الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ اردن

ہجری تاریخ    28 من شـعبان 1443هـ شمارہ نمبر: 18 / 1443
عیسوی تاریخ     جمعرات, 31 مارچ 2022 م

پریس ریلیز

یہودی وجود کے سربراہ کا استقبال کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ

اس حکومت کو اردن کے لوگوں کی خواہش  کی کوئی پرواہ نہیں جو اسے مٹانا چاہتے ہیں

 

ایک ایسے وقت میں جب فلسطین میں شہادت کی کارروائیاں یہودی وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں اور اس کی بنیادیں ہلا رہی ہیں، یہودی وجود کے سربراہ اسحاق ہرزوگ کا عمان میں اردن کے بادشاہ کے محل میں وزیر جنگ بینی گانٹز کی روانگی کے 48 گھنٹے سے بھی کم عرصے کے بعد ایک سرکاری ریڈ کارپٹ تقریب میں استقبال کیا گیا، تا کہ   11 یہودیوں کی ہلاکت کے بعد مقبوضہ علاقوں میں امن کی کوئی راہ نکالی جائے ، اور رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کی جانب سے بغاوتوں اور دیگر ممکنہ  کارروائیوں سے بچا جاسکے ۔ اس کے بعد شاہ عبداللہ دوم چند روز قبل رام اللہ کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے محمود عباس سے ملاقات کی۔

 

اردن کی شاہی عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بادشاہ نے عمان کے الحسینیہ محل میں یہودی وجود کے سربراہ سے ملاقات کے دوران یہ بات کہی، "اردن تشدد کی تمام شکلوں  اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بے گناہ معصوم جانوں کے نقصان  کی مذمت کرتا ہے کیونکہ ہر انسانی جان اہم ہے"، اور بادشاہ نے مزید کہا کہ ، "یہ تنازعہ بہت طویل عرصے سے جاری ہے، اور اس کے نتیجے میں ہونے والا تشدد بدستور بہت زیادہ تکلیف دیتا ہے اور انتہا پسندی کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے۔"

 

اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کو بیان کرنا ضروری ہے:

یہودی وجود کے ساتھ تعلقات اور اس کے قائدین کی یکے بعد دیگرے استقبال کے متعلق حکومت کا مؤقف، یہودیوں اور ان کے وجود کے متعلق اردن کے لوگوں کے جذبات اور رویوں کو نظر انداز کرتا ہے، جو  اسے پہلا دشمن سمجھتے ہیں اور اس کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

 

چند روز قبل، اردن کے عوام کے اس موقف کا اظہار اس جشن کی سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا جس میں اردن کے لوگوں نے کرامہ کی جنگ میں اس ظالم اور خوفناک وجود پر اپنی فتح پر فخر کا اظہار کیا تھا، جس نے انہیں فخر اور وقار کے اس احساس سے متاثر کیا تھا کہ  یہودی وجود سے صرف لڑائی اور جہاد سے ہی نمٹا جاسکتاہے۔

 

نام نہاد دو ریاستی حل ایک استعماری حل ہے، اردن اور فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے، یہودی وجود کو تسلیم کرنا اور الاقصیٰ پر قبضے کو تسلیم کرنا، شریعت میں حرام ہے۔ اس کے ساتھ تمام دو طرفہ یا علاقائی معاہدے بھی حرام ہیں۔ تعلقات کو معمول پر لانا اس کے وجود کو تقویت بخشے گا، جو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے۔

جو شخص یہ چاہتا ہے کہ مسلمان رمضان اور رمضان کے علاوہ اپنے مذہبی عبادات پر عمل کریں اور مسجد اقصیٰ میں امن و سلامتی کے ساتھ نماز ادا کریں تو وہ غاصبوں سے اس کا مطالبہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اسے آزاد کرنے کے لیےاور پوری بابرکت زمین کو ان سے اور اس کو ان کی نجاست سے پاک کر دینے کے لیے کام کرتا ہے۔

 

مایوس اور دکھی فلسطینی اتھارٹی میں روح پھونک کر مذاکرات کی بحالی کی ایک حقیقت پیدا کرنے کے لیے مقبوضہ علاقوں میں مطلوبہ سکون حاصل کرنے کے لیے یہودی وجود کے ساتھ سیکیورٹی کا کام اور تعاون کرنا، اردن اور فلسطین کے مسلمانوں کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ ہتھیار ڈالنے والے تمام حل قبول کرلیں، اور نہ ہی یہ اقدامات ان کی پوزیشن کو تبدیل کرے گا اور نہ ہی ان کے جائز بہادرانہ اقدامات کو روکنے میں کامیاب ہو گا جس سے یہودیوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں، کیونکہ وہ یہودی وجود کے ساتھ تعلقات، معاہدوں، سیکورٹی اور سیاسی ہم آہنگی کے حوالے سے اپنے حکمرانوں کی دنیا کے علاوہ کسی اور دنیا میں ہیں،  اور یہودی وجود خوف میں مبتلا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سیکورٹی میں تعاون  صرف حکمران کرتے ہیں جبکہ  مجموعی طور پر مسلمان یہ تعاون نہیں کرتے۔

 

اے اردن میں رہنے والے ہمارے لوگو، اے مسلمانو!

آپ دیکھتے ہیں کہ اردن کی پاک سرزمین پر بزدل یہودی وجود کے قائدین کا استقبال کیا جا رہا ہے جس کو پاک بہادر صحابہؓ کے خون اور القدس اور فلسطین  کو آزاد کرانے کی جنگ میں صلاح الدین کے ساتھی مجاہدین کے خون سے سیراب کی  کیا گیا ہوا ہے۔ کیا ان ذلیل لوگوں کے لیے ، جو اب حکمرانوں کی مدد کے باعث فخر کر رہے ہیں ، آپ کا وہی پُروقار موقف ہوگا جیسا کہ ماضی میں تھا؟ کیا آپ اسلام کی ریاست قائم کریں گے، خلافت راشدہ کی ریاست جس کی فوج، ان شاء اللہ، اس وجود اور اس کی پشت پناہی کرنے والے، کافر امریکی اور برطانوی مغربی استعماری ریاستوں کو اکھاڑ پھینکے گی، اور وہ  ایک شاندار دن ہوگا جب  مسلم افواج کی بلند تکبیریں مقدس سرزمین پر گونجیں گی ؟ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کا ذکر سچے اور امانت دار ﷺ نے کیا ہے:

 

«لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ، حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ»

"تم لڑو گے یہود سے اورانہیں مارو گے یہاں تک کہ پتھر بولے گا: اے مسلمان ادھر آو! یہاں ایک یہودی ہے،اس کو مار ڈالو۔"

 

میڈیا  آفس  حزب التحریرولایہ اردن

 

                                                                                                                           

 

 

 

پریس ریلیز

یہودی وجود کے سربراہ کا استقبال کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس حکومت کو اردن کے لوگوں کی خواہش کی کوئی پرواہ نہیں جو اسے مٹانا چاہتے ہیں

ایک ایسے وقت میں جب فلسطین میں شہادت کی کارروائیاں یہودی وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں اور اس کی بنیادیں ہلا رہی ہیں، یہودی وجود کے سربراہ اسحاق ہرزوگ کا عمان میں اردن کے بادشاہ کے محل میں وزیر جنگ بینی گانٹز کی روانگی کے 48 گھنٹے سے بھی کم عرصے کے بعد ایک سرکاری ریڈ کارپٹ تقریب میں استقبال کیا گیا، تا کہ 11 یہودیوں کی ہلاکت کے بعد مقبوضہ علاقوں میں امن کی کوئی راہ نکالی جائے ، اور رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کی جانب سے بغاوتوں اور دیگر ممکنہ کارروائیوں سے بچا جاسکے ۔ اس کے بعد شاہ عبداللہ دوم چند روز قبل رام اللہ کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے محمود عباس سے ملاقات کی۔

اردن کی شاہی عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بادشاہ نے عمان کے الحسینیہ محل میں یہودی وجود کے سربراہ سے ملاقات کے دوران یہ بات کہی، "اردن تشدد کی تمام شکلوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بے گناہ معصوم جانوں کے نقصان  کی مذمت کرتا ہے کیونکہ ہر انسانی جان اہم ہے"، اور بادشاہ نے مزید کہا کہ ، "یہ تنازعہ بہت طویل عرصے سے جاری ہے، اور اس کے نتیجے میں ہونے والا تشدد بدستور بہت زیادہ تکلیف دیتا ہے اور انتہا پسندی کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے۔"

اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کو بیان کرنا ضروری ہے:

یہودی وجود کے ساتھ تعلقات اور اس کے قائدین کی یکے بعد دیگرے استقبال کے متعلق حکومت کا مؤقف، یہودیوں اور ان کے وجود کے متعلق اردن کے لوگوں کے جذبات اور رویوں کو نظر انداز کرتا ہے، جو اسے پہلا دشمن سمجھتے ہیں اور اس کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

چند روز قبل، اردن کے عوام کے اس موقف کا اظہار اس جشن کی سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا جس میں اردن کے لوگوں نے کرامہ کی جنگ میں اس ظالم اور خوفناک وجود پر اپنی فتح پر فخر کا اظہار کیا تھا، جس نے انہیں فخر اور وقار کے اس احساس سے متاثر کیا تھا کہ یہودی وجود سے صرف لڑائی اور جہاد سے ہی نمٹا جاسکتاہے۔

نام نہاد دو ریاستی حل ایک استعماری حل ہے، اردن اور فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے، یہودی وجود کو تسلیم کرنا اور الاقصیٰ پر قبضے کو تسلیم کرنا، شریعت میں حرام ہے۔ اس کے ساتھ تمام دو طرفہ یا علاقائی معاہدے بھی حرام ہیں۔ تعلقات کو معمول پر لانا اس کے وجود کو تقویت بخشے گا، جو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے۔

جو شخص یہ چاہتا ہے کہ مسلمان رمضان اور رمضان کے علاوہ اپنے مذہبی عبادات پر عمل کریں اور مسجد اقصیٰ میں امن و سلامتی کے ساتھ نماز ادا کریں تو وہ غاصبوں سے اس کا مطالبہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اسے آزاد کرنے کے لیےاور پوری بابرکت زمین کو ان سے اور اس کو ان کی نجاست سے پاک کر دینے کے لیے کام کرتا ہے۔

مایوس اور دکھی فلسطینی اتھارٹی میں روح پھونک کر مذاکرات کی بحالی کی ایک حقیقت پیدا کرنے کے لیے مقبوضہ علاقوں میں مطلوبہ سکون حاصل کرنے کے لیے یہودی وجود کے ساتھ سیکیورٹی کا کام اور تعاون کرنا، اردن اور فلسطین کے مسلمانوں کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ ہتھیار ڈالنے والے تمام حل قبول کرلیں، اور نہ ہی یہ اقدامات ان کی پوزیشن کو تبدیل کرے گا اور نہ ہی ان کے جائز بہادرانہ اقدامات کو روکنے میں کامیاب ہو گا جس سے یہودیوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں، کیونکہ وہ یہودی وجود کے ساتھ تعلقات، معاہدوں، سیکورٹی اور سیاسی ہم آہنگی کے حوالے سے اپنے حکمرانوں کی دنیا کے علاوہ کسی اور دنیا میں ہیں،  اور یہودی وجود خوف میں مبتلا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سیکورٹی میں تعاون صرف حکمران کرتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر مسلمان یہ تعاون نہیں کرتے۔

اے اردن میں رہنے والے ہمارے لوگو، اے مسلمانو!

آپ دیکھتے ہیں کہ اردن کی پاک سرزمین پر بزدل یہودی وجود کے قائدین کا استقبال کیا جا رہا ہے جس کو پاک بہادر صحابہؓ کے خون اور القدس اور فلسطین کو آزاد کرانے کی جنگ میں صلاح الدین کے ساتھی مجاہدین کے خون سے سیراب کی کیا گیا ہوا ہے۔ کیا ان ذلیل لوگوں کے لیے ، جو اب حکمرانوں کی مدد کے باعث فخر کر رہے ہیں ، آپ کا وہی پُروقار موقف ہوگا جیسا کہ ماضی میں تھا؟ کیا آپ اسلام کی ریاست قائم کریں گے، خلافت راشدہ کی ریاست جس کی فوج، ان شاء اللہ، اس وجود اور اس کی پشت پناہی کرنے والے، کافر امریکی اور برطانوی مغربی استعماری ریاستوں کو اکھاڑ پھینکے گی، اور وہ ایک شاندار دن ہوگا جب مسلم افواج کی بلند تکبیریں مقدس سرزمین پر گونجیں گی ؟ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کا ذکر سچے اور امانت دار ﷺ نے کیا ہے: «لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ، حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ» "تم لڑو گے یہود سے اورانہیں مارو گے یہاں تک کہ پتھر بولے گا: اے مسلمان ادھر آو! یہاں ایک یہودی ہے،اس کو مار ڈالو۔"

میڈیا  آفس  حزب التحریرولایہ اردن

 

 

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ اردن
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
http://www.domainnomeaning.com
E-Mail: jordan_mo@domainnomeaning.com

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک