المكتب الإعــلامي
ولایہ اردن
ہجری تاریخ | 12 من رجب 1445هـ | شمارہ نمبر: 10 / 1445 |
عیسوی تاریخ | بدھ, 24 جنوری 2024 م |
پریس ریلیز
درجنوں قابض فوجیوں کی ہلاکتوں کے ساتھ آپریشن المغازی میں مجاہدین کی فتح یہود کے اس عفریت نما وجود کے لیے ایک دردناک دھچکا اور ان حکمرانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو لاغر اور لاچار ہیں
یہودی وجود کی فوج نے اعتراف کیا کہ غزہ میں المغازی کیمپ کے قریب مجاہدین کی طرف سے کیے گئے صرف ایک ہی آپریشن میں اس کے چوبیس یا شاید اس تعداد سے کہیں زائد فوجی مارے گئے ہیں۔ مجاہدین نے ایک ٹینک کو دھماکے سے اڑا دیا اور ان عمارتوں کو، جس میں انہوں نے پھندے لگائے ہوئے تھے، ایسے تباہ کر دیا کہ یہودی قابض فوجی ملبے تلے ہی دفن ہو کر مارے گئے۔ یہودی رہنماؤں نے اس وقوعہ کو جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک سب سے زیادہ نقصان دہ واقعہ کہا، اور اِس دن کو ایک آفت اور سوگ کا دن قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مدد سے ثابت قدمی اور جہاد میں یہ ایک فتح کا دن تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،
﴿ قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ﴾
"ان سے قتال کرو۔ اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مؤمن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا" ﴿التوبہ، 9:14﴾
غزہ پر جاری اس جنگ کے شروع ہونے کے 109 دن گزر جانے کے بعد، جس میں شہداء اور زخمیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ ضروریات زندگی تباہ ہو چکی ہیں، مجاہدین اب بھی حوصلے کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ وہ دشمن کو ہر محاذ پر شکست دے رہے ہیں۔ وہ یہود کو غزہ کی سرزمین میں آباد ہونے سے روکنے کے لیے اُن کی ہلاکت اور تباہی پھیلانے کا انتظام کر رہے ہیں۔
اس جرأتمندانہ آپریشن اور مجاہدین کے لیے اللہ تعالیٰ کی فتح کے ساتھ ساتھ فلسطین کے صابر لوگوں کی ثابت قدمی کے پیش نظر، ہم درج ذیل باتوں کی توثیق کرتے ہیں :
1۔ ایک ایسے وقت میں جب عرب اور مسلم ممالک کے حکمران عالمی طاقتوں کے اداروں کے ساتھ مل کر ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ان میں کچھ شرم ہے بھی تو اپنی شرمندگی سے بچنے کے لیے وہ جنگ بندی کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اس بڑھتے ہوئے دباؤ کو ختم کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں، جو روز بروز جنگ جاری رہنے کے ساتھ ان کے علاقوں میں بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ آپریشن ان کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ اس سے فلسطین اور غزہ کے لوگوں کی مدد کرنے میں ان حکمرانوں کی ناکامی کے بارے میں کسی بھی قسم کا کوئی شک دور ہو چکا ہے۔
2۔ اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ یہودی وجود اور اس کی فوج، اللہ ﷻ کی مخلوقات میں سب سے زیادہ بزدل ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،
﴿ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلا بِحَبْلٍ مِنَ اللهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ﴾
"ان پر ذلت مسلط کر دی گئی ہے بجز اس کے کہ یہ اللہ اور مسلمانوں کی پناہ میں آ جائیں اور یہ لوگ اللہ کے غضب میں گرفتار ہیں اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے" (آل عمران، 3:112)۔
امت نے اس بزدلی کا اپنی آنکھوں سے ایسے مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں کے لئے خوف و ہراس کا تصور ہی ختم ہو کر رہ گیا۔ یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ مسلم دنیا کےحکمران یہودی وجود سے لڑنے اور کسی فوجی حل تک پہنچنے میں ناکامی کے جواز پیش کرنے اور امت کے لوگوں کو یہودی فوج کے حوالے سے جھوٹے ڈراوے دیتے رہے ہیں۔
3۔ اہل قوت اور امت کی افواج، محدود تعداد اور مختصر ذرائع کے باوجود مجاہدین کی انفرادی فتوحات کو دیکھ رہے ہیں، تو ان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنے نفوس کا جائزہ لیں اور غزہ میں موجود اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں ان میں سے کوئی اس موقع کو ضائع کرنے پر ندامت محسوس کرے جیسا کہ یہودی وجود کے خلاف جعلی جنگوں میں ان سے پہلے ہوتا رہا ہے۔
4- تباہی اور شہادتوں کے باوجود امت جنگ بندی نہیں چاہتی۔ بلکہ، امت یہودیوں سے لڑنا چاہتی ہے تاکہ فلسطین کو دریا سے سمندر تک، ان کے بیٹوں کے ذریعے مسلم فوجوں سے آزاد کرایا جائے، اور ان لوگوں کو ہٹا دیا جائے جو ان کی فتح کی راہ میں حائل ہیں۔ اور امت اس خواہش کا اظہار اس وقت کر رہی ہے جب یہودی وجود یہ اعلان کر رہا ہے کہ لڑائی کئی مہینوں تک جاری رہے گی، اور وہ جنگ بندی نہیں چاہتا۔ تو امت کے لشکر کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟! انہیں پہل کرنی چاہیے، یہودیوں کو ایسا سبق سکھانا چاہیے جس سے وہ شیطان کے وسوسوں کو بھی بھول جائیں، اور جیسے ہی یہودی پیچھے ہٹنے لگیں تو انہیں مار بھگائیں!
5- امت فلسطین کے مسلمانوں کی جس شاندار بہادری، مجاہدین کی استقامت، صبر، جنگی صلاحیتوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا مشاہدہ کر رہی ہے، اس سے امت کا خود پر اور اپنے اندر موجود بے پناہ صلاحیتوں پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ خاص طور پر اس لیے ہوا ہے کہ امت نے اپنے دشمنوں کے ساتھ حقیقی لڑائی اور جہاد کا ایک صدی سے زائد عرصے سے مشاہدہ نہیں کیا ہے۔
6- عالمی برادری، کافر استعمار مغرب، اور اس کے پیچھے امریکہ و یورپ اور امت کے عرب اور غیر عرب حکمرانوں کی نام نہاد "دو ریاستی حل" کے لیے بھاگ دوڑ، ایک مضحکہ خیز، اور افسوسناک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ اس "دو ریاستی حل" کو سب سے پہلے متکبر یہودی وجود نے سختی سے رد کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ "دو ریاستی حل" کی کوئی عملی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور اہل فلسطین کے ساتھ خیانت و غداری ہے۔
7- امت اسلامیہ کا ایمان آج بھی اپنے قلب میں زندہ ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن نے جہاد اور شہادت کی تڑپ کے ساتھ اس ایمان کو ایک شکل میں بدل دیا ہے۔ امت اس بات پر یقین کر چکی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی مدد کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿کَمۡ مِّنۡ فِئَةٍ قَلِيۡلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةً کَثِيۡرَةً ۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ ﴾
"اللہ کے حکم سے ایک چھوٹی سی فوج نے کتنی بار ایک زبردست لشکر کو شکست دی ہے۔"(سورۃ البقرہ 2:249)۔
امت سمجھ چکی ہے کہ جو اس کے خلاف کھڑے ہیں وہ اس کے حکمران ہیں، جو استعمار کے ایجنٹ ہیں اور جو اب بے نقاب ہو چکے ہیں۔ ان کے جھوٹ بھی بے نقاب ہو گئے ہیں، ان کے پیروکار بھی بے نقاب ہو گئے ہیں جو ان کے بدعنوان گروہ میں، ان کے سیاسی میڈیا میں شامل ہیں، یہاں تک کہ ہر طرح کے پیروکار بھی بے نقاب ہوگئے ہیں۔
8- مسلم ممالک کی سرحدیں بلا استثناء امت کے استعماری کافر دشمنوں کی تخلیق کردہ ہیں۔ یہی سرحدیں فلسطین، غزہ اور مسلم ممالک میں مسلمانوں کی فتح کو روکنے کا باعث ہیں۔ یہ سرحدیں ذلت اور محکومیت کے حکمرانوں نے سنبھال رکھی ہیں۔ اگر مسلم فوجیں اپنے سازوسامان اور امت کی لوٹی ہوئی دولت کو جوڑ لیں تو وہ دنیا کی سب سے بڑی مسلح قوت بن جائیں گی جس سے روئے زمین پر اللہ کا ہر دشمن خوف زدہ ہو گا۔
9- جو فتح اللہ سبحانہُ و تعالیٰ امت اسلامیہ کے لیے چاہتے ہیں وہ دین اسلام کی بالادستی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖ وَلَوۡ كَرِهَ الۡمُشۡرِكُوۡنَ﴾
"وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے" (الصف،61:9)۔
یہ وہ فتح ہے جو امت کو استعمار اور ان کے ایجنٹوں، مسلم دنیا کے حکمرانوں، دونوں سے نجات دلائے گی۔ یہ فتح اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یہودی وجود کو جڑوں سے ختم کر دیا جائے، جبکہ امریکہ اور یورپ کو مسلمانوں کی سرزمین سے بے دخل کر دیا جائے۔ یہ فتح عملاً اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ نبوت کے نقش قدم پر دوبارہ خلافت راشدہ قائم نہ کی جائے، جو 103 ہجری سال قبل اپنے دشمنوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی تھی۔ خلافت ایک اہم مسئلہ ہے جس کے ذریعے مسلمان اپنی تمام جنگوں میں فتح یاب ہوتے ہیں۔ یہ اس رحم اور انصاف کو بھی بحال کرتی ہے جو خلافت اور اس کی سیاسی، فکری قیادت کی عدم موجودگی میں دنیا سے کھو گئی ہے۔
بہت ہو گیا کہ مغربی ایجنٹوں کے ایک گروہ کے زیر اثر امت اسلامیہ سو سال سے زائد عرصے تک دنیا کی اقوام میں سب سے نچلے درجے میں رہ رہی ہے۔ اس کے پاس ایک الٰہامی عقیدہ ہے جس سے ایک نظام نکلتا ہے۔ جب اس کا نفاذ ہوا کرتا تھا تو امت نے شان و شوکت حاصل کی تھی۔ خلافت کے دوبارہ قیام کے بعد اس امت کا کوئی بھی دشمن اس کے کسی شہری پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ کوئی بڑی یا چھوٹی طاقت اسے کسی محاذ پر نقصان پہنچانے کی جرأت نہیں کرے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت اپنے دین کو نافذ کرتے ہوئے اور اسلام کے پیغام کو عام کرتے ہوئے اپنی بھلائی کی طرف لوٹے، جیسا کہ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ نے ایک اسلامی ریاست قائم کر کے اس امت کو عروج اور عزت بخشی تھی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ﴾
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے اٹھائی گئی ہے، خیر کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ " (آل عمران؛ 3:110)
ولایہ اردن میں حزب التحرير کا میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير ولایہ اردن |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: http://www.domainnomeaning.com |
E-Mail: jordan_mo@domainnomeaning.com |