الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب:  خلیفہ کی شرائط

 

سوال:

خلیفہ کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ "عادل" ہو۔ ہم اس حکم کو حاصل کرنے کے لئے قیاس کا استعمال کرتے ہیں؛ مگر کیا قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کو بھی اسکی دلیل (ثبوت) کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟

 


(وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ)


"اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو" (النساء : 58)


اللہ تعالى آپ کو اجر عطا فرمائے۔



 

جواب:


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ کا سوال خلیفہ کی تقرری کی شرائط میں سے ایک شرط کے حوالےسے ہے جیسا کہ ہماری کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ہماری کتاب "خلافت کے حکومتی اور انتظامی ڈھانچہ" میں بیان کیا گیا ہے :

خلیفہ کا 'عادل' ہونا ضروری ہے. خلیفہ 'فاسق' نہیں ہو سکتا کیونکہ خلیفہ کے عہدے کے لئے صداقت شرط ہے اور اس کے تسلسل کے لئے ضروری ہے کیونکہ اللہ نے گواہ کے لئے یہ لازم رکھا ہے کہ وہ عادل ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :


 

(وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ)


"اور ایسے دو آدمیوں کو گواہ بنا لو جو صاحب عدل ہوں۔" - [الطلاق: 2]

 


لہذا اگر گواہ کا عادل ہونا ضروری ہے تو پھر خلیفہ جو خود گواہ پر حاکم ہے اور اس سے اعلیٰ ذمہ داری کا حامل ہے تو اس پر یہ بدرجہ اولیٰ ہے کہ وہ عادل ہو۔

جیسا کہ مسئلہ خلیفہ کے عادل ہونے سے متعلق ہے، تو عدل کا خلیفہ کے اوصاف میں ہونا ضروری ہے ناکہ وہ محض عدل سے حکومت کرتاہے اور تنازعات میں عدل سے فیصلہ کرتاہے کیونکہ ایک کافر بھی دو حریفوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کر سکتا ہے مگر ایک کافر جو کہ فاسق ہوتا ہے ، اسےعادل نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ اس مسئلے میں صحیح دلیل وہی ہے جس کا  ذکر کیا جاچکاہے یعنی کہ گواہ میں عدل ہونا واجب ہےاور خلیفہ میں اس کی موجودگی بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔

خلاصہ یہ کہ خلیفہ میں عدل کی شرط کا مطلب یہ ہےکہ خلیفہ خود عادل ہواور امور میں عدل سے فیصلہ کرتا ہو۔ یہاں اسکا ثبوت گواہوں میں عدل کی شرط کا پایا جانا ہے جسکا خلیفہ میں پایا جانا بدرجہ اولیٰ ہے۔

جہاں تک آیت کا بطور دلیل استعمال کرنے کی بات ہےتو  اس آیت کے مطابق لازمی نہیں کہ جو شخص عدل سے فیصلہ کرے  وہ  عادل بھی ہوجیساکہ پہلے کافر کی مثال دی گئی ہے کہ وہ عدل سے فیصلہ کرسکتا ہے مگر عادل نہیں ہوسکتا۔ لہذا جو دلیل ہم نے استعمال کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے۔ اور اللہ بہتر جاننے والا ہے ۔

یہاں اس بات کو بھی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ "حکم" کی اصطلاح کو عربی لغت میں"فیصلہ کرنے" کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 



اس کے بارے میں " اللسان" میں آیا ہے : " الحُكْمُ – کا معنی علم، فقہ  اور عدل پر مبنی فیصلہ ہےاور یہ حَكَمَ يَحْكُمُ  کا مصدر   ہے۔ (قاضى، قَضاء، حُكْمُ)"



عربی کی مشہور لغت "القاموس المحيط " کے مطابق حکم لفظ پر جب  "پیش" آئے تو اس کے معنی  "فیصلہ کرنے" کے ہیں۔  اسی طرح "مختارالشاہ" میں بھی 'حکم' کے معنی فیصلہ کرنے کے ہیں۔

مگر 'حکم' کی اصطلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ، خلفاء راشدین کے دور  میں اور انکے بعد بھی عرب میں 'حکومت' اور سلطان یعنی 'حاکم' کے معنی میں استعمال ہوتا  رہا اور یہی عرب کی عام روایت تھی۔ 

چناچہ 'حکم' کے معنی لغت کے اعتبار سے "فیصلہ کرنے" اور اور عرب زبان کی عام روایت کے اعتبار سے "حکومت کرنے" کے ہیں۔

 



آپکا بھائی 
عطا  بن خلیل ابو رِشتہ


۲ذالحجہ ۱۴۳۹ ہجری


15-07-2018

Last modified onمنگل, 13 نومبر 2018 04:00

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک