الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب: تفاوت اور اختلاف میں فرق

 

سوال:

السلام علیکم ہمارے  محترم شیخ

کتاب نظام الاسلام (عربی شمارہ صفحہ نمبر13) میں درج ہے ، "کیونکہ انسانی جبلتوں اور جسمانی حاجات کو منظم کرنے کے بارے میں اس کا فہم تفاوت، اختلاف اور تضادسے دوچار ہوتارہتاہے "۔ یہ میرافہم ہے کہ تفاوت اور اختلاف مترادف الفاظ ہیں اوران کے معنی اگریکسر ایک جیسے نہیں تو قریب تر ہیں۔ تاہم ایک فرق دکھائی دیتا ہے کہ ہر تفاوت مذموم ہوتی ہے اسی لیے اللہ سبحان و تعالیٰ نے  اس کاانکار کیا، اور فرمایا:ما ترى في خلق الرحمن من تفاوت"تم اللہ سبحان و تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی تفاوت(بے ضابطگی) نہ دیکھو گے"(الملک:3) ۔  اور اختلاف مذمت میں نہیں آتا،کیا یہ واضح نہیں کہ اللہ العزیزاورالغفار نے فرمایا : وله اختلاف الليل والنهار"اسی کے لیے ہیں رات اور دن کا بدلتے (اختلاف ) رہنا"(المؤمنون:80)۔  چنانچہ اس طرح کااختلاف فاعل کےمکمل علم کی بنیاد پرہوتا ہےجبکہ تفاوت فاعل کی جہالت کی وجہ سے ہوتاہے۔خلاصہ یہ کہ احکامِ شریعہ اور عقائد میں تفاوت کا وجود نہیں اس کے برعکس احکامِ شریعت میں اختلاف پایاجاتاہے۔لیکن کچھ برادران کی رائے ہے کہ یہ دوالفاظ یکسر مختلف معنی رکھتے ہیں۔اختلاف اس صورت میں بولا جاتا ہے جب آراء متعدد ہوں اور تمام درست ہوں اور سب ہی درست نتیجےتک پہنچتی ہوں،جبکہ تفاوت ایسی صورت کے لیے ہے جب آراء متعددمگر آپس میں متناقض ہوں یعنی ایک درست ہو اور دوسری غلط، ایک درست نتیجے تک پہنچائے اور دوسری غلط تک۔

برائے مہربانی محترم شیخ! ان دونوں الفاظ (اختلاف اور تفاوت )کے معنی کی تفصیل اور وضاحت کر دیجیے جیسے کہ کتاب میں درج ہے۔
شو اکمل امام نظروف

 

جواب:

وعلیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکتہٗ

نظام الاسلام کے جس متن کی طرف آپ نے توجہ دلائی وہ  درج ذیل ہے:

 

"انسانوں کے لیے رسولوں کی ضرورت کی دلیل یہ بھی ہے کہ اپنی جبلتوں اور جسمانی حاجات کوپورا کرنا انسان کی ضرورت ہے ۔ اگران جبلتوں اور جسمانی حاجات کا پورا کرنا کسی نظام کے بغیرہو،تو یہ غلط او رخلافِ معمول ہونے کی وجہ سے انسان کی بدبختی کا سبب بن جائے گا۔ لہٰذا ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے ،جو انسان کی جبلتوں اورجسمانی حاجات کو منظم انداز سے پوراکرے ۔ یہ نظام انسان نہیں بناسکتا کیونکہ انسانی جبلتوں اور جسمانی حاجات کو منظم کرنے کے بارے میں اس کا فہم تفاوت ،اختلاف اور تضادسے دوچار ہوتارہتاہے۔ اسی طرح وہ اس ماحول سے بھی متاثر ہوتاہے ،جس میں وہ رہ رہا ہو۔ پس اگر نظام کابنانا انسان پرچھوڑ دیا جائے تو اس نظام میں تفاوت،اختلاف اور تضاد ہوگا اوریہ انسان کی بدبختی کا سبب بن جائے گا ۔ چنانچہ نظام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوسکتاہے "۔

 

یہ متن انسان کے فہم کے بارے میں ہے جو وہ  اپنی جبلتوں اور عضویاتی حاجات کے نظم وضبط سے متعلق  رکھتا ہےاوراس میں  یہ وضاحت ہے کہ یہ انسانی کج فہمی چارامورکی بنا پر جبلتوں اور عضویاتی حاجات کے نظم و ضبط کے حوالے سے انسانی فیصلوں پر اثراندازہوتےہیں اورنتیجتاً  یہ  فہم نہ سیدھے اورنہ ہی صحیح راستے پرپہنچاتا ہے ۔۔۔  یہ چار امور اگرچہ فہم سے ہی متعلق ہیں لیکن یہ ایک حقیقت نہیں۔۔۔

اس سے پہلے کے مزید تفصیل میں جایا جائے اس بات کی طرف توجہ ازحد ضروری ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ ان چار امورکی وجہ سے  ایک شخص کی جبلتوں کے نظم وضبط سے متعلق سوچ اور فیصلہ دو مختلف اوقات پر دو مختلف آراء پر انجام پذیر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہی چارامور کی وجہ سے دو مختلف اشخاص کی ایک ہی موضوع پر دو متضاد آراء بن  جا ئیں۔چنانچہ درج ذیل وضاحت دونوں صورتوں کے لیے برابر قابلِ قبول ہے چاہے اس کا تعلق ایک ہی شخص کی مختلف جگہ یا مختلف وقت پر متضاد فیصلہ ہو یا دو اشخاص کے مابیں متضاد رائے۔

جہاں تک معنوی تفصیل کا تعلق ہے تو وہ درج ذیل ہے۔

 

1-      جبلتوں کی تنظیمی فہم میں تفاوت کا مطلب اس معاملے میں متفرق آراء کا پایاجاناہے۔ ایسی آراء جو کہ ایک دوسرے سے یکسر جدا ہوں اور بالعموم ان آراء میں نقائص اور ادھورا پن جہالت (ناواقفیت/ نا بلد) اور سراسیمگی یا الجھن کی وجہ سے یا کسی ایک ایسے بنیادی  اصول کی غیر موجودگی پر وہ رائے اختیار کی گئی ہو، چاہےان آراء کا متفر ق ہوناایک ہی شخص کی جانب سے ہوجیسےدو مختلف اوقات اورجگہوں پر متضاد رائےاپنانا ، یا پھر دو اشخاص سے ان کا ظہور ہو نا ہو۔چنانچہ جبلتوں کی تنظیم سےمتعلق آراء میں تفاوت کا مطلب ان آراء میں حد درجہ فرق ہونا ہے اور دونوں آراء کسی عقلی معیار سے خالی ہوتی ہیں بلکہ ان آراء کے مابین دوری اس معاملہ سے نابلدہونا(جاہل)اور الجھن کی وجہ سے ہے۔چنانچہ اکثر و بیشتر جبلتی تنظیم سے متعلق ہر دو آراء غلط ہونگی، کسی ایک کا درست واقع ہونا شاذ ہے اور دونوں کا درست ہونا قطعاً محال ہے۔اس کی وجہ لفظ تفاوت کا لغت میں استعمال ہے جوہر دو نقطہء نظر میں جہل اور الجھن کی بناپرانتہائی متفرق آراء تک پہنچائے۔

 

یہ کہنا ضروری ہے کہ تفاوت کا یہ معنی لوگوں کے مفاہیم اور آرا ء سے متعلق ہے۔۔۔ جہاں تک اللہ سبحان وتعالیٰ کی کائنات میں مخلوقات کی بات ہے تو ان میں کوئی تفاوت نہیں کیونکہ تفاوت تو نقائص اور ادھورے پن سے مرکب ہےاور یہ  جہل اور الجھن سے پاک نہیں اور اللہ ذوالجلال کی تمام مخلوقات ایسی خصلت سے پاک ہیں ۔أَلَالَهُالْخَلْقُوَالْأَمْرُتَبَارَكَاللَّهُرَبُّالْعَالَمِينَ " یاد رکھو مخلوق بھی اسی کی اور فرمانروائی بھی،بڑا ہی برکتوں والاہے وہ اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے" (الاعراف:54)۔ جبکہ مخلوقات کی شکل وصورت میں نظر آنے والا فرق جیسے سورج اپنی ہیئت میں چاند سے مختلف ہے اور دن رات سے مختلف ہے، شکل وصورت کا یہ فرق تمام مخلوقات میں موجود ہے۔  وَكُلُّشَيْءٍعِنْدَهُبِمِقْدَارٍ "اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔" (الرعد:8) وَخَلَقَكُلَّشَيْءٍفَقَدَّرَهُتَقْدِيرًا "اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھرایا۔" (الفرقان:2)


مختار الصحاح کی لغت کے مطابق: 
ف و ت:
فاتہْ :اس نے کچھ کھو دیا 
تفاوَتَ:فرق نے ان کے درمیان فاصلے بڑھا دیے
اور المحیط لغت کے مطابق:
فاتہْ: اس نے معاملہ کھو دیا فوْتاً/فواتاً:وہ چیز اس سے گزر گئی۔دو چیزیں علیحدہ ہوئیں
تفاوَتَ:فرق نے ان کے درمیان فاصلے بڑھائے
اور اللہ سبحان وتعالیٰ کا فرمان ہےکہ: ماتَرَىفيخَلْقِالرَّحْمنِمنتَفاوتٍ"تم اللہ  کی مخلوق میں کچھ نقص نہیں دیکھو گے"(الملک:3)۔ اس آیت میں تفاوت کا مطلب نقص ہے۔
لسان العرب کے مطابق:
فوت،الفوْت،الفواتْ:"فتانی"کوئی مجھ سے گزرگیااور"فتَّہْ"یعنی وہ اس سے گزر گیا۔اور اللہ العزیزنے فرمایا: ماتَرَىفيخَلْقِالرَّحْمنِمنتَفاوتٍ"تم اللہ  کی مخلوق میں کچھ نقص نہیں دیکھو گے"(الملک:3) ۔اس آیت میں تفاوت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی تخلیقِ سمآء میں اختلاف اور الجھن نظر نہیں آئی گی،"تفاوتَ" فرق نے ان کے درمیان فاصلے بڑھا دیے۔

 

2-      اور انسان کے جبلتی تنظیمی فہم میں اختلاف کا مطلب دراصل لوگوں کے اصول و معیار میں فرق کی وجہ سے طرح طرح کی آراء کا ہوناہے۔تو پھر جب ایک فرد مال کی ملکیت کی وجوہات دیکھتا ہے اوران کو اپناتا ہے اسی طرح اس میں اضافے کی بھی وجوہات تسلیم کرتا ہے اور ان کی تبنی کر کے ان پر عمل پیرا ہوتا ہے جبکہ ایک دوسرا فرد پہلے والے سے ہٹ کر وجوہات دیکھتا ہے اوران کو اپناتا ہے ۔۔۔۔چناچہ اب ممکن ہے کہ جن اصول و معیار کی بنیاد پر ان آراء کا حصول ہوا ان کے مطابق اب یاتویہ اختلاف درست ہے یا پھر غلط کیونکہ آخرکار یہ آراء منتخب (مخصوص)اصول سے اخذ شدہ ہیں اورانہی اصولوں پر تعمیر کردہ سوچ اور منصوبہ بندی سے ان تک پہنچا گیا۔ تب ہی مفکرین کے گروہ اور نظریاتی طبقات میں اختلاف پایا گیا۔ چنانچہ یہ نظریات اپنی فکری اساس کی بنیاد پر اب یا تو درست ہونگیں یا پھر غلط۔اور یہ بھی ممکن ہے درستگی اور غلطی کے شائبے دونوں آراء میں موجود ہوں اور یہ بھی بعیدازقیاس نہیں کے دونوں ہی غلط ہوں۔

معجم الفروق اللغوية میں آیا ہے کہ اشیاء میں اختلاف اور نظریاتی طبقات (گروہ) میں اختلاف میں فرق یہ ہے کہ نظریاتی مخاصمت دارگروہ باہمی متناقض آراء اخذ کرتے ہیں جبکہ اشیاء میں اختلاف اس امر کے لیے ہے کہ ایک چیز دوسرے کی بدل (قائم مقام)نہ بن سکے۔اور ایسا بھی ممکن ہے کہ نظریاتی طبقات میں ہر اختلافی رائے غلط ہو جیسے کہ یہود اور عیسائیوں میں حضرت عیسٰی ؑ کی نسبت اختلاف ہے۔
اختلاف کے حوالے سے لسان العرب (9/91) میں آیا ہے کہ اختلافی معاملات ایسے دو معاملات ہیں جن کاآپس میں اتفاق ممکن نہ ہو۔جو کبھی برابر نہ ہو سکتے ہوں اسی لیے ایسے میں کہا جاتا کہ انہوں نے اختلاف کیا اور متفق نہیں ہوئے۔

 

3-      تناقض: افراد کے فہم اور فیصلوں میں ایسا فرق ہو کہ ایک رائے دوسرے کی ہر لحاظ سے مکمل ضد ہویعنی ایک رائے دوسرے کابطلان ثابت ہو۔
لسان العرب (7/242) کے مطابق

ن ق ض:النّقْضْ-یعنی ایک دستخط شدہ (پختہ) عہد نامہ کی منسوخی یا (بِنا)اس کے وجود ہی سے انکار کرنا (عمارت کا ڈھا دینا)۔
اور الصحاح میں آیا ہے کہ النّقْضْ کہتے ہیں عہد یا میثاق یا عمارت کے توڑنے کو اور تناقض تکمیل کی ضد ہے۔
اب تینوں کے استعمال میں فرق کو واضح کرنے کے لیے جبلت بقاء کی مثال لیتے ہیں جس کے مظاہر میں سے ایک مظہر ملکیت ہے:چنانچہ اس معاملے میں اختلاف یہ ہے کہ اس ملکیت میں اضافہ کے لیے شراکت داری "العنان " (جب کچھ فریق محنت اور سرمایہ کے ساتھ کمپنی کا قیام کریں) کی بنیاد پر ہو یا پھر شراکت  Stocks (جب سب فریق صرف سرمایہ کے ساتھ شریک ہوں) کی بنیاد پر ہو ۔  یہ دونوں آراء مختلف بنیاد سےہیں۔۔۔۔

تفاوت یہ ہو گی جب ان میں سے ایک ملکیت کی کوئی حد مقرر نہ کرے اور دوسرا ملکیت کی حد بندی کرے  کہ صرف اس قدر مال کا مالک بن سکتا ہے  جو  زندگی گزارنے کے لئے کافی ہو۔۔۔۔۔۔

اور تناقض ہوگاجب ایک تو انفرادی ملکیت کے جواز کا قائل ہو اور دوسرا ایسی ملکیت کا انکاری ہو۔

 

4-      ماحول سے اثر لینا:یہ چوتھا عنصر ہے جو انسانی فہم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہر کوئی ایک مخصوص ماحول میں پلتا بڑھتا ہے جس میں پہلے ہی سے رائج اور غالب فیصلوں پرکسی میں مثبت یا منفی رجحانات کاپایا جاناایک فطری امر ہے۔چنانچہ ماحول ہی کے اثر کے تحت ایک طرف مداح والی بات کسی دوسرے ماحول میں نا قابل ستائش ہو سکتی ہے۔اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے ماحول میں رائج مظاہر سے اتنی نفرت ہو کہ ان سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی جائے ۔تو پھر  جبلتوں کے لیے تنظیمی ڈھانچہ اگر انسان پر چھوڑ دیا گیا توممکن ہے کہ اس کا ماحول اس کے فیصلوں کے لیے ماخذثابت ہو۔ اس لیے بالکل نا مناسب اور غلط ہے کے حالات سے احکام اخذ کیے جائیں بلکہ حالات کو حل کے استخراج کے لیے موضوع ِ بحث ہونا چاہیے نہ کہ ماخذ۔

 

یہ چار عناصر انسانی جبلتوں اور عضویاتی حاجات کی تسکین کی تنظیم کے لیے کسی بھی انسانی کاوش پر ضرور اپنے نقوش چھوڑتے ہیں۔ تو پھرانسانی فیصلے ضرور تفاوت،اختلاف ،تناقض اور ماحول کے اثر و رسوخ سے عفونت زدہ ہونگے۔چنانچہ عقلِ انسانی ایسی کسی تنطیم دینے سے قاصر ہے جو کہ اس کی جبلتوں اور عضویاتی ضرورتوں کی صحیح تسکین کا سبب بن سکے۔جبکہ اللہ سبحان و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ نظام انسان کے خالقِ مدبرکی طرف سے ہے اور اس کی ذاتِ پاک ان چار عناصر سے مبراء ہے۔پس یہ ہی صحیح نظام ہے جس کے مطابق چلنا چاہیے۔یہ ہی حق ہے۔

 

فَمَاذَابَعْدَالْحَقِّإِلَّاالضَّلَالُ 

"اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد گمراہی کے سوا ہے ہی کیا؟" (یونس:32)۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

30 ذوالقعدہ 1437ہجری

02/09/2016

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک