الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مغرب کا تہذیبی دیوالیہ پن اور مغرب سے مرعوب لوگوں کا المیہ

 

کچھ عرصہ قبل امریکہ کی سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے سرکاری طور پر اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو شائع کردیا جو کہ نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے دوران بنائے گئے طریقہ کار اور اس کے مطابق امریکی سی۔آئی۔اے کا قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے متعلق ہے۔   مکمل رپورٹ تو 6000صفحوں پر مشتمل ہے مگر اس کے صرف 400 صفحات کو شائع کرنے کی اجازت دی گئی ۔   لیکن یہ 400 صفحات بھی مغرب اور اس کی حکومتوں کی درندگی  کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں کومسلسل چھ دن تک جگائے رکھا گیا اور انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ نیند کے بغیر مسلسل گھڑے رہیں۔اس ذہنی تشدد کے نتیجے میں یہ قیدی نیم پاگل ہو گئے۔    ان میں سے دو قیدیوں کے  پاؤں کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی مگر انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک قیدی کو یہ گھٹیا دھمکی دی گئی کہ اگر وہ تعاون نہیں کرے گا تو اس کی والدہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔"مہذب" امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی نے واٹر بورڈنگ تکنیک (technique  Water boarding) بھی استعمال کی جو کہ تشدد کا بدترین اسلوب ہے۔  اس تکنیک میں ایک شخص کے ناک اور منہ کو کپڑے سے ڈھانک دیا جاتا ہے اور اس پر بار بار پانی ڈالا جاتا ہے جس سے وہ شخص ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ گویا وہ ڈوب رہا ہے۔  رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد کو 183مرتبہ اس عمل سے گزارا گیا۔

 

یہ ظالمانہ سلوک کوئی نیا نہیں ہے۔  اس سے پہلے عراق کی ابو غریب جیل میں روا رکھنے جانے والے غیر انسانی سلوک کی تصویریں عالمی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔  اور ماضی میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال اپنی کالونیوں میں لوگوں کو جن ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے اور لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کرتے رہے وہ مغرب کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس کے باوجود پاکستان کے حکمران اور ایک مخصوص طبقہ مغرب کے متعلق یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ وہ اخلاق اور تہذیب میں مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔  چنانچہ ہمیں معاشرے میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو مغرب کی اعلیٰ اقدار کے گن گاتے نظر آتے ہیں اورانہیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان معاشرہ اجڈ ، جاہل، گنوار اور تہذیب سے عاری ہے، جبکہ مغربی معاشرے مہذب اور بااخلاق ہیں۔  چنانچہ یہ لوگ مغرب کی نقالی کرنے میں کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ایسا کرنا ،مہذب اورپڑھا لکھا ہونے اورروشن فکری کی علامت ہے۔

 

ان لوگوں کے مغرب سے متاثر ہونے کی ایک وجہ ان کی مادی ترقی ہے۔  بلند و بالا عمارتیں، سائنسی ایجادات، مستحکم حکومتوں کی موجودگی، دولت کی فراوانی، مسلم معاشروں کے مقابلے میں مغربی معاشروں میں عوام کے لیے اچھی سہولیات کی فراہمی اور ایک منظم نظام کی موجودگی، انہیں اس سوچ کی طرف لے جاتی ہے کہ مغرب کے لوگ اقدار کے لحاظ سے بھی تیسری دنیا خاص طور پر مسلمانوں سے بہتر ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب ایجادات اور مادی ترقی کے لحاظ سے مسلم ممالک سے کہیں آگے ہے۔  اور یہ ممالک اس قابل ہیں کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں اور کسی دوسری قوم کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خود سے اس کے متعلق غور و فکر کریں۔ تاہم اس کی وجہ یہ نہیں کہ مغرب کے لوگ انسانی صلاحیتوں کے لحاظ سے باقی دنیا  کے انسانوں سے بہتر ہیں یا ان کی تہذیب اور اقدار ہم سے بہتر ہے۔ایسے ممالک کہ جن کے پاس ایک ایسا نظریہ موجود ہو کہ جس میں سے انسانی مسائل کے کے حل نکلتے ہوں ان میں ہمیں یہ صفت نظر آئے گی۔   ماضی میں سوویت رشیا کی بھی یہی صورتِ حال تھی کہ جہاں سوشلزم کے نظریے کے نفاذ نے مادی ترقی اورخوشحالی کو جنم دیا۔مگر ایک نظریئے کی بنیاد پر انسانی مسائل کو حل کرنے اور ان حل کے درست ہونے اور انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے میں فرق ہے۔  حقیقت یہ ہے مغربی تہذیب جس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر استوار ہے،اس میں سے نکلنے والے  زندگی کے مسائل کے حل کا نفاذ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے ۔یہ کیونکر ہےیہ بحث آج کے موضوع سے الگ ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ جو چیز موضوع گفتگو ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی بذاتِ خودمغرب کے اخلاقی و تہذیبی دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ ہے۔

 

اس سے پہلے کہ ہم مغربی تہذیب کی گراوٹ اور مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے ساتھ اس کے فکری تعلق کو بیان کریں ۔  پہلے اس کنفیوژن کو واضح کر دیا جائے جو کہ مغرب کے بعض لوگوں کے حسنِ سلوک اور خیرات اور رفاحی کاموں کی وجہ سے بعض لوگوں کو ہو جاتی ہے۔   یہ لوگ بل گیٹس جیسی  مثالیں پیش کرتے ہیں،کہ   فوربز میگزین کے مطابق 2013میں بل گیٹس اور اس کی بیوی نے 2.65ارب ڈالر بیماریوں سے بچاؤ اور تعلیم کی بہتری کے لیے خیرات کے طور پر دیے ۔  میگزین کے مطابق بل گیٹس اور اس کی بیوی اپنی پوری زندگی میں 30.2 ارب ڈالرکی خطیر رقم  خیرات کے طور پر خرچ کر چکے ہیں جو ان کی دولت کا 37فیصد بنتا ہے۔  اسی طرح فیس بک کے کو فاونڈراور سی ای او مارک زکر برگ نے 2013میں خیرات کے طور پر 991ٍملین ڈالر خرچ کیے۔  ایسی مثالوں کو پیش کر کے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ  اگر مغرب کے لوگ مادہ پرست اور تہذیبی لحاظ سے اس قدر ہی برے ہیں تو پھر ہمیں یہ مثالیں کیوں نظر آتی ہیں۔

اس بحث میں جائے بغیر کے مندرجہ بالا انفرادی مثالوں میں انسانیت کی بہتری اور غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے اخلاص کا جذبہ کس حد تک کارفرما ہے اور کس حد تک یہ دولت واقعی غریب لوگوں کے ہاتھوں میں ہی پہنچتی ہے،یہاں یہ سمجھنا ضروری ہےکہ  اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جس طرح ہر انسان کو دو آنکھیں ، ناک ، کان اور ہاتھوں سے نوازا ہے ، اسی طرح ہر انسان کے اندر کچھ جبلتیں اور عضویاتی حاجات بھی رکھیں ہیں۔ کوئی انسان بھی سانس لیے بغیر، کھانا کھانے بغیریا پانی پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔  یہ اس کی عضویاتی حاجات ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر تین جبلتیں موجود ہیں۔  جبلتِ بقا کہ جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ، جیسا کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت و آسائش کی چیزیں ہوں، اگر وہ میچ کھیل رہا ہے تو وہی جیتے، بحث کے دوران اس کی دلیل حاوی ہو، یہ سب جبلتِ بقا کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر جبلتِ نوع بھی موجود ہے جو کہ اسے اس چیز کی طرف ابھارتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتے ناطے بنائے، اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرے، اپنے لیے کنبہ بنائے ،اپنے والدین، بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر اس انسان کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ان جبلتوں اور جذبات کے لحاظ سے تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ یہ مغرب کا انسان ہو یا مغرب کا۔  کسی انسان کا زندہ جل جانا، ڈوب کر مر جانا، غربت و افلاس کے ہاتھوں خود کشی کر لینامشرق کے انسان کو بھی افسردہ کرتا ہے اور مغرب کے انسان کوبھی۔ اور جس طرح ایک انسان کو مادی قدر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسے انسانی اور اخلاقی قدر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔   اور وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔  چنانچہ جس طرح وہ دولت کو حاصل کرکے اطمینان اور خوشی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ کسی ڈوبتے ہوئے کی جان بچانے میں اور کسی غریب کی مدد کرنے میں بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔

 

لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی جبلتیں اور ان کی بنا پر جنم لینے والے جذبات  کی تدوین ان افکار کی پر ہو تی ہیں، جو کہ کوئی بھی انسان زندگی کے متعلق رکھتا ہے۔  پس ایک مسلمان کے لیے کسی نبی کی توہین ایک انتہائی قبیح اور ہیجان انگیر حرکت ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایسی حرکت کرنے والے شخص کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔   کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ انبیاء کے متعلق کچھ افکار فراہم کرتا ہے۔ یہ افکار ایک مسلمان میں پائی جانے والی جبلتِ تدین (worship instinct)کو ایک خاص شکل دیتے ہیں ۔  پس ایک مسلمان کے جذبات ان افکار کے مطابق ہوتے ہیں جو وہ جبلتِ تدین کو پورا کرنے کے متعلق رکھتا ہے۔  جبلتِ تدین ، جبلتِ نوع اور جبلتِ بقا کے علاوہ وہ تیسری جبلت ہے جو کہ ہرانسان میں پائی جاتی ہے۔اور یہ بھی افکار کے ذریعے ہی ریگولیٹ ہوتی  ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں انبیاء کی توہین اتنا سنگین مسئلہ تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ مغرب کے نزدیک  آزادی اظہارایک درست تصور ہے اور کوئی شخص کسی نبی کے متعلق کوئی بھی تصور رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے۔  یہ تصور مغرب کے ایک سیکولر شخص کی جبلتِ تدین کو متاثر کرتا ہے اور اس کے اعمال اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔

چنانچہ جیسا کہ بیان کیا گیاکہ مغرب کے انسان میں بھی جبلتِ نوع موجود ہے جو اسے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنے اور ان کے لیے ایثار کرنے اور ان سے حسنِ سلوک کرنے کی طرف ابھارتی ہے۔  مگر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے سے نکلنے والے افکار کو اپنانے کی وجہ سے مغربی معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے لیے اپنی زندگی کے لیے آسائشوں کا حصول،اپنے لیے مال و دولت کو جمع کرنا اور انفرادیت پسندی ہر چیز پر حاوی ہے۔کیونکہ سرمایہ دارنہ آئیڈیالوجی ایک مادہ پرستانہ آئیڈیالوجی ہے کہ جو یہ فکر دیتی ہے کہ  مادی قدرو قیمت کا حصول ہی کسی بھی انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے ۔  اور مال و دولت و آسائشوں کا حصول ہی خوشی و سعادت کا بنیادی ذریعہ ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا صف اول کا مفکر ایڈم سمتھ اپنی دو کتابوں Theory of Moral SentimentsاورThe Wealth of Nationsمیں بیان کرتا ہے کہ اللہ نے اس دنیا کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ انسان اس دنیا کی آسائشوں سے اپنی لیے زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کر سکے۔  اور ہر شخص کی فطرت ہے کہ وہ اپنی بہتری کے لیے ہی کام کرتا ہے۔  جب ہر شخص کو اپنی بہتری کے لیے آزاد ماحول فراہم کر دیا جائے اور حکومت کی مداخلت کم سے کم ہو تو معاشرے کے مفادات کا تحفظ خود بخود ہو جائے گا۔   اخلاق کو قوانین کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ لوگوں کو اس معاملے میں آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔    اور کوئی بھی مذہب جو عقائد و رسومات(مذہبی قانونی ضابطوں) کو اخلاق پر ترجیح دیتا ہے وہ قابلِ مذمت ہے اور ایک مہذب اور پر سکون معاشرے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔  چنانچہ یہ آئیڈیالوجی زندگی کے لیے جو پیمانہ مقرر کرتی ہے وہ نفع و نقصان کا پیمانہ ہے  کہ ایک انسان کسی بھی عمل کوکرتے وقت جس چیز کو مدِ نظر رکھے وہ یہ ہے کہ آیا یہ عمل اس کی ذات کے لیے کس حد تک فائدے کا باعث ہے،  خواہ یہ کاروبار ہو ، ذاتی تعلقات ہوں حتیٰ کہ اخلاق بھی۔  چنانچہ اگر کسی جگہ پر اخلاق دکھانا نفع بخش ہے تو وہاں خوش اخلاقی اور ایمانداری دکھائی جائے گی اور جہاں پر اخلاق دکھانا مادی نقصان کا باعث ہو وہاں اخلاق ، رشتوں ناطوں کی پرواہ نہیں کہ جائے گی۔  یہی وجہ ہے کہ مغرب کے معاشرے میں اخلاقیات کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہتی اور جب تک سرمایہ داریت کی آئیڈیالوجی مغرب میں نافذ ہے مغربی معاشرہ اس صورتِ حال سے چھٹکارہ حا صل نہیں کر سکتا۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا بنیادی عقیدہ سیکولرازم ہے ۔  جو دین کو ایک شخص کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیتا ہے۔  اور یہ قرار دیتا ہے کہ انسان خود اپنی عقل سے اپنے لیے نظام بنائے گا۔  جو اس بات کا اظہار ہے کہ انسان کی عقل اس بات کا تعین کر سکتی ہے کہ معاشرے میں کیاچیز جائز یا قانونی ہونی چاہئے اور کیا چیز ناجائزاور غیر قانونی۔  گویا انسانی عقل ہی اس چیز کو طے کرے گی کہ کیا چیز معاشرے کے لیے اچھی ہے اور کیا چیز بری ۔پس مغرب کے نزدیک انسانی عقل اس چیز کا تعین بھی کر سکتی ہے کہ اچھا اخلاقی طرزِ عمل کیا ہے اور برے اخلاق کیا ہیں۔  معاشرے کے لیے اچھی یا برے اقدارکا تعین کرنے کے لیے مذہب سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن انسانی عقل سے جنم لینے والی اس آئیڈیالوجی نے مغرب میں کس طرح تہذیبی  گراوٹ کو جنم دیا ہے، آئیے اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

 

مغرب کی گراوٹ ان کے معاشرتی نظام میں سب سے نمایاں ہے۔     بچوں کے ساتھ برے  سلوک کی بات پاکستان کے معاشرے کے متعلق بہت کی جاتی ہے لیکن جب ہم مغرب کے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس ضمن میں مغرب کا معاشرہ نہایت بھیانک صورت حال پیش کرتا نظر آتاہے۔   11جنوری 2014ء کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پولیس نے25سالہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے طیش میں آ کر اپنی بچی کو پل سے نیچے پھینک کر ہلاک کردیا۔ 30 دسمبر2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ فلوریڈا میں ہی پولیس نے ایک جوڑے کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے جس نے اپنی نوزائدہ بیٹی کو کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا اور وہ بھوک و فاقے سے مر گئی جب کہ اس کی عمر صرف 22 دن تھی۔   21دسمبر2014 کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ آسٹریلیا میں ایک عورت نے اپنے سات بچوں اور ایک بھتیجی کو مار ڈالا ، ان بچوں کی عمریں 2سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ 5نومبر2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ نیویارک پولیس نے ایک کروڑ پتی عورت کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس کے خلاف الزام ہے کہ اس نے فروری 2010میں اپنے 8 سالہ بیمار بیٹے کو دوائی کی بہت زیادہ مقدار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔   30 اکتوبر 2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا امریکی ریاست پنسلوانیا میں ایک شادی شدہ جوڑے کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس نے اپنے 9سالہ بیمار بچے کو کھانے کو کچھ نہیں دیا اور وہ اس وجہ سے ہلاک ہو گیا ۔  اس نو سالہ بچے کا وزن کم ہو کر صرف 17 پاؤنڈ رہ گیا تھا ۔   پولیس کو یہ بچہ اس حال میں ملا کہ اس کی لاش ایک چادر میں لپٹی ہوئی باتھ روم میں پڑی تھی ۔    19اکتوبر 2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ نیویارک سٹی میں ایک 20سالہ شخص نے اپنی 3 سالہ بیٹی کو صرف اس وجہ سے گلا گھونٹ کراور چھری کے وار کر کے مارڈالا کہ اس نے اپنی پینٹ میں ہی پاخانہ کر دیا تھا۔   قائرین یہ وہ اندوہ ناک واقعات ہیں جو محض پچھلے چار ماہ کے دوران خبروں میں آئے، اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ہے مغرب کے معاشرے کی تصویر کی ایک جھلک جہاں سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے اس حد تک انفرادیت اور ذاتی خوشی کے حصول کو معاشرے پر حاوی کر دیا ہے کہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال والدین کو ایک بوجھ محسوس ہو تا ہے ۔ اور وہ اسے اپنی زندگی کے خوشیوں میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔  اور جہاں تک  پاکستان کے معاشرے میں بچوں کے ساتھ برے سلوک کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات مغرب کے معاشرے سے یکسر مختلف ہیں ۔  پاکستان میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے اکا دکا واقعات کی اہم وجہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق افکاراور شعور کی کمی اور بچوں کے ساتھ سخت گیر رویے کے درست ہونے کا تصور ہے۔ مشکل مالی حالات ، زندگی کے بے شمار مسائل سے دوچار ہونے اور نظام کی طرف سے کسی بھی قسم کی سپورٹ اور رہنمائی کے فقدان کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر توجہ دی جاتی ہے اور یہ سب اس وجہ سے ہے مسلم معاشرے اسلام کی دولت سے مالامال ہیں ۔  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

((لیس من امت من لم یجل کبیرنا ویرحم صغیرنا))

''وہ شخص میری امت میں سےنہیں جوہمارےبڑوں کی عزت کونہ جانےاورہمارےچھوٹوں پررحم نہ کرے"۔

 

جہاں تک نظامِ حکومت اور سیاست دانوں کے طرزِ عمل کا تعلق ہے  توعام طور پر  پاکستان کے عوامی نمائندوں پر اٹھنے والے ریاستی خرچ کی خبریں وقتاً فوقتاً میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ کس طرح عوام کے خون کو نچوڑ کر جمع کیے جانے والے ظالمانہ ٹیکس کو بے دردی سےپاکستان کے امیر سیاست دانوں پر دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔اور بعض لوگوں میں یہ تائثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کے عوامی نمائندوں کی  صورتِ حال ایسی نہیں  ۔  لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔  امریکی کانگریس بھی اسی طرح امیروں لوگوں کا ٹولہ ہے جیسا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینٹ کی صورتِ حال ہے۔   امریکہ کے آدھے سے زیادہ عوامی نمائندوں کی دولت ایک ملین ڈالر سے زیادہ ہے اورامریکی  کانگریس کے دوسوممبران ایسے ہیں جو multi millionaireہیں۔جبکہ پچھلے دو الیکشن کے دوران صرف 13 ایسے لوگ امریکی کانگریس کا حصہ بنے جن کا پس منظر ورکر کلاس سے تھا۔   ایک امریکی کانگریس مین کی سالانہ تنخواہ 174000ہے۔  Weekly Standard Magazineکی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ کے سو ممبران نے پچھلے پندرہ سالوں کے دوران 5.25ملین ڈالر بالوں کی کٹائی پر خرچ کیے۔  جبکہ ایک سال کے دوران ان کا ذاتی اور دفتری خرچہ 4005900ڈالر تھا۔  یہ صورتِ حال بھی براہِ راست سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے نفاذ کا نتیجہ ہے۔  جہاں یہ آئیڈیالوجی ایک شخص کو زندگی کا یہ مقصد دیتی ہے کہ وہ مال و دولت کو اکٹھا کرنے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جئے ، وہاںوہ  ایسا حکومتی نظام بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کے ذریعے مادہ پرست افراد اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں ۔     اس آئیڈیالوجی سے پھوٹنے والا جمہوری نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ منتخب اراکین اپنے مفادات کے مطابق قوانین میں ردو بدل کر کے اپنی  اور اپنےساتھیوں  کی جیبیں بھر سکیں۔  جہاں جہاں جمہوریت موجود ہے وہا ں وہاں اشرافیہ کے ایک مختصرٹولے نے قوانین کو اس انداز سے ترتیب دیاہے کہ  جس کے ذریعے وہ  ایسے  اثاثوں کے مالک بن گئے  جن سے بے پناہ دولت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ بجلی، تیل، گیس اور معدنیات کے ذخائر، بھاری صنعتیں اور اسلحہ سازی کی صنعتیں ۔

 

جہاں تک مغرب کی کاروباری ایمانداری کا تعلق ہے ، تو امریکہ سے جنم لینے والا 2008کامالیاتی بحران جس نے یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سرمایہ دار کمپنیاں لوگوں کے اعتماد سے کھیلتی ہیں، انہیں اندھیرے میں رکھتی ہیں اور غلط معلومات فراہم کر کے ان سے پیسے بٹورتی ہیں۔  2010میں Goldman Sachsکمپنی نے اس چیز کو قبول کیا کہ وہ 550ملین ڈالرجرمانے کے طور پر ادا کر ے گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر اپنے انویسٹرز کو دھوکہ دیا ہے۔    پچھلے سال رائل بینک آف سکاٹ لینڈ نے 150ملین ڈالر ادا کرنا قبول کیا، اس پر الزام تھا کہ 2007 میں اس نے 2.2ارب ڈالر کے mortagage-backed bondکو فروخت کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر ناجائز ذرائع  استعمال کیے ۔ بینک کے خلاف اس چیز کے متعلق بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ اس نے جان بوجھ کر چلتے ہوئے کاروباروں کو دیوالیے سے دوچار کیا تاکہ ان کے اثاثوں کو کوڑی کے داموں خرید سکے۔   اکتوبر 2013 میں ڈان نے گارڈین کے توسعت سے  یورپ میں گوشت میں ملاوٹ کا سکینڈل رپورٹ کیا۔ایگلو آئرش پروسیسر کمپنی  یورپ کی سب سے بڑی گائے کا گوشت سپلائی کرنے والی کمپنی ہے۔ ہر ہفتے  50ملین یورپین اس کمپنی کا پروسیس کردہ گوشت استعمال کرتے ہیں ۔اس کمپنی کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی۔  یہ کمپنی ہالینڈکے بزنس مین ٍSeltenسے گوشت خرید رہی تھی جو گائے کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ  کا دھندا کر رہا تھا۔   Seltenکمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک ملازم نے گارڈین کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ سپلائی کے دوران پرانا ڈی فراسٹ ہوا بیف بھی مکس کرتے تھے اور بعض اوقات یہ گوشت اتنا پرانا ہوتا تھا کہ اس کی رنگت سبز ہو چکی ہوتی ۔    دسمبر 2014 میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک  رپورٹ شائع کی کہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح امریکی ملٹی نیشل کمپنیوں نے  ٹیکس بچانے کے لیے اپنے قانونی ایڈریس کیمن جزیرہ، لکسمبرگ، برمودہ وغیرہ میں منتقل کر رکھے ہیں جہاں ٹیکس یا تو انتہائی کم ہے یا بالکل  صفر ہے۔  اس کے لیے وہ کسی چھوٹی سے کمپنی کے ساتھ اپنا mergerبناتی ہیں اور پھر اس کمپنی کے لیے ایسے ممالک کا پتہ رجسٹر کرواتی ہیں جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے۔  ایک اندازے کے مطابق یوں یہ کمپنیاں 100ارب ڈالر ٹیکس کی مد میں چوری کر  رہی ہیں۔

 

جہاں سرمایہ دارانہ آیئڈیالوجی سے جنم لینے والی مادیت پرستی نے ایک عام انسان، حکومتی اشرافیہ و سیاستدانوں کی فطرت کو مسخ کیا ہے وہاں مغرب کا مذہبی طبقہ بھی اس کے زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں۔جنوری 2012میں کیتھولک چرچ کا سکینڈل منظر عام پر آیا جسے Vatileak Scandalکا نام دیا گیا ۔  پوپ بینی ڈکٹ کے بٹلر Paolo Gabrieleنے ویٹیکن کی خفیہ دستاویزات لیک کیں جن میں وہ خطوط بھی شامل تھے جو پوپ بینی ڈکٹ اور ویٹیکن کے دیگر عہدیداروں کو ویٹیکن کے اندرونی معاملات کے متعلق مختلف لکھے گئے تھے۔ یہ دستاویزات ویٹیکن طاقت کی کشمکش، سازشوں، دھڑے بندیوں اور مالیاتی کرپشن کی منظر کشی کرتی ہیں۔ان معلومات کو بنیاد بنا کر اٹلی کے صحافی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام : His Holiness: The Secret Papers of Benedict XVIہے۔  جس میں چرچ کی کرپشن کا پرہ چاک کیا گیا ہے ۔  24اکتوبر 2013 کو رائٹرز نے رپورٹ کیاکہ پوپ فرانسس نے جرمنی کے بشپ کو اس کے علاقے کی ذمہ داری سے سے ہٹا دیا ہے کیونکہ اس نے چرچ کے فنڈ میں سے  31ملین یورو محض اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر خرچ کیےتھے۔  جائزے کے مطابق گھر کے باتھ روم میں لگے ہوئے سٹینڈنگ باتھ کی مالیت 15000یورو ہے، جو کہ پاکستانی روپے میں 17لاکھ پچاسی ہزار روپے بنتی ہے۔  جبکہ گھر میں رکھی گئی کانفرنس ٹیبل25000یورو(29لاکھ 75ہزار روپے) کی ہے۔   اس شاہ خرچی کی بنا پر جرمنی کے بشپ کو میڈیا میں "luxury bishop"کا خطاب دیا گیا۔

اور وہ مغرب جو مسلم معاشروں پر عورتوں کے ساتھ بد سلوکی ، تشدد اور عدم برداشت کا الزام لگاتا ہے اور اس بنیاد پر پوری دنیا میں واویلا مچاتا رہتا ہے، خود اس کے اپنے معاشرے کی صورتِ حال کیا ہے اس کا پول یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی(FRA)کا سروے کھول کر بیان کرتا ہے۔  یہ سروے 2014 میں 28 یورپی ممالک میں کیا گیا، جس میں 42000عورتوں کے انٹرویو لیے گئے جن کی عمریں 18 سے 74 برس کے درمیان تھیں۔  سروے کے مطابق ہر دس میں سے ایک عورت کو15سال کی عمر کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہر بیس میں سے ایک عورت کی عزت مرد کے ہاتھوں تار تار ہوئی ، اور ہر پانچ میں سے ایک عورت کو اپنے خاوند یا پارٹنر کے ہاتھوں جسمانی ظلم و تشددکا سامنا کرنا پڑا۔   رپورٹ کے مطابق  صرف 14 فیصد عورتیں ان زیادتیوں کے متعلق پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں   ۔  یہ رپورٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ معاشرہ جو مرد و عورت کو برابر کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے وہاں کی عورت کتنی مظلوم ہے۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی یہ تصور دیتی ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد چھوڑ دینا ہی خوشی اور اطمینان کی ضمانت ہے۔  پس ہر انسان کو عقیدہ، رائے کے اظہار،ملکیت اور ذاتی زندگی میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے اور اس پر کوئی قدغن یا روک ٹوک ہونا درست نہیں۔  خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر ایسا کرنا تو دقیانوسیت اور پسماندگی ہے۔  لیکن یہ آئیڈیالوجی انسان کو خوشی اور اطمینان کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔  اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے ہوتا ہے جو مغرب کے صحت کے ادارے اپنے معاشرے میں ڈپریشن Depressionکے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے متعلق فراہم کرتے ہیں۔   امریکہ میں اس وقت ادویات کے استعمال کے لحاظ سے امراض قلب کی دوائیں سرفہرست ہیں۔  اس کےبعددوسرا نمبر ڈپریشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کا ہے۔  اور ایک اندازے کے مطابق 2020تک ڈپرشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات پہلے نمبر پر آجائیں گی۔

 

قارئین یہ ہے مغرب کے معاشرے کا اصل چہرہ جسے ہم سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔  اور ہمارے سیاست دان ، حکمران اور لبرل طبقہ رٹو طوطے کی طرح دن رات مغرب کے گن  گاتے رہتے ہیں تاکہ ہم نہ صرف یہ کہ مغرب کی سیاسی بالادستی کو قبول کر لیں بلکہ مغرب کی اس ذلت آمیز غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر فخر محسوس کریں۔

آج مغرب سمیت پوری دنیا کو اسلام کی آئیڈیالوجی اور اس سے پھوٹنے والے نظامِ خلافت کی ضرورت ہے جس نے ماضی میں بھی انسانیت کو اعلیٰ اقدار اور تہذیب و اخلاق سے بہرہ ور کیا اور آج بھی اسلام کی آئیڈیالوجی ہی مغرب کی پست اور ناقص تہذیب کا متبادل فراہم کر سکتی ہے۔

 

ڈاکٹر افتخار

 

 

Read more...

حکومت کی جانب سے فاش غفلت کا سبب جمہوری سیاست ہے جبکہ پاکستان میں 115 افراد طوفانی بارش میں لقمۂ اجل بن گئے

 

تحریر: انجینئر سہام، پاکستان
حال ہی میں پاکستان کے صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے کچھ حصّوں میں شدید بارش کے بعد پانی کے چڑھاؤ کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 115 تک پہنچ گئی، جبکہ کئی اور لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر اموات چھتیں گرنے، ریزشِ زمین اور بجلی کے جھٹکے لگنے سے واقع ہوئیں ہیں۔ بعض شہروں میں ہونے والی بارش کی مقدار 130 ملی میٹر سے زائد ہے۔ پاکستان کے محکمۂِ موسمیات نے شمال مشرقی پنجاب اور کشمیر میں موسم شدید ہونے کی تنبیہ جاری کی ہے اور ان کا بیان ہے کہ مزید شدیدبارش متوقع ہے جس کی وجہ سے مزید سیلاب آ سکتے ہیں۔
پاکستان میں طغیانی بارش اور سیلاب ہر سال پابندی سے واقع ہوتے ہیں، مگر جمہوری حکومتیں اس بات سے قاصر ہیں کہ وہ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے موزوں اقدامات کرسکیں۔ پاکستان کے لوگ پچھلے کم از کم چار سالوں سے جان لیوا مون سون سیلابوں کا شکار ہیں۔ 2013ء میں ملک بھر میں سیلاب آنے کی وجہ سے 178 افراد ہلاک ہوئے اور کچھ 15 لاکھ شدید متاثر ہوئے۔2012ء میں 520 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 1180 سے زائد تھی۔ 2010ء کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ایک بڑے انسانی بحران کی صورت اختیار کر لی تھی، اور اس میں 1800 ہلاکتیں ہوئیں اور 12 ملین لوگ متاثرین میں سے تھے۔ پچھلے تین سالوں سے پاکستان عالمی موسمی خطرات کی فہرست، جسےانصاف کے عالمی مسائل پر نظر رکھنے والی این-جی-او جرمن واچ نے ترتیب دیا ہے، میں سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ 2010ء میں پاکستان ملک گیر سیلابوں کی وجہ سے موسمی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ملک کے طور پر درج تھا، اور 2011ء میں وہ اس ضمن میں تیسرے نمبر پر تھا۔
پچھلے چار سالوں میں مسلسل سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود کوئی مناسب عملی اقدامات نظر سے نہیں گزرتے۔ این-سی-سی-پی (قومی موسمی تبدیلی حکمتِ عملی) جسے پچھلے سیلابوں کے بعد عوام کے غم وغصے کے ردعمل کے طور پر جاری کیا گیا تھا، اب پس منظر میں چلی گئی ہے۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اقتدار میں آنے کے بعد جلد ہی ن-لیگ نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کو گھٹا کر محض ایک ڈویژن بنا چھوڑا اور اس کا بجٹ بھی بہت کم کر دیا گیا کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت عوام کی نظر میں عملی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔
اس موجودہ سانحے میں وزیرِ اعظم کو طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تباہی سے آگاہ ہونے میں ہی کئی دن لگ گئے۔ اتنی تاخیر کے بعد بھی محض ایک عمومی ہدایت جاری کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے، کہ تمام اہم شاہراہیں جو بارش کی وجہ سے منقطع ہوگئیں ہیں ان کی جلد از جلد مرمت کی جائے تاکہ امدادی کام تیز رفتاری سے عمل میں لایا جائے۔ مزید یہ کہ این-ڈی-ایم-اے کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جائے۔ تھوڑی بہت عقل سمجھ رکھنے والا بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان ساری ہدایات سے انسانی جانیں بچانے میں کیا مدد ملے گی؟ مگر وزیرِاعظم صاحب کو سب سے زیادہ فکر شاہراہوں کے صاف ہونے کی ہے تاکہ افغانستان پر قابض نیٹو افواج کو پہنچنے والے ہتھیاروں، سور کے گوشت اور شراب کی رسد میں کوئی تعطل نہ پیدا ہونے پائے، جیسا کہ 2010ء میں بھی اس معاملے کو انسانی جانیں پچانے سے زیادہ اہمیت حاصل تھی ۔
پاکستان کی عوام ہلاکت اور بربادی کا سامنا کر رہی ہے، جبکہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنے سیاسی تماشے سے فرصت نہیں ہے، جس میں وہ اپنے دھرنوں اور سڑکوں پر جشن منانے ، اسمبلی میں بیٹھ کر کھوکھلی تقاریر پر تالیاں بجانے اور الزامات کے اسی تبادلے میں مصروف ہیں جو کہ ماضی قدیم سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ لہٰذیکم ستمبر 2012ء میں جب انگریزی روزنامہ ٹریبیون (Tribune) کی ایک خبر کے مطابق بارش اور سیلاب کی وجہ سے کم از کم 78 ہلاکتیں ہوئیں توعمران خان کی پارٹی پی-ٹی-آئی نے پنجاب کی ن-لیگی حکومت پر اعتراض کیا کہ انہوں نے سیلاب آنے کا انتباہ جاری نہیں کیا اور موسمیاتی مسائل کے لئے صرف6 ارب روپے مختص کیے۔ اسی طرح جب اگست 2014ء کے وسط میں شدید بارشوں نے کم از کم 16 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور 80 سے زائد زخمی ہوئے تو وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک "آزادی مارچ" میں کنٹینر پر ناچنے میں مگن تھا، جس بات پر ن-لیگ سمیت کئی سیاسی حلقوں نے اس کی مذمت کی۔ جمہوریت میں سیاست دانوں کا کردار روم کے شہنشاہ نیرو کی طرح کا ہے کہ جس اثناء میں شہر جل رہا ہے، وہ بانسریاں بجانے میں مشغول ہیں۔
جمہوری حکومت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ جمہوریت کے علمبردار سیاست دان، حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، ڈھٹائی سے لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے جمہوری حکومتوں کی انسانی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ دراصل جمہوریت کی اپنی اصلیت ہے۔ جمہوری طریقِ کار لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص سیاسی طبقۂِ اشرافیہ کے منافع کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ جہاں بھی جمہوریت کا وجود ہے، وہاں ایک اونچے طبقے کی طرف سے کیے جانے والا عوام کا استحصال اور لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی لا محالہ پائی جاتی ہے ۔ مغربی جمہوری نظاموں میں بھی امیر ترین لوگ وہی ہیں جن کہ ہاتھ میں براہِ راست یا بالواسطہ سیاسی طاقت کی کنجیاں ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو جمہوریت کے تحت انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے جائز اور قانونی عمل قرار دے دیا گیا ہے۔ لوگوں کے حقیقی مسائل پر ان کا انتہائی سست اور ناکافی ردعمل جس کی وجہ سے عوام کا غم وغصہ بھڑک اٹھا ہے کاترینا طوفان جیسے کئی قدرتی سانحوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کاترینا طوفان اور اس کے بعد آنے والے سیلابوں میں کم از کم 1833 افراد مارے گئے، جس کا مطلب ہے کہ یہ 1982ء کے بعد امریکہ میں آنے والا سب سے مہلک طوفان تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس طوفان میں 108 ارب 2005ء کے امریکی ڈالر کی مالیت کی جائد2اد کا نقصان ہوا۔ کانگریس نے جب وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ردِعمل کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ ریڈ کراس اور FEMA کے پاس "رسد کی وہ موذوں استعداد نہ تھی جس سے وہ خلیج کے ساحل کے متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کی مدد کر سکیں"۔ اس تفتیش کا نتیجہ یہ تھا کہ اس سانحہ میں ہونے والے جان و مال کے نقصان کی ذمہ داری حکومت کی تینوں سطحوں پر عائد ہوتی ہے۔ طوفان کے متاثرین کی امداد کیلئے پیسے جمع کرنے کیلئے امریکہ میں کانسرٹ منعقد کیا گیا، جس میں کانسرٹ کی تمام تررقم طوفان کے متاثرین کیلئے تھی۔ اس موقع پر موسیقار کانیے ویسٹ نے مرتب کئے ہوئے گانے کے الفاظ سے بالکل ہٹ کر حکومتی ردعمل پر سخت تنقید کی اور کہا کہ: "جارج بش کو 'کالے آدمیوں' کی پرواہ ہی نہیں ہے"۔ یہ ہے جمہوریت میں سیاست کی حقیقت کہ سیاست دانوں کو صرف اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ کسی طرح وہ ایک اور ٹرم کو یقینی بنا سکیں تا کہ زیادہ سے زیادہ ذاتی مفاد حاصل کیا جا سکے جبکہ ان کی توجہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کی طرف ہونی چاہئے تھی۔
لوگوں کے معاملات سے غفلت برتنا جمہوریت کا ایسا جزولاینفک ہے کہ نتیجتاً جمہوریت کی طرف وہی لوگ مائل ہوتے ہیں جو فطری طور پر بے درد، مکار اور لالچی ہوتے ہیں۔ ماکیاویلی نے اپنی مشہور کتابThe Prince میں سیاست سے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے وہ کچھ یوں ہے: "رہنماؤں کو ہمیشہ اپنے اصل مقاصد پوشیدہ رکھنے چاہییں، انہیں اپنی باتوں میں تضاد سے پچنا چاہیے اور بیشتر اوقات رحمدلی، ایمان، انسانیت، شفافیت اور مذہب سے عاری ہوکر اپنا کام کرنا چاہیے کیونکہ یہی ریاست کی بقا کی ضمانت ہے"۔ جیمز جانسن جو کہ CAS میں تاریخ کا ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے، جس نے 1996ء میں بہترین معلم کا تمغہ Metcalf حاصل کیا تھا، اس سے کسی موقع پر پوچھا گیا : "آپ کے خیال میں ماکیاویلی کا موجودہ امریکی سیاست کے بارے میں کیسا تاثر ہوتا؟"۔ اس نے جواب دیا: "وہ اپنے مشہور ناقابلِ فہم انداز میں مسکراتا، جیسے کہ کہہ رہا ہو کہ یہ تو کچھ جانا پہچانا لگتا ہے"۔ فلپ بابٹ جو دیگر کئی قابل ذکر کتابوں کے ساتھ ساتھ The Shield of Achilles, War, Peace and the Course of History کا مصنف ہے، اس نے لکھا ہے کہ: "ماکیاویلی امریکی دستور کا روحانی باپ ہے"۔
اگر واشنگٹن کے آقاؤں کا یہ حال ہےتو ہم ان کے ایجنٹوں اور پتلوں سے اس سے بہتر کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ موجودہ وزیرِاعظم کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی قیادت میں حکومتِ پنجاب نے 2012ء میں صرف 11 ماہ میں میٹروبس پراجکٹ؟ مکمل کرلیا۔ اس پراجکٹے سے اس کا ذاتی تعمیراتی مفاد پورا ہوا اور اس کو اس نے الیکشن کی مہم میں سیاسی کارڈ کے طور پر بھی استعمال کیا۔ تاہم اس سارے وقت میں ہنگامی صورتحال کیلئے سیلاب سے محفوظ ٹھکانے تعمیر کروانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے جاسکے۔ نکاسی کے نظام کے متعلق ایک WASA کے اہلکار کا یہ کہنا ہے کہ" دسمبر میں WASA نے ضروری نقشے، خاکے اور پانی اور نکاسی کے نظام سے متعلق اہم معلومات ترکی کے ماہرین کے پاس بھیجیں تاکہ وہ نکاسی کے نظام میں بہتری لانے کے بارے میں تجاویز دے سکیں"۔ ترکی کے ماہرین نے WASA کو یہ تجاویز دیں کہ وہ گٹرکے نالے اور بارش کے پانی کیلئے نالے الگ الگ متعین کردیں تاکہ بارش کے موسم میں یہ نالے رکاوٹوں کی وجہ سے بند نہ ہوجائیں ۔ انہوں نے یہ بھی رائے دی کہ حسبِ ضرورت نئے نالے بننے چاہییں اور پُرزور الفاظ میں یہ بھی کہا کہ سارا انحصار ان بیسیوں سال پرانے مجموعی نکاسی کے نظام پر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ شہر میں ایسے پانی صاف کرنے والے پلانٹ ہونے چاہییں جن کا پانی پھر آبپاشی کیلئے استعمال ہوسکے، نہ کہ اس کا رخ دریا کی طرف موڑ دیا جائے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تاکید کی کہ لوگوں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ اپنے گھریلو کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائیں بجائے اس کے کہ وہ سڑکوں اور گلیوں میں اڑتا پھرے۔ ان تجاویز پر سرے سے کبھی غور ہی نہیں کیا گیا۔
اسلام نے سیاست کا مطلب لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا متعین کیا ہے اور اس کو ایک فرض عمل قرار دیا ہے جس کی عدم ادائیگی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکمران قیامت کے دن اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: كَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تُسَوِّسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَسَتَكُوْنُ خُلَفَاءُ فَتَكْثَرُ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ: فُوْا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، وَأَعْطُوْهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ [مسلم] "بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی نبی کی وفات پاتا تو اس کی جگہ ایک اور نبی لے لیتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، البتہ خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرو اور انہیں ان کا حق دے دو کیونکہ اللہ یقیناً ان سے ان کے بارے سوال کرے گا جن کو اس نے ا ن کی رعیت میں دیا"۔ اور رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا:كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه [مسلم] "تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اور اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا حکمران اپنے لوگوں کا رکھوالا ہے اور ان کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ آدمی اپنے گھر والوں کا رکھوالا ہےاور وہ ان پر ذمہ دار ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی رکھوالی ہے اور اس پر ذمہ دار ہے اور ایک آدمی کا غلام اس کے مال کا رکھوالا ہے اور اس پر ذمہ دار ہے۔ پھر سن لو، یقیناً تم میں سے ہر کوئی ایک رکھوالا ہے اور اپنی رعیت کیلئے ذمہ دارہے" ۔ حضرت عائشہؓ نے روایت کیا: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي بَيْتِي هَذَا 'اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ' [مسلم] "میں نے رسول اللہﷺ کو اپنے اس گھر میں یہ کہتے ہوئے سنا: 'اے اللہ جس کو میری امت کے کچھ امور کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس نے ان سے سختی کا معاملہ کیا تو تُو بھی اس سے سختی کا معاملہ کر اور جس کو میری امت کے کچھ امور کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس نے ان سے نرمی کا معاملہ کیا تو تُو بھی اس سے نرمی کامعاملہ کر'"۔ اور فرمایا: مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [بخاری] "کوئی حکمران ایسا نہیں جس کو مسلمانوں کی رعیت کی ذمہ داری دی جائے اور وہ ان سے خیانت کرتا ہوا مرے، اِلّا یہ کہ اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے"۔
لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں سیاست دان امت کے امور کی دیکھ بھال میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کو جب حکمرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے کہا : "اگر عراق کی سرزمین میں ایک جانور بھی ٹھوکر کھائے تو مجھے خوف ہے کہ اللہ اس کا حساب بھی مجھ سے لے گا کہ میں نے سڑک کیوں مرمت نہ کروائی"۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مکہ میں سیلاب آیا تو آپؓ نے حکم دیا کہ کعبہ کی حفاظت کیلئے دو بند تعمیر کیے جائیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے مدینہ میں بھی بند تعمیر کروائے تاکہ چشموں کے ابلنے سے سیلاب نہ آجائے اور اس طرح سیلاب کی وجہ کو جڑ سے ہی ختم کروادیا۔ مزید برآں، ایک قحط کے دوران، حضرت عمرؓ نے مصر میں ایک نہر کی تعمیر کا حکم دیا جو دریائےِ نیل کو سمندر سے متصل کرتی تھی۔ اس نہر کا مقصد یہ تھا کہ بحیرہ عرب کے راستے (حجاز تک) غلہ کی ترسیل کو آسان کیا جا سکے جبکہ اس سے قبل غلہ صرف زمینی راستے سے منتقل ہوا کرتا تھا۔ یہ نہر حضرت عمروؓ بن العاص کی نگرانی میں ایک سال کے اندر اندر پایۂ تکمیل تک پہنچ گئی۔ سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد سے سرزمینِ حجاز کو آنے والے تمام وقتوں کیلئے قحط سے نجات مل گئی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جمہوریت ایسے سیاست دانوں کو جنم دیتی ہے جن کو برسرِ اقتدار صرف اپنے مفاد کی پرواہ ہوتی ہے اور ان کو لوگوں کا خیال صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کو اتنا خوش رکھیں کہ اگلے الیکشن میں ان کی کرسی پکی رہے۔ مسلمان آج جن جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں ان کا واحد حل یہ ہے کہ جمہوریت کا قلع قمع کر کے خلافت کا نظام قائم کیا جائے۔ جو مخلص اور باخبر سیاست دان آج خلافت کیلئے کام کر رہے ہیں وہ اس وقت پھر ایسا ماحول قائم کریں گے کہ مخلص سیاست دانوں کی پوری ایک نسل کے لئے زمین ہموار ہو جائے اور یہ ایسے لوگ ہوں گے جو کہ امت کے امور کی دیکھ بھال کرنے کے قابل بھی ہوں گے اوروہ تخلیقی انداز میں یہ کام سرانجام دیں گے۔

Read more...

خبر اور تبصرہ خلافت لائن آف کنٹرول کو مٹا کر کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کروائے گی

خبر: ایک بیان میں پاکستان آرمی نے کہا کہ کیپٹن سرفراز "لائن آف کنٹرول پر شکمہ سیکٹر پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال گولہ باری کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے"۔ اسی بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ 16 ستمبر کی رات سوا گیارہ بجے ایک اور سپاہی اس وقت شدید زخمی ہوا جب بھارتی افواج نے سکردو کے قریب شکمہ سیکٹر میں فائرنگ کی۔ نریندر مودی نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ کشمیر میں بالواسطہ جنگ کررہا ہے۔ بھارتی حکومت کی پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ کے مطابق مودی نے کہا کہ فوجی "جنگ سے زیادہ دہشت گردی کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں"۔

تبصرہ: حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں واقع لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول مسلم کشمیر سے گزرنے والی وہ لکیر ہے جس نے کشمیر کو آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی جانب رہنے والے شہریوں اور فوجیوں کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک و زخمی اور املاک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ شروع میں الیکٹرونک میڈیا نے ان واقعات کو زیادہ نمایاں طور پر نشر نہیں کیا کیونکہ ان کی پوری توجہ دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والے دھرنوں پر تھی۔ اس کے علاوہ واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کی ہدایت کے مطابق راحیل-نواز حکومت نے بھی بھارتی جارحیت کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ ایسا کرنا بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے عمل کو نقصان پہنچا سکتا تھا ۔ لیکن جب یہ واقعات تواتر سے ہونے لگے اور الیکٹرانک میڈیا نے بھارتی جارحیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو نمایاں طور پر نشر کرنا شروع کیا تو راحیل-نواز حکومت بھارتی جارحیت کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئی۔
پاکستان نے کشمیر سے متعلق اپنے موقف کو اس وقت تبدیل کیا جب 1996 میں کلنٹن انتظامیہ نے بھارت کو اپنے اثرورسوخ کے دائرےمیں داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس سے قبل امریکہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیتا تھا اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے کا حامی تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلہ کو بھارت کو پریشان کرنے اور دباؤ میں لانے کے لئے ایک ڈنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ لہٰذا 1947 سے 2000 تک امریکہ نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر بھارت کو شرمندہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس عہد میں پاکستان نے کشمیر کے مسلمانوں کی سیاسی، مالی بلکہ فوجی مدد بھی کی اور پاکستان بھر میں کشمیری جہادی تنظیموں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ بھارت نے پاکستان کی جانب سے دخل اندازی کو روکنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر پانچ سو کلومیٹر طویل لوہے کی باڑ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتا تھا کیونکہ جب بھی بھارت یہ باڑ لگانے کی کوشش کرتا پاکستانی فوج زبردست فائرنگ اور گولہ باری شروع کردیتی تھی۔ لیکن جب امریکہ نے بھارت کو اپنے زیر اثر لانے کے لئے ڈنڈے کی جگہ گاجر کی پالیسی اختیار کی تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو امریکہ کی پالیسی کے مطابق ڈھال دیا۔ اس کے بعد کشمیری جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کی سرگرمیوں کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے فوراً 2004 میں 500 کلومیٹر طویل باڑ کو لگانے کا کام پاکستانی فوجیوں کی جانب سے بغیر کسی مزاحمت کے مکمل کرلیا اور مشرف نے کشمیر کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کا ایک نیا حل پیش کیا جس کے مطابق دو حصوں پر پاکستان، دو حصوں پر بھارت کا براہ راست کنٹرول ہوگا جبکہ وسطی کشمیر پر قوام متحدہ کی زیر نگرانی پاکستان اور بھارت کا مشترکہ کنٹرول ہوگا۔
بھارت میں بی۔جے۔پی کی حکومت بن جانے کے بعد امریکہ بہت پُرامید ہے کہ مودی بھارت کی اسٹبلشمنٹ اور دانشوران کو کشمیر کے مسئلے کو امریکی منصوبے کے مطابق حل کرنے پر راضی کرلے گا۔ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پہلے مودی کو اپنے متعلق ایسا تاثر مضبوط کرنا ہے کہ وہ ایک سخت گیر آدمی ہے جو پاکستان سے نفرت کرتا ہے اور پاکستان سے ہر وقت پنجہ آزمائی کے لئے تیار رہتا ہے چاہے اس کی نوعیت فوجی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تاثر مودی کو اس قابل کرے گا وہ بھارت میں موجود تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا ہمنوا بنا سکے۔ جہاں تک پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کا تعلق ہے تو انہیں کوئی شرم نہیں، لہٰذا وہ مسلمانوں کے حقوق کی پروا کیے بغیر ہر وہ حل قبول کر لیں گے جو امریکہ پیش کرے گا۔
پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت، ہر حکمران نے مسئلہ کشمیر کو امریکی مفاد میں استعمال کیا ہے۔ کشمیر اور اس کے لوگوں کو صرف خلافت ہی آزادی دلوا سکتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے یہ فرض ہے کہ مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کرایا جائے۔ لہٰذا آنے والی خلافت مسلم علاقوں کے درمیان موجود سرحدوں کو مٹا دے گی، ان میں موجود مادی اور فوجی وسائل کو یکجا کرے گی اور ان کی مدد سے ایک ناقابل شکست مسلم افواج اور مجاہدین کی ملین فوج تیار کرے گی جو سری نگر کی جانب مارچ کریں گے اور ایک بار پھر کشمیر میں اسلام کا جھنڈا سربلند کریں گے۔
وَأَنْفِقُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِ يكُمْ إِلَى ٱلتَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوۤاْ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
"اللہ تعالیٰ کی راہ (جہاد) میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے" (البقرۃ:195)

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

یورپ کے اندرونی اختلافات، امریکہ-یورپ تعلقات اور ریاست ِ خلافت کا اِن کے خلاف ممکنہ لائحہ عمل


تحریر:کامران شیخ
آج کا یورپ جو یورپی یونین کی شکل میں بظاہر متحد نظر آتا ہے۔ اپنی بنیادوں میں وطن پرستی (Nationalism)، منفعت اور خود غرضی کی اساس پر مبنی سوچ اور اپنے ہی کروڑوں لوگوں کے خون بہا نے و الی جنگوں کا خوفناک ماضی لئے ہوئے ہے۔
یورپی ممالک نے ایک دوسرے کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بالعموم اور بیسویں صدی میں بالخصوص جنگوں کی شکل میں شدید نقصان پہنچایا تھا۔ آخر کار اپنے خونریز ماضی سے پیچھا چھڑانے کیلئے جنگ عظیم دوئم کے بعدیورپ نےمعاشی بنیادوں پر متحد ہونے کا فیصلہ کیا اور 1951 میں European Coal and Steel Community اور 1958ء میں European Economic Community کی بنیاد ڈالی تاکہ یورپ کو معاشی مفادات کی بنیاد پر ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جو انہیں مجبور کردے کہ آپس کے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام کریں اور اپنی عوام، جو کہ صدیوں کی جنگوں اور ناقص معاشی پالیسیوں سے بیزار تھی، کی خوشحالی اور مادی ترقی کے لیے کام کریں۔ شروع میں یورپ کے صرف چھ ممالک فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بلجیم، اٹلی اور لگسمبرگ نے اِن دو اداروں کی بنیاد ڈالی اور یورپ میں موجود وسائل کو مشترکہ پالیسیوں کے تحت سمیٹنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یورپ کے باقی ممالک بھی اِن پلیٹ فارمز پر شامل ہونا شروع ہوئے۔ آخر کار سوویت یونین کے ٹوٹنے سے اور کمیونزم کے زوال کے بعد 15 یورپی یونین کے ممالک نے اِن دو اداروں کو Maastricht Treatyکے تحت 1993ء میں یورپی یونین کی شکل دی تا کہ معاشی فوائد کے علاوہ سیاسی طور پر بھی اس طرح متحرک ہوا جائے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکیں اور اگر ممکن ہو تو دنیا کے افق پر امریکہ کے علاوہ یورپی یونین کو بھی ایک مضبوط سیاسی طاقت کے طور پر منوایا جا ئے۔ اس خواہش کو رکھنے والے ممالک میں یورپ کے دو ستون جرمنی اور فرانس پیش پیش تھے جبکہ موجودہ یورپی یونین میں اب 28 ممالک شامل ہیں۔ ایک اہم بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یورپ کو اکٹھا کرنے کے محرکات معاشی سے زیادہ سیاسی تھے جن میں سب سے اہم یورپ کو دوبارہ جنگوں میں ملوّث ہونے سے روکنا تھا جو بار بار وطن پرستی (Nationalism) اور مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے پھوٹ پڑتی تھیں۔
1993ء میں یورپی یونین نے اپنے قیام کے بعد قابل ذکر حد تک معاشی ترقی کی اور کئی اقدامات کے ذریعے اپنے آپ کو امریکہ کے سامنے ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر لا کھڑا کیا۔ یورپ کے ممالک کو آپس میں مزید مربوط کرنے کے لیے کئی پالیسیز بھی نافذ کی گئیں جن میں پہلے سے نافذ یورپ کی Singly Market یعنی Free Trade Zone کے علاوہ یورپی یونین میں شامل تمام ممالک پرداخلی طور پر عدلیہ، تجارت، زراعت، ماہی گیری اور علاقائی ترقی کے لئے یکسا ں قوانین کا نفاذ اور خارجی طور پر لوگوں، services یعنی خدمات، اشیاء اور سرمائے کا بِلا روک ٹو ک تبادلہ یقینی بنانا ہے۔ اس کے ساتھ شنگین ویزہ (schengen visa) نے بھی یورپ کو پوری دنیا کے لوگوں کے لیے توجہ کا ایک بہت بڑا مرکز بنادیا۔ یورپی ممالک، جو اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط ہوتا دیکھ رہے تھے، نےاپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی معشیت بنانے کے لیے 2002ء میں اپنی ملکی کرنسیوں سے دستبردار ہو کر واحد کرنسی یورو کو اختیار کرلیا۔ اِس وقت یورو زون یعنی یورو کرنسی کو اختیار کرنے والے ممالک کی تعداد 18ہو چکی ہے۔
1993ء میں یورپی یونین کے آغاز کے بعد سے 2007ء تک بین الاقوامی سطح پرمعاشی عناصر (Economic Factors) مستحکم ہونے کی بدولت یورپی ممالک نے معاشی میدان میں خوب ترقی کی گو کہ سیاسی اور فوجی اعتبار سے یورپ تب بھی امر یکہ کے اثرو رسوخ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، لیکن اِس معاشی ترقی کی بدولت وہ یہ سمجھنے لگے کہ شاید انہوں نے اختلافا ت سے بھر پورماضی سے پیچھا چھڑا لیا ہے اور اب اُن کی ترقی کا دارو مدار یورپی یونین کے اتحاد پر ہی ہے۔ لیکن 2008ء میں آنے والے معاشی بحران نے جس کا آغاز امریکہ سے ہوا تھا یورپ کو بھی بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ ممالک جو منفعت کی بنیاد پر اکٹھے ہوئے تھے بحران شدید ہوتے ہی دوبارہ اِن اختلافات کی جانب لوٹ آئے جو کہ یونین کی بنیا د وں میں شامل تھی اور جن کی اساس ہم مذہب ہونے کے باوجود مختلف قومی ریاستوں (Nation States) میں بٹے ہونا تھا۔ آئیے اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یورپ کا بحران کس نوعیت کا ہے اور اِس نے کس طرح یورپی ممالک کی بنیادوں میں موجود اختلافا ت کو ایک مرتبہ پھر سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
نومبر 2008ء میں جب عالمی مالیاتی بحران اپنے مرکز امریکہ سے شروع ہوا تو یورپ نے سرکاری طور پر کساد بازاری اور معاشی سکڑاؤ کے شروع ہونے کا اعلان کیا۔ پھر پے در پے اقتصادی اور مالیاتی بحران نمودار ہونے لگے مثلاً سٹاک مارکیٹس کا بحران، کمپنیوں اور بنکوں کا دیوالیہ ہونا وغیرہ۔ پھر اِن ممالک کی طرف سے اِن مالیا تی اداروں کے بچانے کے لیے بے تحاشہ پیسہ لگایا گیا جو اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ان ملکوں پر بہت بھاری بوجھ بن گیا جس نے بہت تیزی سے Sovereign Debt Crisis یعنی ریاستی قرضوں کے بحران کی شکل لے لی جو تا دمِ تحریر جاری ہے۔ یورو کا بحران اُس وقت نمایا ں ہوا جب بڑی عالمی کرنسیوں خاص کر ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت گرنے لگی اوراس کے بعد ہی Sovereign Debt یعنی ریاستی قرضوں کا بحران شروع ہوا۔ ریاستی قرضے اُس وقت بحران کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جب ایک ریاست کے قرضے اُس کی آمدن اور GDPسے بڑھ جائیں اور وہ ملک اپنے قرضوں کو Treasury Bonds کی شکل میں دوسرے ممالک، بنکوں اور عالمی اِداروں کو جاری کرتا ہے جن پر وہ انہیں شر ح سود بھی ادا کر تا ہے لیکن اگروہ ملک اس قابل نہ رہے کہ بانڈز پر ہر دم بڑھتے سود اور انشورنس ویلیو کی رقم ادا کر سکے جبکہ دوسری طرف وہ اُس قرضے کو بھی ادا کرنے سے عاجز ہو جائے تو اُسکے جاری کردہ Treasury Bonds پر ان ممالک اور مالیتی اداروں کا اعتماد گھٹ جاتا ہے اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں یوں ایسا بحران جنم لیتا ہے جو نہ صرف اس ملک کے پورے اقتصادی نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ سیاسی استحکام اور حکومتی پوزیشن کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
یورپ کا یورو زون اُس وقت کے بعد سے شدید متاثر ہوا جب 2011ء میں یونان کے ریاستی قرضوں کے بارے میں یہ خبر عام ہوگئی کہ وہ اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں رہا جو کہ 350 ملین یورو یا 482 بلین ڈالرز کے مساوی تھے۔ یہ قرضے اُس کی سالانہ پیداوار (GDP) سے 160 فیصد زیادہ تھے یہاں تک کہ اس کا بجٹ خسارہ 13.6 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے لیے بجٹ خسارے کی حد 3.5 فیصد ہے۔ یہ بحران اتنا شدید ہوا کہ آخر کار یونان کے وزیر اعظم پاپا نڈریو کو اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہونا پڑا۔ یہی حال اُس وقت اٹلی کا بھی تھا جب ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی وجہ سے اٹلی کے وزیر اعظم بر لسکونی کو بھی اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اسی قسم کے بحرانوں کا سا منا یورپ کے مزید ممالک آئرلینڈ، پرتگال اور سپین کو بھی کرنا پڑا حتی کہ Sovereign Debt Crisis نے فرانس جیسے ملک کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جو یورپی یو نین کا ایک بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ یورو زون کا بھی ایک بڑا ملک ہے۔ آج اس معاشی بحران کا سامنا کرتے ہوئے یورپ کو تقریباً 6 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن اب تک یورپ اس سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ یونین کے مجموعی فائدے کے بارے میں سوچنے کی بجائے ہر ملک کا وطنیت اور مفاد کی بنیاد پر سوچنا ہے۔
یورپی یونین کے دو اہم ترین ستون جرمنی اور فرانس ہیں۔ یہی دو ممالک سب سے زیادہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یونین کو ایک مضبو ط بلاک بنائیں تا کہ دنیا میں اپنی سیاسی بر تری کے خواب کو پورا کر سکیں۔ فرانس اور جرمنی دونوںہی یورو زون کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں لیکن یوں لگ رہا ہے کہ اس بحران پر قابو پانے اوراس کو حل کرنے کے طریقہ کار پر ان دو ملکوں میں بھی بنیادی اختلافا ت پائے جاتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ اقتصادیات کا موضوع ریاستوں کی بالا دستی کے موضوع سے ٹکرا تا ہے اور اس کی وجہ ان دونوںمما لک کااپنے آپ کو یورپی یونین کے دو بڑے لیڈر سمجھنا ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان پس پردہ بالا دستی کی رسہّ کشی چلتی رہتی ہے کہ کون اس اتحاد کے فیصلوں پر اثر انداز ہو گا اور کس کی بات مانی جائے گی۔ فرانس نے ان بحرانوں کے حل کے لیے اقتصادی حکومت بنانے کی پیشکش کی جو ہر ملک پر ایک مخصوص اقتصادی پالیسی نا فذ کرے گی اور ہر ملک اس کا پابند ہو جبکہ جرمنی نے اکنامک مینجمنٹ قائم کرنے کی تجویز دی یعنی ایسا اسٹرکچر اور فریم ورک بنایا جائے جو صرف پابندیاں لگائے اور اقتصادی حکومت بنانے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ اس سے ہر ملک کو یہ تاثر ملے گا کہ ان کی حکومتوں سے بھی کوئی بڑا ادارہ ہے جو انہیں حکم جاری کرتا ہے اور اس طرح اُنہیں اپنی بالادستی خطرے میں نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کی اس تجویز کو پورے یورپ میں پذیرائی نہ مل سکی۔
یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کے کردار کو سمجھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یورپ کے اکٹھا ہونے کے بعد سے بالعموم اور یورپی یونین کے قیام کے بعد سے بالخصوص پورے یورپ کی منڈیوں سے سب سے زیادہ معاشی فائدہ جرمنی نے اٹھایا اور پورے یورپ کے وسائل کو اپنے اور اپنی عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ جرمنی معاشی اعتبار سے یورپی یونین اور یوروزون کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ اس کی مضبوط معیشت کا سا را دارو مدار اس کی برآمدات پر ہے جو اس کے GDP کا 40 فیصد ہے۔ جرمنی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپ Free Trade Zone ہونے کی وجہ سے 500 ملین سے زائد لوگوں کی ایک وسیع مارکیٹ ہے۔ جرمنی ایک ایسا ملک ہے جس کی زرعی اور صنعتی پیداوار انتہائی بڑے پیمانے پر تیار ہونے کے بعد ایک وسیع مارکیٹ چاہتی ہیں۔ یورپ کا Free Trade Zone ہونا ہر لحاظ سے جرمنی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ جرمنی کی وسیع برآمدات نے یورپ کے تمام ممالک کی منڈیوں پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جس کے باعث جرمنی پورے یورپ سے مفادات سمیٹتا ہے۔ دوسری طرف معاشی اعتبار سے یورپ کا سب سے زیادہ مضبوط ملک ہو نے کی وجہ سے یورپین سینٹرل بینک میں نسبتاً سب سے زیادہ حصہ جرمنی کا ہے جس کی وجہ سے اس کے مفادات ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ یورپ میں یورو کی قدریہی یورپین سینٹرل بینک ہی کنٹرول کر تا ہے۔ لہٰذا ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگر جرمنی سینٹرل بینک میں سب سے بڑا حصہ دار ہے تو وہ اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس طرح وہ اس بینک کے ذریعے پورے یورپ کی مالیاتی پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح جرمنی کو معلوم ہے کہ پورے یورپ کو یورپی یونین کے چارٹر کے تحت جوڑے رکھنے اور انہیں ایک ہی کرنسی کی چھتری تلے جمع رکھنے میں اس کا اپنا ہی مفاد ہے۔ مگر دوسری طرف اس کے معاشی مفادات اور پالیسیاں یورپ کے معاشی بحران کے حل میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ یورپ کا تقریباً ہر ملک ہی جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کا شکار ہے حتی کہ یورپ کا دوسرے بڑے ملک فرانس کے بھی اربوں یورو جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کی وجہ سے ڈوب چکے ہیں یہی تجارتی خسارہ ان ممالک کے بجٹ میں بجٹ خسارے کا باعث بنتا ہے۔ دوسری طرف یورپین سینٹرل بینک میں جرمنی کا اثر و رسوخ بھی دوسرے ممالک کے معاشی معا ملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جرمنی یورپی یونین کو مزید کمزوری سے بچانے کے لیے یورپی ممالک کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نکالنا بھی چا ہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے وہ اپنے ریاستی مفادات کسی صورت داؤ پر نہیں لگا نا چاہتا۔ جرمنی کی طرف سے یورپ کو بحران سے نکالنے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) یورپی یونین قانون سازی کے تحت برسلز جو کہ یورپی یونین کا بیلجیم میں دارالحکومت ہے کو یورپی سینٹرل بینک کے ذریعے یہ اختیار دے کہ وہ اُن تمام ممالک کے بجٹ کو، جو ریاستی قرضوں کے بحران کا شکار ہیں، کنٹرول کر سکے۔
2) ایسے ممالک ہر صورت اپنی مالیاتی پالیسی میں سادگی کے اصول اختیار کرنے والے اقدامات اپنائیں یعنی ریاستی اخراجات اور عوامی ترقیاتی منصوبوں پر اُٹھنے والے خرچوں کو کم کریں۔
3) یورپی یونین کی طرف سے مقروض ریاستوں کو بین الاقوامی سطح پر کوئی مدد فراہم نہ کی جائے۔
4) ریاستی قرضوں میں ڈوبے ممالک کے یورپی یونین کے الیکشن میں، جو ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں، ووٹ ڈالنے کا اختیارمنجمد کر دیا جائے۔
5) ایسے ممالک سادگی کے اصولوں کے تحت اپنے عوام کی تنخواہوں کی سطح کو کم کریں۔
6) بجٹ کو بڑھانے کے لیے بجٹ خسارے کی اجازت دینے والے ممالک کی مالی مدد بند کر دی جائے۔
7) ہر ملک اپنے آئین میں بجٹ خسارے کی حد مقرر کرے تاکہ نادہندہ ہونے کی صورت میں اُسے یورپی یونین سے نکلنا نہ پڑے۔
لیکن یورپی ممالک کی حکومتیں جرمنی کی ان تجاویز کوماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف تو عوامی ترقیاتی منصوبوں پر رقم کم کرنے اور عوام کی تنخواہوں کو کم کرنے سے انہیں اپنے ہی ملک میں اپنی عوام کی مخالفت مول لینا پڑے گی دوسری طرف انہیں 2009ء میں طے پانے والے لسبن معاہدہ (Lisbon Treaty) میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ لسبن معاہدہ یورپی یونین پر حکمران ہے اور یورپی ممالک ان پر پہلے ہی بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے اور اپنے قومی مفادات کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھے۔ پھر یہ تجاویز کسی بھی ملک کے اقتدار اعلٰی(Sovereignty) میں براہ راست مداخلت تھیں جس کے لیے یورپی ممالک کبھی بھی متفق نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اب تک یورپی یونین اس بحران سے نکلنے میں ناکام نظر آتی ہے کیونکہ ہر ریاست یونین سے بڑھ کر اپنے مفادات کو مقدم رکھتی ہے۔
جہاں تک Austerity Measures یعنی سادگی پر مبنی اقدامات کی بات ہے تو مقروض ممالک ایک حد سے زیادہ سادگی اپنا نے کے لیے تیار نہیں کیونکہ انہیں اپنی عوام پر مزید ٹیکسوں سمیت کئی ایسے اقدامات اٹھانا پڑیں گے جو اُن کی حکومت کو انتہائی غیر مقبول بنادیں گے۔ ان مقروض ممالک کا کہنا ہے کہ چونکہ یورپ کے امیر ممالک نے یورپی Free Trade Zone اور دوسری پالیسیوں کے تحت یورپ کے وسائل کو زیادہ استعمال کیا ہے لہٰذا ریاستی قرضوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے بڑے ممالک ہی ان قرضوں کا بوجھ اٹھائیں اور قرضوں میں پھنسے ہوئے ممالک، جن میں یونان، اٹلی، پرتگال، آئر لینڈ اور سپین سرفہرست ہیں، کو مزید قرضے بھی دیتے رہیں تا کہ یہ مما لک defaultنہ کریں اور یورپی یونین کو مزید خطرے سے بچائیں۔ لیکن امیر ممالک خصوصاً جرمنی جو پہلے ہی بہت قرضے دے چکے ہیں مزید ایسے قرضے نہیں دینا چاہتے جن کی واپسی کی کوئی امید نہ ہو بلکہ وہ مقروض ممالک کو سادگی پر مبنی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہر ملک کے اندرطبقاتی فرق (Class difference) بھی شدید اختلا فات کا باعث بن رہا ہے۔ ہر ملک کانچلا اور درمیانہ طبقہ (Lower and Middle class) یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جو اس بحران کے سبب پہلے ہی بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور ٹیکسوں کے بوجھ کا شکار ہیں، سادگی پر مبنی اقدامات کا نشانہ بھی وہی بنیں گے اور اشرافیہ کو اس کی کوئی قیمت نہیں چکانی پڑے گی۔ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے ملک کی اشرافیہ کو ہی اس کا بوجھ اٹھانا چاہیے جنہیں پہلے ہی حکومتوں نے کئی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ دے رکھی ہے۔ کئی ممالک کے عوام یورپی یونین کو ہی اپنے مسائل کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں کیو نکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس یونین سے بڑے ممالک ہی فائدہ اٹھاتے ہیں لہٰذا ان ممالک میں یونین سے نکلنے کی آوازیں بڑھتی جارہی ہیں۔
جرمنی ایک طرح سے شدید مخمصے اور کشمکش کا شکار ہے۔ اگر قرضوں میں ڈوبے تمام ممالک سادگی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تو اس سے جرمنی کی برآمدات، جو اس کی معیشت کے لیے آکسیجن اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، پر شدید ضرب پڑے گی کیونکہ ان اقدامات سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ لہٰذا جرمنی نہ چاہتے ہوئے بھی ان ممالک کو یورپین سینٹرل بینک کے ذریعے قرضے جاری کرواتا رہتا ہے تاکہ ان ممالک میں جرمنی کی مصنوعات کے لیے طلب اور قوت خرید دونوں برقرار رہیں۔
جرمنی نے قرضوں میں پھنسے ممالک کی مدد کے لیے قائم کردہ فنڈ European Stabilization Fund میں بھی اپنا حصہ 450 بلین یورو سے بڑھا کر 1000 بلین یورو کر دیا ہے۔ پھر اس نے کچھ عرصہ قبل سپین کی بیمار معشیت کو بھی 100 بلین یورو کا قرضہ دیا۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ جرمنی اس یونین کو بچانے کے لے سر توڑکوششیں کر رہا ہے کیونکہ اگر ایک ملک بھی defaultکر گیا تو اُسے یورپی یونین سے نکلنا پڑے گا اور اگر ایک مرتبہ یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو جرمنی بھی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا اور یونین کے وجود کو شدید خطرات سے دو چار کردے گا۔ لیکن جرمنی یہ بھی چاہتا ہے کہ باقی ممالک اپنے بجٹوں کو منظم کریں اور ریاستی قرضوں کے بحران سے خود چھٹکارا پائیں۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور یورو کرنسی بدستور خطرے میں ہے۔ جرمنی کی چا نسلر انجیلا مر کل نے یوروزون کے مستقبل کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے تاکید سے کہا تھا کہ ''جرمنی نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ملک دیوالیہ ہو کیو نکہ ایک کے دیوا لیہ ہونے کامطلب ہے سب کا دیوالیہ ہونا''۔ پھر ایک موقع پر اپنی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یورپ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے مشکل ترین دورسے گزر رہا ہے اگر یورو ناکام ہوگیا تو یورپ ناکام ہو جائے گا"۔
جرمنی کی طرف سے بکثرت تجاویز، یورپین سٹیبلائزیشن فنڈ میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ریاستی مفادات کے تحفظ کے ساتھ سا تھ یورپ، یورپی یونین اور یورو کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نجات دلانا چاہتا ہے اس بات کو جانتے ہوئے کہ یورو یورپی یونین کی کامیا بی کا راز ہے اور یورو کا زوال یورپ کا زوال ہے۔
اس بحران کے سیاسی اور معاشرتی منفی اثرات بھی یورپ پر کم نمایاں نہیں۔ جیسے پہلے بات ہوئی کہ ہر ملک اس بحران کی قیمت چکانے کے لیے متوسط درجے اور اشرافیہ کے طبقات میں تقسیم ہے جبکہ دوسری طرف یورپ میں بے روز گاری کی شرح ہر دم بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں یورپ میں بے روز گاری کی شرح کی اوسط 11.6 فیصد تھی جبکہ 11 ممالک میں یہ شرح 10-17 فیصد اور دو ممالک سپین اور یونان میں بالتر تیب 25 اور 26.5 فیصد ہے۔ بے روز گاری کی یہ شرح کسی بھی لحاظ سے کسی بھی ملک کے لیے خطرناک قرار دی جا سکتی ہے۔ اس بے روز گاری کی وجہ سے یہ ممالک بہت سے دوسرے معاشرتی مسائل کا شکار بھی ہو رہے ہیں جبکہ سیاسی طور پر اس صورتحال کا الزام یورپی یونین کے سر تھوپتے ہیں۔
جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے جو کہ اس اتحاد کا بڑا اہم رکن ہے تو وہ اٹلانٹک کارنر کے ایک مقام پر کھڑا یورپ کی حالت زار کا تماشہ دیکھ رہا ہے اوراپنے آپ کو اتحاد کی تباہی اور اس مالیاتی بحران جس کا وہ خود بھی شکار ہے، کے نتائج سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے لیکن وہ اتحاد کی مشکلات کو حل کرنے میں اس قدر دلچسپی نہیں لے رہا جس قدر وہ مفادات اور غنائم کی تاک میں بیٹھا ہے۔ چونکہ وہ یوروزون میں داخل ہی نہیں ہوا لہٰذا اپنی کرنسی پاؤنڈ سٹرلنگ سے دستبردار نہیں ہوا اور یورو کو اختیار کرنے میں دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کرتا اس لیے یورو کا معاملہ اس کے لیے کسی اہمیت کا حا مل نہیں۔ برطانیہ کے اندر بھی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جو یورپی یونین سے علیحدگی کی باتیں کرتی ہیں تاکہ کوئی اس پر یورو کو اپنانے کے لیے دباؤ نہ ڈالے۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے ایک موقع پر کہا کہ ''یورو اجتماعی حماقت ہے اور وہ بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گا''۔ پھر یورو زون کو تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک ایسی جلتی ہوئی عمارت ہے جس میں آگ سے بچ نکلنے کے دروازے ہی موجود نہیں"۔ ایک اور موقع پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ''یورو بحران صرف یورپی معیشت کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی معیشت کے لیے خطرے کے گھنٹی ہے''۔ یورپ کے سیاستدانو ں کو برطانیہ کی دوغلی پالیسی اور بدیانتی کا علم ہے چنانچہ یورپی کمیشن کے سابق صدر باروسو نے یہ کہتے ہوئے اشارہ کیاکہ ''ان اتحادی ممالک کو چاہیے کہ جو یورو میں شامل ہونے کی تائید نہیں کرتے کہ وہ اُن ممالک کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہ کریں جو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں''۔
اس سب کے باوجود جب تک یہ یونین قائم ہے برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ اس سے وہ سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کرتا ہے۔ برطانیہ عا لمی سطح پر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے یورپ کو اس بات کی طرف کھینچتا ہے کہ وہ عالمی امور پر اس کے مفاد کے مطابق رائے اختیار کرے بلکہ یورپی یونین سے سے نکلنا اس کے لیے نقصان دہ ہوگا اسی لیے وزیر اعظم کیمرون نے یہ کہتے ہوئے وضاحت کی کہ ''یورپی یونین سے نکلنا برطانیہ کے قومی مفاد میں نہیں جس وقت ہم یورپی یونین سے نکلے ہمارے حالت ناروے کی طرح ہو جائے گی یعنی برسلز سے ہونے والے ہر فیصلے سے ہم متاثر تو ضرور ہوں گے لیکن کسی فیصلے میں شریک نہیں ہوں گے''۔ ساتھ ہی وہ برطانیہ کی بالادستی سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار نہیں جب اُس نے کہا کہ ''برسلز میں یورپی کمیشن کے اختیارات کے بڑے حصے کو قومی حکومتوں کو دے دینا چاہیے''۔ یوں برطانیہ یورپی یونین سے نکلنا بھی نہیں چاہتا جبکہ یورو زون میں شامل بھی نہیں ہونا چاہتا۔
یورپی یونین کا 28 ممالک میں بٹے ہونا اور اس میں ایک مضبوط سیاسی لیڈر شپ کا نہ ہونا اس کو صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور فوجی محاذ پر بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یورپ کی فوجی طاقت کو امریکہ نیٹو کے ذریعے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ2000 ء سے بڑے یورپی ممالک، جن میں جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین شامل ہیں، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یورپین آپریشنل ہیڈ کوارٹر قائم کیا جائے جس کے تحت علیحدہ یورپین فورس بنائی جائے جو کہ نیٹوسے علیحدہ اور امریکی اثر سے آزاد ہو اور یورپ کے سیا سی اور فوجی اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جائے۔ لیکن اب تک اس ارادے کو کمزور یورپی سیاسی قیادت کی وجہ سے عملی جامہ نہیں پہنا یا جا سکا کیونکہ دوسری طرف برطانیہ اس منصوبے کی شدید مخالفت کر رہا ہے کیو نکہ وہ سمجھتا ہے اس طرح یورپ پر اس کا اثر ورسوخ کم ہو جائے گاجبکہ وہ ہر حالت میں یورپ پراثرو رسوخ رکھنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں یورپ کی طرف سے تازہ ترین کوشش 2011ء میں کی گئی جب پانچ یورپی ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور پولینڈ نے ایک خفیہ مراسلہ یورپی یونین کی وزیر خارجہ Lady Ashton کو ارسال کیا جس میں اُسے برطانیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے آپریشنل ہیڈ کوارٹر بنانے کی ہدایت کی گئی اور یقین دلایا گیا کہ اُسے ان ممالک کی طرف سے ہر ممکن تعاون دستیاب ہوگا۔ لیکن یہ خفیہ مراسلہ منظر عام پر آگیا اور برطانیہ نے اس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ میں اسے ویٹو کرنے کی دھمکی دیدی۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں برطانیہ کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے جو ہر صورت یورپی یونین کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یورپ صرف نیٹوکی شکل میں ہی مشترکہ فوجی صلاحیت رکھے جس کا فائدہ صرف امریکہ ہی اٹھاتا رہے۔ دوسری طرف امریکہ نے یورپ کی کئی ریاستوں خاص طور پر مشرقی یورپ کی ریاستوں کے ساتھ سکیورٹی کے نام پر فوجی معا ہد ات کر رکھے ہیں۔ وہ ان معاہدات کے ذریعے اُن کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا دلاسہ بھی دیتا ہے جس کی وجہ سے مشرقی یورپ کی یہ ریا ستیں جو خود بھی یورپی یونین کا حصہ ہیں یورپ کی علیحدہ فورس بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ یوں یورپ کے بٹے ہونے اور مضبوط سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یونین اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہ کر سکی۔ اس بات پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی کمیشن کے سابق صدر Prodi نے کہا کہ ''یورپ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اپنے معاشی معاملا ت تو خود سنبھالے جبکہ سکیورٹی کی ذمہ داری امریکہ کے حوالے کردی جائے''۔
یورپ کا توانائی کی ضروریات میں خود کفیل نہ ہونا بھی اسے بہت کمزور کرتا ہے، خاص کر گیس کے معاملے میں۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کا صرف 35 سے 40 فیصد خود مہیا کرتا ہے جبکہ اپنی ضرورت کا ایک تہائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے جو یورپ کو خطرناک حد تک روس کا محتاج بنادیتا ہے۔ اس محتاجی کے باعث یورپ روس کی 2008ء میں جارجیا اور 2014ء میں یوکرائن کے خلاف جارحیت کے خلاف چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پایا اور روس نے گیس کے کارڈ کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے یورپ کو بے بس کر دیا۔
یونین کی ان تمام کمزوریوں اور موجودہ معاشی اور ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی صلاحیت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی بے روز گاری اور دوسرے مسائل یورپ کی عوام کی رائے یونین کے خلاف کر رہے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت پچھلے ماہ بر طانیہ اور فرانس میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تھے جن میں لوگوں نے اُن جماعتوں کو ووٹ دیا جویورپی یونین کو اپنے ممالک کی ترقی کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہیں اور یونین کے زیادہ تر اختیارات ریاستی حکومتوں کو دلوانا چاہتے ہیں۔ ان جماعتوں کو ملنے والی سیٹیں اب تک ہونے والے تمام انتخابات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں گو کہ اسکے باوجود یورپی یونین کے ٹوٹنے کا فی الفور خطرہ نہیں لیکن انتخابات کے نتائج یونین کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یورپ کے دانشور اور مفکرین ان الیکشن کے نتائج کے یورپی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ووٹ قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذ یورپی یونین کی 2008ء تک کی معاشی کامیابیاں جس نے دنیا بھر کے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا تھا کہ یورپی یونین آنے والے سالوں میں کیا کچھ بن سکتی ہے، اس کی حالیہ ناکامیوں نے اس سوال کو تبدیل کر کے ایک نیا سوال ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے کہ ان بحرانوں اور کمزور عوامی حمایت کے ساتھ یہ یونین کب تک قائم رہ سکتی ہے۔
یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یورپی یونین محض مفادات کی بنیاد پر اکٹھے ہونے والے ممالک کا اتحاد ہے یہ ایک مضبوط سیاسی وحدت(political entity) نہیں بلکہ 28 ریاستوں کا ایک غیر فطری اتحاد ہے جو اپنے اندر کئی کمزوریاں رکھتا ہے جس میں سب سے اہم قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو اسے کبھی ایک مضبوط سیاسی قوت نہیں بننے دے گا۔
آئیے اب کچھ بات امریکہ کے حوالے سے ہو جائے۔ امریکہ کسی ایسے بلاک یا نظر یاتی ریاست کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو چیلنج کرے۔ ہم آنے والی نظر یاتی ریاستِ خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے تو امریکی کوششوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں، آیئے دیکھتے ہیں کہ خود اپنی بڑھتی ہوئی کمزوریوں کے باوجود یہ یورپ کو کس طرح کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کس طرح اسے دنیا میں ایک مضبوط بلاک کی شکل میں ابھر نے نہیں دیتا۔
معاشی طور پر امریکہ نے یورپ کے بحران سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ایک طرف تو اسے یہ موقع ملا کہ وہ لوگوں کی توجہ اپنی مالی اور اقتصادی بدحالی سے ہٹائے اور ان کی نگاہ اس حقیقت سے پھیر دے کہ اس بحران کی اصل وجہ وہ خود ہے۔ دوسری طرف اس نے یورپ کے عوام کا یونین کے اتحاد اور یورو کرنسی پر کم ہوتے اعتماد کو مزید کم کرنے کے لیے یورپ کی معاشی مدد سے انکار کر دیا تاکہ امریکہ اور ڈالر کے مقابلے میں یورپ اور یورو کا اثر و رسوخ بڑھنے نہ پائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپ اس کے زیرِ دست رہے اور اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُس کی اُس قدر ہی مدد کرتا ہے کہ وہ اس کے ماتحت رہے۔ امریکہ نے دو سال پہلے یورپ کی درخواست کے باوجود ریاستی قرضوں کے بحران میں مدد کے لیے آئی ایم ایف میں اپنے فنڈز کو دوگنا کرنے سے انکار کر دیا تاکہ یورپ اس بحران سے نکل نہ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشہور کریڈٹ ریٹنگ کمپنیوں جیسے Standards and Poor's اور Moody's and Fitch وہ امریکی کمپنیاں ہیں جو یورپی ممالک کی معاشی حالت کو مزید ڈانوا ڈول کرنے میں کردار ادا کر رہی ہیں، چنانچہ ان کمپنیوں نے سپین، یونان، اٹلی، پرتگال کے ساتھ ساتھ 21 یورپی بینکوں کی درجہ بندی میں کمی کردی۔ ان بینکوں میں یورپ کے کئی بڑے بینک بھی شامل ہیں جس نے یورپ کو مزید مالی مشکلات سے دو چار کردیا۔ اس کے علاوہ امریکہ ریاستی اور فوجی اعتبار سے بھی یورپ کو کمزور اور تقسیم رکھنے کی کوشش مندرجہ ذیل ذرائع سے کرتا ہے:
1) نیٹو کو قائم رکھ کر جو کہ سوویت یونین کی expansion policy کو مدِ نظر رکھ کریورپ کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے 1949ءمیں بنائی گئی تھی۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اصولی طورپر اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر اس کو ختم نہ کرنا اور اس کو اپنی قیادت میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا امریکہ کی پالیسی ہے۔ اسی نیٹوکو وہ ایک طرف اسلام کے خلاف استعمال کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے بہانے یورپ کو اپنی علیحدہ فورس بنانے نہیں دیتا۔
2) برطانیہ، جو کہ مکمل طور پریورپی یونین میں شامل نہیں ہونا چاہتا بلکہ اپنا آزاد اور بالادست و جود قائم رکھنا چاہتا ہے، اپنا مفاد یورپ سے بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور امریکہ کا ساتھ بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس وجہ سے وہ یونین کے اندر تقسیم اور اختلاف کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ چیز امریکی مفادات کا تحفظ جو کمزور یورپی یونین سے جڑا ہوا ہے یقینی بناتی ہے۔
3) مشرقی یورپ کے کئی ممالک جو 2003ء میں یورپی یونین میں شامل ہوئے تھے جن میں پولینڈ، بلغاریہ، چیک ریپبلک، ہنگری، رومانیہ اور دوسرے شامل ہیں ان میں سے زیادہ تر ممالک کے ساتھ امریکہ کے فوجی و سکیورٹی معاہدات ہیں جو ایک طرف یونین پر امریکی اثر و رسوخ کو بڑھاتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان ممالک کو یونین کی علیحدہ فورس بنانے کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔
4) امریکہ دنیا میں زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہےاور یہ چیز یورپ کو امریکہ پر انحصار کرنے پر مجبورکرتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا تیسری دنیا کے ممالک کے حکمرانوں پر گہرا اثر و رسوخ بھی دنیا بھر کی تجارت اور دوسرے معا ہدات میں یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے غلبے کو یقینی بنا تا ہے۔
ان وجوہات کی بناہ پر امریکہ کا یورپ پر پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے گو کہ امریکہ خود بھی شدید اقتصا دی بحران کا شکار ہے۔ امریکہ میں بھی بے روز گاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے تیس ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ ساڑھے چار کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں مگر دو وجوہات کی بنیاد پر امریکہ کی ریاست کو یورپی یونین کے مقابلے میں ٹوٹنے کا خطرہ نہیں۔
1) امریکہ کی فیصلہ سازی یورپی یونین کی طرح 28 ممالک میں تقسیم نہیں بلکہ تمام فیصلے واشنگٹن ڈی سی میں ہی ہوتے ہیں۔ یہ امر اُس کی سیاسی طاقت کو تقسیم نہیں ہونے دیتا۔
2) امریکہ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کوئی نظریاتی ریاست فی الحال موجود نہیں۔
اس کے باوجود یورپ جب اور جہاں موقع پائے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ امریکہ نے جب چا ہااقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے اپنے مفادات اور منصوبوں کے مطابق قرار دار کو پاس کروا لیتا چاہے وہ کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگانے کا معاملہ ہو یا کسی ملک پر حملہ کرنے کا۔ مگر2003ء میں فرانس اور جرمنی نے عراق کے خلاف سکیورٹی کونسل کو امریکہ کی حمایت کرنے اور دنیا کو عراق پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھا ہونے سے روک دیا۔ فرانس نے با لخصوص ایسی مہم چلائی کہ ایک طرف تو سکیورٹی کونسل نے امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ جب امریکہ نے اکیلے ہی عراق پر چڑھائی کی تو فرانس نے امریکہ کو ایک ایسی ریاست کے طورپر مشہور کیا جو بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہے اور اپنے غرور میں کسی اصول اور ضابطے کی پر واہ نہیں کرتی۔ اس طرح پوری دنیا میں امریکہ کا image متاثر ہوا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ گو کہ امریکہ نیٹو کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے مگر بعض یورپی ممالک اہم مواقع پر اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے، واپس بلوا کر یا فوجیوں کو نہ بھجوا کر اہم مہمات میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے نیٹو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں۔ عراق کے خلاف جنگ میں برطانیہ کے علاوہ کوئی دوسرا یورپی ملک شامل نہ ہوا۔ جبکہ افغانستان کے خلاف جنگ میں گو کہ یورپی ممالک شروع میں نیٹو کے پلیٹ فارم سے امریکہ کے ساتھ شامل تھے لیکن پچھلے چار سے پانچ سالوں میں یورپی ممالک کی اس حمائت میں واضح کمی آئی ہے بلکہ کئی ممالک نے تو اپنی پارلیمنٹ سے منظوری نہ ملنے کے بہانے کو استعمال کرتے ہوئے سرے سے فوج بھیجنے سے ہی انکار کر دیا جبکہ برطانیہ سمیت چند ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنے فوجیوں کی تعیناتی افغانستان کے اُن اضلاع میں کرواتے ہیں جہاں طالبان کا خطرہ کم سے کم ہے اور خطر ناک علاقوں میں زیادہ تر امریکی افواج کو ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ میں نیٹو افواج کی بجائے امریکی افواج کی اموات زیادہ ہیں۔
یورپ عام طور پر امریکی انتخابات والے سال بھی امریکہ کے لیے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ تمام امریکی حکومتیں انتخابات والے سال کسی نئے مسئلہ یا تنازع میں الجھنا نہیں چاہتیں تاکہ آنے والے انتخابات میں اُن کی ساکھ متاثر نہ ہو اور اس صورت حال کا فائدہ مضبوط یورپی ممالک اٹھاتے ہیں اور انتخابات والے سال مختلف انداز سے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
اس ساری گفتگو سے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کے تمام علمبرداروں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ یہ تمام ممالک ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود جس نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) پر یقین رکھتے ہیں وہ ان میں صرف مادیت اور منفعت کے حصول کی لالچ ہی پروان چڑھاتی ہے اور اسی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے بھی صرف فائدے کی بنیاد پر ہی رشتہ استوار کرتے ہیں اور فائدے کے حصول کی خاطر یہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے سے بھی نہیں چوکتے اور ان کے دل آپس میں ٹکراتے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کے لوگوں کو باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) سے پھوٹنے والے ظالمانہ اور استحصالی نظام کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ وہ نظام جو خود شدید مشکلات کا شکار ہے اور ان ممالک کی بنیادوں میں شدید کمزوریاں پیدا کرچکا ہے۔ آج اگر کمی ہے تو صرف ایک ایسی ریاست کی جو حق نظریہ حیات (آئیدیالوجی) کی بنیاد پر وجود میں آئے اور ان کی کمزوریوں کو سیاسی بصیرت کے ذریعے مکمل ناکامی میں بدل دے۔ آج پوری دنیا کو ریاست خلافت کی ضرورت ہے جو اسے کفر کے اندھیرے سے نکال کر حق کے نور کی طرف لے جائے۔ ان کے آپس کے اختلافا ت اور ان کے نظام کو بار بار بحران سے دو چار ہوتا دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ کےاِذن سے قائم ہونے والی خلافت کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے۔ خلافت کے قیام سے پہلے ہی الحمد اللہ ان ممالک کے عوام اور کئی دانشو ر اور مفکرین اپنے نظام کی خامیوں کے خلاف احتجاج کرتے اور تحریر یں لکھتے نظر آتے ہیں لیکن بد قسمتی سے کسی دوسرے نظریہ حیات (آئیڈیا لوجی) کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی باطل نظام سے حل ڈھونڈھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن انشا ء اللہ خلافت کے قیام کے ساتھ ہی خلافت کی قیادت اور ہزاروں سیاست دان جو کہ تیار بیٹھے ہیں اسلام کی دی ہوئی ہدایت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے وہ اقدامات کریں گے جو انشا ء اللہ کفار کے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) کو مزید ناکامی سے دو چار کرنے اور اسلامی نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کو اس پر غالب کرنے میں زبر دست کامیابیاں سمیٹ سکیں۔
خلافت اپنے قیام کے ساتھ ہی مضبوط میڈیا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے شباب چاہے وہ یورپ میں ہوں امریکہ، مشرقی وسطیٰ یا کہیں بھی، کے ذریعے سر مایہ دارانہ نظام کی غلاظت اور باطل فکر کو دنیا کو لوگوں پر بے نقاب کرے گی اور اسلامی ریاست کے اندر اسلام کے قوانین اور نظاموں سے پیدا ہونے والے ثمرات اور خوشحالی کی تصویر انہیں دکھائے گی جو یقیناً ان لوگوں میں آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے نظام کے خلاف نفرت بھی پیدا کرے گی اور یاد رہے کہ اس سے پہلے سوویت یونین بھی ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ایسا کر چکا ہے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوویت یونین کے پرو پیگنڈا نے ہی ان ریاستوں کومجبور کر دیا تھا کہ اپنی آئیڈیالوجی میں فلاحی ریاست (welfare state) کے تصور کا پیوند (patchwork) کریں تاکہ پرو پیگنڈا سے متاثر ہوتی عوام کو مطمئن کرسکیں۔
ریاستِ خلافت اپنی خارجہ پالیسی اور اسلام کے حکم کے مطابق دوسرے مسلم علاقوں کو اپنے اند ضم کرنے کا عمل تیز کرے گی اس عمل میں وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں اسلام کے حق میں موجود عوامی رائے عامہ، شباب اور اہل قوت میں ہونے والا کام انتہائی مدد گار ثابت ہوں گے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ میں شامل ممالک تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان علاقوں کو اسلامی ریاست اپنے اندر ضم کرنے کے بعد یہاں کے تیل اور گیس کے ذخائر کی براہ راست مالک ہوگی اور یہ چیز اسلامی ریاست کو دنیا کے باقی ممالک پر زبر دست برتری دلائے گی۔ اسلامی ریاست یورپ سمیت باقی دنیا کے وہ ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہونے کی وجہ سے غیر حربی ہیں تیل اور گیس فراہم کرنے کی پالیسی کے تحت امریکہ اور گنتی کے چند یورپی ممالک کے تسلط سے نجات دلائے گی اور ان کے کیمپ سے نکالے گی۔ اس کے لیے وہ ان ممالک سے مختصر مدتی معاہدات بھی کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ یورپ آج کے روس جو اب نظریاتی ریاست نہیں رہا، کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکا جب روس نے جار جیا اور یوکرائن کے خلاف جارحیت کی کیونکہ یورپ روس کی گیس کا محتاج ہے تو کل آنے والی نظر یاتی ریاست خلافت کی پھیلنے کی پالیسی (expansion policy) کے خلاف یورپ یا امریکہ کا برا ہ راست سامنے کھڑا ہونا اتنا آسان دکھا ئی نہیں دیتا اور اگر ایسا خطرہ ہوا بھی تو خلافت بھاری صنعت اور فوجی میدان میں تیز تر ترقی اور پہلے سے موجود زبر دست افواج اور ان میں موجود جذبہ جہاد کے ذریعے اس سے نپٹنے کے لیے تیار ہو گی۔
یہ اسلامی ریاست ہی ہوگی جو اِس وقت دنیا پر نافذ ڈالر کی حکمرانی کا خاتمہ کر دے گی کیو نکہ اسلامی ریاست ہی سونے اور چاندی کی کرنسی کا اجرا ء کرے گی۔ صرف یہی کرنسی آج ڈالر کی طلب کو کم کر سکتی ہے کیو نکہ دنیا خود بھی جانتی ہے کہ اصل دولت کاغذی کرنسی نہیں بلکہ سونا اور چاندی ہے۔ اسلامی ریاست اور خاص کر وسیع ہوتی اسلامی ریاست میں اس کرنسی کا نفاذ دنیا میں امریکہ اور ڈالر کی سیاسی اورمعاشی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچائے گا اور اس سے دنیا میں امریکی اثر و رسوخ کم کرنے میں زبر دست مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے اقدامات کے ذریعے امریکی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اس کی 30 ریاستوں کے اندر وفاق سے علیحدہ ہونے کی خواہش کے عمل کو بھی ہوا دی جا سکتی ہے۔ اگر یہ عمل بہت تیز نہ بھی ہو تو بھی امریکہ کی توجہ بیرونی محاذوں سے ہٹاکر اندرونی مسائل کی طرف موڑنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ دوسری طرف کئی مسلم علاقے جن میں آج امریکی اڈے موجود ہیں اور دنیا میں امر یکی بالادستی کا ذریعہ ہیں، اسلامی ریاست میں ضم ہو کر امریکی ٹھکانے نہیں رہیں گے۔ امریکہ سے اس کے اڈوں کا اس طرح چھن جانا دنیا پر اس کی بالا دستی کو انشا ء اللہ و اپسی کے سفر پر گامزن کر دے گا۔
دوسری طرف وہ غریب ممالک جو مسلم علاقے نہیں ہیں، اسلامی ریاست اپنی expansionپالیسی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو انتہائی آسان شرائط پر قرضے اور بعض اوقات محض امداد دے کر عالمی بینک، آئی۔ ایم۔ ایف اور امریکی تسلط سے نجات دلائے گی اور ان میں اسلامی ریاست سے ہمدردی اور دوستی کے جذبات پیدا کرے گی۔ اس طرح پوری دنیا کو باطل آئیڈیالوجی کے علمبردار وں سے آہستہ آہستہ کاٹنے کے عمل میں مدد ملے گی۔
یہ سارے اقدامات گو کہ زبر دست سیاسی بصیرت کے متقاضی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ آنے والی خلافت کی قیادت اسلام کی بنیاد پر حاصل ہونے والی اس سیاسی بصیرت کی حامل ہے اور اس قیادت کی نگرا نی میں تیار ہونے والے ہزاروں لاکھوں فرزندانِ اسلام پوری دنیا کو اسلام کے نور سے منور کرنے اور انسانیت کو ہدایت اور فلاح کے راستے پر گامزن کرنے کےلیے بے چین بیٹھے ہیں۔
اللہ ربّ العزت اس قیادت اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

Read more...

خبر اور تبصرہ فوج اور حکومت کے درمیان خفیہ رسہ کشی

خبر:

پاکستان میں جاری سیاسی بحرا ن اس وقت سے طول پکڑتا جا رہا ہے جب گزشتہ ہفتے کے دن یعنی 23 اگست 2014 کو حکومتی نمائندوں اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کا تیسرا دور کسی پیش رفت کے بغیر اختتام کو پہنچا۔ تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو 30 دن کے لیے استعفی دینا چاہیے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات ہو سکیں۔اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور اپنے حمایتیوں سے کہا کہ اس مطالبے کے پورا ہو نے تک ملک کے طول و عرض میں دھرنے جاری رہیں گے۔
تبصرہ:
1 ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ اسلامی ممالک جن میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل ہیں جو عرب بہارکا شکار ہوئے اب تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکے۔ اسی طرح بعض تجزیہ نگار یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ممالک، جہاں یہ بہار نہیں پہنچی، محفوظ ہیں اور وہاں کے رہنے والے اپنے حکمرانوں کے ساتھ خوش و خرم رہ رہے ہیں جو اگر چہ کسی بھی طرح اپنے ان ہم عصر حکمرانوں سے کم ظالم نہیں جو عرب بہار کا چکار بنے تھے۔ تا ہم یہ دونوں قسم کے تجزیہ نگار غلطی پر ہیں۔ بہت سے ممالک میں اگر چہ ہنگامے نہیں پھوٹے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے لوگ اپنی حکومتوں اور نظام سے راضی ہیں۔ حالات کسی بھی ایسی جماعت یا عوامی رہنما کے لیے بالکل تیار ہیں جو ان حکمرانوں کو برطرف کرنے میں عوام کی قیادت کرے، خواہ وہ لیڈر امت کی اسلامی شناخت کا مظہر نہ ہو اور نہ ہی ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کیے جائیں جیسا کہ عمران خان اور طاہر القادری۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام بھی خود پر مسلط نااہل حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے اسی قدر بے چین ہیں جس قدر کہ عرب بہار کے ممالک میں موجود ان کے مسلمان بھائی۔
2 ۔ پاکستانی عسکری قیادت میں موجود غداروں اور ان کے پشت بان امریکہ نے عوام اور افواج میں موجود ان جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ لوگوں کی توجہ وزیرستان کے مجرمانہ آپریشن سے ہٹا دی جائے جس کا مقصد افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام خائن سیاسی اور عسکری قیادت کے اختلافات کی بحث میں مشغول ہو جائیں جو اپنے آقا امریکہ کی خدمت پر متفق ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت وزیرستان آپریشن کے بارے میں متفق نہیں ہے۔ درحقیقت دونوں کے اپنے سیاسی زرائع ہیں اور وہ دونوں انہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا عسکری قیادت میں موجود غداروں نے نواز حکومت اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان جذبات سے فائدہ اٹھایا تاکہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت کریں جس کو عوام اور فوج کا ایک بڑا حصہ مسترد کرتے ہیں، خصوصا درمیانی رینک کے افسران اور ان سے نیچے والے افسران اور جوان اور لڑنے والے سپاہی۔ اس کے علاوہ فوجی قیادت میں موجود غدار یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے ان کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور صورتحال کی ذمہ داری نواز شریف پر ڈالی جائے تاکہ اس آپریشن کے خلاف فوج میں موجود غصے کا رخ ان کی جانب سے نواز شریف کی جانب مڑ جائے۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ اپنے امریکی آقا کا شکر گزار ہے کہ اس نے اسے تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر اقتدار دلوادیا ہے اس لیے وہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
3 ۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی جماعتوں کی پشت پناہی کی تاکہ حکومت کے خلاف عوام اور فوج میں موجود لوگوں کے جذبات کو استعمال کیا جائے تا کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور اپنے خلاف موجود غصے کا رخ حکومت کی جانب پھیر دیا جائے۔ فوجی قیادت میں موجود غدار فوج کے سامنےایسا ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت نے تحریک طالبان سے مذاکرات پر اصرار کیا جبکہ عسکری قیادت میں موجود غدار فوجی آپریشن شروع کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ نواز شریف نے انتہائی نازک موقع پر اس آپریشن کے حق میں اپنی حمائت فراہم کی لیکن اس کے ساتھ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے اس جانب بھی افواج کی توجہ مبذول کروائی کہ حکومت سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ڈرا دھمکا رہی ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہےاور خاص طور پر وزیر دفاع خواجہ آصف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے خاص طور پر حکومت کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ یہ وہ سارے اسباب ہیں جن کی وجہ سے فوجی قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی پارٹیوں کے ذریعے حکومت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیاہے۔ اس کے بعد امید ہے کہ حکومت سبق حاصل کر لے گی اور اسی سمت میں چلے گی جس کی جانب فوجی قیادت چلانا چاہتی ہے۔ لیکن امت بدستور اس حقیقی قیادت کے انتظار میں ہے جو ان امریکی ایجنٹوں کی سرکوبی میں اس کی قیادت کرے گی اوران پر ان کے رب کی شریعت کو خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے سائے میں نافذ کرے گی اور بے شک اللہ کے اذن سے بہت جلد ایسا ہی ہونے والا ہے۔

یہ تبصرہ ابوعمر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا ہے۔

Read more...

ضرب عضب رسول اللہ ﷺ کی مبارک تلوار نہیں ہے بلکہ امریکہ و بھارت کے تعلق کو مضبوط کرنے کا نام ہے

 

تحریر: خالد صلاح الدین
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپریشن ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہی تسلسل کا نام ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو امریکہ نے 11ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے کے بعد شروع کی۔ جنرل مشرف نے ایک پالیسی فیصلہ کیا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اس امریکی جنگ میں شامل ہونا ہے۔ اب وہی مشرف پاکستانی عدالتوں میں انتہائی غداری کے مقدمات کا سامنا کررہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان آرمی کی براہ راست شمولیت سانحہ لال مسجد کے ساتھ شروع ہوئی۔ اب جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ اس سے قطعی مختلف ہیں جو اس وقت غدار مشرف نے میڈیا پر پھیلائے تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ لال مسجد آپریشن میں مسلمان عورتوں اور بچوں کے مقدس خون سے رنگے تھے۔
مشرف نے پاکستان کے عوام کے سامنے عموماً اور افواج پاکستان کے سامنے خصوصاً یہ تصویر پیش کی تھی کہ لال مسجد کے مولانا امن معاہدے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور اس وجہ سے تشدد کا راستہ مجبوراً اختیار کرنا پڑا۔ امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری لال مسجد میں موجود لوگوں پر ڈالی گئی اور ایک بھر پور فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی جس کو سول سوسائٹی، میڈیا، تجزیہ کاروں اور اسٹبلشمنٹ کے لبرل حلقوں کی حمائت حاصل تھی۔ آپریشن کے سات سال بعد سامنے آنے والے حقائق مشرف کو اس جرم کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں اور ایسا بالکل صحیح بھی ہے۔ لال مسجد کمیشن نے کہا کہ "رضا کارانہ گواہی دینے والوں اور عدالتی گواہان کے بیانات سے یہ بات واضح ہے کہ اموات سے بچا جاسکتا تھا.....انہوں نے پرویز مشرف کو جو کہ اس وقت صدارت کی کرسی پر براجمان تھے، اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا"(1)۔
واقعات کا تھوڑا سا پس منظر جاناا ضروری ہے کیونکہ لوگوں کو دھوکہ دینے کی اس پالیسی کو اگلی ایک دہائی تک مشرف کے بعد آنے والوں نے بھی جاری رکھا تا کہ امریکی پالیسی مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔ مسلسل ہونی والی پرتشدد کاروائیوں کا ذمہ دار اسلامی انتہا پسندوں کو قرار دیا گیا ، امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری دہشت گردوں پر ڈالی گئی اور فوجی آپریشن شروع کیے گئے جس نے افواج پاکستان کو ایک انتہائی مشکل صورتحال میں ڈال دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی فوجی آپریشن کا مقصد امن کا قیام کبھی بھی نہیں تھا۔ ہر بار یہ بات ثابت ہوئی کہ فوجی قیادت میں موجود غدار اور امریکہ قبائلی علاقوں میں امن یا استحکام کے قیام کے لیے نہ ہی سنجیدہ تھے اور نہ ہی ان کا یہ ارادہ تھا۔درحقیقت دونوں کا کردار تنازعہ کو برقرار رکھنے اور امن مذاکرات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی رائے عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لئے استعمال کرنے اور جنوبی ایشیاء میں امریکی ایف-پاک پالیسی کو افواج پاکستان کی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے نافذ کرنا تھا۔
اس کے بعد 2009 میں سوات میں راہ راست فوجی آپریشن کیا گیا۔ ایک بار پھر اس آپریشن کو شروع کرنے سے پہلے ایک نام نہاد امن معاہدہ سوات کے صوفی محمد اور حکومت پاکستان کے درمیان کیا گیا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد ایک لڑکی کو کوڑے مارنے اور ایک فوجی کے سر قلم کرنے کی وڈیو جاری ہوئی جس نے ایک اور فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی۔ زمینی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ فوجی و سیاسی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی نہ تو امن معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی اس کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اس بات کا ثبوت اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکی سیکریٹری خارجہ ہلری کلنٹن کی مارچ 2010 میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس ہے جس میں ہلری کلنٹن نے کہا : "آپ نے سوات کا معاہدہ کیا ہے؟ یہ تو شکست کی مانند ہے"۔ شاہ محمود نے کہا : "رکیے، رکیے۔ وہ ایک طریقہ کار ہے۔ ٹہریے۔ اس وقت تک ٹہریں جب تک آپ نتائج نہ دیکھ لیں۔ اور ہم نے نتائج دِکھا دیے ہیں"(2)۔
اکثر امن معاہدوں کا یہی حشر ہوا۔ شمالی وزیرستان کے نیک محمد وزیر نے اپریل 2004 میں شکئی امن معاہدے پر دستخط کیے لیکن اسے جون 2004 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا(3)۔ جنوبی وزیرستان کے بیت اللہ محسود نے فروری 2008 میں امن معاہدے پر دستخط کیے۔ اس نے ایک لیفلٹ جاری کیا جس میں اس نے اپنے ساتھیوں کو پاکستان میں حملے کرنے سے روک دیا تھا کیونکہ امن مذاکرات جاری تھے۔ اس کو بھی اگست 2009 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا(4)۔ اسی طرح مئی 2013 میں ایک اور ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے نائب سربراہ ولی الرحمان کو ہلاک کردیا گیا جس کی شہرت یہ تھی کہ وہ طالبان میں امن کی سوچ رکھنے والوں میں سے ہے۔ اس ڈرون حملے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ "اس ڈرون حملے میں امن کا حامی سمجھے جانے والے ولی الرحمان کے قتل کا بدلہ لینے کے نتیجے میں ہمارے سپاہی قتل اور زخمی ہوئے! یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے"(5)۔ اس حملے کے کچھ ہی عرصے کے بعد نومبر 2013 میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو اس وقت ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا جبکہ اس کے اور حکومت پاکستان کے درمیان امن مذاکرات جاری تھے(6)۔ اسی مہینے میں حقانی نیٹ ورک (جس کی وجہ شہرت افغانستان میں امریکی افواج پر حملےہے ) کے ترجمان نصیر حقانی، جو جلال الدین حقانی کے بیٹے بھی تھے، کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا(7)۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ضرب عضب کسی بھی پچھلے فوجی آپریشنوں سے کوئی مختلف آپریشن ہے اور اس سے کوئی نیا نتیجہ برآمد ہوگا تو وہ تاریخ اور حقائق کو جانتا ہی نہیں ہے۔ ضرب عضب کے باضابطہ اعلان کے بعد جو پہلا فضائی حلہو کیا گیا وہ دتہ خیل ڈسٹرکٹ پر تھا جو کہ مشہور طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کا علاقہ تھا جس میں 140 مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا(8)۔ حافظ گل بہادر نے 2006 میں پاکستان آرمی کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس وقت سے اس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس نے امن معاہدے کی پاسداری کی اور اپنی توجہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج پر حملے کرنے پر مرکوز رکھی۔ ضرب عضب کا باضابطہ اعلان 15جون 2014 کو کیا گیا تھا اور اس وقت سے 23 جون تک حافظ گل بہادر نے امن معاہدے کو توڑنے کا اعلان نہیں کیا جبکہ اسی دوران دتہ خیل، میران شاہ، میر علی اور شوال وادی میں ہونے والے حملوں میں قبائلی بہت بڑی تعداد میں مارے گئے تھے(9)۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے ایک دہائی سے جاری امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بار پھر ایک نام نہاد امن معاہدے کو عملی تعبیر دینے کی اجازت دی جس کو عملی جامہ راحیل۔نواز حکومت نے پہنایا تاکہ مذاکرات کے دھوکے میں امریکی ایما ء پر ایک اور فوجی آپریشن کیا جائے جس کی تیاری جنوری 2014 سے ہی شروع کردی گئی تھی(10)۔
امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری طالبان پر کس طرح ڈالی جاسکتی ہے جبکہ شمالی وزیرستان میں ایک بھر پور آپریشن کی تیاریاں چھ مہینے پہلے سے ہی جاری تھیں؟ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا معاملہ بھی کسی طرح سوات، جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں ہونے والے آپریشنوں سے مختلف نہیں ہے۔ ہر امن معاہدے کے دوران مذاکرات کے لئے اختیار کیا جانے والا غیر سنجیدہ رویہ اس بات سے واضح تھا کہ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی مذاکراتی ٹیم بے اختیار ہوتی تھی جس میں اہم سیاسی جماعتوں میں سے کسی کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی افواج پاکستان کا کوئی نمائندہ ان میں موجود ہوتا تھا۔ شمالی وزیرستان میں امن مذاکرات حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے چلائے لیکن پھر اچانک آپریشن کے آغاز کا اعلان آئی۔ایس۔پی۔آر کی جانب سے کیا جاتا ہے نہ کہ وزیر اطلاعات کی جانب۔ اہم ترین اپوزیشن جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف (تحریک انصاف قبائلی علاقوں سے منسلک صوبے خیبر پختون خواہ میں حکومت میں ہے) نے واضح طور پر اعلان کیا کہ انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ جلد ہی فوجی آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ لیکن آپریشن شروع ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو کھل کر اس آپریشن کی حمائت کا اعلان کرنا پڑا کیونکہ اصل اختیار والوں نے تو آپریشن شروع کر ہی دیا تھا(11)۔ ضرب عضب آپریشن شروع کرنے کے لئے درکار عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے 8 جون 2014 کو کراچی ائرپورٹ پر ہونے والے انتہائی تباہ کن حملے کو استعمال کیا گیا۔ اس حملے کے اختتام سے قبل ہی اس کا ذمہ وزیرستان پر ڈال دیا گیا۔ سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اس تباہ کن حملہ کی منصوبہ بندی شمالی وزیرستان میں موجود ازبک جنگجوؤں اور پاکستانی طالبان نے کی ہے(12)۔
کراچی ائرپورٹ پرحملے سے صرف تیس دن قبل، 7 مئی 2014 کو جوئیل کاکس، جس کو امریکی دفتر خارجہ نے ایف۔بی۔آئی ایجنٹ قرار دیا، کو کراچی ائرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ایس۔ایس۔پی ملیر کینٹ کے مطابق اس کے قبضے سے 9ایم ایم کی پندرہ گولیاں میگزین سمیت تین خنجر، جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والا کیمرہ اور دیگر آلات برآمد ہوئےتھے(13)۔ آخر کیوں پاکستان میں موجود ایجنسیوں نے ایک غیر ملکی ایجنسی کے ایجنٹ کا کراچی ائرپورٹ حملے سے کوئی تعلق جاننے کی کوشش نہیں کی؟ جبکہ اس کی جگہ وزیرستان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دینے کے لئے کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور تباہ کن فضائی حملے شروع کردیے گئے۔ یہ پہلا واقع نہیں ٍہے جہاں پاکستانی ایجنسیوں نے اس قسم کے ایک واقعہ کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ جولائی 2014 کو اسلام آباد ائر پورٹ سے ایک اور امریکی سکو رٹی ٹریرن گرفتار ہوتا ہے لیکن اسے بھی جلد ہی رہا کردیا گیا(14)۔ یہ بات قابل یاد دہانی ہے کہ اس سے قبل 27 جنوری 2011 کو ریمنڈ ڈیوس، ایک نجی ملٹری کنٹریکٹر کو اس بات کے باوجود رہا کردیا گیا کہ اس نے دن دہاڑے لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کردیا تھا۔ اب یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں کیا کررہا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے شرمناک کردار ادا کیا جو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی امریکی پالیسی سے وفاداری کا ثبوت تھا۔
شمالی وزیرستان میں ہونے والا فوجی آپریشن پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ ایک عرصے سے امریکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتا آرہا تھا۔ یہ مطالبہ اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا جب امریکی کانگریس نے افواج پاکستان کو ملنے والی 1.2ارب ڈالر کی فوجی امدادکو شمالی وزیرستان آپریشن سے مشروط کردیا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کے لیے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ اس امداد کو جاری کرنے کے لئے لکھ کر یہ دے کہ "پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشنز کیے ہیں جس کے نتیجے میں محفوظ ٹھکانوں اور حقانی نیٹ ورک کی نقل و حرکت کو کافی نقصان پہنچا ہے"(15)۔ عمران خان نے کانگریس کے اس نئے قانون کے متعلق کہا کہ "امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے لئے حکومت کو رشوت دے رہا ہے"(16)۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے متعلق میڈیا میں سب سے پہلے 24 جنوری 2014 کو خبریں آئیں کہ مارچ میں یہ آپریشن شروع ہوسکتا ہے(17)۔ جس کے بعد امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت 352 ملین ڈالر 12 فروری 2014 کو جاری کیے(18)۔ ضرب عضب شروع کیے جانے کے بعد امریکہ نے 2015 کے مالیاتی سال کے تحت 960 ملین ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت دینے کی منظوری دی(19)۔ اگر آپریشن ضرب عضب رسول اللہﷺ کی تلوار کے نام کی نسبت سے شروع کی گئی ہے تو پھر اس جنگ کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے امریکی ڈالروں سے کیوں لڑا جارہا ہے؟
لہٰذا یہ آپریشن امریکی جنگ کا ہی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس جنگ کا براہ راست فائدہ جہاں امریکہ کو پہنچتا ہے وہیں بھارت میں امریکہ کی نئی اتحادی مودی حکومت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ نواز راحیل-نواز حکومت کی موجودگی میں آپریشن ضرب عضب کی منصوبہ بندی جنوری 2014 میں کی گئی اور اس کو مارچ-اپریل 2014 میں شروع کیے جانے کا امکان تھا۔ لیکن بھارت میں ہونے والے 16 مئی 2014 کے انتخابات کی وجہ سے امریکہ نواز بی۔جے۔پی کی فتح تک اس آپریشن میں تاخیر کی گئی۔ صرف ایک ہفتے بعد 21 مئی 2014 کو پاکستان کے جیٹ لڑاکا طیاروں نے شمالی وزیرستان میں بمباری کی اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں 60 دہشت گرد ہلاک کردیے گئے۔ اس کے بعد جلد ہی شمالی وزیرستان میں فوج کی بھاری نقل و حمل شروع ہو گئی اور اس دوران طیارے دتہ خیل۔ میران شاہ، میر علی اور خیبر ایجنسی میں بمباری کرتے رہے۔ 2 جون 2014 تک پاکستان نے بھارتی سرحدوں پر تعینات اپنی افواج کا تقریباً ایک تہائی حصہ مغربی سرحد پر پہنچا دیا(20)۔ اس قدر بھاری نقل و حمل بھارتی افواج کے لئے زبردست فائدے اور سکون کا باعث بنا ۔
یہ نقل و حرکت ایک منصوبے کا حصہ تھی۔ یہ اس منصوبے کا حصہ تھا جس کے تحت افواج پاکستان کی تمام تر توجہ کا مرکز دشمن بھارت سے موڑ کر قبائلی علاقوں میں موجود امریکہ کے دشمنوں کی جانب کردیا جائے۔ جنوری 2013 میں جنرل کیانی نے افواج پاکستان کی مشہور 'سبز کتاب' میں ایک نئے ڈاکٹرائن کا اعلان کیا۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق افواج پاکستان کے ہدف میں تبدیلی کی گئی اور بھارت کی جگہ اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی توجہ بھارت کی سرحدوں سے ہٹا کر افغانستان کی سرحد کی جانب کردی۔ لیکن پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کا جواب بھارت نے بالکل مختلف طریقے سے دیا۔ بھارت نے پاکستان کو اپنی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن سمجھنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور اس نے پاکستان کی سرحدوں پرتعینات اپنی افواج میں کوئی کمی نہیں کی۔ لیکن بھارت میں امریکہ نواز مودی کے اقتدار میں آجانے کے بعد اس بات کی بنیاد ڈال دی گئی ہے کہ بھارت کو یہ یقین دہانی کرادی جائے گی کہ پاکستان اب اس کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں رہا۔ یہ یقین دہانی پاکستان آرمی کی اعلٰی قیادت نے اپنے اعمال اور بیانات کی صورت میں کرادی ہے جیسا کہ :
پہلی یقین دہانی: بھارتی سرحدوں سے افواج کے بڑے حصے کو افغان سرحد پر منتقل کیا جانا جو کہ ایک اہم سٹریٹیجک تبدیلی ہے۔
دوسری یقین دہانی: عوامی سطح پر سٹریٹیجک گہرائی کو رد کردینا اور اور ان لوگوں کا مذاق اڑایا جانا جو افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی کی حمائت کرتے ہیں جس میں راحیل شریف کے سابقہ باس اشفاق پرویز کیانی بھی شامل ہیں۔ افغانستان کو پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی سے نکال دینے سے بھارت کو اس بات کا موقع ملا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لئے سرمایہ کاری کرے۔
تیسری یقین دہانی: راحیل شریف کی جانب سے مرکزی تجارتی راہ داری کی صورت میں معاشی یقین دہانی تا کہ بھارت کو معاشی فوائد پہنچائیں جائیں۔
لہٰذا بھارت کو راستہ فراہم کرنے کے لئے امریکی منصوبے کے تحت پاکستان نقصانات اٹھا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے 80 ہزار فوجیوں کو بھیجا گیا ہے جبکہ 40 ہزار فوجی اس علاقے میں پہلے سے موجود تھے(21)۔ اس امریکی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو براہ راست 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع خلاء میں مزید اضافہ ہو گیا(22)۔ سابق ائر وائس مارشل شہزاد چوہدری نے کہا کہ "جبکہ بھارت اپنے ہتھیاروں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے بے دریغ خرچ کررہا ہے لیکن ہمارے معاملات بہت زیادہ پھیل چکے ہیں کہ ہم کوئی اہم ہتھیار بھی نہیں خرید سکتے۔ ہم مال کی کمی کے باوجود یہ جنگ لڑ رہے ہیں"(23)۔ بڑے بڑے منصوبے یا تو سست روی کا شکار کردیے گئے ہیں جیسا کہ JF-17جنگی طیارہ یا ان کو ختم ہی کردیا گیا ہے جیسا کہ جرمنی سے نئی آبدوزوں کی خریداری(24)۔ فوجی قیادت میں موجودغداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی یقین دہانیاں براہ راست امریکہ کو مدد فراہم کریں گی کہ وہ بھارت کو اس بات کا یقین دلا سکے کہ اس کو اب پاکستان کی صورت میں روایتی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس خطے میں افواج پاکستان نہ صرف بھارت کے لئے براہ راست خطرہ ہیں بلکہ افواج پاکستان جہادی گروہوں کو استعمال کر کے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود دفاعی عدم موافقت کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن اب جنرل راحیل شریف گیاری سیکٹر کی شہدوں کی قبروں پر کھڑے ہو کر بھارت کو یقین دلاتا ہے کہ وہ ان جہادی گروپوں کا خاتمہ کر کے چھوڑے گا۔سیاچن میں کھڑے ہوکر بھارت کو یقین دہانی کرانے کے لئے جاری ہونا والا یہ ایک انتہائی اہم اور مضبوط بیان ہے ۔
امریکہ اور پاکستان کی فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ یک زبان ہو کر پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی کی پالیسی سے دستبردار ہونے کا اعلان کررہے ہیں تا کہ بھارت کے لئے افغانستان میں راہ ہموار کی جائے۔ 21 جون 2014 کو امریکہ کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھارتی چینل NDTVسے بات کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان کا سٹریٹیجک گہرائی کا تصور اب مردہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کا افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی حاصل کرنے کی کوشش غلط ثابت ہوئی اور اب ملک کو اپنی تمام تر قوت کو عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے مرکوز کرنے کی ضرورت ہے"(25)۔ اسی طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ "ہم افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی چاہتے ہیں مگر اسے کنٹرول نہیں کرنا چاہتے اور پر امن اور دوست افغانستان پاکستان کو سٹریٹیجک گہرائی فراہم کرسکتا ہے"(26)۔ 28جون 2014 کو جنرل راحیل شریف نے سیاچن گلیشیر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے گیاری سیکٹر میں شہداء کی یادگار پر پھول چڑھائے اور ان افسران اور سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے ملک کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں اور کہا کہ "فوج تمام تر خطرات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے"(27)۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے آپریشن کی نوعیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کی ابتداء ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج 'اچھے اور برے طالبان' کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرے گی اور فوج کے لئے تحریک طالبان کے مختلف گروہوں اور حقانی نیٹ ورک میں کوئی فرق نہیں ہے.....فوج ان تمام کا خاتمہ کردے گی"(28)۔ 28 مئی 2014 کو راحیل شریف نے خاص طور پر مرکزی تجارتی شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کیا جو کہ 714 کلومیٹر طویل سڑکوں کا ایک نیٹ ورک ہے جس کے تحت پاکستان کی انڈس ہائی وے اور وزیرستان کی ایجنسیوں کو افغان رنگ روڈ کے ساتھ منسلک کردیا جائےگا(29)۔
آپریشن ضرب عضب کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ تمام یقین دہانیاں مودی کو اس بات کا موقع فراہم کرتیں ہیں کہ وہ چین کو گھیرا ڈالنے کی امریکی پالیسی میں بھارتی کردار کی ادائیگی کو شروع کرے۔ 19 مئی 2014 کو بی۔بی۔سی عربی پر ایک مضمون "نقطہ نظر: مودی کس طرح امریکہ-بھارت تعلقات پر اثر انداز ہو گا؟" شائع ہوا۔ اسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں لیزا کیرٹیس کا مضمون "مودی کے ساتھ کام کرنا" شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ "نئی دہلی اور واشنگٹن ایک جیسے سٹریٹیجک اہداف رکھتے ہیں چاہے اس کا تعلق دہشت گردی سے ہو، سمندری راستوں کو کھلا رکھنا ہو یا ابھرتے ہوئے چین کو دھمکانا ہو۔ خاص طور پر بی۔جے۔پی کی چین کو دھمکانے کی پالیسی میں دلچسپی امریکی اہلکاروں کو اس بات کو موقع فراہم کرے گی کہ وہ ان کے ساتھ قربت کے ساتھ کام کریں"۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے مودی کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی جب اس نے مودی کو فون کال کی اور انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی۔ اوباما نے کہا کہ وہ مودی کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہے تا کہ غیر معمولی امریکہ بھارت سٹریٹیجک دوستی کے وعدے کو پورا کیا جائے۔ ستمبر میں مودی کی اوباما سے ملاقات طے ہوچکی ہے۔
لہٰذا شمالی وزیرستان آپریشن پاکستان کے مفادات کو سنگین نقصان پہنچا کر امریکہ اور بھارت کے اتحاد کو زبردست فائدہ پہنچا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود راحیل-نواز حکومت ہندو مشرکین کو ہمارے مفادات پر بالادستی دلوانے کے لئے کام کررہی ہے جن سے ہمیشہ ہیںت زبردست نقصان ہی پہنچا ہے چاہے وہ کشمیر پر قبضہ ہو یا سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنا ہو اور آج بھی افغانستان میں قائم اس کے سیکڑےوں قونصل خانے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ حکومت ہم پر ہندو کی سیاسی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کام کررہی ہے جبکہ آج اس خطے میں مسلم امت تعداد اور صلاحیت کے لحاظ سے بھی ہندو مشرکین سے بڑھ چکی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کی ہے ناکہ ہندو مشرکین نے۔ حکومت ہم پر ہندو کی معاشی بالادستی کو قائم کرنے کےلئے کام کررہی ہے جبکہ امت زبردست انسانی و مادی وسائل سے مالا مال ہے اور صدیوں تک دنیا کی معاشی ترقی میں انجن کا کام کرتی رہی ہے۔ اور یہ حکومت ہم پرہندو کی فوجی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کام کررہی ہے جبکہ اس امت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں اتنی بڑی فوج ہے جو تعداد اور اپنی بہادری میں ہندو فوج سے کئی گنا بڑی ہے اور صدیوں تک ایک کے بعد دوسری جنگ جیتی رہی ہے ان حالات میں بھی جب کبھی دشمن ہمارے سے کئی گنا زیادہ بڑا بھی تھا۔ بجائے اس کے کہ امت کو اس بات کی دعوت دی جائے کہ ہم ایک اسلامی ریاست خلافت کے سائے تلے طاقتور امت کے طور پر اٹھیں۔ راحیل-نواز حکومت ہمیں کفر کی بالادستی کو ہم پر قائم کرنے ، شکست خوردہ ذہنیت اختیار کرنے اور خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کی دعوت دے رہی ہے۔ ہماری صورتحال صرف اسی صورت میں بہتر ہوسکتی ہے جب ہم ایک امت، ایک ریاست کے طور پر، ایک حکمران کی زیر نگرانی کھڑے ہوں جو ہم پر دین اسلام کو نافذ کرے اور اسلام کو پوری دنیا تک پہنچائے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ امت خلافت کو دوبارہ قائم کرے تا کہ مسلمان ایک بار پھر وہی حیثیت حاصل کرسکیں کہ پوری انسانیت اسلام کے نور سے فیضیاب ہوسکے جیسا کہ اس سے پہلے صدیوں تک ایسا ہوتا رہا ، چاہے ہندو مشرکین کو یہ کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ "اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو سچی ہدایت اور دین کے ساتھ بھیجا تا کہ اسے دیگر تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے" (التوبۃ:33)
حوالہ جات:


[1] http://tribune.com.pk/story/540741/probe-report-one-man-lal-masjid-commission-fails-to-apportion-blame/
[2] http://www.state.gov/secretary/20092013clinton/rm/2010/03/138996.htm
[3] http://en.wikipedia.org/wiki/Nek_Muhammad_Wazir
[4] http://en.wikipedia.org/wiki/Baitullah_Mehsud#cite_note-32
[5] http://tribune.com.pk/story/560646/imran-khan-tweets-slain-ttp-commander-waliur-rehman-pro-peace/
[6] http://tribune.com.pk/story/625762/another-drone-strike-kill-3-north-waziristan/
[7] http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-26603-Jalaluddin-Haqqanis-son-killed-in-Islamabad
[8] http://tribune.com.pk/story/722202/army-launches-operation-in-north-waziristan/
[9] http://www.nation.com.pk/national/23-Jun-2014/hafiz-gul-to-remain-in-peace-until-shawwal-10
[10] http://www.criticalthreats.org/pakistan/jan-what-you-need-to-know-north-waziristan-operation-june-19-2014
[11] http://www.thenews.com.pk/Todays-News-7-256751-Minister-tells-assembly-PTI-govt-not-consulted
[12]http://timesofindia.indiatimes.com/world/pakistan/Pakistan-kills-100-extremists-including-Karachi-airport-attack-mastermind/articleshow/36605712.cms
[13] http://www.dawn.com/news/1104901/
[14] http://tribune.com.pk/story/737360/us-citizen-arrested-for-carrying-weapon-at-islamabad-airport/
[15] http://www.dawn.com/news/1112121
[16] http://tribune.com.pk/story/721140/new-congress-legislation-us-bribing-govt-for-n-waziristan-operation-says-imran/
[17] http://tribune.com.pk/story/663142/waziristan-offensive-likely-in-march/
[18] http://tribune.com.pk/story/670568/unpaid-bills-us-releases-352m-under-csf/
[19] http://www.dawn.com/news/1114420
[20]http://www.dnaindia.com/world/report-pakistan-removes-third-of-army-s-border-deployment-1390778
[21]http://in.reuters.com/article/2014/06/17/uk-pakistan-airstrikes-offensive-idINKBN0ES1A620140617?feedType=RSS&feedName=southAsiaNews
[22]http://www.thenews.com.pk/Todays-News-2-219913-Dar-says-Pakistan-lost-$100-bn-in-war-on-terror
[23]http://www.thefridaytimes.com/beta3/tft/article.php?issue=20120608&page=2
[24]http://www.revolutionobserver.com/2014/06/who-benefits-from-zarb-e-azab-waziristan.html
[25]http://www.ndtv.com/article/india/full-transcript-hillary-clinton-to-ndtv-on-iraq-pm-modi-and-plans-for-2016-545348
[26] http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2010/02/01/AR2010020102506.html
[27] http://tribune.com.pk/story/728451/army-prepared-to-fight-against-entire-spectrum-of-threat-army-chief/
[28] http://www.criticalthreats.org/pakistan-security-brief/pakistan-security-brief-july-18-2014
[29] https://www.ispr.gov.pk/front/main.asp?o=t-article&id=95

Read more...

خبر اور تبصرہ پاکستان میں انقلاب کبھی بھی جمہوریت یا آمریت کے ذریعے نہیں بلکہ صرف خلافت کے ذریعے ہی آسکتا ہے

خبر: 14اگست 2014 کو دو اپوزیشن کی جماعتوں نے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارلحکومت لاہور سے آزادی اور انقلاب مارچ کا آغاز کیا ۔ ان مارچوں کا ہدف پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد تھا۔ اپوزیشن کی ان دونوں جماعتوں نے نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ ان جماعتوں نے اپنے حامیوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے دن گنے جاچکے ہیں جس کے بعد ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔
تبصرہ: ریاست پاکستان اسلام کے نام پر قائم کی گئی تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ اس نئی مملکت میں اسلام کے زیر سایہ زندگی بسر کرسکیں گے۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد سے اس کے امور و معاملات برطانوی راج کی جانب سے چھوڑے گئے کفریہ نظام کے مطابق چلائے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والے حکمران پاکستان کے مسلمانوں کے اس خواب کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ زندگی کے ہر میدان میں اسلام کا نفاذ ہو۔ جب جمہوری حکمران ناکام ہوئے تو فوجی آمروں نے مداخلت کی اور عوام کو یقین دلایا کہ وہ تبدیلی لائے گی جس کا ان کو ایک عرصے سے انتظار ہے۔ لیکن فوجی آمر بھی اسی رستے پر چلتے رہے جو برطانوی راج پیچھے چھوڑ گیا تھا یعنی حکمرانی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی بنیاد پر نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح جب فوجی آمر، لوگوں کی خواہش کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے تو ایک بار پھر جمہوری حکمرانوں کو لایا گیا اور انھوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ چونکہ اب جمہوریت آچکی ہے لہٰذا لوگوں کی خواہش ہی مقدم ہو گی۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی لوگوں کی اس خواہش کو پورا نہیں کیا ۔ اور اس طرح پچھلی سات دہائیوں سے کرسی کی تبدیلی کا کھیل جاری و ساری ہے۔
1947 سے جمہوریت و آمریت کا یہ تماشہ چل رہا ہے اور اب لوگ اس سے بیزار ہو گئے ہیں۔ 2011 سے تبدیلی کی شدید خواہش کو محسوس کیا جارہا ہے کیونکہ لوگ مشرف کی روشن خیال اعتدال پسندی اور زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے نتائج دیکھ چکے تھے۔ درحقیقت ان دونوں پالیسیوں کا مقصد حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور خطے میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ تھا۔ اور اب موجودہ جمہوری حکومت کی انتہائی ناقص کارکردگی کے بعد لوگ جمہوریت اور آمریت دونوں سے ہی سخت بیزار ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں، ایسی تبدیلی جو اسلام کی بنیاد پر ہو جہاں زندگی کے ہر شعبے میں اسلام نافذ ہو۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کے پاس ہی وہ طاقت ہے جو ان کے مسائل کو حل کرسکتی ہے چاہے وہ معاشی ہوں یا عدالتی، سیاسی ہوں یا فوجی۔
یہ صورتحال امریکہ اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔ امریکہ کے ایجنٹ اس وقت تبدیلی، حقیقی جمہوریت یا 1973 کے آئین کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں جس کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ دیکھنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ لوگوں نے بھی یہ بات محسوس کرلی اور اسی وجہ سے انہوں نے ان آزادی اور انقلاب مارچوں میں بڑی تعداد میں شرکت نہیں کی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ لوگ حزب التحریر کے پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں جو یہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں کو مسترد کرو اور اس خلافت کو قائم کرو جس کا آئین مکمل طور پر اسلام پر مبنی ہے۔
حقیقی تبدیلی یا انقلاب صرف اسی صورت میں آئے گا جب خلافت رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق قائم ہو گی۔ اور وہ طریقہ یہ ہے کہ کرپٹ نظام اور ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف سیاسی و فکری جدوجہد اور افواج سے نصرۃ طلب کی جائے۔ موجودہ کرپٹ نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی جو کہ اپنی بنیاد سے ہی کرپٹ ہے کیونکہ وہ انسانوں کا بنایا گیا ان برطانوی قوانین کا ہی تسلسل ہے جو ہم پر برطانوی استعماری دور میں مسلط کیے گئے تھے۔ ہم حقیقی تبدیلی کو صرف اسی صورت دیکھ سکتے ہیں جب حکمرانی کی بنیاد اللہ سبحانہ و تعالٰی کی وحی قرار دی جائے۔
وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللہُ إِلَيْكَ
"(اے محمدﷺ) آپ ان کے معاملات میں اللہ کے نازل کر دہ قوانین کے ذریعے ہی حکمرانی کریں، اوران کی خواہشات کی تابعداری ہرگز نہ کیجئے گا اور ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے اِدھر اُدھر نہ کردیں" (المائدہ:49)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ دوئم)

تین اقساط پر مشتمل اس مضمون کے دوسرے حصے میں عابد مصطفٰی مختصراً ان افکار کا جائزہ لیں گے جنہیں مفکرین عظیم طاقتوں، خصوصاً امریکہ کے انحطاط کو ثابت یا پیشگوئی کرنے کیلئےاستعمال کرتے ہیں۔ پھر عابد مصطفٰی آگے چل کر کہانی کے انداز میں نہضہ (نشاۃ ثانیہ)کے فہم اور بڑی طاقتوں کے انحطاط کو بیان کرتے ہیں۔

امریکہ کے انحطاط کے موضوع نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسا کہ سپر پاور کا انحطاط کیسا ہوتا ہے؟ کیا امریکی انحطاط صرف معاشرتی، معاشی اور سیاسی میدان تک محدود ہے یا یہ امریکی معاشرے اور تمدن کے ہر جزو کا احاطہ کرتا ہے؟ امریکی انحطاط کی رفتار کیا ہے؟ کیا امریکی انحطاط اتنا شدید ہے کہ یہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے؟ اگر امریکہ تباہ ہونے کے قریب ہے تو یہ تباہی وقتی ہوگی یا مستقل؟ اس طرح کے سوالات نے پچھلے اور موجودہ تاریخ دانوں کے اذہان کو گھیرے رکھا ہے۔
سپرپاور کے زوال کے بارے میں کچھ مصنفین نے دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ پول کینیڈی اپنی کتاب "عظیم طاقتوں کا عروج اور زوال" میں لکھتے ہیں: "بڑی طاقتوں کا عروج اور زوال ان کی صنعتوں کے شرح نمو (بڑھنے کی رفتار) اور ریاستی اخراجات کی جی ڈی پی کے مقابل قیمت ہے"۔ کینیڈی کہتا ہے: "اگر ریاست تزویراتی طور پر خود کو حد سے زیادہ بڑھا دے گی تو اسے یہ خطرہ اٹھانا پڑسکتا ہے کہ بیرونی پھیلاؤ پر مجموعی اخراجات، حاصل ہونے والے فائدوں سے تجاوز کر سکتے ہیں"۔ جارڈ ڈائمنڈ جو کہ مزید جدید مصنف ہے اپنی کتاب، Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed (سقوط: معاشرے کس طرح کامیابی یا ناکامی کا انتخاب کرتے ہیں) میں لکھتا ہے کہ معاشروں نے خود کو اپنے آپ ہی تباہ کیا کیونکہ انہوں نے قدرتی ماحول کی تحقیر کی۔
امریکی انحطاط کے مخصوص موضوع پر جارج پیکر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امریکی انحطاط امیر اور غریب کے درمیان معاشی فرق کی وجہ سے ہے۔ وہ کہتا ہے: "عدم مساوات معاشرے کو طبقاتی نظام میں جکڑ دیتی ہے، لوگوں کو ان کے پیدائشی حالات میں قید کر دیتی ہے جو کہ امریکی خواب کی سوچ کی نفی ہے۔ عدم مساوات شہریوں کے درمیان بھروسے کو زنگ آلود دیتی ہے اور ایسا تاثر دیتی ہے کہ جیسے کھیل میں دھاندلی ہوئی ہو۔ عدم مساوات وسیع اجتماعی مسائل کیلئے ٹھوس حل پیدا کرنے کی صلاحیت کو مجروح کر دیتی ہے کیونکہ وہ مسائل پھر اجتماعی نہیں لگتے۔ عدم مساوات جمہوریت کو کمزور کر دیتی ہے"۔ نیال فرگوسن اس بات کا قائل ہے کہ دنیا میں امریکی بالادستی میں کمی آہستہ اور مستقل نہیں ہوگی۔ وہ کہتا ہے کہ "سلطنتیں ایک پیچیدہ اور ڈھل جانے والے نظام کے طور پر برتاؤ کرتی ہیں، وہ کچھ انجانی مدت تک بظاہر توازن میں کام کرتی ہیں اور پھر ایک دم سے ڈھیر ہو جاتی ہیں"۔
گو کہ یہ تصورات انحطاط کے عوامل پر نظر ڈالتے ہیں، یہ عظیم طاقتوں کی تنزلی کا ڈھانچہ کھینچنے میں مددگار نہیں۔ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ایک ایسا ماڈل ہے جو نہ صرف انحطاط کو واضح کرے بلکہ عظیم طاقتوں کے زوال کو بھی رقم کر سکے۔ اس تناظر میں، اسلام ایک ایسا نمونہ دے سکتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال کا اندازہ لگائے۔
انحطاط کو سمجھنا، نشاۃ ثانیہ (revival) کو سمجھے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اس کو واضح کریں کہ نشاۃ ثانیہ سے ہمارا کیا مطلب ہے۔ اوکسفورڈ آن لائن ڈکشنری کے مطابق نشاۃ ثانیہ کا مطلب "کسی چیز یا شخص کے حالات، قوت یا قسمت میں بہتری ہے"۔ عیسائیت میں نشاۃ ثانیہ کا مطلب "جب پرہیزگاروں کی ایک اکائی خالق کے پیغام کا جواب دے" ہے۔لیکن نشاۃ ثانیہ کو اس زاویے سے دیکھنے کیلئے لسانی اور عیسائی تعریفیں نامکمل اور ناکافی ہیں۔
اسلام کے نقطہ نظر سے نشاۃ ثانیہ کی ایک مخصوص تعریف ہے اور اس کو یوں بیان کیا جاتا ہے "روحانی بنیاد پر فکری بلندی"۔ اس تعریف کی دو شرطیں ہیں اس سے پہلے کہ قوم کے نشاۃ ثانیہ کو مکمل اور درست تصور کیا جائے۔ ایک یہ کہ نشاۃ ثانیہ کی اساس آئیڈیالوجی یا مبداء(نظریہ حیات) پر ہو یعنی یہ انسان، حیات اور کائنات کے متعلق جامع فکر رکھتی ہو اور ان کے آپس میں تعلق کے بارے میں یعنی ما قبل اور ما بعد سے متعلق۔ یہ جامع فکر افکار اور نظاموں کے مجموعے کو جنم دیتی ہے جو زندگی کے ہر میدان کا احاطہ کرتے ہیں لیکن یہ جامع مبداء افکار اور نظاموں کے ساتھ صرف کتابوں اور الفاظوں میں موجود رہے گا جب تک ان کو زندہ کرنے کے لئے طریقہ موجود نہ ہو یعنی افکار اور نظاموں کو حیات بخشنے کے لئے۔ یہ صرف اس ہی وقت ممکن ہے جب طریقہ بھی جامع مبداء کی طرح ہو یعنی یہ طریقہ جامع مبداء سےہی پھوٹنا چاہئے۔ مثال کے طور پر شریعت کو جمہوریت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ فکری آئیڈیالوجی یعنی مبداء اور طریقہ سے عاری کوئی بھی چیز نشاۃِ ثانیہ کو ایک مخصوص علاقے میں محدود کردے گی مثلاً سنگاپور کو معروف مواصلات کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، جنوبی کوریاڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں سر فہرست ہے اور جب طویل فاصلے تک بھاگنے والوں کو پیدا کرنے کی بات کی جائے تو کینیا کو بہترین گردانا جاتا ہے۔ ان باتوں کے باوجود ان تینوں ملکوں کو مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ان کا نشاۃِ ثانیہ محدود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے آئیڈیالوجی یعنی مبداء کو اختیار کرنے میں ناکامی ہے۔ دوسرا، نشاۃِ ثانیہ کے لئے روحانی عنصر کا ہونا ضروری ہے یعنی یہ لازماًخالق کے وجود کا ادراک کرے۔ دوسرے لفظوں میں یہ جامع فکر خالق کے ادراک کی طرف رہنمائی کرے۔ یہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ نشاۃِ ثانیہ روحانی لحاظ سے درست ہے۔
اس وقت دنیا میں موجود تین آئیڈیالوجیز (مبادی) یعنی اسلام، مغربی سرمایہ داریت (لبرل جمہوریت) اور کمیونزم میں صرف اسلام ہی نشاۃِ ثانیہ کے لئے بیان کی گئی شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ ممالک جہاں مغربی سرمایہ داریت اور کمیونزم نافذ ہے نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر نہیں، بلکہ ان ممالک نے اپنی آئیڈیالوجی کی مدد سے نشاۃ ثانیہ کو حاصل کیا ہے، لیکن دونوں نشاۃِ ثانیہ باطل ہیں کیونکہ دونوں آئیڈیالوجیز روحانی پہلو کی انکاری ہیں۔ مغربی سرمایہ داریت خالق اور روز مرہ معاملات کے ساتھ اس کے تعلق کی انکاری ہے جبکہ کمیونزم خالق کے تصور کا سرے سے انکاری ہے۔
آج دنیا میں واحد درست آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اسلام شرط عائد کرتا ہے کہ انسان، حیات اور کائنات سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو تمام انسانیت کے لئے درست دین دے کر مبعوث فرمایا ہے۔ لہٰذا جو مسلمان پوری دنیا میں اسلامی طرز حیات کو زندہ کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں انہیں اسلامی آئیڈیالوجی کو فکر اور طریقہ دونوں کے طور پر پورے دل سے قبول کرنا ہوگا۔ صرف اس ہی صورت میں امت مسلمہ کو نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن کرنے کا سفر کامیاب ہوگا۔
جو بات ہم نے کی، اس کی بنیاد پر نشاۃِ ثانیہ کے تین واضح مرحلے ہیں: فکری ، سیاسی اور قانونی۔ فکری مرحلے میں فکری سوچ جامع تصور کو بناتی ہے جس کو پھر ان تصورات کے لئے بنیاد کے طور پر لیا جاتا ہے جو بنی نوع انسان کے مسائل کا حل ایک خاص نقطہ نظر سے دیں اور ان کے نفاذ کا طریقہ کار بھی فراہم کریں۔ اس مرحلے کے درمیان نئے تصورات معاشرے کے پرانے تصورات سے ٹکراتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان تصورات کی افادیت اور برتری کو معاشرے میں موجود فاسد افکار سے ممتاز کر دیا جائے۔ اس کے بعد سوچ کا سیاسی مرحلہ آتا ہے جہاں سیاسی سوچ کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ نئے تصورات کو معاشرے پر غالب کیا جائے اور موجودہ سیاسی اتھارٹی کے ساتھ تصادم کیا جائے تاکہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنے میں اس کی عدم قابلیت کو آشکار کیا جائے۔ اس مرحلے میں معاشرے کی موجودہ سیاسی قیادت ہٹا دی جاتی ہے اور نئی قیادت ظاہر ہوتی ہے جو نئی فکر کے نفاذ کی سرپرستی کرتی ہے۔ آخر ی یعنی تیسرے مرحلے میں جب نئے تصورات کے پاس سیاسی اتھارٹی اور قوت آجاتی ہے، تب قانونی سوچ توجہ کا مرکز بن جاتی ہے کیونکہ بیشمار مسائل کھڑے ہوتے ہیں اور قانونی سوچ انہیں حل کرتی ہے۔
جب قوم نشاۃِ ثانیہ حاصل کر لیتی ہے تو اسے برقرار رکھنا لازمی ہو جاتا ہے۔ اس کا حصول اس طرح ہوتا ہے کہ سیاسی سوچ معاشرے میں موجود دوسری تمام سوچوں پر نگرانی کرے جیسا کہ فکری، قانونی، لسانی، سائنسی وغیرہ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی قوم کے لئے نشاۃِ ثانیہ کے تین مراحل ہیں فکری، سیاسی اور قانونی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سوچ کے یہ مراحل باہم جدا ہیں اور بیان کردہ مراحل میں ساتھ نہیں چلتے بلکہ سوچ کے سیاسی مرحلے میں سیاسی سوچ کے ساتھ فکری اور قانونی سوچ بھی قدم بہ قدم چلتی ہے لیکن سیاسی سوچ زیادہ نمایاں رہتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ توجہ معاشرے پرایک نئے تصور کو قائم کرنے کے لئے ہے جو اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سیاسی جدوجہد نہ کی جائے جس کی وجہ سے سیاسی سوچ نمایاں رہے گی۔ یہی بات باقی مراحل پر بھی ثابت ہوتی ہے۔
اس ماڈل پر پہنچنے کے بعد اب قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ اس ماڈل کی روشنی میں تین مثالیں توجہ طلب ہیں:
آپﷺ کی زندگی، جو کہ مکی اور مدنی زندگی پر محیط ہے، سوچ کے تین مختلف مراحل میں بانٹی جا سکتی ہے۔ ابتداء میں مکی دعوت جس میں فکری انداز غالب رہا اور آپﷺ کی جدوجہد میں فکری سوچ حاوی رہی۔ اس کے بعد شدید سیاسی جدوجہد کا دور ہے جو قریش کے قائدین کےخلاف تھا اور اس مرحلے پر سیاسی سوچ غالب رہی۔ جیسے ہی آپﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تب قانونی سوچ غالب ہوگئی کیونکہ زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں احکامات نافذ کئے گئے ہوئے۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ پاپایئت کے خلاف یورپ کی فکری بیداری سے پیدا ہوا۔ اس کے بعد اصلاح کے دور نے شدید سیاسی عمل کی ابتداء کی یہاں تک کہ چرچ کی طاقت کو ریاست کی طاقت سے جدا کر دیا گیا اور سیکولرازم نے جنم لیا۔ اس کے بعد روشن خیالی کا دور ہے جو کہ فکری اور قانونی سوچوں پر مشتمل ہے اس ہی دوران جدید یورپین قانون کی دو بنیادی روایات نے جنم لیا۔ منظم قانونی نظام جس کا استعمال براعظم یورپ کے عظیم حصے پر ہوا اور انگریزی روایات جو کہ سابقہ مقدموں پر بنا ئے گئے قوانین پر مشتمل ہے۔
انیسویں صدی کی ابتداء میں کارل مارکس نے کمیونزم کے بنیادی اصول مرتب کیے اور ایک نئی فکر کا ظہور ہوا۔ اس کی شروعات قلیل مدت کی سیاسی حرکت سے ہوئی جوروس میں اکتوبر 1917ء کے بولشویک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ بولشویک کو ایک منجمد ریاست ملی جسے بیشمار مسائل درپیش تھے اور ان کے حل کے لئے قانونی سوچ کی ضرورت تھی۔
تینوں صورتوں میں جیسے ہی قوم نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے سیاسی سوچ نہ صرف لوگوں کے معاملات کو چلاتی ہے بلکہ دوسری سوچوں کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کی فکری اور قانونی فہم کی سطح کو برقرار رکھنا ریاست کے سیاسی فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔
نشاۃِ ثانیہ اورانحطاط کے پیش کردہ ڈھانچے کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں گردشی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے دنوں کے بعد انحطاط کے جھٹکے بھی آتے ہیں۔ مثلاً جب صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو سو سالوں تک یہ واضح تھا کہ خلافت انحطاط میں ہے لیکن اس کے بعد نہضہ(نشاۃ ثانیہ) کا ایک مختصر دور آیا جب صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو نکال باہر کیا یہاں تک کہ ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کردیا۔
خلافت دوبارہ کھڑی ہوگئی جب مملوکوں نے تاتاریوں کے جنگجو جتھوں کو شکست دی اور خلافت کو اس کی حقیقی شان پر لوٹادیا لیکن ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا کہ قوموں کے انحطاط کے ادوار کے بعد مکمل نشاۃِ ثانیہ کا دور آجائے یعنی سوچ کے فکری، سیاسی اور قانونی پہلوؤں میں نشاۃِ ثانیہ (نہضہ)۔ یہی دلیل انحطاط پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچوں پر مکمل انحطاط نہیں آتا جب قومیں ایک عرصے تک نشاۃِ ثانیہ میں وقت گزار لیتی ہیں۔
یہ سب کچھ بیان کر دینے کے بعد بہرحال یہ ممکن ہے کہ قوم کی مجموعی زندگی اور اس کی تنقیدی ہئیت یعنی ریاست کی بنیاد پر مکمل نشاۃِ ثانیہ یا انحطاط کا کچھ حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اموی خلافت کا عروج عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ہوا۔ اموی خلافت کے بعد عباسی خلافت آئی جس نے خلیفہ ہارون الرشید اور ان کے فرزند کی حکمرانی میں بلندی حاصل کی۔ عباسی خلافت کے بعد عثمانی خلافت کا دور آیا۔ عثمانی ریاست کی بلندی کا دور سولویں صدی میں سلیمان القانونی کے دور میں آیا اس کے بعد عثمانی ریاست تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھی یہاں تک کہ تباہ ہوگئی۔ ان شدید جھٹکوں کے باوجود امت محفوظ رہی اور آج یہ سوچ کے تمام مرحلوں میں بلندی کی طرف گامزن ہے سوائے اس کے تنفیذی حق یعنی خلافت کی کمی باقی ہے۔
اگر انحطاط اور نشاۃِ ثانیہ کے اندازے کے لئے وسیع دور پر نظر رکھی جائے تو اس قوم کے مقام کی بہتر تصویر ابھرتی ہے۔ لہٰذا خلافت کے بارے میں ہماری اس مثال سے یہ صاف واضح ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچ خلافت راشدہ کے دور میں بلند ترین سطح پر تھیں اور عثمانی خلافت کے آخری ادوار میں پست ترین۔
آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں قرونِ وسطیٰ کے دور کی جب برطانیہ جنگجو ٹولوں کا ایک مجموعہ تھا جو ہر وقت بیرونی حملہ آوروں کے رحم و کرم پر ہوتاتھا۔ لیکن سولہویں صدی کی ابتداء پر برطانیہ ملکہ الزبتھ اول کے دور میں ابھرا اورانیسویں صدی کے اواخر میں ملکہ وکٹوریا کے دور میں دنیا کی صف اول کی ریاست بن گیا۔ اس برطانوی سلطنت کا سنہری دور قلیل مدت کے لئے تھا اور برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم کے بعد عالمی صف اول کی ریاست ہونے کا مرتبہ کھو دیا جب اس کی سلطنت حیران کن انداز میں سکڑ گئی۔ آج برطانیہ تنزلی کی طرف گامزن ایک بڑی طاقت ہے اور باوجود اس کے کہ اس کی قیادت برطانوی سلطنت کو دوبارہ بلند کرنے کے پُرعزم منصوبے رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ سوچ کی تمام جہتوں میں تنزلی کو پلٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مختصر بیان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وکٹورین دور کے وقت برطانیہ کی فکری، سیاسی اور قانونی سوچ اپنے عروج پر تھی اور آج یہ سب کی سب انحطاط کی جانب رواں ہیں۔
اگرچہ خلافت کے مختلف ادوار اور مختلف اقوام کے ادوار جن پر انحطاط کے ڈھانچے کو لاگو کر کے دیکھا جائے اور ان پر سوچ کے مختلف مرحلوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے، اس تحریر کے دائرے سے باہر ہیں، پھر بھی یہ ضروری ہے کہ سیاسی سوچ میں کمزوری اور قوموں پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالی جائے۔
مثلاً: خلافت 1300 سالوں تک موجود رہی، یہاں تک کہ1924ء میں اس کا خاتمہ ہوا لیکن سیاسی سوچ میں کمزوری چاہے تنفیذی سطح پر ہو یا امت کی سطح پر، کئی صدیوں پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ ایک معاملہ جس میں طاقت کے زور پر حاصل کی گئی بیعت کے طریقے کا غلط نفاذ کا تھا یعنی خلیفہ کی تقرری کا قانونی عقد، معاویہ اول کے دور میں بیعت کے طریقے کا غلط استعمال کیا گیا۔ جب معاویہ نے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت دینے پر مجبور کیا، جبکہ وہ خود زندہ تھے۔ لہٰذا ان تین سیاسی فیصلوں نے صدیوں تک مسلم امت کو متاثر کیا، یہاں تک کہ1924 میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ حکمرانی سے متعلق کچھ اسلامی مفاہیم شدید کمزور ہو چکے تھے اور درست قانونی فیصلوں کی جگہ غلط فہم نے لے لی تھی۔ دیگر غلط سیاسی فیصلوں میں اس بات کی اجازت دینا کہ اسلام اور بیرونی فلسفوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے، عربی زبان کی اہمیت سے بے رغبتی، اجتہاد کے دروازوں کا بند ہونا اور جہاد کو ترک کرنا۔ اس طرح سے سیاسی فیصلوں نے خلافت کو انحطاط کے راستے پر گامزن کیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی آئیڈیالوجی کو کمزور کیا اور قانونی نصوص سے درست استنباط کو آلودہ کر دیا۔
آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں جہاں ایک بڑی طاقت بیرونی پالیسی کے حوالے سے غلط سیاسی فیصلہ لیتی ہے، جو عالمی سطح پر اس کے مقام کو اور اس کی اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی صلاحیت کو شدید مجروح کر دیتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کے لئے برطانیہ کا زوال ہندوستان کی آزادی سے شروع ہوااوراس کے بعد مشہور زمانہ سوئیز بحران نے برطانیہ کو دنیا کی صف اول کی ریاست کے مقام سے گرنے کو شدید تر کیا۔ دونوں واقعات نے نہ صرف برطانیہ کی بیرونی معاملات پر محدود صلاحیت کو واضح کیا بلکہ یہ تاثر بھی چھوڑا کہ برطانیہ ایک گرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ اگرچہ یہ اور اس جیسے دیگر واقعات جس میں برطانیہ کو عالمی سطح پر استعمار مخالف لہر کی وجہ سے اپنی فتح کردہ زمینوں سے دستبردار ہونا پڑا دراصل برطانیہ کی اس خواہش کی بنا پر تھے کہ امریکہ جنگ عظیم دوئم میں شریک ہوجائے۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اوراس کے مشیروں نے امریکی قوت اور اس کی دنیا کی صف اول کی ریاست بننے کی جستجو کو بے وقعت سمجھا۔ آنے والے دنوں میں برطانیہ کو یہ سیاسی فیصلہ بہت مہنگا پڑا اور اس نے اپنی کافی کالونیاں امریکہ کے ہاتھوں کھو دیں۔ برطانوی ثقافت کو دیگر ممالک میں فروغ دینے کی اہلیت امریکی ثقافت نے روک دی اور اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی برطانوی صلاحیت امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر سے شدید طور پر تھم گئی۔ مزید یہ کہ عالمی اداروں جیسے آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، یو این ا وغیرہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا جو کہ امریکی کنٹرول میں کام کرتے تھے۔
ہم آخری مثال میں اس بات کو دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین نے کس طرح اپنی آئیڈیالوجی پر سمجھوتہ کیا جب اس کا بیرونی ریاستوں سے سامنا ہوا۔ مثال کے طور پر 1961ء میں سوویت یونین نے دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ ریاست امریکہ سے بقائے باہمی کی کوشش کی جو کہ اس کی کمیونسٹ آئیڈیالوجی کے سراسر خلاف تھا۔خروشیو اور کینیڈی کے درمیان معاہدے نے فکری نقطہ نظر کے مطابق سوویت یونین کے انہدام کو تیز تر کر دیا کیونکہ کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام سے کسی بھی قسم کی باہمی بقاء کو رد کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی کی سوچ سے اس کو جگہ دینے کی طرف اس قدم نے بہت سارے لوگوں پر یہ حقیقت واضح کر دیا کہ کمیونزم ریاستوں کے خارجی تعلقات کی تنظیم کے لئے غیر عملی ہے۔
ان تمام سابقہ مثالوں میں نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن قوم بری طرح متاثر ہوئی ہے جب ریاست نے غلط سیاسی فیصلے کیے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا اندازہ کرنے کے لئے سیاسی سوچ کے کردار پر نظر رکھی جائے۔
(تیسری تحریر میں عابد مصطفٰی اس بات کی جانچ پڑتال کریں گے کہ کیا دنیا میں امریکہ کا مقام واقعی انحطاط کی طرف بڑھ رہا ہے یا یہ ایک معمولی ناکامی ہے جس کے بعد امریکہ پوری طرح اپنی ساکھ کو بحال کر لے گا؟)

Read more...

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ اوّل)

آج امریکہ کا عالمی سپرپاور ہونے کے ناطے انحطاط ایک ایسا اچھوتا موضوع نہیں رہا جو چند تجزیہ کاروں تک محدود ہو۔ اس کے برعکس اب یہ ایک معمول کی بات ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سے لوگ امریکہ کے انحطاط کے بارے میں گفت و شنید اور بحث کر رہے ہیں جیسے یہ کوئی کھانے کی میز پر کرنے والی بات ہو۔ ان موضوعات میں اس انحطاط کی کیفیت پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا امریکہ سیاسی، معاشی اور عسکری طور پر کمزور ہو رہا ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کے بعد اس کی جگہ کون لے گا۔
عمومی طور پر جو لوگ امریکی بالادستی کے کمزور ہونے پر بحث کر رہے ہیں ان کی دو اقسام ہیں: ایک وہ جو یہ کہتے ہیں کہ امریکی انحطاط عالمی منظر نامے پر ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکا ہے اور دوسرے وہ جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ امریکی انحطاط نہ صرف عارضی ہے بلکہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ بعد والا گروہ یقینی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ دوبارہ ویسی ہی سپر پاور بن سکتا ہے جیسا کہ وہ پہلے کبھی ہوتا تھا۔ ان تین مضامین میں عابد مصطفیٰ امریکی انحطاط کا جائزہ لیں گےاور کیا امریکہ کی عالمی سیاست کو متاثر اور تشکیل دینے کی صلاحیت میں کوئی تبدیل واقع ہوئی ہے، پر بحث کریں گے۔

ابتدائیہ:
تہذیبوں کے ابتداء سے، انسانوں نے خود کو خاندان کی شکل میں منظم کیا جو بڑے قبائل کا حصہ ہوتےہیں۔ یہ قبیلے خاص وصف اور خصوصیات کے تحت منظم ہوتے ہیں جس میں عقیدےکو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے جو قبائل کو باہم یکجا کرتا ہے اور زندگی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔
قبائل کے خاص عقیدے کے گرد جمع ہونے سے اقوام وجود میں آتی ہیں۔ یہ قومیں تنہا نہیں رہتیں بلکہ زندگی کا بہاؤ انہیں ایک دوسرے سے تفاعل اور مقابلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ مقابلہ دولت اور وسائل، زمین اور جغرافیہ، عزت اور مرتبہ، آئیڈیا لوجی یعنی نظریہ حیات کے لئے طاقت اور برتری کے لئے ہوتا ہے۔
مقاصد کے حصول کے لئے صدیوں پر محیط قوموں کے تفاعل نے دو طرفہ اور کثیرالفریقی تعلقات کو جنم دیا۔ انسانی معاشروں کے پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ قوموں کے درمیان تعلقات کا دائرہ بھی علاقائی سے عالمی ہو گیا ہے پھر ان تعلقات کی قیادت سب سے طاقتور قوم کے بیان کردہ اصولوں پر ہوتی ہے۔ صفِ اول کی ریاست کی عالمی صورتحال اور واقعات کو چلانے کی سیاسی قابلیت کو بین الاقوامی نظام کہتے ہیں۔
صفِ اول کی ریاست کے مقابل ہمیشہ کچھ ریاستیں ہوتی ہیں جو کبھی اس کے ساتھ کام کرتی ہیں اور کبھی اس کے خلاف اور اہمیت حاصل کرنے کیلئے اسے چیلنج کرتی ہیں۔ صف ِاول کی ریاست اور اس کے مقابل ریاستوں سے قریب طاقتور اقوام یا مضبوط طاقتیں ہوتی ہیں جن کے پاس صفِ اول کی ریاست اور اس کے مقابل ریاست یا ریاستوں کی جگہ لینے کی اہلیت ہوتی ہے۔
بین الاقوامی نظام اس ہی وقت تبدیل ہوتا ہے جب صفِ اول کی ریاست کو ختم یا مقابل ریاست سے تبدیل کر دیا جائے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب صفِ اول کی ریاست میں بین الاقوامی نظام کو قائم رکھنے اور طاقتور اقوام جن میں مقابل ریاست بھی شامل ہے کہ حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی قابلیت ماند پڑ جاتی ہے۔
لہٰذا بین الاقوامی نظام کبھی بھی یکساں نہیں رہتا بلکہ اس میں ہمیشہ تبدیلی کا امکان موجود رہتا ہے۔ بین الاقوامی نظام میں کس قدر تبدیلی ہو گی یہ بات براہ راست صفِ اول کی ریاست کے زوال سے منسلک ہے۔ یہ زوال جتنا شدید ہوتا ہے بڑی طاقتوں کو واقعات کو اپنے مقاصد کی طرف موڑنے اور بین الاقوامی نظام کو کمزور کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
دور جدید میں ایک اور طرز کی طاقتور اقوام ابھری ہیں جو بڑی طاقتوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ انہیں سپرپاور کہا جاتا ہے۔ سپر پاور کے پاس یہ قابلیت موجود ہوتی ہے کہ وہ عسکری طاقت کی نمائش کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔ 1945ء سے پہلے صرف بڑی طاقتیں موجود تھیں، برطانیہ ایک بڑی طاقت اور صفِ اول کی ریاست تھی، جرمنی بھی ایک بڑی طاقت تھی اور برطانیہ کے مقابل تھی۔ 1945ء کے بعد اور سرد جنگ کے دوران صرف دو ریاستیں دنیا پر غالب تھیں۔ امریکہ اور سوویت یونین اور سپر پاور کے نام سے جانی جاتی تھیں، باقی بڑی طاقتیں ان کی مخالفت کرنے کے قابل نہ تھیں۔
امریکہ کا یک قطبی دور:
سرد جنگ کے دوران دو سپر پاورز باقی سب سے آگے تھیں اور دنیا کا بیشتر حصہ مغربی کیمپ اور مشرقی کیمپ سے وفاداری کی بنیاد پر تقسیم تھا لیکن سوویت یونین کے 1991ء میں انہدام کے بعد امریکہ نے خود کو ایک منفرد پوزیشن میں پایا۔ وہ نہ صرف دنیا کی صفِ اول کی ریاست تھی بلکہ سپر پاور بھی بن گئی۔ امریکی دہلیز پر بے مثال عالمی قوت اور مشرق سے مغرب تک تمام سیاسی معاملات کو تشکیل دینے کی امریکی اہلیت نے کچھ امریکی تبصرہ نگاروں کو حرص پر ابھارا۔ مشہور امریکی مفکر چارلس کرام تھامر نے دنیا کی واحد سپرپاور کے لئے آنے والے بڑے مواقعوں کو بیان کیا۔ خارجی سیاست کے مسائل پر ایک مضمون "امریکہ اور دنیا" میں اس نے لکھا:
"سرد جنگ کے بعد کا دور کثیرقطبی نہیں۔ یہ یک قطبی ہے۔ دنیا کی طاقت کا مرکز ایک ایسی ریاست، ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے جس کے ساتھ اس کے مغربی اتحادی بھی ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کی سب سے امتیازی خصوصیت اس کا یک قطبی ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کثیرالقطبی دنیا وقت کے ساتھ ابھرے گی۔ شاید کسی اور نسل میں ایسی عظیم طاقتیں ہوں گی جو امریکہ کی ٹکر کی ہوں گی اور دنیا اپنی ساخت میں پہلی عالمی جنگ سے قبل کے دور کی طرح ہوگی۔ لیکن ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے نہ ہی کئی دہائیوں تک پہنچیں گے۔ یہ دور یک قطبی دنیا کا ہے"۔
اس کا ساتھ ایک اور مشہور مفکر فرانسس فوکو یامہ نے دیا جو اس سے قبل 1989ء میں قطعی اعلان کر چکا تھا کہ مغربی لبرل ازم تمام نظاموں کو شکست دے جا چکا ہے۔ 1989ء کی گرمیوں میں قومی مفاد (نیشنل انٹریسٹ) میں اپنے مضمون "تاریخ کا اختتام" (دی اینڈ آف ہسٹری) میں وہ لکھتا ہے:
"مغرب کی مغربی فکر کی بنا پر کامیابی سب سے پہلے اس بات سے واضح ہے کہ مغربی لبرل ازم کے متبادل کوئی بھی دوسرا نظام مکمل ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ ہم جس چیزکا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ صرف سرد جنگ کا اختتام نہیں ہے یا جنگ کے خاتمے کے بعد کے دور کا گزرنا نہیں ہے بلکہ یہ تاریخ کا اختتام ہے، یہ انسانی فکری ارتقاء کا اختتام ہے اور انسانی حکومت کی مغربی لبرل جمہوریت کی شکل میں عالمگیریت مسلمہ ہوگئی ہے۔ یہ بات نہیں کہ اب ایسے واقعات نہیں ہوں گے اور عالمی تعلقات کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ لبرل ازم کی فتح بنیادی طور پر افکار یا آگاہی کے میدان میں ہے اور حقیقی اور مادی دنیا میں یہ ابھی بھی نا مکمل ہے۔ لیکن یہ یقین کرنے کے لئے ایسے وزنی دلائل موجود ہیں کہ یہی وہ فکر ہے جو مادی دنیا کو ایک لمبے عرصے تک چلائے گی"۔
1993ء میں جب اس عظیم فتح سے امریکہ شادمان تھا اس نے اس کامیابی پر ایک مکمل کتاب لکھی اور اس کا نام "تاریخ کا اختتام اور آخری شخص" رکھا۔ اگلی دہائی تک یہ نظر آیا کہ شاید امریکہ کا دنیا بھر میں اپنی بالادستی اور سیاسی اثرورسوخ کو پھیلانے کے حوالے سے فوکویاما اور کروتھامرکا اندازہ درست تھا۔ عراق میں 1991ء میں صدام حسین کی شکست نے امریکہ کو اس قابل بنایا کہ وہ فوجی اڈوں، حفاظتی معاہدات اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات (میڈریڈ کانفرنس) کے ذریعے اپنے قدم خلیج فارس اور وسیع تر مشرق وسطیٰ میں جمائے اوربڑھائے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ یوں امریکہ کو اپنے مفادات کے تحت خطے کو تشکیل کرنے کی وہ طاقت مل گئی جو پہلے کبھی نہ تھی۔
یورپ میں یورپی یونین اور نیٹو کو زور شور کے ساتھ پھیلایا گیا تا کہ سوویت یونین سے نکلنے والے علاقوں جیسے اسٹونیہ، لیٹویا، لیتھونیا وغیرہ کو شامل کیاجائے۔ اس عمل نےیورپ پر امریکہ کی گرفت کو مزید مضبوط جبکہ روس کو مزید کمزور کر دیا۔ یورپ پر امریکی گرفت کی معراج یوگوسلاویا کے توڑنے کے لئے امریکی سیاسی اقدامات ہی تھے جس کے نتیجے بالآخر 1999ء میں کوسوو کی جنگ ہوئی اور کومانوف معاہدہ عمل میں آیا۔ مختصراً یہ کہ امریکہ نے یورپ اور روس دونوں کو کنارے سے لگا دیا۔
افریقہ میں بھی امریکہ نے قدیم یورپ کی اڑان کو روکنے کیلئے زبردست پیش قدمی کی۔ صومالیہ، کانگو، لائےبیریا میں عسکری حملے افریقہ میں برطانیہ اور فرانس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی ابتداء ثابت ہوئے۔ جبکہ بر اعظم لاطینی امریکہ میں معمولات ویسے ہی چلتے رہے کہ امریکہ نے براعظم میں وسیع سیاسی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے جمہوریت کو فروغ دیا اور اس کی معیشت کو مزید اپنے قابو میں کیا۔
سیاسی اور عسکری غلبے کو اگر چھوڑ بھی دیں تو امریکہ نے کلنٹن انتظامیہ کے دورمیں عالمگیریت اور آزاد تجارت کے ذریعے امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے دنیا کے بہت سے خطے کھولے۔ امریکہ کی برتری اتنی زبردست تھی کہ فرانس کے وزیر خارجہ نے دنیا پر امریکی غلبے کی وضاحت کرنے کیلئے "ہائی پر پاور" کا لفظ استعمال کیا۔ اس نئے لقب کا بہترین مطلب یہ ہو سکتا ہے "ایک ملک جو کہ ہر چیز پر غالب اور زور آور ہے"۔
تبدیلی کی ابتداء:
21ویں صدی کی شروعات نے امریکی سورج کو ہی دمکتے دیکھا لیکن اس بار بش کی صدارت میں نیو کنزرویٹوز امریکی طاقت اور یک ترفیت کو دنیا بھر میں امریکی مفادات کے حصول کے لئے بہترین انداز سے استعمال کرنے کے لئے نئے خیالات رکھتے تھے۔ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کو امریکی سیاستدانوں اور بش انتظامیہ کے حامیوں کی طرف سے بہت خوش آئند طور پر دیکھا گیا۔ لیکن امریکی غرور کے حق میں یہ ولولہ قلیل مدتی تھا اور اپریل 2013ء میں سقوط بغداد کے بعد امریکہ گوریلہ جنگ کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے تنازعہ میں پھنس گیا جس نے دنیا کے متعلق اس کی تعصب پسندانہ سوچ کو ظاہر کر دیا۔ 2004ء میں ابو غریب کے واقعات نے یہ بات بے نقاب کردی کہ عملاً امریکی اقدار کیا ہیں۔
عراق میں امریکہ کی عسکری قوت کے باوجود بش انتظامیہ کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جیسے شیعہ سنی عوامی بغاوت، امریکی فوج کی طرف سے کی گئی قتل و غارت گری کےخلاف غصہ، امریکی ایجنٹوں کی طرف سے ماورائے عدالت کئے گئے قتل، ابو غریب کا داغ، سیاسی انتشار اور مسلم ممالک میں پھیلے ہوئے امریکہ مخالف جذبات۔ تین سال کے عرصے میں امریکہ عراق کے دلدل سے نکلنے کیلئے تگ و دو کرنے لگا۔ جس عراق کو بش انتظامیہ کے نیو کنزرویٹوز لبرل جمہوریت کے نمونے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی وہ جلد ہی مشرق وسطیٰ میں امریکی حیثیت اور عالمی سطح پر اس کے وقار کو بچانے کی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔
بش انتظامیہ کو اس کی نیو کنزرویٹو پالیسیوں کی وجہ سے تنقید نگاروں نے گھیر لیا۔ نمایاں ڈیموکریٹس، ری پبلیکن اورمتعدد مشہور سیاستدان عراق کے بارے میں بہت منفی صورتحال پیش کر رہے تھے اور امریکی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ 2006ء میں عراق اسٹڈی گروپ نے کہا: "عراق کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے اور بتدریج خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے"۔
رچرڈ ہارس، جو کہ خارجہ تعلقات کی کونسل کا سابق صدر ہے، خطے میں امریکہ کی سیاسی واقعات کو ترتیب دینے کی قابلیت میں کمزوری کو بھانپ چکا تھا وہ کہتا ہے:
"سرد جنگ کے خاتمے اور عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکہ نے جس طرح خطے میں اپنی بالادستی ثابت کی ہے اس کی بنا پر پچھلی دو دہائیوں میں خطے میں امریکہ کا مقام تاریخی رہا ہے۔ لیکن اب ہم کوئی بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر ابھی ہم انتشار دیکھ رہے ہیں، مزید پیچیدہ اور مزید مسائل سے گھرا ہوا مشرق وسطیٰ، جہاں امریکہ کی معاملات کو ترتیب دینے کی اہلیت ماند پڑ چکی ہے"۔
نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے وائس چیئرمین گراہم فلر نے بیان کیا کہ عراق کی شکست کی وجہ سے امریکی اتحادی اور مخالف اس قابل ہوئے کہ وہ واقعات کو متاثر کرنے کی امریکی صلاحیت کو محدود کر سکیں۔ وہ 2006ء میں 'قومی مفاد ( نیشنل انٹرسٹ)' میں لکھتا ہے: "متعدد ممالک نے بہت سی ترکیبیں اور حربے استعمال کئے تاکہ بش ایجنڈے کو، ہزار وں چھوٹے زخموں کی موت ذریعے کمزور، تبدیل، پیچیدہ، محدود، معطل یا مسدود کر دیا جائے"۔
عین اس وقت جب کہ امریکی سیاسی قیادت عراق کی جنگ کے نتیجے میں امریکی برتری کو پہنچنے والے شدید نقصان پر سوچ و بچار کر رہی تھی، 2008ء کی گرمیوں میں عالمی معاشی بحران نے انہیں گھیر لیا۔ اس معاشی بحران کی شدت نے امریکہ کو مزید نقصان پہنچایا اور اہل رائے اور عام عوام کے اعتماد کو مزید مجروع کیا۔ ایلن گرین سپین، جو کہ اس وقت فیڈرل ریزرو کا چیئرمین تھا، نے کریڈٹ بحران جو کہ معاشی بحران کے بیچ و بیچ تھا، کو ان الفاظ میں بیان کیا: "صدی میں ایک بار ہونے والا کریڈٹ سونامی "۔ گرین سپین واحد آدمی نہیں تھا جو امریکہ کی ابتر صورتحال بیان کر رہا تھا بلکہ معاشی بحران کے فوری نتیجے میں امریکی انحطاط بحث و تمحیص کا ایک گرم موضوع بن گیا۔
عمومی طور پر دو گروہ بن گئے۔ پہلے گروہ کا نقطہ نظر یہ رہا کہ انحطاط بین الاقوامی نظام کا مستقل خاصہ ہے۔ لیکن جس چیز پر اختلاف تھا وہ زوال کی شدت کے پیمانے پر تھا۔ 2008ء میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ کی عالمی طاقت پستی کی طرف رواں ہے۔ مستقبل کے بارے میں شائع کی جانے والی اپنی رپورٹ، 'گلوبل ٹرینڈز 2025' میں کونسل لکھتی ہے: "عالمی دولت اور معاشی طاقت کی مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی شروع ہو چکی ہےاور موجودہ دور میں اس نوعیت کا واقع پہلے نہیں ہوا جو کہ امریکی صلاحیت میں انحطاط کا بنیادی سبب ہے۔ اور اس انحطاط میں عسکری سطح بھی شامل ہے"۔
تاہم ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے جلد امریکی انحطاط کی بلکہ اس کی مکمل تباہی کی بھی پیش گوئی کر دی تھی۔ ایسی ہی ایک شخصیت روسی پروفیسر آئیگور پیناریو ہے جس نے 2008ء میں کہا "ابھی اس بات کا 45 سے 55 فیصد امکان ہے کہ امریکہ ٹوٹ جائے گا"۔
ایک دوسرا گروہ بھی ہے جس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا عروج واپس بھی آسکتا ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں میں امریکہ کے معتبر مفکرین بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر بریزنسکی ابھی تک یہ کہتا ہے کہ امریکہ خود کو اس قابل کر لے گا کہ وہ موجودہ چیلنجز سے نبرد آزما ہو سکے۔ اپنی حالیہ کتاب 'تزویراتی نگاہ : امریکہ اور عالمی طاقت کا بحران' میں وہ کہتا ہے کہ:
"امریکہ کیلئے اصل چیلنج اور اگلی کئی دہائیوں تک جغرافیائی طور پر ضروری مشن، خود کو دوبارہ زندہ کرنا ہے اور مؤثر اور وسیع مغرب کی تشہیر کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ مشرق میں ایک مشکل توازن قائم کرنا ہے تاکہ چین کی عالمی ساکھ کو تخلیقی انداز میں جگہ دی جائے اور عالمی انتشار سے بچا جائے۔ یوریشیا میں مستحکم سیاسی، جغرافیائی توازن کے بغیر جو ایک نیا امریکہ کرے گا، معاشرتی بہبود نہیں ہوسکے گی اور انسانی بقاء کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا"۔
فرائیڈمین اور مانڈلبام اسی طرح کے جذبات رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ اپنے مخصوص کردار کی بنا پر مشکل چیلنجز سے نمٹتا ہے۔ اپنی کتاب That Used To Be US What Went Wrong With America- And How It Can Come Back میں وہ کہتے ہیں:
"امریکہ کے مستقبل کے بارے میں امید کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخ کے سفر میں شاز و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ امریکہ بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہا ہو۔ ہماری بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکامی دراصل ایک غیر معمولی واقع ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ استثنائی ہے۔ جب کبھی بھی آزمائش ہوئی، چاہے اٹھارویں صدی کا انقلاب ہو یا بیسویں صدی کی سرد جنگ امریکہ اور امریکیوں نے کامیابی کی طرف راستے بنائے، سرزمین کا ماضی اس کے پر امید مستقبل کیلئے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے"۔
دونوں گروہ جس بات کو رد نہ کر سکے وہ یہ ہے کہ امریکہ انحطاط سے گزر رہا ہے۔ ایک عجیب انداز میں امریکی انحطاط سے ایک اورصورت حال بھی جڑی ہوئی ہے اور وہ مغربی تہذیب اور طاقت کا انحطاط ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے شدید ماحول، معاشرتی، معاشی اور سیاسی صورتحال نے مل کر مغربی تہذیب کو شدید کھچاؤمیں مبتلاء کر دیا ہے اور بیشتر ایسا ہوا کہ یہ (تہذیب) ان مسائل، جو کہ ان شدید حالات سے پیدا ہوتے، کو حل کرنے سے عاری رہتی۔
خیر یہ اس مضمون کا موضوع نہیں گو کہ یہ اس سے لا ینحل طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس مضمون کا مرکز امریکی انحطاط ہے اور دوسرے مضمون میں ہم اس انحطاط کی وجوہات کو سمجھیں گے۔

Read more...

کیا امریکہ کا زوال حقیقی ہے یا خیالی؟ (حصہ سوئم)

تین حصوں پر مشتمل اس مضمون کے آخری حصے میں عابد مصطفٰی اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ آیا پچھلی ایک دہائی میں دنیا میں امریکہ کے وقار میں کمی آئی ہے یا نہیں۔ خصوصاً انہوں نے دنیا کے مسائل کے حل کرنے کے حوالے سے امریکہ کی سیاسی صلاحیت پر بحث کی ہے۔

پچھلے مضمون میں قوموں کے زوال کے اسباب کا تعین کیا گیا تھا اور ان اسباب میں سب سے اہم سوچ کی تین اقسام: سیاسی، فکری اور قانونی اور دنیا میں دوسری قوموں کے مقابلے میں کسی ایک قوم پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، پر بحث کی گئی تھی۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ سب سے اہم سوچ سیاسی سوچ ہوتی ہے اور اس کے دوسری کسی بھی قسم کی سوچ پر سب سے زیادہ گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ لہٰذا، مضمون کو مختصر رکھنے کے لئے ہم صرف سیاسی سوچ کے حوالے سے امریکہ کے زوال کے متعلق بات کریں گے۔ امریکہ کے زوال پر ہر قسم کی سوچ کے حوالے سے بحث کرنا اس مضمون کی حدود سے باہر ہے۔
امریکہ کے سیاسی زوال پر بحث کرتے ہوئے اس کے اندرونی اور بیرونی معاملات کو سامنے رکھاجانا چاہیے لیکن کیونکہ اس مضمون کو ایک مخصوص حد میں رکھنا ہے اس لئے میں صرف امریکہ کے بیرونی معاملات پر توجہ مرکوز کروں گا۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ ایک نظریاتی ریاست میں اندرونی اور بیرونی معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگر اندرونی معاملات پر سیاسی سوچ میں زوال رونما ہوگا تو اس قوم کی بیرونی معاملات میں کارکردگی متاثر ہو گی اور بیرونی معاملات میں شدید سیاسی غلطیاں اندرونی معاملات کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی حکومت کے 2008 میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کو روکنے میں ناکامی نے اس کے اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے معاملات کو متاثر کیا۔ جبکہ دوسری جانب عراق و افغانستان کی جنگوں کے نتائج نے امریکہ کو بیرونی دنیا کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط رویہ اپنانے پر مجبور کردیا اور اس بنا پر امریکہ میں اس پر بہت بات کی گئی کہ بیرونی دنیا میں امریکہ کا کیا کردار ہونا چاہیے۔
28 مئی 2014 کو امریکی صدر اوبامہ نے امریکہ کی ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹس سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کو بین الاقوامی میدان میں درپیش مسائل پر ایک اہم بیان دیا۔ اس نے کہا کہ "امریکہ کو لازمی ہمیشہ دنیا کے امور پر رہنمائی فراہم کرنی ہے۔ اگر ہم نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا نہیں کرے گا۔ یہ فوج جس میں آپ نے شمولیت اختیار کی ہے، اس عالمی قیادت کی کمر ہے اور رہے گی۔ لیکن ہر معاملے میں صرف فوجی حل یا اس کا اہم کردار ہماری قیادت کا لازمی حصہ نہیں ہوسکتا۔ محض اس وجہ سے کہ ہمارے پاس بہترین ہتھوڑا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مسئلے کا حل کیل ہے"۔ یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ نے پیچیدہ سیاسی مسائل کے حل کے لئے فوجی قوت پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا میں امریکہ کے سیاسی اثرو رسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سیاسی اثرو رسوخ ضروری ہے، محض اس لئے نہیں کہ سیاسی حل پیش کیے جاسکیں بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو نافذ بھی کیا جاسکے۔ اوبامہ کا اپنی تقریر میں فوجی قوت کو "اہم حصہ" قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ کئی سالوں بعد پہلی دفعہ بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے امریکہ کو اپنے سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ اس لحاظ سے بین الاقوامی امور میں سیاسی حل پیش کرنے کے لئے سیاسی اثرو رسوخ کا ہونا کسی ملک کی سیاسی سوچ کے عروج و زوال کو جاننے سے متعلق ایک حقیقی پیمانہ ہے۔
امریکہ کے سیاسی اثرورسوخ سے مراد یہ ہے کہ امریکہ دوسری اقوام کے رویے کو اس طرح سےبدل سکے کہ وہ امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے سیاسی حل کو قبول اور نافذ کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس بات کا عملی مظاہرہ یہ ہوگا کہ سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر امریکہ کے پاس یہ صلاحیت ہو کہ وہ کسی بھی ملک کو اپنے قابو میں رکھ سکے یعنی اس کے حکمران، حکومت، سیاسی میدان، ریاستی ادارے (جیسا کہ عدلیہ، بیوروکریسی وغیرہ) اور فوج۔ اور اس صلاحیت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے لوگ امریکہ کی جانب سے دیے گئے سیاسی حل کی مخالفت نہ کریں یا نہ کرسکیں۔
کسی ملک پر جس قدر زیادہ سیاسی اثرو رسوخ ہوگا تو اسی قدر کم فوجی قوت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے گی۔ اسی طرح اس بات کا الٹ بھی بالکل صحیح ہے یعنی جس قدر سیاسی اثرورسوخ کم ہو گا اسی قدر فوجی قوت کے استعمال کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہاں پر فوجی قوت سے مراد سیاسی حل کو قبول کرنے یا نافذ کرنے کے حوالے سے رکاوٹوں کو عملی طور پر ہٹانا ہے۔
اس بات کی وضاحت کرنے کے لئے کہ کس طرح امریکہ کا بین الاقوامی سطح پر سیاسی اثرورسوخ کم ہوا ہے درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
ہم سب کو یاد ہے کہ کس طرح بش جونیئر ابراہم لنکن پر "مشن مکمل ہوا" کے بینر تلے تکبر کے ساتھ کھڑے ہو کر عراق کی فتح کی تقریر کررہا تھا۔ اس نے کہا کہ "اس جنگ میں ہم نے آزادی اور دنیا کے امن کے لئے لڑائی کی۔ ہماری قوم اور ہمارے اتحادی اس مقصد کے حصول پر فخر کرتے ہیں.....عراق کی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی فاتح رہے"۔ اس فتح مندی کی تقریر میں اس گوریلہ جنگ کی حقیقت کو چھپایا گیا تھا جس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ امریکہ نے جلد ہی یہ جان لیا تھا کہ وہ عراق کی دلدل میں پھنس گیا ہے اور وہ اس دلدل سے نکلنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کررہا ہے۔ یہ دلدل اس قدر مشکل تھی کہ جنگ کے اغراض و مقاصد: عراق میں جمہوریت کو پروان چڑھانا، تیل کی قیمتوں کو انتہائی کم کرنا اور فوجی اڈوں کا قیام تا کہ ہمسائیہ ممالک میں حکومتیں تبدیل کی جاسکیں، جلد بھلا دیے گئے۔ اس کی جگہ امریکہ ایک گوریلہ جنگ میں پھنس گیا اورعراق کے بنیادی مسائل، تحفظ کی فراہمی اور ایک کام کرنے والی حکومت کے قیام کو حل کرنا اس کے لئے مشکل ہوگیا۔
اور پھر جب معاملات کسی حد تک قابو میں آئے اور امریکہ اس قابل ہوا کہ اپنی مرضی کا آدمی چُن سکے جو عراق کی کمزور حکومت، کمزور اداروں اور کمزور فوج کو چلا سکے تو امریکہ عراق سے نکل گیا اور پیچھے عدم استحکام اور بدامنی کا آفریت چھوڑ گیا۔ باوجود اس کے کہ عراق کے تمام ریاستی ادارے امریکہ کے کنٹرول میں تھے، امریکہ کے پاس عراق کے سب سے بڑے مسئلے یعنی عدم استحکام کے حل کے لئے سیاسی اثرورسوخ انتہائی کم تھا۔ عراق اس بات کی بڑی واضح مثال ہے کہ جہاں امریکہ نے بھرپور فوجی قوت استعمال کی لیکن وہ سیاسی طور پر ناکام رہا۔ آج عراق کے صورتحال بد سے بدتر ہو چکی ہے اور ملک کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ ایک بار پھر امریکہ عراق کو ٹکڑے کرنے کے لئے خفیہ فوجی ذرائع استعمال کررہا ہے اور اس بات کی امید کررہا ہے کہ اس طرح وہ عراق کے مختلف حصوں میں استحکام قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اسی طرح افغانستان میں امریکہ کی کارکردگی عراق سے بھی زیادہ خراب ہے۔ فوجی لحاظ سے امریکہ طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن سیاسی محاذ پر امریکہ کی ناکامی، فوجی ناکامی سے بھی بڑھ کر ہے۔ 2001 میں ہونے والی بون کانفرنس کے وقت سے ہی امریکہ افغانستان میں ایک ایسی کامیاب حکومت قائم کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی عملداری کابل تک ہی محدود نہ ہو۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کی جانب سے عبداللہ اور غنی کے درمیان اختلافات کو ختم کرانے کے لئے جو معاہدہ کرایا گیا ہے وہ اس سلسلے کی ہی ایک مثال ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ پہلے بھی امریکہ کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی اور انخلاء کو کئی بار مؤخر کرنا پڑا۔ اور بالآخر مئی 2012 میں شکاگو میں ہونے والی نیٹو کانفرنس کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اس کانفرنس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں تمام اتحادیوں کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان میں شروع کی جانے والی اس مہم جوئی کو اب ختم کیا جائے۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا کہ "دس سال کی جنگ کے بعد اور جبکہ عالمی معیشت مشکلات کا شکار ہے، مغرب کی اقوام ایک ایسی جگہ پر اپنی توانائیاں نہ تو پیسے کی صورت میں خرچ کرنا چاہتی ہیں اور نہ ہی جانوں کی صورت میں جہاں صدیوں سے غیر ملکی کوششوں کی مزاحمت کی گئی ہے"۔
امریکہ کی سیاسی ناکامی صرف مشرق وسطٰی اور یوریشیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ افریقہ میں امریکہ کی سیاسی اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوشش بھی بری طرح سے ناکام رہی ہے۔ جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان نے امریکی نگرانی میں ہونے والے استصواب رائے میں بڑی تعداد میں سوڈان سے علیحدگی کے حق میں رائے کا اظہار کیا۔ نیا ملک امریکہ نے سوڈان میں سے نکال کر بنایا تاکہ جنوب میں موجود تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرسکے اور چین کے اثرو رسوخ کو محدود کرسکے۔ دو سال بعد اس نئے ملک میں مکمل خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جنوبی سوڈان کے اس انجام نے اس نئے ملک سے متعلق امریکہ کی جانب سے دِکھائی جانی والی امید پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ نیویار ک ٹائمز نے اس حوالے سے لکھا کہ "جنوبی سوڈان کئی حوالوں سے امریکہ کی تخلیق ہے۔ اس کے کمزور اداروں کو امریکہ نے اربوں ڈالر دے کر کھڑا کیا ہے۔ لیکن ایک زبردست اور خوفناک تنازعہ نے اوبامہ انتظامیہ کو افریقہ میں ہونے والی اس امریکی کامیابی کو بچانے کی کوششیں کرنے پر مجبور کردیا ہے"۔ ناکامی کے اس سلسلے میں جنوبی سوڈان واحد مثال نہیں ہے بلکہ افریقہ میں کئی اور ممالک بھی امریکہ کی سیاسی ناکامی کی کہانی بیان کرتے ہیں جہاں امریکہ حکومت، شہری اداروں اور اور فوج کو کنٹرول تو کرتا ہے لیکن اس کے باوجود تحفظ اور اچھی حکمرانی کے حوالے سے پائیدار سیاسی حل دینے سے قاصر ہے۔
امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات میں بہت ہی بُرا موڑ آیا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب مشرقی یورپ میں امریکہ طاقت کا سرچشمہ تھا اور اس کا سیاسی اثرورسوخ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ روس عمومی طور پر پیچھے ہوتا تھا خصوصاً کلنٹن کے دور میں جب نیٹو اور یورپی یونین تیزی سے پھیل رہی تھی۔ لیکن پچھلے چھ سالوں میں امریکہ کے لئے حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کے خطوں کی جارجیا سے علیحدگی اور ان پر روس کے قبضے سے لے کر کریمیا کی روس میں شمولیت تک، روس نے مسلسل امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کیا ہے اور امریکی اثرورسوخ کو ناصرف قفقاز بلکہ وسط ایشیا کے ممالک جیسے ازبکستان اور کرغستان سے باہر دھکیل دیا ہے۔ امریکہ کے سابق سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا کہ "ہم روس کو اپنا ساتھی بنانا چاہتے تھے لیکن پوٹن کی قیادت میں اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس نے جو چیلنج کیا ہے وہ کریمیا یا یوکرین تک محدود نہیں ہے۔ اس کے اقدامات نے سرد جنگ کے بعد کے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کیا ہے اور اس سے بڑھ کر آزاد ریاستوں کو اس بات کا حق ہونا کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں تعلقات قائم کریں یا کاروبار کریں "۔ 1990 کی ابتداء سے امریکہ نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا ءکو اپنے سیاسی اثرورسوخ سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب کچھ عرصے سے پوٹن نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اور اب امریکہ کو پہلے سے بھی زیادہ طاقتور روس کا سامنا ہے جو امریکہ کے لئے ایسی مشکلات پیدا کررہا ہے جو پہلے نہیں تھیں۔ لہٰذا یہ امریکی پالیسی کی واضح ناکامی ہے۔
اس کے علاوہ ایشیا پیسفک میں امریکہ کے مدمقابل چین ہے۔ یہاں بھی ایک ابھرتی ہوئی طاقت چین کو ایک علاقائی طاقت تک محدود کرنے کی امریکی پالیسی ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔ کئی برسوں سے ایشیا پیسفک میں امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ وہ چین کے ہمسائیہ ممالک کی مدد سے ایک زبردست سکیورٹی حصار قائم کرنے کی کوشش کرے جس کا مقصد چین کو اس کی اپنی سرحدوں کے اندر ہی محدود کرنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین نے اس سکیورٹی حصار کو کئی بار مختلف زمینی تنازعات اور جارحانہ فوجی نقل و حرکت کے ذریعے توڑا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کو اپنی دفاعی قوت کو بڑھانا پڑا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چین کی یہ نقل و حرکت اتفاقی نہیں لگتی۔ اخبار لکھتا ہے کہ "تمام ایشیا میں چین امریکی اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ ان ممالک کے تعلقات کو کمزور کیا جائے جو امریکہ سے قریب ہیں اور جن کی وجہ سے اس خطے میں امریکہ کو دوسری جنگ عظیم سے بالادستی حاصل ہے"۔
چین کی اس نئی خود اعتمادی کو روکنے کے لئے اوبامہ انتظامیہ کو "یو۔ایس پیوٹ ٹو ایشیا" کے نام سے ایک پالیسی کا اجرا کرنا پڑا جس کے تحت امریکہ اپنی بحری قوت کے ساٹھ فیصد حصے کو یورپ سے ہٹا کر ایشیا پیسفک منتقل کردے گا۔ اس کے علاوہ امریکہ ایشیا پیسفک میں موجود ممالک کے ساتھ پرانے دفاعی معاہدوں کی تجدید اور ان کی وسعت کو توسیع دے رہا ہے جیسا کہ جاپان کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ اپنے آئین کو تبدیل کرے تاکہ ٹوکیو زیادہ بڑا کردار ادا کرسکے۔ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود امریکی اتحادی مطمئن نہیں ہیں اور واشنگٹن کے طویل مدتی کردار کے حوالے سے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ رائیٹرز لکھتا ہےکہ "ایشیائی اتحادیوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر وہ چین کی جارحیت کا شکار ہوئے تو ان ممالک کے دفاع کے حوالے سے معاہدوں کے باوجود امریکہ نقصانات کو محدود کرنے کی غرض سے چین کے ساتھ اپنے انتہائی اہم تعلقات کو بچانے کی کوشش کرے گا کیونکہ چین دوسری بڑی عالمی معیشت ہے"۔
یہ چند مثالیں ہیں جہاں پچھلی ایک دہائی کے دوران امریکہ کی سیاسی قوت میں نمایاں کمزوری واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح دوسرے براعظموں میں موجود ممالک سے متعلق امریکی سیاسی قوت میں کمی کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا یہاں چند مثالوں کو پیش کرنا ضروری ہے۔
1۔ بیرونی دنیا میں امریکی سیاسی اثرورسوخ میں کمی سب سے پہلے بش جونیئر کے دور میں واقع ہوئی جب امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا۔ کسی بھی پیمانے کے لحاظ سے یہ ایک بہت ہی برا سیاسی فیصلہ تھا جس نے امریکی خارجہ پالیسی کے لئے کئی مشکلات پیدا کردیں۔ اگر عراق صدر بش کی سٹریٹیجک غلطی تھی تو شام کے مسئلے کے حل میں ناکامی اوبامہ کی سٹریٹیجک غلطی ہے اگرچہ ابھی یہ غلطی عراق کی غلطی کے درجہ کی نہیں لیکن کبھی بھی ہوسکتی ہے۔
2۔ امریکہ کی سیاسی قوت میں کمی اس وقت واقع ہورہی ہے جب امریکہ کی فوجی قوت اپنی بلندیوں پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اپنی فوجی قوت کو سیاسی فائدے میں تبدیل نہیں کرسکا۔ امریکہ ممالک کو تباہ وبرباد کرنے میں تو ماہر ہے لیکن ان قوموں کو کھڑا کرنے میں انتہائی ناکام بھی ہے۔ قوموں کو کھڑا کرنے کے لئے ایک زبردست سیاسی فکر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کے معاملات کو منظم کرنا ہوتا ہے لیکن ان کو تباہ کرنے کے لئے محض ان کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق جتانا ہوتا ہے۔
3۔ جہاں جہاں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ کم ہورہا ہے وہاں یا تو امریکہ کو کسی اہم قوت کی جانب سے سیاسی چیلنج درپیش ہے جیسا کہ یوکرین، یا پھر مقامی لوگوں کی جانب سے چیلنج کا سامنا ہے جن میں سیاسی بیداری پیدا ہوگئی ہے جن کی قیادت سیاسی تحریکیں کررہی ہیں۔ زیادہ تر مسلم ممالک اس دوسری قسم کے چیلنج کے زمرے میں آتے ہیں۔
4۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ 1980 اور 1990 کے مقابلے میں 2003 سے اب تک امریکہ نے خارجہ پالیسی کے معاملے میں کوئی ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ جو چند ایک سیاسی کامیابیاں حاصل بھی کیں تو وہ جلد ہی ناکامیوں میں تبدیل ہوگئیں اور کچھ تو اس کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہی بن گئیں۔
5۔ یہ مسلم دنیا ہے جہاں امریکہ کا سیاسی اثرورسوخ تیزی سے گر رہا ہے جبکہ کئی ممالک میں اہم ترین اداروں پر وہ اب بھی زبردست اثرورسوخ رکھتا ہے جیسا کہ پاکستان، شام اور مصر وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کی آبادی صرف امریکہ مخالف نہیں ہے بلکہ اس نے مغربی ثقافت اور نظریے سے بھی تعلق توڑ لیا ہے۔ یہ صورتحال بغیر فوجی قوت کے استعمال کے سیاسی معاملات کو حل کرنے کی امریکی صلاحیت کو شدید متاثر کرتی نظر آتی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ اس تین اقساط پر مشتمل مضمون میں پیش کیے جانے والے تصوارت سے قاری مستفید ہوں گے اور انہیں استعمال کرتے ہوئے قوموں کے عروج و زوال کے سلسلے کو سمجھنے میں کامیاب ہوں گے۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک