الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال جواب: دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی کا قاعدہ

(ولید علمی کیلئے)

  

سوال:

السلام علیکم ہمارے شیخ! میرا ایک سوال ہے جو ان دو قاعدوں سے متعلق ہے، اَخفُّ الضررین "دو نقصانات میں سے چھوٹا نقصان" یا، اَھوَنُ الشَّرَّین"دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی" ، ان قاعدوں کو اکثر داعی اور اسلامی تحریکوں کے کارکنان قانون سازی اور صدارتی انتخابات کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دو قاعدوں کو فقہاء تسلیم کرتے ہیں؟ نیز یہ کہ ان کے دلائل کیا ہیں؟ ان کے دلائل کا کیا جواب ہے؟ بارک اللہ بک۔

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہْ

اس قاعدے کے بارے میں ہم نے29 اگست 2010 کو جواب دیا تھا، میں اسی جواب میں سےیہاں نقل کیے دیتا ہوں:

 

["اھون الشرین "یا "اخف الضررین" کا قاعدہ (دو برایئوں میں سے کم یا دو نقصانات میں سے تھوڑے کا قاعدہ)

 

یہ قاعدہ متعدد فقہاء کے نزدیک شرعی قاعدہ ہے، جو علماء اس کے قائل ہیں ،ان کے نزدیک ان دونوں قاعدوں کے ایک ہی معنی ہیں، یعنی دو حرام کاموں میں سے کم حرمت والے کام کا جائز ہو جانااور اس کا جواز ان کے نزدیک اس وقت ہے جب ایک مکلف شخص کے لیے ان میں سے کوئی ایک کام کرنا ناگزیر ہوجائے،اس کے لیے بیک وقت دونوں کام چھوڑنا ممکن ہی نہ ہوں، گویاان دو میں سے کوئی ایک کام کرنے میں وہ مجبور ہو جائے یعنی دونوں سے بری ہونا ہر لحاظ سے اس کی وسعت اور طاقت سے خارج ہو۔

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهَا)"اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا"(البقرة:286 )۔ اور فرمایا: (فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)"تم سے جتنا تم سے ہوسکے اللہ سے تقویٰ اختیار کرو"(التغابن:16 )۔

 

یعنی جن حضرات کے نزدیک یہ قاعدہ قابلِ قبول ہے، ان کے نزدیک یہ اس وقت ہی لاگو ہوگا جب ایک مسلمان کے لیے دو حرام کاموں سے بچنا م ناممکن ہوجائے، یعنی بیک وقت دونوں حراموں سے احتراز ممکن ہی نہ ہو، سوائے اس کے کہ کسی دوسرے بڑے حرام کا ارتکاب کرے، اِس قسم کی صورتحال میں ہی"اخف الضررین" (کم ترین نقصان) کو اختیار کیا جائے گا۔ ان علماء کے نزدیک کم ترین نقصان کا تعین اپنی خواہش سے نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس میں بھی شرعی احکامات کو ملحوظ رکھا جائے گا، چنانچہ دو جانوں کو بچانا ایک جان کی حفاظت سے زیادہ بہتر ہے، اسی طرح تین کا دو سے اور چار کا تین سے، اسی طرح جان کی حفاظت مال کی حفاظت پر مقدم ہے،دار الاسلام کی حفاظت بھی دین کی حفاظت میں داخل ہے،اور دین کی حفاظت جان و مال کی حفاظت سے زیادہ اہم ہے، اسی طرح جہاد اور امامت کبریٰ دونوں حفاظتِ دین میں داخل ہیں ،یہ بالا ترین اور تمام ضرورتوں میں اولین ضرورت ہیں۔ علامہ شاطبی نے الموافقات میں کہا ہے: بلا شبہ لوگوں کی جانیں قابل احترام اور محفوظ ہیں،ان کو زندہ رکھنا مطلوب ہے، اس طرح کہ جب معاملہ ان کی زندگی کے بدلے مال چلے جانے کا ہو،یا ایسی صورتحال ہو کہ جان چلی جانے کے بدلے مال بچ جائے گا، ایسی صورت میں جانوں کی بقا بالاتر اور اولین ہوگی۔۔۔"

 

اس قاعدہ کی تطبیق کے لیے ان علماء نے چند مثالیں ذکر کی ہیں:

 

1-جب ماں کے لیے زچگی (بچے کی پیدائش)مشکل ہوجائے اور ماں اور بچے، دونوں کو بچانا ممکن نہ رہے،اور معاملہ فوری فیصلہ کا تقاضا کرے: کہ یا تو ماں کو بچایا جائے ،جس سے بچے کی موت واقع ہو جائے گی،اور اگر بچے کو بچانے کی کوشش کی جائے تو اس سے ماں کی موت واقع ہونے کا یقینی خدشہ ہو ، اور اگر معاملے کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے اور ایک کو بچانے کے لیے دوسرے کی موت کو واقع نہ ہونے دیا جائے، یعنی ایک کی زندگی بچا کر دوسرے کی زندگی کو داؤ پر نہ لگایا جائے،تو دونوں کی موت واقع ہوگی۔ اس قسم کی صورت حال میں اسی قاعدہ یعنی "اھون الشرین" (برائیوں میں سے چھوٹی برائی) یا کم حرام یا کم فساد کو لیا جائے گا،اور وہ یہ ہے کہ جس کو بچانا مقصود ہےاس کو بچانے کی کوشش کی جائے گی، یعنی ماں،خواہ ماں کو بچا تے ہوئےبچے کی جان چلی جائے۔

 

2-ایک آدمی پانی میں ڈوبنے لگا ہے یا خدشہ ہے کہ اس کو کوئی اور شخص قتل کر ڈالے گا،یا سخت جسمانی تشدد کیے جانے یا اس کے کسی عضو کو شدید نقصان پہنچائے جانے کا سامنا کر رہا ہو،یا کسی عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیے جانے کی صورتِ حال ہے ،اور یہ تمام منکرات کسی مکلف شخص کی موجودگی میں ہورہے ہیں جو ان منکرات سے روکنے کی قدرت رکھتا ہے، جبکہ اس کے ذمے فرض نماز کی ادائیگی بھی باقی ہے، جس کی ادائیگی کے لیے وقت بالکل تھوڑا رہ گیا ہو، اس صورت میں یا تووہ ان حرام کاموں سے منع کرسکتا ہے جس صورت میں اس کی نماز کا وقت چلا جائے گا،یا پھر فرض نماز ادا کرتا ہے جس صورت میں حرام کام وجود پذیر ہوں گے،جبکہ اس کے پاس یہ دونوں کرنے کے لیے وقت نہیں۔ یہاں یہ قاعدہ منطبق ہوگا،اور کئی حرام کاموں کے درمیان موازنہ بھی شریعت کی طرف سے ہوگا، جہاں شریعت نے مذکورہ حرام افعال کو روکنا نماز کی ادائیگی سے زیادہ ضروری قرار دیا ہے،لیکن اگر دونوں کام کرنے کی قدرت ہو تو دونوں واجب ہوں گے۔

 

3-کچھ اور مثالیں بھی ہیں جن کو امام غزالی اور عزِّالدین بن عبد السلام رحمہمااللہ نے ذکر کی ہیں،ان میں بھی اھون الشرین "دو برائیوں میں سےچھوٹی برائی" کے قاعدے کا استعمال ظاہر ہوتا ہے،اور ان مثالوں میں احکامات کے درمیان موازنے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ عز الدین نے اپنی کتاب "قواعد الاحکام فی مصالح الانام" میں فرمایا ہے:" جب خالص قسم کے مفاسد اکٹھے ہوجائیں، تو اگر سارے کے سارے مفاسد کا خاتمہ ممکن ہو تو ہم ان کو ختم کریں گے، اگر سب کو ختم کرنا ممکن نہ ہو ،تو ہم سب سے بڑا فساد پہلے ختم کریں گے ،پھر جو اس کے بعد کے درجے کا ہو،پھر اس سے کم پھر اس سے کم۔ اس کے بعد انہوں نے چند مثالیں ذکر کی ہیں: مثلاً: کسی کو مسلمان کے قتل پر مجبور کیا جائے ،اس طور پر کہ اگر وہ اس کوقتل نہیں کرے گا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا، اس صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ دوسرے مسلمان کے قتل کی برائی کو اپنے قتل ہونے پر صبر کے ذریعے ختم کرے، کیونکہ اس کا قتل ہونے پر صبر کسی اور کو قتل کرنے کے اقدام سے کم برا ہے۔۔۔"۔ تو یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ دو برائیوں یا دو حرام میں سے کم کو اختیار کیا جائے، کیونکہ وہ دونوں سے ایک ساتھ نہیں بچ سکتا، تاہم اگر وہ دونوں سے بچ سکتا ہے تو اس پر ایسا کرنا واجب ہوگا۔

 

ایک اور مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں:" اسی طرح اگر کسی کو قتل کی دھمکی کے ذریعے جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا گیا، یا باطل فیصلہ کرنے پر مجبور کیا گیا، تو اگر جھوٹی گواہی یا باطل فیصلہ کسی دوسرے انسان کوقتل کرنے کے لیےہو ، یا اس کا عضو کاٹ دینے کے لیے ہو یا زنا کے جواز کے لیے ہو،ان تمام صورتوں میں اس کے لیے گواہی اور فیصلہ دینا جائز نہیں ہوگا۔کیونکہ اپنے آپ کو قتل ہونے دینا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی دوسرے بے گناہ انسان کے قتل کا سبب بنے،یا بغیر کسی جرم کے اس کے عضو کو کاٹ دیے جانے کا سبب بنے،یا زنا کرنے کا سبب بنے۔۔۔" ،یعنی جب صورتحال اس طرح ہو کہ یا تو اسے قتل کیا جائے گا یا پھر وہ دوسرے آدمی پر جھوٹی گواہی دے اور جھوٹی گواہی اس دوسرے آدمی کو قتل کرنے یا اس کا کوئی عضو کاٹ دینے یا اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کے لیے ہو تو اس کے لیے گواہی جائز نہ ہوگی بلکہ وہ اپنے قتل ہوجانے پر صبر کرے، کیونکہ اپنے آپ کو قتل کے سپرد کردینا دوسرے مسلمان کے قتل سے اولیٰ اور بالاترہے۔

 

یعنی جس صورتحال میں دونوں حراموں سے بچنے یا دونوں سے رُکنے میں بے بسی کی صورتحال ہو،اسی صورتحال میں ہی اس دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی کے قاعدے کو لاگو کیا جاتا ہے۔

 

یہ اس قاعدہ کی تطبیق کی چند مثالیں ہیں،اور یہ ان علماء کے ذکر کردہ مثالوں کے مطابق ہیں جو اس قاعدہ کے قائل ہیں، لیکن سرکاری درباری مشائخ کی پیش کردہ مثالوں پر یہ قاعدہ پورا نہیں آتا یا وہ لوگ جو باطل اور گمراہ افکار کے ذریعے یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان شریعت کے احکامات سے ہٹ جائیں۔

 

بلا شبہ جو لوگ اس قاعدہ کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ ایک حرام کی بجائے دوسرا حرام کیا جائے ،اپنے اس فعل کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ انہیں جیل بھیجے جانے کا خوف تھا،یا یہ کہ انہیں ان کی نوکری سے انھیں فارغ کرد یا جائے گا، تو یہ بات اس قاعدہ میں داخل نہیں۔

 

اسی طرح وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں حرام ہونے کے باجود ہم کفریہ حکومت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں ،یہ اس لیے کہ ہم فاجر و فاسق قسم کے لوگوں کے لیےمیدان خالی نہیں چھوڑ سکتے،کیونکہ حکومت مکمل ان کے سپرد کرنا بڑا حرام ہے۔۔۔۔ تو یہ قاعدہ یہاں منطبق نہیں ہوتا ،بلکہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی کہے کہ ہم شراب خانہ کھول لیتے ہیں تاکہ اس کی کمائی مسلمانوں کے حصے میں آئے ،بجائے یہ کہ کوئی کافر اسے کھولے اور وہ اس سے مال کمائے۔۔۔

 

اسی طرح یہ قاعدہ اس پر بھی جاری نہیں کیا جاسکتا کہ ایک آدمی دو حرام کاموں کا سامنا کرے اور وہ ان میں سے کم حرام کو اپنائے حالانکہ وہ دونوں سے بچنے کی قدرت رکھتا ہے ،جیسے کہتے ہیں کہ فلاں کو منتخب کرلو، خواہ وہ سیکولرکافریا فاسق ہی ہو،یا فلاں کی حمایت کرو،فلاں کی نہ کرو، کیونکہ پہلا ہمارے ساتھ تعاون کرتا ہے، دوسرا نہیں، اس طرح کی دیگر مثالیں ۔اس معاملے میں تو یہ کہا جائے گا کہ پیش آنے والے دونوں کام حرام ہیں،اس لیے نہ تو ایک سیکولر شخص کا انتخاب جائز ہے نہ ہی اس کو وکیل بنانا جائز ہےکہ ایک مسلمان کی طرف سے اس کو رائے دہی میں قائم مقام بنایا جائے،کیونکہ وہ اسلام کی پابندی نہیں کرتا،نیز وہ حرام کام کرے گا، جو وکیل بنانے والے کے لیے وہ کام خود کرنا بھی جائز نہیں،مثلاً وہ قانون سازی کرے گا، اور حرام قوانین پر دستخط کرےگا، نیز اس سے حرام کاموں کا مطالبہ کیاجائے گا اوروہ اس کو قبول بھی کرےگا، مختصراً وہ معروف سے روکے گا اور منکر کا حکم دے گا۔ چنانچہ اس قسم کے کسی بھی شخص کا انتخاب ناجائز ہوگا۔ کیونکہ دونوں کا انتخاب حرام ہے۔ جبکہ دونوں کے انتخاب کو چھوڑنے کی وسعت موجود ہے۔

 

"دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی" کا قاعدہ اس طرح لاگو نہیں ہوگا کہ مسلمان دو حرام کاموں کا سامنا کر رہا ہو اور وہ ان دونوں سے بچ بھی سکتا ہو،لیکن وہ اپنی خواہش اور ہوس کے مطابق"چھوٹی برائی"اختیار کرتا ہے،اور اس گمان میں کم حرام کر بیٹھتا ہے کہ دونوں حراموں سے بچنے میں تو مشقت ہے۔ ۔۔! تو یہاں یہ قاعدہ جاری نہ ہوگا بلکہ شرعی احکامات کے مطابق حتی الامکان تمام حرام کاموں سے بچنا واجب ہے۔ یہ کم ترین نقصان اور چھوٹی ترین برائی یا آسان ترین شر کے حوالے سے ایک مختصر گفتگو تھی۔ ] اقتباس ختم۔

 

آپ کا بھائی

 

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ،

 

10ربیع الاول 1442ھ

27 اکتوبر 2020 ء

 

Last modified onاتوار, 27 فروری 2022 08:45

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک