الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

  • سرمایہ دارانہ نظام نے ہم پر مسلط کر رکھا ہے کہ ہم کورونا وائرس کی بیماری یا لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی فاقہ کشی میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے حکمران اسلام کی بجائے اسی نظام کے نفاذ پر اصرار کررہے ہیں

 

کچھ صنعتوں کو چالو رکھنے کی رعایت کے باوجود  ، کورونا وائرس (Covid-19) کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر قومی سطح پر مکمل لاک ڈاؤن ، پاکستان کے عوام پر بذاتِ خود ایک بھاری بوجھ بن گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے پاس دو ہی حل ہیں؛ لاک ڈاؤن کے ذریعے بھوک برداشت کریں یا وائرس کے پھیلاؤ کی صورت میں بیماری کا سامنا کریں۔تاہم ایک طرف پاکستان کے مسلمان اس وائرس کے تیز پھیلاؤ کا مشاہدہ بھی کررہے ہیں اور دوسری طرف وہ بڑھتی غربت، مشکلات ، کاروبار کی تباہی، کارخانوں کی بندش اور بے روزگاری کا سامنا بھی کررہے ہیں۔

 

یقیناً بھوک اور وائرس میں سے کسی ایک کا انتخاب ایک عالمی مخمصہ بن گیا ہے۔ مغربی ممالک قومی لاک ڈاؤن کے مکمل یا جزوی خاتمے کے دباؤ کا سامنا کررہے ہیں تاکہ لوگوں کی معاشی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن نے معیشت کے کئی بڑے شعبوں کو مکمل طور پر بند کردیا ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں اور کھربوں ڈالر کا نقصان ہورہا ہے ۔ اس صورتحال نے ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کو مجبور کیا کہ وہ  گرتی معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے بہت بڑے بیل آوٹ  پیکجز کا اعلان کریں۔  دوسری جانب دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر معلوم افراد کی تعداد تقریباً 20 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جبکہ اموات ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہیں۔ اس صورتحال نے دنیا بھر کو خوف اور افراتفری میں مبتلا کر رکھاہے۔

 

پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام پر اعتماد متزلزل   ہوگیا ہے کہ آیا یہ نظامِ حیات (آئیڈیالوجی)انسانوں کے معاملات کی بہتر دیکھ بھال کر سکتا ہے؟  حتیٰ کہ مغربی سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی لوگ ،بھوک اور بیماری سے تحفظ فراہم کرنے میں سرمایہ دارانہ ریاستوں کی ناکامی پر ہِل کر رہ گئے ہیں۔

 

جبکہ وبائی امراض کے حوالے سے اسلام نے واضح رہنمائی فراہم کی ہے جس سے طبی  اور معاشی دونوں نقصانوں کوبڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اور اسلام کے اصولوں کی پاسداری مکمل قومی لاک ڈاؤن جیسے انتہائیاقدام   کے بغیر ہی بیماری کے پھیلاؤ پر قابوپانے کو ممکن بناتی ہے۔

 

اسلام یہ لازم قرار دیتا ہے کہ جہاں سے وباء کا آغازہو ، فوراًاس علاقے کو قرنطینہ کردیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا

" جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل گئی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت "(بخاری)۔    

 

قرنطینہ کرنے میں ناکامی یقیناً بہت نقصان کا موجب ہے ۔ اس بیماری کے پھیلاؤ کو چھپانے کے لیے چین نے ابتدا میں بیماری کے مرکزوُوہان  کوقرنطینہ    نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں یہ وائرس چین کے دیگر علاقوں میں اور بین الاقوامی پروازوں کے ذریعے کئی ممالک میں پھیل گیا، جس میں ایران بھی شامل تھا، جہاں سے پھریہ پاکستان پہنچ گیا۔ پاکستان کے معاملے میں مقامی سطح پر اس بیماری کا پھیلاؤ بلوچستان کے علاقے تفتان سے شروع ہوا  جو ایران کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں ایران کے شہر قُم کا دورہ کرنے والے زائرین کے لیے ایک سرحدی  چوکی قائم ہے۔ قم شہر میں چائنیز ریلوے کارپوریشن  کے چینی شہری موجود تھے اور وہاں سے ہی یہ وائرس ایرانی اور پاکستانی زائرین میں منتقل ہوا ۔   پاکستان کی حکومت نے اس علاقے کو سختی سےقرنطینہ نہیں کیا، اور متاثرہ افراد کو وقت سے پہلے وہاں سے جانے کی اجازت دے دی گئی جس کی وجہ سے بیماری ملک کے چاروں کونوں میں پھیل گئی۔

 

دنیا بھر میں سرمایہ دار ممالک نے بھی قرنطینہ کے اصول پر سختی سے عمل نہیں کیا اور اس وجہ سے  ان ممالک میں  بڑی تعداد میں لوگ تیزی سے اس وائرس سے متاثر ہوئے، اور بیماری اور موت کا شکار ہونے لگے۔ جب چین نے کورونا وائرس کے پھیلاؤکادنیا کے سامنے اعلان کر دیا تو اس کے بعد بھی چین سے چار لاکھ تیس ہزار لوگوں نے امریکاکاسفر کیا  جس میں چین کے علاقے وُوہان  سے آنے والے لوگ بھی شامل تھے ۔ امریکا میں اِس وقت کورونا وائرس سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات واقع ہو چکی ہیں، جہاں 14 اپریل 2020 تک 603694افرادمیں بیماری کی تصدیق ہو چکی ہے اورکم از کم25000 افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔

 

اسلام نےچُھوتی ا مراض  کے حوالے سے یہ رہنمائی فراہم کی ہے کہ بیماروں کو صحت مند افراد سے علیحدہ کیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

لاَ تُورِدُوا المُمْرِضَ عَلَى المُصِحِّ

"بیمار کو تندرُست کے ساتھ مت رکھو"(بخاری)۔

 

چھوتی امراض میں مبتلا بیماروں کو صحت مند افراد سے الگ رکھنا ضروری ہے یا ان کے درمیان کوئی رکاوٹ موجود ہونی چاہیے، یا دونوں صورتیں اختیار کی جائیں ۔ ریاست پر لازم ہے کہ وہ ہسپتالوں اور آئیسولیشن سینٹرز میں بیماروں کو مکمل طور پرعلیحدہ رکھنے کا بندوبست کرے اور گھروں میں بیمار کو مؤثر انداز میں علیحدہ رکھنے میں مدد فراہم کرے ۔ پس ریاست ان تمام لوگوں کو ذاتی تحفظ کا سامان(PPE)فراہم کرے جو کسی بھی جگہ پر اس وائرس سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال کررہے ہیں ۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اس معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے  یہ وائرس کئی رہائشی علاقوں میں پھیل گیا اور میڈیکل عملے کے لوگوں میں بھی منتقل ہو گیا۔

 

دنیا بھر میں سرمایہ دار ممالک بیماروں کوصحت مندوں سے مؤثر انداز میں الگ تھلگ کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ بیماری تیزی کے ساتھ مختلف شہروں میں اور ہسپتالوں کے عملے میںبھی پھیل گئی ، نتیجتاً میڈیکل عملے کے کئی افراد  کی جانیں جا چکی ہیں  ۔

 

اسلام نے اُن افراد کے حوالے سے بھی رہنمائی فراہم کی ہے جن کے جسم میں یہ وائرس موجودہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات اُن پر ظاہر نہیں ہوتے، جنہیں خاموش کیرئیر(silent carriers) کہتے ہیں  اورجن کے بڑی تعداد میں موجود ہونے کی وجہ سے وباءغیر محسوس طریقے سےدیگر لوگوں میں پھیل جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

"تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اس سے اس کے زیر نگرانی  لوگوں کے متعلق سوال ہو گا ،اور حکمران عوام الناس پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہو گا"(بخاری و مسلم)۔

 

پس ریاست کو چاہئے کہ وہ وائرس کی موجودگی معلوم کرنے  کیلئےبہت بڑے  پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ کرے جو پاکستان جیسی آبادی والے ملک میںدسیوں لاکھ کی تعداد میں ہوں ، تا کہ خاموش کیرئیرز کی بروقت نشاندہی ہوسکے، جس کے بعد ریاست ان افراد کو الگ تھلگ کرے جن میں  وائرس کی موجودگی پائی جائے اور ان سے ملاقات کرنے والے افراد تک پہنچ کران کی بھی سکریننگ کی جائے ، اور ان لوگوں پرخصوصی توجہ دی جائے جن کی قوتِ مدافعت کمزور ہے جیسا کہ بزرگ یا وہ جنہیں مخصوص قسم کی بیماریاں لاحق ہیں جیسا کہ دمہ یا شوگر وغیرہ۔ ریاست کو چاہئے کہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے ماسک اور وائرس کُش صفائی کا سامان مہیاکرے۔ اور ریاست کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے لیے معلومات کی فراہمی  اور تربیت کا اہتمام کرےتاکہ وہ بقدرِ ضرورت ایک دوسرے سے مخصوص فاصلہ رکھیں تا کہ بیماری کو پھیلنے سے روکا جائے ۔ نہ کہ ریاست کی ترغیب موت کے خوف کی فضاء پیدا کرنے اور ڈنڈے کے زور پر لوگوں کوروکنے کے ذریعے ہو۔

 

اس طرح اسلام پر عمل درآمد ریاست کے لئے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ شروعات سے ہی وباء کو ممکن حد تک محدود کیا جائے اور وباء کے بڑھنے کی صورت میں اس پر قابو پایا جائے تاکہ  ملک مسئلے میں گھِر کر بے بس ہونے سے بچ سکے  اس حد تک کہ پورے ملک کو ہی لاک ڈاؤن کر دیا جائے جیسا کہ بہت سے سرمایہ دار ممالک نے کیا جس میں امریکا بھی شامل ہے۔ یقیناً مکمل لاک ڈاؤن  کے نتیجے میں بدترین بھوک کی جو صورتحال پیدا ہوتی ہے، وہ  وائرس سے پیدا ہونے والے مسائل میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ لہٰذا اسلام کے احکامات کی پابندی اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ زندگی کے معاملات چلتے رہیں اور مسلمانوں احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنےتمام اسلامی فرائض کی تکمیل کریں،  جیساکہ حصولِ رزق کیلئے دوڑ دھوپ کرنا،حصول علم اور مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنا۔

 

جہاں تک اس قسم کے وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے درکار وسائل کی بات ہے تو اس پہلو سے اسلام انسانوں کے بنائے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام سے بہت اعلیٰ وبرتر ہے جو اس وقت دنیا پر غالب ہے۔ یقیناً کورونا وائرس (Covid-19) کے پھیلاؤ نے سرمایہ دارانہ معیشت کےعیب ، کمزوری اور ناپائیداری   کو بےنقاب کردیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں پورے ملک کی دولت سِمٹ کر چند ہاتھوں میں جمع ہوگئی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس کے باعث  مغربی  سرمایہ دار ممالک بھی اپنی عوام کی دیکھ بھال کی   ذمہ داریوں  کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ  پاکستان تو اس معاملے میں مغربی ممالک سے بھی ابتراور خستہ حال  ہے۔  یقیناً سرمایہ داریت انسانیت کیلئے ایک بوجھ ہے جو لوگوں کو اس امر پر مجبور کررہی ہے کہ وہ وائرس یا بھوک میں سے کسی ایک کو گلے لگالیں ۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ

"اور دولت تمہارے امیروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی  رہے"(الحشر 59:7)۔ 

 

اسلام معاشی بڑھوتری کے سرمایہ دارانہ ماڈل کو مسترد کرتا ہے جو صرف پیداواربڑھانے پر  اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اسلام کا معاشی ماڈل دولت کی تقسیم پر توجہ دیتا ہے اورمعاشرے میں دولت کی گردش کو یقینی بناتا ہے۔

 

لہٰذا اسلام صحت جیسے ناگزیرامور پر خرچ کرنے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ اسلام میں ریاست معیشت کے اُن شعبوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے جہاں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس میں نفع بھی بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ رسول اللہﷺ نے عنان، ابدان اور مضاربہ کمپنی ڈھانچوں کی اجازت دی ہے، اور اسلام نے سرمایہ دارانہ کمپنی ماڈل کو حرام قرار دیا ہے ،جس کے نتیجے میں  نجی شعبے کو سرمائے کی دستیابی  خود بخود محدود ہو جاتی  ہے ،  اوربڑے حجم اور بے پناہ منافع کی حامل صنعتوں اور کارخانوں کا مالک بننے کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے، کہ جنہیں بحران کی صورت میں سرمایہ دار ریاستوں کی جانب سے بڑے بڑے بیل آوٹپیکج دیے جاتےہیں۔  اسلام اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ توانائی اور معدنیات کے شعبے سے حاصل ہونے والے محاصل تمام عوام پر خرچ ہوں بجائے یہ کہ چند لوگ نجکاری کے ذریعے ان وسائل کے مالک بن کر دولت کے انبار جمع کرلیں۔ رسول اللہﷺ کی سنت نے  لازم قرار دیا ہے کہ توانائی اور معدنیات کے ذخائر عوامی ملکیت ہیں اور ان سے حاصل ہونے والا فائدہ عوام اورعوامی امور کے لیے ہے۔ اسلام سودی قرضوں کو بھی مستردکرتا ہے چاہے یہ غیر ملکی قرضے کی شکل میں ہو یا مقامی ٹریژ ری بانڈز (ٹی بِلز) کی صورت میں ہوں۔ سودی لین دین کا یہ عظیم گناہ ہی پوری دنیا  اور پاکستان میں قومی قرضوں کی اصل بنیاد ہے، اور پاکستان جیسے ممالک کے بجٹ کا بڑا حصہ   قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے جبکہ عوامی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔

 

لہٰذا اگر ریاست اپنے وسائل سودی قرضوں کی واپسی پر ضائع نہ کرے تو وہ اس قابل ہے کہ وہ  عام دنوں یا بحرانی  حالت میں لوگوں کی متعلق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکے۔ یقیناً اسلام نے انسانیت کو بیماری یا بھوک میں سے کسی ایک آپشن کو اختیار کرنے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا کیونکہ ریاست پر فرض ہے کہ وہ بیماری اور بھوک دونوں کے لیے  مناسب بندوبست کرے۔ رسول اللہ ﷺ کی بابرکت سنت صحت کی سہولیات اور بنیادی ضروریات  دونوں کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا

"تم میں سے جو اپنے دن کا آغاز اس حال میں کرے کہ اس کا راستہ محفوظ ہے اور اس کا جسم تندرست ہے اور اس کے پاس دن کا کھانا موجود ہے تو گویا اس کے پاس دنیا بھر کی دولت ہے"(ترمذی)۔

 

جہاں تک ایک مضبوط شعبۂ صحت کی موجودگی کا تعلق ہے  کہ جس میں بحرانی صورت سے نبٹنے کی  اضافی گنجائش موجود ہو، تو کورونا وائرس کی وباء (Covid-19) نے  سرمایہ دارانہ ہیلتھ سسٹم کی کمزوراور نازک صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔ سرمایہ داریت نے   سرکاری و نجی شعبہ صحت  دونوں کو محدود کر رکھا ہے کیونکہ صحت جیسا عوامی شعبہ بھی اس تصورپر استوار ہے کہ منافع زیادہ سے زیادہ جبکہ نقصان کا اندیشہ صفر ہو۔   لیکن اسلام ریاست کو ایک نگہبان کا درجہ دیتا ہے اور اس بنا پر ریاست کے لیے لازم کرتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو صحت کی بہترین سہولیات عام اور ہنگامی ،دونوں حالتوں میں فراہم کرے۔ مسلم نے جابرؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے بیان کیا:

بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه و سلم إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ طَبِيبًا فَقَطَعَ مِنْهُ عِرْقًا ثُمَّ كَوَاهُ عَلَيْهِ

"رسول اللہﷺ نے ابی بن کعب ؓ کے پاس ایک طبیب بھیجا تو اس نے ان کی ایک رَگ کاٹی پھر اسے داغ دیا"۔

 

  رسول اللہﷺ نے ایک حکمران کی حیثیت سے ابی بن کعبؓ کے پاس ایک ڈاکٹر یا طبیب کو بھیجا جو اس کا ثبوت ہے کہ صحت اور طبی شعبہ شہریوں کی ضروریات میں سے ہے اور ریاست پر لازم ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ صحت کی سہولیات   ہر اس شخص کے لیےمفت اور فوری دستیاب ہوں جسے ان کی ضرورت ہے ۔

 

لہٰذا اسلام میں ریاست پر لازم ہے کہ وہ طبی آلات کی وافر تعداد مقامی سطح  پر تیار کرے،جس میں وینٹی لیٹرز اور ذاتی تحفظ کا سامان(PPE) بھی شامل ہے۔ ریاست پر لازم ہے کہ وہ تحقیقی ادارے قائم  کرے تا کہ  انفیکشن کے خلاف  عوام کی قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے تمام ممکنہ چیزوں کو جانچا جاسکے خواہ اس کا تعلق خوراک سے ہو یا مختلف نوعیت کی ورزشوں سے یا ہر قسم کی ادویات سے  جس میں جڑی بوٹیاں  اور وٹامن سپلی منٹس بھی شامل ہیں ۔ ریاست ان امکانات پر بھی غور کرے جن کے ذریعے مخصوص متعدی امراض کے خلاف آبادی میں مجموعی قوت مدافعت(herd immunity) پیدا کی  جاسکتی ہو اوراس بات کی تحقیق بھی کہ  مختلف دیکسین کتنی مؤثر اور محفوظ ہیں ۔

 

اسلام نے نہ صرف صحت کو پہنچنے والے نقصان کو محدود کرنے اور متعدی امراض کے پھیلاؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات  کا ازالہ کرنے کے متعلق رہنمائی فراہم کی ہے بلکہ اسلام نے اس حوالے سے بھی رہنمائی فراہم کی ہے کہ وبائی مرض سے ہونے والی اموات کو کس انداز سے دیکھنا چاہئے۔ بخاری نے اُ م المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت کی کہ آپؓ نے فرمایا، "میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے طاعون کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے مجھے بتایا:

أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِراً مُحْتَسِباً يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ

" یہ ایک عذاب ہے، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے مومنین کے لیے رحمت بنا دیا ہے۔ اگر کسی شخص کی بستی میں طاعون پھیل جائے اور وہ شخص صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے وہیں ٹھہرا رہے، یہ جانتے ہوئے کہ ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ رکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا"۔ 

 

لہٰذا خوف یا گھبراہٹ و افراتفری میں مبتلا ہونے کی بجائے مسلمان اس آزمائش کا سامنا  صبر سے کررہے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ یہ ان کے لیے اجر کا باعث ہو گا، اوروہ اللہ مالکِ کائنات سےدعائیں  کررہے ہیں کہ اس مشکل  سے نجات میں اللہ کی ذات ان کی مدد فرمائے۔

 

اے پاکستان کے مسلمانواور بالخصوص اے افواجِ پاکستان میں موجود امت کے عظیم بیٹو! 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پوری انسانیت کے سامنے انسانوں کے بنائے سرمایہ داری نظام کے جھوٹ اور ناکامی کو اپنی چھوٹی ترین مخلوق کے ذریعے بے نقاب کردیا ہے، خواہ یہ مشرق میں چین ہو یا مغرب میں امریکا ہو۔ آج حالات سازگار ہیں کہ امتِ مسلمہ ،جسے انسانیت میں  بہترین امت کے طور پر اٹھا یا گیا ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کو نافذ کر کے انسانیت کو رہنمائی فراہم کرے۔ 

     

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

اَلْإِسْلَامِ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى

"اسلام غالب آتا ہے ، مغلوب نہیں ہوتا"(دارقطنی)۔

 

یقینا ہمارا عظیم دین ، جو دینِ حق ہے، انسانوں کے بنائے ہوئے تمام تر نظاموں سے اعلیٰ وبرتر ہے ، اِس سرمایہ داریت (Capitalism)سے بھی کہ جس کے دن گنِے جاچکے ہیں۔ اسلام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے اوریہ ہر انسانی مسئلے کے متعلق بہتر رہنمائی اور وضاحت فراہم کرتا ہے۔  دنیا نے عملی طور پر سرمایہ داریت کی ناکامی کا مشاہدہ کرلیا ہے یہاں تک کہ امریکہ سمیت وہ مغربی ممالک کہ جو اس کے عَلم بردار ہیں ، وہاں بھی اس کی ناکامی عیاں ہو چکی ہے۔ آج دنیا نبوت کے نقش قدم پر خلافت  کی شکل میں، اسلام کے نفاذ کا مشاہدہ کرنے کے لیے، پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہے۔

 

لیکن پاکستان کے حکمران اسلام کو نافذ کرنے کی بجائے اپنے مغربی اتحادیوں کی اندھی تقلید کررہے ہیں  اس بات پر غور کیے بغیر کہ اللہ کے نقائص سے پاک مضبوط قوانین کے مقابلے میں انسانوں کے بنائے نظام کس قدر بودے اور ناقص ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

"جن لوگوں نے اللہ کے سوا (اوروں کو) کارساز بنا رکھا ہے اُن کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک (طرح کا) گھر بناتی ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ سب سے کمزور گھرمکڑی کا ہے ،کاش یہ (اس بات کو) جانتے"(العنکبوت 29:41)۔

 

فکری طور پردیوالیہ یہ حکمران سرمایہ داریت کے کفریہ نظام کے قوانین ، اقدار اور پالیسیوں کی اندھا دُھندپیروی کررہے ہیں اگرچہ رسول اللہﷺ نے خبردار کیا ہے کہ،

لَتَتَّبِعُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بَاعًا بِبَاعٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ وَشِبْرًا بِشِبْرٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا فِي جُحْرِ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ فِيهِ " تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے، ہاتھ کے برابر ہاتھ ،بازو کے برابر بازو اور بالشت کے برابر بالشت، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بِل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے"، لوگوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا اس سے مراد یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، فَمَنْ إِذًا: "تو اس کے علاوہ اور کون ؟ "(ابن ماجہ)۔

 

پاکستان کے حکمرانوں سے اس بات کی کوئی  امید نہیں کہ وہ آج کے اس ضرورت کے  وقت میں اسلام کے مطابق امت کی رہنمائی اور قیادت کریں یا انسانیت  کے سامنے اسلام کی روشن مثال کوپیش کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان کے بے بہابرکتوں والے مہینے میں ہم سب نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کی زبردست کوشش کریں، عام لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس کی پکار بلند کریں اور پاکستان کی افواج میں موجود مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس کے فوری قیام کے لیے حزب التحریر کو نُصرۃ فراہم کریں ۔ آئیں کہ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کریں،اس ذات کی طرف سے کامیابی کی عطا کو تلاش کریں تا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کی برتری تمام انسانیت پر عملی طور پر واضح ہوجائے، جس کے نتیجے میں انسانیت جوق در جوق اسلام میں  داخل ہو، جیساکہ رمضان کے مہینے میں فتح مکہ کے بعد  ہو اتھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا

"جب اللہ کی مدد آن پہنچی اور فتح حاصل ہو گئی، اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے" (النصر، 3-1)۔

 

ہجری تاریخ :22 من شـعبان 1441هـ
عیسوی تاریخ : بدھ, 15 اپریل 2020م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک