الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

 ایسے شخص سے قرض لینا جو معاملات میں حلال اور حرام کا خیال نہیں رکھتا

 

منجانب: Najmeddine Khcharem

(ترجمہ)

سوال:

 السلام عليكم اے ہمارے شيخ!

 ہمارے دفتر کے ایک ساتھی کا بھائی بیرونِ ملک کام کرتا ہے، مگر وہ اپنے معاملات میں حلال اور حرام کا خیال نہیں رکھتا۔ دفتر کےاس ساتھی کو گھر کی تعمیر کے سلسلے میں رقم کی ضرورت ہے کیونکہ اب وہ کرائے کے مکان میں نہیں رہنا چاہتا۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا وہ اپنے بھائی سے قرض لے سکتا ہے۔ اس کا بھائی اسے قرض دینے کے لیے تیار بھی ہے؟

 

جواب:

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته،

معاملات میں لوگ تین اشیاء کا تبادلہ کرتے ہیں:

1۔ ایسی چیز جو حرام ہو جیسے شراب (خمر) ۔۔۔ ایسی تمام اشیاء تحفے میں دینا حرام ہیں، اور نہ ہی ایسی چیز کا ادھار یا خریدوفروخت جائز ہے۔ کسی شخص کا شراب دینا، اسے تحفتاً قبول کرنا، اسے بیچنا، اسے خریدنا یا اسے ادھار پر لینا سب حرام معاملات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

«حُرِّمَتِ الْخَمْرُ بِعَيْنِهَا»

"الخمر اپنی ذات سے حرام ہے۔" (نسائی)

 

2۔ ایسی چیز جو چوری شدہ ہو یا غصب کی گئی ہو،  چوری کرنا یا غصب کرنا حرام ہے، اور اسے تحفہ میں دینا، ادھار میں لینا یا دینا، خریدوفروخت کرنا سب حرام ہیں۔ کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اسے حاصل کرے، یا تحفہ میں لے، یا خریدوفروخت کرے یا ادھار کرے۔ کیونکہ مال اس کے مالک کا ہے، جس کے پاس سے بھی ملے گا اسے اصل مالک کو لوٹایا جائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ احمد نے سَمُرَةَ سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«إِذَا سُرِقَ مِنَ الرَّجُلِ مَتَاعٌ، أَوْ ضَاعَ لَهُ مَتَاعٌ، فَوَجَدَهُ بِيَدِ رَجُلٍ بِعَيْنِهِ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ، وَيَرْجِعُ الْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ بِالثَّمَنِ»

"اگر کسی شخص کا سامان چوری ہو جائے اور وہی سامان اسے کسی اور شخص سے ملے تو اس مال پر اصل مالک کا زیادہ حق ہے، اور خریدار شخص کو فروخت کنندہ کو مال لوٹا کر قیمت واپس لینی چاہیے"۔

 

اس دلیل کے تحت مسروقہ مال اصل مالک کو لوٹانا لازم ہے۔

اس میں غصب شدہ مال بھی شامل ہے، جو مال بھی زبردستی حاصل کیا جائے اسے اصل مالک کو لوٹانا لازم ہے۔ اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جو سَمُرَةَ سے مروی ہے کہ: 

«عَلَى اليَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ»

"جو مال زبردستی قبضے میں لیا گیا ہو، اسے لوٹانا لازم ہے۔"(ترمذی نے اسے اخذ کیا اور اسے حسن قرار دیا)

 

3۔ ایسی چیز جو بذاتِ خود حلال ہو جیسے کرنسی (سونا یا چاندی یا کاغذ پر مبنی) مگر اسے حاصل کرنے کے ذرائع جائز نہ ہوں جیسے سود کی کمائی یا جواری کا پیسہ یا سٹاک کمپنی کے حصص سے حاصل شدہ پیسہ۔۔۔ ان تمام ذرائع آمدن کو اپنانا کسی شخص کے لیے جائز نہیں البتہ اس پیسہ کو کسی دوسرے شخص کے لیے وصول کرنا جائز ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ آپ نے اپنی گاڑی ایسے شخص کو فروخت کی جو سودی پیشے سے وابستہ ہے اور آپ اس سے پیسے وصول کرتے ہیں، یا کوئی عورت نفقہ کا خرچہ اس شخص سے حاصل کرے جو سود میں ملوث ہو، یا سودی کاروبار کا حامل شخص کسی کو اپنے خاندان میں تحفہ دے یا کسی کو ادھار دے یا کوئی اور جائزمعاملہ کرے۔ حرام پیسے کا گناہ اس شخص پر ہو گا جو سود میں ملوث ہو نہ کہ اس پیسے کو وصول کرنے والے شخص پر جیسے نفقہ یا تحفہ یا ادھار رقم وصول کرنا۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

 

(وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى)

"اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا"

(الانعام: 164)

 

4۔ لہٰذا بہتر یہ ہو گا کہ ایسے شخص سے معاملات نہ رکھے جائیں جو حرام ذرائع سے مال سمیٹ رہا ہو جیسے سود یا سٹاک کمپنی وغیرہ۔ لہٰذا کوئی بھی اسے کچھ فروخت نہ کرے اور تقویٰ کے پیش ِ نظراس کے تحائف کو قبول نہ کیا جائے۔ تاکہ فروخت کنندہ کو ایسا مال نہ وصول ہو جس میں سود کی آمیزش ہو اور ایسے تحائف کو رد کر دینا چاہیے کیونکہ یہ سودی مال پر مبنی ہیں۔ ایک مسلمان کو ہر ایسی چیز سے دور رہنا چاہیے جو پاک اور شفاف نہ ہو۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام کئی جائز راستوں سے دور رہتے کہ کہیں حرام میں داخل نہ ہو جائیں۔ نبی کریم ﷺ سے حسن اسناد سے مروی ہے کہ:

 

«لَا يَبْلُغُ العَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ المُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ البَأْسُ»

"متقی بندوں میں سے وہ ہیں جو جائز کو اس خوف سے چھوڑ دیں کہ یہ حرام کی طرف نہ لے جاَئے۔"(ترمذی)

 

خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ اپنے بھائی سے قرض حاصل کریں جو سٹاک کمپنی یا سود کے کاروبار سے وابستہ ہے، کیونکہ اس کا گناہ اسی کے ذمہ ہے اور آپ پر ادھار لینے کے ضمن میں نہیں ہے۔ تاہم تقویٰ کے پیشِ نظر جیسے اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ بہتر ہے کہ آپ کسی ایسے شخص سے مالی معاملات طے نہ کریں جو حرام میں ملوث ہوں۔ اگر آپ کے لیے کسی اور سے قرض لینا ممکن ہو جو حلال اور حرام میں فرق رکھتا ہو تو یہ بہتر ہو گا، مگر آپ کا اپنے بھائی سے بھی قرض لینا ،جو حلال و حرام کا خیال نہیں رکھتا، آپ کو گناہگار نہیں کرتا۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خليل أبو الرشتة

8 رجب 1438ہجری

5 اپریل 2017

Last modified onاتوار, 21 مئی 2017 19:44

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک