الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ مصر

ہجری تاریخ    6 من صـفر الخير 1446هـ شمارہ نمبر: 1446 / 03
عیسوی تاریخ     اتوار, 11 اگست 2024 م

پریس ریلیز

اے مصر کے علمائے کرام:

فلسطین کو اس کی مدد کے لیے ایک فوج کی ضرورت ہے،

اس لیے فوجوں کو متحرک کرنے کا مطالبہ کریں تاکہ فلسطین کی مدد کی جا سکےاور یہودیوں کے جرائم پر مذمت کے بیانات اپنے پاس ہی رکھیں۔ آپ نے پہلے ہی اپنی خاموشی اور بے عملی کے ذریعے فلسطینی عوام کو مایوس کیا ہے

)ترجمہ)

 

فلسطینی خبر رساں ایجنسی "وفا" کے مطابق، اوقاف کے وزیر ڈاکٹر اسامہ الازہری نے نماز فجر کے دوران غزہ شہر کے مشرق میں واقع تابعین اسکول پر یہودی وجود کی بمباری کی مذمت کی، جس میں غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں افراد رہائش پذیر تھے۔ آج فجر کے وقت یہودیوں کی طرف سے نشانہ بنائے جانے کے نتیجے میں 100 سے زائد مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ وزیر نے اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ "بطور مصری، ہم سب کے لئے فلسطینی مسئلے کے حوالے سے بہت سے مستقل معاملات ہیں۔ مصر کے مہمان ایک عرصہ سے ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں جب تک کہ ان کے اپنے ممالک میں حالات درست نہیں ہو جاتے، مصر کے ان مہمانوں میں سوڈانی، لیبیائی بھائیوں سمیت دیگر ممالک کے لوگ موجود ہیں۔ ان کے لئے ابھی بھی سوڈان یا لیبیا بطور وطن موجود ہیں جن کی طرف یہ لوگ واپس جا سکتے ہیں۔ مگر ہمارے فلسطینی بھائیوں کے معاملے میں، ہمیں ڈر ہے کہ وہ فلسطین کی زمین چھوڑ دیں گے اور قابض وجود مکمل طور پر اس زمین کو نگل جائے گا، اور اس معاملے کو مکمل طور پر ختم کر دے گا، اور پھر فلسطین نامی کوئی وطن نہ رہے گا جس کی طرف وہ واپس جا سکیں"۔ الأزہری نے جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فلسطین میں اپنے بھائیوں کو تمام امداد اور انسانی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ مسئلے کا واحد منصفانہ حل 1967ء کی سرحدوں کے اندر ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو"۔ (اخبار بوابۃ الاھرام، 10 اگست 2024)۔

 

الازہر الشریف ادارے نے غاصب صیہونی فوج کی وحشیانہ بمباری کی شدید مذمت بھی کی۔ الازہر الشریف نے اس مجرمانہ دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ، اس قتل عام میں شہید ہونے والوں اور زندہ بچ جانے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار بھی کیا۔ اس نے دنیا کے تمام آزاد لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس دہشت گرد وجود پر ہر طرح سے دباؤ ڈالتے رہیں تاکہ اس کے جرائم اور نسل کشی کی کارروائیوں کو روک دیا جائے، جو کہ وہ ارض فلسطین کے لوگوں کے خلاف روزانہ انجام دے رہا ہے۔ ہر کسی کو آگاہ ہونا چاہیے کہ تاریخ ان لوگوں پر رحم نہیں کرے گی جو ان بے شرم جرائم کے بارے میں لاتعلق اور خاموش ہیں۔ (الیوم السابع، 10/8/2024)۔

 

الازہر شریف کا پیغام دنیا کے آزاد لوگوں کے نام تھا کہ وہ یہودیوں پر دباؤ ڈالیں۔ یہ پیغام، 1967ء کی سرحدوں میں یہودی ریاست سے جڑی ہوئی، ایک ریاست قائم کر کے فلسطین کی زیادہ تر زمین یہودیوں کو دینے کی تجویز دیتا ہے اور اس بات کو غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔ یہ الازہر شریف ادارے اور وزیر اوقاف کا یہودیوں کے جرائم کے خلاف ردعمل ہے۔ گویا وہ یہودی وجود کو ہمارے لوگوں کا خون بہانے کے بدلے میں انعام دے رہے ہیں۔

 

الازہر شریف کے شیخ کا دنیا کے آزاد لوگوں کے نام خطاب یہودیوں کو روکنے میں ناکام رہے گا۔ یہ ان کے جرائم کو نہیں روک سکے گا۔ یہ ہماری مبارک زمین کو آزاد نہیں کروا سکے گا۔ یہودی ہماری سرزمینوں میں ایک مغربی فوجی اڈے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ انہیں مغرب نے کسی بھی ایسی صورتحال میں، امت کے اتحاد کو روکنے اور اس کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے ہی بنایا ہے جس میں یہ امت دوبارہ اپنی طاقت بحال کر لے اور ایک اسلامی ریاست قائم کر لے۔ اس لیے پورا مغرب یہودیوں کے پیچھے کھڑا ہے، ان کی حمایت کر رہا ہے اور ان کی بقا کو یقینی بنا رہا ہے، چاہے وہ فلسطین کے تمام لوگوں کو ختم کر دیں۔ مغربی حکومتوں کی جانب سے اپنے ہی اصولوں کی خلاف ورزی اور جمہوریت اور آزادیوں کے دعووں کی دھجیاں بکھیرنے پر نالاں مغربی لوگوں کی احتجاجی تحریکیں نہ تو انہیں روک سکیں گیں اور نہ ہی ان کی یہودیوں کے لیے حمایت کو ختم کر سکیں گیں۔ علماء کا یہ خطاب، عالمی برادری یا دنیا کے آزاد لوگوں کے نام نہیں ہونا چاہیے، بلکہ، یہ امت کی فوجوں سے مخاطب ہونا چاہیے تاکہ وہ فلسطین کی مکمل آزادی سے متعلق اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کے عائد کردہ فرض کو پورا کریں۔

 

جہاں تک اوقاف کے وزیر الازہری کا تعلق ہے، تو اس نے ایک بیہودہ اعلان جاری کیا، اور کچھ گمراہ کن باتوں کو بیان کیا! سوڈان، لیبیا اور فلسطین میں ہمارے لوگوں کو مصر کا مہمان قرار دیتے ہوئے، وہ قوم پرستی کے بارے میں بات کر رہا ہے، جسے وہ اسلام اور اس کے عقیدے کے رشتے کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ فلسطینی عوام کے خلاف حکومت کے جرم کو یہ کہہ کر جواز فراہم کر رہا ہے کہ یہ ان کے مفاد میں ہے، تاکہ ان کے پاس واپس جانے کے لیے ایک وطن ہو، جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے! اس نے ایک عالم کی زبان سے نکلنے والے سب سے بدترین مطالبے کا اظہار کیا کہ “مسئلے کا واحد منصفانہ حل 1967ء کی سرحدوں پر ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو!”

 

اے الازہری!

اسلام کی تمام زمینیں ایک سرزمین ہیں، اور قومی سرحدوں کے ذریعے انہیں تقسیم کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر تم اس کے برعکس کہتے ہو تو ہمیں شرعی ثبوت پیش کرو۔ فلسطین، لیبیا اور سوڈان کے لوگ مصر کے مہمان نہیں ہیں۔ بلکہ یہ مصر بھی اسی طرح ان کی زمین اور ان کا گھر ہے، جس طرح سے کہ یہ تمہارا ہے، کیونکہ وہ بھی مسلمان ہیں اور یہ جائز نہیں ہے کہ قومی سرحدیں ہمیں فلسطین سے الگ کر دیں۔ فلسطین صرف فلسطینیوں کے لیے وطن نہیں ہے۔ فلسطین ایک شرعاً خراجی زمین ہے، جس کی ملکیت اور قانونی حق پوری امت کے پاس ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین کے لوگوں کو بھی اس کو چھوڑنے یا 1967ء کی سرحدوں پر ریاست قبول کرنے کا حق نہیں ہے، جسے تم ایک حل سمجھتے ہو۔ اور اے الازہری جان لو کہ پورے فلسطین کو آزاد کرانا پوری امت بالخصوص ارد گرد کے ممالک پر ایک شرعی فریضہ ہے۔ یہ مصر اور اس کی فوج پر سب سے زیادہ واجب ہے، کیونکہ یہ سب سے قریب، مضبوط اور سب سے زیادہ قابل ہے۔ اگر فوج حرکت نہیں کرتی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی حمایت، جو کہ ان کا فرض ہے، سے پیچھے ہٹ جاتی ہے تو علمائے کرام کو انہیں حرکت میں آنے کے لیے ابھارنا چاہیے اور لوگوں کو بھی کہنا چاہیے کہ وہ ان سے حرکت میں آنے کا مطالبہ کریں۔ یہ اس لیے ہے کہ فوج کسی بھی ایسی رکاوٹ کو ہٹا دے جو ان کے متحرک ہونے اور، نہ صرف فلسطین، بلکہ مسلمانوں کے تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کی راہ میں حائل ہے۔

 

امت کے خلاف قتل و غارت گری اور جرائم کے لحاظ سے ہم اور کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خاطر، اس کی حرمت کی خاطر اور اس کے بابرکت مقامات کی خاطر علمائے کرام کو غصے میں لے آئے گی تاکہ افواج کو غزہ کے لوگوں اور پوری مبارک سرزمین کی مدد کرنے پر ابھارنے کے لیے ان کی آوازیں بلند ہوں؟ افواج کا حرکت میں آنا تو اس دن سے ہی شرعی فریضہ ہے جس دن ناپاک یہودیوں کے قدم ہماری مبارک زمین پر پڑے تھے لیکن اب ان مظلوم لوگوں کی مدد کرنا پہلے سے کہیں زیادہ ناگزیر ہے۔

 

اے مصر الکنانہ کے علماء:

آپ کے علم کو کسی ایسیے نظام کی خدمت نہیں کرنی چاہیے جو آپ کے دین سے لڑتا یے، آپ کی سرزمین سے دستبردار ہوتا ہے، آپ کے دشمن کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتا ہے، اور آپ کے بھائیوں کو قتل کرنے والوں کی حفاظت کرتا ہے۔ آپ کے لیے نہ تو یہ جائز ہے کہ آپ نظام کے جرائم کو جواز مہیا کرنے کا آلہ بنیں اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ آپ مصر کے لوگوں کو جاہل رکھنے کا آلہ بنیں کہ مصر کے لوگ وہ کام نہ کر سکیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان پر فرض کیا ہے، یعنی کہ ارضِ کنانہ کی فوج کو اس ظالم نظام کو اکھاڑ پھینکنے، اسلام کی مبارک سرزمین کو آزاد کروانے اور اس کے مظلوم لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب دینا۔ آپ کا علم، مصر کے لوگوں کے فکر و دین پر آپ کی سرپرستی کا متقاضی ہے۔ یہ آپ پر فرض کرتا ہے کہ آپ اس چیز کی طرف ان کی رہنمائی کریں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان پر فرض کی ہے۔ اگر افواج حرکت نہ کریں تو ان سے خطاب کرنا آپ پر فرض ہے۔ آپ پر فرض ہے کہ کنانہ کے لوگوں کو کھڑے ہونے پر اور سپاہیوں سے فوراً حرکت کرنے کا مطالبہ کرنے پر ابھاریں۔ یہ آپ کا فرض ہے، اے علمائے مصر الکنانہ، اور اگر آپ پیچھے ہٹ گئے تو آپ گنہگار ہوں گے۔

 

اے مصر الکنانہ کے سپاہیو:

ہم جانتے ہیں کہ یہ نظام آپ کو فلسطین کے لوگوں کی مدد کرنے، اس کی زمین کو آزاد کرنے، اور اس پر قابض وجود کو اکھاڑ پھینکنے سے روک رہا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ اس کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن جب ہمارے لوگ وہاں قتل ہو رہے ہیں، تو آپ کا پیچھے بیٹھنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ، آپ کا شرعی فرض ہے کہ آپ پورے فلسطین کو آزاد کریں، اس کے مظلوم لوگوں کی مدد کریں، اور ان سے ظلم کو ختم کریں۔ آپ کا راستہ اللہ کے رسول (صلى الله عليه وسلم) کا راستہ ہونا چاہیے جب انہوں  نے حرکت کرنے کا اعلان کیا اور یہ کہتے ہوئے مکہ کو فتح کرنے نکلے ، «لَا نَصَرَنِي اللهُ إِنْ لَمْ أَنْصُرْ بَنِي كَعْبٍ» "اللہ میری مدد نہیں کرے گا اگر میں بنی کعب کی مدد نہیں کروں گا"۔ ہر اُس برے نظام اور حکمران کو اکھاڑ پھینکیں جو آپ کے اور اس شرعی فریضے کے درمیان حائل ہے۔ اللہ کے لیے ایسی ریاست کا اعلان کریں جو اسلام اور اس کے لوگوں کی حمایت کرے، اس کی زمینوں کو متحد کرے، اور اس کے لوگوں کو ایک ریاست یعنی نبوت کے نقش قدم پر قائم خلافت راشدہ کے تحت ایک امت کے طور پر بحال کرے۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،

﴿وَإِذْ أَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ﴾

"اور یاد کرو جب اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ضرور اس کتاب کو لوگوں سے بیان کرنا اور اسے چھپانا نہیں تو انہوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کر لی تو یہ کتنی بری خریداری ہے"

(سورۃ آل عمران: 187)

 

ولایہ مصر میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ مصر
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 01015119857- 0227738076
www.hizb.net
E-Mail: info@hizb.net

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک