الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

  •  سوال و جواب: 
  • قبضہ حاصل کرنے سے پہلے مشین کو فروخت کرنا

ابو احسان مناسرا کے لئے

 

سوال:

ہمارے معزز شیخ،

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

برائے مہربانی کیا آپ "معاہدے"سے متعلق ایک ذاتی سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟

میرے پاس 400 مربع میٹر جگہ کے ساتھ ایک کارپنٹیری مشین ہے۔ایک شخص مشین خریدنے کے لئے آیا اور میں مشین فروخت کرنے پر راضی ہوگیا۔پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ  کیا وہ اس جگہ کو کرایہ پر لے سکتا ہے تاکہ وہ یہاں مجھ سے خریدی ہوئی مشین کو رکھ سکے اورساتھ ساتھ اسی جگہ میں اس پر کام بھی کرسکے۔ہمارے درمیان ان شرائط  پرمعاہدہ ہو گیا۔اہم  بات   یہ  ہے کہ مشین پورٹیبل(آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی) ہے لیکن اسی جگہ میں رکھی جاتی ہے،اور یہ کہ اس جگہ کی چابی اس شخص کے پاس ہو گی کہ جس نے اس جگہ کو کرائے پر لیا  ہے اور مشین کا اصل مالک ہے اور اس کو اس جگہ کا پوراختیار ہے اور  کسی چیز کو  نقصان پہنچائے بغیر جگہ کواستعمال کرنے کے لئے آزاد ہے۔

اگرمشین کو منتقل نہ کیا جائے تو کیا ہمارے درمیان معاہدہ شرعی اعتبار سے درست ہے؟

یا مشین  کومنتقل نہ کرنے اور اُسی جگہ میں رکھے جانے، جسے اُس(مشین کے خریدار)نے کرائے پر لیا ہے،کی وجہ سے معاہدہ باطل ہے؟

اللہ آپ کو برکت عطا فرمائے اور آپ کے ہاتھوں سے فتح لائے۔

برائے مہربانی جلد سے جلد اس سوال کا جواب دیں کیونکہ اس کی ضرورت ہے۔ 

و عليكم السلام و رحمۃ الله و بركاتہ

 

جواب:

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

فروخت میں، شے کی وصولی اور اس کے قبضے کو حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے،لیکن یہ صرف ایسی چیزوں کے لئے ضروری ہے جن کاوزن کیا جا سکتا ہو،انہیں ناپا  اور شمار کیا جاسکتا ہو، مثال کے طور پر چاول ، کپڑا یا کھانے پینے کی چیزیں جیسے تربوز یا کیلےوغیرہ۔۔۔ایسی چیزیں جو ناپی جاتی ہیں اور ان میں  وہ  چیزیں  بھی شامل ہیں جو ہاتھ یا بازوسے ناپی جاتی ہیں۔۔۔یا شمارمیں فروخت کی جاتی ہیں جیسے تربوز یا وہ چیزیں جو وزن کر کے فروخت کی جاتی ہیں اور پیمائش کرکے فروخت کی جاتی ہیں اورہاتھ یابازو کے ذریعے یا  وزن یاشمار کر کے ان کی پیمائش  کی جاتی ہے۔۔۔ان سب کو فروخت کے دوران خریدار کے لئے ان کی جگہ سےمنتقل کرنا ضروری ہے۔ان کی آگے فروخت کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہےکہ ان کا قبضہ حاصل ہو جائے اور وہ شےاس کی  دکان پر منتقل ہو جائے۔پس تاجر کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی  ایسی چیز کو بیچے جس کاوہ مالک نہیں ہےیعنی وہ اس کی دکان میں نہیں ہے،نبیﷺ نے فرمایا:

«مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ»

"جو  کوئی بھی غلہ خریدتا ہےوہ  اُسے اُس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک وہ اُس کا قبضہ حاصل نہ کرلے“(بخاری)۔

 

 اسی طرح مسلم نے ابن عمرؓ سےروایت کیا ہے:

 

«وَكُنَّا نَشْتَرِي الطَّعَامَ مِنْ الرُّكْبَانِ جِزَافًا فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ نَبِيعَهُ حَتَّى نَنْقُلَهُ مِنْ مَكَانِهِ»

"ہم مسافروں سے اندازہ (وزن، پیمائش) کے بغیر غلہ خریدتے تھے، لہذا رسول اللہﷺ  نے ہمیں اس کی فروخت سے منع فرمایا جب تک کہ ہم اسے   اُس جگہ سے منتقل نہ کردیں“۔

مسلم نے نبیﷺسےروایت کیا:

 

«مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَكْتَالَهُ»

"جو بھی خوراک خریدتا ہے،  وہ اسے اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک وہ  اُس کاوزن نہ کرلے"۔

 

حکیم بن حزام ؓسےروایت ہے کہ:

 

«قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَشْتَرِي بُيُوعًا فَمَا يَحِلُّ لِي مِنْهَا وَمَا يُحَرَّمُ عَلَيَّ قَالَ فَإِذَا اشْتَرَيْتَ بَيْعًا فَلَا تَبِعْهُ حَتَّى تَقْبِضَهُ»

"میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ، میں سامان خریدتا  ہوں، میرے لئے کونساحلال ہے اور کونسا حرام ہے؟آپﷺ نے فرمایا ، اگرتم سامان خریدتے ہو، تو اُس وقت تک  آگےفروخت نہ کرو کہ جب تک اُس کو اپنے قبضےمیں نہ لےلو“(احمد)۔

 

زید بن ثابت ؓسےروایت ہے:

 

«إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ»

"نبی ﷺنےمنع فرمایا کہ سامان کو وہاں بیچا جائے جہاں وہ خریدا گیاحتیٰ کہ تاجر اسے اپنے مقامات پر منتقل کر لیں"(ابو داؤد)۔

 

 احمد نے اپنی مسند میں ابن عمر ؓسے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 

«مَنْ اشْتَرَى طَعَامًا بِكَيْلٍ أَوْ وَزْنٍ فَلَا يَبِيعُهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ»

"جوبھی غلہ خریدتا ہے؛ ناپ یا وزن کے حساب سے،تو وہ اُسےاپنےقبضہ میں لینے سے پہلے فروخت نہ کرے"۔

 

یہ واضح ہے کہ احادیث وزن اور پیمانہ، اور ساتھ ساتھ  عام خوراک  کا ذکرکرتی ہیں۔ اورغلہ کو کبھی وزن کیا جاتا ہے،کبھی ناپا جاتا ہے یا گنا جاتا ہے، مثال کے طور  پرکبھی کبھار کچھ قسم کے پھل تعداد کے حساب سے فروخت  کیے جاتے ہیں۔۔۔۔لہٰذا، قبضہ حاصل کرنے کی ضرورت ہراس چیز میں  ایک شرط ہے جس کا تعلق غلہ، وزن، پیمائش یا تعداد کا اندازہ لگانے سے ہو۔

لیکن دیگراشیاء کہ جن کا وزن ، پیمائش یا گنتی نہیں کی جاسکتی، انہیں فروخت کرنے کے لئے اُن کا قبضہ حاصل کرنے کی کوئی شرط نہیں ہیں۔یہ گھر، زمین، جانوروں اور اس طرح کی دیگراشیاء کی فروخت پر لاگو ہوتا ہے، کیونکہ گھر اور زمین  اپنی  جگہ سے نہیں ہلائے جاسکتے،اور جانوروں کے لئے اس حدیث کی بنا پرہے کہ بخاری نے ابن عمر ؓسے روایت کیاہے کہ وہ ایک پریشان کرنے والے اونٹ پر سوار تھےجو کہ عمرؓکا تھا ،

 

«فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِعْنِيهِ فَقَالَ عُمَرُ هُوَ لَكَ فَاشْتَرَاهُ ثُمَّ قَالَ هُوَ لَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ فَاصْنَعْ بِهِ مَا شِئْتَ»

"آپﷺ نے فرمایا: اسے مجھےفروخت کردو۔عمرؓ نے کہا: یہ آپ کا ہوا۔نبیﷺ نے اسے خریدا  اور پھرفرمایا  اے عبد اللہ، یہ تمہارا ہوا ،تم اس کے ساتھ جو چاہو کر سکتے ہو“۔

 

اس حدیث میں نبی ﷺ نے عمرؓ سے اسے خریدا اور عمر ؓسے قبضے میں لینے سے قبل اسے عبد اللہ بن عمر ؓکوفروخت کردیا۔ اس کے علاوہ مسلم نےاپنی صحیح میں عامر سےروایت  کیا، کہ جابر بن عبداللہ ؓنے کہا کہ:

 

«أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا فَأَرَادَ أَنْ يُسَيِّبَهُ قَالَ فَلَحِقَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَدَعَا لِي وَضَرَبَهُ فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ قَالَ بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ قُلْتُ لَا ثُمَّ قَالَ بِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ وَاسْتَثْنَيْتُ عَلَيْهِ حُمْلَانَهُ إِلَى أَهْلِي فَلَمَّا بَلَغْتُ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ فَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ فِي أَثَرِي فَقَالَ أَتُرَانِي مَاكَسْتُكَ لِآخُذَ جَمَلَكَ خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ فَهُوَ لَكَ»

" وہاپنے اونٹ پر سفر کر رہےتھے جو کہ تھوڑا جھک گیاتھا، اور آپ ؓنے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔جب رسول اللہ ﷺ نے  آپؓ سےملاقات کی اور آپؓ کے لئے دعا کی اور اونٹ کو ضرب لگائی، تو وہ ایسے دوڑا جیسے پہلے کبھی نہیں دوڑا تھا۔نبیﷺ نے کہا: اسے ایک 'یوقیہ' میں مجھےفروخت کردو۔میں نے کہا نہیں۔ آپﷺ نےپھر سے کہا: اسے مجھے فروخت کردو۔ لہٰذا میں نے آپﷺ کووہ اونٹ ایک 'یوقیہ'میں فروخت کردیا،لیکن اس شرط  پرکہ اس اونٹ پر سوار ہو کر مجھے اپنےگھر واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ جب میں (اپنے گھر) پہنچا تو میں اونٹ کو آپﷺ کے پاس لے گیا اور انہوں نے مجھے اس کی قیمت نقدمیں ادا کی۔پھر  جب میں واپس  جارہا تھا توانہوں نے میرے پیچھے (کسی شخص کو) بھیجا (اورجب میں لوٹا)توانہوں نے کہا: کیا تم نے دیکھا کہ میں نے تم سے اونٹ خریدنے کے لئے قیمت کم کرنے کو کہا؟اپنا اونٹ اوراپنے سکے لے لو ،یہ تمہارے ہوئے“۔

 

حدیث میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے جابر بن عبداللہؓ کا اونٹ خریدا، لیکن نبی ﷺ نے اس کا قبضہ حاصل نہیں کیا، اور جب تک وہ اپنے گھر نہ پہنچ گئےجابر بن عبداللہؓ اونٹ پر سوار رہے ۔۔۔ اور پھر انہوں نے اونٹ نبیﷺ کودیا۔

لہٰذا، جانوروں اور اسی طرح کی چیزیں جو عام طور پر وزن یا پیمائش یا تعداد کےحساب سے فروخت نہیں کی جاتی ،ان کی آگےفروخت کے لئے ان کا  قبضہ حاصل کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔

لہٰذا کارپینٹری مشین جس کا آپ نےذکر کیا ہے جانوروں کی خرید و فروخت کے زمرے میں آتی ہے، لہٰذا آپ اسے اپنے قبضے میں لئے بغیر فروخت کرسکتے ہیں، یعنی اسےاپنی جگہ سے ہلانا ضروری نہیں۔۔۔۔دوسرے الفاظ میں، مشین کی فروخت کا معاہدہ درست ہے چاہےکہ خریدار اسے اپنے گھر منتقل کردے یا جس جگہ پر وہ رکھی ہے اس جگہ کو کرائے پر لےلےاور مشین  کواُسی جگہ رکھے،اور فروخت کی یہ اجازت درست ہے۔اللہ تعالیٰ مشین کی فروخت کےاس معاہدے میں برکت ڈالے اور آپ اورخریدنے والےکو بھی برکت عطا فرمائے۔ 

 اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جاننے والا ہے، وہ ہماری رہنمائی فرمائے۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

22 جمادی الاول 1439 ہجری

8 فروری 2018 عیسوی

   

 

Last modified onہفتہ, 14 اپریل 2018 05:04

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک