الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ پاکستان

ہجری تاریخ    17 من رجب 1440هـ شمارہ نمبر: 1440/42
عیسوی تاریخ     اتوار, 24 مارچ 2019 م

پریس ریلیز

ملکی معیشت کی ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیبات دینے کی نہیں

بلکہ اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ ضرورت ہے

پاکستان کے دورے پرآئے ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے 22مارچ کو اسلام آباد میں ایک بزنس کانفرنس سے خطاب میں ملیشیا کی معاشی ترقی کا رازیہ بتایا کہ انہوں نے دو دہائیوں تک بیرونی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں مراعات فراہم کیں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو مراعات فراہم کر کے کچھ عرصے کے لیے معیشت میں تیزی تو لائی جاسکتی ہے مگر معیشت کا کنٹرول بیرونی ہاتھوں میں چلاجاتا ہے جو ملک کی معاشی اور سیاسی خودمختاری کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ جن ممالک نے ملکی معیشت کو ترقی دینے کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں پر انحصار کیا تو انہوں نے اس کے مہلک اثرات کا بہت جلد مشاہدہ بھی کیا۔ پچھلی صدی کی نوے کی دہائی میں ملیشیا کو ایشیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں ،ایشین ٹائیگرز، میں شمار کیا جاتا تھا، لیکن پھر 1997 میں ایک زبردست معاشی بحران نے ان ممالک کی معیشتوں کو جکڑ لیا جس کی سب سے بڑی وجہ بیرونی سرمایہ کاروں کا ان ممالک سے تیزی سے پیسہ نکالنا تھا جس کے نتیجے میں چند ہفتوں میں ملیشیا سمیت یہ ایشین ٹائیگرز، ایشین کیٹس میں تبدیل ہوگئے۔ آج بھی ملیشیا کی معیشت کا حال یہ ہے کہ اس کے بیرونی قرض اس کی کُل ملکی پیداوار کا46 فیصد ہے جبکہ پاکستان کا بیرونی قرض اس کی کُل ملکی پیداوار کا 30 فیصد ہے۔

 

درحقیقت معیشت کی ترقی کی کنجی بیرونی سرمایہ کاروں کو قرار دینا ایک استعماری سوچ ہے جس کا مقصد استعماری ممالک کواس قابل بنانا ہے کہ وہ معاشی طور پر کمزور ممالک کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں کرلیں اور چھوٹے ممالک معاشی میدان میں ان کی بالادستی کو کبھی چیلنج نہ کرسکیں ۔ اس پالیسی کاستعماری ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ واشنگٹن کانسنس (Washington Consensus) کے دس نکات میں سے ایک نکتہ ہے اور آئی ایم ایف قرض لینے والے ہر ملک پر اس پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ آخر وہ تمام مراعات ملکی سرمایہ کاروں کو کیوں نہیں دیں جاتی جو بیرونی سرمایہ کاروں کودیں جاتی ہیں؟ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تو ہر قسم کی مراعات دیں جاتی ہیں جن میں ٹیکس کی چھوٹ بھی شامل ہے اور پھر ملکی خزانے کو بھرنے کی تمام ذمہ داری ملکی سرمایہ کاروں پر ڈال دی جاتی ہے، اور اس طرح ملکی سرمایہ کار کی کمر توڑ دی جاتی ہے۔

 

ملکی معاشی ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کے سرمائے کی نہیں بلکہ اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ اسلام کا معاشی نظام صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں پر بنیادی طور پر زکوۃ کے سوا کوئی ٹیکس عائد نہیں کرتا۔ ملکی سرمایہ کار پیداوار کے لیے درکار خام مال بغیر کسی کسٹم ڈیوٹی کے درآمد کرسکتا ہے کیونکہ اسلام کے معاشی نظام میں بنیادی طور کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں ہوتی۔ اسی طرح ملکی سرمایہ کار کو بجلی،گیس انتہائی مناسب قیمت پر دستیاب ہوتی ہے کیونکہ اسلام کے معاشی نظام کے تحت بجلی و گیس نجی ملکیت نہیں بلکہ عوامی ملکیت ہوتے ہیں اور ریاست عوام کے وکیل کے طور پر بغیر کوئی ٹیکس لگائے بجلی و گیس مہیا کرتی ہے۔ جب تک مسلمانوں نے خلافت کے زیر سایہ اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا تو وہ دنیا کی معاشی طاقت تھے۔ صرف برصغیر پاک و ہند کی معیشت برطانوی قبضے سے قبل دنیا کی معیشت کا تقریباً 25 فیصد تھی اور اس کی واحد وجہ اسلام کے معاشی نظام کا نفاذ تھا۔ اور آج پاکستان اور مسلم ممالک کی معاشی تنزلی کی واحد وجہ یہی ہے کہ اسلام کا معاشی نظام نافذ نہیں کیا جارہا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا

“اور جو میری نصیحت (قرآن) سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی”(طہ 20:124) ۔

لہٰذا ہمیں پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کرنی چاہیے اور معاشی ترقی کو یقینی بنائیں۔

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ پاکستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
https://bit.ly/3hNz70q
E-Mail: HTmediaPAK@gmail.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک