الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

ہندوستان "دنیا کاسب سے بڑا جمہوری ملک" اپنی خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گیا

جمعہ، 28 دسمبر 2012 کو 23 سالہ ہندوستانی میڈیکل سٹوڈنٹ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی، جسے 16 دسمبر کو دہلی کی ایک بس میں چھ آدمیوں نے بدترین تشدد اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے نے پورے ہندوستان میں، ہندوستانی پولیس اور حکومت کی غفلت اور خواتین کے جنسی تشدد سے بچائو کے معاملے پر ان کی سست روی کے خلاف مظاہروں کی آگ بھڑکا دی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ہندوستان میں زنا بل جبر ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ درندگی روزمرہ کا معمول بن گیا ہے اور ہندستان میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہوا جرم ہے۔ لاتعداد جنسی حملوں کی تو رپورٹ ہی درج نہیں کرائی جاتی کیونکہ خواتین اپنی عزتوں کے تحفظ کے سلسلے میں اس نظام پر بالکل اعتماد نہیں کرتیں۔ اسکی ایک وجہ تو اتنے بڑے پیمانے پر اس مسئلے کا پایا جانا ہے، دوسرا یہ کہ عموماً پولیس کی جانب سے مجرموں کو تحفظ دیا جاتا ہے، نیز یہ مقدمے سالہاسال عدالتوں میں التوا کا شکار رہتے ہیں اور سزاؤں کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ الجزیرہ کے مطابق، ہندوستان میں ہر 20 منٹ کے بعد ایک عورت کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے اور صرف گزشتہ سال میں ہی زیادتی کے 24,000 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی ذرائع ابلاغ کے ادارے نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ دہلی کی 80% خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چالیس سالوں کے دوران زیادتی کے واقعات میں حیرت انگیز طور پر 792% اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر نسرین نواز، ممبر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر، نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "ایک طرف تو مغرب مسلسل 'جمہوریت ' کو خواتین کے حقوق اور عزت و وقار کے تحفظ کے لیے بہترین نظام قرار دے کر اسے مسلم ممالک کو برآمد کر رہا ہے تو دوسری طرف دنیا کا سب سے بڑاجمہوری ملک اپنی خواتین کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی شرح میں ظالمانہ اضافہ، پولیس کی طرف سے ان کی عزت کی حفاظت کے بارے میں لاپرواہی برتنا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے میں حکومتی بے حسی دراصل اس لبرل ثقافت کاشاخسانہ ہے جسے بالی ووڈ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی صورت میں ریاستی سطح پر خوب اچھالا جاتا ہے اور اس کے گن گائے جاتے ہیں؛ کیونکہ اسی کے نتیجے میں خواتین کو ہر روز منظم طریقے سے بے وقعت کیا جا رہا ہے۔ اس بالی ووڈ ثقافت اور انٹرٹینمنٹ کے دیگرذرائع مثلاً اشتہاروں اور پورنوگرافی انڈسٹری نے، جس کی ہندوستان کے سیکولر لبرل جمہوری نظام نے اجازت دے رکھی ہے، عورت کو مردوں کی خواہشات پر ایک کھلونا بنا کر پیش کیاہے۔ انہوں نے معاشرے کو جنسی ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے اور افراد کو اپنی جنسی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی ترغیب دی ہے۔ یہ غیر ازدواجی تعلقات کو فروغ دیتے ہیں اور عورت اور مرد کے مابین رشتوں کو سستی شے بنا کر فحاشی کومزید پھیلا رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال نے بے شمار مردوں کو بے حس کر دیا ہے یہاں تک کہ انہیں خواتین کی عصمت دری پر جو غم وغصہ محسوس ہونا چاہئے، وہ اس سے کوسوں دور ہیں۔ چنانچہ یہ ہرگز باعث حیرت نہیں یہ ملک اب امریکہ اور برطانیہ جیسی لبرل ریاستوں کی برابری کرتا دکھائی دیتا ہے جو خواتین کے خلاف تشدد میں عالمی رہنما ہیں۔ یہ جمہوری سیکولر لبرل نظام جہاں کی نصف آبادی خوف میں زندگی گزار رہی ہے، مسلم دنیا کے لیے ہرگز قابل قبول نمونہ نہیں۔"

"یہ اسلام ہی ہے، جسے نظام خلافت کے تحت مکمل اور ہمہ گیر طورپر نافذ کیا جاتا ہے، جو خواتین کے عزت و وقار کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط اور درست نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ اسلام لبرل آزادیوں کو مسترد کرتا ہے اور معاشرے میں تقویٰ (خدا خوفی) کو فروغ دیتا ہے جس کے نتیجے میں مردوں کے خواتین کے ساتھ سلوک اور رویے سے متعلق جوابدہی کی ذہنیت اورفضا پیدا ہوتی ہے۔ اسلام معاشرے میں جنسی مظاہر پھیلانے، نیز عورت کے استحصال اور کسی بھی طریقے سے اسے ایک شے کی حیثیت دینے کو حرام قرار دیتا ہے، چنانچہ عورت اور مرد کے مابین رشتے نہ تو بے وقعت ہوتے ہیں اور نہ ہی عورت کی قدر میں کوئی کمی آتی ہے۔ اسلام ایک مکمل اور ہمہ گیر معاشرتی نظام پیش کرتا ہے جو عورت اور مرد کے تعلق کو منظم کرتا ہے اور جس میں ایک باحیا لباس، دونوں صنفوں کے درمیان علیحدگی اور غیر ازدواجی تعلقات کے حرام ہونے کے قوانین شامل ہیں۔ پس جنسی خواہشات کو نکاح تک محدود کرنے سے عورت اور معاشرے کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ یہ سب اس نظام خلافت کے سائے تلے نافذ کیا جاتا ہے جہاں ایک مستعد عدالتی نظام اپنا فرض سمجھ کر جرائم کو تیزی سے نمٹاتا ہے اور سخت ترین سزائیں نافذ کرتا ہے مثلاً خواتین کے خلاف بہتان کی سزا دُرے لگانا ہے، یہاں تک کہ اسکی عصمت دری پر سزائے موت تک دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں عورت پر ایک غلط نظر ڈالنا، اسکے خلاف غلط لفظ زبان سے نکالنا یا کوئی حرکت کرنا بھی سنگین جرم سمجھاجاتا ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاتا، نتیجتاً ان کی تعلیم، ملازمت، سفر اور زندگی گزارنے کے لیے ایک محفوظ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا ہم مسلم دنیا کی خواتین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خلافت کو بحیثیت نظام اپنائیں جو ان کی دیکھ بھال اور عزت و وقار کے تحفظ کے لیے قابل اعتماد اصولوں، پالیسیوں اور قوانین پر مشتمل ہے"۔

 

ڈاکٹر نسرین نواز

ممبر مرکزی میڈیا آفس، حزب التحریر

 

Read more...

افواج پاکستان کی آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کیانی نے امریکہ کے سامنے پاکستان کی ذلت و رسوائی کے ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے

جنرل کیانی اپنے آقا امریکہ کے لیے اپنی مدت ملازمت کے آخری سال میں افواج پاکستان کی سوچ اور آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کے لیے سخت محنت کر رہا ہے تاکہ اس کے جانے کے بعد بھی پاکستان میں فتنے کی جنگ جاری و ساری رہے۔ جنرل کیانی کے لیے صرف اس قدر کام ہی کافی نہیں تھا کہ وہ اپنے جانے سے قبل سیاسی قیادت میں موجود غداروں کے چہروں کی تبدیلی کی نگرانی کرے بلکہ وہ افواج پاکستان پر بھی ایک نئی غدار قیادت مسلط کر کے جانا چاہتا ہے۔ افواج پاکستان کی گرین بک میں ایک اہم تبدیلی کر کے اس امریکی فتنے کی جنگ کو افواج پاکستان کی آپریشنل ترجیحات کا اہم ترین حصہ بنادیا گیا ہے۔ امریکہ بہت عرصے سے پاکستان پر یہ دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ بھارت کواپنی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دینے کی پالیسی کو تبدیل کرے اور "اندرونی خطرے" کو اپنی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے۔ افواج پاکستان کی آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی اور ان کی نظر میں بھارت کی جگہ اپنے ہی قبائلی علاقے کو پاکستان کی سلامتی کو نمبر ایک مسئلہ بنانے کے لیے جنرل کیانی نے ایبٹ آباد اور سلالہ پر حملے کو جواز بنایا ہے۔ درحقیقت یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا اصل دشمن امریکہ ہے لیکن غدار کیانی ان حملوں کو اس فتنے کے جنگ کو مزید بھڑکانے کے لیے استعمال کر رہا ہے جس کے نتیجے میں افواج میں موجود ہمارے بیٹے اور پاکستان کی عوام اس جنگ کا ایندھن بنتے رہیں گے۔

پاکستان کی سلامتی کو درپیش اصل "اندرونی خطرہ" ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک، نیٹو سپلائی لائن، اسلام آباد میں مسلسل وسیع ہوتا امریکی سفارت خانہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا وہ چھوٹا سا گروہ ہے جس کی قیادت زرداری اور کیانی کر رہے ہیں۔ اصل اندرونی خطرہ کیانی، زرداری اور ان کے چوروں کا وہ گروہ ہے جنھوں نے ہماری معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور عالمی سطح پر ایک ایٹمی طاقت پاکستان کو مذاق بنا دیا ہے۔ اصل اندرونی خطرہ موجودہ کفریہ نظام ہے جو ایک کے بعد دوسرے غدار کو غداری کرنے کا کھلا موقع فراہم کرتا ہے۔

ہم ان تمام لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں جو اسلام، امت مسلمہ اور پاکستان کے خیرخواہ ہیں کہ افواج پاکستان کی آپریشنل ترجیحات میں یہ تبدیلی پاکستان کی امریکہ کی غلامی اور دنیا میں اس کی ذلت و رسوائی کا ایک نیا باب کھول دے گی جس کی اللہ سبحانہ و تعالی نے اجازت نہیں دی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:

وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلا

"اور اللہ نے کافروں کو مومنین پر ہر گز کوئی راستہ (اختیار یا غلبہ) نہیں دیا" (النسأ:141)

لہذا ہم افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کو پکارتے ہیں کہ وہ ان غداروں سے نجات اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کا ساتھ دیں۔ خلافت مسلم افواج کی آپریشنل ترجیحات کا درست تعین کرے گی جس کو ریاست خلافت کی زبردست خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی سیاسی حکمت عملی بھرپور تعاون فراہم کرے گی۔ خلافت زبردست اور جامع صنعتی انقلاب برپا کرے گی جس کے نتیجے میں ہماری افواج کو اپنے جدید ترین اسلح کی بناء پر دوسری تمام افواج پر فوجی برتری حاصل ہوگی۔ خلافت تمام مسلم علاقوں کو ایک ریاست تلے اکٹھا کرے گی جن کی قیادت ایک خلیفہ کرے گا۔ خلافت مسلم سرزمینوں پر قائم کفار کے قبضوں کا خاتمہ کرے گی جیسے یہودی ریاست اور کشمیر پر بھارتی قبضہ۔ خلافت ملک میں دشمن ریاستوں جیسے امریکہ کی پاکستان میں موجودگی کا خاتمہ کرے گی اور ان غیر مسلم ریاستوں کو، جن کی مسلمانوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، امریکی ظلم و جبر اور انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کے خاتمے اور اسلام کی دعوت دے گی۔

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...

حنا ربانی کھر کا دورہ سعودیہ عرب شام کے جابر کا خاتمہ قریب ہے اسی لیے دوسرے جابروں نے بھی لا حاصل بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے

پاکستان کی وزیر خارجہ یکم جنوری 2013 کو شام کے معاملے پر امریکہ اور خطے میں موجود دیگر غدار مسلمان حکمرانوں کی سازش میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے سعودی عرب جا رہی ہیں۔ یہ دورہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب پاکستان نیویارک میں اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے جا رہاہے۔ پاکستان سلامتی کونسل کی صدارت اس وقت سنبھال رہا ہے جب شام کا مسئلہ سب سے بڑا بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔

وزیر خارجہ کے اس ہنگامی دورے کا مقصد پاکستان کے حکمرانوں کے آقا، امریکہ، کی خوشنودی اور اس کے مفادات کا تحفظ ہے۔ استعماری طاقتیں اس بات سے سخت پریشان ہیں کہ شام کے مسلمانوں کی جانب سے کسی بھی مغربی مداخلت کو مسترد کیا جا رہا ہے چاہے وہ ان کے نئے ایجنٹ کی صورت میں ہو یا مغربی جمہوریت کے نفاذ کی صورت میں۔ وہ اس بات سے سخت خوفزدہ ہیں کہ شام کے مسلمانوں نے اللہ سبحانہ و تعالی کے سوا کسی کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں خلافت کی آواز سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ امریکہ شام میں خلافت کے قیام سے پریشان ہے اور اس بات سے خوفزدہ ہے کہ یہ خلافت دوسری مسلم سرزمینوں تک پھیل جائے گی کیونکہ خلافت تمام مسلمانوں کی ریاست ہے اور اس کا خلیفہ تمام مسلمانوں کا حکمران ہوتا ہے۔

اب تک پاکستان کے حکمرانوں نے شام کی حقیقی صورتحال سے متعلق میڈیا بلیک آوٹ کر کے، جس میں اس وہ وڈیوز بھی شامل ہیں جس میں شام کے مسلمان عظیم شان مظاہروں میں خلافت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں، امریکہ کی معاونت کی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے مغرب کے اس موقف کی حمائت کی ہے جس میں شام میں اسلامی تحریکوں کی موجودگی کی مخالفت کی گئی ہے اور مغرب انھیں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر شام میں مغرب کی فوجی مداخلت چاہتا ہے۔ پاکستان کے حکمران پاکستان میں خلافت کے مطالبے کی قوت سے گھبرا کر افواج پاکستان اور سیاست دانوں میں موجود ان لوگوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ اس غدار زرداری، کیانی اور ان کے ٹولے سے بالکل غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی جنگ میں بھر پور شرکت کرتے ہیں، ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی دہشت گردوں کو پاکستان بھر میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، ہر اس شخص کو انعام سے نوازتے ہیں جو ان کی غداری میں معاونت فراہم کرے اور امریکہ کی حمائت میں میڈیا مہم چلاتے ہیں۔

اس وقت شام میں خلافت کے قیام کی جدوجہد مغربی استعماری طاقتوں کے خلاف پوری مسلم امت کی جدوجہد کی ترجمانی کرتی ہے۔ غدار حکمرانوں کی بھاگ دوڑ صرف ان کی غداریوں پرمہر تصدیق ثبت ہوگی جنھیں خلافت کی عدالتوں میں اپنی غداریوں کی بناء پر ذلت آمیز مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم ان غدار حکمرانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی یہ بھاگ دوڑ خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے ناکافی ہے اور ان کی یہ شدید کوشش قیامت کے دن اللہ کی شدید ناراضگی کا باعث بنے گا۔ لہذا ان کی یہ بھاگ دوڑ لا حاصل ہے کیونکہ اسلام اور اس کی امت اللہ سبحانہ و تعالی کی مدد سے ضرور کامیابی حاصل کرے گی۔

يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُواْ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَىٰ ٱللَّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَافِرُون هُوَ ٱلَّذِيۤ أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ َ

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ انکاری ہے مگر اس بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر نا خوش ہوں۔ اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں۔

(التوبة:32,33)

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

طالبان کو لازمی طور پر ''ذلت آمیز مذاکرات‘‘کو مسترد اور پاکستان اور افغانستان میں خلافتِ راشدہ کے قیام کی حمائت کا اعلان کرنا چاہیے

گذشتہ ہفتے تحریک طالبان نے موجودہ دسمبر کے مہینے میں پیرس میں ہونے والی افغانستان کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کی تاہم اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے یا نہیں۔تحریک طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا''اس کانفرنس میں طالبان عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف پیش کریں گے اورہم اپنے دو نمائندے بھیجیں گے ۔اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس کانفرنس میں کسی سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔یہ ایک تحقیقی کانفرنس ہے ،طالبان کے نمائندے اس کانفرنس میں شرکت صرف دنیاکے سامنے ہمارا نقطہ نظر براہ راست پیش کرنے کی غرض سے کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ تحریک کو لوگوں کی حمایت حاصل ہے اورامریکہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''طالبان کوئی چھوٹی موٹی تحریک نہیں بلکہ اس کی جڑیں عوام میں ہیں۔امریکہ طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر چکا ہے‘‘(The International News 11/12/2012)۔

افغانستان کے حوالے سے یہ بین الاقوامی کانفرنس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے پریشان کن صورت حال میں منعقد ہو رہی ہے،کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔'' امن کے عمل کا روڈمیپ2015‘‘ کے نام سے اس منصوبے کے پانچ مراحل ہیں،یہ وہی تجاویز ہیں جو پاکستان اور افغانستان نے امریکہ کی سرپرستی میں پیش کیں تھیں۔اس منصوبے کا بنیادی مقصد طالبان اور ان سے منسلک دوسرے مسلح گروہوں کو مزاحمت سے مکمل دستبر دار ہونے کی شرط پر حکومتی ڈھانچے میں شامل ہونے کی طرف مائل کرناہے۔McClatchy News نے اس کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے کہ''امن مذاکرات کے نتیجے میں افغان دستور کی قبولیت کا اعلان لازمی ہے۔۔۔اور مذاکرات کے نتیجے میں طالبان اور دوسرے مسلح گروپوں کو القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں سے مکمل قطع تعلق کرنا پڑے گااورممکن حد تک تشدد سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑے گا۔۔۔ امن کی کوششوں کے لیے علاقائی ممالک اور بین الاقوامی برادری لازمی حمائت کرے گی‘‘(افغانستان میں امن کا عمل اور 2015 کا روڈمیپ McClatchy News Online 13 دسمبر2012)۔

اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ طالبان کی قیادت کوئی ایک گروہ نہیں کررہالہذاکوئی ایک گروہ پوری تحریک کا نمائندہ ہونے کا دعوی بھی نہیں کرسکتا اور یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ سب نہیں تو تحریک کے اکثر گروہ استعماری مغربی ریاستوں سے ہر قسم کے مذاکرات کو رد کرچکے ہیں،تاہم یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ وقت،سرمایہ اور لاکھوں لوگوں کا خون دینے یعنی اتنا کچھ قربا ن کردینے کے بعد بھی بعض طالبان اس قسم کے امن مذاکرات کے متعلق سوچنا بھی گوارا کریں گے۔ ہرلحاظ سے اس امن منصوبے کا واحد مقصد خطے میں امریکہ کی لڑکھڑاتی بالادستی اور افغان حکومت میں اس کی کٹھ پتلیوں کی حفاظت کرنا ہے ۔

لہذااس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منصوبہ ان لاتعداد افغان شہریوں کے خون کی توہین ہے جنہوں نے اپنے دین اسلام کی محبت میں اپنی زندگیاں قربان کیں۔یہ ان ہزاروں شہداء اور مجاہدین کی بھی توہین ہے جنہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے وہ آج چہرہ چھپا کر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔اس لیے ان مذاکرات میں شرکت ، بات چیت کرنااوراس منصوبے پر دستخط کرنا جس میں افغان دستور کے احترام کو لازمی قرار دیا گیا ہو اللہ سبحانہ وتعالی،اس کے رسول ﷺ اور امت کے ساتھ خیانت ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے

(فَلَا تَہِنُوا وَتَدْعُوا إِلَی السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّہُ مَعَکُمْ وَلَن یَتِرَکُمْ أَعْمَالَکُم)

''تم ہمت مت ہارواور صلح کی طرف مت بلاو ٗ تم ہی غالب رہو گے اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو ہر گز برباد نہیں کرے گا‘‘(محمد :35)۔


اس قسم کے مذاکرات میں نہ صرف شرکت کرنا حرام ہے بلکہ یہ سیاسی نافہمی کی بھی انتہا ہے کیونکہ ان مذاکرات کے نتیجے میں صرف دشمن طاقتور ہوتا ہے اور کفار کو افغانستان پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں

( وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلا)

''اور اللہ کافروں کو ہرگز مسلمانوں پر غلبہ نہیں دے گا‘‘(النساء :141)۔

ہم حزب التحریر کامرکزی میڈیا آفس دین کے نصیحت ہونے کی بنیاد پر طالبان بھائیوں اور ان کے ساتھ جدوجہد کرنے والی دوسری جماعتوں کے سامنے یہ وضاحت کرتے ہیں:

افغانستان کا موجودہ دستور اور حالیہ افغان حکومت اور اس کا سیاسی ڈھانچہ غیر شرعی ہیں ۔ان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔اس دستور کو استعماری طاقتوں نے اسلام کو نیچا دکھانے ، لوگوں کا استحصال کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے۔

1۔ واحد سیاسی ہدف صرف خلافت راشدہ کا قیام ہونا چا ہیے جس کے تحت خلیفہ کو اس بات پر بیعت دی جائے گی کہ وہ قرآن،سنت ،اجماع الصحابہ اور قیاس کی بنیاد پر حکومت کرے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کا سیاسی حل جو اس مقصد سے عاری ہو وہ غیر شرعی ہے۔
2۔ زندگی کے تمام شعبوں میں یعنی معیشت، سیاست،معاشرت اور خارجہ امور میں،صرف اسلام کا مکمل نفاذ ہونا چاہیے۔ اسلام کا جزوی نفاذ کسی بھی شکل و صورت میں مسترد کردینا چاہیے۔
3۔افغان حکومت کے کسی بھی عہدہ دار سے کسی بھی سمجھوتے کے لیے کسی قسم کے مذاکرات حق کو باطل کے ساتھ خلط ملت کر تا ہے،کیونکہ یہ افغانستان میں امریکہ کی ایجنٹ حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہے تویہ حق سے پیچھے ہٹنے اور باطل کی جانب پیروی کا پہلا قدم ہے،خواہ یہ پیرس میں''تحقیقی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے پردے میں ہی کیوں نہ ہو جس میں افغان حکام اور طالبان کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔اس قسم کی کانفرنسیں ہی خطرناک سیاسی گڑھے میں گرنے کی جانب پہلا قدم ہو تی ہیں۔۔۔
مذکورہ تجاویز کی پیروی کر کے طالبان بیک وقت دو پیغام دے سکتے ہیں:

پہلا:دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ طالبان حق پر ثابت قدم ہیں،وہ حق کے مقابلے میں کسی چیز پر راضی نہیں ہو ں گے۔دنیا یہ بھی جان لے گی کہ استعماری کفار کے منصوبوں سے طالبان کو دھوکہ دینا ممکن نہیں۔
دوسرا:امت مسلمہ کو یہ پیغام جائے گا کہ طالبان خلافت کے لیے کام کررہے ہیں تا کہ اسلام اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کیا جائے۔

(ہَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنذَرُواْ بِہِ وَلِیَعْلَمُواْ أَنَّمَا ہُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَلِیَذَّکَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَاب)
''یہ لوگوں کے لیے واضح پیغام ہے اس سے ان کو ڈرنا چاہیے اور ان کو جاننا چاہیے کہ وہی اکیلا معبود ہے اور عقل والوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہیے‘‘۔(ابراھیم:52)

عثمان بخاش
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر

 

Read more...

خلافت کے داعی کا بیان سنگین مقدمات کے ذریعے شرمناک سیاسی انتقام حکمرانوں کے نظریاتی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہے

السلام علیکم!

میرا نام محمد ارشد جمال ہے اور میں تین بچوں کا باپ ہوں۔ میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، پیشہ کے اعتبار سے آئی ٹی کنسلٹنٹ ہوں اور گزشتہ دس برس سے معاشرے کی تعمیر میں اپنی صلاحیتوں کے ذریعے سے حصہ ڈال رہا ہوں۔

رواں سال 11 اگست 2012 کو مجھے ٹائون شپ تھانے کی حدود سے وہاں پر تعینات SHO نے اس وقت گرفتار کیا جب میں اپنی موٹر سائیکل چھڑوانے تھانے گیا تھا۔ تقریباَ 24 گھنٹے مجھے اسی تھانے کی ایک کوٹھڑی میں غیر قانونی حبسِ بےجا میں رکھا تا کہ ا مریکی جھولی میں بیٹھی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ماتحت ایجنسیاں اپنے ظرف کے مطابق مجھ پر طبع آزمائی کر سکیں۔ اس دوران جو دوست احباب مجھے ڈھونڈتے اس تھانے پہنچے ان سے میری موجودگی کے بارے میں جھوٹ بولا جاتا رہا اور انھوں نے اس گرفتاری کے واقعے سے لا تعلقی ظاہر کی۔

12 اگست 2012 کی شام میرے خلاف ایک عدد FIR درج کی گئی اور میرے چہرے پر نقاب ڈالے مجھے میڈیا کے سامنے اس انداز میں پیش کیا جیسے کسی کمانڈر کے قبضہ سے کوئی ٹینک برآمد ہوا ہو۔ اس FIR میں بغاوت اور دیگر دفعات کے علاوہ پاکستان آرمی ایکٹ کی وہ ناقابلِ ضمانت سنگین دفعہ (PAA Section ii (D) بھی شامل کی گئی کہ اگر کسی صورت حکام اپنا کوّا سفید ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو میرے خلاف کورٹ مارشل تک کی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی تھی جس کا ایک انجام یہ بھی ہو سکتا تھا کہ مجھے سزائے موت سنا دی جاتی۔ ابھی اس مقدّمہ کی کاروائی جاری تھی کہ مجھے ایک اور FIR کا مژدہ سنا دیا گیا جو اسی ہفتہ میں ڈیفنس کے ایک تھانے میں میرے خلاف درج کی گئی تھی جس میں شامل دفعات پہلے سے بھی زیادہ غضب ناک تھیں۔

یہ دو مقدّمات بھگتنے میں مجھے اڈھائی ماہ سے زائد کا عرصہ لگا اور بالآخر میں ان مقدّمات سے باعزت بری ہو گیا۔ میں اس انتقامی کاروائی کا محض ایک نشانہ ہوں۔ میرے خلاف یہ کاروائی اس رٹ کے جواب میں مجھے سبق سکھانے کے لئے عمل میں لائی گئی جو میں نے لاہور ہائی کورٹ میں ان حکام کے خلاف اس وقت دائر کی جب ان حکام کی طرف سے اغواء و تشدد اور قتل کی دھمکیوں کا وہ گھنائونا سلسلہ شروع ہوا جس میں عمران یوسفزئی جیسے باصلاحیّت نوجوانوں اور ڈاکٹر عبدالقیوم جیسے قابلِ احترام بزرگوں تک کو جبر و استبداد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان جیسے کئی معزز شہریوں کی ایک فہرست موجود ہے جو ان حکام کے عتاب کا نشانہ بنے۔

ان کاروائیوں کی شرمناکی کی انتہا یہ ہے کہ ان حکام نے لوگوں کے گھروں کی چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے بحث و مباحثہ کی ان نشستوں پر دھاوا بولنا شروع کر دیا جن میں ملکی و غیرملکی اہم سیاسی اور فکری موضوعات پر گفتگو کی جاتی اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کیا جاتا۔ ان نشستوں کے شرکاء میں تاجر، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجنئیرز، آئی ٹی ایکسپرٹ، پراپرٹی ڈیلرز، منیجرز، اکائونٹنٹ، طلباء اور معاشرے کے مختلف دھاروں سے تعلق رکھنے والے حضرات شامل ہوتے۔ ان حضرات کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے ایک تحقیر آمیز میں پیش کر کے انکی عزتِ نفس کو مجروح کیا گیا۔ کسی کی ملازمت گئی تو کسی کو کاروباری نقصان ہوا اور کسی کی تعلیم کا حرج ہوا۔

معاشرے کے ان ذمہ دار افراد کو محض اس لئے ریاستی ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ معاشرے میں ایک حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور جان چکے ہیں کہ یہ تبدیلی خلافتِ راشدہ کے بغیر ممکن نہیں اور اس خلافتِ راشدہ کے دوبارہ قیام کے لئے حزب التحریر جیسی اس نظریاتی جماعت سے وابستہ ہوئے کہ دنیا بھر کے حکمران ریاستی طاقت کے زورکے باوجود جس کے فکری و سیاسی چیلنج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک ایسی پر امن جماعت جس پر محض امریکی خوشنودی کی خاطر جنرل مشرف نے 2003 میں پابندی لگا دی کیوں کہ حزب التحریر اس امریکی وفادار کی بزدلی اور خیانتوں کو بے نقاب کر رہی تھی۔ اس پابندی کی آڑ میں اس جماعت اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف حکمرانوں کا قبیح پروپیگنڈا مسلسل جاری ہے۔ پہلے حربے کے طور پر اس پر مذہبی منافرت، فرقہ وارئیت اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے بے سروپا الزامات لگائے گئے اور آخری حربے کے طور پر فوج جیسے ملکی سالمیت کے اہم ترین ادارے میں انتشار اور اسے کمزور کرنے کے مکروہ ترین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حزب التحریر وحدت پر مبنی ایک ایسی ریاست خلافت کے قیام کی طرف دیکھ رہی ہے جو مسلم ممالک کے درمیان ان مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ کرے گی اور جس میں رنگ، نسل، مذہب اور علاقائی وابستگی سے قطع نظر تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہونگے۔ پھر یہ ریاست ان آفاقی نظریات کو دنیاپر پیش کرے گی۔

حزب التحریر ایک ایسی ریاست کی سوچ دیتی ہے جس کی حکمرانی مضبوط ترین لیکن قابل ِگرفت ہوگی۔ جسکی معیشت غربت میں کمی نہیں بلکہ اس کا خاتمہ کرے گی۔ جس کا معاشرہ عزت و غیرت کا پیکر ہو گا۔ جس کی عدلیہ فوری انصاف فراہم کرے گی۔ جسکا تعلیمی ڈھانچہ دنیا کے قابل ترین افراد پیدا کرے گا اور جس کی خارجہ سیاست ایک New World Order کی بنا ڈالے گی اور جس کی فوج کشمیر، افغانستان، فلسطین اور تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے شکنجے سے نجات دلائے گی۔ یہ تمام اقدامات امریکہ کی موجودہ سیاسی و اقتصادی چودھراہٹ کیلئے ناقابلِ برداشت دھچکا ہوں گے۔ یہ واضح خطرات ہی مغرب کے لئے وہ حقیقی چیلنج ہونگے جس سے پیشگی نمٹنے کے لئے حزب التحریر پر آج ہر اس ملک میں پابندی ہے جہاں سے حزب التحریر کے زیرِقیادت خلافتِ راشدہ کا دوبارہ احیاء ہو سکتا ہے۔ مغرب بالخصوص امریکہ آج سپین سے انڈونیشیا اور بنگلہ دیش سے مراکش تک ان خطرات کو بڑی شدّو مد کے ساتھ محسوس کر رہا ہے۔

پاکستان اسلام کی خاطرحاصل کیا گیاتھا امریکی مفادات کی خاطر نہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الاللہ وہ نعرہ تھا جس کیلئے ہمارے اسلاف نے اپنی عزت، جان اور مال سمیت سب کچھ دائو پہ لگا دیا۔ اسکی جڑوں کو ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے سیراب کیا تھا۔ تو پھر ایک ایسے ملک میں اسلام کے نفاذ کی بات کرنا جرم کیوں؟

ہمیں اس لئے اغواء و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم حکام کو روزِ حشر کا وہ بھاری دن یاد کراتے ہیں جس دن بڑے سے بڑا غدار اپنے جھنڈے کی اونچائی سے پہچانا جائے گا۔ ہمیں اس لئے مقدمات کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ان حکام کا کڑا محاسبہ کرتے ہیں۔ ہمیں اس لئے تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم اسلام سے محبت کرتے ہیں اور اسلام سے نفرت کرے والے سے نفرت کرتے ہیں۔

میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا ایک ایسے ملک میں اسلام کے ان آفاقی تصورات، اسلام کے سیاسی نظام اور خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے ذِکر پر پابندی ہونی چاہئے؟ کیا پاکستان میں مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ اورپسِ پردہ سازشوں کے پردوں کو چاک کرنے پر پابندی ہونی چاہئے؟ یاان کی سازشوں میں شریک سیاسی و عسکری قیادت میں موجود غداروں کی خیانتوں کو بے باکی سے بے نقاب کرنے پر پابندی ہونی چاہیے؟

حزب التحریر یہ تمام کام پر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے کرتی ہے۔ کیا حزب التحریر پر پابندی ہونی چاہیے؟

اتمامِ حجت کے لئے میں مطالبہ کرتا ہوں۔

1. آج کے اس آزاد میڈیا سے کہ وہ حزب التحریر پر پابندی کے اس بودے پن کو بے نقاب کرے اور اسے بھی اپنے نظریات کو پیش کرنے کا پورا پورا حق دے۔

2. انسانی حقوق کی تنظیموں سے کہ وہ حزب التحریر پر پابندی کے خلاف بھی اپنے روائتی انداز میں مہم چلائیں کہ جس کی وجہ سے اس سے وابستہ افراد اپنے بنیادی شہری حقوق تک سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔

3. عدلیہ سے کہ وہ نہ صرف ان جھوٹے مقدمات کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے بلکہ اس نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے جو حزب التحریر پراس غیر منصفانہ پابندی کا سبب ہے۔

4. میں قانون نافذ کرنے والے اور حساس اداروں کے اہلکاروں کو یہ یاد کراتا ہوں کہ اب جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عسکری وسیاسی قیادت میں موجود غدار امریکہ کی جھولی میں بیٹھی آپکو احکامات دے رہی ہے، روز حشر آپ کے کسی افسرِ بالا کا آرڈر اور نہ ہی ایسی کوئی وضاحت کوئی معنی رکھے گی کیونکہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے۔

فإن أُمِرَ بمعصية فلا سمع ولا طاعة

اگر معصیت کا کام کرنے کا حکم دیا جائے تو وہ نہ تو سنے اور نہ ہی اطاعت کرے (اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا)

اس وقت جب میں یہ تحریر رقم کر رہا ہوں۔ میرے اوپر بیٹھے بیٹھے کم از کم ایک اور مقدمہ کا انکشاف ہو چکا ہے۔ جو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا۔ اور اس تحریر کے شائع ہو جانے کے بعد اس حق گوئی کی پاداش مزید میں کتنے مقدمات میرے خلاف کھڑے کر دیئے جائیں گے معلوم نہیں۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

ترجمان کے اغوا کا مسئلہ خاندان کا نوید بٹ کی فوری بازیابی کا مطالبہ

السلام علیکم!

آج نوید بٹ کو اغواء ہوئے 7 مہینے سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران رمضان کا با برکت مہینہ گزرا، مسلمانوں کی دو عیدیں گزریں مگر ان ظالم حکمرانوں کو نہ رمضان کے تقدس کا خیال آیا اور نہ ہی عیدوں کا لحاظ کہ یہ رمضان اور یہ عیدیں نوید بٹ کے اہلِ خانہ اور ان کے بچوں کے لئے کیسی تھیں۔ نوید بٹ جو کہ ایک انجینئر ہیں انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نظا مِ خلافت کے نفاذ کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ جو لوگ بھی نوید بٹ کو جانتے ہیں اور ان سے مل چکے ہیں، چاہے ان کا تعلق میڈیا سے ہو یا سیاست سے، اچھی طرح اس بات کو جانتے ہیں کہ نوید بٹ کی جدوجہد صرف سیاسی اور فکری نوعیت تک محدود تھی اور وہ خلافت کے نفاذ کے لئے کام کرنے والی سیاسی جماعت کا عسکری جدوجہد کرنے کو نبی ﷺ کے طریقے سے متصادم سمجھتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نوید بٹ بہادری سے عصرِحاضر میں کلمہِ حق کو بلند کرنے میں کسی خوف کے بغیر مسلسل مصروف رہے اور اس دوران انہوں نے قلم اور تقریر کے سہارے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ اسلام کے اس داعی کو آج سے سات مہینے پہلے، اس کے بچوں کے سامنے اغواء کیا گیا اور تاحال ان کی خیریت کی کوئی خبر نہیں۔ مزید برآں، اب ان ہرکاروں نے ان کے خاندان کے لوگوں کو خاموش رکھنے کے لئے ان پر دبائو ڈالنا اور ان کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے، یہاں تک کہ ان کے ایک بھانجے کو اغواء کرنے کی کوشش کی گئی اور ان پر گولیاں تک چلا دی گئیں، اور ایک بھانجے کے گھرپر ان کی والدہ اور بچوں کے سامنے چھاپہ مارا گیا۔

ہم، نوید بٹ کے قریبی اہلِ خانہ اور رشتہ دار اس افسوسناک صورتحال پر شدید غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور اہلِ خرد اور احساس رکھنے والوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام کے نظام کے لئے بلانا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو مہینوں تک غائب کر دیا جائے؟ ہم انسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا حکمرانوں کا احتساب کرنا اور ان کے غلط فیصلوں پر ان سے سوال کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس ملک کے قانون سے بالاتر ہو کر ایک شخص کو اپنا وکیل کرنے جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے؟؟ اور ہم ان حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا انہوں اللہ کا خوف نہیں؟ کیا وہ یہ ایمان نہیں رکھتے کہ اس مختصر زندگی کے بعد ایک دن انہیں اللہ کے حضور اپنے ان اعمال کا جواب دینا ہوگا؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ نوید بٹ کو غائب کر کے وہ اللہ کے دین کے نفاذ کو روک لیں گے؟

ہم اعلان کرتے ہیں کہ نوید بٹ کی قربانی اور ان کے خلاف جو ناانصافی کی گئی ہے، اِس نے اُن سب کو جو نوید کو جانتے ہیں اور اُن سے محبت کرتے ہیں، خلافت کی جدوجہد کے لئے اور زیادہ متحرک کر دیا ہے اور ہم پہلے سے زیادہ مضبوطی سے ان تمام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو خلافت کے قیام کے لئے دنیا بھر میں کام کر رہے ہیں۔ ہم شدید ترین مطالبہ کرتے ہیں کہ نوید بٹ کو فوری بازیاب کروایا جائے اور ان کو اغواء کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ ہم پاکستان کے مسلمانوں کو پکارتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ مسلم امت دوبارہ اسلامی ریاست، خلافت کے ذریعے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر لے اور انشاء اللہ اس دن مسلمان خوشیاں منائیں گے۔

(بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ Oوَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ)

"اور اُس روز مومن خوش ہو جائیں گے، اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے"

(الروم:4-5)

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک