الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب:

اسلامی ریاست کی غیر موجودگی میں زکوۃ کسے ادا کی جائے؟

بجانب: محمد عادل جمیل الغولی

 

سوال:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته،

اے ہمارے شیخ، زکوۃ کسے اداکی جائے اس میں اختلاف ہے۔ کیا  زکوۃ حکومتِ وقت کو ادا کی جائے جبکہ یہ معلوم ہو کہ وہ اسے متعین مستحقین پر خرچ نہیں کرے گی، یا پھر اسے انفرادی طور پر فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا جائے؟ برائے مہربانی دلیل سے وضاحت فرمائیے۔ جزاك الله خيراً

آپ کا بھائی محمد عادل جميل

 

جواب:

آپ غالباً سوال شروع کرنے سے پہلے سلام کرنا بھول گئے ہیں، مگر ہمیں آپ سے بھلائی کی امید ہے اس لئے ہم نے آپ کی جانب سے سلام سے ہی شروع کیا۔ لہٰذا ہم سلام کے جواب ہی سے شروع کرتے ہیں:

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته،

جہاں تک زکوۃ کا تعلق ہے، تو اسلام میں اس کی مندرجہ ذیل اشکال ہیں:

 

1۔ سونا اور چاندی (کرنسی) کی زکوۃ ریاستی اہلکاروں کو ادا کرنا جائز ہے، اور پھر ریاست اسے مستحقین میں تقسیم کرے گی۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ زکوۃ ادا کرنے والا شخص خود ہی اسے اُن آٹھ مستحقین میں تقسیم کر دے جن کا تذکرہ اس آیت میں ہے:

 

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

"زکوٰۃ تو صرف فقراء،مساکین،زکوٰۃ اکھٹا کرنے والوں،جن کے دل جیتنا مقصود ہو،گردن چھڑانے کے لیے، قرضداروں، اللہ کی راہ میں (جہاد) اور مسافروں کے لیے ہیں، یہ خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے" (التوبة: 60)

 

2۔ مویشیوں، ذرائع اجناس، اور پھلوں کی زکوۃ ریاستی عملے کو ہی ادا کرنا جائز ہے اور پھر ریاست اسے مستحقین میں تقسیم کرے گی۔ ان اقسام کے مالک کے لئے جائز نہیں کہ وہ ریاست کے تجویز کردہ طریقے کے بغیر خود ان اشیاء کی زکوۃ کو تقسیم کرے۔

 

3۔ لیکن یہ سب اسلامی ریاست کی موجودگی میں لاگو ہوگا۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ خلافت کے قیام سے امتِ مسلمہ کو درپیش مصیبتوں سے نجات بخشے گے تب مویشیوں، اجناس اور پھلوں کی زکوۃ صرف ریاستِ خلافت کو ادا کی جائے گی نہ کہ انفرادی طور پر۔ جبکہ سونا، چاندی (کرنسی) اور مالِ تجارت کی زکوۃ کے لئے جائز ہے کہ اسے انفرادی طور پر یا ریاست کے ذریعے ادا کیا جائے۔

 

4۔ آج جبکہ ریاستِ خلافت موجود نہیں جو شرعی احکامات کا نفاذ کرتی، تو پھر افراد کو اپنے مال سے خود ہی زکوۃ ادا کرنا فرض ہے چاہے وہ مال مویشیوں کی ہو، یا اجناس، یا مالِ تجارت یا پھر سونا/چاندی کی ہو۔ افراد شرعی احکامات کی روشنی میں خود ہی مستحقین تک پہنچائے گے اور وہ خود اس کی یقین دہانی کریں گے اور اللہ اس سے فلاح کا معاملہ فرمائے۔

 

کتاب "ریاستِ خلافت کے اموال" کے باب "زکوٰۃ خلیفہ کو ادا کرنا"(صفحہ 149) میں درج ذیل کا ذکر ہے:

" زکوٰۃ میں خواہ مویشی ہو،اناج ہو،پھل ہو،نقد ہو یا سامانِ تجارت  ہو  اس کو خلیفہ یا اس کے نائب والی یا عامل  یا زکوٰۃ کو جمع کرنے کے لیے مقرر کیے گئے شخص کو دی جائے گی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ

"ان کے اموال میں ان سے زکوٰۃ لیا کرو تا کہ اس سے تم ان کو پاک صاف کر سکو اور ان کے لیے دعا کیا کرو تمہاری دعا  ان کے لیے سکون  کا باعث ہے"(التوبة: 103)

 

اس آیت میں اللہ نے اپنے رسول کو مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا  ہے اور رسول اللہ ﷺ نے کھجور اور انگور کی فصل کا اندازہ لگانے والوں کو مقرر کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ زکوٰۃ آپ ﷺ کو یا آپ ﷺ  کی طرف سے متعین کیے گئے والیوں،عاملوں یا زکوٰۃ اکھٹا کرنے کے ذمہ داران کو ادا کرتے تھے۔۔۔۔

 

                  صحابہ اور تابعین سے ایسی روایات بھی ہیں کہ یہ بھی جائز ہے کہ کوئی شخص  خود اپنے ہاتھ سے اپنی زکوٰۃ تقسیم کرے اور حقدار کونقدی میں ادا کرے۔چنانچہ ابو عبیدؒ نے روایت کیا ہے کہ کسان  دوسو درہم لے کر عمر  ؓکی خدمت میں آیا اور کہا کہ «يا أمير المؤمنين، هذه زكاة مالي»"اے امیر المومنین یہ  میرے مال کی زکوٰۃ ہے" عمر ؓنے اس سے کہا :«فاذهب بها أنت فاقسمها» "جاؤ تم خود اس کو تقسیم کرو"۔ اسی طرح ابو عبید ؒنے ہی ابن عباس ؓسے  ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :«إذا وضعتها أنت في مواضعها، ولم تَعُدَّ منها أحداً تَعُولُه شيئاً، فلا بأس» "اگر تم خود اس کے حقدار کو دے سکتے ہو اور اس میں کسی بھی ایسے شخص کو نہ دے جس کا نفقہ تجھ پر لازم ہو، تو پھر کوئی مضائقہ نہیں"۔ ابراہیم اور حسن سے بھی روایت ہے کہ:«ضعها مواضعها، وأَخْفِها» "اس کو حقدار کو دو اور چھپا کر دو"۔

 

یہ تو نقدی کی زکوٰۃ کے بارے میں ہے۔  جہاں تک مویشی، اناج اور پھل کی بات ہے اس کو خلیفہ یا اس کے نمائندے کے حوالے کرنا لازم ہے یہی وجہ ہے کہ ابو بکرؓ نے زکوٰۃ حوالے نہ کرنے والوں کے خلاف جہاد کیا جب انہوں نے یہ والیوں، عاملوں اور زکوٰۃ  کے عملے کو دینے سے انکار کیا  جن کو ابو بکر ؓنے متعین کیا تھا اور فرمایا :

 

«والله لو منعوني عناقاً كانوا يؤدونه إلى رسول الله لقاتلتهم عليه»

''اللہ کی قسم! اگر یہ مجھے ایک بكری کا بچہ بھی دینے سے انکار کریں  جو یہ رسول اللہ ﷺ کو ادا کیا کرتے تھے تو میں اس کو وصول کرنے کے لیے ان سے جنگ کروں گا''۔ ابو ہریرہؓ کی یہ روایت متفق علیہ ہے۔" خاتم شد

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خليل أبو الرشتة

22 رمضان المبارك 1438ہجری

17 جون 2017 

Last modified onجمعہ, 15 ستمبر 2017 23:22

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک