الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

ہم یہ نہیں کہتے کہ خبر الاحد(جس کے رایوں کی صرف ایک کڑی ہو) مسترد ہے،

بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اس پر عمل کرنا واجب ہے

 

انیس مجری کو

سوال:

 

السلام علیکم،

عقیدے کے بارے میں سب سے  زیادہ احادیث احد(جس کے رایوں کی صرف ایک کڑی ہو) ہیں۔ یہ وہ حدیث ہے جس میں جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر سوال کرتے ہیں اور آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ ؛کیا تمہیں معلوم ہے کہ سوال کرنے والا کون ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نےفرمایا کہ، یہ جبریل ہیں جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ یہ عقیدے کے حوالے سے احد حدیث ہے ، تو پھر ہم اس کو کیوں مسترد کرتے ہیں؟

ختم شدہ۔

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

پہلا: لگتا ہے آپ نےشرعی احکامات میں حدیث کی دلیل ہونے کے حوالے سے ہماری طرف سے 9 اکتوبر 2022کو شائع کیا گیا جواب نہیں سمجھا، یا اس کو جس طرح سمجھنا تھا اس طرح نہیں سمجھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ خبر واحد کو مسترد کردی جائے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اس پر عمل واجب ہے، تاہم اس کو عقیدے میں قطعی دلیل کے طور پر شمار نہیں کیا جائے گا، یعنی احد احادیث سے عقیدے میں استدلال نہیں کیا جائے گا کیونکہ احد حدیث ظنی ہیں۔عقائد میں ظن کو نہ لینا کوئی بدعت نہیں بلکہ یہ اللہ کی کتاب میں لکھا ہوا ہے، اور اس حوالے سےکئی آیات ہیں جن میں اُن لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو عقیدے کو ظن سے لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى﴾

" وہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لئے ہیں۔ اللہ نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اور خواہشات نفس کے پیچھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے ۔"(سورۃالنجم، 53:23)

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَى * وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً﴾

" جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہی فرشتوں کے مونث نام رکھتے ہیں، حلانکہ ان کو اس کا کوئی علم نہیں یہ صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں اور ظن حق کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آتا۔" (سورة النجم،28-27)

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:

 

﴿وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنّاً إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً﴾

"ان میں سے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں اور بے شک ظن حق کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آتا۔"(سورة يونس، 10:36)

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

 

﴿الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا﴾

"جو لوگ اللہ کی آیاتوں کے بارے میں بغیر کسی ایسی دلیل کے لڑتے ہیں جو ان کے پاس آئی ہو،یہ اللہ کے نزدیک اور مؤمنوں کے نزدیک بہت بری بات ہے۔"( سورة غافر، 40:35)

 

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً﴾

"بھلا میں ان چیزوں سے جن کو تم (اللہ کا) شریک بناتے ہو کیونکرڈروں جب کہ تم اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ "( سورة الأنعام، 6:81)

 

اور بہت ساری دوسری آیات ہیں۔۔۔

یہ آیات ظن کی پیروی کرنے والے کی مذمت کے حوالے سے بالکل واضح ہیں، اور بغیرقطعی دلیل کے پیروی کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے، ان کی مذمت اور ان کو برا قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ظن کی پیروی پر نہی جازم ہے، اور اس چیز کی پیروی کے لیے نہی جازم ہے جس کی قطعی دلیل موجود نہیں۔۔۔چونکہ یہ آیات عقیدے تک محدود اور عقیدے کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اس لیے یہ سب اس بات پر قطعی طور پر دلالت کرتی ہیں کہ عقائد کےلیے یہ لازمی ہے کہ اس کی دلائل صرف قطعی ہوں، ورنہ وہ معتبر نہیں۔ عقائد کی دلیل ظنی ہونا جائز نہیں۔ آیات ظن سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: ایک یہ کہ اعتقاد (عقیدہ)ظنی دلیل پر نہیں ہونا چاہیے، ظن والی آیات اس پر دلالت کرتی ہیں۔ دوسرا: عقیدے پر قطعی دلیل قائم کرنا فرض ہے تب ہی وہ عقیدہ ہو سکتاہے، اس پر عقائد کے حوالے سے سلطان مبین(قطعی دلائل) والی آیات دلالت کرتی ہیں۔

 

جہاں تک شرعی احکامات کا تعلق ہے تو ان میں یہ جائز ہے کہ ان کی دلیل ظنی ہو، ان میں دلیل کی قطعی ہونے کی شرط نہیں، بلکہ ظنی ہونا جائز ہے، اور قرآن کے نص سے یہ ثابت ہے ، جیساکہ دو گواہوں کی گواہی سے فیصلہ دیا جاسکتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کی گواہی اور صاحب حق کی قسم سے بھی فیصلے دئیے، اور رسول اللہﷺ نے رضاعت میں ایک خاتون کی گواہی بھی قبول کی۔ یہ سب خبر احد ہیں۔ قضا،فیصلہ کرنا واجب ہے اور یہ فرض احد پر عمل کرنا ہے ۔احد کو حکم جاری کرنے کے لیے استعمال کرنا گواہی کو قبول کرنے اور اس کے مطابق حکم دینے کے مترادف ہے، یہ سب عمل میں ہے، یعنی حکم شرعی میں ہے۔صحابہ رضوان اللہ علیھم حکم شرعی بیان کرنے کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے متعلق واحد قول کو قبول کرتے تھے، جیسا کہ کعبہ کی جانب منہ موڑنا، یعنی قبلہ کا معاملہ، چنانچہ مسلم کی روایت ہے کہ :

 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ..

"ہمیں عبد اللہ بن یوسف نے بتایا کہ مالک بن انس نے عبد اللہ بن دینار سے، اور انہوں عبد اللہ بن عمر سے خبردیتے ہوئے کہا کہ جب جب لوگ قبا (مدینہ کے پاس)میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے تو ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ رات کو رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے، اور آپﷺ کو کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تو تم بھی کعبہ کی طرف رخ کرو جبکہ ان سب کا رخ شام کی طرف تھا، تو وہ کعبہ کی طرف مڑ گئے"۔۔۔

 

اسی طرح شراب کی حرمت کے معاملے میں، بخاری نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ:

 

(حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ قَالَ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا كَانَ لَنَا خَمْرٌ غَيْرُ فَضِيخِكُمْ هَذَا الَّذِي تُسَمُّونَهُ الْفَضِيخَ فَإِنِّي لَقَائِمٌ أَسْقِي أَبَا طَلْحَةَ وَفُلَاناً وَفُلَاناً إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ وَهَلْ بَلَغَكُمْ الْخَبَرُ فَقَالُوا وَمَا ذَاكَ قَالَ حُرِّمَتْ الْخَمْرُ قَالُوا أَهْرِقْ هَذِهِ الْقِلَالَ يَا أَنَسُ قَالَ فَمَا سَأَلُوا عَنْهَا وَلَا رَاجَعُوهَا بَعْدَ خَبَرِ الرَّجُلِ)

" ہمیں یعقوب نے بتایا کہ انہوں ابراہیم سے، انہوں نے ابن عُلَیّۃ سے، انہوں نے عبد العزیز بن صہیب سے روایت کی کہ انس بن مالک ؓ نے کہا کہ ہمارے پاس تمہارے اس مٹکے کے علاوہ کوئی شراب نہیں تھی جس کو تم مٹکہ کہتے ہو،میں پلانے پر کھڑا تھا اور ابو طلحہ اور فلاں فلاں کو پلا رہا تھا کہ ایک آدمی آگیا اور کہا کہ کیا آپ کو خبر مل گئی ہے؟ لوگوں نے کہا کیا خبر ہے؟ کہا کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ لوگوں نے کہا اے انس یہ باقی بچی ہوئی (شراب) کوگرا دو ۔ کہتے ہیں کہ اس آدمی کی جانب سے خبر دینے کے بعد اس (شراب)کے بارے میں نہ پوچھا، نہ ہی اس کی طرف رجوع کیا۔"

 

اس سب سے کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ حکمِ شرعی میں ظنی دلیل سے استدلال جائز ہے۔

 

یہ ہم پر اللہ کی نعمت ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں ظن سے عقیدہ اخذ کرنے سے منع کیا اور اس کو قطعی دلیل سے مشروط کیا تاکہ امت کسی اختلاف کے بغیر یکجا ہو، عقیدہ صاف شفاف ہو اور مسلمان عقیدے کے بارے میں کسی ظنی حدیث میں اختلاف کی وجہ سے اپنے مسلمان بھائی کی تکفیر نہ کرے کیونکہ عقیدے میں اختلاف کفر کا راستہ ہے۔ برخلاف خبر واحد پر مبنی حکمِ شرعی کے کیونکہ حکمِ شرعی میں اختلاف ضروری نہیں کہ کفر کی طرف لے جائے۔

 

جو مزارعت (زرعی زمین کو کرائے یا پیداوار کے کچھ حصے کے بدلے دینا)کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس صحیح خبر احد احادیث ہیں، وہ ان لوگوں کوکافر نہیں کہہ سکتے جو مزارعت کو جائز نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے پاس بھی صحیح خبر احد احادیث ہیں،اور دیگر مسائل میں بھی یہی معاملہ ہے ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ حکم شرعی میں قطعی اور ظنی دونوں پر عمل جائز ہے جبکہ عقیدے کو ظنی سے اخذ نہیں کیا جائے گا کیونکہ عقائد کو صرف یقین سے اخذ کیا جاتاہے۔

 

دوسرا: عقائد احد احادیث سے اخذ نہ کرنے کی بات بڑے بڑے فقہا نے کی ہے ،چنانچہ امام عبد الرحیم بن الحسن بن علی الاسنوی الشافعی ، ابو محمد، جمال الدین (متوفی 772 ہجری) نے اپنی کتاب " نھایۃ السول شرح منھاج الوصول" میں کہتے ہیں: (یاد رکھو کہ لفظ دلائل کے کہہ دیے جانے کی وجہ سے بہت ساری باتیں اصول فقہ کے دائرہ عمل سے نکل گئیں، جیسے عمومات، خبر احد، قیاس اور استصحاب وغیرہ۔ اصول فقہ کے عالموں نے اگرچہ ان پر عمل کرنے کو تسلیم کیا ہے مگر یہ ان کے نزدیک فقہ کے دلائل نہیں بلکہ امارات(اشارے) ہیں، کیونکہ دلیل ان کے نزدیک صرف قطعی کو کہا جاتاہے)۔ یوں اصول فقہ کے علما کے دلائل یعنی احکاماتِ شرعیہ کے دلائل کو دلائل نہیں بلکہ احکام شرعیہ کے اشارات کہتے ہیں، کیونکہ دلیل ان کے نزدیک صرف قطعی کو کہا جاتاہے۔ اس لیے دین کی بنیادوں کے لیے دلائل کا قطعی ہونا لازمی ہے، اسی لیے ابراہیم بن موسی بن محمد اللخمی الغرناطی (متوفی 790 ہجری) جو کہ الشاطبیی کے نام سے مشہور ہیں، نےاپنی کتاب"الموافقات" میں کہتے ہیں کہ: (دین میں فقہ کے اصول قطعی ہیں ظنی نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ شرعی کلیات کی طرف لوٹتے ہیں ، جو ایسا ہو وہ قطعی ہوتا ہے۔۔۔ اگر ظنی کو اصول فقہ میں اصل بنانا جائز ہوتا تو اس کو اصول دین میں اصل(بنیاد) بنانا جائز ہوتا مگر ایسا باتفاق نہیں۔ اسی طرح یہاں بھی اصول فقہ کی شریعت سے نسبت اصول دین کی نسبت کی طرح ہے)، وہ اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ اصول فقہ قطعی ہیں کیونکہ یہ اصول دین کی طرح ہیں، اور اصول دین باتفاق قطعی ہیں، اصول دین بعینہ عقائد ہیں عقائد ہی اصول دین ہیں۔۔۔۔۔۔الخ

 

تیسرا: اس کے باوجود اس بات کی تاکید ضروری ہے کہ ظنی پر اعتقاد نہ رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ان احادیث میں جو کچھ ہے اس کو مسترد کیا جائے یا ان میں جو کچھ آیا ہے اس کی تصدیق نہ کی جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو عقیدے میں شامل کرکے ان کی بنیاد پر اپنے کسی مسلمان کی ظن کی وجہ سے تکفیر نہ کی جائے اس میں بہت بڑا فرق ہے۔۔۔کراسہ صفحہ 12 ورڈ فائل میں آیا ہے: ( ۔۔۔ظنی پر اعتقاد کے حرام ہونے کا مطلب ان احادیث میں جو کچھ آیا ہے اس کا انکار نہیں بلکہ اس کا معنی صرف یہ ہے کہ ان احادیث میں جو آیا ہے یہ قطعی اور یقینی نہیں، تاہم ان کو قبول کیا جائے گا ان میں جو کچھ آیا ہے اس کی تصدیق کی جائے گی مگر یہ تصدیق غیر جازم ہے، حرام صرف یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ یہ بالکل قطعی اور یقینی ہے۔ ان میں سے جس میں نص کسی کا مطالبہ کرتا ہو اس پر عمل کیا جائے گا، چنانچہ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

 

«إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنَ التَّشَهُّدِ الأَخِيرِ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ أَرْبَع، مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ»

" تم میں سے جو آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے، جہنم کے عذاب سے، قبر کی عذاب سے، زندگی اور موت کی مشکلات سے، اورمسیح دجال کے فتنے سے۔"

 

ابن ماجه کی روایت ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز میں یہ دعا مانگتے تھے:

 

«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ»

"اے اللہ میں عذابِ قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، میں مسیح دجال کے فتنے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، میں زندگی اور موت کی مشکلات سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور میں گناہ اور قرض سے آپ کی پناہ مانگتاہوں۔" اس کو بخاري نے روایت کی ہے۔ یہ دونوں احادیث خبر احد ہیں اور ان میں ایک فعل کا مطالبہ ہے، یعنی تشہد سے فارغ ہونے کے بعد اس دعا کا مطالبہ کیا گیا ہے ،اس لیے تہشد کے بعد یہ دعا مستحب ہے۔ ان احادیث میں جو آیا ہے اس کی تصدیق کی جائے گی اس پر عمل بھی کیا جائے گا مگر یہ عقیدہ نہیں کیونکہ یہ احد احادیث ہونے کی وجہ سے ظنی ہے، اگر یہ متواتر حدیث سے ہوتے تو اس پر اعتقاد لازم ہوتا۔۔۔) ختم شد۔

 

چوتھا: اب ہم اس حدیث جبریلؑ کی طرف آتے ہیں جس کا ذکر سوال میں ہے۔ اس حدیث کو بخاری نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے، اور مسلم وغیرہ نے بھی ابو ہریرہ ؓاور عمر بن الخطابؓ سے اس کو روایت کیا ہے، اس میں جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ سے اسلام کے بارے میں پوچھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

 

(الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَوَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً»

"اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اگر سفر کی استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔"

 

انہوں(جبریلؑ) نے کہا آپﷺ نے سچ کہا۔ ہمیں تعجب ہوا کہ سوال بھی کر رہا اور تصدیق بھی کر رہا ہے۔ پھراُس نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتاو تو آپ ﷺنے فرمایا:

 

«أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ»

"یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر ،اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر، اور قدر کے خیر وشر کے من جانب اللہ ہونے پر۔"

 

انہوں (جبریلؑ)نے کہا کہ آپ ﷺ نے سچ کہا۔ پھر وہ چلے گئے اور آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

 

«يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ»

"اے عمر جانتے ہو سوال کرنے والا کون ہے؟"

 

میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ بہتر جانتے ہیں فرمایا:

 

«فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ»

"یہ جبریل تھے ،یہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔"

یہ حدیث صحیح ہے، اس کا انکار جائز نہیں، یہ کسی قطعی نص کے خلاف بھی نہیں، مگر یہ اکیلے عقیدہ کے دلیل ہونے کےلیے کافی نہیں۔۔۔

 

اس کے باوجود اس حدیث میں عقیدے کے جن امور کا ذکر ہے وہ سب دوسری قطعی دلائل سے ثابت ہیں، ایمان کے ارکان کے حوالے سے قرآن کی آیات موجود ہیں ،اسی طرح اسلام کے ارکان کے بارے میں بھی۔یوں اس حدیث میں جو بھی آیا ہے اس کے بارے میں دوسری قطعی دلائل موجود ہیں اس لیے ان کو عقیدے میں لیا جاتاہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً بَعِيداً﴾

"اے ایمان والو !ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے رسول پر، اس کے رسول پر نازل کی گئی کتاب پر، اس کتاب پر جو پہلے نازل کی گئی اور جو کفر کرے گا اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا، اور قیامت کے دن کا ،تو وہ گمراہی میں بہت دور نکلے گا۔" (النساء،4:136)

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ :

 

﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ﴾

"رسول ، اس کتاب پر جو اُن کے پروردگار کی طرف سے اُن پر نازل ہوئی، ایمان رکھتے ہیں اور مؤمن بھی۔ سب اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (اللہ سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔"(البقرة،2:285)

 

اسی طرح قدر بمعنی اللہ کے علم اور کتاب بمعنی لوح محفوظ کے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ:

 

﴿وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً﴾"اور اللہ نےقدر مقرر کیا ہوا ہے۔"( سورة الأحزاب:37)،﴿قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً﴾" اللہ نے ہر چیز کےلیے قدر مقرر کی ہے۔"( سورة الطلاق:3)،﴿مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ﴾" ہم نے کتاب میں کسی چیز میں کمی بیشی نہیں کی ہے۔"(الانعام:38)، ﴿كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُوراً﴾"اور یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔"(سورة الإسراء:58) ۔

 

چنانچہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا فیصلہ اس سے قبل اللہ نے کیا ہوتاہے، اس کو کتاب میں لکھا ہوتاہے، یعنی وہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہوتاہے،پس قدر (تقدیر) اللہ کے علم کا استعارہ ہے، جس طرح کتاب اللہ کے علم کا استعارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت میں قدر سے مراد ہے جو پہلے سے اللہ کے علم میں ہو۔ یہ ہے اس کا معنی جو کہ قرآن اور سنت کے نصوص میں ہے۔

 

اسی طرح اسلام کے ارکان جو کہ کتاب اللہ میں ہیں:

 

﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُم﴾

" جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اپنے گناہ پر توبہ کیجئے اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کےلیے بھی اور اللہ تمہاری آمدورفت اور اور رہنے سہنے کی جگہ سے خوب باخبر ہے۔"(محمد:19)

 

﴿مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً﴾

"محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کےلیے سخت اور آپس میں رحم دل ہیں، تم ان کو رکوع وسجدے کی حالت میں ہی دیکھو گے، وہ اللہ کے فضل اور رضا کے متلاشی ہیں۔"( الفتح:29)

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴾

"اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔"(البقرة:183)

 

﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ﴾

"اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔"(البقرة:43)

 

﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً﴾

"اور ان لوگوں پر اللہ کےلیے بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک سفر کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔"(آل عمران:97)

 

اس طرح حدیث رد نہیں ہوتی بلکہ اس کے صحیح معنی میں سمجھی جاتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ مجھے امید ہے کہ معاملہ واضح ہو گیا ہے۔

 

آپ کا بھائی،

عطا بن خلیل ابو الرشتہ

11 جمادی الاولی1444 ہجری

بمطابق5/12/2022

Last modified onمنگل, 24 جنوری 2023 18:04

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک