المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 26 من ربيع الاول 1446هـ | شمارہ نمبر: 1446 AH / 031 |
عیسوی تاریخ | اتوار, 29 ستمبر 2024 م |
پریس ریلیز
تقریریں کر لینا اور تقریبات منعقد کر لینا غزہ کی مدد کے لئے کافی نہیں، اے علمائے کرام !
)ترجمہ)
جمعرات 26 ستمبر کو استنبول میں ایک عظیم الشان عوامی اجتماع کے دوران ”امت کے علمائے کرام کی جانب سے طوفان الاقصیٰ کی حمایت کی مہم“ کا آغاز ہوا، جس کا اہتمام طوفان الاقصیٰ آپریشن کے پہلے ہجری سال کی مناسبت سے کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں بڑی تعداد میں مسلم علماء نے شرکت کی، جن میں سے کچھ ذاتی طور پر موجود تھے جبکہ دیگر نے ریکارڈ شدہ تقاریر کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا، اس کے علاوہ استنبول میں مقیم سینکڑوں ترک اور عرب برادری کے افراد بھی شامل تھے۔ شرکاء نے دو رکعت نماز ادا کی، دعائے قنوت نازلہ ادا کی گئی، اور دعاؤں کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اللہ سے اہل غزہ کی مدد اور محاصرے کے خاتمے کی دعا مانگی۔
ہمیں یقین ہے کہ غزہ میں ہمارے لوگوں کے المیے نے امت کے تمام بیٹے اور بیٹیوں کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، اور کوئی بھی ذی شعور ایسا نہیں ہے جس نے اپنے جذبات کا اظہار نہ کیا ہو، یا غزہ کے مظلوم لوگوں کی اس حالت پر غم اور افسوس کا اظہار نہ کیا ہو، جس سے ہمارے دل غم اور درد کے مارے گھلے جا رہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں اٹھنے والی عوامی تحریکوں کا مشاہدہ کرنے والا کوئی بھی شخص، امت کے اندر ہم آہنگی، رابطے اور یکجہتی کی حقیقت کا بخوبی ادراک کر سکتا ہے، اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ امت کے بیٹے اور بیٹیاں جس حد تک ممکن ہو غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اسی طرح، یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہرے، جو یہودی وجود کے سفاکانہ قتل عام اور خوفناک تشدد کے خلاف ہونے والے احتجاجوں میں کئے گئے، یہ واضح کرتے ہیں کہ یہودی وجود کس قدر بے شرمی اور تکبر کے ساتھ اس ظلم کو جاری رکھے ہوئے ہے، جسے نہ کوئی عالمی عدالت روک سکی، نہ کوئی سلامتی کونسل کی قرارداد، نہ کوئی بائیکاٹ اس پر اثرانداز ہوا، نہ کوئی دھمکی یا مذمت ہی اسے روک سکی۔
یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ امت کے تمام مظاہرے، اجتماعات، جلسے اور تقریریں غزہ کی ذرہ برابر بھی مدد کرنے میں ناکام رہی ہیں، اور نہ ہی ظالم کو اس کی جارحیت سے روکنے اور اس خونریزی، گھروں سے بے دخلی کرنے اور بربادی مچانے سے روکنے میں کامیاب ہو سکی ہیں۔ پورا ایک سال بیت چکا ہے، اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب مظاہرے یا تقریبات نہ ہوئی ہوں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان تمام شواہد کے باوجود بھی دنیا بھر کے علمائے کرام ایسی کانفرنسوں کا انعقاد کرنے اور فلسطینی علماء کی ایسوسی ایشن کے تعاون سے اقدامات کرنے سے نہ رکے جن کے نعرے اور مقاصد تو بہت اعلیٰ اور عظیم تھے لیکن وہ نعرے نہایت مبہم اور اصل مقصد کو حاصل کرنے کے حقیقی طریقہ سے محروم تھے یعنی یہ غیر واضح نعرہ ”فلسطینی کاز کے لئے تمام اسلامی جدوجہد کو یکجا کرنا“! اور مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ علماء اب بھی فلسطینی عوام کے لیے مادی اور اخلاقی امداد کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ان کی تقاریر فلسطین، بالخصوص غزہ میں لوگوں کی ان مشکلات پر ماتم اور مذمت کر لینے سے خالی نہیں ہیں جن کا سامنا غزہ کے لوگ ایک سال سے کر رہے ہیں۔ کچھ علماء نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تقاریر میں قابض قوت کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے پر زور دیا، اور کچھ نے مزاحمت کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اے معزز علماء کرام!
اگرچہ یہ کج روی جو لوگوں پر طاری ہو چکی ہے، وہ ان کی جہالت کے سبب ہے اور اس نے انہیں دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کی گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان میں سے کچھ لوگ اٹھے، احتجاج کئے، آواز بلند کی، اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ شاید یہ زیادہ سے زیادہ وہ کچھ ہے جس کا اہتمام چند لوگ جیسا کہ مزدور، ملازمین، انجینئرز، ڈاکٹرز، گھریلو خواتین اور مائیں وغیرہ کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال جس تک یہ لوگ پہنچ چکے ہیں یہ اس پالیسی کا نتیجہ ہے جو لوگوں کو جہالت میں رکھنے اور حقائق سے بے خبر رکھنے کی پالیسی تھی، ساتھ ہی ان کے منہ بند کرنے اور سچائی پر پردہ ڈالنے کی پالیسی کا بھی نتیجہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خوف اور شکستگی لوگوں میں سرایت کر گئی، اور یہی وجہ ہے کہ آپ لوگوں کو معاشرتی سطح پر یا عالمی سطح پر ضروری اور مؤثر اقدامات کرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مؤثر ترین کام علماء اور فقہاء کے سپرد ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات کی آگاہی دیں کہ وہ کیسے ایسا مؤثر عمل کریں جو مطلوبہ نتیجے کی طرف لے جائے، جو کہ حالات کو بدلنے، کمزوروں کی مدد کرنے اور مظلوموں سے ظلم کو ختم کرنے کا سبب بنے۔ لہٰذا حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ کی خطیبانہ سی تقریب صرف غزہ کی حمایت کی بات کر لینے اور مدد کی ضرورت کے پہلے سے معلوم باتوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ یہ تقریب ایسی رسمی سرگرمیوں تک ہی محدود رہی جو نہ تو کوئی عملی فائدہ رکھتی تھیں اور نہ ہی ان کے مطالبات کا کوئی حقیقی اثر تھا اور یہ مذمتیں اور احتجاجات ان ہی طرز پر تھے جنہیں عوام پہلے ہی سے ان کرپٹ حکومتوں کی جانب سے سننے کے عادی ہو چکے ہیں!
اے معزز علماء:
آپ انبیاء کے وارث ہیں۔ امت آپ پر اعتماد کرتی ہے اور آپ سے صرف زبانی کلامی تقریروں کے بجائے عملی اقدامات کی توقع رکھتی ہے اور آپ سے یہ امید کرتی ہے کہ آپ اس امت کو نیکی کی راہ پر رہنمائی کریں اور اللہ کے عطا کردہ علم، فہم، خوفِ خدا اور تقویٰ کے ذریعے اس کو بیدار کریں۔ آپ پر واجب ہے کہ حق بات کہیں، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے یا کسی ظالم کے ظلم سے نہ ڈریں۔ آپ جانتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے عائد کردہ جہاد کا حکم صرف غزہ، مغربی کنارے یا لبنان کے لوگوں پر نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ پر فرض ہے، یہاں تک کہ فرض کفایہ ادا ہو جائے، اور امت پوری کی پوری گناہگار ہے، سوائے ان کے جو سنجیدہ کام میں سرگرمِ عمل ہیں، اور آپ پر سب سے زیادہ بوجھ اور ذمہ داری ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جنہیں اللہ نے اپنی آیات دیں اور پھر انہوں نے انہیں ترک کر دیا، اور نہ ہی ان کی طرح ہوں جنہیں تورات سپرد کی گئی مگر انہوں نے اسے ساتھ نہ رکھا ! اور یہ نہ بھولیں کہ اللہ آپ سے اس علم کے بارے میں پوچھے گا جو اس نے آپ کو عطا کیا ہے جبکہ آپ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ کلام بھی پڑھتے ہیں:
﴿وَقِفُوهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ﴾
”اور انہیں ٹھہراؤ، بے شک ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی“(الصٰفٰت؛ 37:24)
اے علماء کرام، آپ کو چاہیے تھا کہ:
- یہ واضح کرتے کہ فلسطین کے قبضے اور اس کے لوگوں کی بے دخلی کا سبب کون ہے، اور یہ ظاہر کرتے کہ عالمی اور اقوام متحدہ کے ادارے اس قبضے کو برقرار رکھنے میں کس طرح تعاون کر رہے ہیں، اور یہ کہ غزہ کے لوگوں سے ظلم کو ہٹانے کے لئے ان اداروں سے انصاف کی توقع کرنا بے فائدہ ہے۔
- مسلمانوں کے حکمرانوں اور دیگر سازشیوں اور معاونین کو بے نقاب کرتے اور امت کے سامنے ان کی غداری اور ملی بھگت ظاہر کرتے، بلکہ یہاں تک کہ یہ بھی بتاتے کہ وہ یہود کی کامیابیوں اور مجاہدین کے خاتمے پر کس قدر خوش ہوتے ہیں۔
- امت کو یہ بتاتے کہ وہ کون سا مؤثر عمل ہے جو سیاسی منظرنامے کو بدل سکتا ہے، حکمرانوں کا خاتمہ کر سکتا ہے، اور امت کو ایک ایسی سیاسی وحدت میں یکجا کر سکتا ہے جو اس کی عظمت کو بحال کرے، بجائے اس کے کہ صرف فلسطین کے مسئلے کی حمایت کے لیے کاوشوں کا اتحاد ہو۔
- آپ ان ظالموں کا مقابلہ کرنے میں امت کے رہنما بنتے، جو یہودی وجود کی حمایت کرتے ہیں اور وہ جنہوں نے امت کو جکڑ رکھا ہے، اس کے منہ بند کیے ہوئے ہیں، اور انہوں نے امت پر ذلت اور اطاعت کا طوق مسلط کیا ہوا ہے، اور یہ رہنمائی اس لئے تاکہ امت آپ کے ساتھ اٹھے اور اللہ کو وہ دکھا دے جو اسے راضی کرے، اور امت اس سب کے لئے آرزو رکھتی ہے اور اس کی متمنی ہے۔
- آپ جہاد کا اعلان کرتے، اور صرف اعلان پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ مسلمانوں کی جنگجو افواج کے ساتھ جہاد کا آغاز کرتے، اور صرف نوجوانوں کو جہاد کی پکار دینے پر ہی مطمئن نہ ہوتے جیسے کہ آپ کرتے ہیں، کیونکہ نوجوان تو تیار ہیں لیکن ان کے پاس سازوسامان نہیں ہے، جبکہ بیرکوں میں موجود افواج آپ کے خطبات کے لئے زیادہ مستحق ہیں کیونکہ وہ تربیت یافتہ بھی ہیں اور تیار بھی، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے بہت سے جسمانی، روحانی، مادی اور اخلاقی طور پر قربانی دینے اور جانوں کے نذرانے دینے کوتیار ہیں۔ لیکن ان کی راہ میں حائل رکاوٹ، وہ کرپٹ حکومتیں ہیں جس کی وہ اطاعت کرتے ہیں، اور جو انہیں حرکت میں آنے سے روکے ہوئے ہیں، اس لئے آپ پر لازم تھا کہ انہیں ان کی ذمہ داریوں کے سامنے لا کھڑا کریں اور ان سے نصرۃ (مادی مدد) کا مطالبہ کریں۔
- اے علماء کرام ! آپ کے لیے عظیم عالم العز بن عبدالسلامؒ، فاضل امام احمد بن حنبلؒ، اور دیگر مجاہد علماء کی مثالوں میں آپ کے لئے ایک سبق ہے، جو ظلم و فساد کے خلاف خاموش نہیں رہے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں بھرپور جدوجہد کی اور آپ ان علماء کی سوانح حیات کو پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اسلام کی مدد کرنے اور مسلمانوں کے لئے فتوحات حاصل کرنے میں ان کا کیا کردار رہا تھا۔
اور ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یاد دہانی کراتے ہیں جو سورۃ الصف میں ہے:
﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفّاً كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ﴾
”بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں“ (الصف؛ 61:4)
حزب التحرير کامرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.domainnomeaning.com |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) domainnomeaning.com |