المكتب الإعــلامي
ولایہ اردن
ہجری تاریخ | 21 من رجب 1445هـ | شمارہ نمبر: 11 / 1445 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 02 مارچ 2024 م |
پریس ریلیز
عرب حکومتوں کا اتحاد...جو گناہ، جارحیت اور خیانت میں معاون ہیں، لیکن اس کے باوجود نہ تو یہودی وجود بر قرار رہے گی اور نہ ہی کافر مغربی استعمار!
(عربی سے ترجمہ)
ویسے تو عرب حکمرانوں سے ایسی کوئی امید نہیں تھی کہ وہ اپنی فوجوں کے ساتھ غزہ کے مظلوموں کی مدد کریں گے اور شاید یہی بہتر ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ کو ان کا متحرک ہونا ناپسند ہے، اس لیے انہیں بیٹھا رہنے دیا۔ اگر وہ باہر نکل جاتے تو ثابت قدم اور بہادر مجاہدین میں سوائے الجھن پیدا کرنے کے اور کچھ نہ کرتے۔ وہ اپنے اتحادیوں یعنی یہود و نصاریٰ کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے اور مجاہدین کے درمیان سوائے فتنہ پھیلانے کے اور کچھ نہ کرتے۔ یا پھر وہ مخلص مجاہدین کے ساتھ غزہ کے غیر متزلزل اور ثابت قدم لوگوں کی حاصل کردہ فتوحات میں حصہ لینے کی کوشش کرتے۔ ہم انہیں ایسے ہی سمجھتے ہیں۔ورنہ ان جابر حکمرانوں کے دشمنوں کے ایجنٹ ہونے کے متعلق شک پیدا ہوجاتا۔
یہ کمزور اور غدار حکمران خاموش رہے، جیسے کوئی مردہ ہوں، حالانکہ پوری دنیا کے لوگوں کے جذبات اس جنگ کی ہولناکیوں سے لرز اٹھے۔ لیکن اس کے باوجود ہماری امیدیں قائم ہیں، امت کی ان افواج سے کہ وہ اپنی عزت اور وقار کو بحال کریں اور اس فرض کو پورا کریں اور متحرک ہوں اور اللہ کی راہ میں غزہ کے لوگوں کے شانہ بشانہ لڑیں۔
جبکہ یہ حکمران اپنے مغربی، امریکی اور یورپی آقاؤں کے ساتھ خفیہ اور اعلانیہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔وہ امریکہ اور یورپ کی خدمت میں ثالثی کا کردار ادا کرتے ہیں کہ کس طرح فلسطینی لوگوں کو قابو میں کیا جاسکے، مسئلہ فلسطین کو دفن کیا جا سکے، یہودی وجود کو اس کی بربریت اور جرائم کے باوجود مستحکم کیا جاسکے، اور مغربی استعماری طاقتوں امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے لیے سیاسی ، عسکری اور معاشی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ ان کا مقصد یہودی وجود کے لیے اپنے اثر و رسوخ اور حمایت کو مستحکم کرنا ہے۔
چنانچہ مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کے حکمرانوں اور ان کے وزراء کے درمیان اتحاد اور ملاقاتیں، خواہ وہ دو طرفہ ہوں یا کثیرالجہتی، وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں ۔ یہ اتحاد اکثر علاقائی مسابقت، بین الاقوامی مداخلت، اور امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی قیادت میں مغربی استعماری طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے شدید جدوجہد کی شکل میں نمودار ہوتے رہتے ہیں۔
استعماری ممالک کے درمیان تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن غزہ کی جنگ نے ڈرامائی تبدیلی پیدا کی اور ان کے مؤقف اور سیاسی منصوبوں میں ایسی تبدیلیاں پیدا کیں جو امت کے خلاف ان کی سازشوں کا حصہ نہیں تھی۔ ان کے یہ منصوبے ابتدائی طور پر سیکورٹی، انسداد دہشت گردی، توانائی کے ذخائرکی حفاظت، صنعتی روابط، تجارت اور تعمیر نو پر مرکوز ہوتے تھے، اور ان سب کا مقصد امریکہ، اس کے اتحادیوں اور یہودی وجود کو مستحکم کرنا تھا۔
Axios نیوز ویب سائٹ نے دس روز قبل ریاض میں سعودی عرب، اردن، مصر اور فلسطین کے قومی سلامتی کے اعلیٰ حکام کی خفیہ میٹنگ کا انکشاف کیا۔ اس اجلاس کا مقصد غزہ پر جارحیت کے خاتمے کے بعد کے منصوبوں کو طے کرنا تھا کہ کس طرح فلسطینی اتھارٹی کے قیام کو عمل میں لایا جائے۔ ذرائع نے ویب سائٹ کو بتایا کہ "ریاض میں ہونے والی میٹنگ کی میزبانی سعودی قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر مساعد بن محمد العيبان نے کی"۔ دیگر شرکاء میں فلسطینی جنرل انٹیلی جنس سروس کے سربراہ ماجد فراج، ان کے مصری ہم منصب عباس کامل اور اردنی میجر جنرل احمد حسنی شامل تھے۔ذرائع نے بتایا کہ "سعودی، مصری اور اردنی عہدیداران نے فراج کو مطلع کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے "۔ سعودی قومی سلامتی کے مشیر نے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ سعودی حکومت "اسرائیل" کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں دلچسپی رکھتی ہے"۔
ایک اور ملاقات میں سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں قطری وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن اور مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل کے ساتھ بات چیت کی۔ ملاقات میں موساد کے سربراہ بھی شامل تھے۔ قطری وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے کہا کہ قطر کا کردار ثالثی کا ہے، فریقین پر دباؤ ڈالنا نہیں ، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قطر کا کسی فریق پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔
ایک اور موقع پر، العربی الجدید نے پیر کی شام مصری جنرل انٹیلی جنس کے سینئر عہدیداروں اور حماس کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات کا ذکر کیا جو کئی دنوں سے قاہرہ میں ہیں۔ ملاقات کا مقصد پیرس اجلاس میں طے پانے والے معاہدوں کو حماس کے وفد کے حوالے کرنا اور پیش رفت کے ابتدائی مراحل پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
مصر، اردن اور فلسطین کے درمیان حالیہ سہ فریقی سربراہی اجلاس عقبہ شہر میں ہوا، جس کا مقصد غزہ کے بحران کے حل کے لیے عملی اقدامات تلاش کرنا تھا۔ سربراہی اجلاس میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو مسترد کیا گیا، جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا اور امداد کی ترسیل کو آسان بنانے پر زور دیا گیا ۔ شاہ عبداللہ نے غزہ جنگ کے بعد تین بار مصر کا دورہ کیا اور صدر سیسی اور صدر عباس کی عقبہ میں میزبانی بھی کی۔
امریکی عہدیداروں کے متعدد رابطے اور دورے مشرق وسطیٰ اور یہودی وجود میں ہوئے جن میں سیکریٹری آف اسٹیٹ بلنکن، سیکریٹری دفاع آسٹن، اور قومی سلامتی کے مشیر شامل تھے۔ یہ دورے یہودی وجود کے لیے لامحدود فوجی تعاون کا حصہ تھے۔ تاہم ان دوروں کا مقصد نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کے رہنماؤں پر سیاسی دباؤ ڈالنا بھی شامل تھا ، تا کہ وہ دو ریاستی حل کو قبول کریں اور اس کے ساتھ ساتھ علاقائی رہنماؤں کے لیے امریکی حکم نامے کے مطابق اس شکست خوردہ یہودی وجود کی ذلت آمیز عسکری اور لاجسٹک سپورٹ کو بھی برقرار رکھا جاسکے۔
ان ملاقاتوں، اتحادوں اور عرب حکمرانوں کے دوروں سے مندرجہ ذیل نکات بیان کیے جاسکتے ہیں:
- عرب حکمرانوں کا امریکہ اور یورپ کے ساتھ اپنے اتحاد پر انحصار فریب کے سوا کچھ نہیں۔ امت کی بیداری اور اپنے دشمنوں کی پہچان کے نتیجے میں یہ صرف ان کے اور یہودی وجود کی تباہی اور بربادی کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب اللہ کی مرضی سے یہ نیست و نابود ہو جائیں گے۔
- یہ اتحاد مسئلہ فلسطین کے حل یا فرضی دو ریاستی حل کے قیام میں کسی طرح مددگار نہیں ہوگا۔ نہ ہی اس کے کے نتیجے میں یہودیوں، مغرب اور عرب حکمرانوں کے درمیان کوئی دوطرفہ یا علاقائی معاہدہ طے پائے گا ، چاہے وہ اقتصادی ہوں یا عسکری۔
- یہ اتحاد اور ملاقاتیں نہ تو ان کمزور حکومتوں کے عوام کے مفاد میں ہے اور نہ ہی غزہ کے لوگوں کے لیے حمایت کا باعث جنہوں نے بہادری کی مثال قائم کردی۔ان حکمرانوں نے تو انہیں "اسرائیلی" وحشیانہ بربریت کے حوالے کردیا تھا تا کہ وہ ختم ہی ہوجائیں۔ مصر نے امداد کو روکنے کے لیے رفح کراسنگ کو بند کر دیا، اور جو گزرنے دیا جاتا تھا ، اس کے لیے بھی مصری انٹیلی جنس کمپنیوں کو ہزاروں ڈالر ا دا کیے جاتے تھے۔ اردن نے خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر یہودی وجود کی حمایت میں دبئی، مکہ، اردن اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے ذریعے سامان ترسیل کے لیے متبادل راستہ فراہم کیا ۔
اس کے علاوہ اردن نے یہودی وجود کے لیے امریکی ہتھیاروں کی کھیپ وصول کی اور اسے سبزیاں اور پھل وغیرہ فراہم کیے۔
- 7 اکتوبر 2023 کو بہادر مجاہدین کے ہاتھوں یہودی وجود کی ذلت آمیز شکست نے پوری یہودی قوم کے ضمیر پر ایک دیرپا نشان چھوڑا ہے۔ اور یہ اسی وقت اپنی تکمیل کو پہنچے گا ، جب اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آخری جنگ لڑی جائے تا کہ اس وجود کا جڑ سے خاتمہ ہوجائے۔
- امریکہ، یورپ اور وہ حکمران جو گناہوں میں اور جنگوں میں ان کے شریک ہیں، مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ یہ بات مسلمان اچھی طرح سے سمجھتے ہیں ، اس لیے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق صرف حالت جنگ کی صورت میں ہونا چاہیے۔اسلامی سرزمینوں پر قائم ان کے فوجی اڈے ، انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے کیونکہ یہ اڈے ان حکمرانوں کی ملی بھگت سے قائم کیے گئے ہیں۔
- یہ حکمران خود اپنے اقتدار کی بقا ءکی جدوجہد لڑرہے ہیں اور امت کے دشمنوں کے ساتھ ان کا اتحاد اور ان کی بار بار ملاقاتیں ان کے خوف کی کیفیت اور ان کے لڑ کھڑاتے تخت و تاج کا منہ بولتا ثبوت ہیں، کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود اور مغرب ان کے محافظ ہیں، جبکہ یہ ان گذشتہ حکمرانوں کی ناکامیوں سے سبق سیکھنے سے قاصر ہیں جو اسی طرح زوال کا شکار ہوئے۔
- پوری دنیا یہودیوں کے گھناؤنے جرائم اور امریکہ و یورپ کے مذموم مقاصد کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ نام نہاد عالمی ادارے اور بین الاقوامی قوانین اس گھٹیا اور شیطانی عالمی نظام میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ حقیقی تبدیلی صرف اسلام کی انقلابی واپسی کے ذریعے ہی ممکن ہے، ، جو رب العالمین کا نازل کردہ دین ہے، اور اسی کے مطابق انسانی زندگی کو مرتب کرتا ہے۔
- دنیا بھر میں لوگوں کے ذہنوں اور دلوں سے بوسیدہ سرمایہ داری اور پر فریب جمہوریت کے زوال کے باوجود، نبوت کے طریقے پر، خلافت راشدہ کو بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ دین کو اسی طرح قائم کیا جاسکے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں قائم کیا تھا۔ موجودہ ظالم کفریہ ریاستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مخالف صالح ریاست کی ضرورت ہے تاکہ ان کو چیلنج کیا جاسکے اور عالمی نظام کو عدل و انصاف پر مبنی نظام سے تبدیل کیا جاسکے۔
جیسے جیسے ان غدار حکمرانوں کی خیانتیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں، امت کی امیدیں ان اہلِ طاقت سے بڑھتی جارہی ہے، جس کے ہر سپاہی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ غزہ اور فلسطین میں یہودیوں سے لڑنے کے لیے متحرک ہوں ، کیونکہ یہودیوں نے وہاں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اللہ کے حلیف بنو اور صحابہ کی پیروی کرو اور امت کے ہیروز بنو جیسے صلاح الدین، قطوز اور بیبرس تھے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ﴾
”ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی اس دنیا کی زندگی میں بھی مددگار ہیں اور اس دن بھی جب کہ گواہ کھڑے کیے جائیں گے“۔(سورۃ غافر؛40:51)
ولایہ اردن میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ اردن |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: http://www.domainnomeaning.com |
E-Mail: jordan_mo@domainnomeaning.com |