الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے

18 ستمبر 2021

 

بائیڈن، برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ نیاAUKUS  اتحاد بنا رہا ہے

بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن اور آسٹریلوی وزیرِ اعظم سکاٹ موریسن نےایک مشترکہ virtual سیشن میں مشترکہ طور پرتینوں ممالک کے درمیان ایک نئے اتحاد کا اعلان کیاجس کا نام AUKUS رکھا گیا ہےجس کا پہلا پرا جیکٹ آسٹریلیاکو نیوکلئیر آبدوزکی فراہمی طے پا یا ہےمگر مشترکہ اعلامیہ کے مطابق یہ (اتحاد)"سکیورٹی او ر دفاع سے منسلک سائنس، ٹیکنالوجی، صنعتی مراکز اور سپلائی چینز (supply chains) کو مزید مربوط کرے گا" اور خصوصاً"بہت سی سکیورٹی اور دفاعی صلاحیتوں میں تعاون میں خاطر خواہ اضافہ کرے گا"۔ یہ سب اس عزم کے اعادے کے لیے ہے کہ، "Indo-pacific خطے میں سفارتی، سکیورٹی اور دفاع میں تعاون کو مزید گہرا کیا جا سکے"۔ اگرچہ اس کا ذکر نہیں کیا گیا مگر یہ واضح ہے کہ یہ اتحاد چین کے خلاف قائم کیا گیا ہے۔ اس اعلامیے کے حوالے سے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا، " امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان نیوکلئیر آبدوزمیں تعاون نے خطے کے امن و استحکام کو شدید دھچکا پہنچایا ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ کو مزید تیز کر دیا ہے اور اس سےبین الاقوامی عدم پھیلاؤ کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے"۔

 

فرانس نے بھی اس اعلان پر شدید منفی ردِعمل کا اظہار کیا ہے، فرانس کے وزیرِ خارجہJean-Yves Le Drian نے کہا ہے، "ایسا ظالمانہ، یکطرفہ اور ناقابلِ توقع فیصلے سے مجھےوہ سب کچھ یاد آ رہا ہے جو جناب ٹرمپ کیا کرتے تھے۔ میں غصے میں اور تلخ ہوں۔ ایسا حلیفوں کے درمیان نہیں ہوتا۔ یہ واقعی کمر میں چُھرا مارنےکے مترادف ہے"۔آسٹریلیا کے جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوز بنانے کے فیصلےسے 2016 میں فرانس کے ساتھ طے پانے والا 40 بلین ڈالر کا معاہدہ منسوخ ہو گیا ہےجسے فرانس نے اُس وقت اِس صدی کی ڈیل قرار دیا تھا۔ فرانس کوپیشگی اطلاع تک نہیں دی گئی اور اس کو یہ خبر آسٹریلوی میڈیا پر گردش کرنے والی افواہوں کے ذریعے ملی کہ اس کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ براہ راست ٹی وی نشریات میں پھاڑا جا رہا ہے۔ بہرحال معاہدے کی منسوخی سے زیادہ فرانس کو نئے اتحادکے بارے میں بات چیت سے باہر رکھے جانے پر غصہ ہے۔ فرانس کی 2016 کی ڈیل کوIndo-pacific خطے میں ایک وسیع البنیاد آسٹریلوی –فرانسیسی اتحادکی علامت کے طور پر سمجھا جا رہا تھاجس کو اسلحے، انٹیلی جنس اور روابط تک پھیلایا جانا تھا۔بعد ازاں، تاریخ میں پہلی مرتبہ فرانس نے امریکہ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ۔فرانس نے برطانیہ سے اپنے سفیر کو واپس نہیں بلایا مگرReuters کے مطابق ایک فرانسیسی سفارتی ذرائع نے غصے سے کہا، "برطانیہ نےموقع پرستی سے اس آپریشن میں حصہ لیا ہے۔ہمیں ضرورت نہیں کہ پیرس میں ان کے سفیر سےپوچھیں کہ اس کے بارے میں کیا سوچناہے اور کیا نتائج اخذ کرنے ہیں"۔

 

یہ اتحاد برطانیہ کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ برطانیہ کے ڈیفنس سیکریٹریBen Wallace کے مطابق، یہ آسٹریلیا تھاجس نے ایک سال کی خفیہ   study کے بعد فرانس کے ساتھ ڈیل ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور مارچ میں برطانیہ سے آبدوز کے معاہدے کے بارے میں بات کی۔ ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی خارجہ پالیسی کی سمت میں  ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ مارچ میں، بورس جانسن نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ "برطانیہ Indo-pacific میں مزیدانہماک (توجہ)سےحصہ لے گا"۔مزید برآں، امریکہ Quad معاہدے کی حمایت کرتا چلا آیا ہے جس میں جاپان، بھارت اور آسٹریلیا امریکہ کے ساتھ ہیں۔ یہ تنظیم برطانیہ کی بھارت اور آسٹریلیا کے لیے برطانیہ کی حکمتِ عملی کے خلاف ہےاوریہ صرف دونوں ممالک میں امریکہ نواز حکومتوں کی آمد کے بعد ہی ممکن ہو سکا تھا۔

 

اور بائیڈن انتظامیہ کے لیے، AUKUS کا اعلان اور رواں مہینے کے آخر میں Quad کی میٹنگ ایسی پیشکش کی علامات ہیں جو کہ فی الوقت اس کی اسٹریٹیجک ترجیحات کے عین مطابق ہیں جو کہ امریکہ کو ابھرتے ہو ئے چین سے مکمل محفوظ بنانا ہیں جو بحر الکاہل میں اپنی طاقت کومستحکم کررہا ہے جسے امریکہ اپنی ذاتی بحری حدود میں گردانتا ہے۔یہی وہ بڑی ترجیح تھی جس نے بائیڈن کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیااور اسی کی وجہ سے وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مصروفیات کو محدود کر رہا ہے۔

مسلم امت میں آگاہی رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے آپس کےتناؤ اور تنازعات کا غور سے مشاہدہ کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ یہ تنازعات وہ سیاسی خلاء مہیا کرتے ہیں جو عالمی منظرنامے پر ان کی ریاست کی واپسی کے لیے درکار ہے۔ اللہ کے اذن سےنبوتﷺ کے نقشِ قدم پر دوبارہ قائم ہونے والی خلافت راشدہ اپنی ابتداء ہی سےاپنی کثیر آبادی، ذخائر، محلِ وقوع اور اسلامی آئیڈیالوجی کی بدولت بڑی طاقتوں کے برابر آ جائے گی۔اسلامی ریاستِ خلافت ایک ہزار سال تک عالمی سپر طاقت رہی ہے جو پوری دنیا میں امن، سکون او رخوشحالی لے کر آئی تھی اور جنگی تنازعات عموماً محدود اور قابو میں رہتے تھے۔اگر اسے روکا نہ گیا تو دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان گہری عداوت اور مقابلہ بازی اور تنازعات اور مخاصمات پر بے دریغ تیل چھڑکناپوری انسانیت کے لیے مزید دکھ کا ہی باعث بن سکتا ہے۔

 

مغرب افغانستان کو اقتصادی طور پر کچلنا چاہتا ہے

طالبان کو فوجی طاقت کے ذریعےقابو کرنے میں ناکامی کے بعد، مغرب ا ب اقتصادی دباؤ کو بڑھا رہا ہے۔ امریکی بغل بچہ کابل حکومت پہلے ہی بدترین بد انتظامی اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے دیوالیہ ہو چکی تھی جبکہ اس کے نا اہل سربراہ صدر اشرف غنی کتابی انداز میں منصوبوں پر منصوبوں کے خیالی پلاؤ پکاتے رہتے تھےمگر ان کے حقیقی نفاذ کی صلاحیت ان کے پاس نہیں تھی۔امریکیوں نے افغانستان میں اپنی جنگ پر 2 ٹریلین ڈالر سے زائد رقم خرچ کی مگر اس کا بڑا حصہ امریکی حکومت کی جانب سے امریکی پرائیوٹ سیکٹر کو ادائیگیوں پر مشتمل تھاجو کہ درحقیقت امریکہ کی اپنی سرحدوں کے اندر رقوم کی منتقلی تھی۔اور جو رقم اصل میں افغانستان پہنچتی تھی، اس کا بھی ایک بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا تھا اورحکومت چلانے کے لیےشایدہی کچھ بچتا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ امریکی فیڈرل ریزرونے افغانستان کے بیرونی زرِ مبادلہ کا بچا کھچا حصہ، جو اس کے پاس اس وقت موجود ہے،منجمد کر دیا ہے جو کہ 7 بلین ڈالر ہے جبکہ IMF نےافغانستان کے لیے IMF کے فنڈز تک رسائی بھی روک دی ہے۔ بین الاقوامی امداد ،جیسا کہ جرمنی اور عالمی بینک بھی جو پیسہ دے رہے تھے، روک دی گئی ہے۔ اس دوران، روایتی انداز میں مغرب اپنے آپ کو  انسان دوست اور مددگار کے طور پر ظاہر کر رہا ہےجیسا کہ اس ہفتے اقوامِ متحدہ کی اپیل پر 1 بلین ڈالر کے بین الاقوامی امداد کے وعدے کیے گئے ہیں جس کی ادائیگی مغرب احتیاط کے ساتھ کنٹرول کر سکتا ہے، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ افغانستان کی حکومت کواپنے وسائل استعمال کرنے کی اجازت دے۔افغانستان کے مسائل کا حقیقی حل نام نہاد بین الاقوامی برادری، جس پر مغرب کا غلبہ ہے،نہیں ہےبلکہ مسلم ممالک کے حکمران ہیں جو کہ وسیع دولت اور وسائل رکھتے ہیں مگر ان کو صرف ایسے ہی خرچ کرتے ہیں جیسے مغرب اجازت دے۔اللہ کے اذن سے، مسلم امت جلد اس ایجنٹ حکمران طبقے کو اکھاڑ پھینکے گی اور ان کی جگہ خلافت قائم کر دے گی جو کہ مسلم سرزمینوں کو یکجا کرے گی ، تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی، اسلامی شریعت کا نفاذ کرے گی اور اسلامی طرزِ زندگی کا ازسر نو آغاز کرے گی اور اسلام کے نور کو پوری دنیا میں پھیلائے گی۔

 

Last modified onبدھ, 06 اکتوبر 2021 22:49

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک