الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال جواب:خیر ، شر،حسن اور قبح کے درمیان فرق

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال جواب:خیر ، شر،حسن اور قبح کے درمیان فرق

ابو قصی کو

سوال : السلام علیکم   شیخ ! اللہ آپ کی عمر دراز کرے  اور اللہ کے اذن سے آپ کونصر کا شرف حاصل ہو۔ میرا سوال خیر و شر،حسن اور قبح  کے بارے میں ہے کہ جب بھی یہ موضوع  زیر بحث آتا ہے تو شباب کے جوابات مختلف ہوتے ہیں،  امید ہے آپ  اس موضوع میں فرق کو ہمارے لیے واضح کر دیں گے ۔بارک اللہ

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ا ۔   حسن اور قبح،  خیر اور شر اصولِ  فقہ کے علماء کی اصطلاحات ہیں  اس لیے ان کے معانی اسی طرح سمجھیں جائیں گے جیسے انہوں نےوضع کیے اور استعمال کیے ہیں،   یعنی ان کے لغوی معنی کو نہیں دیکھا جائے گا۔  ان کا معنی اور ان کے درمیان فرق تب معلوم ہو گا  جب ان کو اصول ِفقہ کے علماء سے اخذ کیا جائے گانہ کہ علماء ِلغت سے، اس لیے ڈکشنری کھول کر  حسن وقبح اور خیر و شر  کا معنی دیکھ کر یہ نہیں کہا جائے کہ ان کا معنی یہ ہے  بلکہ اصولیوں کے ہاں ان کے معنی کو تلاش کیا جائے گاکہ انہوں نے یہ اصطلاحات کس لیے وضع کیں اور ان کے کیا معنی استعمال کیے۔

ب ۔ اصولیوں نے  اس بات پر بحث کی ہے کہ حاکم کون ہے یعنی افعال پر حکم کون صادر کرتا ہے کہ یہ فرض ہے یا مندوب یا مباح ہے یا مکروہ یا پھر حرام ہے، اسی طرح اشیاء پر کہ یہ حلال ہے یا حرام؟ یعنی مدح اور مذمت کے لحاظ سے ان افعال سے متعلق اوامر ونواہی  کیا ہیں، پھر ان افعال پر ثواب اور عقاب(سزا) کیا مرتب ہوتےہیں۔

ان کے نزدیک حسن وقبح پراسی پہلو سے  بحث  ہے۔ جو شرع کے اوامر کے مطابق ہو  ،ممدوح(قابل ِتعریف) ہو، جس کا حکم دیا گیا ہووہ حسن ہے اوراس پر ثواب ہے۔ اورجو شرع کے حکم کے خلاف ہو، مذموم (قابل ِمذمت)ہو، اس سے منع کیا گیا ہووہ قبیح ہے اور اس پر سزا ہے۔ اسی لیے  حسن وقبح   دراصل افعال  اور اشیاء پر  ،مدح و مذمت  اور ثواب و عقاب کے لحاظ سےحکم لگاتے وقت ہے ۔

اسی بنا پر مثلا  ًچور ی کے بارے میں بحث کرتے وقت اس پر حکم لگانے (یعنی یہ حرام ہے)اور مدح ومذمت  (یعنی ہاتھ کاٹنے )اور اس پر مرتب ہونے والے ثواب اور سزا (یعنی جہنم کی آگ  )کے اعتبار  سے ہم کہتے ہیں کہ چوری قبیح ہے۔

ج ۔ اصولیوں نے   اس پیمانے پر بھی بحث کی ہے جس کے مطابق  یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ  یہ فعل اس شخص کے لیے نقصان دہ ہے یا فائدہ مند،  اس لیے اس شخص کو یہ فعل کرنا چاہیے یا نہیں۔ جب انہوں نے متعین فعل کو اسلام کے اس پیمانے پر پرکھا  تواگر نتیجہ 'فائدہ' ہو تو اس فعل کو  پسند کیا اور سرانجام دیا اور اس فعل کو 'خیر' قرار دیا، اوراگر اس پیمانے کے مطابق نتیجہ'نقصان' ہو تواس  فعل کو ناپسند کیا اس کو ترک کیا اور اس فعل کو'شر' کا نام دیا۔

یوں  مثلاً چوری کے بارے میں بحث کرتے وقت اسلام کے پیمانے کے لحاظ سے اس کے فائدے  اور نقصان کو دیکھ کر اس عمل کو سرانجام دیا جائے گا یا اس کو ترک کیاجائے گا، یہی خیر یا شرہے۔

اس لیے آپ کہیں گے کہ چوری شر ہے کیونکہ اسلام کے پیمانے کے لحاظ اس میں نقصان ہے لہٰذا اس سے باز رہیں۔

د۔ اسی طرح  چوری کو قبیح کہا جائے گا  اگر بحث اس کے بارے میں حکم صادر کرنے کی ہو( یعنی یہ حرام ہے)یا  اس پر ثواب یا سزا کی ہو یعنی   دنیا میں ہاتھ کاٹنے  اور آخرت میں جہنم کی آگ ۔

چوری  کو شر کہا جائے گا اگر بحث  اس پیمانے کے مطابق  اس کے نقصان یا فائدے کی ہو یعنی اس کو اسلام کے پیمانے سے ناپا جائے گا، اپنے فائدے یا خواہش کے پیمانے پر نہیں، تب ہی وہ نقصان دہ معلوم ہو گا اور انسان اس سے باز رہے گا اور اس کو شر کا نام دے گا۔

ھ ۔ خلاصہ

اگر بحث کا دارومدار فعل اور شئ پر حکم لگا نا ہو  کہ اس پر کیا ثواب یا سزا ہے تب حسن اور قبح کی صفت پائی جائے گی۔

اگر بحث کا دارومداروہ پیمانہ ہو جس کے ذریعے  اس فعل کے فائدہ اور نقصان کو ناپا جائے گا  جس کی وجہ سے انسان  اس کو پسند کرے اور انجام دے یا ناپسند کرے اور باز رہے  تب اس میں خیر و شر کی صفت پائی جائے گی۔

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

29 جمادی الاولی 1437 ھ

9/3/2016

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک