الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام کی حکمرانی کے لیے حکومت ہاتھ میں لینے کا شرعی طریقہ نصرۃ ہے،

اور یہ اہل قوت کی ذمہ داری اور اجرعظیم  کا باعث ہے

بلال المہاجر، پاکستان

 

بحیثیت مسلمان ہم جب بھی نصرۃ کا لفظ سنتے ہیں ، ہمارے ذہنوں میں رسول اکرم ﷺ کا کردار ایک مثال بن کر اُبھرآتا ہے۔ آنحضرت ﷺ عرب کے قبائل سے حمایت وحفاظت اور نصرت کا مطالبہ کرتے ہوئے  اپنے آپ کو ان قبائل پر پیش کرتے تھے۔  آپ ﷺ کی سیرت میں اس کا تذکرہ موجود  ہے۔ لہٰذا یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ نصرۃ کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ یعنی نصرۃ کیا  ہے؟ کون اس کو طلب کرتا ہے ؟ یہ کس سے طلب کی جاتی ہے ؟ اس کا مقصد کیا ہوتاہے؟

 

لُغت میں نصرۃ تعاون ، مساعدت ، تائید وحمایت کو کہتے ہیں ،مثلاً ستم رسیدہ لوگوں کی نصرت ۔  یہ صرف اہلِ طاقت وقوت سے طلب کی جاتی ہے جو صاحب دعوت کے ساتھ تعاون  اور اس کی تائید وحمایت کی قدرت رکھتے ہوں۔  بسا اوقات  اہلِ نصرۃ کی طرف سے  اعلان ہونے اور ان سے نصرۃ  کا مطالبہ کرنے والے صاحب دعوت کی طرف داری کرنے سے ہی نصرت  ہوجاتی ہے، جیسے کسی مظلوم کی داد رسی کیے جا نے پر اس کی نصرت ومدد کا کام پورا  ہوجاتا ہے ۔ مگر جب اسلامی فکر کو پھیلانے کے لیے باہمی تعاون  اور اس کے پھیلاؤ کے لیےمعاون اور  مناسب ماحول  پیدا کرکے اس کی حمایت کرنے کے لیے نصرۃ طلب کی جائے،لہٰذا یہ نصرۃ اس وقت وجود میں آتی ہے جب کہ جیسے ہی اہل قوت و طاقت اس فکر اور اسکے طریقے (دعوت پھیلانے کی دعوت) پر ایمان لے آئیں  اورایسی  حالت میں اہل قوت وطاقت سےنصرۃ کے مطالبے کا حکم  اس وقت تک بدستورباقی رہتا ہے جب تک دعوت اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائے  اور  اپنی  حفاظت خود آپ کرنے کے قابل ہوجائے ۔   اگر چہ   اس دعوت میں پیش کیے جانے والے فکر اور طریقے پر ایمان لانے سے ہی نصرت بہر حال ثابت ہوہی جاتی ہے۔  بلکہ ایسی  حالت میں اہل نصرت خود اس فکر میں ڈھل جاتے ہیں اور وہ مکمل طور پر اس دعوت کا جز  بن جاتے ہیں ، جیسا کہ اوس وخزرج کے قبیلوں کے  ساتھ پیش آیا، جنہیں  سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی دعوت  کے لیے اہل نصرۃ  بننے کا شرف حاصل ہوا۔ شروع میں انہیں انصار کہا گیا اور جو صحابہ کرام آپ ﷺ کے ساتھ مدینہ ہجرت کر آئے تھے وہ مہاجرین کہلائے، تا آنکہ یہ دعوت مضبوط ہوتی گئی اور ایک توانا و طاقتور دعوت کی شکل اختیار کرگئی جس کا نام اسلام اور جس کی ریاست خلافت کہلائی۔  اب نصرت وہجرت کے ناموں کو استعمال کرنے کی ضرورت صرف تاریخی اور دستاویزی پہلوؤں تک محدود ہوگئی ، اس کے بعد  نہ انصار ر ہے  نہ مہاجرین ، بلکہ اسلامی فکر کے قالَب  میں ڈھلے ہوئے مسلمان ہی رہے ،جیسا کہ ان مسلمانوں کے علاوہ  عرب وعجم کے دیگر قبائل اس فکر میں ڈھل گئے۔

 

دعوت کے کام میں ہمارے پیارے رسول ﷺ کی سیرت کا مطالع  کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺتین مراحل میں اپنی دعوت لے کر چلے ، یہاں تک کہ اللہ کے اذن سے آپ ﷺ کے لیے "ما انزل اللہ" کے مطابق حکومت کرنے کا فریضہ ادا کرنا ممکن ہوا۔  چونکہ ہمارا  ایمان ہے کہ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرنا مسلمانوں پر فرض ہے ،لہٰذا اس فریضے کی بجاآوری کا طریقہ بھی مکمل طور پر  رسول ﷺ کے طریقے سے اخذ کر نا ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر فرض عمل میں ہم ایسا ہی کرتے ہیں ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہم پر جہاد کرنا اور حدود قائم کرنا فرض کردیا ہے،جہاد کیسے کریں یا حدود کیسے قائم کریں ، یہ  رسول کریم ﷺ نے ہمیں سکھایا ،اس حوالے سے آیات و احادیث بہت زیادہ ہیں ۔ سو کسی عمل کو تو اللہ تعالیٰ فرض کر دیتے ہیں جبکہ اس کو ادا کرنے کا طریقہ رسول اللہ ﷺ بیان کرتے ہیں ۔ اس لیے کسی بھی شخص کے لیے خواہ وہ  کوئی بھی ہو، کسی فرض کی ادائیگی کے لیے کوئی ایسا طریقہ گھڑ لینا جائز نہیں، جو رسول کریم ﷺ کے متعین کردہ طریقے سے ہٹ کر ہو۔  فی زمانہ جب کہ "ما انزل اللہ "کے مطابق  کہیں بھی  کوئی ریاستی نظام موجود نہیں ، ہم "ما انزل اللہ" کے مطابق حکومت کرنے کا فریضہ کیسے انجام دیں ؟ رسول اکرم ﷺ کی سیرت کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺنے اپنی دعوت کو حکومت کی دہلیز تک لیجانے میں تین مرحلوں کو طے کیا :

 

پہلا:     تثقیف کا مرحلہ ، جو ان لوگوں کے لیے تھا جو آپ ﷺ کی دعوت پر ایمان لے آتے۔ آپ ﷺ اپنے  آس پاس کے لوگوں تک فرداً فرداً  دعوت پہنچانے لگے،تا آنکہ کچھ مرد اور خواتین آپ ﷺ کی رسالت  اور دعوت پر ایمان لانے لگے۔ آپ ﷺ نے ان کو تعلیم دیناشروع کیا اور پروردگار کی طرف سے اترنے والی  وحی  کے ذریعے ان کی تربیت کرتے تھے،اس کام کے لیے دارِ ارقم کو استعمال کرتے تھے اور ان کو یہ جدید دین سکھانے لگے۔ یہ سب کچھ اللہ کے امر اور حکم کے مطابق انجام دے رہے تھے۔

 

دوسرا : آپ ﷺ کے گرد و پیش میں موجود مکی معاشرے کے ساتھ تفاعل(باہمی تال میل)  کا  مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب آپﷺ کے پاس اس دعوت کو ماننے والا ایک مومن گروہ وجود میں آیا ، اس گروہ نے مکے میں علی الاعلان دعوت کے کام کا اظہار کیا ،کیونکہ یہی اللہ کا حکم تھا ﴿ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ﴾" سو آپ کو جس چیز کاحکم دیا جاتا ہے اسے کھل کر بیان کردیں اور مشرکین کی پرواہ نہ کریں" ۔ چنانچہ مکہ میں صحابہ کرام کی دو صفیں نعرہ تکبیر اور لا الہٰ الا اللہ کے  زمزموں سے سرشار ہو کر نکلیں ، یہ اس گروہ کے وجود میں آنے کا اعلان تھا جو اسلام کی دعوت لے کر اٹھی تھی۔  اس کے ساتھ ہی تفاعل اور مکی سماج کے ساتھ ٹکراؤ  کا آغاز ہوا، جب کہ تثقیف و تربیت کا سلسلہ بھی بدستور جاری تھا۔  اسی مرحلے کے آخر میں طلب نصرۃ بھی شروع ہوئی، یہ بھی اللہ ہی کے امر سے اس وقت ہوا جب دعوت کے  سامنے مکی معاشرے کا احساس پتھر کی طرح منجمد ہو کر رہ گیا ۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ حج کے تہواروں میں عرب قبائل پر اپنے آپ کو پیش کرنے لگے ، اس پیش کش میں آپ ﷺ ان سے  نصرت و حمایت کا مطالبہ کرتے تھے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بات پہنچاسکے ۔

 

تیسرا : حکومت ہاتھ میں لینا اور ریاست کا قیام؛ یہ اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم ﷺ پر  یہ احسان کیا گیا کہ انصار نے رسول اللہ ﷺاور آپ ﷺ کے دین کی نصرت  کے لیے لبیک کہا ، پھر انہوں نے آنحضرت ﷺ کو بیعت دی ، اس کو بیعت عقبہ ثانیہ کہتے ہیں،اس کے بعد ہی آپ ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور ریاست کو قائم کیا۔

 

ہماری  بحث اس نصرت سے متعلق ہے جس کے بعد ہجرت  واقع ہوئی تھی ، چنانچہ ہمارے لیے سیرت مصطفیٰ ﷺ کی طرف مراجعت کرنا ضروری ہے تاکہ ہمارے اس دعوے کی تحقیق کی جائے کہ جو ہم کہتے ہیں وہ آپ ﷺ کے عمل کے مطابق ہے ، کیونکہ آپ ﷺ کی ذات ہی ہمارے لیے اسوہ ، نمونہ اور مثال اور آپ ﷺاللہ کے رسول ہیں۔  دس سنہ نبوی ،یعنی ہجرت سے تین سال قبل اور آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کی وفات کے بعد جس نے  کسی حد تک آپ ﷺ کی مدد وحمایت کا سامان کر رکھا تھا  اور جس کی بدولت آپ ﷺ  بخیر وعافیت دعوت کا کام سر انجام دے رہے تھے،  جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ مکے کا معاشرہ بالکل منجمد ہو کراحساس سے عاری  ہوچکا ہے اور اس معاشرے پر نہ تو اسلام کا کچھ اثر ہوا ہے  نہ ہی اس میں اسلام اور اسلامی افکار کے حق میں رائے عامہ پیدا ہوئی ہے  تو آپ ﷺ کو اللہ کی طرف سے طلب نصرۃ کا حکم آگیا۔ سیرۃ ابن ہشام باب " رسول اللہ ﷺ کا بنی ثقیف کے پاس نصرت طلب کے لیے جانا" کے ذیل میں آیا ہے" ابن اسحاقؒ کہتا ہے : اور جب ابو طالب کی وفات ہوگئی  تو قریش نے رسول اللہ ﷺ کو وہ اذیتیں دینی شروع کیں جو آپﷺ کے چچا ابو طالب کی حیات میں نہیں دے سکتے تھے۔ آپ ﷺ ثقیف والوں سے نصرت  طلب کرنے طائف تشریف لے گئے اور ان سے اپنی قوم کے مقابلے میں تحفظ کے لیے  تعاون طلب کیا۔  ساتھ یہ امید بھی تھی کہ شاید وہ اللہ عز و جل کی طرف سے آنے والے  پیغام کو قبول کر لیں ، آپ ﷺ اکیلے ان کے پاس روانہ ہوئے"۔ ابن حجر ؒ نے فتح الباری شرح صحیح البخاری   میں  ذکر کیا ہے ،تحفہ احوذی اور الکلا م لابن حجر میں بھی اسی طرح ہے : حاکم ، ابو نعیم اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حسن سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ : "مجھے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بتایا : جب اللہ نے اپنے نبیﷺ کو قبائل عرب پر اپنے آپ کو پیش کرنے کا حکم دیا ، تو آپ ﷺمیرے اور ابو بکر کےساتھ ہو کر منیٰ کی طرف  روانہ ہوئے ، ہم بالآخر وہاں  عرب کی ایک مجلس میں پہنچ گئے"۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ  نصرت طلب کرنے کا حکم اور اس کے لیے وقت کی تعیین اللہ عز وجل کی طرف سے آیا جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی درج بالا گفتگو سے واضح ہے اور چونکہ طلب نصرت کی اہمیت اتنی بڑی ہے  کیونکہ یہی وہ عظیم ترین شرعی  حکم ہے جس پر آج بھی اسلامی ریاست کےمفقود ہونے کے بعد دوبارہ قائم ہونے کا دارو مدار ہے۔  آج بھی اسی کے ذریعے اللہ کا جھنڈا بلند ہوکر لہرائےگا  اور کفر کے تہہ بہ تہہ اندھیروں کو نیست ونابود کردے گا جو "ما انزل اللہ "کے علاوہ سے حکومت کرنے ، سرمایہ داریت کے تسلط اور اس پر مرتب ہونے والے المیوں  اور بڑے بڑے دل دوز مصائب کی شکل میں چھائے ہوئے ہیں۔  اور چونکہ اس کی ذمہ داری اس مخصوص گروہ پر ہے جو  تبدیلی  لانے اور دعوت کو نصرت  دینے کی قوت وطاقت اور اہلیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر ان لوگوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے جن کی  لبیک پر تبدیلی کا دارو مدار ہے ، اگر وہ طلب نصرت پر لبیک کہہ دیتے ہیں اور وہ اس عظیم ذمہ داری کو ادا کردیتے ہیں تو  ان کا اجر بھی بے پایاں ہوگا ، ان کا بدلہ جنت ہوگا  جس سے بڑھ کر کوئی اجر ہو نہیں سکتا۔

 

بلا شبہ اسلام کی نصرت صرف جان ومال کی قربانی ، جذبات کے اظہار ، رونے پیٹنے یا یہودیوں امریکیوں اور ہندوؤں وغیرہ کو گالیاں چکانے سے نہیں ہوگی بلکہ اسلام کی نصرت ان جیوش( لشکروں ) کے حرکت میں آنے سے ہوگی جنہیں عیش وعشرت اور کاہلی کےماحول کا عادی بنایا گیا ہے ، البتہ لشکروں کی حرکت وجنبش میں اس کی ضرورت ہے کہ یہ لشکر ایک ایسے اسلامی نظام  کے  لشکر ہوں جس کی داغ بیل مسلم سرزمینوں کی حفاظت کےلیے  ڈالی گئی ہو۔

 

ہماری طرف سے ہماری افواج میں  سے تمام معزز   کمانڈروں اور آفیسرز سے یہ ایک پر جوش پکار ہے :

ہم جانتے ہیں کہ آپ کے اندر مرد اور مردانگی موجود ہے ، آپ کے اندر ہیروز   موجود ہیں اور بہادری کے کارنامے انجام دینے والے موجود ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ آپ میں جوش ِ حمیت  وجوانمردی اور مروت موجود ہے۔ آپ ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے دنیا کو  چیمپئن بننا سکھایا، یعنی یہ کہ میدانِ جنگ میں چمپئن شپ  کیسے حاصل کر لی جاتی ہے؟۔ تاریخ  ان کے بارے میں عورتوں ، چھوٹے بچوں اور بزرگوں  وغیرہ  جیسے پر امن افراد کی حرمتوں کو پامال  کرنے کے تذکروں  سے خالی ہے۔ خالد بن الولید ، سعد ،عمرو بن العاص اور صلاح الدین کے بیٹو! ہم یہ بھی جانتے ہیں کےآپ مظلوم مسلمانوں کی مدد ونصرت کے لیے کافی ہیں بشرطیکہ آپ اللہ سبحانہ کے لیے اخلاص دکھائیں ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سچائی کامعاملہ کریں اور اپنے دین کی مدد کریں۔۔۔۔ اگر آپ نے اس کام  کو سرانجام دیا تو اس امت کو آپ سے زیادہ  بہتر اسلام اور اہل اسلام کی حفاظت  کرنے والا کوئی اور نہیں ملے گا۔۔۔ سو اے بہادرو ، اللہ کے دین کی نصرت کے  معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، دنیا وآخرت میں عظیم کامیابیاں حاصل ہوں گی۔  اللہ پر توکل کے بعد آپ ہی ہمارے اوس وخزرج ہو، آپ ہی ہماری امیدوں کا محور  اور اسلحہ ہو۔۔۔ آپ اسی طرح دین کی نصرت کا کارنامہ انجام دیں ، جیسے اللہ کےدین اور اللہ کے رسول ﷺ کی مدد کرکے  انصار نے انجام دیا تھا، ان لوگوں کے لیے جنت الماویٰ کے دروازے کھل گئے ، اس سے پہلے کہ ان کے ہاتھوں اللہ کی زمین فتح کی جاتی ۔  اللہ آپ پر رحم فرمائے ،نصرت دےدیں  اور ان مٹھی بھر لوگوں کا راستہ روکیں جنہوں نے ہمیں رسوائی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا۔۔۔۔ نصرت دےدیں ، اس لیے کہ امت کی اکثریت کوان احمقوں کی وجہ سے زخم پہنچے ہیں اور آپ کی امت کے جسم سے خون  رس رہا ہے۔۔۔ نصرت دے دیں ، اللہ کے لیے نصرت دے دیں ، انشاء اللہ آپ کو اوس وخزرج کا اجر دیا جائےگا ، جو رسول اللہ ﷺ کے انصار تھے ، اور اس بڑھ کر اللہ کی جنتیں اور اس کی رضا ملے گی۔  ایک دفعہ عزم کر لیا  تو بس صرف اللہ پر توکل کریں، وہی بہترین کارساز اور بہترین مددگار ہے۔

 

                   حزب التحریر،  جس نے ایک  نظام حیات کی حیثیت سے آپ کو اسلام کی طرف لوٹنے  کی  دعوت دی اور اس دعوت میں  محمد مصطفیٰ ﷺ کے نہج پر چلی، اس نے رسول اللہ ﷺ سے اخذ کردہ اپنے طریقے کو واضح کیا ، تاکہ آپ کو  اس کی آگاہی ہو اور اسی کو اپنا کر اس طریقے کی مدد کریں۔ یہ حزب صرف اللہ وحدہ سے اس بات کی امید رکھتی ہے کہ وہ اپنی طرف سے ہم پر نصرت کے ساتھ احسان کرےگا اور آپ پر بھی احسان کرے گا ۔ یہ احسان اس طرح ہوگا کہ وہ آپ کو ہمارا تابع بنائے گا  اور آپ ہی اس دین اور اس کی دعوت کی حمایت وحفاظت اور نصرت کرنے والے ہوں گے، وہی تنہا اس کی قدرت رکھتا ہے۔ ہمارا اس پر مضبوط ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد ز جلد اپنے دین کی نصرت  کرے گا ، کیونکہ اسلامی خلافت کی صبح کی خوشبو سے ہمارے اُفق مہکتے  محسوس ہوتے ہیں، اس لیے  اے  سرحدوں پر مقیم  افواج !  ہم آپ کودعوت دیتے ہیں کہ اللہ کے دین اور اس کی دعوت کی نصرت کا یہ موقع ضائع نہ کرنا ، اللہ اکبر اور حی علی الفلاح کا نعرہ لگاتے ہوئے  اٹھ کھڑے ہوں ۔

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿إنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾

" اگر اللہ تمہاری  مدد کرے تو  کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر  وہ تمہیں تنہا چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے، اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ   اللہ  ہی پر بھروسہ رکھیں"(آل عمران:160)۔ 

                                           

Last modified onمنگل, 20 ستمبر 2016 01:52

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک