سے کاٹ دیا گیا۔ اس جنوری میں ایک اور واقعہ میں مسلم خاتون فاطمہ یمسا جو کہ تشدد سے بچ کر ٹرک میں فرار ہو رہی تھی، اس کو چوکی پر گاڑی سے اتار کر عیسائی ملیشیا نے اس کے پانچ اور تین سال کے بیٹوں کے ساتھ مسجد کی سیڑھیوں پر چیر پھاڑ دیا۔ پچھلے ماہ سات سالہ ابراہیم احمد امدادی ایجنسیوں کو ملا جو کہ کئی روز سے کھانے اور پناہ کے بغیر 100 کلو میٹر کا سفر طے کر چکا تھا۔ اس کے ماں اور باپ کو اس کے سامنے مار دیا گیا اور اس کے پانچ بہن بھائیوں کا کچھ پتا نہیں۔ زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ دس سال سے کم عمر تقریبا چھ بچے کارنوٹ کے علاقے میں اس طرح کی کہانی سنا رہے ہیں۔
یہ مظالم ملک بھر کے گاؤں اور قصبوں میں دہرائے جا رہے ہیں ، اور یہ خونریزی فرانس کی امن فوج کی موجودگی کے باوجود جاری ہے۔ یہ قوتیں نہ صرف قتل و غارت گری کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں، بلکہ واضح طور پر ان کا مکمل جھکاؤ مسلح عیسائی دشمن ملیشیا کی طرف ہے اور ان کے ساتھ اس خونریزی میں ملوث ہیں، یقینا یہ حیران کن ہے۔ اس نو آبادیاتی طاقت کی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تاریخی نفرت مشہور ہے۔ مسلمان جانوں کو بچانے کیلئے نہ تو بےکار اقوامِ متحدہ پر کوئی انحصار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی خود غرض مغربی لا دین ریاستوں پر، بلکہ یہ تو اس خونریزی کی خاموش تماشائی ہیں۔ مسلمان خون کے بہنے سے متعلق ان کی برداشت جانی پہچانی ہے، جیسا کہ افغانستان اور ایراق میں ان کی جنگوں سے لیکر 1995 میں سبرینیکا میں 8000 مسلمانوں کا قتل عام، شام میں لاکھوں، غاصب اسد کے ہاتھوں اور میانمار میں ان گنت لوگ بدھ مت کے ہاتھوں مارے گئے۔
مسلمان حکمرانوں نے بھی غیر حیران کن طور پر اور روایتی تاریخی انداز میں مسلم امت کے خون کی حفاظت کی ہر مہم کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری سے اپنے آپ کو دست بردار کر لیا ہے۔ انہوں نے وسطی افریقہ کے مسلمانوں کی صعوبتوں سے پیٹھ پھیر لی ہے اور اسلام کی عورتوں اور بچوں کی چیخوں پر بھی کان نہیں دھرتے۔ان مسلم قیادتوں سے اسی بزدلانہ رویےکی توقع ہے اور ہم بطور مسلمان ان حکومتوں سے کوئی امید نہیں رکھتے کہ وہ ہمارے خون اور عزت کی حفاظت کے لیے ایک انگلی بھی اٹھائیں۔
البتہ میڈیا میں موجود ہمارے مسلمان بھائی اور بہنیں، وہ جو خالق ِ کائنات کی جانب سے آوازِ حق اٹھانے کے لیے متعین کیے گئے ہیں، ان کی انتہائی کم توجہ اور وسطی افریقی جمہوریہ کو دی گئی کوریج ہمارے لیے مایوس کن ہے ۔ اس خاموشی کی دیوار نے خطہ میں مسلمانوں کے خلاف خوفناک جرائم کے ہونے اور بند دروازوں کے پیچھے چھپے اور بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی نظروں سے دور رہنے میں مدد کی۔ نتیجتا، بہت سے مسلمان اور دنیا، ابھی بھی اس تشدد کی اصل نوعیت سے بے خبر ہیں جو ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کے خلاف ہو رہا ہے۔
کسی ردِعمل کے حصول کے لیے مسلمانوں پر مظالم کی کیا حد ہونی چاہیے؟ خاموشی یقینا اس ظلم کے ساتھ رضامندی ہے۔ آپ کے بہن بھائیوں کی بے کس پکار کو کس طرح نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ یقینا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے خلاف ہمارے ردِعمل کے متعلق ہم اﷲ سبحانہ و تعالٰی کے سامنے جوابدہ ہونگے۔ آپ کے لیے میری پکار کی وجہ وہ حیثیت ہے جس کو اﷲ تعالٰی نے امت کی ایک عظیم ذمہ داری سونپی ہے۔ قابلیت، مرتبہ اور اثر انگیزی کے ذریعہ اس نے آپ کو ایک صحافی کا درجہ عطا کیا، کہ آپ صحافتی مرکزِ نگاہ کو اس معاملہ کی طرف موڑیں اور بین الاقوامی سطح پر ان خوفناک جرائم کو بے نقاب کریں۔ کیا آپ کا کردار دنیا کو سچ کی طرف لا کر کسی بھی جگہ ہونے والے ظلم اور نا انصافی کو ظاہر کرنا نہیں؟؟ اس لیے اﷲ کی طرف سے اپنے فرض کو پورا کریں۔ اپنی امت کی طرف اپنے بھائیوں اور بہنوں کے برے حالات کی طرف توجہ دلوائیں۔
اس خط کا اہتمام عالمی مہم کے حصہ کے طور پر حز ب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے شعبہ خواتین کی جانب سے وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلمان عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم اور نسل کشی سے متعلق جرائم کو بے نقاب کرنے کے لئے مسلمان میڈیا سے مطالبہ میں کیا گیا۔ یہ حزب التحریر کی طرف سے ایک بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے جس کا عنوان ہے " وسطی افریقہ کے مسلمانوں کو کون فتح یاب کرے گا!" تاکہ علاقے کے مسلمانوں کی بد حالی پر توجہ دلائی جائے اور اس پیغام کو مؤثر بنایا جائے کہ یہ صرف خلافت کے دوبارہ قیام سے ہی ممکن ہے۔ نظام اسلام کے ذریعے ہی وسطی افریقہ ، شام، میانمار، بھارت، کشمیر، چین اور تمام دنیا میں مسلمانوں کی خونریزی اور منظم توہین کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ ریاستِ خلافت ہی ہے جو تمام دنیا کے ستائے ہوئے مسلمانوں کو ایک محفوظ پناہ فراہم کرے گی۔ اس لیے میں آپ کو بھی پکارتی ہوں کہ آپ اﷲ کے اس نظام کے دوبارہ قیام کا ساتھ دیں جو ان گنت سوانح، دکھی دلوں اور امت کی اِن ان کہی اداس کہانیوں کا اختتام ہو گا اور مسلمانوں کے لیے ایک خوش حال ، محفوظ اور انصاف سے بھرپور مستقبل کی تعمیر ہو گا۔
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى))
" اہل ایمان کی آپس میں محبت ، رحم اور ایک دوسرے سے ہمدردی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک جسم ہو۔ جب کوئی ایک حصہ تکلیف کا شکار ہو تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہو جاتا ہے"۔
والسلام وعلیکم و رحمۃ اﷲ