الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب

نائجر میں انقلاب کا پس منظر اور اس کے اثرات

 

سوال:

 

نائجر میں انقلاب کی قیادت کرنے والوں نے ہفتہ 13.8.2023 کی شام کو اعلان کیا کہ "وہ  معزول صدر محمد بازوم بتهمة کے خلاف'بڑی خیانت' اور ' ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے'کے الزام میں مقدمہ چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں"۔۔انقلاب کی قیادت کرنے والوں نےاپنے بیان میں ان پابندیوں کی دوبارہ مذمت کو جنہیں مغربی افریقی ملکوں کی اقتصادی تنظیم (ایکواس)نے عائد کی ہے۔۔۔الجزیرہ14.8.2023۔  نائجر میں صدارتی گارڈ کےکمانڈر جنرل عبد الرحمن تشياني نے 7.28.2023کواپنے ملک کے سرکاری ٹیلی ویژن پر اعلان کیا کہ انہوں نے خود کو ملک کا عبوری صدر مقرر کیا ہے۔  یہ اعلان صدارتی گارڈز میں اِس کے فوجیوں  ، جو خود کو"قومی سلامتی کونسل"کہتے ہیں،کے اس اعلان کے دو دن  بعد سامنے آیا کہ انہوں نے صدر محمد بازوم   کوبرطرف کرکے ان کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔  کیا بغاوت کا یہ عمل اندرونی معاملہ ہے جس کا تعلق  ملک میں بااثر قوتوں کےدرمیان لڑائی کے ساتھ ہے یا اس کے پیچھے کوئی بیرونی قوت کار فرما ہےاور یہ اندرونی معاملہ بین الاقوامی رسہ کشی کے ضمن میں ہے؟ اس کو کیا سمجھا جائے کہ صدر پر خیانت کا الزام لگایا گیا مگر ان کو گرفتار نہیں کیا گیا  بلکہ وہ ملک سے باہر عہدہ داروں کے ساتھ رابطے میں ہے؟

 

جواب:

 

صورت حال کو واضح کرنے کےلیے ہم مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھیں گے:

 

پہلا: انقلاب کا پس منظر اور وہ لوگ جنہوں نے انقلاب برپا کیا

 

1۔ باقاعدہ فوجی وردی میں ملبوس نو سیکورٹی اہلکاروں کے گھیرے میں میجر جنرل امادو عبدالرحمن نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ"ہم، دفاعی اور سیکورٹی فورسز، جو کہ قومی سلامتی کونسل میں جمع ہیں،نے اس حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جس کو آپ جانتے ہیں۔یہ فیصلہ امن وامان کی ناگفتہ بہ صورت حال کے تسلسل اور اقتصادی و سماجی بد انتظامی کی وجہ سے کیا گیا۔"  انہوں نے " تمام بیرونی شرکت داروں سے مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیا" اور اعلان کیا کہ "رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک تاحکم ثانی کرفیو رہے گا۔ "۔۔۔(فرانس پریس 26.7.2023 )۔ 

 

2۔ پہلے دن کے ٹال مٹول کرنے کے بعد اگلے دن  فوج نے بھی انقلاب کی حمایت کا اعلان کردیا۔۔فرانس کی سرکاری سائٹ"فرانس 24" نے27.7.2023 کو خبر شائع کی کہ نائجر میں فوج نے صدر محمد بازوم کا تختہ الٹنے والی دفاعی اور سیکورٹی فورسز کی حمایت کا اعلان کیا ہے یہ عمل" سیکورٹی فورسز کی صفوں میں لڑائی سے بچنے کےلیے ہے۔"اخبار نے مزید کہا کہ"چیف آف آرمی اسٹاف عبدہ صدیق عیسی کے دستخط کے ساتھ شائع ہونے والے بیان میں بازوم حکومت کے خاتمے کی حمایت کی گئی ہے۔"  ایسا لگتا ہے کہ ایک دن ٹال مٹول کے بعد جب فوج نے یہ دیکھا کہ وہ انقلاب کو ناکام نہیں بناسکتے تب اس کی حمایت کا اعلان کردیا۔

 

3۔ الحرہ نیوز ایجنسی نے 29.7.2023 کو خبر دی کہ "تشیانی سابق صدر محمدو یوسفو کے وفادار تھے جنہوں نے  2011 سے 2021 تک اپنے دونوں صدارتی ادوار میں ان کو صدارتی سیکورٹی گارڈز کا سربراہ رکھا"۔افریقی امور کےلیے مختص  فرانسیسی میگزین "جان فریک"نےرپورٹ دی کہ "صدر محمد یوسفو صدارتی گارڈ کو بہت اہمیت دیتے تھےجس نے کسی بھی  انقلاب کو ناکام بنانے کےلیے ان کو مکمل اختیارات اور ہر قسم کے وسائل فراہم کر رکھے تھے۔" میگزین نے مزید کہا کہ "جنرل تشیانی سنگدل آدمی ہے فوج اس سے ڈرتی ہے۔"اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ سابق صدر فوج سے ڈرتے تھے کیونکہ فوج میں فرانس کے وفاداروں کا کنٹرول ہے، اور اس کی وجہ یہ ہےکہ نائجر کو بظاہر آزادی دینے کے ساتھ فرانس نے ہی اس فوج قائم کی تھی۔  2015 میں صدر یوسفو کے خلاف انقلاب کی ایک ناکام کوشش کی گئی تھی، یہ بات بعید از امکان نہیں کہ فوج میں موجود فرانس کے پیروکاروں نے یہ کوشش کی تھی، اسی لیے صدر نے عبدالرحمن تشیانی کو ترقی دے کر اپنا سیکورٹی انچارج بنایا تاکہ وہ  مختلف اسباب کی وجہ سے فرانس کے ایجنٹوں کی جانب سے ان کے خلاف انقلاب کی کوششوں کو ناکام بنائے۔

 

4۔ 1960میں فرانس سے بظاہر آزاد ہونے کے بعد نائجر میں چار بار کامیاب انقلابات برپا ہوئے اور کئی ناکام کوششیں کی گئیں، آخری بار کامیاب انقلاب 2010 میں فوج کی جانب سے فرانس کے ایجنٹ صدر محمد تانجا کے خلاف تھا جنہوں نے"سپریم کونسل برائے بحالی جمہوریت"تشکیل دے کر اس کا ایک سربراہ مقرر کیا تھا جس کا نام جنرل سالی جیبو تھا اور یہ دار الحکومت نیامی میں سپورٹ یونٹ کا سربراہ تھا۔  ہم نے 20.2.2010 کےاس انقلاب کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ "امریکی بیانات میں ذمہ داری معزول صدر پر ڈال کر انقلاب کا جواز پیش کرنے کا اشارہ ملتاہے، جیسا کہ امریکی وزارت خارجہ نے صدر کو بحال کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، نہ ہی معزول صدر اور انقلابیوں کے درمیان بات چیت کا مطالبہ کیا بلکہ  نئے انتخابات اور نئی حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔۔۔اس سب سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ انقلاب کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔۔۔لیکن فرانس کا اثرونفوذ بدستور ہر شکل میں موجود ہے، 1500فرانسیسی فرانس کے ایٹمی مفادات کےلیے اب بھی موجود ہیں کیونکہ نائجر یورینیم کے پیداور کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔  یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی لالچی نگاہ بھی اس پر ہے، وہ باقی افریقی ممالک کی طرح، جن میں زیادہ تر مسلم علاقے ہیں جو قدرتی وسائل سے مالامال ہیں اور انواع واقسام کے خام مال  اور توانائی کے ذرائع ہیں، یہاں پر بھی قبضہ جما کر فرانسیسی  کنٹرول کا خاتمہ چاہتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ یہ ملک اور بر اعظم افریقہ یورپی اور امریکی استعماریوں کے درمیان رسہ کشی کا میدان ہے۔ "

 

5۔ اس انقلاب کے بعد  چند مہینوں میں ہی امریکی مطالبے کے مطابق  2011میں انتخابات کرائے گئے جن میں نائجرین سوشلست ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ محمد یوسفو جیت گئے اور 7.4.2011 کو باقاعدہ طور پر ملک کے صدر بن گئے۔  اس کے بعد پارٹی صدارت سے استعفی دیا اور محمد بازوم  پارٹی صدر بن گئے جو 1990 میں وجود میں آنے والی اس پارٹی کے بانی رکن ، یوسفو کے دوست اور مقرب ہیں۔  یوسفو نے ان کو خارجہ امور کےلیے وزیر مقرر کیا ، پھر 2015 میں  ان کو وزیر مملکت مقرر کیا۔  جب یوسفو دوبارہ صدر منتخب ہوگئے تو انہوں نے بازوم کو وزیر مملکت برائے داخلہ ، پبلک سیکیورٹی اور ڈی سینٹرلائزمقرر کیا۔  یوسفو اور محمد بازوم دونوں صدر تانجا کے مخالفین تھے، 18.8.2010 کو جب فوجی انقلاب کے ذریعے محمد تانجا کو ہٹایا گیا یوسفو اور بازوم دنوں نے اس کی حمایت کی۔  اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یوسفو اور بازوم دونوں امریکہ کے وفادار ہیں۔

 

6۔ محمد یوسفو  2011سے 2021 میں اپنے دونوں صدارتی ادوار کے دوران امریکہ کے ساتھ اپنی قربت کا اظہار کیا، چنانچہ ان کو نائجر میں دو اہم فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی۔   ایک  2014میں دوسرا 2018 میں، اور ان دو اڈوں میں ایک ہزار سے زیادہ امریکی فوجی  اور بہت سارے ڈرون طیارے موجود ہیں۔ نون پوسٹ نے 13.9.2018 کواپنے ویب سایٹ پرنانئجر میں امریکی اڈوں کے حوالے سے ایک مترجم رپورٹ شائع کی جس میں گارڈین اخبار کو دیے گئےسابق صدر محمد یوسفو کے انٹرویو کو نقل کیا گیا کہ"میں غیر ملکی فورسز کی اصطلاح استعمال کرنا پسند نہیں کرتا کیونکہ امریکی فورسز ہماری دوست ہیں۔۔سب کو معلوم ہے کہ وہ ہمارے مطالبے پر ہمارے ملک آئی ہیں۔  اپنا مشن پورا کرکے وہ نائجر سے چلے جائیں گے۔"س  اس کے ساتھ ساتھ یوسفو نے فرانس کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات اور اتحاد کو برقرار رکھا، فرانسیسی فورسز کو نہیں نکالا، بلکہ اس نے 2014 میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ساحلی ممالک کے اتحاد میں حصہ لیا جس کی بنیاد فرانس نے رکھی تھی اور فرانس ہی اس کی قیادت کر رہا تھا۔  ایسا لگ رہا ہے کہ وہ  نائجر سے با آسانی فرانسیسی بالادستی کا خاتمہ نہیں کرسکتا تھا اس لیے ملک میں امریکی بالادستی کے مضبوط ہونے تک، جس کو اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے ملک میں داخل کیا تھا، فرانس کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ۔

 

7۔ جب 21.2.2021 کو محمد بازوم صدر منتخب ہوئے اور 1.4.2021 کو  یوسفو کی جگہ اس کی حمایت سے باقاعدہ طور پر صدارت کا منصب سنبھال لیا، یوسفو کی پالیسی پر کاربند رہنے کا عہد کیا۔  صدارت کا منصب سنبھالنے سے دو دن پہلے اپنے خلاف انقلاب کی کوشش ناکام بنادی، اس کوشش کو ناکام بنانے میں محمد یوسفو کے وفادار صدارتی گارڈز کے سربراہ عبدالرحمن تشیانی کا اہم کردار تھا۔۔بازو م امریکی موجودگی کے حامی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی پالیسی پر کار بند رہا۔  عربی 21 نے امریکی ویب سایٹ انٹرسبٹ کے حوالے سے 27.7.2023 کو نائجر میں امریکی موجودگی کے حوالے سے رپورٹ میں امریکی وزیر خارجہ بلینکن کے ساتھ بات چیت میں محمد بازوم کا قول نقل کیا کہ "امریکہ ہی بہترین انتخاب ہے، ضرورت یہ ثابت کرنے کی ہے کہ  ہم حقیقی نتائج دے سکتے ہیں۔" اس لیے اپنے پیشرو اور دوست محمد یوسفو کی طرح محمد بازوم کی پالیسی بھی امریکہ کی وفاداری اور فرانس کے ساتھ بھی دشمنی نہ مول لینے کی ہے کیونکہ سیاسی اور عسکری میڈیم عمومی طور پر  اب بھی 60 سال تک براہ راست، اور اب بلواسطہ ملک کو اپنی کالونی رکھنے والے فرانسیسی استعمار کی طرف جھکاؤ رکھتے  ہیں۔

 

دوسرا: جو کچھ کہا گیا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محمد یوسفو اور بازوم دونوں امریکہ کے وفادار ہیں، صدارتی گارڈز کا سربراہ عبد الرحمن یوسفو کا دوست اور مقرب تھا ، اسی نے ان کو بڑے اختیارات سونپ دئیے تھے۔  صدارت کا منصب سنبھالنے سے دو دن پہلے بازوم کے خلاف انقلاب کی کوشش ناکام بنانے میں ان دونوں کا کردار تھا۔۔۔اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ تینوں ایک ہی پچ پر تھے، تو پھر یہ انقلاب کس لیے؟ جو کچھ ہوا اس کے پس منظر کو باریک بینی سے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ:

 

1۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ گارڈز کا سربراہ  یوسفو کا قابل اعتماد اور مقرب تھا اور فوج میں موجود فرانسیسی ایجنٹوں کے مقابلے میں اس کا دفاع کرتا تھا۔۔ذرائع ابلاغ بشمول الشرق الاوسط نے 28.7.2023 کو انقلاب کے سربراہ عبد الرحمن تشیانی کے حوالے سے رپورٹ شائع کرتے ہوئے کہا کہ  وہ فوج میں شامل ہو کر افسر بن گیا، اندرنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے انہوں نے بعض عسکری یونٹوں کی قیادت کی تھی مگر 2011میں سابق صدر محمد یوسفو کے اقتدار سنبھالتے ہی یہ نمایاں ہوگئے  اور ان کا قابل اعتماد بن گئے۔  یوسفو کی حکمرانی کے دوران تشیانی نے بہت تیزی سے عسکری مناصب میں ترقی کرتے ہوئے جنرل کے عہدے پر پہنچ گئے، وہ عسکری ادارے میں معمول کے مطابق  ترقی پاتے ہوئے اس منصب تک نہیں پہنچے۔۔یوسفو نے 2015 میں ان کو نیشنل گارڈز کا سربراہ مقرر کیا، یہ صدر کی حفاظت کا ذمہ دار اسپیشل فورس ہے۔۔خاص کر یوسفو کے خلاف انقلاب کی ناکام کوشش کے بعد۔

 

2۔ 2021 میں محمد بازوم کے اقتدار میں آنے سے دو دن پہلے باقاعدہ طور پر ملک کا صدر بننے اور حلف اٹھانے سے پہلےاس کو  انقلاب کی ایک ناکام کوشش کا سامنا ہوا۔۔جس کی وجہ سے انہوں نے صدارتی گارڈز میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی مگر انہوں نے جنرل تشیانی کو  یوسفو کی سفارش پر کمانڈر برقرار رکھا جنہوں نے اقتدار ان کے حوالے کیا تھا، ان کے بازوم کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار تھے۔  یوسفو حکمران جماعت کے اندر سب سے طاقتور آدمی سمجھے جاتے ہیں انہوں نے اپنے بیٹے کو حکومت میں وزیر معدانیات لگوایا۔

 

3۔ ذرائع کے مطابق بازوم کے قریبی لوگ تشیانی کے حوالے سے ان کو خبردار کرتے تھے، اپنی حکومت مضبوط کرنے کےلیے  ان کو صدارتی گارڈز کی قیادت سے فارغ کرنے کی نصیحت کرتے تھے۔  مگر انہوں نے اپنے دوست سابق صدر کی سفارش پر ان کو برقرار رکھا، تاہم حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا میں سرگرم بعض سیاست دان کہہ رہے تھے کہ بازوم تشیانی کو برطرف اور عسکری ادارے اور نیشنل گارڈ میں تبدیلیوں کا ارادہ رکھتاہے۔  یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ سابق صدر کے بیٹے وزیر معدانیات کو بھی برطرف کرنا چاہتے تھے، یہی چیز ان کے اور سابق صدر کے درمیان تعلقات کے خراب ہونے کا سبب بن گئی۔۔بلکہ اس سے یوسفو اور ان کے  قریبی دوست تشیانی ناراض ہوگئے۔  اس کی وجہ سے بازوم کی مقبولیت میں بھی کمی ہوئی، حکمران جماعت کے کئی قائدین ان کے حوالے سے چہ میگوئیاں کرنے لگے کیونکہ ان کا تعلق ھوسا قبیلے سے نہیں جو ملک کی آدھی آبادی کی نمائدگی کرتاہے، بلکہ یہ عرب نسل  سے تعلق رکھتاہے۔۔اس کا مطلب ہے کہ دارالحکومت میں اس کے ووٹ کم ہیں اسی لیے ان کے تقرر سے دو دن پہلے ہی ان کے خلاف انقلاب کی ناکام کوشش ہوئی تھی۔  یہ دوسری نسل کے لوگوں اور بعض فوجی کمانڈروں کو بھی کو بھی قابل قبول نہیں تھے ۔

 

4۔ یوں عبد الرحمن تشیانی سابق صدر محمد یوسفو کے عہد میں صدارتی گارڈز کے سربراہ تھے مگر موجودہ صدر ان کو تبدیل کرنے کا سوچ رہے تھے۔۔الجزیرہ نے 28.7.2023 اپنی ویب سایٹ "میڈیا پارٹ"سے نقل کرتے ہوئے یہ رپورٹ شائع کی کہ "جنرل عبد الرحمن تشیانی سابق صدر محمد یوسفو کے عہد میں صدارتی گارڈز کے سربراہ تھے، مگر موجودہ صدر ان کو تبدیل کرنے کا سوچ رہے تھے  کیونکہ نائجرین فوجی ماہرین کے مطابق وہ سابق صدر کے ساتھ وفاداری کےلیے مشہور ہیں۔  سیاسی تجزیہ کار موسیٰ اکسر نے ویب سایٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام اشارے بتارہے ہیں کہ سابق صدر محمد یوسفو دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔۔وہ تیل پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں، کئی کمپنیوں میں ان کے پاس بہت سارے شئیرز ہیں۔  ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سابق  صدر کے عہد میں نائجرین کے وزارت  دفاع میں کرپشن ہوئی ہے"۔  یہ رپورٹ اس بات کی تائید کرتی ہے کہ بغاوت کے اندرونی محرکات ہیں گویا یہ بغاوت کی بنیادی وجہ ہے۔  اسی لیے جب یہ بغاوت ہوئی امریکہ، فرانس،  یورپی یونین، برطانیہ، روس اور علاقائی طاقتوں نے اس کی شدید مذمت کی۔۔گویا سب حیران تھے!!

 

5۔ امریکہ اور اقوام متحدہ نے انقلاب کی مذمت کی ۔۔فرانس اور یورپی یونین نے انقلاب کی مذمت کی۔۔مغربی افریقہ کی اقتصادی تنظیم"ایکواس"نے مذمت کی۔۔حتیٰ کہ برطانیہ، جس کا نائجر میں کوئی وجود نہیں، نے انقلاب کی مذمت کی!اسی طرح روس، جس کا یہاں کوئی وجود نہیں نہ ہی اس کے واگنر کی کوئی موجودگی نہیں ہے، نے مذمت کی۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ مظاہروں میں اس کے جھنڈے کو لہرانا  گمراہ کن ہے!وائٹ ہاوس کے ترجمان کارین جان بیر نے کہا "امریکہ کو روس کے اس میں ملوث ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا نہ ہی  خاص طور پر روسی عسکری گروپ واگنر کے نائجر کے انقلاب میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد ہیں۔"۔۔۔رائٹرز  27.7.2023۔

 

تیسرا: خلاصہ

 

1۔ راجح بات یہ ہے کہ یہ انقلاب داخلی محرکات کی وجہ سے ہے، یہ امریکی ایجنٹوں کی باہمی رسہ کشی یا جھڑپ ہے: ایک طرف یوسفو اور عبد الرحمن ہیں دوسری طرف بازوم ہیں۔۔جب پہلے دو کو یہ علم ہوا کہ بازوم سابق صدر یوسفو کے بیٹے اور عبد الرحمن کو برطرف کرنا چاہتا ہے  تو ان دونوں نے اس انقلاب کا منصوبہ بنایا، مگر انہوں نے جوڑ توڑ کا راستہ بند نہیں کیا کیونکہ یہ سب امریکی ایجنٹ ہیں۔ اس کے بعد بازوم کو گرفتار کرنے یا جیل میں ڈالنے میں ٹال مٹول سے کام لیا، انقلاب کے کچھ دن بعد اس پر خیانت کا الزام لگایا، حلانکہ وہ اپنی رہائش گاہ پر موجود ہے، کبھی ان کو تنگ کرتے ہیں کبھی ان کو دوائی اور خوراک لینے کی اجازت دیتے ہیں۔  ساتھ ہی امریکہ اور نیامی میں اس کا سفیر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کےلیے تگ ودو میں مصروف ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ یہ انقلاب امریکی ایجنٹو کی باہمی چپقلش ہی ہے۔

