الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ظالمانہ ٹیکس اور اخراجات کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی صرف خلافت ہی غریب پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ٹیکس اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ دیکھایا گیا ہے کہ اسلام کی محصول (Revenue) اور اخراجات (Expenditure) کی پالیسیاں معاشی استحکام اور خوشحالی کا باعث بنیں گی۔

معاشی استحکام جمہوریت اور آمریت کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں نظامِ حکمرانی کرپٹ ہیں کیونکہ یہ استعماری طاقتوں اور پاکستان کے حکمران بننے والے ان کے ایجنٹوں کے مفاد کو پورا کرنے والی محصول اورا خراجات کی پالیسیاں بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔ سرمایہ داریت، چاہے وہ جمہوریت یا آمریت کسی بھی شکل میں پاکستان میں نافذ ہو، نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کر دیتی ہے جیسا کہ تیل،گیس اور بجلی۔

ئی۔ایم۔ایف (I.M.F) کے زیر نگرانی آمدنی اور اشیأکی خریداری اور ان کے استعمال پر بہت بڑی تعداد میں ٹیکسوں کی بھر مار نے پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے اور کل حاصل ہونے والے محاصل (Revenue) میں ان ٹیکسوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت نے 11-2012 میں صرف انکم ٹیکس کی مد میں 730,000 ملین روپے اکٹھے کیے جو 03-2002 میں حاصل ہونے والے کل محاصل کے برابر ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ملازمت پیشہ افراد پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا گیاہے جس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیاہے۔ اس کے علاوہ 13-2012 کے بجٹ میں حکومت نے انکم ٹیکس کی مد میں اکٹھی ہونے والی رقم کا ہدف 914,000 ملین روپے رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کل محاصل میں صرف سیلز ٹیکس کاحصہ 9 فیصد بڑھ کر 43 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اس سیلز ٹیکس کی وجہ سے لوگوں کے لیے ادویات، خوراک اور زراعت اور صنعت کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی خریداری اس حد تک تکلیف دہ بن گئی کہ ان کے لیے معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا اور اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن بن گیا۔ حکومت نے 12-2011 میں جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 852,030 ملین روپے اکٹھے کیے تھے اور 13-2012 کے بجٹ میں اس کا ہدف 1,076,500 ملین روپے ہے۔

جب تک یہ کرپٹ نظام چلتا رہے گا چاہے کوئی بھی حکومت میں آ جائے صورتحال مزید خراب ہی ہوگی۔ یہ کرپٹ نظام اسی قسم کی خرابی کو ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کو بنایا ہی اس طرح گیا ہے کہ وہ عوام کی ضروریات سے غفلت برتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جواس نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسلام آمدن اور اخراجات پر ٹیکس کو محاصل کے حصول کا بڑا ذریعہ نہیں بناتا۔ اس کے محاصل کی بنیاد بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچنے والی فاضل دولت اور اصل پیداوار ہے۔ خلافت صرف سخت شرائط کے ساتھ ہی ٹیکس لگا سکتی ہے اور وہ بھی صرف اخراجات کے بعد جمع ہونے والی دولت پر لگتا ہے لہذا ان لوگوں پر ٹیکس لگ ہی نہیں سکتا جو غریب ہیں یا اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ایک تو ریاست خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں، جیسے توانائی کے وسائل، بھاری مشینری کے اداروں سے بہت بڑی تعداد میں محاصل حاصل کرسکے گی۔ خلافت میں صنعتی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ صنعتی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے مشینری اورتوانائی پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر صنعتی شعبے کو مفلوج نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ریاست تجارت سے حاصل ہونے والے منافع سے محاصل حاصل کرے گی۔ اس عمل کے نتیجے میں کاروباری حضرات کو بغیر کسی رکاوٹوں کے پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کا بھر پور موقع میسر ہوگا اور وہ اپنے منافع یا جمع شدہ دولت پر حکومت کو محاصل دیں گے۔ اسلام میں محصول زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس لگا کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سستے خام مال کی وجہ سے کاشتکار کو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کرے۔

نوٹ : اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

ٹیکس اور اخراجات کے ظالمانہ نظام میں تبدیلی کے حوالے سے پالیسی
ربیع الثانی 1434،بمطابق فروری 2013

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں مزید کچھ کرنے کی ضرورت کا اظہارکر کے کیانی مسلسل امریکہ کی اطاعت قبول کررہا ہے امریکی جنگ کو جاری رکھنے سے انکارکرنے کی ضرورت ہے

7فروری 2013کو افغانستان پر قابض امریکی افواج کی قیادت سے سبکدوش ہونے والے امریکی جنرل جون ایلن سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے جنرل کیانی نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

پاکستان کو مزید کچھ کرنے کی کیوں ضرورت ہے؟کیا اس امریکی فتنے کی جنگ کا وبال مسلمانوں کے لیے کافی نہیں!قبائلی علاقوں میں ہزاروں افواج پاکستان کی افسران اور جوان مارے جاچکے ہیں صرف اس لیے کیونکہ امریکہ خود اپنی جنگ لڑنے کے قابل نہیں۔ کیا ہزاروں مسلمان افسران اور سپاہیوں کی ہلاکت کافی نہیں؟ ہزاروں مسلمان شہری امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے قاتلوں اور جاسوسوں کی کاروائیوں کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں جن کے قتل کی ذمہ داری قبائلیوں پر ڈال دی جاتی ہے تا کہ مسلمانوں کے درمیان فتنے کی جنگ کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ماحول کو سازگار رکھا جائے۔ کیا ہزاروں مسلمان شہریوں کی اس امریکی جنگ میں ہلاکت کافی نہیں ہے؟ اس امریکی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیا اس قدر معاشی نقصان کافی نہیں؟ جنرل کیانی !اس قدر جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد آخر مزید امریکی جنگ میں حصہ لینے کی کیا ضرورت ہے؟

پاکستان کی مسلم افواج کو اپنی قیادت میں بہادر اور دیدہ ورافسران کی ضرورت ہے۔افواج پاکستان میں ایسے بہادر اور دیدہ ور افسران موجود ہیں لیکن ان کا پیچھا کیا جاتا ہے یا انھیں سزا دی جاتی ہے جیسا کہ بریگیڈئر علی خان کے ساتھ کیا گیا۔ افواج پاکستان میں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے بریگیڈئر کو کیانی کے غنڈوں نے اس وقت اٹھایا جب ایبٹ آباد پر انتہائی تزہیک آمیز امریکی حملے کے نتیجے میں کیانی افواج پاکستان کو امریکہ کے سامنے بے عزت کرا چکا تھا ۔وہ واقع جس پراب ہولی ووڈ میں فلم بنا کر پاکستان اور افواج پاکستان کی مزید تذلیل کی جارہی ہے۔پاکستان کی مسلم افواج کو ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرے اور پورے خطے میں اسلام کی بالادستی کو بحال کردے جیسا کہ اس سے پہلے ہزاروں سال تک اس خطے میں اسلام ہی واحد قوت تھی۔ صرف ایسی قیادت ہی پاکستان سے امریکی سفارتی،فوجی اور انٹیلی جنس افراد کی موجودگی کا خاتمہ کرے گی۔ صرف ایسی قیادت ہی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک سے منسلک لوگوں کو پکڑے گی اور ملک سے بے دخل کرے گی۔ صرف ایسی قیادت ہی امریکہ سے انٹیلی جنس ،فوج اور مواصلات کے شعبے میں تعاون کا خاتمہ کرے گی۔ وقت کی ضرورت ہے کہ افواج پاکستان کے بہادر اور دیدہ ور افسران خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکو نصرۃ فراہم کریں تا کہ امریکی سازشوں کے خاتمے اور اسلام کی بالادستی کے قیام کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ
''وہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تا کہ اسے تمام مذاہب پر غالب کردے اگرچہ مشرکین ناخوش ہوں‘‘۔(الصف:9)


پاکستان میں حزب التحریرکا میڈیا آفس

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کراچی کی خراب صورتحال میں تبدیلی کے لیے پالیسی جاری کر دی صرف خلافت ہی کراچی کو اس کی اصل استعداد کے مطابق مقام دلوائے گی

کراچی ایک سیاسی، نظریاتی اور معاشی طاقت کا مرکز ہے۔ کراچی جس کی آبادی دو کڑوڑ کے لگ بھگ ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا شہر، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور پاکستان کا سابق دارلحکومت ہے۔ تقریباً ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔ کراچی میں بندرگاہیں بھی ہیں جو اس خطے کو مشرق وسطی کے مسلم علاقوں سے جوڑتی ہیں اور پاکستان کے تمام علاقوں کی معاشی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتوں کا ایک تہائی کراچی میں واقع ہیں اور اس کی معیشت بہت متحرک اور وسیع ہے۔ لیکن امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود ایجنٹوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کراچی مسلسل لسانی نفرتوں کی آگ میں جلتا رہے۔ وہ نا صرف موجودہ استعماری جمہوری نظام کی بقأ کو یقینی بناتے ہیں بلکہ براہ راست رابطہ کر کے لسانی جماعتوں کو قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کراچی میں موجود لسانی گروہوں کو استعمال کر کے بلوچستان تک میں لسانی فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں امریکی قونصلیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کراچی تک پھیلانے کی تیاریاں کر لیں ہیں۔ اس طرح استعماری طاقت شہر میں افراتفری پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے مفادات کو درپیش خطرات کو ختم کرتی ہے جیسے ان مخلص سیاست دانوں کا قتل جو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جس طرح یثرب کے لوگ تقسیم اور مصیبت زدہ تھے اور انھوں نے صرف اسی صورت میں امن اور خوشحالی کا منہ دیکھا جب انھوں نے اسلام قبول کیا اور یثرب کو مدینے میں تبدیل کر کے پہلی اسلامی ریاست قائم کی، بالکل اسی طرح کراچی بھی صرف اسلام کی حکمرانی میں ہی امن اور خوشحالی کا دور دیکھ سکتا ہے۔ تمام مسلمانوں کے درمیان واحد مشترک چیز اسلام ہے چاہے وہ کسی بھی نسل یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ شریعت وہ قانون ہے جو ان کے عقیدے، اسلام پر مبنی ہے۔ اسلام احکامات اور حرومات کا مجموعہ ہے جس کو اللہ نے قرآن اور سنت کی شکل میں نازل کیا۔ خلافت حکمران کو رعایا پر فوقیت نہیں دیتی اور نہ ہی ایک لسانی یا مسلکی گروہ کو کسی دوسرے لسانی یا مسلکی گروہ پر فوقیت دیتی ہے۔ جمہوریت میں صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کے مرکز ہوتے ہیں، جہاں حکمران رہتے ہیں یا وہ لوگ رہتے ہیں جن کی حمائت کی وجہ سے حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔ لیکن خلافت پورے معاشرے کے معاملات کی نگہبانی اس طرح سے کرتی ہے جیسا کہ کی جانی چاہیے۔ لہذا خلافت نہ صرف کراچی سمیت تمام نظر انداز کیے گئے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنائے گی بلکہ چھوٹے شہروں اور گاوں دیہاتوں کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے سلسلہ میں کمی واقع ہو گی بلکہ شہروں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کا بھی خاتمہ ہو گا۔ اس کے علاوہ خلافت میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل لسانی بنیادوں پر نہیں ہو سکتی بلکہ سیاسی جماعتیںصرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں، حکومتی اہلکاروں اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو غیر ملکی سفیروں سے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کافر حربی ممالک کے سفارت خانے اور قونصل خانے بھی بند کر دیے جائیں گے۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بدلنے کے لیے پالیسی

ربیع الاول 1434،بمطابق جنوری 2013

 

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...

یوم کشمیر کے موقع پر پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی نے ایک اجتماع سے خطاب کیا صرف خلافت ہی کشمیر کو آزاد اور برصغیر میں اسلام کو دوبارہ ایک طاقتور قوت بنائے گی

یوم کشمیر کے موقع پر پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے تیسرے بڑے شہر کراچی میں ایک بہت بڑے اجتماع سے سعد جگرانوی نے ایک پرجوش خطاب کیا۔ سعد جگرانوی نے، جو پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربارہ ہیں، سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی پالیسیوں کو بھر پور تنقید کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے ہندو ریاست کو مسلمانوں کے خلاف جارحیت کی جرأت ہوتی ہے۔ جناب سعد جگرانوی نے اجتماع میں موجود لوگوں، جن میں کئی اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین بھی تھے، کو یاد دہانی کرائی کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور سے حکمرانوں کا آقا امریکہ بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے لیے پاکستان کو استعمال کرتا آرہا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کو مستقل دفن کرنے، افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو بڑھانے، بھارتی معیشت کو طاقتور بنانے کے لیے پاکستان کی مارکیٹ تک اس کو رسائی فراہم کرانے اور پاکستان کی فوجی خصوصاً ایٹمی صلاحیت میں کمی کروانے کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اس غداری کا امریکہ نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے لیے اس نے اپنے دروازے کھول دیے اور اب بھارت نہ صرف افغانستان میں زبردست اثرورسوخ حاصل کر چکا ہے بلکہ اسے پاکستان کے اندر افراتفری پیدا کرنے کا موقع بھی مل گیا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر سے دستبرداری اور ہماری افواج کاقبائلی علاقوں میں امریکی فتنے کی جنگ میں ملوث ہو جانے کے بعد بھارت نے سکون کا سانس لیا ہے اور رہی سہی قصرچند دن قبل ہی امریکہ کی خواہش پر افواج پاکستان کی جنگی ڈاکٹرائن میں جنرل کیانی نے اہم تبدیلی کرتے ہوئے "اندرونی خطرے" کو پاکستان کی سلامتی کو درپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دے کر پوری کر دی ہے۔ یہ ہے وہ صورتحال جس کی وجہ سے بھارت ہماری افواج کے خلاف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کرتا ہے اور کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف مسلسل زیادتیوں کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

سعد جگرانوی نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ جب حزب التحریر پاکستان میں خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور جو کچھ اللہ سبحانہ و تعالی نے اس امت مسلمہ کو بخش رکھا ہے وہ ایک قیادت تلے جمع ہو جائے گاتو اس خطے میں اسلام کی بالادستی اور کشمیر کی آزادی کا خواب بھی انشأ اللہ پورا ہو جائے گا۔ انھوں نے اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ امریکہ اور بھارت کا افغانستان پر اثرورسوخ مکمل طور پر پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی فضائی اور زمینی راہداری، انٹیلی جنس اور اس کی پیشہ وارانہ قابل فوج کی مدد کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی کہ ہندو ریاست ایک کمزور ریاست ہے جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ کر بکھر سکتی ہے۔ اس کی بنیاد میں عصبیت اس حد تک موجود ہے کہ کئی علیحدگی پسند تحریکیں برسرِ پیکار ہیں جو بھارت کی تقسیم چاہتی ہیں۔ بھارت میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے غیر ہندوں شہریوں، یہاں تک کہ چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوں کو بھی، تحفظ اور خوشحالی فراہم کرسکے۔ اس کے علاوہ ہندو ریاست تیل و گیس کے لیے مسلم علاقوں پر انحصار کرتی ہے جن تک پہنچنے کے لیے پاکستان کی اجازت ضروری ہے۔

جناب سعد جگرانوی نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ خلافت خطے کی صورتحال کو مسلمانوں کے حق میں تبدیل کر دے گی۔ اسلام جنوبی اور وسطی ایشیأ کے مسلمانوں کو جوڑنے والی قوت ہے۔ اس خطے میں مسلمانوں کی تعداد پچاس کروڑ سے زیادہ ہے جس میں سے تقریباً بیس کروڑ ہندو ریاست میں بستے ہیں۔ مسلمانوں کی مجموعی فوج کی تعداد تقریباًساٹھ لاکھ ہے جبکہ ہندوستان کی فوج کی تعداد دس لاکھ ہے۔ خلافت کی دعوت جنوبی اور وسطی ایشیأ میں پھیل چکی ہے لہذااس خطے میں مسلمانوں کی سرزمینوں کو ملا کر ایک اسلامی ریاست کو قائم کرنے کے لئے درکار تمام عوامل موجود ہیں۔ اس کے علاوہ خطے میں ایسے کئی غیر مسلم ممالک ہیں جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے، جو اپنے ملکوں میں امریکہ اور بھارت کی مداخلت کو قطعاً پسند نہیں کرتے۔ یہ ممالک بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو کر ہماری طاقت میں تقویت کا باعث ہوں گے۔

سعد جگرانوی نے اپنی پر جوش تقریر کے آخر میں اجتماع سے مطالبہ کیا کہ وہ اللہ کے ساتھ اور اس دین اسلام کی ریاست یعنی خلافت کے قیام کے عہد پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ انھوں نے افواج سے مطالبہ کیا کہ فوراً خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة فراہم کریں تا کہ پھر مسلم علاقوں کی بازیابی کے اہم کام کو شروع کیا جاسکے۔

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

تصویرکے لئے یہاں پر کلک کریں

 

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بلوچستان کی پر تشدد بے چینی کے خاتمے کے لیے پالیسی دستاویز جاری کر دی خلافت بلوچستان کو امن، خوشحالی اور عزت دار مقام فراہم کرے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بلوچستان کی پر تشدد بے چینی کے حوالے پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے جس میں روزانہ لوگ مسلمان مارے جا رہے ہیں، ان کو اغوا کیا جا رہا ہے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال اس لیے اور بھی افسوس ناک ہے کہ بلوچستان امت مسلمہ کا تاج ہے۔ اس کے لوگوں نے اس طرح اسلام قبول کیا کہ پورا صوبہ خلافت راشدہ کا حصہ بن گیا۔ اس کے لوگ اسلام پر بہت مضبوطی سے قائم اور اس سے مخلص ہیں۔ انھوں نے برطانوی استعمار کے حملے کی زبردست مزاحمت کی تھی۔ یہ عزت دار اور شاندار لوگ ہیں جو آج بھی اسلام سے محبت کرتے ہیں۔

اس پالیسی کے ساتھ ریاست خلافت کی متعلقہ آئینی دفعات عربی، اردو اور انگریزی زبان میں منسلک کی گئی ہیں۔ اس پالیسی کے تحت خلافت جمہوری طرز حکمرانی کا خاتمہ کرے گی جس کے نتیجے میں بلوچستان کی یہ صورتحال ہوئی ہے۔ خلافت کوئی پولیس سٹیٹ نہیں ہوتی جو طاقت کی بنیاد پر اپنے شہریوں پر حکمرانی کرے اور انھیں ظلم و ستم، اغوا اور تشدد کا نشانہ بنائے۔ ریاست کے شہریوں کے اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے متعین کردہ حقوق ہیں۔ خلافت بلا امتیاز نسل یا مسلک کے اپنے شہریوں کی وفاداری اس لیے حاصل کرپاتی ہے کیونکہ جو چیز لوگوں کو سب سے زیادہ عزیز ہے خلافت اس کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے یعنی اسلام اور خلافت جو کچھ نافذ کرتی ہے اس کا ثبوت قرآن و سنت سے ثابت کرتی ہے جو اس کے شہریوں کو مزید مطمئن کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ خلافت کا نظام وحدت پر مبنی اسلام کا نظام ہے جو اپنے تمام شہریوں پر صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے چاہے ان کا تعلق اکثریتی گروہ سے ہو یا اقلیتی گروہ سے۔ اسلام مختلف رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کو محبت اور رحم دلی کے ایسے جذبے میں جوڑ دیتا ہے کہ انھیں ایک امت میں تبدیل کر دیتا ہے جیسا کہ اس سے قبل خلافت کے دور میں ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ امن اور حقوق کے تحفظ کی وجہ سے خلافت کے غیر مسلم شہری بھی اس کے زبردست وفادار ہوتے ہیں۔

اسلام بلوچستان اور پاکستان میں استعماری مداخلت کا خاتمہ کر دے گا جو فساد اور انتشار کی بنیاد ہے۔ غیر ملکی مداخلت کے مسئلے کو خلافت فیصلہ کن طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام امریکی قونصلیٹس، سفارت خانوں کو بند اور اس کے تمام اہلکاروں کو ملک بدر کر دے گی۔ خلافت تمام غیر ملکی حربی طاقتوں کی اہلکاروں سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کر دے گی تاکہ ان کے اثرو رسوخ کا خاتمہ ہو جائے۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔ بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بدلنے کے لیے پالیسی


میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین کی جانب سے کتاب کا اجرأ "حکمران اور شہریوں کی ذمہ داری"

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین کی جانب کتاب "حکمران اور شہریوں کی ذمہ داری" جاری کر دی گئی ہے۔ یہ کتاب اللہ کے حکم سے جلد قائم ہونے والی خلافت کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لیے حکمران اور شہریوں کی درمیان تعلق کی اہمیت کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کتاب میں اس بنیادی تصور پر بحث کی گئی ہے کہ مسلمان کی خصوصاً حکمران کی اپنے شہریوں اور شہریوں کی اپنے حکمران کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں ہیں۔ جب خلافت دوبارہ قائم ہو گی تو امت کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ اس تصور کو مضبوطی سے تھامے رکھے تاکہ امت دوبارہ ذلت و رسوائی کی اس دلدل میں دنھس نہ جائے جو اسلام کی حکمرانی میں غیر موجودگی کی بنا پر مسلط ہوئی تھی۔

کتاب میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ کیوں موجودہ حکمران، جو امت سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں، اسلام کی روشنی میں غیر قانونی یعنی شرعی حکمران ہیں۔ یہ اقتدار پر امت کی مرضی اور اسلام کو نافذ کرنے کی بیعت دینے کے نتیجے میں فائز نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں پر اقتدار غیر شرعی طریقے سے حاصل کیا ہے۔ یہ ظالم ہیں کیونکہ یہ غیر اسلامی کفریہ نظام، جس کو انسانوں نے بنایا ہے کو نافذ کرتے ہیں نہ کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے قانون کو اور یہ استعماری طاقتوں کو کھلے مواقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں اور ان کے وسائل کا استحصال کریں۔ ان کا احتساب کرنا اور انھیں اقتدار سے ہٹانا ضروری ہے۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان کی خواتین، بلا امتیاز رنگ و نسل اور مسلک تمام خواتین کو اس بات کی دعوت دیتی ہیں کہ وہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پوری دنیا کی اپنی مسلمان بہنوں کے ساتھ شامل ہو جائیں جو اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر نافذ کرنے کی جدوجہد کر رہیں ہیں۔ حزب التحریر کی مرد اور خواتین کی شاخیں اسلام کے اصولوں کے عین مطابق الگ الگ کام کرتی ہیں جس طرح کہ ایک اسلامی معاشرے میں ہونا چاہیے۔

نوٹ : اس کتاب کو دیکھنے اور ڈاون لوڈ کرنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

https://docs.google.com/document/d/1d-oW2AWOD3IuoZDCHVu2S4KSNxvZJJLRxz8Rr9NvcIQ/edit

http://pk.tl/16nY

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک