الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب: قضاء وقدر

محمد طاہر حمیدی کیلئے

 

سوال:

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

افغانستان سے ہمارے فاضل امیر کو!

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

 اللہ سبحانہ وتعالی سے امید کرتا ہوں کہ آپ خیروعافیت سے ہونگے،  اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ ہمیں جلد فتح وکامیابی اور ریاست سے نوازے۔ محترم امیر! آج کل میں کتاب " اسلامی شخصیت"پڑھ رہا ہوں، چنانچہ قدر کے مسئلے میں مجھے اس رائے کا سامنا ہوا  جو اس رائے کے برخلاف ہے جس کو ہم نے کتاب "نظام الاسلام" میں پڑھا تھا۔ میں ان دونوں کتابوں سے ان دونوں عبارتوں کو نقل کرتا ہوں، تاکہ  آپ اس اختلاف کے سبب کو ہمارے لیے بیان  کریں اگریہ واقعی اختلاف جیسا کہ میں نے سمجھا ہے۔

 

شیخ تقی الدین النبھانی رحمہ اللہ نے کتاب "نظام الاسلام"  کے چھٹے ایڈیشن  کے صفحہ 19 میں  انسانی خصوصیات کے بارے میں بتانے کے بعد فرمایا: [ پس اشیاء اورانسان کی یہ متعین خصوصیات،جنہیں اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا ہے،’قدر‘ کہلاتی ہیں،کیونکہ اللہ ہی نے اشیاء، جبلتوں اور جسمانی حاجات کی تخلیق کی ہے اور ان کے اندر ان کی خصوصیات کے اندازے (یعنی قدر) مقرر کردیے ہیں۔  یہ خصوصیات خود ان اشیاء کی پیداکردہ نہیں اور نہ ہی بندے کو ان سے کوئی سروکار ہے او رنہ بندے کا اس میں کوئی عمل دخل ہے]۔

 

اس کے بعد کتاب "اسلامی شخصیت"   جزو اول کے چھٹے ایڈیشن  کے صفحہ 31 میں قدر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ( اور قدر وہ خاصیت ہے  جس کو انسان  ایک چیز میں وجود میں لاتا ہے جیسا کہ آگ میں جلانے کی خاصیت،  چھری میں کاٹنے کی خاصیت)۔

 

کیا ان دونوں عبارتوں میں اشیاء اور انسان میں خاصیتوں کو وجود میں لانے اور پیدا کرنے میں اختلاف نہیں؟ کتاب "اسلامی شخصیت" میں جو آیا ہے اس سے کیا مقصود ہے؟ کیا انسان کے فعل (پیدا کرنے) کا مطلب تخلیق اور وجود میں لانا  ہے؟ اگر آپ اس پر روشنی ڈالیں جس میں ہمیں تعارض و  تضاد نظر آرہا ہے ؛ ہمارے دل سے شک دور ہوجائے گا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ کو ہر برائی اور پریشانی سے بچائے۔

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

پہلا: نظام الاسلام-قضاء وقدر کے باب صفحہ 18-19 میں ہے

 

اب رہی بات قدر کی، تو یہ بات ظاہر ہے کہ تمام افعال،خواہ وہ اُس دائرے سے تعلق رکھتے ہوں جو انسان پر حاوی ہے یا وہ اس دائرے کے ما تحت ہوں جس پر انسان حاوی ہے، کائنات انسان اور حیات کے ذریعے رُونماہوتے ہیں یا کائنات انسان اور حیات پر واقع ہوتے ہیں۔  اللہ تعالیٰ نے ان تمام اشیاء کے لیے کچھ خاصیتیں متعین کی ہیں۔  مثلاً اللہ تعالیٰ نے آگ میں جلانے کی خاصیت رکھ دی،لکڑی میں جلنے کی صفت رکھ دی اور چُھری میں کاٹنے کی تاثیررکھ دی۔  پھر اللہ تعالیٰ نے ان خاصیتوں کو اشیاء کے لیے لازم قرار دے دیااور یہ اشیا کبھی بھی ان خاصیتوں کی خلاف ورزی نہیں کرتیں۔  جب کبھی یہ اشیاء اپنی فطرت کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے اِن کی یہ خاصیت سلب کی ہوتی ہے اور یہ ایک خلافِ معمول اَمر ہوتاہے جو انبیاء سے بطورِ معجزہ صادر ہوتاہے۔  جس طرح اللہ تعالیٰ نے اشیاء کے اند رخاصیتیں پیدا فرمائی ہیں،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر جبلتیں اور جسمانی حاجات رکھ دی ہیں۔  پھر ان جبلتوں اور جسمانی حاجات کے اندر بھی اشیاء کی خاصیتوں کی مانند کچھ متعین خاصیات پیدا کر دی ہیں۔  چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جبلتِ نوع میں جنسی میلان تخلیق کردیا،جسمانی حاجات میں بعض خاصیتیں رکھ دیں مثلاً بھوک اورپیاس وغیرہ۔  پھر نظامِ کائنات کے مطابق انہیں لازم بنادیا۔  پس اشیاء اورانسان کی یہ متعین خاصیات،جنہیں اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا ہے،’قدر‘ کہلاتی ہیں،کیونکہ اللہ ہی نے اشیاء، جبلتوں اور جسمانی حاجات کی تخلیق کی ہے اور ان کے اندر ان کی خصوصیات کے اندازے (یعنی قدر) مقرر کردیے ہیں۔  یہ خصوصیات خود ان اشیاء کی پیداکردہ نہیں اور نہ ہی بندے کو ان سے کوئی سروکار ہے او رنہ بندے کا اس میں کوئی عمل دخل ہے۔  انسان کواس بات پر ایمان رکھنا چاہیے کہ صرف اللہ ہی نے ان اشیاء کے اندر خاصیات ودیعت فرمادی ہیں۔  ان خاصیتوں کے اندریہ قابلیت ہے کہ انسان ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے موافق بھی عمل کرسکتاہے، جو کہ خیر ہے او ر اللہ کے احکامات کے مخالف عمل بھی کرسکتاہے،جو کہ شرہے۔  خوا ہ اللہ تعالیٰ کایہ حکم ان اشیاء کو ان کی خصوصیات کے مطابق استعمال کرنے کے حوالے سے ہویا جبلتوں اور جسمانی حاجات کو پورا کرنے کے لحاظ سے ہو۔  اگریہ افعال اللہ کے اوامر ونواہی کے مطابق ہوں گے،تو خیر کہلائیں گے اور اگر اللہ کے اوامر ونواہی کے خلاف ہوں گے،تو شر کے زمرے میں آئیں گے۔

 

یہیں سے معلوم ہواکہ وہ افعال،جو اُس دائرے میں سے ہیں جوانسان پر حاوی ہے،وہ اللہ کی طرف سے ہیں،خواہ وہ خیر ہوں یا شر۔  و ہ خاصیتیں،جو اشیاء اورجبلتوں اور جسمانی حاجات میں پائی جاتی ہیں،وہ بھی اللہ کی طرف سے ہیں،خواہ ان کانتیجہ خیر ہو یا شر۔  یہی وجہ ہے کہ مسلمان کو قضاء پر ایمان رکھنا چاہیے،قطع نظر اس بات کے،کہ وہ خیر ہویا شر۔  یعنی وہ یہ اعتقاد رکھے کہ وہ افعال جو انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں،وہ اللہ کی طرف سے ہیں۔  اوراسی طرح وہ قدر کے خیر وشر کے بھی مِن جانب اللہ ہونے پر ایمان رکھے۔  یعنی وہ یہ اعتقاد رکھے کہ اشیاء کے اندر موجود خواص طبعی لحاظ سے اللہ کی طرف سے ہیں،خواہ ان کا نتیجہ خیر ہو یا شر اور انسان ان پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔  پس انسان کی اجل (موت کا مقر رہ وقت)،اس کا رزق اور اس کی روح، سب اللہ کی قدرت میں ہیں۔  جس طرح جبلتِ نوع کے اند رپایا جانے والا جنسی میلان،جبلتِ بقاء کے اندر موجودملکیت کی خواہش اور اسی طرح جسمانی حاجات جیسا کہ بھوک اورپیاس،سب کے سب مِن جانب اللہ ہیں۔]

 

یعنی (قضاء و قدر) کی اصطلاح میں قدر سے مراد اشیاء کی وہ خاصیتیں ہیں جن کو اللہ نے ان اشیاء کے اندر پیدا کیا ہے۔۔۔

 

دوسرا: کتاب اسلامی شخصیت جزو اول –باب اسلامی عقیدہ صفحہ 32-33 آیاہے ]۔۔۔اور قضاء وقدر کی دلیل عقلی ہے کیونکہ قضاء کا تعلق دو امور سے ہے:  پہلا وہ جس کا نظام کائنات  تقاضا کرتا ہے، اس کی  دلیل عقلی ہے کیونکہ اس کا  تعلق خالق سے ہے، دوسرا امر انسان کا وہ فعل ہےجو اس سے صادر ہوتا ہے یا  جبرا ًاس پر واقع ہوتا ہے، یہ محسوس چیز ہےجس کا  ادراک حواس کے ذریعے ممکن ہے اس لیے اس کی دلیل عقلی ہے ۔ قدر  وہ خاصیت  ہے جس کو انسان اشیاء  میں عملی جامہ پہناتاہے جیسے آگ میں جلانے کی خاصیت، چھری میں کاٹنے کی خاصیت۔  یہ خاصیت محسوس چیز ہے  جس کا ادراک حواس کے ذریعے ممکن ہے،  یوں قدر کی دلیل عقلی ہے۔[

 

یعنی (قضاء و قدر) کی اصطلاح میں قدر سے مراد اشیاء کی  وہ خاصیتیں ہیں جن کو انسان ان  اشیاء میں استعمال  کرتاہے۔۔۔

 

تیسرا: اسی طرح اسی کتاب اسلامی شخصیت جزو اول –قضاء و قدر کے باب میں  صفحہ 94-99 میں آیاہے

 

[قضاء و قدر کا موضوع  یا دوسرے الفاظ میں  قضاء و قدر کا مسئلہ  بندوں کے افعال اور اشیاء کی صفات ہیں۔  یہ اس طرح کہ درپیش مسئلہ بندوں کے افعال اور ان افعال سے پیدا ہونے والے نتائج ہیں  یعنی  وہ صفات ہیں جن  کو انسان  اشیاء میں انجام دیتاہے کیا یہ  اللہ کی تخلیق ہے  یعنی کیا اللہ نے ان کو پیدا کیا اور وجود بخشا ہے؟ یا یہ بندے کی طرف سے ہیں؟ یعنی بندے نے ان کو پیدا کیا اور وجود بخشا ہے؟۔۔۔

 

اور قدر یہ ہے کہ وہ افعال  جو چاہے اس دائرے میں ہوں جس پر انسان حاوی ہے یا اس دائرے میں جو انسان پر حاوی ہے، جو  کائنات ،حیات اور انسان کے مادے کی اشیاء  سے یا اشیاء پر واقع ہوتے ہیں،اور  فعل سے پیدا ہونے والا اثر، یعنی  اس فعل پر  کسی امر کا وجود میں آنا مرتب ہوتاہے،  پس انسان اشیاء میں  یہ جو صفات کا سبب بنتا ہے  کیا اس کو انسان پیدا کرتا ہے یا اس کا خالق اللہ سبحانہ وتعالی ہے جیسا کہ خود اشیاء کا وہی خالق ہے؟ باریک بینی سے دیکھنے والا  یہ  سمجھ جاتا ہے کہ یہ امور جو اشیاء میں  رونما ہوتے ہیں، یہ اشیاء کی صفات میں سے ہیں، انسان کے فعل سے نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انسان ان کو  صرف ان اشیاء میں ہی  وجود میں لاسکتاہے  جن اشیاء کے اندر یہ صفات موجود ہوں،  جن اشیاء میں یہ صفات موجود نہ ہوں، انسان ان میں جو چاہے وہ  وجود میں نہیں لاسکتا۔  اس لیے یہ امور انسان کے فعل سے نہیں بلکہ اشیاء کی صفات میں سے ہیں،  اللہ تعالی نے اشیاء کو پیدا کرکے  ان کے اندر ان کی صفات کو اس طرح مقدر کردیا کہ  ان اشیاء سے وہی کیا جاسکتاہے جو ان کے اندر مقدر کی گئی ہے۔۔۔

 

جس طرح اشیاء میں صفات  پیدا کی، اسی طرح انسان میں جبلتیں اور عضویاتی ضروریات پیدا کی۔  ان  جبلتوں اور عضویاتی ضروریات میں اشیاء کی صفات کی طرح خصوصیات پیدا کی ، مثال کے طور پر جبلتِ نوع میں جنسی میلان کی خاصیت پیدا کی اور  عضویاتی ضروریات میں بھوک کی خاصیت پیدا کی،  پھر ان خصوصیات کو نظام کائنات  کی سنت کے مطابق ان کےلیے لازم کیا۔  یوں یہ متعین صفات جن کو اللہ سبحانہ وتعالی نے  اشیاء  اور انسان میں موجود جبلتوں اور عضویاتی ضروریات میں پیدا کیا، ان کو قدر کہا جاتاہے، کیونکہ اللہ تعالی نے تن تنہا اشیاء   ،جبلتوں اور عضویاتی ضروریات کو پیدا کرکے ان کے اندر یہ خصوصیات مقدر کی۔۔۔

 

یعنی  ان کی پیدائش اور  ان کے اندر متعین خصوصیات  کی پیدائش اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہے، یہ بندے کی طرف سے نہیں ،نہ بندے کا اس میں کوئی عمل دخل ہے ،نہ مطلقا اس پر کوئی اثر ہے۔ یہی  قدر ہے۔  تب یہ کہا جائے گا کہ (قضاء و قدر) کی بحث میں  قدر سے مراد  اشیاء کی وہ صفات  ہیں جن کے اندر انسان  کام انجام دیتا ہے  اور انسان کو اس بات پر ایمان رکھنا چاہیے کہ  اشیاء کے اندر ان صفات کو مقدر کرنے والا اللہ سبحانہ وتعالی ہے۔۔۔]

 

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اسی کتاب میں (قضاء و قدر) کی بحث میں یہ کہا گیا ہے کہ قدر سے مراد ( اشیاء کی وہ صفات ہیں جن کو انسان ان کے اندر انجام دیتاہے۔۔۔) اس کے بعد انسان کی طرف سے انجام دینے اور اللہ کی طرف سے تخلیق کرنے کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ( وہ صفات جن کو انسان اشیاء  میں انجام دیتا ہے کیا یہ  اللہ کی تخلیق ہے ،اسی نے ان کو وجود میں لایا؟ یا یہ بندے کی طرف سے ہیں؟  یعنی کیا بندے نے ان کو تخلیق کیا اور وجود بخشا ہے؟)  پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: یعنی  ان کی پیدائش اور  ان کے اندر متعین خصوصیات  کی پیدائش اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہے، یہ بندے کی طرف سے نہیں ،نہ بندے کا اس میں کوئی عمل دخل ہے ،نہ مطلقا اس پر کوئی اثر ہے۔ یہی  قدر ہے۔  تب یہ کہا جائے گا کہ (قضاء و قدر) کی بحث میں  قدر سے مراد  اشیاء کی وہ صفات  ہیں جن کے اندر انسان  کام انجام دیتا ہے  اور انسان کو اس بات پر ایمان رکھنا چاہیے کہ  اشیاء کے اندر ان صفات کو مقدر کرنے والا اللہ سبحانہ وتعالی ہے۔۔۔)

 

انسان  اشیاء کے حوالے سے اپنے فعل اور تجربات کے ذریعے  اشیاء کی ان  صفات اور خصوصیات کو  معلوم کرتاہے جن کو اللہ سبحانہ وتعالی نے اشیاء کے اندر پیدا کیا ہے یعنی انسان  اللہ کی جانب سے اشیاء میں پیدا کی گئی خصوصیات کا انکشاف کرتاہے،  اگر اس چیز میں یہ خاصیت پیدا ہی نہیں کی گئی ہو  تب انسان  اس کے اندر اس خاصیت کو  پیدا یا اس کا اظہار اور انکشاف نہیں کر سکتا۔   یہ ہم  نے اوپر کتاب میں سے جو نقل کیا وہ اس بات کو بالکل واضح کرتاہے یعنی انسان کی طرف سے پیدا کرنے کا مطلب ،اگر وہ صفت  اس چیز میں پیدا کی گئی ہو تو   اس کا انکشاف اور اس کو معلوم کرنا ہے۔ امید ہے  یہ کافی ہوگا ،علم اور حکمت تو اللہ ہی کےلیے ہے۔ ختم شد

 

آپ کا بھائی

 عطاء بن خلیل ابو الرشتۃ 

24 محرم الحرام 1444 ھ

بمطابق 22 اگست 2022ء

Last modified onجمعہ, 16 ستمبر 2022 19:01

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک