المكتب الإعــلامي
ولایہ بنگلادیش
ہجری تاریخ | 16 من ذي القعدة 1444هـ | شمارہ نمبر: 26 / 1444 |
عیسوی تاریخ | منگل, 06 جون 2023 م |
پریس ریلیز
سرمایہ دارانہ بجٹ عوا می دولت کو لوٹنے
اور اُن کے استحصال کا منظم طریقہ کارفراہم کرتا ہے
یکم جون 2023 کو حسینہ حکومت نے 24-2023 کے مالی سال کے بجٹ کا اعلان کیا جس کا عنوان تھا:"ترقی کی طرف پیش قدمی کے بعد اب سمارٹ بنگلادیش کی جانب گامزن"۔ وزیر خزانہ مصطفیٰ کمال نے 7.6 کھرب ٹکےکا بجٹ پیش کیا جس کا مقصد مہنگائی کا خاتمہ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا قرار دیا گیا۔ اِسی طرح سمارٹ بنگلادیش کے پراجیکٹ کے ذریعے چوتھے صنعتی انقلاب اور چالیس نئے اور وسیع منصوبوںکا آغاز کیا جائے گا۔ یہ بجٹ ایک بار پھر سرمایہ دارانہ حکومت کی جانب سے دھوکہ دہی کا ایک مجموعہ ہے، تاکہ غلط بیانی اور جھوٹے وعدوں کے ذریعے آنے والے الیکشن پر اثر انداز ہوسکیں۔ مصطفیٰ کمال نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کا مقصد عام آدمی کی مشکلات حل کرنا ہے تاکہ اِن کی زندگی کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے عام آدمی کے معیارِ زندگی کو پہلے ہی تباہ کردیا ہے جب انہوں نے بنگلادیش بینک کے ذریعے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے 700 ارب ٹکا جاری کیے، نتیجتاً مہنگائی میں شدیداضافہ ہوا۔
موجودہ بجٹ میں بھی بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے بینک سے 95.1323 ارب ٹکا کے قرضے مختص کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ حکومت سخت شرائط پر IMF سے 4.7$ ارب کا قرضہ حاصل کرے گی اور IMF کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے عوام کی قوتِ خرید مزید بحران کا شکار ہوگی۔ موجودہ حکومت IMFکے بتائے ہوئے نسخے پر عمل کرتے ہوئے عوام سے 403 ٹریلین ٹکاIndirect اور (Vat) Directٹیکس کی مد میں حاصل کرے گی، اورسبسیڈی کا خاتمہ کرے گی، جبکہ حکومت کو چاہئے تھا کہ با اثر اشرافیہ کی بد عنوانی اور منظم لوٹ مار کا خاتمہ کرتی۔
عوام پہلے ہی حکومت کے نام نہاد میگا پاور پراجیکٹ کی وجہ سے سالانہ 2 بلین ڈالر کے مقروض ہوچکے ہیں، چناچہ عوام کے اوپر مزیدٹیکس کا بوجھ ڈالا جائےگا۔ اِس کے ساتھ مختلف میگا پراجیکٹ کےنام پر حاصل کیے گئے بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی اور IPPs کو Capacity Payment کی ادائیگی کے نام پر عوام کو اضافی ٹیکس دینا ہوگا، جبکہ ملک بھر میں جاری بجلی کے بحران نے عام آدمی کی زندگی پہلے ہی جہنم بنادی ہے۔ ایک طرف جھوٹی اور دھوکہ باز سرکار یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ٹیکس سے مستثنیٰ حد کو بڑھا کر 300،000 ٹکا سے350،000 ٹکا کر رہے ہیں تاکہ عوام کو سہولت فراہم کی جائے تو دوسری جانب سالانہ 350،000 ٹکا سے کم کمانے والوں پر کم سے کم 2000 ٹکے کاانکم ٹیکسمسلط کیا جارہا ہے۔
مزید یہ کہ بحران میں گھرے گھریلو صارفین کو قدرتی گیس کی بندش کے ذریعے سے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ ایل پی جیگیس کا استعمال کریں۔ اِ س کے ساتھ یہ ظالمانہ سرمایہ دارانہ حکومت ایل پی جی سیلینڈرکے لیے درکار خام مال کی درآمد پر دی گئی ٹیکس چھوٹ کی سہولت کو ختم کر رہی ہے۔ بلکہ مقامی پیداواری صنعت پر VAT کو5 فیصد سے بڑھا کر7 فیصد تک کیا جارہا ہے تاکہ حکومت کی آمدنی میں اضافہ کیا جاسکے۔ چناچہ ایل پی جی گیس کمپنیاں یہ بوجھ عوام پر منتقل کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے بحران میں گھرے افراد کی قیمت خرید پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
اے لوگو!
یہ سیکولر سرمایہ دارانہ حکمران بجٹ کے نام پر غریب عوام کی محنت سے کمائی گئی آمدنی کو استحصالی ٹیکس کے ذریعے اُس وقت تک لوٹنا بندنہیں کریں گے جب تک ہم انسانی خواہشات پر مبنی اِس نظام کو اکھاڑ کر نہ پھینک دیں۔
ہم موجودہ ذلت اور پریشانی کا شکار اِس وجہ سے ہیں کہ ہم نے اسلام اور اِس کے اقتصادی نظام کو اپنے نظامِ زندگی سے خارج کریا ہےاور خود کو انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے حوالے کردیا ہے۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے ان حکمرانوں کو اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کفایت شعاری اورٹیکس کے نام پر عوام پر تباہی مسلط کر رہے ہیں۔ ہمارا صرف بجٹ سے لاتعلق ہونا کافی نہیں بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اِس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر پھینک دیں، اور نبوت کے بتائے ہوئے طریقہ اور اسلام کے اقتصادی ماڈل یعنی خلافتِ راشدہ ثانیہ کا قیام عمل میں لائیں ۔ اسلام کا اپنا منفرد معاشی نکتہ نظر ہے جو عوام پر بوجھ ڈالے بغیر ریاست کو کثیر محصولات فراہم کرتا ہے۔ خلافت کے Public Finance کے اصول کے مطابق ریاست مجبور اور کم آمدنی والے لوگوں کے اخراجات اور آمدنی پرٹیکس لگا کر محصولات حاصل نہیں کرتی۔ اِسی طرح ریاستِ خلافت میں انفرادی ملکیت کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اور ریاستِ خلافت ٹیکس کے نام پر اپنےشہریوں کی ملکیت پر ڈاکہ نہیں ڈالتی اور نہ غریب اور محروم طبقے کو معاشی سزا دیتی ہے جو کہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی عاجز ہوتے ہیں۔ ریاست خلافت کے بجٹ میں محصولات اور اخراجات شریعت کے بتائے ہوئے مستقل قوانین کے پابند ہوتے ہیں۔ غنائم (مالِ غنیمت) خراج زمین پر ٹیکس، مالِ ضئے (غیر مالِ غنیمت) جو کہ خلافت کے زیر اثر رہنے والی نئی ریاستوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جزیہ جو کہ اہلیت رکھنے رکھنے والے غیر مسلموں سے حاصل کیا جاتا ہے، عوامی ملکیت سے حاصل ہونے والی آمدنی (تیل، گیس، بجلی، معدنیات، چراگاہیں، نہریں، حما کے لیے مخصوص کی گئی زمینیں وغیرہ) صدقے سے آنے والی آمدنی، زرعی فصل پر عشر، نقدی، تجارتی سامان، مویشی، اور مخصوص حالات میں زائد دولت پرٹیکس کے ذریعے خلافت زبردست محصولات حاصل کرتی ہے۔ اسلام کا کمپنی ڈھانچہ (Company Structure) اس بات کو محدود کردیتا ہے کہ Capital Intensive انڈسٹری نجی ملکیت میں ہوں جو کثیرمنافع کمانے کا ذریعہ ہوتی ہیں جیسے بڑی نقل و حمل کے لیے درکار ٹرانسپورٹ ، ٹیلی کمیونیکیشن اور کثیر تعمیراتی صنعت، چنانچہ یہ ریاست خلافت کو موزوں موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اِن صنعتوں کو زیرِ اثر لا کر اِس سے حاصل ہونے والی آمدنی لوگوں کے فلاح و بہبود پر استعمال کرسکے۔ اِسی طرح ریاستِ خلافت کو درکار محصولات مختلف صنعتوں اور فیکٹریوں سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔
مزید یہ کہ ریاستِ خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں کے ذریعے جیسے کہ بھاری الیکٹرونکس کی صنعت اور گاڑیاں بنانے والی صنعت وغیرہ کے ذریعے کثیر محصولات اکھٹا کرتی ہے۔ عوامی اور ریاستی اثاثوں سے آنے والی آمدنی بیت المال میں رکھی جاتی ہے اور خلیفہ کے اجتہاد کی بنیاد پر ریاست کے شہریوں پر خرچ کی جاتی ہے، قطعِ نظر کہ اِس شہری کا تعلق کسی بھی قوم اور مذہب سے ہو۔
عوامی اور ریاستی اثاثوں سے حاصل ہونے والی یہ آمدنی، ریاست کی سرپرستی کے ذریعے وسائل کی بڑے پیمانے پر تقسیم کو یقینی بناتی ہے ناکہ سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے دولت کا ارتکاز کرتی ہے۔ ریاستِ خلافت سود پر مبنی ہر قسم کے لین دین کی ممانعت کرتی ہے چاہے وہ اندرونی خزانے سے حاصل کیا جائے یا بیرونی قرضوں کی مد میں حاصل کیا جائے۔ اس طرح ریاستِ خلافت استعماری اداروں کے تباہ کن ہتھیار "قرضوں کا جال" کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیتی ہے۔ اور اس طرح ریاستِ خلافت ہمیں استعماریکافروں کے تسلط سے آزاد کرئے گی۔ نتیجتاً ہماری خود مختاری بحال ہوگی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَوۡ اَنَّ اَهۡلَ الۡقُرٰٓى اٰمَنُوۡا وَاتَّقَوۡالَـفَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ
"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم اُن پر آسمان و زمین سے برکتیں کھول دیتے۔"(سورہ اعراف: 96)
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ بنگلادیش |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.khilafat.org |
E-Mail: media@domainnomeaning.com |