 

2۔ اس انقلاب سے جس کو سب سے زیادہ نقصان ہوا وہ فرانس ہے، چونکہ انقلابی امریکہ کے وفادار ہیں اس لیےانہوں نے اپنے انقلاب کا جواز فراہم کرنے کےلیے فرانس کے الجھے ہوئے اور جارحانہ موقف سے فائد اٹھانے کی کوشش کی۔  پرانے استعمار سے لوگوں کی نفرت اور اس کی جانب سے ملک میں لوٹ مار کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی، یہی وجہ ہے کہ 30.7.2023 کو ہزاروں لوگوں نے فرانسیسی سفارت خانے کے سامنے فرانس کے خلاف احتجاج کیا، فرانس کے خلاف نعرہ بازی کی۔

 

3۔ امریکہ اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کرے گا اوراس کو فرانس کے خلاف اپنے اثرونفوذ کو مضبوط کرنے کےلیے استعمال کرے گا، جیسے:

 

۔اگر ممکن ہو بازوم کو بحال کرنے کی شکل میں، اگر چہ یہ آسان نہیں، ان کی بحالی بھی امریکہ کے مفاد میں ہے کیونکہ وہ بھی امریکی ایجنٹ ہے، اگرچہ وہ فرانس کے ساتھ بھی چلتاہے۔  رائے عامہ بھی انقلاب کے خلاف ہے، ان کو واپس لانے کا مطالبہ ہو رہا ہے کیونکہ منتخب اور قانونی صدر ہے۔

 

۔ یا پھر انقلابیوں پر دباؤ ڈال کر عبوری دور کا خاتمہ کرکے دوبارہ انتخابات کرنا، اس صورت میں سابق صدر یوسفو دوبارہ صدارتی امیدوار ہوں گے۔  انقلابی بھی ان کے لوگ اور ان کے قبیلے کے ہیں۔  یوں وہ اپنے کنٹرول کو برقرار رکھے گا،  اپنے خاندان کو بچائے گا، ان کے چوری اور کرپشن پر پردہ ڈالے گا۔  خاص طور پر وہ امریکی ایجنٹ ہیں ان کی اپنی پارٹی اور قبیلے میں بڑا اثرورسوخ ہے، ملک کی آدھی آبادی کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔

 

4 ۔ یوں اس جیسی اسلامی سرزمین جو وسائل سے مالامال ہے مگر  ان استعماری ایجنٹوں کی وجہ سے غریب ترین ملک ہے، یہ کبھی ایک استعمار کی خدمت کرتے ہیں کبھی دوسرے کی جس کے بدلے کرسی اور مال حاصل کرتے ہیں۔  اپنے ملک کے مفاد اس کی آزادی اور ترقی کا نہیں سوچتے۔  اگر چہ یہ مسلمانوں کی نسل سے ہیں مگر ان کو اسلام کی بھی کوئی فکر نہیں۔ لوگ بھی  فکری پسماندگی،  جاہلیت اور تعصب کی طوفان کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے ان ظالموں کی پیروی کرتےہیں۔ ۔اسی لیے وہ امن اور سلامتی کو ترستے ہیں، صرف اسلام کی حکمرانی اور خلافت راشدہ کے قیام سے ہی اسلام اور مسلمانوں کی عزت بحال ہوگی، یہی ان کی طاقت اور ترقی کا ضامن ہے۔۔خاص طور نائجر ایک مسلم ملک ہے جس کے باشندے مسلمان ہیں۔۔

 

یہی بات حق ہے 

 

﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ﴾

"اور حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے تم کدھر بھٹکے جا رہے ہو۔"(یونس، 10:32)

 

28 محرم 1445ہجری

بمطابق 15اگست 2023

Last modified onپیر, 28 اگست 2023 04:27

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک