الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

زکوٰۃ اور باپ بیٹے کا قرض

ابو خالد کا سوال

 

سوال:

اسلام علیکم و رحمت اللہ؛ میرا سوال زکوٰۃ اور قرضوں کے بارے میں ہے، مجھے امید ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب دینے کے لیے وقت نکال پائیں گے۔

میرے والد پر بہت زیادہ قرض ہے۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر بیٹے اور باپ کے مال کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے یعنی اگر باپ قرض نہ چکا سکے تو وہ خودبخود بیٹے کے ذمے آجاتا ہے۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ اسلامی قانون میں اس مسئلے کی کیا وضاحت دی گئی ہے، خاص طور پر زکوٰۃ کے حوالے سے؟ کیا یہ قرض صرف میرے والد پر ہے اور وہی زکوٰۃ سے آزاد ہیں یا ہم دونوں مقروض ہیں اور ہم دونوں کو یہ قرض ادا کرنا ہوگا؟

 

جواب:

شریعت میں باپ اور بیٹے کا مال ایک نہیں سمجھا جاتا اور اسی طرح باپ کا قرض بیٹے کا قرض نہیں ہوتا۔ لہٰذا باپ اپنے مال کا ذمہ دار ہوتا ہے اور بیٹا اپنے مال کا۔شریعت نے باپ کے مال کے حقوق و فرائض قطع نظر بیٹے کے مال کے بیان کیے ہیں اور اسی طرح بیٹے کے مال کے حقوق و فرائض میں باپ کے مال کو ذکر میں نہیں لایا گیا کیونکہ ان دونوں (باپ بیٹے) کے لیے جدا جدا احکامات ہیں۔ مثلاً اگر باپ کے پاس نصاب کے برابر مال ایک سال سے زائد عرصہ کے لیے ہو تو اس پر زکوۃ فرض ہوجاتی ہے، قطع نظر اس بات کے کہ بیٹے کے پاس کتنا مال ہے۔ اور یہی حکم بیٹے پر بھی اسی طرح لاگو ہوتا ہے۔ایک اور مثال لیتے ہیں :  بیٹے کو اپنی محنت و مشقت کی اجرت طلب کرنے کا پورا حق ہے خواہ اس کے والد کے پاس کتنا ہی مال ہو۔ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق ہر فرد کے لیے خاص احکامات ہیں۔

 

2۔ اس دلیل سے کہ بیٹے کا مال والد کا مال نہیں ہے، اور والد کا مال بیٹے کے مال سے الگ ہے ہم یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔
 

ا:  بیٹا والدین کے تمام مال کا وارث نہیں بلکہ اس میں دوسروں  بھی شریک ہوتے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

 

يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ

"اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے"(النساء:11)۔

اور فرمایا:

وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ،

"اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے اگر اس (میت) کی اولاد ہو "(النساء:11)۔

 

اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی وراثت میں باپ کے علاوہ اور لوگوں کو حصہ دیا ہے۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ مال بیٹے کی زندگی میں تو باپ کی ملکیت ہو اور اس کے مرنے کے بعد اس مال میں اور لوگوں کا بھی حصہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے بیٹے کے مال میں اس کی ماں کو حصہ بیٹے کے مرنے کے بعد دیا ہے۔ چونکہ بیٹے کی وراثت میں اس کی موت کے بعد ماں کا بھی حصہ ہوتا ہے، اس لیےبیٹے کی وراثت کو صرف اس کے والد کا مال گرداننا غلط ہے۔

 

ب: اگر مرنے والے نے، خواہ باپ ہو یا بیٹا، کوئی وصیت کی ہےتووراثت کی تقسیم سے قبل اس کو پورا کیا جائے گا چاہے وہ وارثین(خواہ باپ ہو یا بیٹا) کی خواہش کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ جائیداد کی تقسیم سے پہلے مرنے والے کے ذمے قرض کی ادائیگی بھی فرض ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو مال تقسیم کیا جا رہا ہے وہ مرنے والے کا ہے نہ کہ اس کے باپ یا بیٹے کا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:

 

﴿مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ 

” (یہ حصہ اس) وصیت کے بعد ہوگا جو وہ کر گیا تھا اور قرض ادا کرنے کے بعد“ [النساء: 11]

 

لہٰذا جب ایک شخص کے لیے مرنے سے قبل وصیت کرنا جائز ہے اور جوراثت  کی تقسیم سے پہلے مرنے والے کے قرض کو ادا کرنا فرض ہے، تو یہ ممکن ہی نہیں کہ  مرنے والے کے مال کو اس کے بیٹے یا والد کا مال سمجھا جائے۔

ج: قربانی کے متعلق حدیث میں احمد نے اپنی مُسند میں عبداللہ بن عمروؓسے نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے سکھائیں، مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا میں اس میں کوئی اضافہ نہیں کروں گا، اور پھر وہ چلا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛

 

أَفْلَحَ الرُّوَيْجِلُ، أَفْلَحَ الرُّوَيْجِلُ»، ثُمَّ قَالَ: عَلَيَّ بِهِ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ لَهُ: «أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى، جَعَلَهُ اللَّهُ عِيدًا لِهَذِهِ الْأُمَّةِ»، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةَ ابْنِي، أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: «لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ، وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ،

"یہ آدمی کامیاب  ہوا، یہ آدمی کامیاب ہوا۔ پھر فرمایا کہ اس آدمی کو میرے پاس لے آؤ۔ جب وہ آگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، " مجھے اللہ نے قربانی کا دن ماننے کا حکم دیا اور اس دن کو اللہ نے اس امت کے لیے عید (خوشی) کا تہوار بنایا ہے۔ اس آدمی نے پوچھا کہ اگر مجھے اپنے بیٹے کے اونٹ کے علاوہ اور کچھ نہ ملے تو کیا میں اسے اللہ کی راہ میں قربان کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، " نہیں لیکن اگر تم اپنے ناخن کاٹو، اپنے بال کاٹو، اپنی مونچھیں کاٹو اور اپنے ستر کے بال کاٹ لو تو تمہاری قربانی ہوجائے گی" ابو داؤد نے ایسا ہی روایت کیا ہے ۔ اور شرح معانی الآثار میں بھی ایسا ہی نقل کیا گیا ہے۔ دارقطنی نے سننن میں یہ نقل کیا ہے کہ اس آدمی نے کہا کہ اگر میرے پاس میرے والد کے اونٹ یا میرے والد یا خاندان کے بھیڑ کے علاوہ کچھ نہ ہو تو کیا میں اسے قربان کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، " نہیں لیکن اگر تم اپنے ناخن کاٹو، اپنے بال کاٹو، اپنی مونچھیں کاٹو اور اپنے ستر کے بال کاٹ لو تو اللہ کے نزدیک تمہاری قربانی ہوجائے گی۔

 

اب جس طرح باپ کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے اونٹ کی قربانی کرے اور بیٹے کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ باپ کے اونٹ کی قربانی کرے ، تو اس کا مطلب ہے کہ باپ کا مال بیٹے کا مال نہیں ہوتا۔

 

د: المواهب الجلیل في شرح مختصر خليل (505/2) جو شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن محمد بن عبدالرحمٰن الطرابلسی  المغربی کی تصنیف کردہ ہے جوالرُعینی المالکی (المتوفی:954ھ)کے نام سے مشہور ہیں،میں بیان کیا گیا ہے:

"اگر  کوئی مقروض ہو تو قرض کی واپسی کوحج  کی ادائیگی پر ترجیح دینی چاہیے،یہ  متفقہ رائےہے ،جبکہ والد کے قرض کی ادائیگی پر حج کو فوقیت حاصل ہے، ہم کہتے ہیں کہ چاہے یہ حج یا قرض کی ادائیگی فوری طور پر ہوں یا بدیر ہوں۔ یہ الطراز میں ذکر کیا گیا ہے اور متن یہ ہے کہ: 'اگر اس کے پاس قرض اور پیسہ ہے، تو حج سے  یہ بہتر ہے کہ قرض ادا کیا جائے، مالک نےالموازیۃ میں یہ کہاہے ۔ ان سے کہا گیا  کہ: 'اگر اس کے والد پر قرض  ہو  تو کیا وہ قرض ادا کرے یا حج ادا کرے 'انہوں نے کہا:' 'حج کرنا چاہیے اور یہ واضح ہے کیونکہ حج  اس کا  قرض ہے، فوراً یا بعد میں،جبکہ اس کے والد کا قرض اس کا فرض  نہیں ہے چاہے فوری طور ہو یا بعد میں۔ فرض کو اس عمل پر ترجیح حاصل ہے جو فرض نہ ہو"۔

 

3: اسی طرح "تم اور تمہارامال" کی حدیث کو سمجھا جاتا ہے:

شرع مشکل الآثار میں بیان کیا گیا ہے:"جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میرے پاس مال اور بچے ہیں، اور میرے والدین کے پاس بھی مال اور بچے ہیں، اور وہ اپنا اور میرا مال ایک کرنا چاہتے ہیں، لہذا نبی ﷺ نے فرمایا: «أنت ومالك لأبیك» "تم اور تمہارامال تمہارے باپ کاہے"...میں نے ابن ابی عمران سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس حديث میں کہا: «أنت ومالك لأبيك»"تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے"...یہ کہنا ایسا ہی ہےجیسا ابوبکرؓنے آپ ﷺ سے کہا تھا، "اے اللہ کے رسول ﷺ، میں اور میرا مال آپ کے ہیں"۔ جب رسول الله ﷺ نے فرمایا، مَا نَفَعَنِي مَالٌ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ " مجھے سب سے زیادہ فائدہ ابو بکرکے مال سے پہنچا ہے" ۔ ابو ہریرہؓ سے مروی یہ  حدیث کہ " نبی ﷺ نے فرمایا: مَا نَفَعَنِي مَالٌ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ "مجھے کسی اور مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا  ابو بکر کے مال نے پہنچایا ہے"سے مراد یہ ہے کہ جب  ابو بکر نے کہا، " اے اللہ کے رسول ﷺ، میں اور میرا مال آپ کے ہیں" تو وہ  اپنے اور اپنے مال سے متعلق رسول ﷺ کے تمام احکامات کو ایسے بجا لاتے ہیں گویا آپ ﷺ ہی اس مال کے مالک ہوں اور انہی کو تمام اختیار حاصل ہو۔ اور یہ اس شخص قول ہے جس سے مذکورہ بالا حدیث کے متعلق پوچھا گیا اور اس کا یہ مفہوم ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے۔

 

اس کے علاوہ صحیح ابن حبان میں منقول ہے کہ عائشہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا جس کا اپنے والد کے قرض کے بارے میں اپنے والد سے تنازع تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أنت ومالک لأبيك» "تم اور تمہارا مال تمہارے والد  کا ہے"۔ ابو حاتم نے اس کے بارے میں بیان کیا ہے  کہ رسول اللہ ﷺ کے ایسا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ شخص اپنے والد سے اجنبیوں جیسا سلوک نہ کرے اور اپنے لہجے اور عمل میں نرمی اور رحم لائے جب تک کہ اس کا باپ پیسے واپس نہ کر دے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس شخص کا باپ اس کی مرضی کے بغیر اس کے پیسوں کا مالک بن گیاہے۔ ابنِ رسلان کا قول ہے کہ حدیث میں لفظ 'لام'اباحت پر دلالت کرتا ہے اور یہ ملکیت والا' لام 'نہیں ہے۔ یہ پیسہ بیٹے کا ہے اور اس پر ان پیسوں کی زکوۃ بھی واجب ہے اور یہ پیسہ اس سے اس کی وارثوں کو بھی ملے گا۔

 

4: لہٰذا، اگر آپ کا پیسہ نصاب کے برابر ہو اور اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائےاور آپ پر کوئی قرض بھی نہ ہو تو آپ اپنے پیسے پر زکوۃ ادا کرتے رہیں، اور آپ کے والد اپنے پيسے پر زکوۃ ادا کریں۔ اگراپ کے والد اپنا قرض ادا کرتے ہیں اور باقی رقم نصاب سے زیادہ ہے، تو وہ باقی رقم پر زکوۃ ادا کر یں کیونکہ یہاں مضبوط رائے یہ ہے کہ قرض ایک شخص کو زکوۃ کی ادائیگی سے بری کر دیتا ہے ، اگر اس کا تمام پیسہ اس قرض  کی ادائیگی میں استعمال ہو جائے یا اس کے نتیجے میں باقی مال نصاب سے کم ہوجائے۔

 

ہماری کتاب "ریاستِ خلافت میں اموال" میں صفحہ 150 پر زکوۃ کے بارے میں ذکر ہے کہ:

"جو شخص مالدار ہو اور اس کے پاس ایک سال سے زائد عرصہ سے نصاب کے برابر پیسہ ہو اور اس پر قرض بھی ہو۔ اس کا یہ قرض اگر نصاب کے برابر ہو یا پھر اگر وہ جب اپنا قرض ادا کرے تو باقی کی رقم نصاب سے کم بچے تو اس صورت میں ایسے شخص پر زکوۃ واجب نہیں۔ مثلاً، اگر کسی کے پاس 1000 دینار ہوں اور اس پر قرض بھی 1000 دینار ہو یا اگر کسی کے پاس 40 سونے کے دینار ہوں اور اس کا قرض 30 سونے کے دینار کے برابر ہو تو ایسی صورت میں اس شخص پر کوئی زکوۃ واجب نہیں کیونکہ ان دونوں صورتوں میں باقی کی رقم نصاب سے کم بچتی ہے۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر کسی کے پاس 1000 درھم ہوں اور اس پر قرض بھی 1000 درھم ہو تو اس پر کوئی زکوۃ نہیں۔" ابن قدامہ نے المغنی میں اسے بیان کیا۔

 

اگر قرض ادا کرنے کے بعد مال نصاب کے برابر ہو تو زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے، اس کی دلیل سائب بن یزید کی یہ روایت ہے کہ میں نے عثمان بن عفانؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ "یہ زکوۃ کا مہینہ ہے۔ جو شخص بھی مقروض ہے وہ اپنا قرض ادا کردے تاکہ وہ اپنے مال پر زکوۃ دے "۔ ابنِ قدامہ سے المغنی میں ایک اور روایت ہے کہ " جو شخص بھی مقروض ہے وہ اسے ادا کرے اوراپنے باقی مال پر زکوة ادا کرے"۔ آپ ؓنے صحابہ کی موجودگی میں یہ کہا اور انہوں نے انکار نہیں کیا جو کہ ان کے اجماع کو ظاہر کرتا ہے۔("ریاستِ خلافت میں اموال"کا بیان یہاں ختم ہوا)

 

لہٰذا، سوال کرنے والے کے والد کے پاس اگر پیسہ موجود ہے جو کہ نصاب سے زیادہ ہے اور اس پر ایک سال کی مدت گزر گئی ہے ،لیکن اس پر قرض بھی ہے تو وہ قرض کو پیسے سے منہا کریں ۔ اگر قرض پیسے سے زیادہ ہو،یا قرض کو منہا کرنے سے پیسہ نصاب سے کم بنے تو والد پر زکوٰۃ واجب نہیں لیکن اگر قرض کی مقدار نکالنے کے بعد باقی کی رقم نصاب کے برابر یا نصاب  سے زیادہ ہو تو ایسی صورت میں زکوٰۃ فرض ہے اور والد کو  اپنے مال میں سے زکوۃ دینی چاہیے۔

 

جہاں تک مقروض شخص کے بچوں کا تعلق ہے تو ان پر اپنے والد کا قرض چکانا فرض نہیں  کیونکہ یہ ان کے باپ کا قرض ہے اور اس کی ادائیگی والد پر ہی فرض ہے نہ کہ بچوں پر۔ اگر آپ اپنے والد کی مالی مدد کریں گے تاکہ وہ اپنا قرض ادا کر سکیں تو یہ آپ کا ان کے ساتھ حسنِ سلوک ہوگا اور اسلام میں والدین کے ساتھ بھلائی اور احسان کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے،  وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا" اور والدین کے ساتھ بھلائی کیا کرو"(الاسراء:23)۔ اوربخاری نے روایت کی کہ:

 

عن عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «الصَّلاَةُ عَلَى مِيقَاتِهَا»، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «ثُمَّ بِرُّ الوَالِدَيْنِ»، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «الجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ».

"عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ  ' میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ بہترین عمل کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، نماز پڑھنا، میں نے کہا اور اس کے بعد، فرمایا والدین کے ساتھ بھلائی کرنا، میں کہا اس کے بعد،آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"۔

 

لہٰذا، بچوں کا اپنے والد کی مدد ان سے بھلائی کا معاملہ ہے لیکن جہاں تک فرض کا تعلق ہے تو بچے  اپنا قرض ادا کرنے کے بعد زکوۃ ادا کریں۔ اگر ان کا مال ایک سال سے نصاب کے برابر ہو تو ان پر زکوۃ فرض ہے۔ اگر وہ ایک سال مکمل ہونے سے پہلے اپنے والد کا قرض ادا کریں تو اس صورت میں وہ ان پیسوں کی زکوۃ نہیں دیں گے کیونکہ یہ رقم زکوۃ کا حکم لاگوہونے سے پہلے ہی ان کے مال سے خارج ہو چکی تھی۔ لہٰذا بچے باقی کے مال میں سے زکوۃ دیں گے اگر وہ نصاب کے برابر ہوا اور اس پر ایک سال سے زائد عرصہ گزر  چکا ہو۔  

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابو رَشتہ

22 شوال 1438 ھ

16 جولائی 2017    

Last modified onبدھ, 06 ستمبر 2017 02:54

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک