الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مذاکرات کے ذریعے امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے

پریس بریفنگ

پاکستان کے میڈیا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس نے اس مسئلہ پر مندرجہ ذیل پریس بریفینگ جاری کی ہے۔ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما کی ہلاکت کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟ آخر امریکہ کیوں "معتدل" طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے؟
میڈیا آفس ان سوالات کے جوابات کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کو پیش کررہا ہے:
1۔ جہاں تک طالبان سے عمومی طور پر مذاکرات کی بات ہے تو امریکہ افغانستان سے اپنے محدود انخلاء کے منصوبے کی آڑ میں افغانستان میں اپنی مستقل موجودگی کو مذاکرات کے ذریعے ایک قانونی حیثیت دینا چاہتا ہے۔ اسی منصوبے کا حصہ اسلام آباد میں دنیا کے دوسرے بڑے امریکی سفارت خانے کی تعمیر، افغانستان میں نو(9) امریکی اڈوں کا حصول اور ایک لاکھ سے زائد نجی سکیورٹی کنٹریکٹرز کو افغانستان اور پاکستان میں تعینات کرنا بھی شامل ہے۔ افغانستان میں موجود طالبان ، جن کی بڑی تعداد پشتون ہے، اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اہم ہیں ۔ ان کی حمائت کے بغیر کوئی بھی معاہدہ بے معنی ہوگا کیونکہ افغانستان کی تاریخ میں پشتون ہی سب سے اہم اور بااثرگروہ ہے۔
جہاں تک پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کا تعلق ہے ، امریکہ کو اپنے منصوبے کی کامیابی کے لیے ان کی حمائت بھی درکار ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کے افغانستان کے پشتونوں سے گہرے اور مضبوط روابط ہیں ۔ پاک و افغان سرحد ڈیورنڈ لائن، جوکہ برطانوی استعمارنے قائم کی تھی، کے دونوں جانب رہنے والےپشتونوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والوں کے لیے فراہم ہونے والی معاونت کو ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افواج پاکستان قبائلی علاقوں میں مصروف رہیں اور اس کے خلاف ہونے والی مزاحمت کا خاتمہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی ساکھ کو جس قدر ممکن ہو پشتونوں کی نظر میں خراب کردے۔ یقیناً امریکہ یہ امید کرتا ہے کہ اگر وہ امریکی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک کو کمزور اور اس کی ساکھ کو خراب کردے تواس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ عام پشتون حکومت اور "معتدل" طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی حمائت کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ افغانستان اورپاکستان کےقبائلی علاقوںمیں لڑنے والے طالبان کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہیں جن میں آسانی سے اپنے ایجنٹ داخل کیے جاسکتے ہیں اور ان گروہوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ لہٰذا امریکہ ان گروہوں کو "معتدل" اور "سخت گیر" طالبان کے نام دیتا ہے۔
2۔ یقیناً امریکہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہے کہ مسلمان اس کی مستقل موجودگی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ شک و شبہ طالبان، علماء دیوبند، پشتونوں، عمومی طور پر مسلمانوں اور خصوصاً افواج میں بھی پایا جاتا ہے۔ پہلے بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ امریکہ نے یہ محسوس کیا تھا کہ کیانی و زرداری حکومت اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی حمائت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔یہ نظر آتا ہے کہ اس صورتحال نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ اس نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لائے جسے اس نے اپنے ایجنٹ مشرف کے ذریعے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا کیونکہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ کی مزاحمت کرنے والےاسلامی دائیں بازو کی جماعتوں اور قوم پرستوں کے سخت موقف میں نرمی لانے میں کامیاب ہو جائے گا۔نواز شریف اور اس کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی معاشرے کے قدامت پسند طبقے میں جڑیں موجود ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے، امریکہ نے اپنے ایجنٹ نواز شریف کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ "ڈرون حملوں کے خاتمے" اور "انخلاء کے لیے امن مذاکرات" کو اہم مسائل کے طور پر اجاگر کرے۔ امریکہ مخالف موقف اپنانے سے،امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ نواز شریف امریکہ سے اپنے اتحاد کو چھپا سکتا ہے اور امریکہ کے مفادات کو زیادہ مزاحمت کا سامنا کیے بغیر حاصل کرسکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسا کہ ماضی میں مسلم دنیا میں دوسرے ایجنٹ بھی یہ کام اسی طرح کرچکے ہیں کہ انھوں نے خوب امریکہ مخالف نعرے بازی کی جبکہ ہر ممکن طریقے سے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے کام بھی کرتے رہے۔
3۔ یہ امریکی منصوبے کا حصہ ہے کہ اس کے ایجنٹ اس کے خلاف بیان بازی کریں تا کہ اس کی خواہشات کی تکمیل ہو سکے ،لہٰذا امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اس بات کو عام کریں کہ امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے۔ تو اس طرح ایسا نظر آئے گا کہ جیسے امریکہ مذاکرات کا مخالف ہے اور امریکی مخالفت میں مسلمان ان مذاکرات کی حمائت کرنا شروع کردیں گے ۔ یہ ایک "ڈبل گیم" ہے جس کے تحت مسلمان یہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کو آگے بڑھائیں گے کہ ایسا کر کے وہ امریکی منصوبے کو ناکام کررہے ہیں کیونکہ بظاہر امریکہ تو ان مذاکرات کی مخالفت کررہاہے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے یہ جھوٹ بھی پھیلایا ہے کہ مذاکرات امریکہ کے خلاف کامیابی کی نشانی ہےجبکہ امریکہ کو ان مذاکرات کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایک طویل اور مہنگی جنگ کے بعدجو کچھ ممکن ہے اپنے لیےحاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا افغانستان اور پاکستان میں امریکی ایجنٹ اس امریکی "ڈبل گیم" کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھا گیا جب نواز شریف تازہ ترین ہدایت لے کر امریکہ سے واپس آیاتو امریکہ نے پاکستان میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کو قتل کردیا۔ ایجنٹوں نے بہت شور مچایا کہ مذاکرات کا عمل خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔ یکم نومبر 2013 کو انگریزی اخبار ڈان نے خبر شائع کی کہ "ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ ان کا نشانہ ملک میں امن کے قیام کی کوششوں کو سبوتاژکرنا ہے۔ کل(ہفتےکے دن) ایک وفد طالبان سے بات چیت کے لیے روانہ ہونے والا تھا۔ چوہدری نثار نے یہ بیان اس وقت دیا جبکہ اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی تھی کہ مارے جانے والا عسکریت پسند کمانڈر حکیم اللہ ہے"۔ پھر 2 نومبر 2013 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "جمعہ کو ڈرون حملے میں مارے جانے والے پاکستانی طالبان سربراہ کی ہلاکت کو خطے کے امن پر امریکی حملہ قرار دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ہفتے کو کہا کہ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی"۔ اور 2 نومبر 2013 کو ہی ڈان اخبار نے یہ خبر شائع بھی شائع کی کہ "وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت محسود کی تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے منصوبے کوآگے لے جانا چاہتی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ اس بار ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈرون نے امن مذاکرات پر حملہ کیا ہے لیکن ہم امن مذاکرات کے عمل کو ختم نہیں ہونے دیں گے"۔ جہاں تک افغانستان میں امریکی ایجنٹوں کا تعلق ہے تو ایکپریس ٹربیون نے AFPکے حوالے سے 4نومبر 2013 کو یہ خبر شائع کی کہ "افغان صدر حامد کرزئی نے تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی غلط وقت پر امریکہ کے ہاتھوں قتل کیے جانے پر نکتہ چینی کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ واقعہ علاقائی امن کی کوششوں کو ناکام کرنے کا باعث نہیں بنے گا۔ کرزئی نے افغانستان کے دورے پر آئے امریکی کانگریس کے وفد سے کہا کہ ڈرون حملہ صحیح وقت پر نہیں کیا گیا لیکن وہ امید رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں امن کے عمل کو نقصان نہیں پہنچے گا"۔
4۔ یہ اسی "ڈبل گیم" کا نتیجہ ہے کہ امریکی ایجنٹ ڈرون حملے کی مذمت کرنے کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر بھی اصرار کررہے ہیں۔ 3نومبر2013کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جس ڈرون حملے میں محسود مارا گیا اور اس سے ایک روز قبل ہونے والے ڈرون حملے پر احتجاج کرنے کے لیے اس نے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کوطلب کیا۔ وزارت سے جاری ہونے والے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ڈرون حملے کے باوجود حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذکرات کے عمل کو جاری رکھنے کا قطعی ارادہ رکھتی ہے"۔ اور 3نومبر2013 کو ڈان اخبار نے خبر شائع کی کہ "جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے ہفتے کو حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ حالیہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کے قتل کے باوجود وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ مولانا نے کہا کہ حکیم اللہ کی موت نے ملک میں ایک جذباتی فضاء قائم کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحریک طالبان کے سربراہ کے قتل کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل کچھ دنوں کے لیے تاخیر کا شکار ہوجائےگا لیکن امن اور مفاہمت کے دشمنوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی اجازت نہ دی جائے"۔

5۔ امریکہ ایک طرف بظاہر یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ مذاکرات کا مخالف ہے جبکہ درحقیقت سرحد کے دونوں جانب "معتدل" طالبان کے ساتھ بات چیت اس کی اس وقت شدید ضرورت ہے تا کہ وہ خطے میں اپنے موجودگی کو جاری رکھ سکے اور یہ مفاد امریکہ اپنے بزدل فوجیوں اور دم توڑتی معیشت کے بل بوتے پر میدانِ جنگ میں حاصل نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب امریکہ مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ "سخت گیر" طالبان صرف امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اس کوشش کا مقصد مزاحمت کی ساکھ کو مسلمانوں کی نظر میں خراب کرنا اور مذاکرات کے لیے فضاء پیدا کرنا ہے اور یہ کہ امریکی قبضے کے خلاف مسلسل مزاحمت کی رائے عامہ کو تبدیل کیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے پاکستان میں قتل و غارت گری اور بم دھماکوں کی مہم چلائی جبکہ اس کے ایجنٹ ہر بم دھماکے اور قتل کے بعد یہ چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ "دیکھو، بہرحال اب یہ جنگ ہماری بھی ہے"۔ دنیا بھر میں اس قسم کی مجرمانہ اور تباہ کن مہم چلانے کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔یہ حملے False flag attacksکہلاتے ہیں جس میں خود ہی حملہ کیا جاتا ہے اور اس کا الزام اپنے مخالف پر ڈال دیا جاتا ہے تا کہ اپنی فوجوں کو اپنے مخالفین کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا جائے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔ ایسے حملے کروانا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ امریکی انٹیلی جنس اور نجی سکیورٹی ادارے براہ راست یا مزاحمتی گروہوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرکےاور پاکستانی ایجنسیوں میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے حملے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ان حملوں میں ہمارے بازاروں، گھروں، افواج اور لوگوں کو تو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ملک میں موجود سی.آئی.اے اور ایف.بی.آئی کے دفاتر، امریکی فوجی اڈے، بلیک واٹر کی رہائش گاہیں اور امریکی قونصل خانے حملے اور تباہی سے محفوظ رہیں۔ لہٰذا اِن پُر تشدد واقعات کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے ایک نیا تصور پیش کیا ہے کہ افواج پاکستان کا قبائلی علاقوں میں رہنے کا مقصدپاکستان کو اندرونی خطرے سے محفوظ رکھنا ہے۔اس نئے تصور کواس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے پیش کیا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز ان پشتون مسلمانوں کے خلاف کیے جاتے ہیں جو سرحد عبور کر کے افغانستان پر قابض امریکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ان حملوں کے ذریعے امریکہ نے اپنی جنگ کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یکم دسمبر 2009 کواوبامہ نے کہا کہ "ماضی میں پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد اُنکی جنگ نہیں ...لیکن پچھلے چند سالوں میں جب کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگ قتل ہوئے ... تو یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کے لوگوں کو انتہاء پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے"۔ اور پھر ان بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی شروعات کے تین سال بعد 12 اکتوبر 2012ء کو امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ویکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ "لہٰذا ظاہر ہے کہ پاکستان کےلوگ جتنا زیادہ ان کے خلاف ہونگے اتنا ہی اُن کی حکومت کو اِن کے خلاف کام کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ شاید اس بھیانک المیے کا ایک مثبت پہلو ہے"۔
یہ خوفناک اور بہیمانہ تشدد جاری رہے گا تا کہ امریکی ایجنٹ افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں رکھنے کا جواز پیش کرسکیں۔ یقیناً امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ نہ صرف پاکستان کے عوام امریکی جنگ، امریکہ کی موجودگی اور اس کے انخلاء کے منصوبے کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی اکثریت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کی مخالف ہے۔ تو امریکہ اپنی یہ کوشش جاری رکھے گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تا کہ قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان کی موجودگی کے لیے ایک جواز مہیا ہوسکے اورپاکستان کے عوام کو کسی حد تک مطمئن کیا جاسکے۔لہٰذا اس کے منصوبے کے ایک حصے کے تحت امریکہ افغانستان کےمسلمانوں سے جنگ کررہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی انخلاء اور افغان آرمی کو معاملات سپرد کرنے کی بات بھی کررہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ پاکستان کی افواج، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے ساتھ جنگ میں مصروف رہیں۔ اس طرح امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ خطے میں اپنی موجودگی کو انخلاء کے پردے میں برقرار رکھ سکے گا۔
6۔ لہٰذا امریکہ ، پاکستان اور افغانستان دونوں ہی جگہ حقیقی امن کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ خطے میں فوجی آپریشنز میں اس کی شمولیت کم سے کم ہو کیونکہ اس کی افواج کی ساکھ اور معیشت اگرچہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی مگر انتہائی خستہ حال ضرور ہوچکی ہے۔لیکن وہ اپنے سٹریٹیجک مفادات کے حصول کے لیے خطے میں اپنی افواج کی ایک اچھی تعداد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اب تک کی تمام تر کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔ امریکہ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے اہداف کے حصول اور اپنی موجودگی کو برقرارکے لیےایک معاہدہ چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ 2014 کے بعد بھی اپنی افواج کی موجودگی کے جواز کے لیے وہ طالبان کے خطرے کو پیش کرتا رہے گا۔ درحقیقت امریکہ اور افغانستان کے درمیان ہونے والے سٹریٹیجک معاہدے کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکی افواج کو افغانستان میں رہنے کی اجازت دینے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ آزادانہ دہشت گردی خلاف فوجی آپریشنزکرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر باراک اوبامہ جہاں انخلاء کی بات کرتا ہے وہی انتہاپسندوں کے خطرے کی بھی بات کرتا ہے۔ 23 مارچ 2013 کو اوبامہ نے کہا "افغانستان میں ہم سکیورٹی کی ذمہ داری افغانیوں کے حوالے کردیں گے۔ ہماری افواج گھر واپس آجائیں گی۔ ہمارے جنگی مشن ختم ہوجائیں گے۔ اور ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر ان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت کریں گے اور اس دہشت گردی کے خلاف ایک فورس قائم کریں گے جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ القائدہ کبھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں حاصل نہ کرسکے۔ افغانستان سے باہر دہشت گردی کے خلاف ہم عالمی جنگ نہیں کریں گے بلکہ ہماری کوششیں اس بات پر مرکوز ہوں گی کہ ہم امریکہ کے خلاف کام کرنے والے مخصوص انتہاپسند گرہوں کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کریں۔ کئی معاملات میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا"۔ دہشت گردی کے خطرے کو پیش کرکے امریکہ نے اپنی موجودگی کا مستقل جواز فراہم کردیا ہے جبکہ وہ خود اس خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
7۔ خلاصہ:امریکہ طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔ وہ یہ بات جانتا ہے کہ ایسے کسی معاہدے کے بعد ہی وہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنزاور افغان آرمی کی تربیت کی آڑ میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکہ یہ جانتا ہے کہ افغانستان میں کوئی امن معاہدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان کے سرحدی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سے پشتون علاقے کو اس پر راضی نہ کرلے۔ باخبر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم علاقوں میں امریکی موجودگی کے خطرات کو سمجھیں، چاہے یہ موجودگی سفارتی شکل میں ہو یا فوجوں کی موجودگی کی شکل میں یا امریکی نجی سکیورٹی اداروں اور امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی کی شکل میں ہو۔ یہی وہ امریکی موجودگی ہے جو بم دھماکوں کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جو بات چیت کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے رخ کا تعین کرتی ہے۔ یہی وہ موجودگی ہے جس نے مسلمانوں کے لیے ہر قسم کی مصیبت پیدا کی ہوئی ہے۔ اسلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس موجودگی کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ مقصد نہ تو کوئی گروہ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی بات چیت کے ذریعے امریکی موجودگی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ صرف اور صرف ریاست اپنی افواج کو متحرک کر کے ہی امریکی موجودگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ امریکہ اپنے قیام سے لے کر آج تک کبھی بھی کسی بین لاقوامی معاملے کو حل نہیں کرسکا۔ اور اس کی معیشت میں شدید کمزوری اوراس کی بزدل افواج نے اب تو اس کی یہ صلاحیت مزید کم کردی ہے۔ غدار مسلم حکمران اب بھی اس کے خوف اور دبدبے کی وجہ سے ایسے ہی اطاعت کررہے ہیں جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد بھی جن یہ سمجھتے ہوئے ان کی اطاعت کرتے رہے جیسے کہ وہ اب بھی زندہ ہوں۔ اور اِنہی غداروں کی وجہ سے ہمارے علاقوں میں امریکی اثرو نفوذ اب تک باقی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن اور اس کے غلط ہونے کی وجہ سے امریکہ کی ناکامی یقینی ہے ۔ یہ وہ نظام ہے جس کا امریکہ عَلم بردار ہے اور اسے پوری دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی ناکامی اس کے پالیسی سازوں کی نااہلی کی وجہ سے بھی یقینی ہے۔ لیکن صحیح اور حقیقی رہنما جو اس دنیا کے معاملات کو انصاف اور حق کی بنا پر چلائیں گے جیسا کہ خلفائے راشدین تھے ،تو ایسا صرف جلد ہی قائم ہونے والی خلافت کے قیام کے ذریعے ممکن ہوگا اور حزب التحریر کے شباب وہ رہنما ہوں گے۔ یہی شباب وہ ہوں گے جو امریکہ اور مغرب کو سیکھائیں گے کہ کس طرح دنیا کے معاملات کو خلافت کے زیر سایہ چلایا جاتا ہے۔ اور وہ اس خود ساختہ بین الاقوامی براداری کو اپنے اشاروں پر نچائیں گے اور وہ دن جلد ہی آنے والا ہے۔
وَقَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ ۭ وَاِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ
"یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے اور ان کی چالیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں " (ابراھیم:46)

Read more...

خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کے حصول کی مہم افواج پاکستان لازماً خلافت کا قیام عمل میں لائیں اور اللہ کےعلاوہ کسی سے نہ ڈریں

حزب التحریر ولایہ پاکستان ،ملک بھر کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کی مہم چلارہی ہے۔جس طرح رسول اللہﷺ نے انصارکی نصرۃ (مدد)سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تھی،ویسے ہی حزب کے بہادر شباب نبوت کے اس طریقہ کار کے مطابق افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ افواج پاکستان میں موجود اپنے والد، چچاؤں، بھائیوں اور بیٹوں سے مطالبہ کریں کہ وہ کفریہ جمہوریت کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے نفاذ کے لیے مدد فراہم کریں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں : وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور تم ایسے وبال سے بچوکہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے" (الانفال:25)۔ ہمارا ایمان ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کبھی بھی ظالم کے ظلم سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ ہمیں اللہ کے غضب سے ڈرنا چاہیے اگر ہم نے ظالم کے کھڑے کیے ہوئے فتنے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی معاشی بدحالی اوراقوام عالم کے سامنے تذلیل کی دلدل میں ڈوب جانے پر خاموشی اختیار کی۔اب بہت ہوچکا کہ آپ کے درمیان مشرف اور کیانی جیسے لوگوں کو مزید برداشت کیا جائے!بہت ہوچکی ان کی اطاعت جو زرداری اور نواز شریف جیسے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں! ان غداروں کی غداری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور ان کے امریکی آقاؤں کو ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کی حزب التحریر کی جدوجہد کا ساتھ دو۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی مصیبت تم پر نہیں آسکتی، اللہ کی راہ میں آگے بڑھو۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ مِنْ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلاَ يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا "پوچھئے!اگر اللہ تعالٰی تمھیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمھیں بچا سکے؟اپنے لیے سوائے اللہ تعالٰی کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مددگار" (الاحزاب:17)۔

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

جمہوریت ہٹاؤ، خلافت لاؤ حزب التحریر نے شام اور مصر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے

حزب التحریر نے ولایہ پاکستان میں شام اور مصر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پرتحریر تھا: " مصر کا فرعون مسلمانوں کی لاشوں پر امریکی راج کی حفاظت کر رہا ہے" ، " شام میں مسلمانوں کاقتل عا م ‏خلافت کےقیا م کو نہیں روک سکتا" اور " امریکی راج کی محافظ 'جمہوریت' ختم کرو، امت کی ڈھال' خلافت' کو قائم کرو"۔ یہ مظاہرے اس وقت کیے گئے ہیں جب پاکستان کے مسلمان واضع طور پر مصر میں اس کی افواج کے کردار اوراسلام کے لیے شام کے مسلمانوں کی استقامت کو دیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب امت امریکی تکبر اور جبر کے خلاف غصے سے بھری بیٹھی ہے ، حزب التحریر افواج پاکستان کے افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کفریہ جمہوریت اور امریکی راج کا خاتمہ کریں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کی حاکمیت کو بحال کریں۔ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کا یہ عمل ہی مصر، شام، پاکستان اور پوری مسلم دنیا میں صورتحال کو مسلمانوں کے حق میں تبدیل کر دے گا۔ صرف اسی صورت میں تمام مسلمان ایک خلیفہ راشد کی قیادت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ایک عظیم قوت کی شکل اختیار کرلیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَلَ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرٌ وَإِنْ يَأْمُرْ بِغَيْرِهِ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ "امام (خلیفہ) ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر تم لڑتے ہو اور اپنا تحفظ کرتے ہو۔ تو اگر وہ تقوی اور انصاف کی بنیاد پر حکمرانی کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اور اگر وہ اس سے ہٹ کر حکمرانی کرتا ہے تو یہ اس کے خلاف ہی جائے گا"(بخاری)۔

 

یہاں کلک کریں

Read more...

نوا زشریف کا دورہ امریکہ دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور بم دھماکوں کے ہزاروں شہداء کے خون سے غداری ہے

نواز شریف کا دورہ امریکہ ڈرون حملوں اور ملک بھر میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کی نگرانی میں ہونے والےبم دھماکوں میں شہید ہونے والے ہزاروںشہریوں اور فوجیوں کے خون سے غداری ہے۔ امریکہ پچھلے نو سالوں سے ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اڑا رہا ہے جس میں ہزاروں شہری اذیت ناک موت کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک ایٹمی قوت کے سربراہ نے کسی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا اورپاکستان میں امریکی راج کو مزید مضبوط کرنے کے لیے امریکہ چلا گیا ۔ اگر وینزویلا جیسا کمزور، امریکہ کا پڑوسی ملک، محض اپنے ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کے الزام پر ایک سے زائد بار امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کرچکا ہے اور امریکہ اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت، جن کی نمائندگی نواز شریف اور کیانی کررہے ہیں کیوں امریکہ سے تعلقات منقطع نہیں کرسکتے؟
کیانواز شریف کادورہ امریکہ ایک بار پھر اقتدار کی کرسی پر بیٹھانے کے لیے اوبامہ کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ کچھ اور مقصد رکھتا تھا؟ چودہ سال قبل جب امریکیوں نے یہ دیکھا کہ نواز شریف اب ان کے کام کا نہیں رہا تو اسےتنہا چھوڑ دیا تھا۔ اور بھر جب پاکستان میں امریکی راج کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے پاس اعلیٰ درجے کے غداروں کی قلت ہو گئی تو نواز شریف کو تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر واپس لے آیا! لیکن غیرت سے نہ آشنا نواز شریف خطے میں جاری نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اپنی اب تک کی کارگزاری سے اوبامہ کو آگاہ کرنے اور 2014 تک محدود انخلاء کے ڈرامے کے ذریعے خطے میں امریکہ کی مستقل موجودگی کے منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے مزید ہدایات وصول کرنے، واشنگٹن، اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گیا ۔ اس بات کا ثبوت کہ یہ دورہ خطے میں جاری امریکی جنگ میں پاکستان کے کردارکو جاری و ساری رکھنے کے لیے تھا، خود اوبامہ نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں یہ کہہ کر دیا کہ "میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان سلامتی کے امور پر ہونے والے تعاون کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہوں "۔
پاکستان کے عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی گھوڑے ہیں۔ ہر آنے والا آمر و جمہوری حکمران ہمیں سیاسی و معاشی لحاظ سے مزید امریکی غلامی میں مبتلا کردیتا ہے اور پھرامریکہ کے ہاتھوں سانحہ ایبٹ آباد اور سلالہ جیسے ذلت آمیز واقعات کا سامنا کرنے کے باوجود قوم سے یہ کہتا ہے کہ امریکہ سے تعلقات ناگزیر ہیں۔صرف خلافت ہی پاکستان کو امریکہ کی سیاسی و معاشی غلامی سے اسلام کے مکمل نفاذ کے ذریعے نکالے گی، امریکی سفارت کاروں، فوجیوں اور نجی سیکورٹی اہلکاروں کو ملک بدر، امریکہ سفارت خانے اور قونصل خانے بنداور ملک سے امریکی راج کا خاتمہ کرے گی۔ لہٰذا افواج میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں خلافت کے قیام کو عمل میں لائیں اورحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ "کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مرجاؤ" (آل عمران:119) کتاب "نوید بٹ کو رہا کرو" جاری کر دی گئی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے عالمی سطح پر پاکستان میں خلافت کی سب سے مضبوط اور ممتاز آواز نوید بٹ کی رہائی کے لیے حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو رشتہ کی قیادت میں چلائی جانے والی مہم کو ایک کتابی صورت میں جاری کر دیا ہے۔ نوید بٹ 11 مئی 2012 سے جنرل کیانی کے غنڈوں کی قید میں ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے وفود اور مظاہروں کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ لاپتہ ضرور ہیں لیکن انھیں کبھی بھی بھلایا نہیں گیا ہے۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کو اس با ت کی یقین دہانی کراتی ہے کہ اس عالمی مہم نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اپنے ہی غصے کی آگ میں جلنے پر مجبورکر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی گھٹیا ذہنیت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ایجنٹوں کو متحرک کر کے میڈیا کے ذریعے دھمکی آمیز رپورٹز جاری کرائیں جس میں نوید بٹ کی زندگی کو درپیش خطرے کا ذکر کیا گیا۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان غداروں اور ان کے آقاوں کو قرآن کے الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہتی ہے کہ: قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ "کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مر جاؤ" (آل عمران:119)

حزب التحریر انھیں یقین دلاتی ہے کہ ان کا جبر صرف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ سچ کی قوت سے محروم ہیں، ان کا ظلم مظلوموں کی دعا کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے، خلافت کے قیام کے عمل کو تیز تر کرتا ہے کہ مسلمان کبھی بھی ظالم کے جبر سے ڈر کر بھاگتے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ان کو غضب ناک کر دیتی ہے۔ حزب التحریر جنرل کیانی اور دیگر عہد شکنوں کو نوید بٹ پر اب تک کیے جانے والے مظالم کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ انھیں سختی سے خبردار کرتی ہے کہ اگر نوید بٹ کو مزید کوئی نقصان پہنچایا گیا چاہے اس کے سر کا ایک بال توڑنا ہی کیوں نہ ہو، تو ان کا یہ عمل خلیفہ راشد کے ہاتھوں ان کی سزا کو شدید تر کر دے گا۔ اور آخرت کی سزا تو اس سے بھی زیادہ شدید تر ہو گی۔ تو کیا وہ کوئی سبق لیں گے!

اس کے علاوہ جیسا کہ حکومت امت کی انصاف کی پکار کے سامنے گرتی جا رہی ہے، حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کے عظیم بیٹے نوید بٹ کی رہائی کے لیے جاری سیاسی مہم میں مزید تیزی لائے گی۔ لہذا حزب امت کو پکارتی ہے خصوصاً ان بیٹوں اور بیٹیوں کو جو میڈیا، قانون کے شعبے اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے منسلک ہیں کہ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھیں جب تک نوید بٹ کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

کتاب "نوید بٹ کو رہا کرو" اس ویب لنک سے حاصل کی جاسکتی ہے:

http://pk.tl/1coW

نوٹ: اس مہم سے متعلق دیگر کتابچے مندرجہ ذیل ویب لنکس سے حاصل کیے جاسکتے ہیں:

نوید بٹ کی امریکی راج کے خلاف جدوجہد "کلمہ حق":

http://pk.tl/1bnL

نوید بٹ کی کتاب "جمہوریت مسائل کی جڑ ہے":

http://pk.tl/1coX

Read more...

شام میں مسلمانوں کی مدد کرنا صرف طالبان کی نہیں بلکہ افواج پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے

روزنامہ ڈان نے 15جولائی2013کو یہ رپورٹ کیا کہ ''پاکستانی طالبان نے شام میں کیمپ قائم کر لیے ہیں اور سیکڑوں جنگجو صدر بشار الاسد کے خلاف باغیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے بھیجے ہیں''۔ یہ بھی کہا گیا کہ ''پاکستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان نے کہا ہے کہ پاکستان بھر میں صوبائی انتظامیہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جنگجو ملک سے شام کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ لیکن تین پاکستانی انٹیلی جنس حکام نے جو افغانستان سے منسلک قبائیلی علاقوں میں تعینات ہیں اور عسکریت پسندوں نے یہ کہا ہے کہ عسکریت پسند شام کی جانب روانہ ہوئے ہیں جن میں القائدہ، پاکستانی طالبان اور لشکر جھنگوی کے اراکین شامل ہیں''۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں کہ﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾''اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے'' (الانفال:72)اور شام کے لوگوں نے امت مسلمہ، اس کی افواج اور ان کے حکمرانوں کو ہزاروں بار پکارا کہ ان کی مدد کی جائے یہاں تک کہ وہ ان سے مایوس ہوگئے لیکن اپنے رب سے مایوس نہیں ہوئے۔ لہذا انھوں نے اپنے مقدس انقلاب میں شام کے جابر کے خلاف یہ نعرہ اختیار کیا کہ ''اے اللہ ہمارا تیرے سوا کوئی نہیں ہے''۔ اسلام امت مسلمہ سے ،جس میں پاکستان کے مسلمان بھی شامل ہیں، شام کے مسلمانوں کی حقیقی مددکے لیے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان اپنی افواج کو شام بھیجے جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے۔ وہ اپنے جنگی جہاز،ٹینک اور کمانڈوز بھیجے جو بشار کے قلعے کو مسمار کردیں اوراس کے غنڈوں، اور منافق ریاستوں میں سے جو کوئی بھی بشار کی مدد کررہے ہیں ان کو بھی برباد کردیں۔ پاکستان کے مسلمان اسلامی نقطہ نگاہ سے محض چند مجاہدین یا زکوة کی رقم یا کھانے کی اشیأ بھیج کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
جہاں تک وزارت خارجہ کی اس تردید کا تعلق ہے کہ طالبان کی چند عناصر شام میں اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے گئے ہیں تو یہ تردید اس بات کی تصدیق ہے کہ کیانی و شریف حکومت بشار کے ظلم و جبر کی حمائت کررہے ہیں۔ یہ حکومت اس بات کو جرم سمجھتی ہے جو چند مسلمان ایک دوسرے کی مدد کر تے ہیں اور انھیں ایسا کرنے سے روکتی ہے ۔ یہ تردید اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ یہ حکومت مغرب کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے جس نے مسلمانوں کی زمینوں کو تقسیم کیا اور پھران غداروں کو حکمران بنا کر ان مصنوعی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔یہ صورتحال اس بات کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ ہمارے حکمران اس عظیم امت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے﴿إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ﴾''یہ تمھاری امت، ایک امت ہے اور میں تمھارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کرو''(الانبیأ:92)۔
کیانی و شریف حکومت نے شامی انقلاب کے خلاف وہی شرمناک موقف اختیار کررکھا ہے جو کافر مغربی ممالک نے اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ بشار کی حکومت کی خفیہ اور کھلی حمائت کرتے ہیں اور ان میں سے سب سے کم برے وہ ہیں جو شام کے مظلوم لوگوں کو بشار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے انگلی تک نہیں ہلا تے بلکہ خاموشی سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی گنتی کررہے ہیں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان کی حکومت بشار الاسد کی حکومت کی طرح امریکہ کی حمائتی ہے۔ لہذا وہ طالبان جنگجوجو شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے گئے ہیں اس بات سے خبردار رہیں کہ ان میں اس ایجنٹ حکومت کے کارندے شامل نہ ہوجائیںتا کہ شام کے انقلاب کو کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے اور بشار اور کیانی و شریف حکومت کے اصل آقا امریکہ کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکے۔
افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! کیا تم نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں موجود حکومت نے افواج پاکستان کو دنیا بھر میں امریکی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے تا کہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور صرف صلیبیوں کے مفادات ہی کی تکمیل ہو؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ امریکہ نے افغانستان میں سویت یونین کو شکست دینے کے لیے ہماری افواج کو استعمال کیا تا کہ خطے میں امریکی راج کو قائم کیا جاسکے؟ اور انھوں نے استعمال کیا تھااور اب بھی افغانستان میں امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور ان تمام مزاحمتی قوتوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں جو خطے میں امریکی راج کی مخالف ہیں؟ تم امریکی حمائتی کہلائے جانے کو کیسے قبول کرسکتے ہو اور اس بات کو بھی کیسے قبول کرسکتے ہو کہ ایک طرف بزدل امریکیوں کو بچانے 1993میں صومالیہ جیسے دور دراز کے ملک پہنچ جاؤں اور شام کے مسلمانوں سے منہ موڑ لو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ((إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ)) ''اگر شام کے لوگوں میں بگاڑ آ گیا تو پھر تم میںکوئی خیر باقی نہیں رہے گی''(احمد)۔
شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اکھاڑ پھینکو اور اختیار حزب التحريرکے سپرد کردو، اس کے امیر ، مشہور فقیہ،عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قرآن و سنت کے نفاذپر بیعت کرو اور وہ تمھارے خلیفہ کے طور پر شام کے مسلمانوں کو جابر کے ظلم سے نجات کے لیے فوج کشی کریں اور افغانستان اور عراق کو امریکی قبضے سے نجات دلاتے ہوئے شام کی جانب بڑھیں۔ اللہ کی قسم تم اس قابل ہو اور تم اللہ کی مدد سے ایسا کرسکتے ہو اور آج کے بعد اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی سے اجتناب کرنے کے لیے تم میںسے کسی کے پاس اب کوئی حیلہ یا جواز نہیں ﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے''(یوسف: 21)

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک