الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

نُصرَة نے ہی ہجرت کے بعد مدینہ منورہ کو دارُالاسلام بنایا

 

ہر سال جب محرم کے بابرکت مہینے سے ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے تو مسلمانوں کو 1400 سال قبل دارالاسلام مدینہ منورہ کی طرف رسول اللہ ﷺکی ہجرت کا عظیم الشان واقعہ یاد آجاتا ہے ،کیونکہ اسی ہجرت کے بعد محرم کے مہینے سے اسلامی کیلنڈر کو شروع کیا گیا تھا۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اولین مسلمانوں کو عزت وشرف بخشا،اپنی عالیشان کتاب قرآنِ مجید میں ان کی تعریف بیان کی اور انہیں اجرِ عظیم سے نوازا۔  وہ اولین مسلمان ،وہ دو سعادت مند گروہ جنہوں نے اسلامی ریاست کے قیام کے عظیم مشن کو پورا کیا، اللہ تعالیٰ نے انہیں مہاجرین اور انصار کے نام سے مخاطب کیا ہے۔  مہاجرین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس دین کی خاطر ہجرت کی اور انصاروہ ہیں جنہوں نے اس دین کیلئے  نُصْرَةدی۔  یہ ہجرت دراصل اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان تھااور اسلام کے گھریا زمین (دارالاسلام)کی جانب منتقل ہوناتھا، جبکہ نُصْرَة اسی ہجرت کی خاطر اور دارالاسلام کے قیام کیلئے تھی۔  پس نُصْرَةاور انصار کے بغیرنہ تو ہجرت ہوتی اور نہ ہی مہاجرین، مہاجرین کہلاتے۔  اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان ،جو اکثر و بیشتر قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہو اور اس تلاوت میں وہ انصار و مہاجرین کے فضائل کا تذکرہ پڑھتا ہو، وہ ہجرت اور نُصرہ کی فضیلت سے صَرف نظر کر سکے؟

 

                  چونکہ ہم نُصرة پر بحث کر رہے ہیں جس کے بعد ہجرت وقوع پذیر ہوئی ، اس لیے ہمارے لئے ناگزیر ہے کہ ہم نبی ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور اسوہ ٔ رسول ﷺکی پیروی کریں۔  نبی ﷺکی مکی زندگی کا محور اسلام کے نفاذ کے لئے ایک دار(گھر) قائم کرناتھا، جسے دارالاسلام کہتے ہیں۔  آپﷺایک سوچے سمجھے ہدف کے ساتھ ایک واضح متعین راستے پر چلے تاکہ بعد کی نسلیں دارالاسلام کی غیر موجودگی کی صورت میں اس کے قیام کیلئے نہ صرف اس راستے کی پیروی کر سکیں، بلکہ اس راستے کی اتباع کرناان کیلئے لازم ہو۔ 

 

                  ہجرت سے تین سال قبل 10سنِ نبوی کو آپ ﷺکے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا۔  ابوطالب،جنہوں نے کسی حد تک آپ کے لیے حفاظت کا سامان کر رکھا تھا جس کے باعث آپ ﷺ بخیر و عافیت اسلام کی دعوت کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے، کی وفات کے بعدنبی ﷺنے محسوس کیاکہ مکہ کا معاشرہ اسلام کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی مکہ میں اسلام اور اسلام کے افکار کیلئے رائے عامہ ہموارہے ۔  یہ وہ مرحلہ تھا جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپﷺکو نُصرۃ طلب کرنے کا حکم دیا۔  نُصرَة لغت میں ''احسن انداز میں مدد'' کو کہتے ہیں۔  عربی لغات میں بیان کیا گیا ہے کہ نصر کا مطلب ظلم کے شکار لوگوں کی مدد کرنا ہے، اور انصار کا معنی ہے وہ گروہ جو مدد مہیا کرے ۔  سیرة ابنِ ہشام کے باب  '' نبی ﷺکی قبیلہ بنوثقیف سے نُصرةحاصل کرنے کی کوشش'' کے ذیل میں درج ہے:قال ابن اسحاق: ولما ھلک ابو طالب، نالت قریش من رسول اللّٰہ ﷺمن الاذی ما لم تکن تنال منہ فی حیاة عمہ ابی طالب، فخرج رسول اللّٰہﷺ الی الطائف یلتمس النصرة من ثقیف، والمنعة بھم من قومہ، ورجاء ان یقبلوا منہ ما جاء ھم من اللّٰہ عز وجل فخرج الیھم وحدہ "ابنِ اسحاق بیان کرتے ہیں : جب ابوطالب کا انتقال ہواتو قریش نے نبیﷺکو اتنی اذیتیں دیں جتنی کہ وہ ان کی موجودگی میں کبھی نہیں دے سکتے تھے۔  پس نبی ﷺطائف روانہ ہوئے تاکہ ان سے نُصرة طلب کر سکیں اور ان سے کہہ سکیں کہ وہ اس پر ایمان لائیں جو آپ ﷺپراللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے۔  آپﷺاکیلے طائف روانہ ہوئے تھے''۔ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں:لما امر اللّٰہ نبیہ ان یعرض نفسہ علی قبائل العرب، خرج و انا منہ و ابوبکر الی منی، حتی دفعنا الی مجلس من مجالس العرب ''جب اللہ نے اپنے رسول ﷺکو یہ حکم دیا کہ وہ قبائلِ عرب کے سامنے اپنے آپ کو پیش کریں تو آپ ﷺمیرے اور ابو بکرؓ کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر عربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی''۔(ابنِ حجرعسقلانی نے فتح الباری، تحفةالاحوذی اور الکلام میں، نیز حاکم اور ابونعیم نے اور بیہقی نے الدلائل میں قوی راویوں سے اس حدیث کوروایت کیا)۔

 

                  پس یہ واضح ہے کہ نبی ﷺکی طرف سے اپنے آپ کوعرب قبائل پر پیش کرنا ، ان سے نُصرۃ طلب کرنا نیز اس نُصرة کو طلب کرنے کا وقت ،سب براہِ راست اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے تھا،جیسا کہ علی بن ابی طالبؓ کی درج بالاروایت سے واضح ہے۔  اس حکم کا وقت اس بات سے مطابقت رکھتا ہے کہ نبی ﷺابوطالب کے انتقال کے باعث مدد اور حفاظت کھوچکے تھے۔    قریش اب نبی ﷺ کو کھلا چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہیں۔  مزید برآں نبیﷺ کو مکہ کے معاشرے سے امید نہیں تھی کہ وہ آپ ﷺ کے اقتدار و اختیار کو تسلیم کرتے کیونکہ مکہ کے معاشرے کی رائے عامہ اسلام کیلئے ہموار نہ تھی۔  پس اس موقع پرآپ ﷺکو نُصرةطلب کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ دعوت کو سہارا مل سکے اور اسلام کو اس مقام پر لایا جا سکے کہ جہاں اسلام کو اتھارٹی حاصل ہو اور اسلام کے احکامات کاجامع انداز میں نفاذہوسکے۔  نبی ﷺ نے نصرة طلب کرنے کی ابتدا طائف سے کی، جس کا شمار اس وقت جزیرة العرب کے طاقتور ترین قبائل میں ہوتا تھا۔  درحقیقت یہ قبیلہ طاقت، عزت اور مرتبے میں قریش کے ہم پلہ تھا۔  یہی وجہ تھی کہ جب ولید بن مغیرہ نے محمد ﷺ پر قرآن کے نزول کا انکار کیا تو اس نے کہا کہ آخر کیوں یہ کتاب قریش اور طائف کے شرفاء پر نازل نہ ہوئی، اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان الفاظ میں کیا ہے:

(وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھَذَا الْقُرْاٰنُ عَلَی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ)''

اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن کیوں دو شہروں(مکہ اور طائف) کے بڑے آدمیوں پر نازل نہیں کیا گیا''(سورة الزخرف: 31)۔

 

اہلِ طائف کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد بھی طائف آسانی سے فتح نہ ہو پایا۔  اس کا محاصرہ کیا گیا اور دونوں جانب بھاری جانی نقصان ہوا یہاں تک کہ منجنیقوں کے ذریعے اہلِ طائف کی مزاحمت توڑنے کی کوشش کی گئی۔

                  نبی ﷺطائف کے سرداروں اور شرفاء سے ملنے وہاں گئے۔  وہ طائف کے تین سرداروں سے ملے اور ان سے اسلام اور نُصرةسے متعلق بات کی۔  تاہم نبی ﷺخالی ہاتھ واپس  لوٹے کیونکہ ان سرداروں نے آپ ﷺ کو نُصرةدینے سے انکار کر دیاتھا۔  یہ آغاز تھا۔  نبی ﷺ طائف سے واپس لوٹے اور مکہ کے نواح میں مطعم بن عدی کے پاس ٹھہرے اور حج کے اوقات میں عرب کے دیگر طاقتور قبائل سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔  یہ قبائلی سردار خودمختار تھے اوران کی حیثیت آج کی حکومتوں کے سربراہوں جیسی تھی۔  سیرت ابنِ ہشام کے باب: ''نبی ﷺکا اپنے آپ کو قبائل پر پیش کرنا''میں بیان کیا گیا ہے کہ ابنِ اسحق نے روایت کیا:

((ثم قدم رسول اللّٰہﷺ مکة، و قومہ اشد ما کانوا علیہ من خلافہ...، فکان رسول اللّٰہ ﷺیعرض نفسہ فی المواسم اذا کانت علی قبائل العرب یدعوھم الی اللّٰہ، و یخبرھم انہ نبی مرسل، و یسألھم ان یصدقوہ و یمنعوہ حتی یبین (لھم) اللّٰہ ما بعثہ بہ)) ''

نبی ﷺ مکہ واپس آئے تو قریش پہلے سے بھی زیادہ شدید ہو گئے...پس نبیﷺ نے حج کے اوقات میں مختلف قبائل سے رابطہ کیا ۔  آپ ﷺاُنہیں بتاتے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول ہیں اور ان پر زور دیتے کہ وہ آپ ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ کی حفاظت کریں یہاں تک کہ اللہ اُسے ظاہرکر دے جو اللہ نے نازل کیا ہے''۔

 

                  سیرت کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی ﷺحج کے اوقات میں ہر اس شخص سے رابطہ کرتے جو کسی عزت و طاقت کے مقام پر فائزتھا۔  سیرت ابنِ ہشام کے باب: ''نبی ﷺ کا اوقاتِ حج میں عربوں سے رابطہ'' میں درج ہے کہ ابنِ اسحق بیان کرتے ہیں:

((فکان رسول اللّٰہﷺ علی ذلک من امرہ،کلما اجتمع لہ الناس بالموسم اتاھم یدعو القبائل الی اللّٰہ و الی الاسلام، و یعرض علیھم نفسہ و ما جاء بہ من اللّٰہ من الھدی والرحمة، و ھو لا یسمع بقادم یقدم مکة من العرب لہ اسم و شرف، الا تصدی لہ فد عاہ الی اللّٰہ و عرض علیہ ما عندہ)) ''

دورانِ حج جب بھی نبی ﷺ لوگوں سے ملتے تو مستقل مزاجی کے ساتھ(طلبِ نصرة اور حفاظت)کے معاملے کے پیچھے لگے رہتے۔  آپ ﷺقبائل کو اسلام کی جانب بلاتے اور اپنے آپ کو اور جو کچھ آپ ﷺپر نازل ہوا تھا، اسے قبائل پر پیش کرتے۔  نبی ﷺ نے ایسے کسی بندے کو نہ چھوڑا جو تھوڑے سے بھی شرف و مرتبے کا حامل ہو اور جس نے مکہ کا سفر کیا ہو،کہ آپ نے اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب نہ بلایا ہو اور اپنی دعوت پیش نہ کی ہو"۔

 

                  چنانچہ رسول اللہ ﷺنُصرہ کی تلاش میں بنی کلب کے پاس گئے اور انھوں نے آپ کو قبول کرنے سے انکارکر دیا۔  آپ یمامہ کے قبیلے بنی حنیفہ کے پاس گئے اور وہ تمام عربوں میں سے سب سے زیادہ گستاخی سے پیش آئے۔  آپ بنی عامر بن صَعْصَعہ کے پاس گئے لیکن انھوں نے یہ شرط رکھی کہ آپ کے بعد اختیار( اتھارٹی و حکومت)ان کو دیا جائے گا ، آپ ﷺنے اس مشروط پیشکش کومسترد کر دیا۔  پھر آپ ﷺیمن کے بنی کِندہ کے خیموںمیں گئے اور انھوں نے بھی آپ ﷺکے بعد اتھارٹی اپنے ہاتھ میں ہونے کا مطالبہ کیا، پس آپﷺ نے ان کی نُصرةکی پیش کش مسترد کر دی۔  آپ ﷺ بنی بکر بن وائل کے خیموں میں گئے ، انہوں نے آپﷺ کی حفاظت کا ذمہ لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ سلطنتِ فارس کی سرحدکے پاس رہتے تھے۔  جب آپ ﷺ نے بنی ربیعہ کے خیموں کا دورہ کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔  آپ بنی شعبان سے ان کے خیموں میں ملے ،یہ قبیلہ بھی سلطنتِ فارس کی سرحد کے قریب رہتاتھا۔  بنی شعبان نے نبیﷺ کو پیش کش کی کہ وہ عربوں سے تو آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے تیار ہیں، تاہم انہوں نے فارس سے حفاظت پر معذوری کا اظہار کیا، پس نبی ﷺ نے انہیں جواب دیا:

((ما اساتم الرد اذ افصحتم بالصدق، انہ لا یقوم بدین اللّٰہ الا من حاطہ من جمیع جوانبہ))

''یہ کچھ برا نہیں ہے کہ تم نےکھل کر بیان کردیا ہے کہ تمہیں یہ پیشکش قبول نہیں ہے۔  اللہ کے اس دین کے لیے صرف وہی کھڑے ہوسکتے ہیں جو ہر طرف سے اس دین کی حفاظت کرسکیں''۔

 

                  نبیﷺنے مختلف قبائل کے انکار کے باوجود طلبِ نُصرة کا عمل جاری رکھا، نبی ﷺ نہ توڈگمگائے، اور نہ ہی مایوس ہوئے اور نہ ہی آپ نے اس طریقۂ کارکو تبدیل کیا۔  'زادالمعاد' میں واقدی سے روایت ہے، جو بیان کرتے ہیں:

((...القبائل الذین اتاھم رسول اللّٰہﷺ ودعاھم و عرض نفسہ علیھم بنو عامر بن صعصعة، و محارب بن حفصة، و فزارة، و غسان،و مرة، و حنیفة، و سُلیم، و عبس، و بنو النضر، و بنو البکائ، و کندة، و کلب، و الحارث بن کعب، و عدرة، و الحضارمة، فلم یستجب منھم احد))

'' ...نبی ﷺ جن قبائل سے ملے اور انہیں دعوت دی اور ان پر اپنے آپ کو نُصرةکے لیے پیش کیا، ان میں بنی عامر بن صعصعہ، محارب ابن حفصہ، فزارہ، غسّان ، مُرّہ، حنیفہ، سُلیم، عبس، بنو نضر، بنو بکاء ، کِندہ، کلب، حارث ابن کعب، عُدرہ اور حضارِمہ کے قبیلے شامل ہیں، کسی نے بھی دعوت قبول نہ کی''۔

 

                  نبی ﷺ مسلسل نُصر ہ طلب کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس دین کو نُصرہ سے نوازا۔  سیرت ابنِ ہشام میں ابنِ اسحاق سے مروی ہے:


((فلما اراد اللّٰہ عز وجل اظھار دینہ و اعزاز نبیہ ﷺوانجاز موعدہ لہ خرج رسول اللّٰہﷺ فی الموسم الذی لقیہ فیہ النفر من الانصار،فعرض نفسہ علی قبائل العرب، کما کان یصنع فی کل موسم، فبینما ھو عند العقبة لقی رھطا من الخزرج اراد اللّٰہ بھم خیرا))

''جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس دین کے غلبے ، اپنے نبی کو شرف بخشنے اور اپنے وعدے کی تکمیل کا ارادہ کیا، تو نبیﷺ حج کے اوقات میں نکلے اور ان کی ملاقات انصار کے کچھ لوگوں سے ہو گئی۔  نبی ﷺ نے اپنے آپ کو عرب قبائل پر پیش کیا جیسا کہ آپ ﷺاس سے پہلے کرتے رہے تھے۔  پس آپ 'العقبہ' کے مقام پر تھے ،جہاں آپ نے قبیلہ خزرج کے اُن افراد سے ملاقات کی ،جنہیں اللہ بھلائی عطا کرناچاہتا تھا''۔

 

                  خزرج کے ان افراد نے آپ ﷺکی دعوت قبول کی اوروہ قبیلۂ اوس سے اپنے تنازعات سلجھانے کیلئے واپس چلے گئے۔  اگلے سال وہ 12افرادکے ساتھ آئے اور انہوں نے  آپ  ﷺ کے ساتھ عقبہ کے مقام پر ملاقات کی۔  یہاں پر عقبہ کی پہلی بیعت ہوئی۔  پھر جب مدینہ کا معاشرہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی کوششوں کے باعث تیار ہو گیا تو مدینہ کے شرفاء نے نبی ﷺسے ملاقات کی تاکہ وہ آپ ﷺکو نُصرةاور حفاظت پیشکش کر سکیں۔  پس وہ دوبارہ نبی ﷺ سے عقبہ میں ملے اور یہاں انھوں نے آپ ﷺ کی بیعت کی۔  یہ بیعت نبی ﷺ کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کی بیعت تھی۔  سیرت ابنِ ہشام نے اس بیعت کو روایت کیا ہے:

((ابایعکم علی ان تمنعونی مما تمنعون منہ نسائکم و ابنائکم۔ قال: فاخذ البراء بن معرور بیدہ ثم قال: نعم والذی بعثک بالحق (نبیا) لنمنعنک مما نمنع منہ ازرنا، فبایعنا یا رسول اللّٰہﷺ، فنحن واللّٰہ ابناء الحروب و اھل الحلقة ورثناھا کابرا(عن کابر))

'' میں تم لوگوں سے بیعت لیتا ہوں کہ تم میری ایسی حفاظت کرو گے جیسے کہ اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہو۔ ''  بَراء بن معرورنے نبی ﷺکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا: بیشک اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا، ہم آپ کی ایسی حفاظت کریں گے جیسے کہ ہم اپنی اولاد کی کرتے ہیں، یا رسول اللہ! ہم سے بیعت لیجئے، اللہ کی قسم ہم جنگوں کے بیٹے ہیں اور سامانِ حرب ہمارے لئے کھلونوں کی مانند ہیں، اوریہ بات ہمارے آباؤ اجداد سے ہم میں میراث کے طور پرچلی آ رہی ہے''۔

 

 

اے پاکستان کے مسلمانو! اے پاکستان کے مسلمانوں کے علمائے کرام!

اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرۃ کا حصول رسول اللہ ﷺ کی سنت اور طریقہ ہے، اس طریقے پر چل کر نبی ﷺ نے یثرب کے تقسیم شدہ معاشرے کو اسلام کے قلعے،مدینۃالمنورہ  میں تبدیل کردیا۔

 

حزب التحرير ہمارے درمیان رسول اللہﷺ ہی کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔  اس کے شباب ہمیں کفر سے خبردار کرتے ہیں اورہم سے اسلام اور اس کی خلافت کی مددوحمایت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔  اور حزب التحرير کے امیر، اعلیٰ پائے کے فقیہ اور رہنما، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ ، اپنی جان خطرے میں ڈال کراس دین کے لیےمسلم افواج سے نصرۃ حاصل کرنےکی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔  اب یہ ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ ہم حزب التحرير میں شامل ہوجائیں اوررسول اللہ ﷺ کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کو قائم کردیں اور  ظلم کی حکمرانی کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالیں۔  امام احمدبن حنبلؒ نے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:

((ثُمَّ تَکُونُ مُلْکاً جَبْرِیَّةً، فَتَکُونُ مَا شَاءَ اللّٰہُ اَنْ تَکُونَ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَرْفَعَھَا، ثُمَّ تَکُونُ خِلَافَةً عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّة ثُمَّ سَکَتَ))

"پھر ظالمانہ حکومت کا دَور ہو گا جو اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا۔ پھرنبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ خاموش ہوگئے"۔

 

اے افواج پاکستان میں موجود مسلمانو! اے اہلِ نُصرۃ! اے موجودہ دور کے انصارو!

رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کار اسلام کے قیام کے لیے اہلِ قوت سے نُصرۃ(مادّی مدد)حاصل کرنے کا  تقاضا کرتا ہے اور تم میں سےہر ایک یہ نُصرۃ دینے کی قابلیت رکھتا ہے۔  تمہارے بیٹے، بیٹیاں، بھائی،بہنیں اور مائیں تمہیں پکارتی ہیں کہ تم اپنی ذمہ داری کو پورا کرو۔  نصرۃ کا معاملہ تمہارا ہے اور یہ وقت بھی تمہارا ہے ، لہذا اگر تم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کرو گے تو تم یقیناً کامیاب رہو گے۔ کفریہ جمہوریت کی حمایت کر کے، جسے لوگوں کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے،  اپنی امت اور اپنے حلف سے غداری مت کرو۔اور جنہوں نے ہماری قیادت  کی صفوں کو داغدار کر دیا ہے ؛ ایسے لوگوں کی زندگی کی خاطر اپنی آخرت کوبرباد مت کرو! حزب التحرير کو نصرۃ فراہم کرکےرسول اللہ ﷺ کے طریقے پر خلافت کوقائم کردو ۔  اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب رہے اور کفر اور ان کے لوگوں پر غالب آ گئے تو تمہارا یہ عمل تمہاری اور امتِ مسلمہ کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا۔

 

﴿إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾

" اگر اللہ تعالی تمھاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے؟ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے"(آل عمران:160)

 

 

ہجری تاریخ :1 من محرم 1443هـ
عیسوی تاریخ : پیر, 09 اگست 2021م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک