المكتب الإعــلامي
ولایہ بنگلادیش
ہجری تاریخ | 8 من رمــضان المبارك 1438هـ | شمارہ نمبر: 1438-09/01 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 03 جون 2017 م |
بجٹ 18-2017: غریب لوگ سرمایہ دارانہ معیشت کا ظالمانہ بوجھ اُٹھائیں گے
اورعوامی لیگ کے انتخابی بجٹ کے لئے بھاری قیمت ادا کریں گے
یکم جون،2017 کو بنگلا دیش کے وزیرِ خزانہ اما موحث نے پارلیمنٹ میں مالی سال 18-2017 کے لئے 4 ٹریلین ٹکا کا بجٹ پیش کیا، جس میں آمدنی میں 35 فیصد اضافے کے لئے VAT کے ذریعے وصولی پر زیادہ سے زیادہ انحصارکیا گیا ہے۔ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد "بھاری ترقیاتی" بجٹ کے نام پر، غریبوں اور درمیانی طبقوں کی جیبوں سے پیسہ چھین کر حکمران اشرافیہ اور اُن کے ساتھیوں کی دولت بڑھائی جائے گی۔
ظالمانہ VAT اسکیم پر بھاری انحصار (15 فیصد کی یکساں شرح) اور وزیرِ خزانہ کے طنزیہ تبصرے اس سرمایہ دارنہ حکومت کی عام عوام کی طرف بےحسی کو بے نقاب کرتے ہیں کیونکہ غریبوں کو بھی وہی ادا کرنا ہوگا جو امیر کرے گے۔ جب کم آمدنی والے طبقے پر زیادہ ٹیکس کا بوجھ ہوگا اُس وقت کپڑے کے تاجر کارپوریٹ ٹیکس کی 15 فیصد کی کم شرح سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ، صنعت کاروں کو خام مال کی خریداری پر بھی چھوٹ ملے گی ، جس کا فائدہ صارفین تک کبھی نہیں پہنچے گا۔ بجٹ پیش کرتے ہوئے امیروں کے حق میں اما موحث کے دلائل یہ تھے کہ ان پر بوجھ کم کرنے سے معیشت میں زیادہ آمدنی پیدا ہو گی۔ وہ کپڑے کے تاجروں اور صنعت کاروں کی طرف ہمدرد ہیں مگر ظالمانہ VAT نظام کی وجہ سے کم آمدنی والے طبقے پر افراطِ زر کے اثرات پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اُس کے دلائل سرمایہ داریت کے گھناؤنے جزو ’trickle-down economy‘ کی بہترین عکّاسی کرتے ہیں جس کے مطابق امیر کو اتنا کھلایا جائے کہ اُس سے بچ جانے والا مال غریبوں کو مل جائے۔
بنگلا دیش کی تمام حکومتوں کی جانب سے VAT کو اپنانے اور اس میں مسلسل اضافے کا ایک اہم سبب اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی ہے۔ ان کے نو آبادیاتی اداروں – بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، بین الاقوامی فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) وغیرہ نے نام نہاد آمدنی کے مؤثر تحرّک کے لئے VAT پر زیادہ انحصار کی کوششیں برقرار رکھی ہے۔ ان اداروں کی زیرِ نگرانی یہ حکومت اپنے نام نہاد انتہائی مہنگے لیکن غیر ضروری "میگا منصوبوں" کو فنڈ کرنے کے لئے VAT اور ٹیکسوں کے ذریعے لوگوں کی رقم لوُٹ رہی ہے۔
ہمارے ناکام حکمرانوں کی جانب سے مغربی استعمار کے زیرِ سرپرستی سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام اپنانے کی وجہ سے بنگلا دیش کا اقتصادی تفاوت اور ناکامیاں دائمی، وبائی اور ناقابلِ تسخیر ہو چُکی ہیں۔ اس ناحق اور ظالم اقتصادی نظام کے خاتمے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ اس کو اسلامی اقتصادی نظام سے تبدیل کر دیا جائے جو ریاستِ خلافت کا حصّہ ہو۔ اسلام معیشت میں بنیادی تبدیلیاں لے کے آئے گا خاص طور پر ٹیکس کے شعبے میں۔ یہ VAT، چیزوں اور خدمات پر ٹیکس (جی ایس ٹی) اور آمدنی پر ٹیکس سے لوگوں کو آزاد کرائے گا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لا يدخل الجنة صاحب مكس»
"ٹیکس جمع کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا" (مسند احمد)
بلکہ اسلام آمدنی جمع کرنے اور اس کے تحرّک کے لئے اپنا منفرد نظام متعارف کرائے گا، جس میں عوامی ملکیت جیسا کہ گیس، تیل، بجلی اور پانی وغیرہ سے آمدنی اور زراعت کی پیداوار سے آمدنی جیسا کہ سالانہ خراج اور عشرشامل ہوں گے، اور یہ اقتصادی حیات کا گلا گھونٹے بغیر آمدنی پیدا کرے گے۔ اسلام کا مجموعی ٹیکس بیس ناحق سرمایہ دارانہ معیشت سے کافی کم ہو گا اور اخراجات، سرمایہ کاری اور مہم جوئی کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اور جیسا کہ خلافت کی کرنسی سونے اور چاندی پر مبنی ہو گی تو وہ قدرتی طور پر افراطِ زر، جو کاغذی کرنسی پیدا کرتی ہے، کی روک تھام کرے گی۔
ولایہ بنگلادیش میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ بنگلادیش |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: www.khilafat.org |
E-Mail: media@domainnomeaning.com |